Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تیسری تکبیر

انور سجاد

تیسری تکبیر

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    بازار کی طرف دروازہ کھول کر میں بیٹھک میں اخبار پڑھ رہا تھا۔

    پروفیسر اسد کی بیوی آئی اور مجھے سلام کرکے بڑی تیزی سے اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد میری بیوی نے آکر مجھے بتایا کہ پروفیسر اسد کے ہاں اس کے بیٹے مجی کو پکڑنے کے لیے پولیس آئی ہے۔ اس نے اس سے وجہ پوچھی تو میری گھبرائی ہوئی بیوی نے کہا کہ مجی کی ماں نے اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا اور وہ لوگ مجھے بلا رہے ہیں۔۔۔ معاملہ محلے داری کا تھا اس لیے میرا جانا بہت ضروری تھا۔ میں نے فوراً اخبار بند کر دیا اور پروفیسر اسد کے ہاں چلا گیا۔

    اس کے گھر کے سامنے محلے کے چیدہ چیدہ آدمی جمع تھے۔ سب انسپکٹر اور دو سپاہی چارپائیوں پر بیٹھے تھے۔ سپاہی پروفیسر اسد کا حقہ گڑگڑا رہے تھے، میاں امین سب انسپکٹر کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا اور پروفیسر اسد محلے داروں سے مصروف گفتگو تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ میری طرف لپکا۔

    ’’یار غضب ہو گیا، یہ لڑکا بہت بدمعاش ہے، کم بخت نے آج یہ دن بھی مجھے دکھا دیا۔‘‘

    پروفیسر اسد سے کچھ پوچھنے کی بجائے میں نے سب انسپکٹر کو اپنا نام و نسب بتاکر اس ہنگامے کی وجہ پوچھی۔ اس نے خدا معلوم کس کو گالیوں سے نوازتے ہوئے پرچہ میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔۔۔ مجیب اسد ولد پروفیسر اسد علی سکنہ ہاشمی محلہ، ہمارے ہمسائے مسٹر اکمل کو سیٹیاں مارنے کے الزام میں ماخوذ تھا۔

    بات بڑی دلچسپ تھی کیونکہ مسٹر اکمل پچاس برس کا آدمی تھا۔ لیکن مجی سے اس بچپنے کی امید نہ کی جا سکتی تھی۔ وہ خاصا سلجھا ہوا انسان تھا، جانے کس ترنگ میں آکر اس نے یہ حرکت کی تھی۔

    میں نے ایس۔ آئی سے کہا، ’’جناب یہ کوئی قابل مؤاخذہ بات نہیں۔ اس میں کیا تک ہے کہ سیٹی بجانے پر کسی کو گرفتار کر جائے۔ بالفرض اگر اس نے مسٹر اکمل کی طرف دیکھ کر سیٹی بجائی بھی تھی تو کونسی آفت آگئی۔ میں بھی دو بچوں کا باپ ہوں، میرے سر کے بال قریب قریب سفید ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی مجھے سیٹی مارے تو بخدا تھانے میں رپورٹ لکھوانے کے بجائے کسی رقص گاہ میں جاکر ناچوں گا کہ میں ابھی بوڑھا نہیں ہوا۔‘‘

    ’’آپ نے یہ تو پڑھا نہیں۔‘‘

    یہ دوسری رپورٹ تھی۔ مجی، مسٹر اکمل کا لیٹربکس کھول کر نکالنے کے الزام میں بھی ماخوذ تھا۔ اس سے اس حرکت کی امید نہیں تھی۔۔۔ بہرحال اگر اس نے کسی وجہ سے خط نکالے تھے تو یہ قضیہ بھی آپس میں طے ہو سکتا تھا۔

    مسٹر اکمل اور پروفیسر اسد محلے کے شریف ترین آدمیوں میں شمار ہوتے تھے۔ جانے مسٹر اکمل نے کس وجہ سے پروفیسر کی عزت گندی نالیوں میں بہائی۔ میری سمجھ میں ابھی تک کچھ نہ آیا تھا۔ مجی کو اس کے لواحقین نے کہیں روپوش کر دیا تھا اور اب سب انسپکٹر اس کو ساتھ لے جانے پر مصر تھا۔

    مسٹر اکمل ابھی تک نہیں آیا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کے مکان کی طرف دیکھا، اس کی بیوی دروازے کی چق اٹھائے دیکھ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ گئی۔ میں نے میاں امین کو مسٹر اکمل کے گھر بھیجا کہ اس کو بلا لائے اور خود معاملہ رفع دفع کرانے کے لیے سب انسپکٹر کو سمجھانے کی کوشش کرنے لگا۔

