Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زرد کونپل

انور سجاد

زرد کونپل

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    کچھ ایسے ہی دنوں میں جب کہ شبنم میں گھلی ہوئی صبحیں اپنے لحاف اتار کے نیم گرم دنوں کے صندوقچوں میں بند کر رہی تھیں۔ کچھ ایسے ہی دنوں میں جب باہر باغیچے کی ننھی ننھی کیاریوں میں نوزائیدہ کلیوں کی آنکھیں کھل رہی تھیں اور نرم نرم سبز مائل زرد کونپلیں زندگی کا پہلا سانس لینے کی کوشش کر رہی تھیں اور گلاب کی خشک بانہوں میں مارچ نے گہرے سرخ کنگن پہنادیے تھے تو اسی کمرے میں کھڑکی سے دبے پاؤں داخل ہوتی ہوئی بہاروں کی خوشبو نے ڈیٹول کی بو کو گلے لگایا تھا اور یہیں پر میری خشک بانہوں کو بہاروں نے مارچ کے ذریعے سرخ چوڑا تحفۃً دیا تھا۔ کچھ ایسے ہی دن تھے جب اسی کمرے میں ایک زرد کونپل نے زندگی کا پہلا سانس لیا تھا اور میرے ڈوبتے ہوئے سانس میں گھل کر اسے نئی باس بخشی تھی۔

    میں آج بھی اسی کمرے میں اداس بیٹھی ہوں۔ میری نظریں پریشان ہواؤں کی طرح کبھی گھبراکر جلدی جلدی، کبھی مایوسی میں آہستہ آہستہ باغیچے میں پھر رہی ہیں اور پتی پتی کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر پوچھ رہی ہیں کہ میری کونپل کہاں ہے جس نے تمہارے ساتھ ہی پہلی مرتبہ آنکھ کھولی تھی اور جس نے تمہاری ہی رفاقت میں مسکرانا سیکھاتھا۔ لیکن ہر کلی، ہر پتی مجھے حیرانی سے دیکھتی ہے۔۔۔ تم کس کی باتیں کر رہی ہو، ہم تمہیں نہیں جانتیں۔۔۔ ہم تمہاری کونپل کو بھی نہیں جانتیں۔۔۔ ہم تو کل ہی اس دنیا میں آئی ہیں۔۔۔ ہمارے قدموں میں بکھرے ہوئے ان خشک پتوں میں دیکھو۔۔۔ ان سے پوچھو کہ تمہاری کونپل کہاں ہے؟

    میں نے ان خشک پتوں سے بھی پوچھا ہے لیکن ان کے چہرے بھی زرد ہیں۔ انہیں بھی تمہارے متعلق کوئی علم نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شاید تم ان پتوں میں چھپے ہو جو کہ ان کے اپنے بوجھ تلے دبے ہیں۔۔۔ ان کے نیچے کئی تہیں ہیں۔۔۔ ساتھ، آٹھ، دس خدا معلوم کتنی۔۔۔ مگر ان تہوں کو بھی تمہارا کیا پتا ہوگا کیونکہ بہاریں تمہیں ان کے ساتھ لائی تھیں۔ اور انہوں نے تمہیں مسکرانا بھی سکھایا تھا لیکن تب میرے بازو پودوں کی بانہوں سے زیادہ طاقت ور تھے۔ کہ خزائیں بہاروں کے اس تحفے کو چھین نہ سکیں۔۔۔ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ خزائیں دس سال کے عرصے میں تمہیں چاٹ چاٹ کے ختم کردیں گی تو میں۔۔۔ تو میں۔۔۔ تو پھر بھی میں کیا کرسکتی تھی!

    کتنی عجیب سی بات ہے کہ ابھی پچھلے ہفتے آج ایسی اداس صبح کو تم نے مسکراکر مجھ سے کہا تھا۔

    ’’امی جی! آپ ہر وقت اداس رہاکرتی تھیں نا۔۔۔ فکر مندسی۔۔۔ کل سراج بابا نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ آپ نماز میں بے حد رویا بھی کرتی ہیں، تو آج رات میں نے بھی سچے دل سے دعا کی کہ اللہ میاں مجھے اچھا کردے تاکہ میری امی اداس نہ رہا کریں۔۔۔ دیکھیے۔۔۔ اب میں ٹھیک ہوگیا ہوں۔‘‘

    تم نے بستر پر کہنیاں ٹیک کر اٹھنے کی کوشش کی تھی، میں نے تکیے کا سہارا دے کر بٹھادیا تھا اور پھر جلدی سے تمہیں تھرمامیٹر لگایا تھا۔۔۔ تمہارا بخار ننانوے سے ذرا اوپر تھا۔ میں نے تمہارے زرد گالوں پر ہلکی سی سرخی دیکھ کر فوراً ایک اور سیا بکرا صدقہ کیا تھا اور۔۔۔

    اور کتنی عجیب سیبات ہے کہ اسی تاریک سی شام نے تمہارے چہرے کی سرخی چھین کر تمہاری آنکھوں کو اپنی تاریکی دے دی تھی۔ تم بستر پر سوئے ہوئے تھے۔ تمہاری بڑی اور چھوٹی خالہ اور دوسرے لوگ جانے کیوں اتنی بری طرح رو رہے تھے۔ تمہارے ابا کا رومال بھی بار بار ان کی آنکھوں تک جاتا تھا۔ میں تمہارے سرہانے بیٹھی، روتی ہوئی منی (تمہاری چھوٹی خالہ کی لڑکی) کو گودمیں لیے یہ سب کچھ خواب میں دیکھ رہی تھی۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ منی کو بھی کیا ہوگیا ہے۔ وہ اس طرح رو رہی تھی جیسے اس کے سارے کھلونے ٹوٹ گئے ہوں۔ میں نے ان سب کو رونے سے منع بھی کیا کہ کل تمام دن کی تڑپ اور پھر تھوڑی سی نیند کے بعد آج شام تو تم اتنے سکون سے سوئے ہو۔ مگر ان لوگوں کو کچھ خیال نہ تھا۔ شاید اس لیے کہ میرے سوا اور کوئی بھی تمہاری امی نہیں تھا۔ اگر ہوتاتو یقیناً ان کی انگلیوں میں بھی تمہاری نبض ضرور دھڑکتی۔۔۔ مجھے حیرت تو یہ ہے کہ تم سے اتنے پیار کے باوجود تمہارے ابا بھی ان لوگوں میں مل گئے تھے۔

    میں اسی کمرے کی کھڑکی میں کھڑی تمہیں پپی سے کھیلتے دیکھ رہی تھی کہ میری نظریں کوٹھی کے دروازے کی طرف اٹھ گئیں۔ بہت سے لوگوں کے آگے چار آدمی کٹہرے والی چارپائی پر کسی کو سیاہ چادر تلے چھپائے لیے جارہے تھے۔۔۔ ان میں تمہارے ابا بھی تھے۔۔۔ آہستہ آہستہ۔۔۔ سازشیوں کی طرح۔۔۔ چپ چپ۔۔۔ صرف قدموں کی سرگوشیاں تھیں۔ میں نے ان روتے ہوئے قدموں سے گھبراکر پھر دالان میں دیکھا۔ پپی اپنی دونوں ٹانگوں پر سر رکھے اداس سا بیٹھا تھا۔۔۔ تم وہاں نہیں تھے۔ میری نگاہیں چیخ چیخ کر تمہیں پکارتی رہیں۔ تمہیں ان پھولوں میں ڈھونڈتی رہیں جن میں تم چاندنی راتوں میں پپی کو ساتھ لے کر چھپی ہوئی پریاں تلاش کیا کرتے تھے۔۔۔ میری نظریں اب بھی لان میں آوارہ پھر رہی ہیں۔ اب بھی ان پھولوں میں تمہیں ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔ شاید تم واقعی ان پریوں میں جاملے ہو جو تمہارے اپنے قول کے مطابق چاندنی راتوں میں پھولوں کی پنکھڑیوں میں آنکھ مچولی کھیلا کرتی ہیں اور جنہیں کوئی دیکھے تو نظرو ں سے غائب ہوجاتی ہیں۔۔۔ پپی اب بھی اسی طرح چاندنی راتوں میں پھولوں کی کیاریوں میں گھوما کرتا ہے اور حسب معمول سارا سارا دن اپنی اگلی ٹانگوں پر منہ رکھے تمہارے سکول سے لوٹنے کا منتظر رہتا ہے۔۔۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب اس کی چمکیلی آنکھیں سیلاب میں رہنے کی وجہ سے بجھ سی گئی ہیں۔۔۔ میں تو یہ سوچتی ہوں کہ جب چاندبھی تمہارا انتظار کرکے چلا جائے گا اور ٹمٹماتے ہوئے ستاروں کی رفاقت کے باوجود بجھتی ہوئی راتیں سیاہ ہوجائیں گی تو پپی کیا کرے گا؟ میں کیا کروں گی؟ اندھیری راتوں میں تو پریاں نہیں اترتیں نا (کیونکہ چاندنی کی رتھ جانے کہاں چلی جاتی ہے۔)

    سورج تو رات کے من میں آگ لگاتا رہا ہے اور لگاتا رہے گا، لیکن رات کے آنسو کسی کو بھی تر نہیں کریں گے۔۔۔ ستاروں کو بھی نہیں، رات کی آنکھوں کو بھی نہیں کیونکہ یہ آنسو خاک ہیں۔ کبھی کبھی چاندنی راتیں بھی سیاہ ہوتی ہیں اور پریاں اندھیری راتوں میں نہیں اتراکرتیں۔۔۔ مارچ ہمیشہ بہاروں کو تحفہ دیتا رہا ہے اور دیتا رہے گا۔ لیکن خزائیں اس تحفے کو چرالے جاتی ہیں۔۔۔ میں خزاں ہوں اور پپی تمہاراکتاہے۔۔۔ وہ کسی کے ہاتھ سے دودھ نہیں پیتا۔ جب تم سکول سے آؤگے تو وہ دودھ میں نہا بھی لے گا۔ میں تمہاری امی ہوں، تم بہاروں کے تحفے تھے اور میں نے مارچ سے وعدہ کیا تھا کہ ہمیشہ تمہیں سنبھال کر رکھوں گی اور کوئی تحفہ نہ لوں گی مباداتمہاری طرف سے غفلت ہوجائے۔ اس کے بعد میں نے ہمیشہ مارچ کو مایوس کیا ہے۔۔۔ اور اب تو میں خزاں ہوں۔

    میرے ذین! میرے لال! تم اسکول سے کب لوٹو گے؟ کھانا میز پر پڑا ٹھنڈا ہو رہا ہے اور مجھے بڑی شدت سے بھوک لگی ہے لیکن مجھے تمہارے بغیر کھانے کی عادت نہیں ہے، تمہیں یاد ہے نا کہ اپنے سکول سکاؤٹنگ کیمپ کے سلسلے میں تم گرمیوں کی چھٹیاں پہاڑ پر گزارنے کے لیے گئے تھے۔ جب اسکول کی بس تمہیں لینے کے لیے آئی تھی تو پپی تمہاری نیکر کا پائنچہ نہیں چھوڑتا تھا۔ اور جب تم بڑی مشکل سے سوار ہوئے تھے تو وہ مجھ سے زنجیر چھڑاکر بس میں چڑھ گیا تھا اور پھر تمہارے انگریز ہاؤس ماسٹر نے جانے کس جذبے کے تحت پپی کو تمہارے ساتھ جانے کی اجازت دے دی تھی۔ سمر کیمپ میں جاناتمہارے لیے ضروری نہیں تھا۔ لیکن جمی (تمہارے ابا) کا خیال تھا کہ گرمیوں کے میدانوں کی نسبت پہاڑ پر تمہاری صحت بہتر رہے گی اور تم دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر اچھی طرح پڑھ بھی سکو گے۔ ان کاخیال ٹھیک تو تھا لیکن میں۔۔۔ جانے مائیں اتنی جذباتی کیوں ہوتی ہیں۔ تم سے جدائی کے تصور ہی سے میں اتھاہ خلاؤں میں گھر جاتی تھی کہ میں تمہارے بعد کیا کروں گی۔ میں نے جمی سے کہا کہ صحت کا کیا ہے۔ سبھی لوگوں کے بچے تو پہاڑوں پر نہیں جاتے، عادتیں خراب کردوں گی، تم سے خوداعتمادی چھین لوں گی۔۔۔ بچوں کو والدین سے علیحدہ رہنے کی ٹریننگ بھی ہونی چاہیے۔

