aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "पिटाई"
دسویں میں صندلی نامہ، فسانۂ آزاد اور الف لیلیٰ ساتھ ساتھ چلتے تھے، فسانۂ آزاد اور صندلی نامہ گھر پر رکھے تھے، لیکن الف لیلیٰ سکول کے ڈیسک میں بند رہتی۔ آخری بینچ پر جغرافیہ کی کتاب تلے سند باد جہازی کے ساتھ ساتھ چلتا اور اس طرح دنیا کی سیر کرتا۔ بائیس مئی کا واقعہ ہے کہ صبح دس بجے یونیورسٹی سے نتیجہ کی کتاب ایم۔ بی ہائی سکول پہنچی۔ امی چند نہ صرف س...
مریم کے خیال میں ساری دنیا میں بس تین ہی شہر تھے۔ مکہ، مدینہ اور گنج باسودہ۔ مگر یہ تین تو ہمارا آپ کا حساب ہے، مریم کے حساب سے مکہ، مدینہ ایک ہی شہر تھا۔ ’’اپنے حجور کا شہر۔‘‘ مکے مدینے سریپ میں ان کے حجور تھے اور گنج باسودے میں ان کا ممدو۔ ممدو ان کا چھوٹا بیٹا تھا۔ اس کے رخسار پر ’’اِتّا بڑا‘‘ ناسور تھا۔ بعد میں ڈاکٹروں نے ناسور کاٹ پیٹ کر رخسار میں ایک کھڑکی بنا دی تھی جس میں سے ممدو کی زبان پانی سے نکلی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپتی رہتی تھی۔ مجھے یاد ہے پہلی بار مریم نے اماں کو سرجری کا یہ لطیفہ سنایا تو میں کھی کھی کر کے ہنسنے لگا تھا۔ اگر مریم اپنے کھردرے ہاتھوں سے کھینچ کھانچ کے مجھے اپنی گود میں نہ بھر لیتیں تو میری وہ پٹائی ہوتی کہ رہے نام اللہ کا۔ ’’اے دلھین! بچہ ہے۔ بچہ ہے ری دلھین! بچہ ہے۔‘‘ مگر اماں نے غصّے میں دو چار ہاتھ جڑ ہی دیئے جو مریم نے اپنے ہاتھوں پر روکے اور مجھے اٹھا کر اپنی کوٹھری میں قلعہ بند ہو گئیں۔ میں مریم کے اندھیرے قلعے میں بڑی دیر تک ٹھس ٹھس کر کے روتا رہا۔ وہ اپنے اور میرے آنسو پونچھتی جاتی تھیں اور چیخ چیخ کر خفا ہو رہی تھیں۔ ’’اے ری دلھین، یہ اللہ کی دین ہیں۔۔۔ نبیؐ کے امتّی ہیں۔ انہیں مارے گی، کوٹے گی تو اللہ نبیؐ کھش ہوں گے تجھ سے؟ توبہ کر دلھین! توبہ کر۔‘‘
’’جب میری دونوں آنکھیں سلامت تھیں‘‘، جیکسن مسکرایا۔ کسی نہ کسی طرح ڈار تھی ہتھے چڑھ گئی۔ کم بخت کنواری بھی نہیں تھی مگر ایسے فیل مچائے کہ باپ کی مخالفت کے باوجود شادی کرلی۔ شاید وہ اپنی شادی سے نا امید ہوچکی تھی اور خود اسکی گھات میں تھی۔
بھئی! یہ بزرگ ہمیں کام کرنے دیں تو ہم کام کریں۔ جب ذرا ذرا سی بات پر ہم پر تھپڑوں کی بارش ہونے لگے تو بس ہو چکا کام۔اصل میں جھاڑو دینے سے پہلے ذرا سا پانی چھڑک لینا چاہئے تاکہ گردوغیرہ بیٹھ جائے۔ بس ہمارے ذہن میں یہ خیال آتے ہی فوراً دری پر پانی چھڑکا گیا۔ ایک تو ویسے ہی گرد میں اٹی ہوئی تھی۔ اس کے اوپر پانی پڑتے ہی ساری گرد کیچڑ بن گئی۔
पिटाईپٹائی
battering, beating, thrashing
