Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

۱۳

MORE BYانور سجاد

    میں ایمپلائمنٹ ایکسچینج کے سامنے سر جھکائے لوگوں کی قطار میں کھڑا ہوں۔ سب سے اگلے آدمی کی ناف سے لے کر سب سے پچھلے آدمی کی ناف تک ایک سرنگ ہے۔ اس تاریک سرنگ میں کیڑے رینگ رہے ہیں۔

    میں سرنگ کی دیواروں کو ٹٹولتا، ٹھوکریں کھاتا دفتر کی کھڑکی تک پہنچا ہوں۔ ایمپلائمنٹ ایکسچینج کے کلرک نے ایک کاغذ تہہ کرکے میرے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔

    ’’اس کاغذ میں وہ تمام راز ہیں جن کے لیے تمہیں زندہ رہنا چاہیے۔‘‘

    اس نے فقرہ تان کر میرے سر میں مارا۔

    میں کھڑکی سے ہٹ کر خوشی خوشی کاغذ کی تہیں کھول کر اسے پڑھتا ہوں۔

    کاغذ بالکل کورا ہے۔

    ٹھک، ٹھک، ٹھک

    ابھی دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی تھی۔ میں نے کتاب سے نظریں اٹھائی ہیں اور کسی کو اپنے سامنے اوزار لیے کھڑا دیکھتا ہوں۔ کہتا ہے میرا میٹر بندکرنے کے لیے آیا ہے تاکہ وہ تمام بلب بجھ جائیں جن کی کرنوں کے جال میں میں پھنسا ہوں۔

    میں اسے یقین دلاتا ہوں کہ میرے گھر میں بجلی نہیں ہے۔ اگر کسی زمانے میں تھی تو محکمے والے بل کی عدم ادائیگی کے باعث میری بجلی کاٹ گئے ہیں۔ وہ اپنا غار سا منہ پھاڑے ہنس رہا ہے۔ اس کے لمبے لمبے گوشت خور دانتوں سے مجھے کوئی خوف نہیں آتا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑے پلاس سے ہوا کو کھٹکھٹایا ہے۔

    ٹھک، ٹھک، ٹھک،

    وہ میرا میٹر بند کرنے کے لیے انتظار میں کھڑا رہےگا اور میری آنکھیں اطمینان سے کتاب کے لفظ چنتی رہیں گی کیونکہ میرا میٹر تو خفیہ تہ خانے میں ہے۔

    یہ تہ خانہ کہاں ہے؟

    جانے میں اس کو ٹھری میں کب سے ہوں۔ خستہ دیواریں ایک دوسرے کے ساتھ خواہشوں سے بندھی کھڑی ہیں۔ ہر لحظہ یوں لگتا ہے جیسے خواہشوں کی گرہیں کھل جائیں گی۔

    کوٹھری میں کوئی روشنی نہیں لیکن میں دیکھ سکتا ہوں۔

    سامنے دیوار پر جمی چھپکلی کی آنکھیں بلب ہیں اور میری آنکھیں روشنی۔

    جانے ہم کب سے یوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں؟ اور دیکھتے رہیں گے؟ کبھی کبھی یہ سوال درد بن کر میرے سر میں دھڑکنے لگتا ہے۔

    میں گھر سے نکل آیا ہوں، لوگ کہتے ہیں کہ دن نکل آیا ہے۔ روشنی اتنی تیز ہے کہ کائنات سورج کا عکس پڑنے سے سیاہ ہو گئی ہے۔ میرے جوتے کچی گلی کی پکی اینٹوں کے ساتھ سازش کر رہے ہیں۔ میرے پیر اس سازش کا شکار ہو رہے ہیں اور میرے سر کی طرح دکھنے لگے ہیں۔

