aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "پوتا"
پوجا بھاٹیا
born.1977
شاعر
پوجا پرستش
کرشمہ بکس، شیخ پورہ
مصنف
آل آرٹسٹ ایسو سی ایشن، پونہ
ناشر
پونا اورینٹل بک ہاؤس، پونا
انصاری پریس، مومن پورہ (ایم۔پی۔)
جلیل الہ آبادی گنیش پیٹھ، پونہ
پوجا گائتونڈے
فن کار
ادارۂ ماہنامہ تکلم، پونہ
نورس پبلی کیشنز، پونہ
حسن خالق اسلام پورا، مالیگاؤ
نیشنل اینگلو اردو ہائی اسکول، پونہ
سحر آرٹ پریس، پونہ
قادریہ بک ڈپو مومن پورہ، گل برگہ
مکتبۂ نور مسلم پورہ، آندھرا پردیش
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتاایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گادھن دولت ناتی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا
کشتی خوبانی کے ایک پیڑ سے بندھی تھی۔ جو بالکل جھیل کے کنارے اگا تھا۔ یہاں پر زمین بہت نرم تھی اور چاندنی پتوں کی اوٹ سے چھنتی ہوئی آرہی تھی اور مینڈک ہولے ہولے گا رہے تھے اور جھیل کا پانی بار بار کنارے کو چومتا جاتا تھا اور اس کے چومنے کی صدا بار بار ہمارے کانوں میں آرہی تھی۔ میں نے دونوں ہاتھ، اس کی کمر میں ڈال دیئے اور اسے زور زور سے اپنے سینے سے...
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلودھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
خیرات کی جنت ٹھکرا دے ہے شان یہی خودداری کیجنت سے نکالا تھا جس کو تو اس آدم کا پوتا ہے
ہمیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں کسی نہ کسی عزیز اور دل کے قریب شخص کا استقبال کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن ایسے موقعے پر وہ مناسب لفظ اور جملے نہیں سوجھتے جو اس کی آمد پر اس کے استقبال میں کہے جاسکیں۔ اگر آپ بھی کبھی اس پریشانی اور الجھن سے گزرے ہیں یا گزر رہے ہیں تو استقبال کے موضوع پر کی جانے والی شاعری کا ہمارا یہ انتخاب آپ کے لیے مدد گار ثابت ہوگا۔
عام زندگی میں ہم پھول کی خوشبو اور اس کے الگ الگ رنگوں کےعلاوہ اورکچھ نہیں دیکھتے ۔ پھول کوموضوع بنانےوالی شاعری کا ہمارا یہ انتخاب پڑھ کرآپ کوحیرانی ہوگی کہ شاعروں نے پھول کو کتنے زاویوں سے دیکھا اوربرتا ہے ۔ پھول اس کی خوبصورتی اوراس کی نرمی کو محبوب کے حسن سے ملا کربھی دیکھا گیا ہے اوراس کے مرجھا نے کو حسن کے زوال اوربے ثباتیِ زندگی کی علامت بھی بنایا گیا ہے ۔ پھول کے ساتھ کانٹوں کا کرداراوربھی دلچسپ ہے ۔ کانٹوں کونسبتاً ثبات حاصل ہے اوران کے کردارمیں دوغلہ پن نہیں ۔ ہمیں پتا ہے کہ کانٹے چھب سکتے ہیں اورتکلیف پہنچا سکتے ہیں اس لئے ان سے دوری بنائ جاسکتی ہے لیکن پھولوں کی خوبصورتی کے دھوکے میں آکرہم ان سے قربت بنا لیتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں ۔ یہاں پھول اور کانٹے مختلف انسانی کرداروں کی استعاراتی تعبیر ہیں ۔