    مسز اکمل نے میاں امین سے کہلوا بھیجا کہ آدھا گھنٹہ ہوا وہ دفتر گئے ہیں۔ مسٹر اکمل کا اتنی جلد دفتر جانا غیرمعمولی بات تھی۔ میں نے اس کے دفتر ٹیلیفون کرکے پوچھا تو چپراسی نے بتایا کہ ابھی چپراسیوں کے سوا کوئی نہیں آیا۔

    میں نے سب انسپکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر معنی خیز انداز میں اس کا کندھا دبایا اور اسے تھوڑی دور تک اپنے ساتھ لے گیا۔ چند ایک منٹوں کے بعد جب ہم لوٹے تو اس نے سپاہیوں سے کہا، ’’اب یہاں کون اتنی دیر تک مغزماری کرے اور کام بھی تو کرنے ہیں۔۔۔ کل آئیں گے۔‘‘

    پھر اس نے پروفیسر اسد کو تاکید کی کہ مجرم کل یہاں موجود ہونا چاہیے۔ سپاہیوں نے ہتھکڑی اٹھائی۔ حقے کے لمبے لمبے کش لیے اور چلے گئے۔

    محلے کے لوگوں میں طے پایا کہ شام کے وقت میاں امین کے گھر میں مسٹر اکمل اور دیگر احباب کو بلاکر سمجھوتہ کرا دیا جائے۔

    مسٹر اکمل کی حالت بہت قابل رحم تھی کیونکہ وہ اپنی بیوی کے سامنے یوں ہو جاتا جیسے لومڑی کے سامنے خرگوش، وہ زن مرید تو نہ تھا لیکن کوئی نہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی، اس کے ساتھ بالکل سوتیلے بچوں جیسا سلوک کرتی ہے۔ جب وہ نئے نئے اس محلے میں آکر بسے تھے تو محلے کی عورتوں کا خیال تھا کہ مسز اکمل ایسی اچھی اور نیک دل خاتون شاید ہی کوئی ہو۔ وہ اس کے سلیقے اور خوش نما لباس سے زیادہ اس کے برتاؤ سے متاثر تھیں۔ مسٹر اکمل برا فرمانبردار قسم کا خاوند تھا اور سب عورتوں کا خیال تھا کہ سب بیویوں کے خاوند ایسے ہی ہونے چاہئیں۔

    اس کی تینوں جوان بیٹیاں سردیوں کے دنوں میں بالکنی میں بیٹھ کر دھوپ سینکا کرتیں۔ گرمیوں کی شامیں بھی وہ اسی بے پردہ جگہ میں گزارتیں اور باہر آنے جانے والے کو دعوت نگاہ دیتیں۔ جب وہ بن سج کے کسی غرض سے باہر نکلتیں تو محلے کے نوجوانوں کی آنکھیں مجبور ہو جاتیں کہ وہ کچھ نہیں تو کم از کم ایک نگاہ اٹھاکر ہی دیکھ لیں۔

    یوں اور بھی کئی نوجوان بڑی دور سے سونگھتے ہوئے آتے اور سارا دن بالکنی کی طرف نظریں گاڑے، بلوں کے مانند، بالکنی میں بیٹھی ان چڑیوں کی طرف بھوکی نگاہوں سے دیکھتے۔ مسٹر اکمل کی چڑیاں ان آوارہ بلوں سے بہت لطف اندوز ہوتیں۔

    جب محلے میں ان بلوں کی آمد و رفت زیادہ ہو گئی اور ان کی نگاہیں دوسرے مکانوں کی طرف اٹھنے لگیں تو لوگ دبی دبی زبان میں اعتراض کرنے لگے۔ مسٹر اکمل اپنی بیوی سے بازپرس کیے بغیر جس طرح بھی ممکن ہوتا ان لوگوں کو مطمئن کر دیتا۔ شاید اس لیے کہ اپنی بیوی کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کرنے کی اس میں جرأت نہیں تھی۔ لیکن جب مسٹر اکمل کی غیرحاضری میں ان کے دروازے کے سامنے ہر روز نئی چمکیلی کاریں آنے لگیں تو محلے کی بڑی بوڑھیوں نے مسز اکمل کی شرافت، سلیقے اور برتاؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے صاف طور پر اس سے کہہ دیا کہ بہن! اپنی بیٹیوں کے چلن ٹھیک کرو۔ ان کے باعث محلے کے شرفا کی عزت کو گھن لگ رہا ہے۔

