aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "تقطیع"
بزم میں اہل سخن تقطیع فرماتے رہےاور ہم نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا
آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آبیٹھے، دانت بھینچ لئے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آيا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ، سبز، زرد سبھی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کون سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگادیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیحدہ رکھ دیا۔ چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کردیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا۔ پھر ۱۵؍اپریل تک کے دن گنے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کہ صبح تین بجے ہی کیوں نہ اُٹھ بیٹھے لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا۔ تو فوراً اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اُٹھنا تو لغوبات ہےالبتہ پانچ، چھ، سات بجے کے قریب اُٹھنا معقول ہوگا۔ صحت بھی قائم رہے گی اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہوگی۔ ہم خرماو ہم ثواب۔
غالب، تفتہ تمہیں شعر کہتے اتنی مدت ہوگئی اور اب تک تقطیع کرنا بھی نہ آیا۔ میاں غور کرو، بعد غور کے اس ناموزونی کا خود اقرار کروگے۔ تفتہ، قبلہ ایک شعر اور ہے۔
مولوی صاحب نے کہا دیکھو، اپنے وعدے سے پھر نہ جانا! انہوں نے کہا، جی نہیں۔ مولوی صاحب نے کہا، اچھا تو میری صلاح یہ ہے کہ کل سے تم میرے ہاں نہ آنا۔ یہ سن کر وہ بچارے کچھ پژمردہ سے ہو گئے۔ مولوی صاحب نے کہا، بھئی رضا! میں یہ نہیں کہتا کہ میرے ہاں آنا ہی چھوڑ دو، میں تم کو بھی ضرور پڑھاؤں گا، مگر تم دس پندرہ روز شام کے وقت کالی جان کے ہاں تعلیم میں ...
تیسری خصوصیت کا تو آسانی سے قصہ پاک کیا جا سکتا ہے۔ کوئی مصرع جس کی تقطیع بالکل نہ ہو سکے، وہ کیسا مصرع ہوگا، میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔۔ کسی نہ کسی سادہ آسان سی بحرکا بھوت ’’آزاد ترین‘‘ نظم کے بھی پردوں کے پیچھے چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔۔۔ جہاں تک آزاد نظم کا معاملہ ہے، ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ۔۔۔ روایتی اور آزاد نظم کے درمیان کوئی ...
اپنی غزل یا شعر کی بحر جانچیں
तक़्तीअ'تقطیع
diacritical marks on text
टुकड़े-टुकड़े करना, पुस्तक की लम्बाई-चौड़ाई, पद्य के किसी चरण के अक्षरों को गणों की मात्राओं के मुकाबले में रखकर यह देखना कि अमुक पद शुद्ध है या नहीं, किसी वस्तु को टुकड़ों में बाँटना।।
عروض
سید کلیم اللہ حسینی
علم عروض / عروض
عروض تقطیع تال
رمضان شکور
تشریح عملی
حکیم نذیرالدین احمد
وہابیہ کی تقیہ بازی
مولوی محمد مصطفیٰ رضا خاں
رد تقیہ
نامعلوم مصنف
اسلامیات
قول فیصل
رضا علی عابدی
تقیہ
سید علی نقی
ایسے نہیں مانوں گا میں ہستی کا توازنتقطیع کیا جائے یہ مصرعہ مرے آگے
اس پر طرہ یہ کہ باے قسم کو بھی فارسی حرف بنا دیا۔ خدا معلوم’’باللہ‘‘ اور’’برب کعبہ‘‘ کی’’ب‘‘ فارسی کب سے ہو گئی! اگر لکھنے ہی کا شوق تھا تو لکھ دیتے کہ بہت سے الفاظ میں فارسی ’’با‘‘ یا’’بہ‘‘ کی جگہ محض ’’ب‘‘ اردو فارسی میں آئی ہے ؛ اور بہت سے الفاظ فارسی میں غیرٹکسالی ہیں، لیکن اردو میں ’’با‘‘ یا’’بہ‘‘ یا’’بر‘‘ کو مخفف کرکے محض ’’ب‘‘ کے ساتھ بنا ...