    ان کا یہ کہنا بھی درست تھا کیوں کہ زندگی کاکچھ پتا نہیں ہوتا، جانے کس وقت سکوت کی گہرائیوں میں اترجائے۔ تمہارے لیے میرے جمی کے بغیر زندگی گزارنے کافن سیکھنا ضروری تھا۔۔۔ عمر کی قبروں میں جتنے سال اترتے ہیں اتنی ہی یہ قبر چھوٹی ہوجاتی ہے۔ تمہاری نسبت ہمارے زیادہ سال اس قبر میں اترچکے تھے۔ اسی لیے میں جمی کی اس بات کی بھی قائل ہوگئی۔ اور اگر نہ بھی ہوتی تو تمہیں کیوں کر انکار کرسکتی تھی۔ تم نے جو اتنی معصومیت سے منت بھرے لہجے میں کہا تھا۔۔۔ امی پلیز! میرا جانے کو بہت جی چاہتا ہے میں وعدہ کرتاہوں کہ رات کو اوولٹین ملک پینا نہیں بھولوں گا۔۔۔ کھانے کے بعد میناڈیکس ضرور پیوں گااور اچار بالکل نہیں کھاؤں گا۔

    میں نے اپنے دل سے تمہارے پیار کاسارا بوجھ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے تمہیں اجازت دے دی تھی اور اس وقت، جب کہ پپی ضد منواکر تمہارے ساتھ ڈیزل کے دھوئیں میں اوجھل ہوگیا تھا۔ تو میں تمہارے انتہائی پیارے سے چہرے پر پھیلی ہوئی الوداعی مسکراہٹ کو اپنی آنکھوں میں سنبھال کے بھاگتی ہوئی کمرے میں لوٹ آئی تھی اور بلامقصد دوسرے کمروں میں پھرتے ہوئے تہارے پراعتماد الفاظ دہرائے تھے۔۔۔ ’’امی! آپ بالکل اداس نہ ہوں، میں آپ کو ہرروز ایک خط لکھا کروں گا۔۔۔ اور میں بھی بالکل اداس نہیں ہوں گا۔۔۔‘‘ تمہاری آواز بڑی صاف تھی۔ لیکن میں جانتی تھی کہ تمہارا گلا ضرور رندھا ہوگا۔ تم محض اس لیے مسکرارہے تھے کہ کہیں میں اداس نہ ہوجاؤں۔ تم نے مجھے تسلی دینے کی خاطر ضرور اپنے آنسو پیے ہوں گے۔۔۔ کیونکہ میں نے بڑی مشکل سے اپنے آنسوؤں سے اپنے حلق کو ترکیا تھا۔ اور جب میں کمروں میں اور لان میں پھرپھر کے (یہ سوچتی ہوئی کہ مجھ سے تو پپی اچھا ہے) تھک گئی تھی تو تمہارے پلنگ پر بیٹھ کر بے حد روئی تھی۔ جمی بھی دفتر گئے ہوئے تھے۔ اور اتنے بڑے گھر میں میری آنکھیں خشک کرنے والا کوئی نہ تھا۔ تمہارے بچپن کے کھلونے بھی میرا دل نہ بہلاسکے (اگر میں جمی کی بات مان لیتی تو تب میرے پاس کم از کم دو اور تم ایسے جیتے جاگتے کھلونے ہوتے۔۔۔ لیکن میں نے محض تمہاری خاطر کھلونے نہ لیے۔ مگر تم۔۔۔ تم چلے گئے۔ کیوں کہ تم امی نہیں تھے میرے لعل تھے) ۔۔۔ جب شام کو وہ آئے تو ان سے باتیں کر کر کے بڑی دیر بعد میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوا تھا۔ لیکن کھانا پھر بھی نہ کھاسکی۔۔۔ کیوں کہ تمہارے بغیر کھانا کھانے کی مجھے عادت نہیں۔

    تم کیا جانو۔۔۔ میں نے تمہیں کتنی مشکلوں کے ساتھ اللہ میاں سے حاصل کیا تھا۔ اتنی منتیں مانیں۔۔۔ اتنی نیازیں دیں۔۔۔ لیکن تم تھے کہ تمہارا ہیولا نہ بنتا تھا۔ پھر بہت عرصہ بعد لیڈی ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میرے جسم میں دوسرا دل دھڑکنا شروع ہوگیا ہے۔ جمی نے میرے کمرے میں انتہائی خوبصورت بچوں کی لاتعداد تصویریں لاکر لٹکادیں تاکہ ان خوبصورت تصویروں کا خوشگوار تاثر میری آنکھوں سے تم تک پہنچے اور تمہارا چہرہ بھی انہی بچوں میں سے کسی ایک کی طرح پیارا ہو۔۔۔ جانے کیوں مجھے ہر وقت دھرکا سا لگا رہتا تھا کہ کہیں خدانخواستہ میرے دل کو ٹھیس نہ لگ جائے۔۔۔ بند نہ ہوجائے، سچی۔۔۔ میں نے آج تک اپنے دل کی بھی اتنی پرواہ نہیں کی تھی (اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو جمی سے پوچھ لو کہ پہلی مرتبہ جب میرے ابا اور امی نے انہیں یہ کہہ میرا رشتہ دینے سے انکار کردیا تھا کہ ہم اپنی ذات میں شادی کرتے ہیں تو میرے دل نے کتنی ہمت سے اس ٹھیس کو برداشت کیا تھا لیکن تمہاری تو بات ہی اور ہے تم تو میری روح اور میرے وجود ہی کے ایک حصے ہو۔۔۔ میں اکثر تنہائی میں بیٹھی اپنے دوسرے دل کی دھڑکن سنتی رہتی اور تمہارے لیے ننھے ننھے پٹولے سیتی ہوئی سوچتی رہتی کہ تم بڑے ہوکر ڈاکٹر بنوگے، انجینئر بنوگے۔۔۔ وزیراعظم بنوگے۔۔۔ خیالوں کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ بادشاہوں کی امیوں سے لے کراتنے سارے گداگروں کی امیوں تک ہر ایک کی ایسی ہی خواہشات ہوتی ہوں گی۔

    پھر ایک دن تم تشریف لے آئے اور اس دن مجھے تخلیق کے صحیح معنی معلوم ہوئے۔ اگر کسی کے جسم کے حصے کو کھینچ کر علیحدہ کیا جائے تو اسے کتنی تکلیف ہو۔ بس مجھے یوں محسوس ہوا تھاکہ میرے وجود کے ساتھ جڑے ہوئے ایک دوسرے وجود کو علیحدہ کیا جارہا ہے۔۔۔ درد۔۔۔ چیخیں۔۔۔ آنسو۔۔۔ لمحہ بھر کے لیے مجھے اپنے آپ سے بھی خوف زدہ نفرت سی ہوگئی۔ پھر ایک تخلیق کے احساس سے مجھے عجیب طرح کا سکون ملنے لگا۔ لیکن آہستہ آہستہ۔۔۔ رفتہ رفتہ۔۔۔ میرے آنسو مسکرانے لگے اورمجھے اتنی مسرت حاصل ہوئی کہ اللہ میاں کو دنیا بنانے میں بھی حاصل نہیں ہوئی ہوگی، تمہارے آنے سے پہلے بہت سے سوچے ہوئے ناموں سے ایک اچھا سا نام تمہارے لیے چنا۔۔۔ تم زین العابدین تھے۔۔۔ زین۔

    زین۔ زین، میرا زین۔۔۔ میرا لعل، میراراجہ۔۔۔ اللہ میاں کو اپنی تخلیقات کتنی پیاری ہیں جبھی تو اس نے اس دنیا ایسی شاید اور کوئی دنیا نہیں بنائی۔ اس دنیا سے اتنی مایوسی کے باوجود اسے تباہ نہیں کیا۔۔۔ تخلیق آخر تخلیق ہے، خالق چاہے انسان ہو یا خدا۔۔۔ اتنی محنت اور صعوبتوں کے بعد انسان کوئی چیز حاصل کرے تو اس سے اتنی شدید محبت ہوجاتی ہے کہ تمام تر توجہات اسی پر مرکوز ہوجاتی ہیں۔۔۔ اگرچہ تم میری امیدوں کے برعکس میرے کمرے میں لٹکی ہوئی بچوں کی تصویروں کی طرح نہ تھے۔۔۔ بلکہ بے حد کمزور۔۔۔ بہت ہی زرد۔ مگر پھر بھی تم میرے تھے۔۔۔ میرے اپنے۔۔۔ شاید اس لیے بھی میں دوسری تخلیق کی قائل نہیں تھی۔۔۔ مبادا پہلا احساس مٹ جائے۔۔۔ اور بھی زرد ہوجائے۔

    سب سے پہلی جو تمہاری چیز پسند آئی وہ تھی تمہاری موٹی موٹی آنکھیں۔۔۔ سیاہ۔۔۔ گہرے، بے حد گہرے سمندر۔۔۔ ذہانت کے سیپ چھپائے۔۔۔ تم سب کو یوں گھورتے تھے جیسے انہیں اچھی طرح جانتے ہو۔ جب تمہیں بھوک لگتی تھی تو تم عام بچوں کی طرح رونے کے بجائے اپنی ننھی منی مٹھیوں سے میرے سینے کو جگاتے۔ میں نے تمہیں کبھی روتے نہیں دیکھا تھا۔ جب بھی تمہیں کوئی تکلیف ہوتی تو تم مجھے بڑی رحم طلب نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھار جب میں تم سے دور ہوتی اور تمہیں میری ضرورت ہوتی تو تم مجھے چیخ چیخ کر بلاتے (روکر نہیں) اور مجھے دیکھتے ہی خاموش ہوکر اپنی مخصوص تکلیف زدہ نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگتے تھے۔ ایک مرتبہ جب تمہیں پیٹ کی بے حد تکلیف تھی (جس کا احساس تم نے مجھے اپنے پیٹ پر مٹھیاں مار مار کر دلایا تھااور تم تب بھی نہیں روئے تھے) تو میں نے ساری ساری رات کمرے میں چکر لگاتے ہوئے گزاردی تھی۔ سبھی مائیں ایسا ہی کرتی ہوں گی۔ لیکن میں صرف اس لیے جاگتی رہتی تھی کہ تمہیں رونے کی عادت نہیں تھی۔ جانے اور بچوں کی طرح تمہارے پاس رونے کی زبان کیوں نہیں تھی۔ شاید اس لیے کہ تم نے پہلا سانس نرس کے تھپکانے کے باوجود روتے ہوئے نہیں لیا تھا۔ اور منہ کے ذریعہ تمہارے پھیپھڑوں کو زندگی دی گئی تھی۔

