aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "नाई"
مینا کماری ناز
1933 - 1972
شاعر
عدم گونڈوی
1947 - 2011
راجندر ناتھ رہبر
born.1931
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
1864 - 1916
ناز خیالوی
1947 - 2010
ساحر دہلوی
1863 - 1962
رابندرناتھ ٹیگور
1861 - 1941
مصنف
پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق
born.1863
رتن ناتھ سرشار
1846 - 1903
ناز بٹ
امن لکھنوی
1898 - 1983
خار دہلوی
1916 - 2002
اوپندر ناتھ اشک
1910 - 1996
ناز قادری
1940 - 2019
فرزانہ ناز
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کیسو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہےلمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
یہ اس کا ہیر اسٹائل ہےیا جنگل میں کوئی نائی نہیں
جو وقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کرمسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے
صاحبان! یہ شریف زادیاں ان آبرو باختہ، نیم عریاں بیسواؤں کے بناؤ سنگار کو دیکھتی ہیں تو قدرتی طور پران کے دل میں بھی آرائش و دلربائی کی نئی نئی امنگیں اور ولولے پیدا ہوتے ہیں اور وہ اپنے غریب شوہروں سے طرح طرح کے غازوں، لونڈروں، زرق برق ساریوں اور قیمتی زیوروں کی فرمائشیں کرنے لگتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا پر مسرت گھر، ان کا راحت کدہ ہمیش...
زمانے بیت گئے مگر محمد رفیع آج بھی اپنی آواز کی ساحری کے زور پر ہرکسی کے دل پر اپنی حکومت جمائے ہوئے ہیں ، ان کے گائے ہوئے بھجن ، اورنغموں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ آج ہم آپ کے لئے کچھ مشہورو معروف شاعروں کی ایسی غزلیں لے کر حاضر ہوئے ہیں جنہیں محمد رفیع نے اپنی آواز دی ہے اور ان غزلوں کے حسن میں لہجے اور آواز کا ایسا جادو پھونکا ہے کہ آدمی سنتا رہے اور سر دھنتا رہے ۔
اردو شاعری میں ایسی 20 غزلیں جو ہمیشہ یاد کی جاتی ہیں - پڑھئے اور لطف لیجئے
ممتاز اوررجحان ساز جدید شاعر ۔ لندن مقیم تھے
नाईنائی
barber
تنہا چاند
مجموعہ
کلیات حسن
محمد حسن رضا خان
نعت
زیر لب
صفیہ اختر
تاریخ و تنقید
اصلی میلاد اکبر وارثی
محمد اکبر وارثی
بیاض جاں
آغا سروش
اردو ناول کا سفر
فکشن تنقید
نئ اردو قواعد
عصمت جاوید
لسانیات
فسانہ آزاد
ناول
کلیات حفیظ تائب
حفیظ تائب
ارمغان نعت
ساجد صدیقی
ابر گہر بار
مرزا غالب
مثنوی
درس بلاغت
ترقی اردو بیورو، نئی دہلی
زبان
جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشو و نما
برج پریمی
تنقید
افسانوی ادب
دوڑا دوڑا دوڑا گھوڑا دم اٹھا کے دوڑاگھوڑا پہنچا چوک میں چوک میں تھا نائی
ٹھاکر صاحب کے دو بیٹے تھے۔ بڑے کا نام شری کنٹھ سنگھ تھا۔ اس نے ایک مدت دراز کی جانکاہی کے بعد بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اور اب ایک دفتر میں نوکر تھا۔ چھوٹا لڑکا لال بہاری سنگھ دوہرے بدن کا سجیلا جوان تھا۔ بھرا ہوا چہرہ چوڑا سینہ بھینس کا دوسیر تازہ دودھ کا ناشتہ کر جاتا تھا۔ شری کنٹھ اس سے بالکل متضاد تھے۔ ان ظاہری خوبیوں کو انھوں نے دو انگریزی ح...
سہ دری کے چوکے پر آج پھر صاف ستھری جازم بچھی تھی۔ ٹوٹی پھوٹی کھپریل کی جھریوں میں سے دھوپ کے آڑے ترچھے قتلے پورے دالان میں بکھرے ہوئے تھے۔ محلے ٹولے کی عورتیں خاموش اور سہمی ہوئی سی بیٹھی تھیں۔ جیسے کوئی بڑی ورادات ہونے والی ہو۔ ماؤں نے بچے چھاتیوں سے لگا لئے تھے۔ کبھی کبھی کوئی محنتی سا چڑچڑا بچہ رصد کی کمی کی دہائی دے کر چلا اٹھتا۔’’نائیں نائیں میرے لال!‘‘ دبلی پتلی ماں اسے اپنے گھٹنے پر لٹا کر یوں ہلاتی جیسے دھان ملے چاول دھوپ میں پٹک رہی ہو۔ اور پھر ہنکارے بھر کر خاموش ہو جاتا۔
نتھو نے بڑی مشکل سے روپا کے منہ سے کپڑا ہٹایا اور اس کو اٹھا کر بٹھا دیا۔روپا نے دونوں ہاتھوں میں اپنے منہ کو چھپا لیا اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ اس سے نتھو کو بہت دکھ ہوا۔ ایک تو پہلے اسے یہ چیز ستا رہی تھی کہ ساری بات اس کے ذہن میں مکمل طور پر نہیں آتی۔ اور دوسرے روپا اس کے سامنے رو رہی تھی۔ اگر اسے ساری بات معلوم ہوتی تو وہ اس کے یہ آنسو ر...
