aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "समाया"
سمیعہ نسیم
شاعر
سمیہ رضوان
مصنف
سید خالد جامعی، عمر حمید ہاشمی، سمیہ ایوبی
مجلس فراہمی سرمایہ جامعہ نظامیہ، حیدرآباد
ناشر
دفتر سرمایہ تصوف لاہور
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیارہو گئی کس کی نگہ طرز سلف سے بے زار
سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی پھر کہا، ’’میں سمجھ گئی۔‘‘ ’’تو کہو، کیا ارادہ ہے؟‘‘...
جو اک نسل فرومایہ کو پہنچےوہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم
اس گھر میں نہ ہو کر بھی فقط تو ہی رہے گادیوار و در جاں میں سمایا ہوا تو ہے
عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شایدخود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا
ہولی موسم بہار میں منایا جانے والا ایک مقدس مذہبی اور عوامی تہوار ہے۔ اس دن لوگ ایک دوسرے پر رنگ پھینک کر محظوظ ہوتے ہیں، گھروں کے آنگن کو رنگوں سے سجایا جاتا ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب ہولی کے مختلف رنگوں سے مزین ہے ۔ جس میں ہندوستان کے عوامی سروکار اور اتحاد باہمی کی فضا ہموار ہے ۔ یہ انتخاب پڑھیے اور دوستوں کو شریک کیجیے۔
سایہ شاعری ہی کیا عام زندگی میں بھی سکون اور راحت کی ایک علامت ہے ۔ جس میں جاکر آدمی دھوپ کی شدت سے بچتا ہے اور سکون کی سانسیں لیتا ہے ۔ البتہ شاعری میں سایہ اور دھوپ کی شدت زندگی کی کثیر صورتوں کیلئے ایک علامت کے طور پر برتی گئی ہے ۔ یہاں سایہ صرف دیوار یا کسی پیڑ کا ہی سایہ نہیں رہتا بلکہ اس کی صورتیں بہت متنوع ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح دھوپ صرف سورج ہی کی نہیں بلکہ زندگی کی تمام ترتکلیف دہ اور منفی صورتوں کا استعارہ بن جاتی ہے ۔
समायाسمایا
filled-up
منٹو کا سرمایۂ فکر و فن
نگار عظیم
تنقید
سرمایۂ سخن
علی سردار جعفری
لغات و فرہنگ
سرمایہ غزل
ناصر کاظمی
اشعار
سرمایۂ غزل
سرور ساجد
انتخاب
سرقے کی روایت تاریخ کی روشنی میں
تحقیق
سرمایۂ ادب
محمد نعمان خاں
اشاریہ
دھوپ سمندر سایہ
صلاح الدین پرویز
تنقیدی سرمایہ
عبدالشکور
حرف دل
خواتین کی تحریریں
خوشبوئے وفا
مجموعہ
سرمایۂ تغزل
افسر صدیقی امروہوی
کلیات
بدلتے منظر
قرآن پر عمل
میرا سایا
فلمی نغمے
بدن چراتے ہوئے روح میں سمایا کرمیں اپنی دھوپ میں سویا ہوا ہوں سایا کر
اکثر لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ میں اپنے وطن کا ذکر کبھی نہیں کرتا۔ بعض اس بات پر بھی حیران ہیں کہ میں اب کبھی اپنے وطن کو نہیں جاتا۔ جب کبھی لوگ مجھ سے اس کی وجہ پوچھتے ہیں تو میں ہمیشہ بات کو ٹال...
یہ بار غم عشق سمایا ہے کہ ناسخؔہے کوہ سے دہ چند گرانی مرے دل کی
وہ پہلے صرف مری آنکھ میں سمایا تھاپھر ایک روز رگوں تک اتر گیا مجھ میں
ہم آج کہیں دل کھو بیٹھےآنکھوں میں سمایا کوئی مگر
اے شخص جو تو آکر یوں دل میں سمایا ہےتو درد کہ درماں ہے تو دھوپ کہ سایا ہے؟
سمایا جاتا ہے جیسے کوئی رگ رگ میں دل بن کریونہی غم میں کوئی شے اور بھی محسوس ہوتی ہے
میں دکاندار سے اجازت لے کر ان کتابوں کو ایک نظر دیکھنے میں مشغول ہوگیا۔ ہر کتاب کے شوخ رنگ سرورق پر اس قسم کی کوئی نہ کوئی عبارت لکھی ہوئی تھی۔ ’’ ناممکن ہے کہ اس کا مطالعہ آپ پر سنسنی طاری نہ کردے۔‘‘...
تمہارے کوچے میں ہر روز وہ قیامت ہےکہ سایہ ڈھونڈ رہا ہے کہیں پناہ ملے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books