aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "سلا"
سلام ؔمچھلی شہری
1921 - 1973
شاعر
سیا سچدیو
born.1967
سلام سندیلوی
1919 - 2000
مصنف
سلام بن رزاق
1941 - 2024
سید نظیر حسن سخا دہلوی
died.1933
کلدیپ سلل
born.1938
سلمیٰ حجاب
born.1949
عین سلام
سلام نجمی
1934 - 2018
دیبا سلام
born.1981
سپہ دار خان بیگن
سہا مجددی
1892 - 1947
ڈان ڈی سلوا فطرت
1772 - 1845
جوزف ڈی سلوا
اسلم سلا زار
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیںسو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
تو میں کیا کہہ رہا تھا یعنی کیا کچھ سہہ رہا تھا میںاماں ہاں میز پر یا میز پر سے بہہ رہا تھا میں
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سواراحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
وہ جو تھا وہ کبھی ملا ہی نہیںسو گریباں کبھی سلا ہی نہیں
پوچھ نہ ان نگاہوں کی طرفہ کرشمہ سازیاںفتنے سلا کے رہ گئیں فتنے جگا کے رہ گئیں
ہجر محبّت کے سفر میں وہ مرحلہ ہے , جہاں درد ایک سمندر سا محسوس ہوتا ہے .. ایک شاعر اس درد کو اور زیادہ محسوس کرتا ہے اور درد جب حد سے گزر جاتا ہے تو وہ کسی تخلیق کو انجام دیتا ہے . یہاں پر دی ہوئی پانچ نظمیں اسی درد کا سایہ ہے
یہاں وہ غزلیں دی جا رہی ہیں جسمیں جسے اکثر ریڈیو پر سنا جاتا تھا
سدا بہار پکوان پر اردو کتابیں یہاں پڑھیں۔ اس صفحہ پر پکوان کی معیاری کتابیں دستیاب ہیں، جن کو ریختہ نے ای بک قارئین کے لیے منتخب کیا ہے۔
सिलाسلا
stitch, sew
सुलाسلا
make slept
250، سالہ انسان
آیۃ اللہ العظمٰی خمینی
اسلامیات
انیس کے سلام
میر انیس
سلام
اسلام کا معاشی نظریہ
مظہر الدین صدیقی
بیاض جاں
آغا سروش
نعت
سپنا سا لگے
خدیجہ خان
غزل
نئی دنیا کو سلام اور جمہور
علی سردار جعفری
نظم
روح غزل
مظفر حنفی
انتخاب
جرم و سزا کا اسلامی فلسفہ
ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن
عہد سزا
حبیب جالب
مجموعہ
کھویا ہوا سا کچھ
ندا فاضلی
سوا سیر گیہوں
پریم چند
افسانہ
جنسی امراض کا علاج
حکیم محمد حسن قرشی
اے ٹریسری آف اردو پوٹری
مآثر عالمگیری
محمد ساقی مستعد خاں
تاریخ
جرم و سزا
فیودور دستوئیفسکی
ناول
وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سےگلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آ جائے
اب اسے دار پہ لے جا کے سلا دے ساقییوں بہکنا نہیں اچھا ترے مستانے کا
وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کودلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحریجادوئے محمود کی تاثیر سے چشم اياز
