aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "दरिया"
دیا جیم
born.1973
شاعر
مطبع دریائے لطافت، کانپور
ناشر
پرنٹ سینٹر دریا گنج، نئی دہلی
موہن سنگھ مالک پنج دریا، لاہور
موج دریا پبلشر
مخدوم شیخ احمد لنگر دریا بلخی فردوسی
مصنف
علاء الدین اللہ دیا میرٹھی
پیوش دہیہ
عطیہ کار
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریانہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
دو اشک جانے کس لیے پلکوں پہ آ کر ٹک گئےالطاف کی بارش تری اکرام کا دریا ترا
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھناجہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میںخشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریاؤں میں
میں دریا سے بھی ڈرتا ہوںتم دریا سے بھی گہرے ہو
میر 18ویں صدی کے جدید شاعر ہیں ۔اردو زبان کی تشکیل و تعمیر میں بھی میر کی خدمات بیش بہا ہیں ۔خدائے سخن میر کے لقب سے معروف اس شاعر نے اپنے بارے میں کہا تھا میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی۔ ریختہ ان کے 20 معروف و مقبول ،پسندیدہ اور مؤقراشعار کا مجموعہ پیش کر رہاہے ۔ ان اشعار کا انتخاب بہت سہل نہیں تھا ۔ ہم جانتے ہیں کہ اب بھی میر کے کئی مقبول اشعار اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔اس سلسلے میں آپ کی رائے کا خیر مقدم ہے ۔اگر ہماری مجلس مشاورت آپ کے پسندیدہ شعر کو اتفاق رائے سے پسند کرتی ہے تو ہم اس کو نئی فہرست میں شامل کریں گے ۔ہمیں قوی امید ہے کہ آپ کو ہماری یہ کوشش پسند آئی ہوگی اور آپ اس فہرست کو سنوارنے اور آراستہ کرنے میں معاونت فرمائیں گے۔
کشتی ،ساحل ، سمندر ، ناخدا ، تند موجیں اور اس طرح کی دوسری لفظیات کو شاعری میں زندگی کی وسیع تر صورتوں کے استعارے کے طور پر برتا گیا ہے ۔ کشتی دریا کی طغیانی اور موجوں کی شدید مار سے بچ نکلنے اور ساحل پر پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ کشتی کی اس صفت کو بنیاد بنا کر بہت سے مضامین پیدا کئے گئے ہیں ۔ کشتی کے حوالے سے اور بھی کئی دلچسپ جہتیں ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
دریا کا استعمال کلاسیکی شاعری میں کم کم ہے اور اگر ہے بھی تو دریا اپنے سیدھے اور سامنے کے معنی میں برتا گیا ہے ۔ البتہ جدید شاعروں کے یہاں دریا ایک کثیرالجہات استعارے طور پر آیا ہے ۔ وہ کبھی زندگی میں سفاکی کی علامت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے کہ جو اس کے سامنے آتا ہے اسے بہا لے جاتا اور کبھی اس کی روانی کو زندگی کی حرکت اور اس کی توانائی کے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ دریا پر ہمارا یہ شعری انتخاب آپ کو یقیناً پسند آئے گا ۔
दरियाँدریاں
spreads for floors
दरियाدریا
river
محبت ایسا دریا ہے
امجد اسلام امجد
نظم
مونس القلوب
دریائے تعشق
واجد علی شاہ اختر
مثنوی
دل دریا
دلیپ سنگھ
ناول
شرون کمار ورما
افسانہ
ہم سفروں کے درمیاں
شمیم حنفی
تنقید
پیا نام کا دیا
بانو قدسیہ
ڈراما
پروں کے درمیاں
بشیر فاروقی
غزل
دیوار و در کے درمیاں
مخمور سعیدی
مجموعہ
آئینوں کے درمیاں
رئیس فاطمہ
مرتبہ
شعلوں کے درمیاں
بلقیس ظفیر الحسن
شاعری
دیا جلے ساری رات
خواجہ احمد عباس
Dariya Sahab
نامعلوم مصنف
سنت کوی دریا : ایک انوشیلن
سوانح حیات
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجےاک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتےگھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانادرد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگیتیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا
ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہےجس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصرؔپھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں
آپ دریا ہیں تو پھر اس وقت ہم خطرے میں ہیںآپ کشتی ہیں تو ہم کو پار ہونا چاہئے
کسی آنکھ میں نہیں اشک غم ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کمتجھے زندگی نے بھلا دیا تو بھی مسکرا اسے بھول جا
سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریاچڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books