aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "मंदिर"
بھارتی اردو مندر، لکھنؤ
ناشر
بھارت پرکاشن مندر، علی گڑھ
راشٹریہ پرکاشن مندر، لکھنؤ
سارانش ساہتیہ مندر، ممبئی
ونود پستک مندر، آگرہ
سرسوتی مندر، بنارس
کلا مندر پرکاشن، بھوپال
ہندی ساہتیہ مندر بنارس
ارچنا پستک مندر، میرٹھ
ادبی مندر پبلیشرز، (جالندھر) دہلی
شانتی پستک مندر، دہلی
عطیہ کار
ودیا مندر لمیٹڈ، دہلی
ساہتیہ مندر پریس لمیٹیڈ، لکھنؤ
سید شاہ مدار عقیل
مصنف
سرسوتی پرکاشن مندر، الٰہ آباد
دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھمندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں
قرآن نہ ہو جس میں وہ مندر نہیں تیراگیتا نہ ہو جس میں وہ حرم تیرا نہیں ہے
چراغ گھر کا ہو محفل کا ہو کہ مندر کاہوا کے پاس کوئی مصلحت نہیں ہوتی
شیخ صاحب برہمن سے لاکھ برتیں دوستیبے بھجن گائے تو مندر سے ٹکا ملتا نہیں
جب تک مندر اور مسجد ہیںمشکل میں انسان رہے گا
توبہ خمریات کی شاعری کا ایک بنیادی لفظ ہے اس کے استعمال سے شاعروں نے نئے نئے مضامین پیدا کئے ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ توبہ کے موضوع کی خشکی ایک بڑی شوخی میں تبدیل ہوگئی ہے ۔ شراب پینے والا کردار ناصح کے کہنے پرشراب پینے سے توبہ کرتا ہے لیکن کبھی موسم کی خوشگواری اورکبھی ابلتی ہوئی شراب کی شدت کے سامنے یہ توبہ ٹوٹ جاتی ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اوران شوخیوں سے لطف لیجئے ۔
मंदिरمندر
a temple, a pagoda
ان پورنا کا مندر
شریمتی نراپما دیوی کماری
ناول
مندر استھاپتیہ کا اتہاس
سچیدانند سہائے
ہندوستانی تاریخ
سیر المدار
ظہیر احمد شاہ ظہیری سہسوانی
مطبوعات منشی نول کشور
دل ایک مندر
فلمی نغمے
رکت مندر
کشواہا کانت
شمارہ نمبر۔045
مشیرمادر
مرگاوتی
شیخ قطبن
تصوف
مدر انڈیا
مندر کا دیپ
شاعری
ضمیر عاقل شاہی
شمارہ نمبر۔006
001
مولوی سید ممتاز علی
Jan 1905مشیرمادر
گلی گلی، محلّے محلّے میں ’’پھر بساؤ‘‘ کمیٹیاں بن گئی تھیں اور شروع شروع میں بڑی تندہی کے ساتھ ’’کاروبار میں بساؤ‘‘، ’’زمین پر بساؤ‘‘ اور ’’گھروں میں بساؤ‘‘ پروگرام شروع کردیا گیا تھا۔ لیکن ایک پروگرام ایسا تھا جس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی تھی۔ وہ پروگرام مغویہ عورتوں کے سلسلے میں تھا جس کا سلوگن تھا ’’دل میں بساؤ‘‘ اور اس پروگرام کی نارائن باوا کے م...
او دیس سے آنے والے بتاکیا اب بھی مہکتے مندر سے
دیویاں پہنچیں تھیں اپنے بال بکھرائے ہوئےدیوتا مندر سے نکلے اور پجاری ہو گئے
پھر مورت سے باہر آ کر چاروں اور بکھر جاپھر مندر کو کوئی میراؔ دیوانی دے مولا
ایک فصیح البیان مقرر تقریر کر رہے ہیں، ’’معلوم نہیں وہ کیا مصلحت تھی جس کے زیرِ اثر اس ناپاک طبقے کو ہمارے اس قدیمی اور تاریخی شہر کے عین بیچوں بیچ رہنے کی اجازت دی گئی۔‘‘ اس مرتبہ ان عورتوں کے لیے جو علاقہ منتخب کیا گیا وہ شہر سے بارہ کوس دور تھا۔
کیا جانیے یہ کیا کھوئے گا کیا جانئے یہ کیا پائے گامندر کا پجاری جاگتا ہے مسجد کا نمازی سوتا ہے
مندر گئے مسجد گئے پیروں فقیروں سے ملےاک اس کو پانے کے لئے کیا کیا کیا کیا کیا ہوا
(۱)بینی مادھو سنگھ موضع گوری پور کے زمیندار نمبر دار تھے۔ ان کے بزرگ کسی زمانے میں بڑے صاحب ثروت تھے۔ پختہ تالاب اور مندر انھیں کی یاد گار تھی۔ کہتے ہیں اس دروازے پر پہلے ہاتھی جھومتا تھا۔ اس ہاتھی کا موجودہ نعم البدل ایک بوڑھی بھینس تھی جس کے بدن پر گوشت تو نہ تھا مگر شاید دودھ بہت دیتی تھی۔ کیونکہ ہر وقت ایک نہ ایک آدمی ہانڈی لئے اس کےسر پر سوار رہتا تھا۔ بینی مادھو سنگھ نے نصف سے زائد جائیداد وکیلوں کی نذر کی اور اب ان کی سالانہ آمدنی ایک ہزار سے زائد نہ تھی۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books