    مسز اکمل یہ سن کر مصنوعی سناٹے میں آ گئی۔ ’’آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ میری بیٹیاں اور ایسی ہوں۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر میری بچیاں میک اپ کرکے باہر جاتی ہیں تو کوئی حرج نہیں، آج کل سب لڑکیاں بناؤ سنگار کرتی ہیں۔۔۔ کون ہے جو اپنے کو سنوارنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ماشاء اللہ میری لڑکیاں خوبصورت ہیں اسی لیے آپ لوگ جلتی ہیں۔ اس محلے میں کوئی بھینگی، کوئی لنگڑی۔۔۔ کسی کا سر بڑا ہے تو کسی کا رنگ توے کے مانند۔۔۔ جبھی تو لوگ میری بیٹیوں کو ٹیڑھی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘

    جب ان چمکیلی کاروں کا حوالہ دیا گیا تو مسز اکمل نے انہیں بتایا کہ ان کاروں میں اس کے وہ رشتہ دار آتے ہیں جن کے ساتھ بعض خاندانی جھگڑوں کے باعث تعلقات بگڑ چکے تھے۔ لیکن بفضل خدا اب تعلقات سنور چکے ہیں۔۔۔ اور کھاتے پیتے آدمی ہیں۔

    مسز اکمل نے ہر طرح انہیں قائل کرنا چاہا، لیکن بڑی بوڑھیاں مطمئن نہ ہوئیں۔ بلکہ شام کے وقت محلے کے معززین مسٹر اکمل سے ملے اور اس کی شکایت کی۔ اس نے بہت نادم ہوکر کہا۔

    ’’میں اپنی بیوی سے دریافت کروں گا۔‘‘

    مسٹر اکمل نے بڑی ہمت کرکے اپنی بیوی سے پوچھا، تو وہ برس پڑی، ’’میں نے تم سے کئی مرتبہ کہا کہ میرے معاملات میں دخل نہ دیا کرو۔‘‘

    ’’بیگم، عزت کا سوال ہے۔‘‘

    بھاڑ میں جائے تمہاری عزت۔۔۔ گھر میں جوان لڑکیاں بیٹھی ہیں، ان کا خیال نہیں؟ ساڑھے تین سوروپیہ ماہوار میں کس کس کی شادی کروگے۔۔۔؟ اپنی عزت کے ساتھ بیاہوگے کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’تمہارے اسی قسم کے دلائل نے مجھے پہلا محلہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اب یہاں کی بنی بنائی عزت کو تو تباہ نہ کرو۔‘‘

    ’’شادی پیسے کے ساتھ ہوتی ہے عزت کے ساتھ نہیں۔ لوگ پیسہ دیکھتے ہیں۔ میرے والدین نے تمہارے پاس رقم دیکھ کر کی تھی۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ تم چند ہی سالوں میں کنگلے ہو جاؤگے۔۔۔ ورنہ میں تم سے کبھی شادی نہ کرتی۔‘‘

    اور حقیقت بھی یہی تھی۔ اگر مسز اکمل کو علم ہوتا کہ اس کی تیسری بیٹی کی پیدائش تک مسٹر اکمل کی ساری جائیداد بک جائےگی اور نوکری کرنا پڑےگی تو وہ کبھی اس کے ساتھ شادی نہ کرتی۔ اس میں مسٹر اکمل کا کوئی قصور نہ تھا۔ کیونکہ اس کی مسز نے اس کی محبت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دل کھول کر فضول خرچی کی اور اپنی سب عادتیں چھوڑ کر ریس کھیلنے کی عادت کو برقرار رکھا۔ پھر اس کی پہلی دو بیٹیوں کے باعث اخراجات میں اضافہ ہو گیا۔ اس زمانے میں فراوانی تھی اس لیے ہر چیز پر کھلا خرچ ہوتا تھا لیکن جب تیسری لڑکی پیدا ہوئی تو مسٹر اکمل قریب قریب دیوالیہ ہو چکا تھا۔ اس لیے اپنے آبائی شہر میں جائیداد کا آخری مکان بیچا اور یہاں چلا آیا۔ مہینہ دو مہینہ بےکار رہنے کے بعداسے پرائیوٹ فرم میں نوکر مل گئی۔

    مسز اکمل کے لیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا حساب تھا۔ وہ اپنے میکے اس لیے نہ جا سکتی تھی کیونکہ وہاں طبلے کی تھاپ پر جوانی بکتی تھی اور اس کی جوانی کا زمانہ ختم ہو چکا تھا۔ مسٹر اکمل کی ساڑھے تین سو کی آمدن میں گزارا مشکل تھا۔ وہ ہر روز اپنے خاوند کو جلی کٹی سناتی، طعنے دیتی۔ وہ خاموش رہتا اور پھر کئی کئی دن تک ان کی آپس میں گفتگو نہ ہوتی۔

