Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آخری تنہا درخت

قمر احسن

آخری تنہا درخت

قمر احسن

MORE BYقمر احسن

    بہت زیادہ سیاہ رات کا شکنجہ اسے بستر پر جکڑے ہوئے تھا۔ سامنے بہت اونچی محراب اور اس کے بعد ایک مدور فصیل، فصیل سے متصل لمحہ بہ لمحہ بڑھتے پھیلتے ہوئے بھیانک درخت کانٹے دار مہیب۔۔۔ اور دو بہت چمکیلی سیاہ آنکھیں۔۔۔ غلیظ اور ہیبت ناک۔

    وہ ایک معمول کی طرح اسی مخصوص زاویہ پر دیکھنے پر مجبور تھا۔ آنکھیں پہلے پھیلیں، اوپر اٹھیں اور فضا میں گھل کر معدوم ہو گئیں۔۔۔ اور اچانک بالکل بستر کے پاس مجسم ہونے لگیں۔

    دل سرعت سے گہرائی کی سمت دوڑا (لطیف ترین لمحہ سکون بخش) اور سارا وجود صرف چند لمحوں میں دھڑکن بن کر کسی ایک جگہ دھمکنے لگا۔۔۔ جسم نے تمام مسامات کھل گئے اور شکست پر آمادہ معمول ذہن آہستہ آہستہ تاریکی میں ڈوب گیا۔ آنکھیں منعکس ہو چکی تھیں۔

    ’’دیکھئے اس میں خفا ہونے کی کوئی بات نہیں۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں بہ ہوش و حواس کہہ رہا ہوں کہ یہی تمام المیوں کی بنیاد ہے اور اسی دائرے کے گرد سب گھومتے ہیں۔۔۔ کہ ہم سب آج تک زندہ ہیں۔ کاش ہمارے آبا و اجداد نہ ہوتے ہیں۔‘‘

    دوسری بار جب وہ اسے نظر آئی تو اس کا دل چاہا کہ مرکب کو کہیں اگی ہوئی ریت کے درمیا ن چھوڑ کر چھلانگ لگا دی جائے حالانکہ دستور یہ ہے کہ اس کا معمول بن کر ذہن نشیب کی طرف سرعت سے دوڑتا چلا جائے۔

    ’’یقیناً میں جانتا ہوں کہ آپ میری بات نہیں سمجھ سکے اور یہی المیہ ہے کہ صرف مجھے اس کا علم ہو سکا ہے کہ تمام مرے ہوئے لوگ آج تک زندہ ہیں۔۔۔ اگر پہلے والوں کو یہ علم ہوتا تو وہ مر چکے ہوتے۔۔۔ کاش! ہم مر چکے ہوتے تو آج زندہ نہ ہوتے یا کم ازکم آج زندہ نہ ہوتے تو ضرور مر چکے ہوتے۔‘‘

    اس نے نامعلوم کے خوف سے شکست قبول کر لی اور خواہش مرگ کی توانائی تمام رگ و پے میں سرایت کرنے لگی تو غزوہ سے پہلے اس کے تمام بھائیوں نے مل کر اس کے اسلحے چھپا دیئے (گویہ راز بعد میں کھلا کہ اس میں بھی اس کی مرضی شامل تھی) ورنہ یوں آسانی سے وہ اپنے ہزار ماسک والے چہرے کا اظہار کب کرتا۔

    ’’جب مجھے علم ہوا کہ اب تک کے تمام مرے ہوئے لوگ زندہ ہیں تو میں نے اپنا مزید اخفا نامناسب جانا اور چہرے کی ایک ایک پرت نوچ کر کھانے لگا۔۔۔ یہ ستم تھا کہ جب آبا و اجداد زندہ ہیں تو میں اپنے کو تنہا نسب کیسے کہتا اور یہی میرا ذاتی المیہ تھا خود پر طاری کردہ کرب۔۔۔ خود اذیتی کی نادر مثال۔