    مکڑی کے جالے ہیں یا شاید پلاٹینیم کے بنے ہوئے تار، میرے سر اور پیروں کے درمیان۔

    پیارے بچو! کہو خوش آمدید،

    انہوں نے مجھے اس جال سے لٹکتے دیکھ لیا ہے اور مختلف آوازے کسے ہیں۔ میں مسکرایا ہوں اور چشم زدن میں میری ساری مسکراہٹ لہو بن کر میرے ہونٹوں سے بہہ نکلی ہے۔

    آج ان کا نشانہ صحیح بیٹھا ہے۔ ان کی ہنسی مجھے دھکا دیتی ہے اور میں زمین پر اینٹوں اور میرے جوتوں کے درمیان میں میرے کانوں میں الٹے ٹیپ ریکارڈر چلنے لگتے ہیں۔

    خدا حافظ پیارے بڈھے۔

    ان میں سے ایک نے بڑی تیزی کے ساتھ میری طرف دیکھا ہے اور میری نظریں فوراً اپنے ہاتھ کی طرف اٹھ گئی ہیں،

    چھوٹا سا پیارا پیارا نرم نرم ہاتھ۔۔۔ اس ہاتھ میں پتھر ہے۔

    میں چلتی بس پر سوار ہوا ہوں جو بس سٹاپ پر رکتے رکتے چل دی تھی۔

    بجلی کے کھمبے، لوگ کاریں، تانگے، سائیکلیں، درخت الٹی طرف کو بھاگے جا رہے ہیں۔ میں ساکت ہوں۔ بالکل ساکت اور بس کی نشستوں پر صرف میری نگاہوں کے دھبے ناچ رہے ہیں۔

    گرڑ گرڑ۔۔۔ گرڑ گرڑ، بس کہیں رکتی نہیں۔ چلتی جا رہی ہے۔ لیکن مجھے اترنا کہاں تھا؟ اوہ ہاں، اچھا نہیں۔ اگلے سٹاپ پر سہی۔ اچھا، تو پھر اگلا سہی۔

    ایک جھٹکے کے ساتھ بس اچانک رک جاتی ہے۔ میں نے کنڈکٹر کو تلاش کرنا چاہا ہے تاکہ اسے ٹکٹ کے پیسے دے دوں لیکن بس میں کوئی نہیں۔ مسافر، کنڈکٹر نہ ڈرائیور۔

    یہ ڈرائیور کہاں چلا گیا؟ میں نے بس سے اتر کے ڈرائیور کو تلاش کرنا چاہا ہے، لیکن بس، بیابان کی خاموشی کا محور ہے۔ جانے کون سی جگہ ہے؟

    مجھے واپس چلنا چاہیے۔

    میں خود بس اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

    گھوں گھوں کی آواز آتی ہے اور پھر خاموشی۔ انجن میں شاید کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہے۔

    میں نے اترکر بونٹ اٹھاکر انجن میں جھانکا ہے۔ پنکھے کے پٹے میں میرا سر پھنسا ہوا ہے، ماتھے پر لکھا ہے۔۔۔ ڈرائیور۔

    موم بتی روشن ہے،

    سب سے باہر نیلا حلقہ، پھر نارنجی، پھر پیلا اور وسط میں سیاہ تلک، شعلہ منجمد ہے۔

    جانے کہاں سے ایک پروانہ یہ شعلہ چوری کرنے کے لیے آیا ہے۔ اس نے خاموشی سے غوطہ لگایا ہے، چور کا جال مشن روم بن کر آسمان کو اٹھا ہے۔ وہ ایک اور آیا، ایک اور موم مشن روم کے ستونوں میں چنی گئی ہے اور ساتھ ہی منجمد نیلے نارنجی اور پیلے حلقے، لیکن سیاہ تلک پتھر ہے۔