    اب مسز اکمل کی صرف ایک خواہش تھی کہ اس کی بیٹیاں پریوں کا روپ دھار لیں۔ وہ سارا روپیہ اپنی بیٹیوں کو خوبصورت بنانے میں صرف کرتی، جس سے اس کو دماغی سکون حاصل ہوتا اور وہ یوں محسوس کوتی گویا اپنے چہرے پر ماضی کا غازہ تھوپ رہی ہے۔ اپنی تیسری بیٹی کے جوان ہونے پر مسز اکمل نے بہترین لباس پہننا شروع کر دیا۔ مسٹر اکمل کی غیر حاضری میں اس کی پہلی بیٹی کے تین چار دوست اس سے ملنے کے لیے آنے لگے۔ آخر کب تک محلے والے سب کچھ جان گئے اور پھر مجبوراً انہیں وہ محلہ چھوڑنا پڑا۔

    مسٹر اکمل اپنے محلے والوں کی طرح جانتا تھا کہ ساڑھے تین سو روپے میں اتنے اچھے لباس اور میک اپ کا قیمتی سامان کیوں کر آ سکتا ہے اور اس کی بیوی ریس کورس کیوں کر جا سکتی ہے؟ خدا معلوم انہوں نے اپنی بیوی کو ڈانٹنے کی بجائے خاموشی مناسب کیوں سمجھی؟

    مسز اکمل نے دوسرے محلے میں آتے ہی اپنی شرافت کی دھاک بٹھاکر مختلف گھروں میں جھانکا کہ ایسا گھر مل جائے جس پر وہ اپنے دانت تیز کر سکے لیکن اس کو بہت مایوسی ہوئی کیونکہ محلے میں کوئی اتنا دولت مند نہیں تھا جس کے بیٹے اس کی بیٹیوں کو شاپنگ کرا سکتے اور اسے ریس کورس لے جا سکتے اور یہی وجہ تھی کہ اس کو ان لوگوں پر کوئی اعتراض نہ تھا جو اس کی بیٹیوں کا پیچھا کرتے ہوئے انہیں گھر تک چھوڑنے آتے تھے۔۔۔ مبادا کسی کے ساتھ کوئی سلسلہ ہو جائے۔ مسٹر اکمل کو اپنی مسز کے مشاغل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنی غلطی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ دینے کو تو وہ طلاق بھی دے سکتا تھا، لیکن اسے اپنی تینوں بیٹیوں کا خیال آ جاتا تھا اور اس رات اس نے پہلی مرتبہ اپنی بیوی سے اس سلسلے میں دریافت کیا تھا تو اس نے بیٹیوں کی شادی کے مسئلے کو ڈھال بناکر سامنے رکھ دیا تھا جس پر مسٹر اکمل کے وار بےاثر تھے۔

    اگلے دن مسٹر اکمل محلے داروں کو کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ ان لوگوں نے اس سے تعلقات قریب قریب منقطع کر لیے اور مسٹر اکمل کی حیثیت محلے میں بالکل ایسی ہو گئی جیسے حقے میں سڑے پانی کی۔

    محلے کے نوجوانوں کی ہر محفل میں کسی نہ کسی بہانے مسز اکمل کی ان تکبیروں کا ذکر ضرور ہوتا لیکن مجی ہمیشہ خاموش رہتا۔ اس کے دوست اسے مذاق کرتے، پھبتیاں کستے اور وہ یہی کہتا، ’’مجھے ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے اسے بڑا دکھ سا ہوتا، کیونکہ اس کے ذہن میں ہر وقت یہ سوال گونجتا رہتا تھا کہ یہ لڑکیاں ایسی کیوں ہیں؟ پھر بھی وہ اپنے دل کے دکھ کو اپنے دوستوں کے سامنے اس جواب کی صورت میں زبان پر لاکر خود کو بہت ہلکا سا محسوس کرتا۔ پھر وہ سوچتا، اس میں ان بیچاری لڑکیوں کا کیا قصور ہے؟ مسز اکمل نے ان کی لچکیلی۔ ہڈیاں جس شکل میں موڑدیں، مڑگئیں۔ پھر اس کے ذہن میں ایک اور سوال ابھرتا۔ اگر کوئی چاہے تو کیا ان ہڈیوں کو اپنی اصلی صورت میں نہیں لا سکتا؟

    جب بھی وہ مسز اکمل کے گھر کے سامنے سے گزرتا تو اس کی آخری تکبیر کی گنگناہٹ اس کا تعاقب کیا کرتی، لیکن وہ ہمیشہ یہی سمجھتا کہ یہ تکبیر بھی ایک عام دعوتی رقعہ ہے۔ اس کے پاس کئی مرتبہ کلثوم کی نگاہوں کے پریس میں چھپے ہوئے رقعے آئے، جانے کس وجہ سے وہ ان کے پروف تک نہ پڑھ سکا۔

    ایک دن محلے کے تمام گھروں میں مسٹر اور مسز اکمل کی طرف سے ان کی دو بڑی بیٹیوں کی شادی کے دعوت نامے موصول ہوئے۔ دونوں کی شادی میں ایک ہفتے کا وقفہ تھا۔

    محلے کی اکثریت کی طرح مجی کا ارادہ بھی شادی میں جانے کا نہیں تھا۔

    پہلی لڑکی شادی سے ایک روز پہلے وہ اس کے گھر کے سامنے اور میاں امین کے گھر کے نیچے گامے کی دوکان سے سگریٹ خرید کر واپس آ رہا تھا کہ مسٹر اکمل کے نوکر نے اس کو ایک کاغذ دیا۔ مجی کے استفسار پر لڑکے نے مسٹر اکمل کے مکان کی طرف دیکھا اور جواب دیے بغیر بھاگ گیا۔ مجی نے اس مکان کی طرف نظریں اٹھائیں، بالکنی میں کلثوم کھڑی تھی۔ مجی نے فوراً رقعہ پڑھا، لکھا تھا ’’آپ کل شادی میں ضرور آئیں۔‘‘ اس نے دوبارہ کلثوم کی طرف دیکھا۔۔۔ کلثوم کی نگاہیں مجی کے دل میں اترنے لگیں۔

    ’’آپ ضرور آئیں، آپ کو آنا چاہیے۔‘‘

    اس نے کاغذ جیب میں رکھا اور چلا آیا۔

    وہ سوچتا رہا کہ اسے جانا چاہیے یا نہیں۔ جب اس کے دل میں التجا سے بھری دو آنکھیں اترنے لگتیں تو وہ اپنے دل کو ٹٹولتا اور فیصلہ کر لیتا کہ ضرور جائےگا۔ لیکن جب اس کی ماں اور چمکیلی کاروں کاتصور ذہن میں آتا تو وہ کہتا، ’’یہ سب بکواس ہے، فراڈ ہے۔ کلثوم میرے لیے نہیں، وہ خالصتاً اپنی ماں کی جائیداد ہے جس کو میں خرید نہیں سکتا اور اس کی ماں کے نزدیک محبت کی کوئی قیمت نہیں۔‘‘

    صبح تک اس کا ارادہ جانے کا نہیں تھا۔ مگر جانے پھر کس خیال سے اس نے وہ سوٹ نکال کر پہنا جو اس نے نوکری کے انٹرویو کے لیے پہنا تھا اور مسٹر اکمل کے ہاں چلا گیا۔

    وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ مسٹر اکمل نے پروفیسر اسد کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ طبیعت خراب ہونے کے باعث نہیں آسکے۔ مسٹر اکمل سمجھ گیا کہ مجی جھوٹ بول رہا ہے۔

    شادی کا اتنظام بہت اچھا تھا۔ مسز اکمل بہت خوش تھی اور اس کی خوشی نواب زادہ اکبر علی کے ساتھ آئے ہوئے بینڈ کی صورت میں چیخ رہی تھی اور اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی اپنی روح حجلہ عروسی بن گئی ہے۔ اس کی سالہاسال کی محبت کا پھل، اس کاپانی پہلی تکبیر کی آواز کے رس کی صورت میں ٹپک رہا تھا۔

    باراتی کھانا کھا رہے تھے شہنائیاں چیخ رہی تھیں، کلثوم نے نوکر کے ذریعے مجی کو بلایا اور اوپر اپنے کمرے میں لے گئی۔ اس کی ماں نچلی منزل میں مہمانوں کے پاس تھی۔

    مجی نے کہا، ’’فرمائیے۔‘‘

    ’’آپ کو ہمارے ہاں آکر خفت تو محسوس نہیں ہوئی۔‘‘

    مجی خاموش تھا۔ کلثوم نے کہا، ’’مجھے اپنی امی پسند نہیں، مجھے اپنے گھر سے نفرت ہے، میں یہاں سے کہیں چلی جانا چاہتی ہوں۔۔۔ اب امی کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھنے کی میری باری ہے۔۔۔ مجھے شوکت سے نفرت ہے۔‘‘

    پھر کلثوم نے مجی کو بتایا کہ اس کو اس سے بہت محبت ہے اور وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔

    اس دن مجی کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اکلثوم کی نگاہوں کے پیغام صرف اس کے لیے تھے۔ وہ اپنی بہنوں سے مختلف ہے، وہ اپنی ماں کی ضد ہے، وہ اس کو غلط سمجھتا رہا ہے۔۔۔ آذر کے ہاں اب بھی ابراہیم پیدا ہو سکتے ہیں، مسز اکمل ایسی عورتوں کے ہاں کلثوم ایسی لڑکیاں پیدا ہو سکتی ہیں، مریم کی طرح پاک اور میرا بائی کی طرح مقدس۔۔۔ کلثوم کو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔

    ایک ہفتے کے بعد دوسری تکبیر بھی بڑی دھوم دھام سے پڑھ دی گئی۔

    مسز اکمل کی موجودگی میں ان دونوں کا آپس میں ملنا قریباً ناممکن تھا۔ اس لیے یہ ایک دوسرے کو طویل خط لکھ کر اپنے ذہنوں کی پیاس بجھاتے رہے۔ پھر مجی نے اس سے کہا کہ وہ اپنی کسی سہیلی سے ملنے کے بہانے اس سے ملنے آ جایا کرے۔ کلثوم کی کوئی سہیلی نہ تھی، شوکت بی۔ اے کے امتحان میں مصروفیت کے باعث صرف دوپہر کے وقت کھانے پر ملنے کے لیے آتا تھا۔ کلثوم نے کہا کہ وہ شام کے وقت شوکت سے ملنے کے لیے اس کے ہوسٹل جایا کرےگی۔ اس کی ماں نے اس کو اجازت دے دی۔

    وہ شوکت سے ملنے کے بہانے مجی کے ساتھ سیر کرنے کے لیے جاتی رہی۔ مسز اکمل اپنی بیٹی کی طرف سے مطمئن تھی کیونکہ آخر وہ اپنی بری بہنوں کی طرح مسز اکمل ہی کی بیٹی تھی۔ اس لیے اس نے شوکت سے اس کی شاموں کے بارے میں کچھ نہ پوچھا۔۔۔ اور شوکت کو ضرورت ہی نہ محسوس ہوئی تھی کہ وہ شام کے بارے میں امتحان کے دنوں میں سوچتا۔

    پھر اس کے امتحان ختم ہو گئے اور وہ دوسرے ہی دن دوپہر کے علاوہ شام کو بھی آیا۔ مسز اکمل نے حیرانی سے کہا، ’’وہ تو آپ ہی سے ملنے گئی ہے۔‘‘ شوکت نے لاعلمی کا اظہار کیا تو مسز اکمل نے متفکر ہوکے پوچھا، ’’تو کیا وہ کل بھی آپ کے ہوسٹل نہیں آئی۔۔۔؟‘‘

    اس نے نفی میں سر ہلا دیا اور مسز اکمل کا تجربہ کار ذہن معاملے کی تہ تک پہنچ گیا۔ اس رات کلثوم لوٹی تو اس کی ماں نے اسے خوب پیٹا۔ جب اس کے جسم پر نیلے نشان پڑ گئے تو اس نے بتایا کہ وہ مجی کے ساتھ جاتی رہی ہے۔ مسز اکمل نے اس کے دودھیا جسم پر اور نیلے داغ ڈالے تو اس نے مجی کے لکھے ہوئے تمام خطوط اس کے حوالے کردیے۔ مسٹر اکمل دوسرے کمرے میں اپنے دفتر کا کام کرتے ہوئے سب کچھ سن رہا تھا۔

    اس نے کہا، ’’بچی کو ختم کرکے دم لوگی کیا۔۔۔؟‘‘

    مسز اکمل چیخی، ’’تم اپنے کام سے کام رکھو جی۔۔۔ بکواس نہ کرو۔‘‘

    اور مسٹر اکمل مزید بکواس کیے بغیر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔

    کلثوم اس دن کے بعد پھر کبھی مجی سے ملنے نہ آئی۔ کیونکہ مسز اکمل کبھی اس کو نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیتی تھی۔ مجی نے دو ایک مرتبہ نوکر کے ذریعے اس کو خط بھیجے لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ پھر جب شوکت کی نیلی اولڈس موبیل کنورٹیبل ہروقت مسز اکمل کے ہاں رہنے لگی اور دونوں ماں اور بیٹی اس کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے جانے لگیں تو مجی کو ایسا محسوس ہوا جیسے کلثوم کے وعدے اور محبت اس کے اصل کردار پر میک اپ تھے جس کو شوکت کے سرمائے نے دھودیا ہے۔

    مسز اکمل اپنے اس امام کے ذریعہ سے جلد از جلد تیسری تکبیر پڑھنا چاہتی تھی۔ لیکن اس کو ان خطوں کا فکر کھائے جارہا تھا جو کلثوم نے مجی کو لکھے تھے۔ مبادا مجی ان خطوں کی آڑ میں کلثوم کو اس کے سسرال میں بدنام کرنے کی کوشش کرے اور شادی کے بعد ردِّعمل کے طور پر اس کی زندگی اجیرن کر دے۔۔۔ وہ دن رات اس سے خط حاصل کرنے کی ترکیبیں سوچتی رہتی۔ مگر اس کاتجربہ کار ذہن اس عقدے کو حل کرنے سے قاصر تھا۔

    ایک دن مجی اپنے کمرے میں بیٹھا ماضی کے دھندلکے میں یادوں کے دیے جلا رہا تھا کہ کلثوم کے نوکر نے آکر ایک خط دیا۔ خط بہت مختصر تھا۔ وہ فوراً اس کے گھر گیا۔ اس کے آتے ہی کلثوم نے بڑی درشتی سے کہا، ’’مجیب صاحب میرے خط لوٹا دیجیے۔‘‘ لیکن اس کی آنکھوں میں وہی پیار اور وحدت تھی جو مجی کے لیے مخصوص تھی اور جسے مجی بہت دور سے محسوس کر لیا کرتا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔۔۔ ’’لیکن کلثوم۔۔۔‘‘

    ’’میں کچھ اور سننا نہیں چاہتی۔۔۔ بس آپ میرے خط واپس کر دیجیے۔‘‘ اس نے آنکھوں کے پیار کو حدت میں جلانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔

    جب مجی کسی طرح نہ مانا تو اس نے بڑی التجا سے کہا، ’’میرے مستقبل کو تباہ نہ کیجیے۔۔۔ اگر آپ کو مجھ سے محبت ہے تو میرے خط لوٹا دیجیے۔۔۔‘‘

    ’’تمہارے خط میری زندگی کا سرمایہ ہیں، میری زندگی ہیں۔۔۔ کلثوم! میں مجبور ہوں۔‘‘ پھر اس نے کہا، ’’بس، اس لیے بلایا تھا۔‘‘

    کلثوم کی آنکھوں میں پیار حدت کی شدت سے پگھل کر بہہ نکلا۔ جب اس نے نظریں اٹھائیں تو مجی جا چکا تھا اور اس کی ماں دروازے کا پردہ اٹھاکر کمرے میں داخل ہوئی۔ ’’تم نے خود ہی اپنا مستقبل تباہ کیا ہے۔۔۔ نہ اس حرامی سے یارانہ رکھتیں نہ آج یہ دن دیکھنا پڑتا۔ اب میں اس سے زیادہ اور کیا کر سکتی ہوں کہ اس سنپولیے کو تمہارے لیے میں نے خود بلایا تھا۔‘‘ مسز اکمل نے کچھ اس انداز سے کہا، جس انداز سے وہ مسز اکمل بننے سے پہلے گفتگو کیا کرتی تھی۔

    اس کے بعد اس نے مجی کو مختلف لوگوں کے ذریعے بدنام کرنا شروع کر دیا کہ شاید مجی اس سے متاثر ہوکر خط واپس کردے۔ پروفیسر اسد کے پاس نت نئی شکایتیں آنے لگیں۔ جس کے باعث وہ اپنے بیٹے سے بہت تنگ آ گیا۔ وہ اپنے بیٹے سے ان شکایات کی صداقت کے بارے میں دریافت کرتا، مگر مجی خاموش رہتا۔ جب وہ اپنے باپ کے سوالوں سے اکتا گیا تو اس نے کہا، ’’اگر آپ کوان باتوں پر یقین ہے تو ٹھیک ہے۔‘‘

    پروفیسر اسد کو مجی سے یہ امید نہ تھی کہ وہ اپنے شریف باپ کی عزت کو اس طرح داغے گا۔ محلے کے نوجوان جب بھی اس سے ملتے تو کہتے، ’’یار تم بڑے چھپے رستم نکلے، خوب عیش کرتے ہو اور سناؤ تمہاری ساس کا کیا حال ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘

    مجی یہ سب کچھ سن کر مسکرا دیتا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کلثوم اس کو کیوں بدنام کر رہی ہے اور اس کے محلہ داروں کا انداز طنزیہ کیوں ہے۔ وہ دل ہی دل میں کہتا، ’’کچھ بھی ہو کلثوم۔۔۔! خطوں کو مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا، تمہارے خط میری روح ہیں۔‘‘

    جب مسز اکمل کی مجی سے خط حاصل کرنے کی ساری ترکیبیں بالکل اسی طرح اکارت گئیں جیسے کلثوم کے دل سے مجی کا نقش مٹانے کی تو پولیس میں رپورٹ درج کراکے اپنا آخری حربہ استعمال کیا۔ مسٹر اکمل اپنی بیوی کے احکام اس طرح بجا لایا جیسے وہ کوئی غیرمرئی ہستی تھی۔ وہ اسی وقت گیا اور جو کچھ اس کی بیوی نے اس کو سکھایا تھا اس نے طوطے کے مانند رٹا ہوا سبق تھانے میں دھرادیا اور مسز اکمل نے ادھر مجی کو پیغام بھیج دیا کہ اگر وہ خطوط لوٹا دے تو رپورٹ واپس لی جاسکتی ہے۔ مجی کے سرپر ضد کا بھوت سوار تھا۔ وہ روپوش ہوگیا اور اب پولیس اسے ڈھونڈ رہی تھی۔

    سہ پہر کے وقت معززین میاں امین کے گھر جمع ہوئے چونکہ مسٹر اکمل اپنی بیوی کے منع کرنے کے باعث نہ آیا تھا اس لیے کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تھا۔

    دن ڈھلے مجی گھر آیا، پروفیسر اس کو دیکھتے ہی ڈانٹنے لگا۔ وہ خاموشی سے سب کچھ سنتا رہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ پروفیسر کے سامنے دلائل پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

    پروفیسر اسد نے آخر میں کہا، ’’آخر تم اس بازاری عورت کی بازاری لڑکی کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہو۔۔۔ تمہاری وجہ سے میں اتنا بدنام ہوا ہوں۔ اگر تم اس لڑکی کونہیں چھوڑ سکتے تو تم ایسے ناہنجار کے لیے میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں۔‘‘

    وہ خاموش تھا۔

    ’’تم جو چاہو اپنے ساتھ لے جا سکتے ہو۔‘‘

    پروفیسر اسد نے خدا معلوم غصے میں کہا تھا یا سنجیدگی سے، بہرحال مجی اٹھا۔ اس نے اپنی الماری کھول کر کلثوم کے خطوط لیے اور اپنے باپ سے کچھ کہے بغیر مکان سے باہر آگیا۔ وہ خود اس قبرستان میں نہیں رہنا چاہتا تھا جہاں اس کو ہروقت اپنی محبت کی قبر پرجلتی ہوئی اگربتیوں کی خوشبو آتی رہتی تھی۔

    کلثوم کے خط اس کے سینے کی جیب میں دھڑک رہے تھے، وہ آخری بار اس سے ملنا چاہتا تھا، آخری بار۔۔۔ پھر شاید زندگی میں اس سے کبھی نہ مل سکے۔۔۔ وہ اس کو صرف بتانا چاہتا تھا کہ دیکھ کلثوم۔۔۔! تمہارے لیے اپنے گھر سے بھی نکال دیا گیا ہوں اور تم۔۔۔ آخر تم لڑکی ہو، قلوپطرہ اور ہیلن آف ٹرائے کی جنس سے۔۔۔ جو کسی کی بھی نہ ہو سکیں۔

    پھر آدھی دنیا کو آسمان سے ابلتے ہوئے اندھیروں نے لپیٹ لیا اور وہ اس کے گھر کے سامنے کھڑا ہوکر اس سے ملنے کے پیچیدہ مسئلے کا حل سوچنے لگا۔ اس نے کلثوم کے نوکر کو دیکھا جو ہاتھ میں کٹورا پکڑے دودھ دہی کی دکان سے آ رہا تھا۔ اس نے کاغذ پر کچھ لکھا اور اس کے نوکر کو بلاکر دے دیا۔

    قریباً پانچ منٹ بعد نوکر نے آکر کہا، ’’گیارہ بجے احاطے میں۔‘‘

    گیارہ بجے مکان کی پچھلی طرف احاطے میں کلثوم آئی۔

    مجی لمحہ بھر کے لیے اپنی نگاہوں سے اس کے دل کو ٹٹولتا رہا۔ پھر جانے اس کو کیا سوجھی کہ اپنی جیب سے تمام خط نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا، ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم نے بھی اپنے آپ کو اپنی بہنوں کی طرح شوکیس میں بکنے کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔۔۔ مجھے افسوس ہے کہ میں قیمت ادا نہ کر سکا۔‘‘

    ’’مجی۔۔۔! مجھے دنیا کی سب سے عزیز چیز کی قسم، مجھے تمہاری قسم میں بے قصور ہوں۔‘‘

    ’’اپنی ماں سے کہو کہ تمہارے خط فریم کراکے ڈرائنگ روم میں لٹکا دے، تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ اس کی بیٹی محبت کرنے میں کتنی ماہر ہے۔‘‘

    ’’مجی۔۔۔‘‘

    ’’میں جا رہا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’مجھے علم نہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ جانے کے لیے مڑا۔

    کلثوم نے اس کا بازو تھام کر کہا، ’’میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔‘‘

    دوسری صبح جب مسز اکمل کو معلوم ہوا کہ تیسری تکبیر کوئی دوسرا امام پڑھ گیا ہے تو اس کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے گنبدوں میں تریڑیں آ گئی ہیں۔

    مسٹر اکمل اسی روز اپنے تباہ شدہ معبد کو لے کر کسی دوسرے محلے میں چلے گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے