- کتاب فہرست 180427
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1642
طب537 تحریکات257 ناول3420 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی9
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1328
- دوہا61
- رزمیہ92
- شرح149
- گیت85
- غزل742
- ہائیکو11
- حمد31
- مزاحیہ38
- انتخاب1383
- کہہ مکرنی7
- کلیات628
- ماہیہ16
- مجموعہ3984
- مرثیہ328
- مثنوی678
- مسدس44
- نعت423
- نظم999
- دیگر41
- پہیلی14
- قصیدہ140
- قوالی9
- قطعہ51
- رباعی255
- مخمس18
- ریختی17
- باقیات27
- سلام28
- سہرا8
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی19
- ترجمہ80
- واسوخت24
انور سجاد کے افسانے
گائے
ایک روز انہوں نے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ اب گائے کو بوچڑ خانے میں دے ہی دیا جائے۔ اب اس کا دھیلا نہیں ملنا۔ ان میں سے ایک نے کہا تھا۔ ان مٹھی بھر ہڈیوں کو کون خریدے گا۔ لیکن بابا مجھے اب بھی یقین ہے۔ اگر اس کا علاج باقاعدگی سے۔ چپ
چوراہا
یہ دو سڑکیں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی آگے بڑھ گئی ہیں اور میں۔ اس نے بس سٹینڈ کے جنگلے سے اپنی کہنیاں ہٹائیں اور فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور میں، اچھا تو جس جگہ پر یہ سڑکیں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی آگے بڑھ گئی ہیں ان سڑکوں کی دونوں طرف گڑھے ہیں اور یہ بیچارے
جنم دن
’’اتنے شریف باپ کے بیٹے ہوکر بازار میں بنٹے کھیلتے ہو۔۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی۔‘‘ ’’باپ تو اس کا بہت مشہور آدمی ہے۔‘‘ ’’او جی۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے لوگوں کے اتنے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔۔۔ لیکن بیٹے کو دیکھیے پتنگ بازی کرتا ہے۔‘‘ ’’آوارہ۔۔۔ ضرور باپ
کونپل
بھرے بھرے چہرے پر جابرانہ انداز میں کھنچی آنکھیں، بھنچے ہونٹ، سیاہ نکٹائی کی امریکی گرہ میں پھنسی دوہری گردن، سیاہ کوٹ کی دائیں طرف، سینے کی جیب میں ریشمی رومال جس کا سرخ رنگ وقت کے ساتھ ساتھ فیڈ ہوتااب پیازی سا معلوم ہوتا ہے۔ داخلی دروازے کے سامنے دیوار
پتھر، لہو، کتا
تاریک رات۔ وہ شخص جس کی لوئی میں رات کا عکس ہے، جس کی زبان پر کانٹے اور پاؤں میں آبلے ہیں، جس کے جسم سے بہتا مڑکا پیاسی زمین پر ٹپکتا ہے، چاروں اور سے سمٹ کر آیا ہے اور اس کھنڈر کی طرف گامزن ہے جہاں ایک سیاہ پتھر پڑا ہے، جو کہ وقت سے پہلے موجود تھا۔
۱۳
میں ایمپلائمنٹ ایکسچینج کے سامنے سر جھکائے لوگوں کی قطار میں کھڑا ہوں۔ سب سے اگلے آدمی کی ناف سے لے کر سب سے پچھلے آدمی کی ناف تک ایک سرنگ ہے۔ اس تاریک سرنگ میں کیڑے رینگ رہے ہیں۔ میں سرنگ کی دیواروں کو ٹٹولتا، ٹھوکریں کھاتا دفتر کی کھڑکی تک پہنچا
سنڈریلا
کبھی وہ سوچتی: اس کی عمر ایک لمحہ ہے، کبھی وہ سوچتی: اس کی عمر سو سال ہے، کبھی وہ سوچتی: وہ عمر کی قید میں نہیں، یا شاید ابھی اسے جنم لینا ہے۔ وہ اس کمرے میں سدا سے قید تھی اور اس امید میں تھی کہ کوئی آئے اور اسے اس بطن سے جنوائے۔ پھر وہ سوچتی، کوئی
ہوا کے دوش پر
وہ اندھا دھند ہوائی جہاز جا رہا تھا۔ اس کے کانوں میں اسکواڈرن لیڈر کی آواز گونج رہی تھی کہ وہ اتنے فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا ہے۔ اس کی رفتار اتنے سومیل فی گھنٹہ ہے اور وہ کافی اڑان کر چکا ہے اس لیے اسے اب نیچے اتر آنا چاہیے۔ مگر اس نے سنی ان سنی