مدن کئی بار سندر کو لے کر میرے ہاں آئی۔ سندر اپنے نام کی طرح حسین اور نو عمرتھا، مدن سے کسی طرح بڑا نہ معلوم ہوتاتھا۔ نیانیا کالج سے آیا تو بھوکے بنگالی کی طرح چومکھے عشق لڑانے شروع کردیے۔اسی چھین جھپٹ میں مدن اسے اڑالائی۔ اچھے گھرانے کاقہقہہ باز اور باتونی لڑکا پہلی ہی دفعہ گھر میں ایسا بے تکلف ہوگیا جیسے برسوں سے آتا جاتا ہے۔اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ کیوں مدن اسے دل سے بیٹھی۔ اس کی صحبت میں ایک لمحہ بھی اداس نہیں گزرتا تھا۔ مدن جیسی پٹی پٹائی، غم نصیب لڑکی کے لیے ذرا سی نرمی بھی چھلکا دینے کو کافی تھی۔ وہ سندر کے ہر حملے پر بے تحاشہ قہقہے لگاتی۔ وہ بات پر نہیں، اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ پر، لبوں کی جنبش پر مسحور ہوکر کھکھلا پڑتی۔ مسرت کی اچھلتی کودتی موجیں اسے جھکول ڈالتیں۔ سندر کے لب ہلتے اور وہ قہقہہ مارتی، پانی پیتی ہوتی تو اُچھّولگ جاتا، کھانا کھاتی ہوتی تو منہ کا نوالہ سامنے بیٹھنے والے کے اوپر چھڑک دیتی۔
.My God! What a lovely home is this home!sweet homeصغراں بی بی کا رنگ ہلدی کی طرح ہے اور ہلدی ٹی بی کے مرض میں بےحد مفید ہے۔ اس کے ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں ہیں۔ مہینے کے آخر میں جب اس کا خاوند اسے پیٹتا ہے تو ان میں سے اکثر ٹوٹ جاتی ہیں۔ چنانچہ اب وہ اس ہر ماہ کے خرچ سے بچنے کے لیے سونے کے موٹے کنگن بنوا رہی ہے۔ کم از کم وہ ٹوٹ تو نہیں سکیں گے۔ صغراں بی بی کے چاروں بچوں کا رنگ بھی زرد ہے اور ہڈیا ں نکلی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے انہیں کیلشیم کے ٹیکے لگاؤ۔ ہر روز صبح مکھن، پھل، انڈے، گوشت اور سبزیاں دو۔ شام کو اگر یخنی کا ایک ایک پیالہ مل جائے تو بہت اچھا ہے اور ہاں انہیں جس قدر ممکن ہو گندے کمروں، بد بو دار محلوں اور اندھیری کوٹھریوں سے دور رکھو۔
لیکن اللہ پٹائی سے بچانا مجھ کوجوتا چپل نہ پڑے دہر میں کھانا مجھ کو
’’ریشم بنا رہے ہیں!‘‘ ہم نے نہایت غرور سے کہا اور پھر نسخے کی تفصیل بتائی۔اور پھر گھر میں وہی قیامت صغریٰ آ گئی جو عموماً ہماری چھوٹی موٹی حرکتوں پر آ جانے کی عادی ہو چکی تھی۔ ناشکری آپا نے ہماری سخت پٹائی کی۔
’’میری بندوق کیا ہوئی؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ مگر اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ اسے معلوم ہے۔ شاید اس نے چھپائی ہے، یا چرائی ہے۔’’بولتا کیوں نہیں؟‘‘ میں نے ڈانٹ کر کہا۔ تب حقیقت معلوم ہوئی کہ ممدو نے میری بندوق چرا کر اپنے چند دوستوں کو دے دی تھی، جو دریاگنج میں مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ہتھیاروں کا ذخیرہ جمع کر رہے تھے۔
آپ پوچھیں گے کہ میرے دل میں ایسا خیال کیوں آیا؟ آپ اسے خیال کہہ رہے ہیں؟ جناب یہ تو میری آرزو ہے، ایک دیرینہ تمنا ہے۔ یہ خواہش تو میرے دل میں اس وقت سے پل رہی ہے، جب میں لڑکے لڑکی کا فرق بھی نہیں جانتی تھی۔ اس آرزو نے اس دن میرے دل میں جنم لیا، جب پہلی بار میرے بھائی کو مجھ پر فوقیت دی گئی، ’جب‘ اور’اب‘ میں اتنا ہی فرق ہے کہ جب میں یہ سوچا کرت...
’’میں یہاں قریب ہی رہتا ہوں۔ وائف پچھلے سال فوت ہو گئیں۔ اب شدید تنہائی ہے۔۔۔بارہ کنال کی کوٹھی۔۔۔غسل خانے ریلوے اسٹیشن کے غسل خانوں سے مشابہہ ہیں۔ کسی کا شاور چلتا ہے تو رکتا نہیں۔۔۔ڈبلیو سی ایسے رستے ہیں کہ ٹائلز میں اورنج رنگ کا زنگ لگ گیا ہے۔۔۔ٹائلیں چکٹ۔۔۔پردے گرا چاہتے ہیں۔ قالینوں پر چلو تو مٹی دھب دھب اٹھتی ہے۔ جب گھر والی نہ رہے تو گھر کہا...
جب میں اپنے استادوں کا تصور کرتا ہوں تو میرے ذہن کے پردے پر کچھ ایسے لوگ ابھرتے ہیں جو بہت دلچسپ، مہربان، پڑھے لکھے اور ذہین ہیں اور ساتھ ہی میرے محسن بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کا خیال کر کے مجھے ہنسی بھی آتی ہے اور ان پر پیار بھی آتا ہے۔ اب میں باری باری ان کا ذکر کروں گا۔جب میں باغ ہالار اسکول (کراچی) میں کے جی کلاس میں پڑھتا تھا تو مس نگہت ہماری استانی تھیں۔ مار پیٹ کے بجائے بہت پیار سے پڑھاتی تھیں۔ صفائی پسند اتنی تھی کہ گندگی دیکھ کر انہیں غصہ آ جاتا تھا اور کسی بچے کے گندے کپڑے یا بڑھے ہوئے ناخن دیکھ کر اس کی ہلکی پھلکی پٹائی بھی کردیتی تھیں۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ ایک دفعہ میرے ناخن بڑھے ہوئے تھے اور ان میں میل جمع تھا۔ مس نگہت نے میرے ناخنوں پر پیمانے سے (جسے آپ اسکیل یا فٹا کہتے ہیں) مارا۔ چوٹ ہلکی تھی لیکن اس دن میں بہت رویا۔ لیکن مس نگہت نے گندے اور بڑھے ہوئے ناخنوں کے جو نقصان بتائے وہ مجھے اب تک یاد ہیں اور اب میں جب بھی اپنے بڑھے ہوئے ناخن دیکھتا ہوں تو مجھے مس نگہت یاد آ جاتی ہیں اور میں فوراً ناخن کاٹنے بیٹھ جاتا ہوں۔
’’اب پٹائی ہوگی۔‘‘نعیمہ نےاس کی بات کا کچھ جواب نہ دیا، ہاں ہتھیلیوں کو دیوار پہ اور زیادہ سختی سے رگڑنا شروع کردیا۔
’’ارے ڈر آدمی سے نہیں، پولیس سے لگتا ہے رے۔ تو تو۔۔۔‘‘اماں بولتے بولتے چپ ہو گئیں۔۔۔ راجہ ایک بار ڈکیتی کے الزام میں دھر لیا گیا تھا تو پولیس نے اس کی زبردست پٹائی کی تھی۔ بعد میں الزام ثابت نہیں ہونے پر وہ چھوٹ گیا تھا اور محلے کی حلوائی کی دکان سے مفت دودھ پی پی کے اس نے ساری کسر پوری کر لی تھی۔ کوئی اس کے سامنے اس واقعے کو زبان پر بھی نہ لاتا تھا۔ بس ایک اماں تھیں جو اس کو من و عن یاد رکھے ہوئے تھیں اور راجہ کو اس سے ڈرانے کی کوشش بھی کرتی تھیں۔ راجہ جھنجھلا گیا۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books