aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "लर्ज़ी"
مکتبہ قدسی بستی لارجی، صادق آباد، پاکستان
ناشر
’’میں صبح سے یہاں جھک مار رہا ہوں۔۔۔ ناشتہ کیا ہے نہ دوپہر کا کھانا کھایا ہے حالانکہ میرے پاس پیسے موجود تھے۔‘‘ آواز آئی، ’’میری جب مرضی ہوگی ٹیلی فون کروں گی۔۔۔ آپ۔۔۔‘‘...
میں لرز گئی۔ صرف محبت کے فقرے سننا اور اپنے چاہنے والے کا چہرہ نہ دیکھنا کس قدر عجیب ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کہیں دور سے ایک ملکوتی راگ میرے کانوں میں پہنچ رہا ہے۔ میں ازخود رفتہ ہوکر ڈاکٹر پر گر پڑی۔ میری زبان سے صرف...
ہیبت خان اچھے قد کاٹھ کا آدمی تھا۔ اس کا جسم گٹھا ہوا تھا۔ خوبصورت تھا۔ اس کی بانھوں میں نواب نے پہلی بار بڑی پیاری حرارت محسوس کی تھی۔ اس کو جسمانی لذت کی الف بے اسی نے سکھائی تھی۔ وہ اس سے محبت کرنے لگی تھی۔ یوں کہیے...
چائے آئی تو شفقت، نگہت سے مخاطب ہوا، ’’اٹھیے، چائے بنائیے۔۔۔ یہ پرولج لیڈیز کا ہے۔‘‘ نگہت خاموش رہی لیکن طلعت پھدک کر اٹھی، ’’بھائی جان میں بناتی ہوں۔‘‘...
وہی۔۔۔ وہی لڑکی یعنی سوداگروں کی نوکرانی میونسپلٹی کی لالٹین کے نیچے کھڑی تھی۔ صرف ایک سفید بنیان پہنےلیمپ کی روشنی میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس کے بدن پر برف کی ایک پتلی سی تہہ جم گئی ہے۔ اس کے بنیان کے نیچے، اس کی بدنما چھاتیاں، ناریلوں...
شمع رات بھر روشی لٹانے کیلئے جلتی رہتی ہے ، سب اس سے فیض اٹھاتے ہیں لیکن اس کے اپنے دکھ اور کرب کو کوئ نہیں سمجھتا ۔ کس طرح سے سیاہ کالی رات اس کے اوپر گزرتی ہے اسے کوئی نہیں جانتا ۔ تخلیق کاروں نے روشنی کے پیچھے کی ان تمام ان کہی باتوں کو زبان دی ہے ۔ خیال رہے کہ شاعری میں شمع اور پروانہ اپنے لفظی معنی اور مادی شکلوں سے بہت آگے نکل کر زندگی کی متنوع صورتوں کی علامت کے طور پر مستعمل ہیں ۔
’’کیسے ہوتے ہیں جیسے دنیا جہان میں ہوتے ہیں۔۔۔ ویسے ہی ہوئے ہوں گے۔۔۔‘‘ ’’میرا مطلب ہے چارسال میں۔۔۔‘‘...
اور جب اللہ اللہ کر کے پھر وہ دن آیا تو پیروں مریدوں کے علاوہ دہلی کے ڈاکٹر بھی اپنے سارے تیر تفنگ لے کر تعینات ہوگئے۔ خدا کے کرم سے انگنا مہینہ لگا اور بھابی جان صابن کے بلبلے کی طرح روئی کے پھولوں پر رکھی جانے لگیں۔ کسی...
ان میں سے ایک نے بچھڑے کی رسی پکڑی تھی۔ نکے کی زبان لرزی تھی۔ گائے کچھ سوچتی، قدم اٹھاتی، رکتی چلتی، بچھڑے کے پیچھے پیچھے اس کے قریب سے گزری تھی تو آہستہ آہستہ سے نکے کی زبان سے گالی پھسلی تھی۔ بچھڑا تختے پر چڑھ کے پٹوسیاں مارتا...
ہائے مجھ سے نہ دیکھا جائے آیا ہوا کا جھونکا آیاڈالیاں لرزیں ٹہنیاں کانپیں لو وہ سوکھا پتا ٹوٹا
پیٹھ پر نا قابل برداشت اک بار گراںضعف سے لرزی ہوئی سارے بدن کی جھریاں
آنکھ کی منڈیروں پر آرزو نہیں لرزیاک چراغ کی لو سے اک چراغ اوجھل تھا
صمد میاں چھ سال انگلستان رہ کر لوٹے تو بیٹے کی سلامتی کی خوشی میں توفیق جہاں نے میلاد شریف کروایا تھا۔ بریلی والے میاں خاص طور پر میلاد پڑھنے تشریف لائے تھے۔ سب عورتیں اندر والے گول کمرے میں بیٹھی ثواب لوٹ رہی تھیں۔ لڑکیاں بالیاں چک سے لگی...
مرے ہاتھ بھیگے ہوئے صداؤں کے خوف سےمری سانس لرزی ہوئی ہوا کی مچان پر
آئے محفل میں تو لرزی ہیں چراغوں کی لویںان کے دیدار سے ہے شوخ گل ناز کا رنگ
زباں لرزی نہ کوئی دکھ ہوا آواز میں شاملشکست خواب کا نوحہ
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books