    جمی کے اصرار کے باوجود میں نے تمہارے لیے کوئی آیا نہیں رکھی تھی۔ میری سہیلیوں کو سوشل شاموں سے میری غیرحاضری کے متعلق بڑی شکایت تھی۔ سبھی یہی کہتی تھیں کہ تم نے کوئی انوکھا بچہ جنا ہے۔۔۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھیں کہ اتنی محنت اور تکلیف کے بعد حاصل کی ہوئی چیزوں کو دوسروں کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ آیاؤں کی ممتا میرے زین کے لیے کتنی ہوگی۔۔۔ میرے زین کی زبان کوکون سمجھ پاتا۔ جن احساسات اور جذبات سے میں اپنے لعل کے زرد چہرے کے لیے گلاب کی سرخی اور بہاروں کی باس کو اپنے بس میں کرسکتی تھی اور کون کرسکتا تھا۔ مجھے تو ان امیوں پر حیرانی ہوتی ہے جن کی روح اپنے زینوں سے زیادہ سوشل حلقوں سے رس حاصل کرتی ہے جن کے زین آپاؤں کی سرد گودیوں سے حدت حاصل کرنے کی کوشش میں لاشعور کی گود میں سوجاتے ہیں۔ اور تمام عمر اپنے ذہن کی پرایمبولیٹر میں لیٹے انگوٹھا چوستے رہتے ہیں۔۔۔ میں تمہیں ایک عظیم انسان دیکھنا چاہتی تھی، تمام منفی احساسات سے پاک۔۔۔ وہ منفی احساسات جو کہ جھولے کی گود سے جنم لیتے ہیں اور انسان کو بڑے کربناک انداز سے دھکیلتے ہوئے قبر کی کوکھ تک لے جاتے ہیں۔ غالباً ہر ماں کی یہ خواہش ہوتی ہوگی کہ ان کے بچے عظیم انسان بنیں۔۔۔ لیکن میرے زین! کتنی مائیں ان کے لیے اپنی مسرتوں کو قربان کرتی ہوں گی، کتنی آیائیں تشنہ گودیاں لے کر بچے کھلاتی ہوں گی۔۔۔ کتنے بچوں کو سرد بستر میں اپنی امیوں کاانتظار نہیں کرنا پڑتا ہوگا تم یہ نہ سمجھنا کہ میں نے تمہیں اپنی ممتا کے جھولے میں سلانے کی کوشش کی تھی، میں نے تو جھولے کے ہلکوروں سے تمہیں زندگی کی اونچ نیچ سمجھائی تھی۔۔۔ وہ جھولا، جو کہ میں نے خود جھلایا تھا۔ وہ لوریاں جو کہ میں نے خود گائی تھیں۔ میں نے تم پرکوئی احسان نہیں کیا تھا۔ میں نے تو اپنی ممتا کے سیلاب کے لیے بندباندھے تھے۔ شاید اسی پیار اور محبت کا نتیجہ تھا کہ تم نے آج تک میری اور جمی کی حکم عدولی نہیں کی تھی۔ تم ہلکی سی ضد بھی کرتے تھے لیکن میں تمہیں بڑے پیار سے تمہاری بہتری کے بارے میں سمجھاتی تو تم فوراً سمجھ جاتے کہ مجھے تم سے پیار ہے اور انسان اپنی پیاری چیزوں کے لیے ہمیشہ بہتری سوچتا ہے (تم کتنے اچھے تھے) ۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ جب تم بہت چھوٹے تھے ایک مرتبہ تم نے آتش دان میں سلگتے ہوئے انگاروں کی روشنی سے متاثر ہوکر اپنی ننھی سی انگلی سے اشارہ کیا تھا اور گھٹنوں پر چلتے چلتے وہاں تک پہنچ بھی گئے تھے اور بڑی حیرانی سے میری طرف دیکھ کر کچھ کہا تھا۔ تم نے دوبارہ آتشدان کی طرف گھٹنے بڑھائے تو میں سمجھ گئی کہ تم انگاروں سے کھیلنا چاہتے ہو۔ میں نے تمہیں اپنی گود میں بٹھاکر بڑی خوفزدہ آواز میں کہا۔۔۔ ’’نہ بیٹے۔۔۔ انگارہ! جلادے گا۔۔۔ اُف۔۔۔ اُوئی۔۔۔ نہ۔۔۔ نہ۔‘‘

    تم اور بھی حیران ہوگئے۔ شاید تم میرے چہرے کے خوف سے سب کچھ سمجھ گئے تھے۔ اور مجھے یوں دیکھا تھا۔۔۔ ’’سچ!‘‘

    ’’اں۔۔۔ زین جی۔۔۔ انگارہ!‘‘

    ’’آں۔۔۔ آنغ۔۔۔ ع۔۔۔؟‘‘

    تم بڑی عجیب سی نگاہوں سے دیکھتے رہے، مگر تم نے ان کی دوبارہ خواہش نہ کی۔

    اب بھی میں اس خالی آتشدان میں جلتے ہوئے انگارے دیکھ رہی ہوں۔۔۔ تم ان کی طرف بڑھ رہے ہو۔

    زین! نہ بیٹے۔۔۔ انگارہ! جلادے گا۔۔۔ تم جل جاؤگے۔۔۔ میں جل جاؤں گی۔۔۔ میں جل گئی ہوں۔ راکھ ہوگئی ہوں۔۔۔ آتشدان خالی ہے۔۔۔ جب سردیاں آئیں گی تو بھی اس میں آگ روشن نہیں ہوگی۔۔۔ کیونکہ تم گھٹنوں پر چلتے ہوئے آگ کی طرف نہیں بڑھوگے۔۔۔ آتشدان کے سامنے مکینوسیٹ اور دوسرے کھلونوں کی گراؤنڈ ویران ہوگی۔۔۔ تم اس کے سامنے بیٹھے اپنی کاپیوں کتابوں میں گھرے سکول کا کام نہیں کر رہے ہوگے۔

    تمہارا پپی سارا دن گراؤنڈ میں اپنے اگلے پیروں میں منہ دفبن کیے بیٹھا رہے گا۔ چاندنی راتوں میں تنہا۔ مجھے بھی پھولوں کے تختوں میں پاگل کردے گااور تاریک راتوں میں سرد آتشدان کے سامنے میری طرح شعلوں کاناچ دیکھا کرے گا۔۔۔ اس لیے انگارے نہیں بھڑکیں گے کیونکہ میں راکھ ہوں۔۔۔ راکھ اور کیا جلے گی۔۔۔؟ پپی کوک بھرا کھلونا ہے۔ وہہر حرکت اتنی باقاعدگی سے کرتاہے جیسے تم اس کے ساتھ ہو لیکن یہکمرہ اس وقت تک منجمد رہے گااس وقت تک قبرستان بنارہے گا، جب تک تم سکول سے نہیں لوٹتے۔۔۔ زین! تم نے تو کبھی دیر نہیں کی تھی۔

    تمہارے سکول میں یقیناً کوئی تقریب ہوگی (مگر تم تو ہمیشہ مجھے بتاکر جایا کرتے تھے، تم بڑے نافرمانبردار ہوگئے ہو) جب تم لوٹوگے تو میں تمہیں گھر سے دیر تک باہر رہنے کی برائیاں ایک بار پھر سمجھاؤں گی۔

    تمہیں سکول میں داخل ہونے کاکتنا شوق تھا۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ساتھ والی کوٹھی کے مسٹرو مسز عارف کے بچوں کے لیے سکول بس آیا کرتی تھی تو تم پلنگ پر کھڑے ہوکر کھڑکی سے انہیں بڑی دلچسپی کے ساتھ دیکھاکرتے تھے۔ اور ان کے جانے کے بعد تم پوچھا کرتے تھے کہ لالی، پپو اور ککوکہاں گئے ہیں۔ میں تمہیں سمجھاتی کہ اس بس میں بیٹھ کر یہ سب اس جگہ گئے ہیں جہاں سے یہ بڑے ہوکر اور بہت قابل بن کر نکلیں گے۔ تم اپنے کھلونوں کو اکتائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ کر پوچھتے۔

    ’’امی۔۔۔ میں وہاں کب جاؤں گا؟‘‘

    ’’ابھی۔۔۔ بس تھوڑے ہی دنوں میں۔‘‘

    اس وقت تم تین سال کے تھے۔ تمہارا شوق دیکھ کر میں نے تمہیں نرسری کلاس میں داخل کرادیا تھا۔ یوں تو ہرامی کا یہی خیال ہوتا ہوگا کہ ان کا بچہ سب سے ذہین ہے، لیکن تمہاری استانی کابھی یہی خیال تھا کہ اس نے تم ایسا بچہ کبھی نہیں دیکھا۔۔۔ جانے بعض وقت مجھے تمہاری ذہانت سے اتنا خوف کیوں آتا تھا۔۔۔ تمہارا اتنی جلد چیزوں کو سمجھ لینا۔۔۔ تمہارے دنیا میں آنے سے لے کر پرندوں کی اڑانوں تک مختلف سوالات۔۔۔ مجھے محسوس ہوتا کہ تم میرے سامنے کھڑے کھڑے بوڑھے ہوگئے ہو۔

    جب تم اسکول میں رہتے، گھر میں بڑی ویرانی سی چھائی رہتی۔ میں یونہی نادان بچوں کی طرح تمہارے کھلونوں والی الماری کے سامنے کھڑی رہتی۔ پھر دوپہر کو میں خود تمہارے لیے کھانا تیار کرکے کار میں لے کر تمہارے سکول جاتی۔ تمہارے بارے میں مجھے سوائے اپنے اور کسی پر اعتبار نہیں تھا۔ وہ ایک ایک لمحہ جو میں نے تمہارے لیے صرف کیا ہے وہ ایک ایک پل جو میں نے تمہارے انتظار میں گزارا ہے۔ مجھے اپنی زندگی کے ان گنت سالوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔۔۔ تمہیں ایک بڑی عجیب سی بات بتاؤں زین! پتا ہے جب میری شادی ہوئی تھی اور ہنی مون کے بعد جمی دفتر جایا کرتے تھے تو ان کی غیرموجودگی میں بھی جھے اپنا گھر بالکل ایسا ہی ویران دکھائی دیتا تھا۔۔۔ اور جب میں گھبراکے باہر باغیچے میں ٹہلنے لگتی تو شریر پھولوں کی آنکھوں میں بھی خلا بھر آیا کرتے تھے۔ اتنے نوکروں کے باوجود جمی کا ہر کام میں خود ہی کرتی۔ تم پوچھوگے کیوں امی! آخر آپ کیوں اتنی تکلیف اٹھاتی تھیں؟

    میرے لعل! اپنے لیے کام کرکے بھی کبھی کسی کو تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ جمی میرے جسم میں دھڑکتی ہوئی روح ہیں۔ اور تم۔۔۔ تم میرے جسم اور اس روح کا نچوڑ۔۔۔ تو پھر میری جان! مجھے تکلیف کیوں محسوس ہوتی۔۔۔ تمہیں تو میری اس اداسی اور بے قراری کا کوئی احساس نہیں۔ مگر جمی میری اداسی اور بے چینی کے احساس سے خود پریشان ہوجاتے ہیں۔۔۔ ہے نا بچوں والی بات۔۔۔ انہوں نے مجھے مسز عارف سے متعارف بھی کرایا کہ میں ان کی غیرموجودگی میں اداس نہ ہوا کروں لیکن میں مسز عارف کے پاس بیٹھی بیٹھی چلی آیا کرتی تھی۔۔۔ واقعی انتظار میں ایک عجیب سا لطف ہوتا ہے!