صلیب کے سائے میں
یہ کانونٹ اس پہاڑی پر واقع تھا جو اوروں سے بالکل الگ تھلگ تھی۔ اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے یہ پہاڑی میں راہبہ بن کر ہنگاموں کی دنیا سے نکل آئی ہو۔ ہنگاموں کی دنیا اور اس پہاڑی کے درمیان ایک پگڈنڈی نما ٹوٹی پھوٹی کولتار کی سڑک تھی جس پر چیڑ کے خشک
آنکھ اور سایہ
کوٹھری: 8.5X10 فٹ آہنی دروازہ: 5X3 فٹ آہنی دروازے کے بالکل سامنے کھڑکی: 3X2 فٹ کھڑکی کی سلاخیں، قطر:2 انچ سلاخوں سے باہر تاریکی آزاد، سلاخوں کے اندر تاریکی قید۔ ابھی تھوڑی دیر میں جب پرندے آسمان پر اندھیرے کا تعاقب کریں گے تو کچھ لوگ آئیں
وادیوں کی دھوپ
جب تک سورج ایک خاص زاویے پر نہیں آتا، وادیاں تاریک رہتی ہیں۔ سورج آنکھ کی ایک جھپکی میں اس زاویے کے کونے میں غروب ہو جاتا ہے اور وادیوں میں پھر بند آنکھ کی تاریکیاں چھا جاتی ہیں۔ اس وقت سورج اسی خاص زاویے پر ہے اور ابھی پلکوں کی چلمنیں نہیں گریں اور
رشتے
’’روشی۔ آج ڈاکٹر نے تم سے کیا کہا تھا؟ مجھے تو کچھ بتایا ہی نہیں۔‘‘ ’’کچھ نہیں بھیا۔ کہتا تھا کہ آپ اب جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘ ’’یہ بات تو میرے سامنے بھی کہہ سکتا تھا۔‘‘ ’’جج۔ جی بھیا۔ سچی، یہی کہا تھا۔‘‘ ’’ہوں۔۔۔ روشی! مجھے کب تک آرام آ
سیاہ جھنڈا
سفید گنبد کی چوٹی پر سیاہ رنگ کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور اس سیاہ جھنڈے کی چھاؤں میں زندگی مجسم دعا بن کر دروازوں سے لپٹی ہوئی تھی۔ انسانوں کا سیلاب تھا کہ امڈا چلا آتا تھا کیونکہ آج ان کے پیر و مرشد حضرت کاڑے شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے پہلے عرس کا پہلا
دیوار اور دروازہ
رات، دس بجنے میں پانچ منٹ۔ اس نے دروازے کی اوٹ میں ہوکر سوچا، ایک دفعہ اس دروازے سے باہر قدم رکھ لوں پھر میں آزاد ہی آزاد ہوں۔ لیکن ہسپتال کے پورچ میں بڑی تیز روشنی تھی اور چوکیدار ہاتھ میں ڈانگ لیے ٹہل رہا تھا۔ پورچ سے ذرا آگے سرمئی سے اندھیرے
کپاس کا دل
پہلے سیمی اور پھر منی جب انہوں نے میرے حسین خوابوں کو چور چور کر دیا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے زندگی ہمارے حسین خوابوں کی لاشوں پر بنی ہوئی ایک ایسی عمارت ہے، جس کی آخری منزل پر موت کھڑی مسکرا رہی ہے اور ہمارے خدا نے ہمیں صرف اس لیے زندگی عطا کی ہے
پرومیتھیئس
میز پر چندکاغذ، بغیر پتلیوں کی آنکھیں اس کی آنکھوں میں، اس کے ہاتھ میں قلم کی انی پرپتلیاں۔ میں کیا لکھوں؟ وہ شفاف کاغذوں سے نظر ہٹاتا ہے۔ نہ چاہنے کے باوجود اس کی نظریں دیوار پر جاپڑتی ہیں۔ ایک بوسیدہ فریم میں چھ نو سائز کی تصویر، کمرے میں لگی واحد
واپسی، دیوجانس، روانگی
شیشم کے اس پیڑ سے دور، بہت دور، صدیاں بعد پہلی مرتبہ شہر کی سب سے بری شاہراہ کے پچھمی سرے پر شور بلند ہوتا ہے، جس کی آواز فی الحال اس پیڑ کے آس پاس نہیں پہنچتی۔ پیڑ کی شاخوں پر پھدکتے، چیختے، چلاتے پرندوں میں تھورے تھوڑے وقفے بعد اور پرندوں کا اضافہ
ہتک
بدرے نے چاروں طرف دیکھا، گلی میں سبھی لوگ چارپائیوں پر مردوں کی طرح سو رہے تھے۔ سوائے کتوں کے ایک جوڑے کے اور کوئی زندہ نہ تھا۔ بجلی کے کھمبے کے منہ سے بہتی ہوئی روشنی اس کھڑکی والی دیوار تک پہنچ کر خشک ہوجاتی تھی۔ ایک نے دوسرے کتے کے کان میں سرگوشی
اجنبی