بڑھاپا اکثر بچپن کا دورِثانی ہواکرتا ہے۔ بوڑھی کاکی میں ذائقہ کے سوا کوئی حس باقی نہ تھی اور نہ اپنی شکایتوں کی طرف مخاطب کرنے کا، رونے کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ۔ آنکھیں، ہاتھ، پیر سب جواب دے چکے تھے۔زمین پر پڑی رہتیں اور جب گھر والے کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف کرتے، کھانے کا وقت ٹل جاتا یا مقدار کافی نہ ہوتی یا بازار سے کوئی چیز آتی اور انھیں نہ مل...
ہمارا جسم پرانا ہے لیکن اس میں ہمیشہ نیا خون دوڑتا رہتا ہے۔ اس نئے خون پر زندگی قائم ہے۔ دنیا کے قدیم نظام میں یہ نیا پن اس کے ایک ایک ذرے میں، ایک ایک ٹہنی میں، ایک ایک قطرے میں، تار میں چھپے ہوئے نغمے کی طرح گونجتا رہتا ہے ۔اور یہ سو سال کی بڑھیا آج بھی نئی دلہن بنی ہوئی ہے۔جب سے لالہ ڈنگا مل نے نئی شادی کی ہے ان کی جوانی از سر نو عود کر آئی ہے۔ جب پہلی بیوی بقید حیات تھی وہ بہت کم گھر رہتے تھے۔ صبح سے دس گیارہ بجے تک تو پوجا پاٹ ہی کرتے رہتے تھے۔ پھر کھانا کھا کر د کان چلے جاتے۔ وہاں سے ایک بجے رات کولوٹتے اور تھکے ماندے سو جاتے۔ اگر لیلا کبھی کہتی کہ ذرا اور سویرے آجایا کرو تو بگڑ جاتے، ’’تمہارے لیے کیا دکان بند کر دوں یا روز گار چھوڑ دوں۔ یہ وہ زمانہ نہیں ہے کہ ایک لوٹا جل چڑھا کر لکشمی کو خوش کر لیا جائے۔ آج کل لکشمی کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑنا پڑتا ہے تب بھی ان کا منھ سیدھا نہیں ہوتا۔‘‘ لیلا بے چاری خاموش ہو جاتی۔
’’وہ؟‘‘ مائی مسکرائے جا رہی تھی، ’’وہ یہاں بھی رہتا ہے وہاں بھی رہتا ہے۔ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں وہ نہ رہتا ہو۔ وہ بارڈر کے ادھر بھی رہتا ہے بارڈر کے ادھر بھی رہتا ہے۔ وہ تو۔۔۔‘‘راحتاں نے بےقرار ہو کر مائی کی بات کاٹی، ’’ہائے ایسا کون ہے وہ؟‘‘ اور مائی نے اسی طرح مسکراتے ہوئے کہا، ’’خدا بیٹی اور کون ہے!‘‘
بی بی جی کے لفظ پر میرے جسم میں بھی سنسنی دوڑ گئی۔ اندر جھانکا تو صحن خالی تھا پلٹ کر دیکھا تو وہ جا چکی تھی۔ ٹھیک ہے! میں نے سوچا، اچھی لڑکی ہے! پیاری بھی ہے! شوخ بھی ہے! سب کچھ ہے مگر آخر موچی کی لڑکی ہے اور خاندان کے بزرگ کہہ گئے ہیں کہ بلندی پر کھڑے ہو کر گہرے کھڈ میں نہیں جھانکنا چاہیے ورنہ آدمی گر جاتا ہے۔
اتنے میں منشی جی نے دروازے میں سر ڈال کر اندر دیکھا۔ میرے ایک ہاتھ میں استرہ تھا اور دوسر ے ہاتھ میں بلی کی دم! خانم برابر کھڑی تھی۔ منشی جی آگ بگولا ہو گئے، اندر آئے غصہ کے مارے ان کی شکل چڑی تن کے باشاہ کی سی تھی۔ ’’لاحول ولا قوۃ’’ مٹھی بھینچ کر منشی جی بولے ’’موکل۔‘‘ اور پھر دانت پیس کر بہت زور لگایا مگر نہایت آہستہ سے کہ موکل جو باہر کھڑا تھا وہ سن نہ لے۔ ’’موکل‘‘ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ کوئی مقدمہ نہ آئےگا۔۔۔ یہ وکالت ہو رہی ہے؟ منشی جی نے ہاتھ سے کمرہ کی لوٹ پوٹ حالت کو دیکھ کر کہا۔
لیکن شادی کے بعد اللہ جل شانہ کی رحمتوں نے ایک اور صورت اختیار کر لی۔ مولوی ابل کے یہاں اولاد کا کچھ ایسا تانتا بندھ گیا کہ جب ایک سال اس کی بیوی کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تو وہ سیدھا حکیم کے ہاں دوڑا گیا۔ اسے یقین تھا کہ بچہ نہیں ہوا تو زیب ا نساء کے نظام تخلیق میں کوئی گڑبڑ پیدا ہو گئی ہے۔ زیب انساء کے یہاں بچہ نہ ہونا ایسا ہی تھا جیسے پوری رات گ...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books