    جانے تمہارے آنے کے بعد جمی یہ کیوں محسوس کرنے لگے کہ میں ان سے غافل ہوگئی ہوں۔ شروع میں وہ مجھ سے کھنچے کھنچے رہنے لگے۔۔۔ جانے انہیں یقین کیوں نہیں آتا تھا کہ ان کے لیے میری محبت ہمیشہ سجری رہے گی۔۔۔ سچ زین! مجھ میں کوئی فرق نہیں آیا۔۔۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ پہلے ان کے لے بے چین اور اداس رہتی تھی اور اب تمہارے لیے رہتی ہوں، بھلا یہ بھی کوئی بات ہے۔ آخر تم ان کے بھی تو ایک جزو ہو۔ بس، وہ یہی کہتے کہ میں ان پرتمہیں ترجیح دیتی ہوں اور۔۔۔ اور ایسے ہی بے تکے سے شکوے کیا تم نے خود کبھی غور نہیں کیا تھا کہ وہ میرے سامنے تم سے بڑی روکھائی برتتے اور جب میں پاس نہ ہوتی تو تم سے بے حد پیار کرتے (میں ایک دفعہ یکدم کمرے میں آئی تو وہ تمہیں سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ اس کے بعد میں نے دو ایک مرتبہ پردوں کے پیچھے چھپ کر بھی دیکھا تھا) اور پھر جب میرے سامنے تم سے پوچھتے :

    ’’تمہیں ابا اچھے لگتے ہیں یا امی؟‘‘

    ’’دونوں۔۔۔‘‘ تم فوراً کہتے

    ’’نہیں۔۔۔ ایک بتاؤ۔‘‘

    تم پہلے میری طرف اور پھر ان کی طرف دیکھ کر کچھ سوچتے اور پھر مسکراکر میری طرف دیکھتے ہوئے کہتے۔

    ’’ابا۔۔۔‘‘

    ’’دیکھ لو۔۔۔ بڑا بیٹا بنائے پھرتی ہو۔۔۔ تم اسے جتنا بھی چاہو۔ اسے میں ہی اچھا لگوں گا‘‘ یہ کہہ جمی کو بڑا سکون حاصل ہوتا۔ میں جان بوجھ کر اداس ہوجاتی۔ میں جانتی تھی کہ تم علیحدگی میں میرے گلے میں بانہیں ڈال کر کہوگے۔۔۔ ’’میں نے یوں ہی کہا تھا۔۔۔ دراصل آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں‘‘ ۔۔۔ مائیں تو یہ سب کچھ جانتی ہوتی ہیں لیکن باپوں کو جانے کیا ہوجاتا ہے کہ اپنے بچوں میں ایک نظرانداز کیے گئے بچے ایسا احساس طاری کرلیتے ہیں۔۔۔ لیکن شکر ہے خدا کا، کہ تمہاری فرمانبرداری اور قابلیت سے رفتہ رفتہ متاثر تمہارے لیے میرے پیار کے عادی ہوگئے۔ اپنے دوستوں سے تمہارا ذکر اکثر کرتے، بڑے فخر سے تمہیں ان کے ساتھ ملاتے۔۔۔ اور جب وہ لوگ تمہارے اخلاق و آداب اور گفتگو سے مرعوب ہوکر تمہاری تعریف کرتے تو جمی سینہ پھلاکر مجھ سے کہتے۔۔۔ ’’آخر کس کا بیٹا ہے!‘‘

    انہی دنوں کی بات ہے کہ گرمیوں کی ایک تاریک سی رات کو جب ہم باہر چارپائیاں بچھائے ہوئے سونے کی کوشش کر رہے تھے تو تم نے مجھ سے کہاتھا۔

    ’’امی جب چاند نہیں ہوتا تو یہ اتنے سارے ستارے کہاں سے آجاتے ہیں۔‘‘

    ’’چاندنی کی موجودگی میں ستارے تو وہیں رہتے ہیں لیکن ان کی چمک ماند پڑجاتی ہے۔‘‘

    ’’چاند کی روشنی ان ستاروں سے زیادہ تیز ہوتی ہے نا۔‘‘

    ’’چاند کی روشنی ان ستاروں سے زیادہ تیز ہوتی ہے اور سورج کی چاند سے بھی زیادہ۔۔۔ اب تم سوجاؤ۔‘‘ تمہارے ابا نے چادر اوڑھتے ہوئے کہاتھا۔ میں جانتی تھی کہ تم اس جواب میں مطمئن نہیں ہوگے اور صحیح جواب کے بعیر تم سو نہیں سکوگے۔ اس لیے میں نے تمہاری طرف کروٹ لے لی تھی اور تم نے سرگوشی میں پوچھا تھا۔

    ’’امی۔۔۔! یہ اتنی ساری روشنی کہاں سے آتی ہے؟‘‘

    ’’یہ ساری روشنی انہیں اللہ میاں دیتا ہے‘‘ ۔۔۔ اس کے علاوہ میں اور کیا جواب دیتی۔

    ’’اچھا۔۔۔! امی۔ ہم وہاں جاسکتے ہیں؟‘‘

    ’’ہماری دنیا میں بھی تو ایک ستارہ ہے۔‘‘

    ’’سچ۔!‘‘

    اس لیے ان ستاروں میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میں نے عجیب غیرمرئی احساس سے کانپتے ہوئے کہا تھا کیونکہ میں نے بچپن میں پڑھا تھا کہ جب انسان ہمیشہ کے لیے سوجاتا ہے تو رات کے فرشتے انہیں آخری بیڈروم سے نکال کر ستاروں کی سیر کے لیے لے جاتے ہیں اور اس وقت تک سیر کراتے رہیں گے جب تک سارے ستارے ہمارے طرح نہیں سوجاتے۔

    ’’نہیں امی۔۔۔! میں نے یہ ستارہ تو دیکھ لیا ہے۔ اب میں یہ سارے ستارے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

    میں نے بڑے اعتماد سے اپنے آپ کو یقین دلاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ ’’نہیں زین جی۔۔۔ ابھی نہیں۔ جب تم ایک ہزار سال کے ہوجاؤگے تو پھر تم خود ہی وہاں کی سیر کرلوگے۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔!‘‘ تم جانے کیوں ہنس دیے تھے۔

    ’’تمہیں نیند نہیں آئی؟‘‘

    تم نے نے میری بوجھل آنکھوں کو غور سے دیکھنے کے بعد مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ ’’مجھے بھی نیند آرہی ہے۔‘‘ اور تم نے اچھے اچھے خواب ’’وِش‘‘ کرنے کے بعد شب بخیر کہہ کر آنکھیں موند لی تھیں۔ آدھی رات کو چادر اوڑھانے کے لیے میری آنکھ حسب معمول خودبخود کھل گئی تھی تو تم بستر پر نہیں تھے۔ میرا دل یکدم بیٹھ گیا۔ میں نے گھبراکر تمہارے کمرے کی طرف دیکھا تو تمہارے کمرے میں جلتی ہوئی روشنی نے مجھے دوبارہ زندگی کی حرارت دی۔۔۔ تم اپنی میز پر جھکے کچھ لکھ رہے تھے۔۔۔ ’’زین۔!‘‘

    ’’جی۔۔۔‘‘ تم نے چونک کر قلم رکھ دیا تھا۔

    ’’کیا ہو رہا ہے۔؟‘‘

    ’’امی۔۔۔! میں نے آج ایک نظم پڑھی تھی۔۔۔ میں نے ٹیچر جی سے پوچھا تھا کہ یہ نظمیں کس طرح لکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جو بھی خیال آتا ہے، پوئٹس انہیں لکھ لیتے ہیں۔ مجھے آج بڑے خیال آرہے تھے۔ میں نے سوچا کہ میں بھی ایک نظم لکھوں یہ دیکھیے امی!‘‘

    میں نے دل ہی دل میں تم پر واری ہوکر تمہارے ہاتھوں سے کاغد لے لیا۔ تم نے لکھا تھا۔

    ستارے آسمان کی کیاری کے پھول ہیں۔

    چاند ان کیاریوں کا مالی ہے۔

    جوان پھولوں کے کھلنے تک ان کی حفاظت کرتا ہے۔

    اور جب یہ کھل جاتے ہیں تو انہیں نوچ کر

    سورج کے ڈرائنگ روم میں سجادیتا ہے۔

    ستارے ہماری دنیا کی طرح دوسری دنیائیں ہیں (جن کی آنکھیں زیادہ تر روشنی میں چندھیاجاتی ہیں)

    جب زیادہ روشنی نہیں ہوگی اور میں ایک ہزار سال کا ہوجاؤں گا۔

    تو میں ان دنیا کی سیر کروں گا۔

    آسمان کی کیاری کے پھولوں میں پریوں کا ناچ دیکھوں گا

    پھر واپسی پر چاند کی طرح پھولوں کو توڑکر

    اپنے ڈرائنگ روم میں سجاؤں گا۔

    ستارو! تم میرا انتظار کرنا۔

    تم نے میرے ہاتھ سے کاغذ لے لیا ’’بس امی، آخری لائن رہتی ہے‘‘ اور تم نے لکھا تھا۔

    کاش یہ ہزار سال، ہزار دن بن جائیں۔

    ’’اچھی ہے نا۔‘‘ میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا کہوں۔ میں نے تمہیں اپنے سینے سے چمٹاکر صرف بے حد ’چوما تھا‘ پیار کیا تھا۔۔۔ تم واقعی ہزار سال کے معلوم ہو رہے تھے۔۔۔ پھر تم بڑے اطمینان سے سوگئے۔ اور میں تمہاری نظم اپنے ہاتھ میں لیے جانے کیوں روتی رہی۔ آج تک میرے لیے اس رات کے آنسو معمہ بنے رہے ہیں۔۔۔ میرا جی چاہتا تھا کہ بس روتی ہی جاؤں، بے مقصد۔۔۔ بلاوجہ۔۔۔ تب تم آٹھ سال کے تھے۔

    اس کے بعد تم نے کئی نظمیں لکھیں، پھولوں، پریوں، اپنے کھلونوں، پپی، میرے اور جمی کے بارے میں۔ تمہارا ارادہ تھا کہ جب تم بڑے ہوگے تو ان کی ایک کتاب چھپواؤگے۔۔۔ تم ذہین تو تھے مگر اتنی ذہانت بھی کیا ہوئی کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں تم نے ایسی باتیں شروع کردیں۔ جمی تم سے بہت خوش تھے انہیں تم سے صرف ایک شکایت تھی کہ جماعت میں تمہاری پوزیشن اچھی نہیں آتی۔ ان کا خیال تھا کہ تم ایسا لڑکا ہمیشہ اوّل آنا چاہیے۔ لیکن میں جانتی ہوں کہ امتحان قابلیت کا معیار نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ مجھے ایک اور اطمینان بھی تھا کہ تمہیں کسی کی نظر نہیں لگے گی (اگر تم اوّل بھی آنے لگتے تو یقیناً تمہیں کسی کی نظر کھالیتی، یوں بھی میں اماں کے کہنے پر ہفتے میں دوتین مرتبہ تم پر سے مرچیں وار کے چولہے میں پھینکتی تھی۔)

    مجھے اس چیز کا بڑی شدت سے احساس تھا کہ تم کبھی کبھی گھر میں بہت تنہا محسوس کرتے ہو۔ تم نے ایک مرتبہ مجھ سے پوچھا بھی تھا کہ دوسرے لوگوں کی طرح تمہارے بھی بہن بھائی کیوں نہیں۔ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ بہن بھائی پیدا کرنا اپنے بس میں نہیں ہوتا۔ یہ تو اللہ میاں کی مرضی ہوتی ہے۔۔۔ یہ میں کیونکر بتاتی کہ اللہ میاں کی مرضی کے ساتھ میری مرضی بھی ضروری تھی۔۔۔ برا نہ ماننا زین! تمہاری خاطر۔۔۔ صرف تمہارے لیے میں نے ایسے کھلونے تمہیں نہیں دیے تھے کیونکہ اس طرح تمہارے لیے میرے احساسات بٹ جاتے، میری ممتا تقسیم ہوجاتی اور پھر تم بھی جمی کی طرح تنہا تنہا محسوس کرتے۔۔۔ اگر یوں ہوجاتا تو تمہارا خیال ہے کہ تم ایک عظیم انسان بن جاتے؟ تمہاری تنہائی کا کیا ہے۔ ہم ہیں، تمہارے دوست اور مسز عارف کی بچیاں ہیں۔ پ پی ہے جو کہ مسز عارف نے تمہیں جنم دن کا تحفہ دیا تھا۔۔۔ پپی کے ذکر سے مجھے یاد آیا کہ تم اپنے نوویں جنم دن پر بہت خوش تھے (غالباً اسی لیے اس دن کا ہر واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے) تمہارے سب دوست اور سہیلیاں آئے ہوئے تھے۔ میں نے ہمیشہ کی طرح تمہارے ساتھ مل کر تمام کمروں کو سجایا تھا۔ تمہاری چھوٹی خالہ نے اپنی منی کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے تمہیں سینے سے لگاکر مجھ سے کہا تھا کہ تم ان کے بیٹے ہو۔۔۔ میں تمہاری خالہ کا مطلب سمجھ گئی تھی اور ہم دونوں بہنیں کھلکھلاکر ہنس دی تھیں۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ ہمیں پڑھے لکھے پرانے لوگوں کی طرح باتیں نہیں کرنا چاہئیں۔ زین جب بڑا ہوگا تو اپنے لیے کوئی بہتر فیصلہ کرسکے گا۔ لیکن پھر بھی تمہاری خالہ نے مجھ سے وعدہ لے لیا تھا کہ اگر میں نے کوئی فیصلہ کیا تو وہ منی کے حق میں ہوگا۔۔۔ منی بے حد پیاری، نیلی آنکھوں اور گھنے سیاہ بالوں والی ایک معصوم سی لڑکی ہے بڑی کلچرڈ سی۔۔۔ تمہارا اور اس کا جورا بہت اچھا رہے گا۔ تمہارے لیے تمہاری خالہ کا تحفہ بہت اچھا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ تم بڑے ہوکر بھی اس تحفے کو بہت پسند کروگے کیونکہ جنم دن کی شام کے وقت جب سارے بچے باہر لان میں مختلف کھیلوں میں مصروف تھے تو تم منی کو اپنے کمرے میں جمع کی ہوئی ٹکٹیں، تتریوں کے پر اور ٹافیوں کے کاغذ وغیرہ دکھا رہے تھے۔ وہ تم سے بہت مرعوب نظر آتی تھی اور تم بھی غالباً (اپنے قول کے مطابق) اس پر خاص طور سے رعب جمانا چاہتے تھے۔ پھر تم نے اسے (صرف اسے ہی) اپنی نظمیں بھی سنائی تھیں۔ اور میری آنکھوں کو نہ جانے کیا ہوا کہ تم اور منی تو غائب ہوگئے اور تمہاری جگہ۔۔۔ مجھے ہنسی آتی ہے۔ کتنی عجیب سی بات تھی۔ منی نے پوچھا تھا۔