    میں اس پتھر کے آئینے میں محفوظ ہوں۔

    بہت تیز قسم کی بدبو ہے۔ ایمونیا اور انتڑیوں کے باسی، بی کو لائی فضا پر محیط ہیں۔

    گودام میں آکر گوشت اور اناج کی زندگی اور موت گڈمڈ ہو گئی ہے۔ بی کولائی میں زندگی ہے اور ایمونیا میں بھی اور یہ زندگی گودام کی موت۔۔۔ فرش پر کاکروچوں کی لاتعداد فوجیں گامزن ہیں۔

    یہ بدبو آ کہاں سے رہی ہے؟

    چند کاکروچ اپنی صفیں چھوڑ کر مجھ پر حملہ آور ہو گئے ہیں۔ ان کے جسموں سے نکلی آریاں اور خاردار منہ میرے پیروں پر چل رہے ہیں۔ میرے پیروں کا درد سفر کرتا گھٹنوں تک آ گیا ہے۔

    بول میری مچھلی کتنا پانی؟

    اب میرا آدھا نچلا دھڑ اپنی حسیات سمیت کاکروچوں میں منتقل ہو گیا ہے،

    ہرا سمندر۔ گوپی چندر،

    بول میری مچھلی کتنا پانی۔

    اتنا پانی

    مجھے بےطرح ہنسی آ رہی ہے، آخر یہ کا کروچ چاہتے کیا ہیں؟

    کیا کہیں یہ بدبو مجھ سے تو نہیں آ رہی؟

    کتنا پانی

    اتنا

    میں وہ بدبو ہوں جو اس شخص کے اندر جذب ہو رہی ہے جو کاکروچوں پر ہنس رہا ہے یا وہ شخص ہوں جو اپنا سارا وجود اور حسیات واپس لینے کے لیے کاکروچوں کے پیر چاٹ رہا ہے؟

    میرے سینے سے، تمغوں سے سجا، الٹی گڑی لاتعداد میخوں والا فل بوٹ اٹھا لو۔ مجھے سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔

    خوردبینی خلیوں سے بنے چھوٹے چھوٹے چیتھڑے سات رنگوں کا سر چشمہ ہیں۔

    دھنک پگھل کر سفید ہوئی ہے اور بہہ نکلی ہے اس سفید مادے کے پہلے قدم جمتے جاتے ہیں، دوسرے قدم اوپر سے پھسل کر پہلے بن جاتے ہیں اور سرخ ہو جاتے ہیں، سفید اور سرخ لہریں، پٹیاں، ایک کونے میں نیلے آسمان پر تارے، جمتے پھسلتے قدموں میں میرے قدم بھی ہیں اور میں نے بھی اس نیلے آسمان کے ٹکڑے پر اپنا ستارہ ٹانک دیا ہے۔

    میں دریا پر پکنک منانے آیا تھا؟ پتا نہیں۔ میں تنہا رہ گیا ہوں اور دریا میرے گرد نیلی، سرخ، سفید لہروں میں گھوم کے دائرہ سا بن گیا ہے۔ قوس، سفید، سرخ اور سر پر نیلے آسمان میں ستارے۔۔۔ پھن اٹھائے سانپ کی کنڈلی، جس میں قید ہوکر رہ گیا ہوں۔

    میں اس رنگ دار کنڈلی کے وسط میں بیٹھا خورد بین سے ان رنگوں کے خلیوں سے فرار کی راہ ڈھونڈ رہا ہوں۔ ستاروں جڑے نیلے پھن کے نیچے خوردبین کی آنکھ سے لاتعداد آنکھیں گھورتی ہیں۔

    ہر آنکھ میری آنکھ ہے،

    میں کس راہ سے نکلوں؟

    دیکھو میں کونے کے سرے کا چنا ہوا اور قیمتی پتھر رکھتا ہوں۔

    جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہ کونے کے سرے کا پتھر ہوا۔

    یا ٹھیس لگنے کا پتھر جو ٹھوکریں کھانے کو راستوں پر آیا۔۔۔ کیونکہ وہ نافرمان ہوئے۔

    پتھروں پر میرا نام کندہ ہے اور میں نے ہی پتھروں کے تخت پر بیٹھے شخص کے ہاتھوں میں وہ کتاب دیکھی جو کہ اندر سے اور باہر سے لکھی ہوئی تھی اور جسے مہریں لگاکر بند کیا گیا تھا۔

    کون ان مہروں کو توڑےگا؟

    میں نہیں توڑوں گا۔

    کون ان مہروں کو توڑےگا؟

    میں ہی توڑوں گا۔

    تب سے ان کے سروں میں ٹوٹتی مہروں کی آوازوں کے کنکھجورے رینگ رہے ہیں اور وہ بے بس ہیں۔

    سیاہی مائل سبز رنگ پیروں کے راستے ٹانگوں میں سفر کرتا ہوا میری گردن تک آ پہنچا ہے۔

    تار شارٹ سرکٹ ہو گئے ہیں اور بھک سے چمک کر میرے سر اور پیروں کے درمیان لکڑی کے جالوں پر لفظوں کو مصلوب دکھا گئے ہیں۔ لفظوں سے ٹپکتی بوندیں خاردار تاروں سے ٹپکتی ٹپکتی اٹک گئی ہیں۔ لاتعداد چیونٹیاں ان اٹکی، منجمد ہوتی بوندوں کا رس چوس کر لوٹتی ہیں اور راستے میں اس اور جاتی پیاسی چیونٹیوں کے کانوں میں سرگوشی کرتی ہیں اور کھلکھلاتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہیں۔

    ان کی کھلکھلاہٹ سے میرے سر اور پیروں کے درمیان تنے لکڑی کے جالوں پر مصلوب لفظوں میں گدگدی ہوتی ہے۔

    میرے جسم کے تین چوتھائی حصے سے، جو کہ پانی ہے، بلبلے ہنسی میں پھوٹ بہے ہیں۔ ان کے متعفن بھبکوں سے میرا سر چکرا رہا ہے۔ مجھے متلی ہو رہی ہے۔ میرا ایک ایک تار، تن رہا ہے۔ ڈھیلا ہو رہا ہے، تن رہا ہے۔

    اس کے لفظوں کے آخری سانس کیوں ختم نہیں ہوتے؟

    ایک لمحہ بس، ایک لمحہ۔

    یہ لمحہ پھیل کر ابدی ہو رہا ہے

    اور مجھے لطف آنے لگا ہے۔

    ’’یہ نالی میں اوندھا پڑا تھا۔‘‘

    یہ غلط کہتا ہے میں تازہ پھولوں کے تخت پر بیٹھا تھا۔

    ’’یہ لاوارث ہے، ہم اسے آپ کے پاس لے آئے ہیں۔‘‘

    ہاہاہاہاہا، جاہل

    ’’اس پر ٹیکے کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ میں نے اس کے لعاب دار گوشت کا خوردبینی معائنہ کیا ہے جو تصدیق کرتا ہے کہ اس کو پیروں کے انگوٹھوں سے لے کر گردن تک زہر باد ہو گیا ہے۔ اس کے سر کو بچانے کے لیے اسے جسم سے علیحدہ کرنا ضروری ہے۔‘‘

    ’’لیکن ڈاکٹر! مجھے کوئی تکلیف نہیں۔ میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔‘‘

    ’’نہیں تمہیں تکلیف ہے۔‘‘

    ’’نہیں۔ میں۔۔۔‘‘

    ’’بےوقوف۔۔۔ میں ڈاکٹر ہوں مجھے زیادہ علم ہے۔ تمہارے سر کو بچانے کے لیے اسے گلتے ہوئے بیمار جسم سے علیحدہ کرنا ازبس ضروری ہے۔‘‘

    شکریہ جناب! تھینک یو سر۔ مائی لارڈ کہ آپ نے اس فیصلے پر اتنا قلم توڑ کر اس ہیچمداں کو سرفراز کیا،

    یوں قتل ہونے میں بڑی لذت ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے