aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "پہنچ"
آفتاب رئیس پانی پتی
شاعر
جمال پانی پتی
1927 - 2005
لالہ انوپ چند آفتاب پانی پتی
1896 - 1968
انور پانی پتی
born.1936
مصنف
شیخ محمد احمد پانی پتی
1930 - 1962
عزیز الرحمٰن عزیز پانی پتی
کمار پانی پتی
born.1938
دولت رام صابر پانی پتی
died.1961
اخگر پانی پتی
محمد اسماعیل پانی پتی
1893 - 1972
بشیشر ناتھ کنول پانی پتی
حالی اکیڈمی، پانی پت
ناشر
قاضی ثناء اللہ پانی پتی
مولانا چشتی پانی پتی
علامہ بصر پانی پتی
کبھی خود تک پہنچ نہیں پایاجب کہ واں عمر بھر گیا ہوں میں
کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیںناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے
کوئی مجھ تک پہنچ نہیں پاتااتنا آسان ہے پتا میرا
کلونت کور تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئی، لیکن فوراً ہی بھڑک اٹھی، ’’لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا، اس رات تمہیں کیا ہوا۔۔۔؟ اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے، مجھے تم نے وہ تمام گہنے پہنا رکھے تھے جو تم شہر سے لوٹ کر لائے تھے۔ میری بھپیاں لے رہے تھے، پر جانے ایک دم تمہیں کیا ہوا، اٹھے اور کپڑے پہن کر باہر نکل گیے۔‘‘ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہوگیا۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا، ’’دیکھا کیسے رنگ نیلا پڑ گیا۔۔۔ ایشر سیاں، قسم واہگورو کی، ضرور کچھ دال میں کالا ہے؟‘‘
ہجر محبّت کے سفر میں وہ مرحلہ ہے , جہاں درد ایک سمندر سا محسوس ہوتا ہے .. ایک شاعر اس درد کو اور زیادہ محسوس کرتا ہے اور درد جب حد سے گزر جاتا ہے تو وہ کسی تخلیق کو انجام دیتا ہے . یہاں پر دی ہوئی پانچ نظمیں اسی درد کا سایہ ہے
جاں نثاراختر کو ایک شاعر کے طور پر ان کی نمایاں خدمات کے لیے پہچانا جاتا ہے۔ جنہوں نے رومانوی اور انقلابی دونوں موضوعات میں مہارت حاصل کی۔ہم یہاں ان کی کچھ نظموں کا انتخاب پیش کر رہے ہیں۔پڑھیے اور لطف اٹھایئے۔
وحشت پر یہ شاعری آپ کے لئے عاشق کی شخصیت کے ایک دلچسپ پہلو کا حیران کن بیان ثابت ہوگی ۔ آپ دیکھیں گے کہ عاشق جنون اور دیوانگی کی آخری حد پر پہنچ کر کیا کرتا ہے ۔ اور کس طرح وہ وحشت کرنے کے لئے صحراؤں میں نکل پڑتا ہے ۔
पहुँचپہنچ
reach, arrive
کلیات حسن
محمد حسن رضا خان
نعت
مثنوی چراغ دیر
مرزا غالب
مثنوی
گندھارا
ولی اللہ خاں
عالمی تاریخ
لکھنؤ کی پانچ راتیں
علی سردار جعفری
خود نوشت
پنجابی کے پانچ قدیم شاعر
شفیع عقیل
تنقید
پانچ جدید شاعر
حمید نسیم
وہ بیضوی تصویر
ایڈگر ایلن پو
افسانہ / کہانی
اردو مرثیہ کے پانچ سو سال
عبد الرؤف عروج
کہانی کے پانچ رنگ
شمیم حنفی
غالب کے بہترین پانچ شعر
انتخاب
اردو کے پانچ مزاحیہ شاعر
احمد جمال پاشا
مزاحیہ
انتخاب میر
میر تقی میر
اردو فکشن کے پانچ رنگ
اسلم جمشید پوری
فکشن تنقید
پانچ اسٹیج ڈرامے
انیس اعظمی
ادب اطفال
پانچ سو لطیفے
لطیفے
جہاں پہنچ کے قدم ڈگمگائے ہیں سب کےاسی مقام سے اب اپنا راستا ہوگا
بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے یعنی جو مسلمان پاگل، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ، پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں ہندوستان کے حوالے کردیا جائے۔معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول، بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں اور بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لیے مقرر ہوگیا۔ اچھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے، وہیں رہنے دیے گئے تھے۔ جو باقی تھے، ان کو سرحد پر روانہ کردیا گیا۔ یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو، سکھ جا چکے تھے اسی لیے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا۔ جتنے ہندو، سکھ پاگل تھے سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بارڈر پر پہنچا دیے گئے۔
امرتسر سے اسپیشل ٹرین دوپہر دو بجے کو چلی اور آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی۔ راستے میں کئی آدمی مارے گیے۔ متعدد زخمی ہوئے اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گیے۔صبح دس بجے۔۔۔ کیمپ کی ٹھنڈی زمین پر جب سراج الدین نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک متلاطم سمندر دیکھا تو اس کی سوچنے سمجھنے کی قوتیں اور بھی ضعیف ہوگئیں۔ وہ دیر تک گدلے آسمان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ یوں تو کیمپ میں ہر طرف شور برپا تھا۔ لیکن بوڑھے سراج الدین کے کان جیسے بند تھے۔ اسے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ کوئی اسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ وہ کسی گہری فکر میں غرق ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ اس کے ہوش و حواس شل تھے۔ اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔
پہنچ گیا تری آنکھوں کے اس کنارے تکجہاں سے مجھ کو سمندر دکھائی دینے لگا
جنگ سے پہلے رندھیر ناگپاڑہ اور تاج ہوٹل کی کئی مشہور و معروف کرسچین لڑکیوں سے جسمانی تعلقات قائم کر چکا تھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ اس قسم کے تعلقات کی کرسچین لڑکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ معلومات رکھتا تھا جن سے لڑکیاں فیشن کے طور پر رومانس لڑاتی ہیں اور بعد میں کسی چغدسے شادی کرلیتی ہیں۔ رندھیر نے محض دل ہی دل میں ہی ہیزل سے بدلہ لینے کی خاطر اس گھاٹن لڑکی کو اشارے سے او پر بلایا تھا۔ ہیزل اس کے فلیٹ کے نیچے رہتی تھی اور ہر روز صبح وردی پہن کر کٹے ہوئے بالوں پر خاکی رنگ کی ٹوپی ترچھے زاویے سے جما کر باہر نکلتی تھی اور اس انداز سے چلتی تھی گویا فٹ پاتھ پر تمام جاننے والے اس کے قدموں کے آگے ٹاٹ کی طرح بچھتے چلے جائیں گے۔
مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی ایک گورا بھی اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہوگیے تھے جہاں اس نے سنا تھا کہ بڑے لاٹ صاحب رہتے ہیں، جو گرمیوں میں شملے چلے جاتے ہیں، مگر صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو اور ان چھ گاہکوں سے اس نے خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے تھے۔ تین ...
وہ بھی منزل تلک پہنچ جاتااس نے ڈھونڈا نہیں پتا میرا
عجیب زندگی تھی ان کی۔ گھر میں مٹی کے دو چار برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں۔ پھٹے چیتھڑوں سے اپنی عریانی کو ڈھانکے ہوئے دنیا کی فکروں سے آزاد۔ قرض سے لدے ہوئے۔ گالیاں بھی کھاتے، مار بھی کھاتے مگر کوئی غم نہیں۔ مسکین اتنے کہ وصولی کی مطلق امید نہ ہونے پر لوگ انہیں کچھ نہ کچھ قرض دے دیتے تھے۔ مٹر یا آلو کی فصل میں کھیتوں سے مٹر یا آلو اکھاڑ لاتے اور بھ...
یہ پانچ کرتے ہیں دیکھو یہ پانچ پاجامےڈلے ہوئے ہیں کمر بند ان میں اور دیکھو
اس کے سارے جسم میں مجھے اس کی آنکھیں بہت پسند تھیں۔یہ آنکھیں بالکل ایسی ہی تھیں جیسے اندھیری رات میں موٹر کارکی ہیڈ لائیٹس ،جن کو آدمی سب سے پہلے دیکھتا ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ وہ بہت خوبصورت آنکھیں تھیں۔ ہرگز نہیں۔ میں خوبصورتی اور بدصورتی میں تمیز کرسکتا ہوں۔ لیکن معاف کیجیے گا، ان آنکھوں کے معاملے میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ خوبصورت نہی...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books