دل کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا شام گیااور کہا آپ بموجب اپنی کتابوں کے کہیں گے کہ خیال کی ’ی‘ کو ظاہر کرو اور پھر یہ کہیں گے کہ ’ی‘ تقطیع میں گرتی ہے۔ مگریہاں اس کے سوا جواب نہیں کہ محاورہ یہی ہے۔‘‘
بہرحال، میر کو دل کے اجڑنے کا رنج نہیں، معشوق کے شرمندہ ہونے کا خوف ہے اور فراق صاحب کو اپنے اجڑنے کا غم ہے۔ پھر فراق صاحب کی لفظی لغزشیں دیکھیے۔ محل’’سنو ہو‘‘ کاتھا، لیکن قافیہ حارج تھا، اس لیے ’’دیکھو‘ کا نامناسب لفظ رکھ دیا جس میں دھمکی کا پہلو مزید بے لطفی پیدا کر رہا ہے۔ مصرع اولیٰ میں ’’مرجانے‘‘ یا ’’مرنے‘‘ کا محل تھا، لیکن میر کی زبان سے ناو...
اس وقت بالکل یاد نہیں کہ مسعود حسن رضوی ادیب کا نام پہلی بار کب سنا تھا۔ یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ حالی اور محمد حسین آزاد کی طرح مسعود حسن رضوی ادیب کا نام بھی میرے ذہن میں اس وقت سے محفوظ ہے جب میں نے اپنے گھر اور اسکول میں اردو ادب کے چرچے سنے اور جس طرح میرے لیے حالی کی پہچان ’’مقدمہ‘‘ اور آزاد کی علامت ’’آب حیات‘‘ تھی، اسی طرح مسعود حسن رضوی ...
ہمزہ کے سلسلے میں یہ مناسب ہے کہ جس لفظ میں دو مصوتے (حرف علت یا حرکات) ساتھ ساتھ آئیں اور اپنی اپنی پوری آوازیں تو ہمزہ لکھا جائے۔ مثلاً کوئی، لکھنؤ۔ اگر عربی کے الفاظ کے آخر میں اصلاً ہمزہ ہے مگر اردو میں الف سے بولے جاتے ہیں تو ان کے آخر میں ہمزہ کیوں ہو۔ طلباء، شعراء، علماء کو طلبا، شعرا، علما لکھا بھی جانے لگا ہے۔ مگر املانامہ میں یہ جو کہ...
شمس الرحمن فاروقی ہمارے عہد کے سب سے ممتاز ناقد ہیں۔ ان کی تنقید اصطلاحوں کی اسیر نہیں وہ مشرقی اصول نقد اورشعریات سے بھی عالمانہ واقفیت رکھتے ہیں اور مغربی ادب، خصوصاً مغرب کے جدید ترین رجحانات سے بھی باخبر رہتے ہیں۔ ان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہمارے کلاسیکی سرمائے کے صحت مند حصے کے بھی قدردان ہیں اور جدید ادب کی تفہیم اور ہمت افزائی میں بھی انہو...
حرف ساکت بن گیا تقطیع سے خارج ہوااس غزل کی بزم سے مجھ کو نہاں ہونا ہی تھا
اس میں شک نہیں کہ اردو داستان پر فاروقی نے ان تین جلدوں میں بہت مفصل لکھا ہے۔ اور میں ان کاتعارف کراچکا ہوں اور یہ بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر چوتھی جلد آگئی تو یقین ہے کہ وہ تنقیدی قدروقیمت کے تعین کے لحاظ سے سب سے زیادہ وقیع ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان جلدوں کے زیادہ تر مباحث معلومات کی فراہمی یعنی تحقیقی لحاظ سے قدروقیمت رکھتے ہیں، تنقیدی لحاظ سے نہ...
(5) اصلاح زبان اردو۔ کہتے ہیں لکھنؤ میں ایک انجمن اصلاح سخن تھی وہ ایک رسالہ گلچیں نکالا کرتی تھی۔ اس کے ممبروں نے زبان کے کچھ قواعد مرتب کئے تھے۔ غالباً انہیں قواعد کی بنا پر یہ رسالہ ترتیب دیا گیا۔ راقم اس انجمن، اس کے ممبروں اور رسالہ سے قطعاً ناواقف ہے۔ اگر یہ انجمن ایک دوسری انجمن، انجمن دائرہ کی نوعیت رکھتی تھی جس کا ذکر نومبر 1908ء کے معیار...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books