    ’’زین بھائی۔۔۔ میں بھول گئی ہوں۔ آپ کا کتنواں برتھ ڈے ہے؟‘‘

    ’’نوواں۔‘‘

    ’’نو سال کتنے ہوتے ہیں؟‘‘

    ’’تم جانتی ہو کہ ایک دن کتنا بڑا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’جی‘‘

    ’’تو پھر ایسے ہی تین سو پینسٹھ دنوں کے نو سے ضرب دو۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ تو پھر آپ بہت بڑے ہوئے۔ پتا ہے میں صرف چھ سال کی ہوں۔‘‘

    ’’مجھے معلوم ہے۔۔۔ منی! آؤ باہر دوسروں کے پاس چلیں۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ مجھے یہاں بہت مزا آرہا ہے۔۔۔ مجھے اور کچھ دکھائیے۔‘‘

    تم نے پورے پورے شاعر بنتے ہوئے کہا تھا۔ ’’آج پورا چاند نکلے گا ڈنر کے بعد جب سب چلے جائیں تے تو تم یہیں رہنا اور پھر ہم دونوں پپی کو ساتھ لے کر پھولوں میں پریاں ڈھونڈیں گے۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ منی جیسے تمہاری ہر بات ماننے کے لیے پہلے ہی سے تیار بیٹھی تھی میں نے تم دونوں کو اپنے بازوؤں میں لے کر بڑی دیوانگی سے چوما تھا اور تم دونوں پر جلدی سے مرچیں واری تھیں۔ تم اس کی و جہ پوچھنے کے بعد منی کو پپی کی زنجیر تھماکے اور خود منی کا ہاتھ پکڑ کر باہر چلے گئے تھے۔۔۔ چلے گئے ہو۔ ابھی ابھی۔۔۔ کیوں کہ دروازے کے پردے ہل رہے ہیں۔ باہر ریکارڈوں پر ہلکی ہلکی موسیقی ہو رہی ہے اور تم سب بچے فلڈ لائٹ کی روشنی میں ’’کوکلا چھپاکے‘‘ کھیل رہے ہو۔ پپی، منی کی پیٹھ پیچھے سے رومال اٹھاکر لے بھاگا ہے۔ منی اس سے رومال حاصل کرنے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی ہے۔۔۔ تم بڑے غصے میں چیخ رہے ہو ’’پپی۔۔۔ پپی کے بچے۔۔۔ ایڈیٹ۔‘‘ پپی اور منی گیٹ سے باہر نکل گئے ہیں اور تم بھی ان کے پیچھے باہر چلے گئے ہو۔۔۔ باہر بے حد تاریکی ہے۔ کیونکہ سڑک پر بجلی کے کھمبے کا بلب فیوز ہوگیا ہے۔ اور اندھیرا فلڈ لائٹ کو نگل رہا ہے۔۔۔ تم پپی اور منی کے پیچھے پیچھے بھاگتے بھاگتے ان دونوں کی طرح تاریکی میں کھوگئے ہو۔۔۔ کھوگئے ہو۔ اور میرا دل دھک دھک کر رہا ہے۔ اس تاریکی میں غروب ہو رہا ہے اور میں بہت گھبراگئی ہوں کیونکہ شام کے وقت اندھیرے میں سڑک پر سانپ وغیرہ ہوتے ہیں۔۔۔ زین! زین۔۔۔ لوٹ آؤ پپی خود ہی رومال لے کر آجائے گا۔۔۔ باہر لان میں بچوں کا اتنا شور ہے کہ میری آواز تم تک نہیں پہنچتی۔ زین۔۔۔ منی۔۔۔ منی۔ زین سے کہو لوٹ آئے۔۔۔ میری آواز کوئی نہیں سنتا۔ زین جی، تم بھی نہیں۔۔۔ اندھیرا شاید ہر چیز کونگل لیتا ہے۔ میں سراج بابا کو بلاتی ہوں کہ وہ تمہاری حفاظت کے لیے جائے۔۔۔ ’’سراج۔۔۔! سراج۔۔۔!‘‘

    ’’جی۔ بی بی۔ جی۔‘‘

    ’’وہ دیکھو زین یہاں۔۔۔‘‘

    میں نے کھڑکی سے باہر اشارہ کرتے ہوئے سڑک پر تمہیں دیکھنا چاہا ہے۔ سڑک ویران پڑی ہے۔ غروب ہوتے ہوئے سورج کی کرنیں نیم گرم سڑک کو چاٹ رہی ہیں۔ درختوں اور پودوں سے رات کا اندھیرا نکل نکل کر پھیل رہا ہے۔ لان میں بجتی ہوئی ہلکی ہلکی موسیقی اور بچوں کے شور کو یہ اندھیرا نگل رہا ہے۔۔۔ پپی اس اندھیرے سے گھبراکر اٹھ کھڑا ہوا ہے اور بے حد اکتایا ہوا لان کے گھاس کی ایک پتی کو سونگھ رہا ہے۔ میں نے شرمندہ سی ہوکر سراج کو دیکھا ہے۔ اس کی آنکھوں میں بڑی شفقت ہے کیونکہ میرا بچپن اور جوانی اس کے ہاتھوں میں گزری ہے۔ وہ خدا سے صرف اس لیے اور زندگی مانگتا ہے کہ تم بھی اس کے ہاتھوں میں جوان ہو۔۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔۔۔ میں اس کے آنسوؤں کامطلب نہیں سمجھ سکی۔۔۔ جانے کیوں زیرلب ایک مرتبہ پھر میں نے ’’زین‘‘ کہا ہے۔ سراج آنسو پینے کی کوشش کر رہا ہے۔

    ’’بی بی جی۔۔۔ زین میاں ابھی تو اسکول سے نہیں آئے۔‘‘

    ’’سراج بابا۔۔۔ میں نے تم سے کئی مرتبہ کہا ہے کہ اسکول سے پتا کرو۔ تم خود جاتے ہو نہ مجھے ہی جانے دیتے ہو۔۔۔ خدا معلوم جمی کب آئیں گے۔‘‘

    ’’چاردن کاٹور تھا۔۔۔ انشاء اللہ کل آجائیں گے۔ وہ آپ کو ساتھ لے جانا چاہتے تھے، اگر آپ چلی جاتیں تو بہتر تھا۔‘‘

    ’’اور زین کو گھر میں تنہا تھور جاتی۔!‘‘

    ’’بی بی جی۔۔۔ زین میاں تو۔۔۔ وہ تو۔‘‘ سراج بابا رودیا ہے۔ ’’وہ تو اسکول کے۔۔۔ سمر کیمپ میں گئے ہیں۔‘‘

    مارچ میں سمر کیمپ کہاں ہوتا ہے۔۔۔ اور پھر وہ مجھ سے پوچھے بنا کہیں نہیں جاسکتا۔ پرسوں اس کا برتھ ڈے ہے۔ اس نے کہا تھا کہ سارا انتظام وہ خود کرے گا۔۔۔ اور اب تم کہتے ہو کہ وہ سمر کیمپ پر چلا گیا ہے؟

    سمر کیمپ۔۔۔ سمرکیمپ۔۔۔ یہ دو الفاظ ہمیشہ زہر بن کر میرے کانوں میں اترتے رہیں گے۔ سراج۔! میرے سامنے سمرکیمپ کا نام آئندہ کبھی نہ لینا۔ یہ سنتے ہی میرے ذہن میں ایسی جگہ کا تصور آجاتا ہے جہاں زندگی پر پھپھوندی جمنا شروع ہوجاتی ہے۔۔۔ اب میں اپنے زین کو وہاں ہرگز نہجانے دوں گی۔۔۔ چاہے تم کتنی ہی ضد کرو زین!۔۔۔ وہیں سے تو تمہارا خط آیا تھا کہ یک لخت تمہارے دائیں کان میں بری شدت سے درد شروع ہوگیا ہے۔ یہ پڑھ کر میں بہت پریشان ہوئی تھی۔ یہ پچھتاوا مجھے رہ رہ کر کھانے لگا کہ میں نے تمہیں وہاں پر تنہا کیوں بھیجا۔ جمی نے مجھے بڑی تسلیاں دیں کہ کان کا معمولی سا درد ہوگا۔ مگر جانے کیوں یہ درد میرے دل میں بیٹھ گیا تھا۔ میں نے اسی وقت تمہارے ہاؤس ماسٹر کو فون کیا۔ اس نے بتایا کہ درد کی دوا لینے کے بعد اب تم سو رہے ہو اور کل صبح اٹھتے ہی تم مجھے فون کروگے۔۔۔ جمی سے تمہارے متعلق باتیں کرنے کے بعد میں بڑی شرمندہ سی ہوئی کہ کان کے اتنے معمولی سے درد نے مجھے خواہ مخواہ پریشان کردیا۔۔۔ پھر بھی جانے اس اطمینان میں بے چینی کے بلبلے کیوں پھوٹتے رہے۔ کوئی انجان سا احساس مجھے چھوٹے چھوٹے زخم لگاتا رہا۔

    اگلی صبح تمہارا فون آیا کہ تم بالکل ٹھیک ٹھاک ہو اور مجھے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ورنہ تم مجھ سے روٹھ جاؤگے۔ تم کھانے کے بعد باقاعدہ اوولٹین دودھ اور میناڈیکس پیتے ہو۔ اور اچار بالکل نہیں کھاتے۔ اور اگر اب بھی میں تمہارے بارے میں متفکر رہی تو پھر۔۔۔ کٹی۔

    تمہارے خیریت کے خطوں اور ٹیلیفونوں کے باوجود کبھی کبھی میں بہت پریشان ہوجاتی تھی۔ مجھے تمہارا خط ابھی تک زبانی یاد ہے۔ جس میں تم نے لکھا تھا۔۔۔ آج ہم نیچر سٹڈی کے لیے گئے تھے۔ امی! میں نے ایک بڑی عجیب سی بات نوٹ کی ہے۔ یہ کہ:

    کونپلیں جب پھوٹتی ہیں تو ان کا رنگ زرد ہوتا ہے اور جوانی کے بعد جب ان کا آخری وقت قریب آتا ہے تو سبز رنگ آہستہ آہستہ پھر زردی میں تبدیل ہونے لگتا ہے۔ میں نے ٹیچر سے اس کی وجہ پوچھی تھی تو انہوں نے بتایا تھا کہ پیدائش اور خاتمے کے وقت کلوروفل نہیں ہوتی۔۔۔ امی! ویسے تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی وجہ صرف کلوروفل ہی نہیں بلکہ کوئی اور بات ہے جسے ٹیچر جی بھی نہیں جانتے۔ آپ نے میری ہر مشکل حل کی ہے۔ آپ ہی مجھے بتادیجیے تاکہ کلوروفل والی بات مجھے سچی کیوں نہیں لگتی۔ کونپلوں اور بوڑھے پتوں کی زردی کے بارے میں میرا احساس کیا ہے۔۔۔‘‘