جبرا نے اگلے پنجے اس کے گھٹنوں پر رکھ دیے اور اس کے منھ کے پاس اپنا منھ لے گیا۔ ہلکو کو اس کی گرم سانس لگی۔ چلم پی کر ہلکو، پھر لیٹا۔ اور یہ طے کر لیا کہ چاہے جو کچھ ہو اب کی سو جاؤں گا۔ لیکن ایک لمحہ میں اس کا کلیجہ کانپنے لگا۔ کبھی اس کروٹ لیٹا کبھی اس کروٹ۔ جاڑا کسی بھوت کی مانند اس کی چھاتی کو دبائے ہوئے تھا۔جب کسی طرح نہ رہا گیا تو اس نے جبرا کو دھیرے سے اٹھایا اور اس کے سر کو تھپ تھپا کر اسے اپنی گود میں سلا لیا۔ کتے کے جسم سےمعلوم نہیں کیسی بدبو آرہی تھی پر اسے اپنی گود سے چمٹاتے ہوئے ایسا سکھ معلوم ہوتا تھا جو ادھر مہینوں سے اسے نہ ملا تھا۔ جبرا شاید یہ خیال کر رہا تھا کہ بہشت یہی ہے اور ہلکو کی روح اتنی پاک تھی کہ اسے کتے سے بالکل نفرت نہ تھی۔ وہ اپنی غریبی سے پریشان تھا جس کی وجہ سے وہ اس حالت کو پہنچ گیا تھا۔ ایسی انوکھی دوستی نے اس کی روح کے سب دروازے کھول دیے تھے اس کا ایک ایک ذرہ حقیقی روشنی سے منور ہو گیا تھا ۔اسی اثنا میں جبرا نے کسی جانور کی آہٹ پائی اس کے مالک کی اس خاص روحانیت نے اس کے دل میں ایک جدید طاقت پیدا کردی تھی جو ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں کو بھی ناچیز سمجھ رہی تھی۔ وہ جھپٹ کر اٹھا اور چھپری سے باہر آکر بھونکنے لگا۔ ہلکو نے اسے کئی مرتبہ پچکار کر بلایا پر وہ اس کے پاس نہ آیا کھیت میں چاروں طرف دوڑ دوڑ کر بھونکتا رہا۔ ایک لمحہ کےلیے آ بھی جاتا تو فوراً ہی پھر دوڑتا، فرض کی ادائیگی نے اسے بے چین کر رکھا تھا۔
ہرروز رات کو اس کا پرانا یا نیا ملاقاتی اس سے کہا کرتا تھا، ’’سوگندھی میں تجھ سے پریم کرتا ہوں۔‘‘ اور سوگندھی یہ جان بوجھ کر بھی کہ وہ جھوٹ بولتا ہے بس موم ہو جاتی تھی اور ایسا محسوس کرتی تھی جیسے سچ مچ اس سے پریم کیا جارہا ہے۔۔۔پریم۔۔۔ کتنا سندر بول ہے! وہ چاہتی تھی، اس کو پگھلا کر اپنے سارے انگوں پر مل لے اس کی مالش کرے تاکہ یہ سارے کا سارا اس کے مساموں میں رچ جائےیا پھر وہ خود اس کے اندر چلی جائے۔ سمٹ سمٹا کر اس کے اندر داخل ہو جائے اور اوپر سے ڈھکنا بند کردے۔ کبھی کبھی جب پریم کیے جانے کا جذبہ اس کے اندر بہت شدت اختیار کرلیتا تو کئی بار اس کے جی میں آتا کہ اپنے پاس پڑے ہوئے آدمی کو گود ہی میں لے کر تھپتھپانا شروع کردے اور لوریاں دے کر اسے گود ہی میں سلا دے۔
چند گھڑیوں کے لیے ہوں کہ ہمیشہ کے لیےمری جاگی ہوئی راتوں کو سلا جائیں گے
جب ٹرنک کا ڈھکنا کھلا اور نئے لٹھے کی بو اس کی ناک تک پہنچی تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ نہا دھو کر اور یہ نئے کپڑے پہن کر وہ سیدھا شکیلہ بی بی کے پاس جائے اور اسے سلام کرے۔۔۔ اس کی لٹھے کی شلوار کس طرح کھڑ کھڑ کرے گی۔ ۔۔اور اس کی رومی ٹوپی۔۔۔‘‘ رومی ٹوپی کا خیال آتے ہی مومن کی نگاہوں کے سامنے اس کا پھندنا آگیا۔اور پھندنا فوراً ہی ان کالے کال...
اس وہم سے کہ نیند میں آئے نہ کچھ خللاحباب زیر خاک سلا کر چلے گئے
گنگناتے ہوئے آنچل کی ہوا دے مجھ کوانگلیاں پھیر کے بالوں میں سلا دے مجھ کو
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books