معشوق جفا کار ہوتا ہے ۔ عشق میں اس کا کردار ہی عاشق پر ظلم وستم کرنے سے تشکیل پاتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ عاشق کیلئے یہ ظلم وستم اور جفا محبوب کی طرف سے کی جانے والی ایک عنایت اور اس کی توجہ کی ایک شکل ہوتی ہے ۔ عام زندگی میں ایسا سوچنا بھی مشکل ہے ۔اسی لئے شاعری ہمیں اپنی عام اور جانی پہچانی زندگی سے نکال کر ایک دوسری ہی زندگی اور جینے کے نئے طور طریقوں سے روشناس کراتی ہے ۔ ہم نے کچھ اچھے شعروں کا انتخاب کیا ہے آپ انہیں پڑھئے اور جفا کی اس دلچسپ کہانی کا لطف لیجئے ۔
पोताپوتا
grandson
پتہ پتہ بوٹا بوٹا
رفعت سروش
خود نوشت
نئی نظم اور پورا آدمی
سلیم احمد
رباعیات صادق
صادق دہلوی
رباعی
میخانوں کا پتہ
صغریٰ مہدی
سفرنامہ
پورا منٹو
شمس الحق عثمانی
ہاشم پورہ 22 مئی
وبھوتی نرائن رائے
سماجی مسائل
نئے موسموں کا پتہ
ڈاکٹر راحت بدر
سوانح حیات
لال قلعہ کا تاریخی مقدمہ
مسٹر بھولا بھائی دیسائی
ہندوستانی تاریخ
تاریخ اردو ادب پونہ : ایک تحقیق
مرزا حمید بیگ تحمل قادری
تاریخ ادب
جیبی عمل اشراب
بشیرالدین عصری
طب
سفر ایک جزیرے کا
اشتیاق احمد
ناول
فرحت کیفی
تذکرہ مشاہیر ادب شیخ پورہ
ابوالکلام رحمانی
تذکرہ
حضرت محمد کا ذکر اور مورتی پوجا کی ممانعت
سرور فاروقی ندوی
اکھراوتی
نامعلوم مصنف
شادی کی رات بالکل وہ نہ ہوا جو مدن نے سوچا تھا۔ جب چکلی بھابی نے پھسلا کر مدن کو بیچ والے کمرے میں دھکیل دیا تو اندو سامنے شالوں میں لپٹی اندھیرے کا بھاگ بنی جا رہی تھی۔ باہر چکلی بھابی اور دریا آباد والی پھوپھی اور دوسری عورتوں کی ہنسی، رات کے خاموش پانیوں میں مصری کی طرح دھیرے دھیرے گھل رہی تھی۔ عورتیں سب یہی سمجھتی تھیں کہ اتنا بڑا ہو جانے پر بھ...
(۲)سعادت و اقبال نشاں مرزا علاؤالدین خاں بہادر کو فقیر اسد اللہ کی دعا پہنچے۔ لو صاحب یہ تمہارا پوتا، فرخ مرزا کا بیٹا مرزا جمیل الدین عالی انعام اور جاگیریں بانٹنے لگا۔ یہ حال اکمل الاخبار سے کھلا۔ تم نے تو نہ بتایا۔ لوہارو سے میر اشرف علی آئے تو یہ بھی پتہ چلا کہ یہ عزیز لوہارو چھوڑ ادھر کہیں سندھ میں جا نوکر ہوا۔ پہلے سرکار عالی کی پیشی میں تھا۔ اب کسی ساہوکارے کے کارخانے میں منصرم ہے۔ اتنی دور کیوں جانے دیا؟ نوابوں اور رئیسوں کے لڑکے سیٹھوں سا ہوکاروں کے متصدی ہوئے۔ ہاں صاحب شاہی لد گئی تو کچھ بھی نہ رہا۔ عالی شائد تخلص ہے۔ شعر کہتا ہوگا۔ اللہ ترقی دے۔ کس سے اصلاح لیتا ہے؟
ہم دونوں کا قیام وہیں17 اڈلفی چیمبرز میں تھا۔ دو کمرے تھےجہازی سائز کے۔ ایک میں دفتر تھا، دوسرے میں رہائشی معاملہ۔ مگر رات کو ہم دفتر میں سوتے تھے۔ مرزا مشرف وغیرہ آجاتے تھے، وہ ہماری چارپائیاں بچھا دیتے تھے۔ جب تک شوکت وہاں رہا، بڑے ہنگامے رہے، کریون اے کے سگریٹ اور ناسک کی ہرن مارکہ وسکی جو بڑی واہیات تھی۔ لیکن اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ ...