    اس کے بعد تم نے ایک نظم بھی لکھی تھی ’’زرد کونپل‘‘ اب تک اپنی آخری نظم، کہ۔۔۔

    نرم و نازک ننھی کونپل کا، سبز ڈالی کے جھولے میں

    یہ پیلا پیلا چہرہ، جو

    رفتہ رفتہ سبزی میں ڈھل جاتا ہے اور وہ اپنی زردی کو بھول کر

    کومل ہواؤں کی دھن پر ناچتی ہے، جیسے یہ زردی کبھی لوٹ کر نہ آئے گی

    جیسے وہ کبھی ناتواں نہ تھی، اور نہ پھر کبھی ہوگی۔

    ننھی کونپل، جب تو ہواؤں کی دھن پر ناچتی ناچتی

    تھک کے زرد ہوجائے گی۔

    اور اپنے نغموں کے بدلے میں کومل ہوائیں

    تجھے ڈالی کے جھولے سے چھین لیں گی (اور تجھے انجانی دنیا میں لے جائیں گی)

    تو تم مجھے اپنے زرد بچپن کا، اپنے زرد بڑھاپے کا،

    راز ضرور بتانا

    تمہاری اتنی عجیب و غریب نظم پڑھ کر میری روح ان گنت خلاؤں میں اتر گئی تھی۔ میں نے تمہارے سوال کے بارے میں بہت سوچا۔ لیکن میں بھی تمہارے ٹیچر کی طرح بے بس ہوں۔ میں تمہیں ایک بار پھر کہتی ہوں کہ اتنی بے معنی سی باتیں نہ سوچا کرو، نہ لکھا کرو۔ تمہاری عمر کے لڑکے ایسی باتیں نہیں کرتے۔ تمہارے منہ سے ایسی باتیں سن کر میری آدھی جان نکل جاتی ہے۔۔۔ کیوں؟ کاش تم عورت ہوتے، ماں ہوتے تب تمہیں پتا چلتا کہ بہت سی ہونے والی باتوں کا ہیولہ پہلے ہی ماؤں تک پہنچ جاتا ہے۔ زین! میں اب بھی تمہاری نظم دہرا رہی ہوں۔ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں گی مگر ہر کوشش پر میرے ذہن میں ایک دھند سی چھاجاتی ہے جس میں بہت سی زرد کونپلیں پھوٹتی نظر آتی ہیں۔ پھر دھند تیز آندھیوں میں تبدیل ہوجاتی ہے اور چاروں طرف بوڑھے بوڑھے زرد زرد پتے اڑنے لگتے ہیں۔ انہی تیز ہواؤں کے شور میں دبی ہوئی تمہاری دھیمی آواز فون پر سنائی دیتی ہے۔

    ’’امی پچھلے دو دنوں سے میرے کان میں متواتر درد ہو رہا ہے۔۔۔ پہلے بھی ہوتا تھا مگر اتنا شدید اور متواتر نہیں۔ میں نے آپ کو پہلے اس لیے نہیں بتایا تھا کہ آپ خواہ مخواہ فکر کرنے لگتی ہیں۔‘‘

    ’’تم۔۔۔ تم۔۔۔ ہسپتال نہیں گئے؟‘‘

    ’’گیا تھا جی۔۔۔ ڈاکٹر کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا وہ کان میں دو ڈال کر کوڈو پائرین کھلادیتے ہیں۔‘‘

    ’’اب۔ اب۔۔۔ تمہارا کیا حال ہے؟‘‘

    ’’جی اب۔۔۔ امی! میں واپس آنا چاہتا ہوں۔ کیمپ کے ختم ہونے میں تو ابھی ایک مہینہ ہے۔ آپ فکر بالکل نہ کریں۔ میں اب ٹھیک ہوں۔‘‘ غالباً درد کی شدت سے تم نے اپنا ہونٹ دانتوں میں لے لیا تھا۔

    ہواؤں کا شور پھر بڑھ جاتا ہے اور تمہاری آواز دبتی جاتی ہے۔۔۔ نیچے بہت نیچے میں ہواؤں کے شور سے گھبراکر اپنے دل میں تمہاری نظم لپیٹ کر رکھ دیتی ہوں اور پپی کو گود میں بٹھاکر پیار کرنے لگتی ہوں۔

    اس رات پھر نیند میری آنکھوں کی راہ بھول گئی تھی۔ جمی نے ایک بار پھر مجاہدوں کی ماؤں کا ذکر کیا۔ میں نے ان تنکوں کا سہارا لے تو لیا لیکن مجھے پتا تھا کہ کان کے معمولی درد (جو کسی وجہ کے بغیر اتنی تشویشناک صورت اخیار کرلے) اور جہاد میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ اگر تمہیں کسی جہاد میں جانا ہوتا تو میں یقیناً تمہیں ان مجاہدوں سے زیادہ بنا سنوار کے بھیجتی۔ لیکن تمہیں تو تکلیف تھی۔ اپنے دل کی دھڑکن کومعمول پر لانے کے لیے میں نے وہ رات جائے نماز پر گزاری اور (اگرچہ جمی کو اعتقاد نہ تھا) سراج بابا کے کہنے پرمیں نے ایک سیاہ بکرا صدقہ کیا تھا۔

    دوسری صبح جمی کو فتر چھوڑ کے میں تمہیں لینے کے لیے خود سیشن پر گئی۔ تمہارے دائیں کان پر روئی کی گدی رکھ کر پی باندھی گئی تھی۔ اور تمہارا چہرہ۔۔۔ تمہارا چہرہ۔۔۔ بالکل زرد کونپل تھا۔ جیسے تم ابھی ابھی پیدا ہوئے تھے۔۔۔ ’’اگربچے سے احتیاط نہ برتی گئی تو۔۔۔‘‘ میرا جی چاہتا تھا کہ تمہیں دبیزکمبل میں لپیٹ کر گود میں اٹھالوں۔ جولائی کی گرمی کے باوجود تم سویٹر پہنے ہوئے تھے (ہاؤس ماسٹر نے ہدایت کی ہوگی) میں نے تمہیں اپنے سینے سے بھی نہ لگایا۔ تمہارا منہ بھی نہ چوما، مبادا تتریوں کی طرح تمہارے چہرے کی زردی جھڑ نہ جائے۔ تم نے گاڑی سے اترتے ہی کہا تھا ’’اس وقت میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔‘‘ میں نے تصور ہی تصور میں پلیٹ فارم پر شکرانے کا سجدہ کرکے ایک اور بکرا صدقہ کرنے کا عہد کیا تھا۔ تم اتنے کمزور ہوگئے تھے کہ میرے کندھے کا سہارا لے کر باہر کار تک آئے۔ میں تمہاری بہادری کی خاموش داد دیتی رہی کہ محض میری پریشانی کا خیال کرتے ہوئے تم نے مجھے اپنی تکلیف کی باقاعدہ اطلاع نہیں دی۔۔۔ اور تمہیں اس درد کی ذرا پرواہ نہیں۔ تمہارے نزدیک اس تکلیف کی کوئی اہمیت نہیں۔۔۔ ابھی ٹھیک ہوجائے گی۔۔۔ ابھی امی! آپ کیوں خواہ مخواہ پریشان ہوتی ہیں۔۔۔

    اسی دن ہم تمہیں ای۔ این۔ ٹی سپیشلسٹ کے پاس لے کر گئے۔ اس نے آدھ گھنٹہ تک معائنہ کرنے کے بعد نسخہ لکھتے ہوئے کہا تھا کہ بظاہر تو کچھ نہیں۔۔۔ یہ دوائی استعمال کردیجیے۔ جلد ہی آرام آجائے گا۔ دوائی کھانے کے باوجود اس رات تمہیں بہت درد ہوتا رہا۔ جس کی شدت کااندازہ میں نے صرف تمہارے دانتوں میں دبے ہوئے ہونٹ سے کیا تھا۔ تم کراہتے تو نہیں تھے کیوں کہ اپنے قول کے مطابق تم مرد تھے۔۔۔ اتنے بڑے کہ ہزار سال کے۔

    پورے دو ہفتے سپیشلسٹ نے فیسیں وصول کیں کہ اس کی ہدایت کے مطابق اس کو تمہاری حالت سے ہر روز آگاہ کرنا ضروری تھا۔ اس عرصے میں سوائے گنتی کے چار پانچ دنوں کے، دوائی نے تم پر کوئی اثر نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر نے کان کا ایکسرے کروانے کے لیے کہا۔ ایکس رے دیکھنے کے بعد اس نے کان کے درمیانی حصے کی Infection تشخیص کی۔ چنانچہ اس بیماری کا علاج شروع ہوگیا۔

    تمہارے لیے ہر وقت چارپائی پر لیٹے رہنا ضروری تھا۔ کان کے درد کی وجہ سے تم کچھ چبا بھی نہ سکتے تھے۔ شاید اسی لیے تم اور بھی کمزور ہوگئے تھے۔ تم ہر وقت چارپائی پر لیٹے کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے۔ میں نے تمہیں کئی مرتبہ منع بھی کیا کہ یوں نظر کمزور ہوتی ہے لیکن تمہارا خیال تھا کہ تم کتابوں میں اپنا درد بھول جاتے ہو۔

    ایک روز تم نے کوئی رسالہ پڑھتے پڑھتے اسے بند کرکے سینے پر رکھ کر آنکھیں موندلی تھیں۔ میں نے تمہاری طرف غور سے دیکھا تو تمہاری آنکھوں کے کونوں میں پانی سا چھلک رہا تھا۔۔۔ آنسو۔۔۔! تمہاری آنکھوں میں۔۔۔؟ میں نے زندگی میں پہلی بار (اور آخری بار) تمہاری پلکوں کو گیلا دیکھا تھا۔

    ’’زین۔۔۔!‘‘ میں نے ہولے سے تمہارے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا تھا۔ ’’کیا بات ہے۔۔۔ زین جی؟‘‘

    تم نے یکدم آنکھیں کھول دی تھیں۔۔۔ ’’کچھ نہیں امی۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں۔‘‘ تم نے فوراً رومال سے آنکھیں خشک کی تھیں اور جلدی سے رسالہ اٹھاکر اپنے سرہانے کے نیچے رکھ لیا تھا اور پھر ہم دونوں ایک دوسرے کے سینے سے لگ کر اتنا روئے تھے کہ ساون میں آسمان بھی کیا روتا ہوگا۔

    ’’کیا ہوا ہے زین۔۔۔ درد بڑھ گیا ہے؟‘‘

    تم نے نفی میں سرہلایا تھا۔

    ’’تو پھر۔۔۔‘‘

    ’’کچھ نہیں امی جی۔۔۔ یونہی بس۔۔۔ آئندہ نہیں روؤں گا۔ آپ ہی تو کہا کرتی ہیں کہ اچھے بچے رویا نہیں کرتے۔‘‘

    لیکن میں ایکاچھی امی نہیں ہوں۔ جانے میری آنکھوں میں اتنا پانی کہاں سے آجاتا ہے تم نے کہاتھا۔ ’’امی جی۔۔۔ اچھی امیاں بھی تو نہیں رویا کرتیں۔‘‘

    ’’تو پھر مجھے وجہ بتاؤ۔۔۔‘’ تم نے لیٹے لیٹے مڑ کر اس رسالے کو اور بھی اپنے سرہانے کے نیچے چھپادیا تھا۔۔۔ ’’کیا اس رسالے میں کوئی بات ہے؟‘‘

    ’’نہیں امی۔۔۔‘‘

    ’’تو پھر تم روئے کیوں تھے۔۔۔؟‘‘

    ’’آئندہ نہیں روؤں گا۔‘‘

    اس وقت تمہارے آنسو بھی تمہاری نظم کی طرح ایک معمہ بن کر رہ گئے تھے تمہارے یہ کہنے پر کہ اچھی امیاں ضد بھی نہیں کرتیں۔۔۔ میں خاموش ہوگئی تھی اور تم نے تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد کہا تھا۔

    ’’امی جی۔۔۔ میں اس کان کا کیا کروں۔۔۔ آپ کو اس طرح اداس اور پریشان دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ میں آپ کو اس طرح غمگین نہیں دیکھنا چاہتا۔۔۔‘‘

    ’’نہیں میرے لعل۔۔۔ مجھے کیا غم ہے۔ تم میرے اتنے بہادر بیٹے ہو۔۔۔‘‘

    ’’اباجی سے کہیں کہ وہ بھی پریشان نہ رہا کریں۔۔۔ مجھے یوں نہ دیکھا کریں۔‘‘ (وہ تو دفتر سے بھی دو تین مرتبہ مجھ سے تمہارا حال پوچھتے تھے۔)

    تمہارا اسکول کھل گیا تھا۔ تم اتنی تکلیف کے باوجود اسکول جانا چاہتے تھے کہ کہیں لڑکے پڑھائی میں تم سے آگے نہ نکل جائیں لیکن ہاؤس ماسٹر نے (جو کہ تمہاری قابلیت کا بہت قائل تھا) آکر تمہیں تسلی دی کہ تمہارے صحت یاب ہونے پر وہ خود ہی تمہاری کمی کو پورا کرادے گا۔ ہر روز تمہارا کوئی نہ کوئی دوست تم سے ملنے کے لیے آتا۔ تم اس سے مل کر بہت خوش ہوتے۔ وہ تمہیں اس دن کی پڑھائی کے متعلق بتاتے اور تم وہ سبق ضرور پڑھتے۔ ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن منی امی کے ساتھ آتی تھی اور ہمیشہ تمہارے لیے پھولوں کا گلدستہ لاتی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ مجھ سے بھی بڑھ کر اس کی خواہش تھی کہ تم جلد اچھے ہو جاؤ کیونکہ تم اس کے سب سے اچھے دوست تھے۔ پھر ایک دن منی نے بتایا تھا کہ کل اس کا جنم دن ہے۔ تم نے کہا تھا کہ تم ضرور جاؤگے۔ ہم سب کے منع کرنے کے باوجود تم اس کے برتھ ڈے پر گئے کیوں کہ تم آج تک غیر حاضر نہیں ہوئے تھے۔ اگرچہ تم نقاہت کے باعث اس کی دعوت کا انتظام نہ کرسکے لیکن پھر بھی تم نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے چیزوں کو سجانے کی ہدایت دی تھیں۔ سہ پہر کے وقت چائے شروع ہوئی تو جانے تمہارے کان میں درد کہاں سے لوٹ آیا تھا۔ تمہادے دانتوں میں نچلا ہونٹ دیکھ کر گھبراگئی تھی اور میں نے تمہیں گھر چلنے کو کہا تھا۔ تم نے انکار کردیا۔

    ’’امی۔۔۔ اتنا مزہ آرہا ہے۔ کوئی بات نہیں میں ابھی ٹھیک ہوجاؤں گا۔۔۔ اگر میں چلا گیا تو منی بور ہوگی۔‘‘

    میں نے تمہیں درد کی گولی کھلائی (جس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا) تکلیف کے باعث تم اس تمام رات نہ سوسکے۔ مجھے وہاں لے جانے سے پہلے ہی خدشہ تھا کہ تمہارے کان پر روئی کے باوجود سرد ہوا تمہیں تنگ کرے گی۔ صبح کے وقت کہیں جاکر تمہاری آنکھ لگی تھی۔ اسی رات سے تمہیں بخار بھی رہنے لگا تھا۔ تمہارے ابا بھی بہت متفکر تھے۔ دن چڑھتے ہی وہ بڑے غصے میں ڈاکٹر کے پاس گئے اور جب وہ لوٹے تو ان کا سر کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ انہیں اس طرح دیکھتے ہی میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

    ’’ڈاکٹر کیا کہتا ہے؟‘‘

    ’’ہمارے زین کا یہاں کے ڈاکٹروں کے پاس کوئی علاج نہیں۔۔۔ کان کی ہڈی کی Infection غالباً دماغ کی جھلیوں تک پہنچ گئی ہے۔ رات جو لمبر پنکچر سے ہسپتال میں مواد حاصل کیا تھا اس سے ڈاکٹر نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔۔۔ اسی لیے تیز بخار بھی شروع ہوگیا ہے۔‘‘ انہوں نے میرے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا تھا۔

    کان کا اتنا معمولی سا درد، اور اس کا یہاں کوئی علاج نہیں۔۔۔! میرے کان بند ہو گئے، میری آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ ان تمام ڈاکٹروں کی ڈگریاں پھاڑ دوں۔ میں گھبراکر تمہارے کمرے میں آئی۔۔۔ تم سو رہے تھے۔ میں نے بہت آہستہ تمہارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا جیسے اپنے ہاتھوں سے تمہارے تمہارے ہاتھوں میں زندگی تھمارہی ہوں۔

    تمہیں سوئے ہوئے تیرہ گھنٹے ہوگئے تھے۔ تم آج تک اتنا نہیں سوئے تھے۔ میں نے تمہیں اٹھانا چاہا لیکن شاید تم اٹھنا نہیں چاہتے تھے۔ جمی نے بے حد متفکر ہوکے ڈاکٹر کو فون کیا۔ اس نے بتایا کہ اس بیماری میں ایسا ہوجایا کرتا ہے۔

    جب تم اٹھے تو پہلے سے بہتر تھے۔ بھوک لگی تھی۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے تمہیں دودھ کا گلاس پلایا مجھے ابھی تک ڈاکٹر کی بات پر یقین نہیں آیا تھا کہ تمہارا مرض لاعلاج ہے مجھے تمام علاجوں سے بڑھ کر اپنی دعاؤں پر اعتماد تھا۔۔۔ اور پھر اتنا ظالم تو کوئی نہیں ہو سکتا تھا کہ میرے اکیلے زین کو جو کہ اتنا اچھا بچہ تھا، جو کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا تھا، مجھ سے اتنی بے دردی سے چھین لیا جاتا۔۔۔ میں دعاؤں اور صدقوں کے سہارے تمہارے لیے زندگی حاصل کرتی رہی۔۔۔ تمہیں دیر سے ہونے والے درد اب اکثر لوٹا کرتے تھے۔ اور ہر درد کے بعد تم گہری لمبی نیند میں اترجاتے تھے۔ جانے میں نے یہی زندگی تمہارے لیے نارمل کیوں سمجھ لی تھی۔ میرے نزدیک سب ڈاکٹر بکواس کرتے تھے کہ یہ ناقابل علاج بیماری ہے۔ میرا خیال ہے کہ خدا نے تمہارے لیے زندگی کا یہی طریقہ سوچا تھا۔

    پھر تم نے میرے اس نظریے کی پختہ عمارت کو بھی گرادیا۔ اس روز مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا تھا کہ ڈاکٹر صحیح کہتے ہیں۔ میرے اعتقاد ریت کے تھے۔ تم جب اپنی لمبی نیند سے اٹھے تھے تو تم نے مجھے بتایا تھا کہ تم نے بڑا عجیب سا خواب دیکھا ہے۔ کہ وہ پریاں جنہیں تم چاندنی راتوں میں ڈھونڈا کرتے تھے اور جو دیکھنے پر نظروں سے غائب سی ہوجاتی تھیں۔ وہ ایک ایسی ہی چاندنی رات میں پھولوں سے نکل کر خود ہی تمہارے پاس آگئی ہیں اور تمہارے انکار کے باوجود کہ میں تمہارے بغیر اداس ہوجاؤں گی، تمہیں اپنے ساتھ لے گئی ہیں۔۔۔ خواب سنانے کے بعد تم نے کہا تھا۔

    ’’امی اگروہ پریاں مجھے اپنے ساتھ لے گئیں تو آپ بالکل اداس نہ ہوئیے گا۔ میں ان سے پوچھ کر آپ سے ملنے آیا کروں گا۔‘‘

    ’’نہیں زین جی۔۔۔ میں تمہیں نہیں جانے دوں گی۔‘‘

    میں نے تمہارا ہاتھ اس قوت سے پکڑا تھا۔ جیسے وہ تمہیں لیے جارہی ہوں۔ میری گھبراہٹ اور پریشانی دیکھ کر تم نے کہا تھا۔

    ’’امی آپ کیوں اس طرح ہو رہی ہیں۔۔۔ خواب تو خواب ہوتے ہیں۔‘‘

    اپنے ابا کی طرح تمہیں بھی تسلیاں دینے کی بڑی عادت ہے۔ میں تمہاری، اپنی باتوں کا سہارا لینے کی بجائے اور کیا کرتی۔۔۔ اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کیا کروں۔ تمہارے ابا نے تمہیں امریکہ یا لندن لے جانے کی بہت کوشش کی لیکن حکومت کی طرف سے اجازت نہیں ملتی کیونکہ ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ بوجوہ محکمے والوں کو یہ نہیں لکھا تھا کہ اس مرض کا علاج یہاں نہیں ہوسکتا۔ شاید وہ اس میں اپنی ہتک سمجھتے تھے۔

    درد کی وجہ سے دو دو دن نہیں سوتے تھے۔ اور جب سوتے تھے تو پہروں پتہ نہیں چلتا تھا کہ تم کہاں کھوگئے ہو۔ زین! میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا کہ انسان ایسے حالات میں بے بس کیوں ہوجاتا ہے۔ انسان ت وانسان مائیں بھی اپنے بیٹوں کے لیے کچھ نہیں کرسکتیں۔۔۔ تم جب جاگ رہے ہوتے تو لیٹے لیٹے نہ جانے تم میں اتنی طاقت کہاں سے آجاتی تھی کہ تم ایک دم اٹھ کر میرے سینے سے لگ جاتے۔ پھر علیحدہ ہوکر مجھے اتنی عجیب سے نگاہوں سے دیکھتے کہ میں خودبخود ہی کہنے لگتی۔

    ’’نہیں زین۔۔۔ تم بہت جلد ٹھیک ہوجاؤگے۔‘‘

    ’’ہاں امی۔۔۔ بہت جلد۔۔۔ میں جانتا ہوں۔‘‘ تم کروٹ لے کر منہ دوسری طرف کرلیتے اور میں۔۔۔ بس وہاں کرسی پر بیٹھی تمہیں دیکھتی ہی رہتی۔ بالکل پپی کی طرح۔۔۔ پپی جو تمہاری چارپائی کے قریب ہی بیٹھا تمہارے اٹھنے کاانتظار کرتا رہتا تھا۔ اور جواب چاندنی راتوں میں تنہا ہی باہر گھوما کرتا ہے۔

    پھر ایسے ہی دن آگئے جب کہ شبنم میں گھلی ہوئی صبحیں اپنے لحاف اتار کے نیم گرم دنوں کے صندوقچوں میں رکھ رہی تھی۔ اور مارچ نے گلاب کی خشک بانہوں میں سرخ کنگن پہنادیے تھے۔ جانے اتنے خوبصورت دنوں میں تمہاری نیندیں اتنی لمبی کیوں ہوگئیں۔۔۔ ایک شام تم نے اشاروں سے مجھے بتایا کہ میں تکیے کے نیچے سے تمہیں رسالہ نکال کر دوں۔ تم نے وہ رسالہ کھول کر دوبارہ میرے ہاتھ میں تھمادیا۔ اور اس میں چھپی ہوئی ننھی سی لڑکی کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑی مشکل سے کہا۔۔۔ ’’آپ بھی اس کی امی کی طرح رہیے گا۔۔۔ اگر آپ غمگین ہوئیں تو۔۔۔‘‘

    تم تھک گئے تھے میں وہ رسالہ بند کرکے اٹھی اور دودھ پلانے کے بعد تم کو آرام کرنے کے لیے کہا۔ تم نے آنکھیں موند لیں اور میں ریڈیزر ڈائجسٹ میں ’’گبرائیلی‘‘ پڑھنے لگی۔ جس میں ایک ماں نے اپنی بیٹی کو بھولنے کی کوشش کی تھی۔ اور میری سمجھ میں سب کچھ آگیا کہ تم اس روز زندگی میں پہلی اور آخری مرتبہ کیوں روئے تھے۔ تم نے نصیحت کی تھی کہ میں بھی ’’گبرائیلی‘‘ امی کی طرح صابر اور شاکر رہوں۔

    دوسرے روز تم نے مجھ سے پوچھا۔

    ’’امی۔۔۔ آپ کو کہانی پسند آئی۔‘‘

    میں نے اثبات میں سرہلادیا۔

    تم نے وقفے کے بعد کہا تھا ’’آپ اللہ میاں سے دعا کیجیے گا کہ وہ آپ کو مجھ جیسا اور زین دے دے۔ میں تو اب اتنا پرانا۔۔۔ بے کار سا ہوگیا ہوں کہ۔۔۔‘‘

    میری آنکھوں کے آنسو ختم ہوچکے تھے۔ میری آواز بھی آنسوؤں سے خشک تھی۔ میں نے تمہیں یقین دلایا تھا۔

    ’’اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کیا کرتے۔۔۔ کون کہتا ہے کہ تم پرانے ہوگئے ہو۔‘‘

    ’’میں بہت تنگ آگیا ہوں۔۔۔ مجھے جلد آرام آجائے گانا؟‘‘

    ’’ہاں۔ اں بہت جلد۔۔۔‘‘

    تم یوں مسکرائے تھے جیسے میرا مذاق اڑارہے ہو۔ پھر تم نے میری ہتھیلی پر گال رکھ کرآنکھیں موندلیں تھیں۔۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے ہوئے مکڑی کے جالوں کے تار تھامے ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے تند ہواؤں میں کھڑے تھے۔ تند شوریدہ ہوائیں جو کہ درختوں کے ساتھ اٹکے ہوئے چند ایک آخری زرد پتوں کو نوچ رہی تھیں۔ تم میرے ہاتھ میں لرز رہے تھے۔۔۔ زرد۔۔۔ دیے کی لو۔۔۔ زرد۔۔۔ کونپل۔۔۔ زرد پتے۔۔۔ ’’زین۔۔۔ ز۔۔۔ ے۔۔۔ ن۔۔۔‘‘ تم پہلے تو کبھی نہیں چیخے تھے۔۔۔ اب تمہیں یقیناً حد سے زیادہ درد ہو رہا ہوگا۔۔۔ نچلے ہونٹ کو دانتوں میں چباتے چباتے اس پر سرخ نگینے ابھر آئے ہیں۔ زین۔ یہ درد تم میرے کانوں میں اتاردو۔ او پلیز۔۔۔! اللہ میاں تم نے تو میرے پیروں میں جنت بنادی تھی۔ اب اس کے باسی کو کیوں چھین رہے ہو۔۔۔ اللہ میاں۔۔۔! عزرائیل تمہاری نافرمانی کرنے آرہا ہے۔۔۔ ورنہ مجھے پتا ہے کہ تم بڑے رحیم ہو۔ تم میرے زین کی تکلیف مجھے دے دو۔ اگر نہیں تو میرے پیروں میں ڈالی ہوئی جنت واپس لے لو۔ اللہ میاں ان تیز ہواؤں کو روک دے۔ اس وقت جب کہ زین ایک زرد کونپل تھا اور اس کی زندگی کی کوئی امید نہ تھی تو تم ہی نے اسے زندگی دی تھی۔ لیکن اب تم نے اس کونپل کو جوانی سے بھی پہلے زردی دے دی ہے۔۔۔ کیوں۔۔۔ کیوں۔۔۔؟

    جانے میری آنکھوں کے سیلاب میں امیدوں کی کشتیاں میری دعائیں لیے خدا تک پہنچی تھیں یا نہیں۔۔۔ مگر تیز ہوائیں رک گئیں۔ درد کے مارے بستر پر اپنا جسم، ٹکراتا ہوا پتہ سا کت تھا۔ تم تمام دن کی تڑپ کے بعد اب سوئے تھے۔۔۔ میں نے گھبراکر تمہاری نبض پہ ہاتھ رکھا تھا۔ نبض چل رہی تھی، آہستہ آہستہ۔۔۔ دھیرے دھیرے۔۔۔ میری انگلیوں کے ذریعے مجھے زندگی دے رہی تھی۔۔۔ اگلی صبح تم نے مسکراتے ہوئے مجھے سلام کیا، میں نے ساری رات آنکھوں میں گزاردی تھی۔ تم نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’امی۔۔۔ آپ ہر وقت اداس سی رہا کرتی تھیں۔ فکر مند سی۔۔۔ میں نے بھی اللہ میاں سے دعا کی ہے کہ۔۔۔‘‘

    تمہارے چہرے پر ہلکی سی سرخی دیکھ کر میں نے فوراً ایک اور سیاہ بکرا صدقہ کیا تھا۔۔۔ اور۔۔۔

    اور کتنی عجیب سی بات ہے کہ اس تاریک سی شام نے تمہارے چہرے کی ہلکی سی سرخی چھین کر تمہاری آنکھوں کو تاریکی دے دی تھی۔ پپی تمہاری چارپائی کے نیچے بیٹھا بڑی بری طرح رو رہا تھا۔ سراج بابا بڑے غصے میں اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور وہ جانے کیوں گھبراہٹ میں چکر لگاتا ہوا روتا رہا۔

    پھر جانے اتنے سارے لوگ کہاں سے آگئے۔۔۔ سب رو رہے تھے۔۔۔ منی بھی میری گود میں بیٹھی رو رہی تھی۔۔۔ لیکن میری انگلیوں میں تمہاری نبض دھڑک رہی تھی۔۔۔ آہستہ آہستہ۔۔۔ میری انگلیوں کے ذریعے مجھے زندگی دے رہی تھی۔۔۔ پھر ان سب کو جانے کیا ہوا کہ مجھے دوسرے کمرے میں لے گئے اور میں نے کھڑکی میں سے دیکھا کہ لوگ چارپائی پر سیاہ چادر میں چھپائے کچھ لیے جارہے ہیں۔۔۔ آہستہ آہستہ۔۔۔ سازشیوں کی طرح۔۔۔ چپ چاپ۔۔۔ چپ چاپ۔

    اتنا طویل خواب ختم ہونے ہی میں نہ آتا تھا۔ اور میں نے دیکھا کہ پریاں تمہیں اپنے ساتھ لیے جارہی ہیں۔ وہ بڑی خوش ہیں۔ تم بھی خوش ہو لیکن بار بار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے ہو۔۔۔ اور ایک عجیب سی اداسی تمہارے چہرے پر چھا جاتی ہے۔ خوشی اور اداسی کے امتزاج نے تمہارے چہرے کی ساری زردی اتاردی ہے۔۔۔ تمہارے ہلکے گلابی گالوں کو چھونا چاہتی تھی۔۔۔ زین۔۔۔ زین۔ میں تمہیں پکارتی ہوں۔۔۔ تم کہتے ہو۔

    ’’امی ان پریوں سے پوچھ لیجیے۔‘‘

    ’’زین۔۔۔‘‘

    میری آنکھ کھل گئی ہے۔۔۔ یہ دوسری صبح ہے۔۔۔ یہ سب چلے گئے ہیں۔ صرف تمہاری خالائیں اور منی ہیں جو غالباً ابھی ابھی سوئیں ہیں۔۔۔ ’’زین!‘‘ میں تمہیں پکار رہی ہوں۔ جمی نے مجھے بتایا ہے کہ تم اسکول گئے ہو۔۔۔ سراج بابا کہتا ہے کہ تم سمر کیمپ میں گئے ہو۔۔۔ میں لان میں تمہیں ڈھونڈتی پھر رہی ہوں، لیکن نوزائیدہ کلیاں اور کونپلیں حیرانی سے دیکھتی ہیں۔۔۔ ’’تم پاگل تو نہیں ہوگئیں۔۔۔ ہم تو ابھی کل ہی اس دنیا میں آئی ہیں۔۔۔‘‘

    میں ان جھاڑیوں کے قدموں میں جمی ہوئی خشک پتوں کی تہوں کو کھود رہی ہوں۔۔۔ آٹھویں، نویں، دسویں تہہ۔۔۔ کہاں ہے میرا زین، اس نے تمہارے ہی ساتھ آنکھ کھولی تھی۔۔۔ گلے ہوئے زرد پتوں کا رنگ اور بھی فق ہوگیا۔

    ’’زین۔۔۔ اسکول گیا ہے۔‘‘

    ساری کوٹھی گونج رہی ہے۔

    ’’زین سمر کیمپ میں گیا ہے۔‘‘

    تم سب جھوٹ بولتے ہو۔ میں جانتی ہوں میرا زین کہاں گیا ہے۔۔۔ وہ ان ستاروں کی سیر کرنے کے لیے گیا ہے جس کی خواہش اس نے اپنی پہلی نظم میں کی تھی۔ یہ محض اتفاق ہے کہ ایک ہزار سال ایک ہزار دنوں میں ختم ہوگئے ہیں، جب وہ لوٹے گا تو آسمان کے یہ پھول توڑلائے گا اور اپنے ڈرائنگ روم میں سجائے گا۔۔۔ لیکن کب؟ کب؟

    زین! یہ لوگ نہیں جانتے کہ ستاروں کی سیر کرتے ہوئے بھی تم میرے پاس ہوتے ہو۔۔۔ لیکن جب تک تم سچ مچ نہیں لوٹتے تو لوگ مجھ سے یہی کہتے رہیں گے کہ تم اسکول گئے ہو۔۔۔ سمر کیمپ گئے ہو۔۔۔ میں ہر روز صبح تمہارا منہ دھونے کے لیے پانی گرم کروں گی۔ کھانے پر تمہارا انتظار کیا کروں گی اور پپی کو اپنی گود میں بٹھاکر تمہاری نظمیں پڑھا کروں گی۔۔۔ اور پھر پرسوں تمہارا جنم دن بھی تو ہے۔ تمہیں جانے اتنی جلدی کیوں تھی آج تمہیں پریوں کے دیس میں گئے ایک ہفتہ ہوگیاہے۔ پرسوں تمہارا برتھ ڈے ہے۔ تم تھوڑے عرصہ ہی کے لیے آجاؤ۔۔۔ محض ایک دن کے لیے۔۔۔ اب مجھے کیا پتا کہ اتنے سارے غبارے کہاں لٹکانے ہیں۔ دیکھو! منی بھی (جس کا تمہیں کتنا خیال ہے) بہت اداس ہوگی، میں وعدہ کرتی ہوں کہ تمہیں ایک دن سے زیادہ نہیں روکوں گی۔۔۔ میں یہ بھی وعدہ کرتی ہوں کہ تمہاری خاطر مارچ سے بہاروں کاایک تحفہ لے لوں گی اور ’’گبرائیلی‘‘ کی امی کی طرح اپنے غموں پر مسکراہٹوں کا پردہ ڈال دوں گی (لیکن اس شرط پر کہ تم ضرور آؤگے) اور ہاں! اب تو تمہیں اپنے زرد کونپل والے سوال کا جواب مل گیا ہوگا۔ جب آؤگے تو مجھے بھی بتانا۔۔۔ میں جمی، منی اور دوسرے سب، کیک پردس موم بتیاں جلاکر تمہارے انتظار کریں گے۔ اگر تم نہ آئے تو میں تم سے روٹھ جاؤں گی۔۔۔ کٹی کردوں گی، اور پھر اس وقت تم سے نہیں بولوں گی جب تک تم مجھے بھی ستاروں کی سیر کرانے نہیں لے جاتے۔۔۔

    مأخذ:

    پہلی کہانیاں (Pg. 228)

    • مصنف: انور سجاد
      • ناشر: نیاز احمد
      • سن اشاعت: 1990

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے