aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "شمال"
اختر شمار
1960 - 2022
شاعر
سیدہ نفیس بانو شمع
born.1957
نور شمع نور
مصنف
شمع ظفر مہدی
born.1943
شمع بھلیسی
born.1972
شمع اختر کاظمی
نسیم شمائل پوری
راہین شمع
شمع نیازی
ڈاکٹر شمع پروین
شمیم شمع صدیقی
شمع افروز زیدی
born.1952
شمع پریس، ورنگل
ناشر
شمائل نبی
مدیر
شمع ادب اردو لائبریری، اندور
کوئی موج ۔۔۔کوئی موج شمال جاوداں جانےشمال جاوداں کے اپنے ہی قصے تھے جو گزرے
شمال جاودان سبز جاں سےتمنا کی عماری جا رہی ہے
خیمہ گاہ نگاہ کو لوٹ لیا گیا ہے کیاآج افق کے دوش پر گرد کی شال بھی نہیں
جونؔ جنوب زرد کے خاک بسر یہ دکھ اٹھاموج شمال سبز جاں آئی تھی اور چلی گئی
آئی تھی موج سبز باد شمالیاد کی شاخ پھل گئی ہوگی
نون میم راشد کا شمار اردو کےان ممتاز نظم گو شعرا میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے خوبصورت اور آرائشی اسلوب سے اس صنف کی صحیح معنوں میں ایک پہچان دی ہے۔ اس مجموعہ میں ان کی منتخب نظموں کے ساتھ ساتھ ان نظموں کی ڈرامائی ریکارڈنگز بھی شامل ہیں، تاکہ آپ ان نظموں کو سن کر بھی لطف اٹھا سکیں
مہاتما گاندھی نہ صرف سماجی اور سیاسی حلقوں میں بلکہ شاعروں اور ادیبوں کے درمیان بھی کافی مقبول تھے۔ پیار سے باپو کہے جانے والے اس قومی رہنما کو اردو شاعروں نے بھی اپنی نظموں اور غزلوں میں خاصی جگہ دی ہے۔ گاندھی جی کے اصول و عقاید جیسے حق ، انصاف اور عدم تشدّد وغیرہ کو بنیاد بنا کر اردو میں بھی بے شمار کام ہوئے ہیں۔ یہاں ہم گاندھی جی پر کہی گئی ۲۰ بہترین نظمو ں کا انتخاب پیش کر رہے ہیں۔
علم عروض کو فن شاعری کے اصول و ضوابط میں شمار کیا جاتا ہے، اگرآپ ان اصولوں کی پیروی نہیں کرتے ہیں تو یقین جانیے کہ آپ کی شاعری عیوب و نقائص سے پاک نہیں ہوسکتی، چنانچہ ریختہ نے علم عروض کے فن پر کتابوں کا ایک نادر انتخاب تیار کیا ہے، آپ گھر بیٹھے استفادہ کرسکتے ہیں۔
शुमालشمال
north
also pronuounce as simaal
شرق مرے شمال میں
ذوالفقار عادل
مجموعہ
اے ہسٹری آف انڈین لٹریچر
اے شمل
تاریخ
شمالی ہند کی اردو شاعری میں ایہام گوئی
حسن احمد نظامی
شاعری تنقید
عجائبات فرنگ
یوسف خاں کمبل پوش
سفر نامہ
ادبی نثر کا ارتقاء
شہناز انجم
نثر
اردو مثنوی شمالی ہند میں
گیان چند جین
مثنوی تنقید
مشاہدات
ہوش بلگرامی
خود نوشت
شمع شبستان رضا
صوفی اقبال احمد نوری
اسلامیات
شمع
اے۔آر۔خاتون دہلوی
اصلاحی و اخلاقی
دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ
مرزا فرحت اللہ بیگ
طنز و مزاح
تنقید
اردو مثنوی کا ارتقا
سید محمد عقیل
علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سرکھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کافائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجئے، دودھ دیتی ہے، بکری کو لیجئے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ، ’’کتا وفادار جانور ہے۔‘‘ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار...
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمارپر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
لگ جائے آگ دامن قطب شمال میں ۶
مرزا بولے، ’’بھئی جیسے تمہاری مرضی۔۔۔ میں تو اب بھی یہی کہتا ہوں کہ قیمت ویمت جانے دو لیکن میں جانتا ہوں کہ تم نہ مانو گے۔‘‘ میں اٹھ کر اندر کمرے میں آیا۔ میں نے سوچا استعمال شدہ چیز کی لوگ عام طور پر آدھی قیمت دیتے ہیں لیکن جب میں نے مرزا سے کہا تھا کہ میں تو آدھی قیمت بھی نہیں دے سکتا تو مرزا اس پر معترض نہ ہوا تھا۔ وہ بیچارہ تو بلکہ یہی کہتا تھا کہ تم مفت ہی لے لو، لیکن مفت میں کیسے لے لوں؟ آخر بائیسکل ہے؟ ایک سواری ہے۔ فٹنوں اور گھوڑوں اور موٹروں اور تانگوں کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔ بکس کھولا تو معلوم ہوا کہ ہست وبود کل چھیالیس روپے ہیں۔ چھیالیس روپے تو کچھ ٹھیک رقم نہیں۔ پنتالیس یا پچاس ہوں جب بھی بات ہے۔ پچاس تو ہو نہیں سکتے اور اگر پنتالیس ہی دینے ہیں تو چالیس کیوں نہ دیے جائیں۔ جن رقموں کے آخر میں صفر آتا ہے وہ رقمیں کچھ زیادہ معقول معلوم ہوتی ہیں۔ بس ٹھیک ہے، چالیس روپے دے دوں گا۔ خدا کرے مرزا قبول کرلے۔
غالب کی موتپس منظر، ایک سہ درہ دالان ہے جس کے سامنے ایک بڑا صحن ہے۔ دالان کے دروں میں اندرونی جانب پردے آدھی محراب تک بندھے ہوئے ہیں۔ دالان کے وسط میں ایک پلنگ ہے جس کا سراہنا شمال کی سمت ہے، پلنگ پر گدا بچھاہوا ہے۔ اور سفید چادر چاروں طرف کلابتوں کی ڈوریوں سے پایوں میں بندھی ہوئی ہے۔ پلنگ سے ملاہوا تختوں کا چوکا ہے جس پر دری بچھی ہوئی ہے اور اس پر صاف فرش ہے جوچاروں کونوں پر میر فروشوں سے دبا ہے۔ صدر میں بڑا گاؤ تکیہ قرینے سے رکھا ہے۔ سامنے صاف اگالدان رکھا ہے، اگالدان سے کچھ اوپر پلنگ سے نزدیک خاصدان رکھا ہے جس کے اوپر بہت نفیس تار کا کام کیا ہوا ہے۔ ایک کاغذ گیر میں خط لکھنے کا کاغذ دبا ہوا پاس ہی رکھا ہے۔
لاکھوں برس گزرے۔ آسمان پر شمال کی طرف سفید بادلوں کے پہاڑ کے ایک بڑے غار میں ایک بہت بڑا ریچھ رہا کرتا تھا۔ یہ ریچھ دن بھر پڑا سوتا رہتا اور شام کے وقت اٹھ کر ستاروں کو چھیڑتا اور ان سے شرارتیں کیا کرتا تھا۔ اس کی بدتمیزیوں اور شرارتوں سے آسمان پر بسنے والے تنگ آ گئے تھے۔کبھی تو وہ کسی ننھے سے ستارے کو گیند کی طرح لڑھکا دیتا اور وہ ستارہ قلابازوں کھاتا دنیا میں آ گرتا یا کبھی وہ انہیں اپنی اصلی جگہ سے ہٹا دیتا۔ اور وہ بےچارے ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے۔
باد شمال ظلم ادھر کو جو آگئیایک ایک کرکے دین کی شمعیں بجھا گئی
مشرق سے میرا راستہ مغرب کی سمت تھااس کا سفر جنوب کی جانب شمال سے
میں وطن میں رہ کے بھی بے وطن کہ نہیں ہے ایک بھی ہم سخنہے کوئی شریک غم و محن تو وہ اک نسیم شمال ہے
وہ پھر ٹہلتی ہوئی صحیفہ متوفین کے کاتبوں کی طرف آئی اور دو زانو بیٹھ کر دیکھنے لگی۔ ایک موٹے کاتب نے ناک سنکتے ہوئے ایک تصویری لفظ کے گرد قرمزی مو قلم سے بیضوی حلقہ کھینچا۔ ’’یہ ایک بادشاہ کا نام ہے۔‘‘ اس نے چھتری کی تصویر بنائی۔ ’’شمالی مصر کا تاج سرخ۔ جنوبی کا سفید۔ اور فرعون سورج دیوتا، رع کا بیٹا ہے‘‘، کاتب نے اسے بتایا۔ سورج کے لیے بطخ کی شکل...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books