اس پر ہندوؤں اور سکھوں کو بڑا طیش آیا۔ ظالموں نے ہمارے بھائیوں کے ساتھ کتنا برا سلوک کیا ہے۔ ہائے یہ ہمارے ہندو اور سکھ پناہ گزیں اور واقعی ان کی حالت بھی قابل رحم تھی۔ انہیں فوراً گاڑی سے نکال کر پناہ گزینوں کے کیمپ میں پہنچایا گیا اور سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کی گاڑی پر دھاوا بول دیا یعنی اگر نہتے نیم مردہ مہاجرین پر حملہ کو ’’دھاوا‘‘ کہہ سکت...
جرأت نے دی ندا کہ یہ مسلم کا پوتا ہے 132
شاعری کس چیز کا نام ہے؟ کسی چیز کا، کسی واقعہ کا، کسی حالت کا، کسی کیفیت کا اس طرح بیان کیا جائے کہ اس کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے۔ دریا کی روانی، جنگل کی ویرانی، باغ کی شادابی، سبزے کی لہک، پھولوں کی مہک، خوشبو کی لپٹ، نسیم کے جھونکے، دھوپ کی سختی، گرمی کی تپش، جاڑوں کی ٹھنڈ، صبح کی شگفتگی، شام کی دل آویزی، یا رنج وغم، غیظ وغضب، جوش ومحبت،...
مائی جیواں یہ آگ کئی مرتبہ سلگا چکی ہے۔ یہ تکیہ یا چھوٹی سی خانقاہ جس کے اندر بنی ہوئی قبر کی بابت اس کے پردادا نے لوگوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ ایک بہت بڑے پیر کی آرام گاہ ہے، ایک زمانے سے ان کے قبضہ میں تھی۔ گاما سائیں کے مرنے کے بعد اب اس کی ہوشیار بیوی اس تکیے کی مجاور تھی۔ گاما سائیں سارے گاؤں میں ہر دل عزیز تھا۔ ذات کا وہ کمہار تھا مگر چون...
تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتی ہے کہ اس کی گڑیا کی شادی میں بہت سے مہمان آ رہے ہیں۔ بھالو، طوطا، گرگٹ، جھینگر اور جگنو میاں۔ یہ سب تحفے بھی لائے تھے۔ بھالو کے خالو بھی آئے ہوئے تھے۔ وہ ایک بہت خوبصورت صندوق لائے تھے۔ گرگٹ بندے لایا تھا جو ہلانے سے چمکتے تھے اور تو اور جھینگر گڑیا کے لئے دو شالہ لایا تھا اور طوطا وہ اپنا پوتا ساتھ لایا تھا اور گڑیا کے ل...
پوتا شہ مرداں کا ہوں کسرا کا نواسامظلوم کا مظلوم ہوں اور پیاسے کا پیاسا
آہستہ آہستہ اس نے بننا سنورنا چھوڑ ہی دیا تھا۔ بھیا کو لپ اسٹک سے نفرت تھی۔ آنکھوں میں منوں کاجل اور مسکارا دیکھ کر وہ چڑجاتے۔ بھیا کو بس گلابی رنگ پسند تھا یا پھر سرخ۔۔۔ بھابی زیادہ تر گلابی یا سرخ ہی کپڑے پہناکرتی تھی۔ گلابی ساڑھی پر سرخ بلاؤز یا کبھی گلابی کے ساتھ ہلکا گہرا گلابی۔شادی کے وقت اس کے بال کٹے ہوئے تھے۔ مگر دولہن بناتے وقت ایسے تیل چپڑ کر باندھے گئے تھے، لیکن پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ پرکٹی میم ہے اب اس کے بال تو بڑھ گئے تھے، لیکن پے درپے بچے ہونے کی وجہ سے وہ ذرا گنجی سی ہوگئی تھی۔ ویسے بھی وہ بال کس کر میلی دھجی ہی باندھ لیا کرتی تھی۔ اس کے میاں کو وہ میلی کچیلی ایسی ہی بڑی پیاری لگتی تھی اور میکے سسرال والے بھی اس کی سادگی کو دیکھ کر اس کی تعریفوں کے گن گاتے تھے۔ بھابی تھی بڑی پیاری سی، سجیل نقشہ مکھن جیسی رنگت، سڈول ہاتھ، پاؤں۔ مگر اس نے اس بری طرح اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا تھا کہ خمیرے آٹے کی طرح بہہ گئی تھی۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books