لڑکی نے اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی نقاب اتار کے چاروں طرف دیکھا۔ اس کی نگاہیں دائیں طرف اور سامنے کے بند کواڑوں پر دستک دیتی ہوئی بائیں طرف کے دروازے میں داخل ہوگئیں۔ لڑکے نے مڑ کراس کی للچائی ہوئی آنکھوں کو دیکھا۔۔۔ ’’یہ باورچی خانہ ہے۔‘‘ ’’جی۔‘‘
پیپل سے محبت کے ساتھ
اس وقت مال روڈ ویران ہوگئی ہے۔ اونگھتی ہوئی نیلی اور پیلی روشنیوں میں اکادکا آوارہ چند لوگ ہیں، جو اپے غنودگی میں ڈوبے ہوئے سایوں کا پیچھا کر رہے ہیں۔ جب روشنی ان کے سامنے ہوتی ہے تو سائے ان کا پیچھا کرنے لگتے ہیں۔ مصنوعی روشنیوں میں زندگی کی ایسی ڈور
سب سے پرانی کہانی
تیز ہوا اور بارش، طوفان۔ رات بہت تاریک تھی۔ زمین اور آسمان میں کوئی فرق نہیں تھا، ایک سیاہ چادر تھی جو آسمان بھی تھا اور زمین بھی۔ کبھی کبھی بجلی چمکتی تو اس سیاہ چادر پر پھڑپھڑاتے ہوئے گیلے سیاہ درخت ذرا واضح ہو جاتے تھے لیکن وہ درختوں کے نیچے تاریک
پیارے جمی
۲۷ نومبر ۱۹۴۴ء پیارے جمی، اس وقت سرد آسمان پر جڑے ہوئے ستاروں کی آنکھیں پتھرا رہی ہیں اور باغ میں یوکلپٹس کے درختوں نے کہرے کا لباس پہن لیا ہے۔ نینا ابھی رو رو کے سوئی ہے۔ امی جی اور گڈو بھی اپنے بستروں میں چلی گئی ہیں اور وہاں میرا بستر بھی مجھ
پرندے کی کہانی
یوبلڈی باسٹرڈ۔ دربان نے زمین پر زہرتھوکا، آستین سے منہ پونچھا اور نوٹ والی مٹھی جیب میں ڈال لی۔ اس کی نظریں باہر دالان کی طرف کھلتے دروازے پر تھیں۔ جاتے جاتے سفید فام سیاح، یا، س ف س نے گھوم کر ہاتھ ہلاکے الوداع کہا۔ دربان کی زبان سے پھر زہر ٹپکا، اس
چھٹی کا دن
دوپہربچے چڑیا گھر کے دروازے کے ساتھ خوانچے والے سے چنے خریدتے ہیں اور اچھلتے کودتے اپنے اپنے ماں باپ کے ساتھ چڑیا گھر میں داخل ہوجاتے ہیں۔ سڑک کے پار کھڑی عورت ٹھنڈا سانس لیتی ہے۔ ساتھ کھڑے مرد کو دیکھتی ہے۔ مرد کی نگاہیں آہنی دروازے کی
نہ مرنے والا
وہ نیچے پان والے کی دکان پر ریڈیو پر پورے اعلانات سنے بغیر ہی کمرے میں لوٹ آیا تھا۔ نالیوں میں بہتا ہوا خون اس کے روئیں روئیں میں پسینہ بن کر تھرک رہاتھا۔ کمرے کا تالا کھولتے کھولتے وہ جھنجلا گیا۔ تالا ہمیشہ چابی کے پہلے پھیر میں کھل جایا کرتا تھا لیکن
شیرازے
چند لوگوں کو سرخ گلاب اگانے سے دلچسپی ہے۔ چند لوگ بھی نہیں، صرف الف سرخ گلاب اگاتا ہے۔ الف کے سر کے بال سفید برف ہیں۔ چہرے پر صدیاں تک جھریوں کا نشان نہیں۔ اس کی چمکیلی آنکھیں سامنے کی چیز کو چیرتی، پار دیکھتی ہیں۔ اس کے سانس تک سے گلاب کی خوشبو آتی
زرد کونپل
کچھ ایسے ہی دنوں میں جب کہ شبنم میں گھلی ہوئی صبحیں اپنے لحاف اتار کے نیم گرم دنوں کے صندوقچوں میں بند کر رہی تھیں۔ کچھ ایسے ہی دنوں میں جب باہر باغیچے کی ننھی ننھی کیاریوں میں نوزائیدہ کلیوں کی آنکھیں کھل رہی تھیں اور نرم نرم سبز مائل زرد کونپلیں زندگی
سازشی
ہم دنیا جہان کی باتیں کرتے، سارا دن مٹی کی ٹوکریاں اٹھا اٹھاکر ٹرکوں میں ڈالتے رہے۔ ہم آزاد تھے، صرف ایک دوسرے کو دیکھ کر یاد آتا تھا کہ ہم قید میں ہیں۔ ہم چھوٹے سے ٹیلے پر سستانے کے لیے بیٹھے تھے۔ ہوں، ہم نے سوچا، ہم نہر کھود رہے ہیں۔ ہوں! ہم
رتا پرچھانواں
رات کے بے شمار آنسو ایک ایک کرکے صبح کے کشکول میں ٹپک رہے تھے اور دور آسمان کے قدموں سے زمین کو علیحدہ کرتے ہوئے درختوں کے ذخیرے میں گھوک سوئی ہوئی صبح کو پرندے ابھی جگانے نہیں آئے تھے۔ اس لیے دن کی پہلی کرن متروکہ کنویں میں خون بن کر نہیں گھلی تھی جس
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS
-
ادب اطفال1642
-