کشتی پر اشعار
کشتی ،ساحل ، سمندر ،
ناخدا ، تند موجیں اور اس طرح کی دوسری لفظیات کو شاعری میں زندگی کی وسیع تر صورتوں کے استعارے کے طور پر برتا گیا ہے ۔ کشتی دریا کی طغیانی اور موجوں کی شدید مار سے بچ نکلنے اور ساحل پر پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ کشتی کی اس صفت کو بنیاد بنا کر بہت سے مضامین پیدا کئے گئے ہیں ۔ کشتی کے حوالے سے اور بھی کئی دلچسپ جہتیں ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
اچھا یقیں نہیں ہے تو کشتی ڈبا کے دیکھ
اک تو ہی ناخدا نہیں ظالم خدا بھی ہے
میں کشتی میں اکیلا تو نہیں ہوں
مرے ہم راہ دریا جا رہا ہے
-
موضوع : دریا
کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ
ہم بھی نہ ڈوب جائیں کہیں نا خدا کے ساتھ
اس نا خدا کے ظلم و ستم ہائے کیا کروں
کشتی مری ڈبوئی ہے ساحل کے آس پاس
دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
چمک رہا ہے خیمۂ روشن دور ستارے سا
دل کی کشتی تیر رہی ہے کھلے سمندر میں
-
موضوعات : دلاور 1 مزید
یہ الگ بات کہ میں نوح نہیں تھا لیکن
میں نے کشتی کو غلط سمت میں بہنے نہ دیا
اگر اے ناخدا طوفان سے لڑنے کا دم خم ہے
ادھر کشتی نہ لے آنا یہاں پانی بہت کم ہے
کبھی میری طلب کچے گھڑے پر پار اترتی ہے
کبھی محفوظ کشتی میں سفر کرنے سے ڈرتا ہوں
-
موضوعات : سفراور 1 مزید
کشتیاں ڈوب رہی ہیں کوئی ساحل لاؤ
اپنی آنکھیں مری آنکھوں کے مقابل لاؤ
-
موضوع : ساحل
کشتئ اعتبار توڑ کے دیکھ
کہ خدا بھی ہے نا خدا ہی نہیں
-
موضوع : خدا
انگنت سفینوں میں دیپ جگمگاتے ہیں
رات نے لٹایا ہے رنگ و نور پانی پر
-
موضوعات : پانیاور 2 مزید
سرک اے موج سلامت تو رہ ساحل لے
تجھ کو کیا کام جو کشتی مری طوفان میں ہے