aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "sar-e-aam"
سعد اے دلوی
ناشر
ساز سعید
مصنف
صدر عالم ندوی
مدیر
صدر عالم صاحب
صدر محکمہ معتمدی
صدر انجمن اسلامیہ، حیدرآباد
بزم ساز ادب نرمل، حیدرآباد
صدر عالم گوہر
born.1961
سرائے اردو پبلی کیشنز، پاکستان
بزم ساز و ادب، دہلی
دفتر صدر محاسب سرکار عالی
مدرسۃ الاصلاح سرائے میر، اعظم گڑھ
ادارئہ ساز ادب، حیدرآباد
سوز و ساز پریس
غالب جشن صدسالہ کمیٹی، ورانسی
اس تماشائے سر عام سے پہلے پہلےاذن کہرام ہوا بام سے پہلے پہلے
یہ شہر شہر سر عام اب منادی ہےنہ وہ رہے گا ملاقات کا جو عادی ہے
دل لگانے کی سر عام سزا دیتا ہےعشق انسان کو مجنوں سا بنا دیتا ہے
جلوؤں کو تیرے آج سر عام دیکھ کرشرمندہ ہوں میں ذوق نظر خام دیکھ کر
کیوں ملاتے ہو سر راہ سر عام آنکھیںبے سبب شہر میں ہو جائیں گی بدنام آنکھیں
تخلیق کارکی حساسیت اسے بالآخراداسی سے بھردیتی ہے ۔ یہ اداسی کلاسیکی شاعری میں روایتی عشق کی ناکامی سے بھی آئی ہے اوزندگی کے معاملات پرذرامختلف ڈھنگ سے سوچ بچار کرنے سے بھی ۔ دراصل تخلیق کارنہ صرف کسی فن پارے کی تخلیق کرتا ہے بلکہ دنیا اوراس کی بے ڈھنگ صورتوں کو بھی ازسرنوترتیب دینا چاہتا ہے لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتا ۔ تخلیقی سطح پرناکامی کا یہ احساس ہی اسے ایک گہری اداسی میں مبتلا کردیتا ہے ۔ عالمی ادب کے بیشتر بڑے فن پارے اداسی کے اسی لمحے کی پیداوار ہیں ۔ ہم اداسی کی ان مختلف شکلوں کو آپ تک پہنچا رہے ہیں ۔
اپنے غیر روایتی خیالات کے لئے معروف پاکستانی شاعرہ ۔ کم عمری میں خود کشی کی۔
کسی کو رخصت کرتے ہوئے ہم جن کیفیتوں سے گزرتے ہیں انہیں محسوس تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا اظہار اور انہیں زبان دینا ایک مشکل امر ہے، صرف ایک تخلیقی اظہار ہی ان کیفیتوں کی لفظی تجسیم کا متحمل ہوسکتا ہے ۔ ’’الوداع‘‘ کے لفظ کے تحت ہم نے جو اشعار جمع کئے ہیں وہ الوداعی کیفیات کے انہیں نامعلوم علاقوں کی سیر ہیں۔ آپ وداعی جذبات کو ان کے ذریعے بیان کر سکتے ہیں۔
सर-ए-आमسر عام
in public
سر عام
ظفر اقبال
شاعری
سر وادیٔ سینا
فیض احمد فیض
مجموعہ
وقائع سیرو سیاحت ڈاکٹر برنیر
سید محمد حسین
سر شاخ تمنا
عمر فرحت
غزل
شارع عام
قمر قریشی
رومانی
سازرگ جاں
میکش کشمیری
سر شاخ طلب
سلطان اختر
سر آب رواں
سید انجم جعفری
سیر کراچی
بابو عبدالحلیم انصاری ناگپوری
سیر روحانی
محمد بشیرالدین
مختصر سیر گلشن ہند
مطبوعات منشی نول کشور
سازمغرب
حسن الدین احمد
چراغاں سرخواب
سدباب ذریعہ
سر لوح شام فراق پھر
سباس گل
اب سر عام جدا ہوتے ہیں سر شانوں سےاب یہ منظر ہے تعجب کا نہ حیرانی کا
میں کہہ رہا ہوں سر عام برملا باباگمان ہے بھرے میلے میں کھو گیا بابا
سر شام لٹ چکا ہوں سر عام لٹ چکا ہوںکہ ڈکیت بن چکے ہیں کئی شہر کے سپاہی
شاہ عالم کو سر عام سنا بیٹھا ہوںمیرے مولا تری چوکھٹ سے لگا بیٹھا ہوں
کھل کر نہ سر عام ہو اظہار بھلے ہیہے بغض کریں ہم سے وہ انکار بھلے ہی
محفل میں جانے کیسے سر عام آ گیاآخر زباں پہ اس کے مرا نام آ گیا
بر سر عام اقرار اگر نا ممکن ہے تو یوں ہی سہیکم از کم ادراک تو کر لے گن بے شک مت مان مرے
کل اس کا ذکر سر خاص و عام ایسا تھانہ چھپ سکا کہ وہ ماہ تمام ایسا تھا
یار تو قتل عام کر ڈالےتیغ باندھے کہاں کمر ہی نہیں
حالت قلب سر بزم بتاؤں کیوں کرپردۂ دل میں ہے اک پردہ نشیں کا لالچ
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books