aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ढह"
میں ہوں معمار پر یہ بتلا دوںشہر کے شہر ڈھ چکا ہوں میں
تب ممانی سناٹے میں رہ جاتیں۔ موٹے موٹے آنسو چھلک اٹھتے الگی سے دوپٹہ گھسیٹ کر وہ اپنا جسم ڈھک کر سرجھکائے کمرے میں چلی جاتیں۔ ماموں کا کلیجہ کٹ جاتا، ان کے پیروں تلے سے زمین کھسک جاتی وہ ان کے تلوے چومتے، ان کے قدموں میں سر پھوڑتے،...
کب تلک ریت کی دیوار سنبھالے کوئیوہ تھکن ہے کہ میرا جسم بھی ڈھ سکتا ہے
ہم جسم ہیں اور دونوں کی بنیادیں امر ہیںاب کیسے بچھڑ جائیں کہ ڈھہ بھی نہیں سکتے
ستون ریگ نہ ٹھہرا عدیمؔ چھت کے تلےمیں ڈھ گیا ہوں خود اپنے کو آسرا دے کر
شاعری میں وطن پرستی کے جذبات کا اظہار بڑے مختلف دھنگ سے ہوا ہے ۔ ہم اپنی عام زندگی میں وطن اور اس کی محبت کے حوالے سے جو جذبات رکھتے ہیں وہ بھی اور کچھ ایسے گوشے بھی جن پر ہماری نظر نہیں ٹھہرتی اس شاعری کا موضوع ہیں ۔ وطن پرستی مستحسن جذبہ ہے لیکن حد سے بڑھی ہوئی وطن پرستی کس قسم کے نتائج پیدا کرتی ہے اور عالمی انسانی برادری کے سیاق میں اس کے کیا منفی اثرات ہوتے ہیں اس کی جھلک بھی آپ کو اس شعری انتخاب میں ملے گی ۔ یہ اشعار پڑھئے اور اس جذبے کی رنگارنگ دنیا کی سیر کیجئے ۔
شاعری میں وطن پرستی کے جذبات کا اظہار بڑے مختلف ڈھنگ سے ہوا ہے۔ ہم اپنی عام زندگی میں وطن اور اس کی محبت کے حوالے سے جو جذبات رکھتے ہیں وہ بھی، اور کچھ ایسے گوشے بھی جن پر ہماری نظر نہیں ٹھہرتی اس شاعری کا موضوع ہیں۔ وطن پرستی مستحسن جذبہ ہے۔ یوم جمہوریہ، وطن پرستی اور مجاہدان آزادی کے تعلق سے یہ شاعری بھی آپ کے اندر وطن کی محبت پیدا کرے گی۔ یہ اشعار پڑھئے اور اس جذبے کی رنگارنگ دنیا کی سیر کیجئے۔
ہم حسن کو دیکھ سکتے ہیں ،محسوس کرسکتے ہیں اس سے لطف اٹھا سکتے ہیں لیکن اس کا بیان آسان نہیں ۔ ہمارا یہ شعری انتخاب حسن دیکھ کر پیدا ہونے والے آپ کے احساسات کی تصویر گری ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ شاعروں نے کتنے اچھوتے اور نئے نئے ڈھنگ سے حسن اور اس کی مختلف صورتوں کو بیان کیا ۔ ہمارا یہ انتخاب آپ کو حسن کو ایک بڑے اور کشادہ کینوس پر دیکھنے کا اہل بھی بنائے گا ۔ آپ اسے پڑھئے اور حسن پرستوں میں عام کیجئے ۔
ढहڈھ
fall, topple
ढहڈھہ
demolish
ذرا یہ دھوپ ڈھل جائے
خوشبیر سنگھ شادؔ
مجموعہ
بنتے بنتے ڈھ جاتی ہے دل کی ہر تعمیرخواہش کے بہروپ میں شاید قسمت رہتی ہے
کیوں اپنی تاریخ سے نالاں ہیں اس شہر کے لوگڈھ دیتے ہیں جو تعمیر پرانی ہوتی ہے
مرے دل پے ہاتھ رکھو مری بے بسی کو سمجھومیں ادھر سے بن رہا ہوں میں ادھر سے ڈھ رہا ہوں
مکان جسم یوں تو ڈھ گیا پرقیامت ڈھا رہا ملبہ تمہارا
اب تو یہ ریشمی پوریں بھی چھدی جاتی ہیںخود کو اب بخش بھی دے ظلم نہ ڈھ درد نہ چن
لہو میں خاک اڑتی ہےبدن خواہش بہ خواہش ڈھ رہا ہے
میں نے یہ الفاظ پڑھے،’’قبلہ والد صاحب۔۔۔ میں یہاں خیریت سے ہوں۔۔۔ آپ نے میرا گھر آباد ہے۔۔۔ میری خواہش ہے کہ آپ بھی اپنا گھر آباد کرلیں۔۔۔‘‘ ولی محمد نے آنکھوں کا زاویہ بدل کر اپنی نوکیلی مونچھوں کو دیکھا اور کہا، ’’منٹو صاحب۔۔۔ لڑکا ہوشیار ہوگیا ہے۔۔۔ لیکن...
صرف مٹی ہو کے رہنے میں تحفظ ہے یہاںجس نے کوشش کی مکاں ہونے کی بس ڈھہ کر گیا
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books