    ’’ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا‘‘

    دل اتنی سرعت سے مائل بہ نشیب ہوا کہ جرأت کے تمام جذبات ختم ہونے لگے۔ شکست کے کریہہ آثار جذام بن کر اس کی رگ رگ سے پھوٹ بہے۔۔۔ وہ چیخ کر قہقہہ لگنا چاہتا۔۔۔ کرب میں اپنے کو جھٹکنا چاہتا۔۔۔ بلک بلک کر رونا چاہتا لیکن۔۔۔ اس نے ڈوبتی ہوئی آنکھیں اٹھائیں اور تھک کر لمبی لمبی گہری سانسیں لینا چاہا۔۔۔ چا۔۔۔ ہا۔۔۔ ھ۔۔۔ ھہ لیکن سوکھے ہوئے حلقوم سے صرف کچھ مبہم سی آوازیں ہی ابھر کر رہ گئیں۔

    ’’میری آنکھیں سمندر کی دیوار میں ایک موہوم دھاگے سے باندھ دی گئی ہیں اور اعضا و حواس مجھ سے چھین لئے گئے ہیں۔۔۔ افسوس۔۔۔ میری آنکھیں۔۔۔ میرے دوسرے اعضا دور سے مجھ دیکھ کر ترستے رہے۔۔۔ افسوس کرتے رہے۔ اف۔۔۔ سو۔۔۔ س۔۔۔ لیکن یہ تو میرا ذاتی مسئلہ ہے۔۔۔ میں سب کو بہت عرصہ پہلے اظہار ہمدردی اور ترحم سے منع کر چکا ہوں۔ کس نے مجھ پر ظلم کیا، میں کس سے جواب طلب کروں۔‘‘

    وہ اپنی شکست اور محرومی پر مطمئن ہونے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔ تھکا تھکا سا خاموش۔۔۔ نجات دہندہ کے دست شفقت کا منتظر۔۔۔ مہدی موعود کی لو لگائے اور بڑبڑاتا۔

    میرا لازمی سمندری سفر پورا ہو چکا ہے، اب مجھے گزر جانے دو۔ صحرا میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔۔۔ میں ان سے وعدہ کر چکا ہوں۔ مجھے کوئی شکایت نہیں۔ ان سے بھی نہیں جنہوں نے مجھے ساحر جانا۔ نفرت کی یا نظر انداز کر دیا۔ میرے لئے جلتی ہوئی ہتھیلیوں پر چاند اور سورج لائے۔۔۔ میں تو ریگستانی ببول کی جڑیں کھود رہا ہوں۔۔۔ پھر اس کے ریشے چوسوں گا۔ خشک بےرس۔۔۔ مجھ پر لوگوں نے زبردستی نبوت کے الزام لگا دیے۔ کاش میں ان نااہلوں کو شناخت کر سکتا۔

    دور۔۔۔ آہستہ آہستہ ایک جسم متشکل ہونے لگا۔۔۔ ایک گہرے سیاہ رنگ کے گھوڑے کا جسم۔ جسم متحرک تھا۔ اس کی پشت پر ایک دوسرا خاکہ ابھرا۔۔۔ ایک اکہرے لبادہ والا مبہم وجود۔۔۔ اس نے چاہا کہ اپنی آنکھیں اس وجود اور مرکب سے ہٹالے لیکن اس کے اعصاب جواب دینے لگے۔۔۔ آہستہ آہستہ وہ اپنا submission کر بیٹھا۔ مرکب سوار اپنی تیز چمکیلی آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا۔ مستقل اور متواتر۔۔۔ مرکب الف ہونے لگا تو وہ اسے چمکارنے لگا۔۔۔ پھر واپسی کے سفر میں چپکے چپکے املی کے درخت اگاتا چلا گیا۔

    ’’میں نے یہ جانا کہ ہر سبز و شاداب درخت کی جڑوں میں انہی ریگستانی ببولوں کے انگارے ہیں، جن کی پتیاں میں نے ان کی شادابی کے لئے عمداً چھوڑ دی تھیں تاکہ دشت میں انہیں اپنی بے برگی کا احساس نہ ستائے۔۔۔ لیکن وہ مرکب سوار اپنی تیز چمکیلی سیاہ آنکھوں سمیت مجھ پر سوار ہے۔‘‘

    اسے اپنی بےاعضائی، بے چشمی اور بےبسی پر سخت غصہ آ رہا تھا۔ اس نے ایک جگہ ٹھوکر کھائی اور چپکے سے زمین میں دھنسے سا ہی کے کانٹے کو اپنی آستین میں چھپاکر لڑکھڑانے لگا۔ مرکب سوار کے چابک کی آواز اس کی ریڑھ پر سرسراتی رہی۔ کہ تمہیں ابھی زندہ رہنا ہے اور سمندر کے کھارے پانی، یرقان زدہ آنکھوں اور بے اعضائی کا کرب سہنا ہے۔ پھر تمہیں نمک بنانا ہے۔ پھر اس کا ذخیرہ کرنا ہے، اسے بڑھاکر پہاڑ بنانا ہے۔

    پھر تو مر جانا ہے؟

    نہیں۔۔۔ پھر بھی زندہ رہنا ہے۔۔۔ تاکہ سود پر نمک چلا سکو۔۔۔

    ’’تب میرے تمام جسم پر درے مارے گئے لیکن مجھے لگا کہ وہ جسم اب میرا نہیں ہے۔۔۔ میری آنکھوں سے جلتی ہوئی سلاخ لگا دی گئی۔۔۔ لیکن وہ آنکھیں میری کب تھیں۔۔۔ میرے پیر کے تلووں میں نیزے چبھوئے گئے۔۔۔ لیکن کیا وہ میرے ہی تھے۔۔۔؟ اس سیاہ تیز چمکیلی آنکھ والے مبہم وجود نے میرا پیٹ چاک کر کے میری لمبی لمبی آنتوں کو چبانا شروع کر دیا اور نیزے کی انی سے دماغ کریدنے لگا۔۔۔ لیکن میں کیوں بولتا۔۔۔ میں بس اسے دیکھتا رہا اور دل سرعت سے مائل بہ نشیب رہا۔۔۔ دور کسی ایک جگہ سارا وجود دھڑک رہا تھا۔۔۔ صحرا کے اس پار۔۔۔ جہاں سے میں کبھی گزرا ہی نہ تھا۔

    دیکھئے اس میں خفا ہونے کی کوئی بات نہیں۔۔۔ آپ ذرا میری بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے، اگر میرے آبا و اجداد مر گئے ہوتے تو آج زندہ نہ ہوتے۔ وہ دشت میں اپنے عمل کی تکمیل سے قبل ہی بھاگ نکلا اور دورانِ سفر شدت سے خواہش محسوس کی تمام چہروں کو خود ہی کھا جائے۔ پھر خیال آیا کہ یہ تو رجعتِ قہقری ہوگی۔ یعنی پھر وہیں سے ابتدا جہاں سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔۔۔

    کریدتے ہو جواب راکھ جستجو کیا ہے

    کاش سب پہلے ہی مر چکے ہوتے۔

    آخر وہ ایک ببول پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ بہت سے پتھر آئے اور جسم کو زخمی کر کے جڑوں میں سما گئے۔ بہت سے تیر آئے اور آنکھیں پھوڑتے اور حلقوم چھیدتے گزر گئے یا جسم ہی ترازو ہو گئے۔ نیز ہڈیوں کو توڑ کر زمین پر گر پڑے اور وہ اعصاب زدگی کے عالم میں مسحور کانپتا رہا۔۔۔ اپنے کو ان تیز چمکیلی سیاہ آنکھوں کی شدید تر گرفت سے آزاد کرا لینے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔ ان تمام پتھروں، تیروں اور نیزوں سے بےاعتناء۔۔۔

    ’’میں مسکراتا ہوا انتظار کرتا رہا۔۔۔ کب یہ نیزے نمو پذیر ہوکر ببول کا درخت بنیں، وہ تیر سبز ہوکر جھاڑیوں کی صورت میں نمودار ہوں۔۔۔ اور وہ پتھر پہاڑ بن جائیں۔۔۔ تاکہ میں اسی طرح متواتر پھر زخمی ہوتا رہوں (اذیت کا لمحہ سکون بخش) اے کاش! میں اس درخت کی اس مکمل غیر محفوظ شاخ پر بیٹھا لگاتار زخمی ہوتا رہوں۔۔۔ اس لیے کہ واقعی یہ سب میرے کہاں ہیں۔۔۔ دوسرے خود ہی اپنی انرجی ضائع کر رہے ہیں۔‘‘

    جب اس سے منسلک لوگوں کی امیدیں اس سے وابستہ ہوئیں تو وہ تمام وعدے بھلاکر انہیں بہلانے لگا۔۔۔ جب اس سے کہا گیا کہ میں گیارہ برس تک تمہارا انتظار کروں گا۔۔۔ تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ جب اس نے کہا کہ میں تمہارے قرب کے لئے جھوٹ بولا تھا تو اس نے حقارت سے دیکھا۔۔۔ لیکن جب وہ اپنے ہزار ماسک والے چہرے اور اپنے اسی گز لمبے قد کر لے کر آگے بڑھا تو دوسری لاتعداد آنکھیں متحیر ہونے کے بجائے تنفر آمیز انداز میں مسکرانے لگیں اور خود غرض مسکار کا خطاب ملا۔۔۔ حالانکہ وہ سبھی اس سے خوفزدہ تھے۔

    اس کا سفر جاری رہا کہ شاید اس کی پذیرائی ہو۔۔۔ لیکن گھوم پھر کر اسی ریگستان میں انہی سیاہ آنکھوں کا معمول بننا پڑا۔

    اسی جگہ سب نے اقرار کیا کہ ہاں دراصل وہ سب زندہ ہیں۔ موت کا جھوٹ بولے تھے، وہ خوش ہوا۔۔۔ کہ وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ جان لیا تھا کہ وہ سب دراصل زندہ ہیں۔ وہ دیوانہ وار اس شخص کی تلاش کرنے لگا جس نے سب سے پہلے اس یقین کا اظہار کیا تھا کہ وہ اب حیات لے کر ہی پلٹےگا۔۔۔

    سفر میں وہ اپنے ماسک نوچ نوچ کر کھاتا رہا۔۔۔ جب آخری ماسک بھی اکھڑ گیا تو اس کی تیز چیخ فضا میں دیر تک لرزتی رہی۔۔۔

    ارے! اتنے ہزار ماسکوں میں میرا اصل چہرہ تو نہیں چلا گیا۔۔۔ یہ جلا ہوا سفید چہرہ جس کی جلی ہوئی چربی کی بدبو آس پاس کی فضا کو بھی مسموم کر رہی تھی۔۔۔ یہ میرا کب تھا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔؟

    ’’نہ جانے یہ کیسا المیہ تھا کہ اس وقت میں نے اپنی ہی شناخت سے انکار کر دیا۔‘‘

    جب اس سے کہا گیا کہ۔۔۔

    تم۔۔۔ Complexed ہو۔۔۔ تو اسے یقین نہیں آیا۔۔۔

    میرا حقیقی چچا مجھ سے عشق کرتا ہے۔۔۔ جنسی عشق۔۔۔ تو بھی اسے یقین نہ آیا۔

    تم مکالموں میں گفتگو کرتے ہو۔۔۔ اس نے عمداً جھٹلا دیا۔۔۔

    تم میں ڈرامائیت ہے۔۔۔ وہ یہ ظاہر کرنے لگا کہ یہ ڈرامائیت نہیں ہے۔ اگر تم نہ ملے تو میں تمہارا ہی گلا گھونٹ دوں گا۔۔۔

    ’’لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔ لیکن میں بہت جھوٹ بولتا ہوں۔۔۔ میں چوری نہیں کرتا۔۔۔ لیکن میں چور ہوں۔۔۔ میں بہت پڑھا لکھا ہوں۔۔۔ لیکن میں بہت زیادہ جاہل ہوں۔۔۔ یعنی میں ہر وہ چیز نہیں ہوں جو لوگ کہتے ہیں۔ وہ تو میرے ماسک تھے جن کی ایک ایک تہہ مختلف مواقع پر مختلف لوگوں کے سامنے نوچ لی گئی تھی۔ میں تو ایسا ہی کمینہ ہوں کہ آج تک اپنی شناخت سے انکار کرتا رہا۔ لیکن یہ دھوکہ کب تک۔ کون کہاں تک جھوٹ بول سکتا ہے۔‘‘

    اپنا اصل چہرہ تو اس نے اسی ریگستان میں معمول بن کر دیکھا ورنہ وہ کبھی یہ نہ ظاہر کرتا کہ تمام مرے ہوئے لوگ دراصل زندہ ہیں۔

    ’’لا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیاء و عند ربہم یرزقون‘‘ (قرآن)

    وہ ببول کی پھنگی پر بیٹھا اس صبح کا انتظار کرتا رہا جس کی کبھی بشارت ہوئی تھی۔ لیکن دروں کی سنسناہٹ ریڑھ پر لرزتی رہی اور ساہی کا کانٹا ورید میں داخل ہوکر چبھتا رہا۔

    ’’کئی بار میں نے سوچا کہ لاؤ اس زبردستی کے عذاب سے نجات حاصل کر لی جائے اور اس لاش کو کسی ملبہ پر ڈال دیا جائے تاکہ برسوں سے بھوکے گدھ انا کا ریزہ ریزہ نوچ لیں یا کسی غلیظ ڈر پنج میں پھینک دی جائے کہ غلیظ ڈھورے اس سے لپٹ کر روح تک کو مکروہ بنا دیں۔۔۔ تاکہ آیندہ وہ اپنی بے اعضائی اور بےچشمی کا ماتم ہی نہ کر سکیں۔۔۔ لیکن میں بزدل معمول؟ جس سے پہلے ہی کہہ دیا گیا تھا کہ تم نہ تو کسی کو اپنا سکوگے اور نہ ہی کسی کے ہو سکوگے۔‘‘

    اس نے ان تمام مردہ لوگوں کی موت کی تردید کرنی چاہی تو طاقتور سیاہ مہیب آنکھ نے روک دیا۔۔۔ جب کہ ان کے لئے سب سے بڑا المیہ یہی ہوتا کہ ان مطمئن مردہ لوگوں کو یہ احساس دلا دیا جائے کہ احمقو! تم مرے نہیں ہو زندہ ہو۔

    وہ جبراً خوش ہوتا رہا کہ وہ submissive نہیں ہے۔۔۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ بالاعلان کہے کہ وہ قنوطی ہے۔ کاش وہ ایسا ہی رہ سکتا، کاش!

    جب تم اس شخص کے دروازے پر گئے جو بڑا مخیر تھا اور تمھیں یقین دلایا گیا تھا کہ وہ تمھیں کوئی نوکری دلا دےگا۔۔۔ تو تمہارے فرشی سلام کے جواب میں اس نے کہا تھا۔

    جاؤ جاؤ۔۔۔ معاف کرو۔۔۔ گھر میں اس وقت کوئی نہیں ہے۔

    اس بات کا گواہ تو وہ بجلی کا کھمبا ہے جس کے نیچے بیٹھ کر تم روئے تھے۔۔۔ یا پھر ہنسے تھے۔۔۔ وہ تو آج تک گواہی دینے پر آمادہ ہے۔

    جب تم منڈی کے مقدم کے پاس جاکر گڑگڑائے تھے کہ تمھیں نوکری دے اور پڑھنے کے لئے تھوڑا سا وقت۔۔۔ تو اس نے دوسرے مقدم کے کان میں کہا تھا۔

    سالا ایکٹنگ کرتا ہے۔۔۔

    جابے۔۔۔ جاکر شیش محل میں دھنداکر۔۔۔ نواب لوگ پڑھا دیں گے۔

    دوسرے نے کہا۔۔۔

    ابے نمکین ہے سالا۔۔۔ رکھ لے نا۔۔۔ رات میں ساکی بنےگا۔۔۔

    چپ ماں کے۔۔۔ ایسے ساگر کو کیا کرے کوئی۔ جس کے پیندے میں بال آ جائے۔۔۔

    اور جب آمو کی آخری ٹوکری ٹرک پر لادنے کے بعد تقریباً ڈھائی بجے تمھیں احساس ہوا کہ تم نے کل رات آٹھ بجے سے اب تک کچھ نہیں کھایا ہے اور تمہاری مزدوری کل پر ٹال دی گئی ہے۔۔۔ اور تمہیں سونے کے لئے سڑے ہوئے آم کے چھلکوں کا بستر دیا جا رہا ہے تو تم ساری رات ٹہلتے رہے تھے جس کی گواہی اس بوڑھی کنجڑن کی جوان لڑکی بھی دےگی جو بار بار ڈوپٹے سے اپنی آنکھ رگڑ رہی تھی۔

    جب تمہیں پکارنے والوں نے طویل ایک برس تک چپراسی کہہ کر پکارا تھا۔۔۔ تو تم خاموش رہے تھے اور کمرہ نمبر ۵۵، ۵۳ کی بکھری میزیں ہر رات کو تمہیں ستاتی تھیں۔۔۔ میلے جھاڑن کی بدبو تمہیں آنکھ کھولنے پر مجبور کر دیتی تھیں۔

    لیکن صبح کو تم دستخط کرتے وقت مسکراتے تھے۔۔۔ اس لیے کہ ان سب کا حق تم نے ہی انہیں سونپا تھا۔۔۔ اور جب رکشا۔۔۔ جب۔۔۔ جب۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ چھین لے مجھ سے حافظ میرا۔۔۔

    ان غلیظ اور سیاہ مہیب آنکھوں سے بچنے کے لئے ببول کے درخت پر بیٹھے بیٹھے اس کی طبیعت اکتا چکی تھی۔

    ’’چلو اب اترچلو۔۔۔ اس خوف اور تذبذب کے دریا میں غوطہ لگانے سے اچھا ہے کہ ان کا سامنا کر کے اپنا مکمل Submission کر دیا جائے۔ ابھی تیروں کی جھاڑی بن کر اگنے کا بہت دنوں تک امکان نہیں ہے۔ نیزے تو اب بھی شاخوں سے الٹے لٹکے ہوئے ہیں۔۔۔ اور پتھر اسی طرح جڑوں میں پڑے ہیں۔‘‘

    وہ پھسلتا ہوا نیچے آیا اور ایک ایک پتھر کو الٹ کر دیکھنے لگا۔

    ’’اف۔۔۔ کتنوں پر میرے خون کے دھبے ہیں۔۔۔ شاخوں سے لپٹے ہوئے تیروں میں۔۔۔ افوہ۔۔۔ اب بھی میرے سوکھی ہوئی رگیں اور گوشت کے ٹکڑے ہیں۔۔۔‘‘

    وہ مسکراکر جڑ سے ایک ایک پتھر اٹھاکر علیحدہ رکھنے لگا۔۔۔ خاصی دور۔۔۔ پھر درخت کی جڑ کھودنے لگا۔۔۔ کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد جب اسے ریشے دکھائی دیے تو وہ انہیں نوچ نوچ کر چوسنے لگا۔۔۔ اور تازہ دم ہوکر پھر مٹی ہٹانے لگا۔۔۔ آہ۔۔۔ ہا۔۔۔ ہ۔۔۔ اس نے مٹی ناک کے پاس لے جاکر لمبی سی سانس لی۔۔۔ پھر کھدی ہوئی جگہ میں کھڑا ہو گیا۔۔۔ اور مٹھی بھر بھر کر تمام نکالی ہوئی مٹی اپنے اوپر گراتا گیا۔

    انگلیوں کے تمام خطوط مٹیالے ہو ہوکر سیاہ ہو گئے تو مٹی گردن تک پہنچ چکی تھی۔

    اس نے ڈرتے ڈرتے ایک بار پھر درخت پر نظر ڈالی۔۔۔ سارا سب کچھ ویسا ہی تھا۔ نیزے۔۔۔ تیر۔۔۔ اور پتھر سب اپنی جگہ پر تھے۔۔۔ اس نے اطمینان کی طویل سانس لی اور چند آخری مٹھیاں اپنے اوپر ڈال بیٹھا۔

    دل سرعت سے نشیب کی طرف دوڑا اور تمام جسم کے مسامات کھل گئے۔

    ’’خدا یا۔۔۔ یا مسبب الاسباب۔۔۔ اب میں آخری رہوں۔ جسے یہ علم ہوا ہو کہ تمام مرے ہوئے لوگ دراصل زندہ ہیں۔۔۔ دیکھ۔۔۔ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کر۔۔۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے