Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آنکھ اور سایہ

انور سجاد

آنکھ اور سایہ

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    کوٹھری: 8.5X10 فٹ

    آہنی دروازہ: 5X3 فٹ

    آہنی دروازے کے بالکل سامنے کھڑکی: 3X2 فٹ

    کھڑکی کی سلاخیں، قطر:2 انچ

    سلاخوں سے باہر تاریکی آزاد، سلاخوں کے اندر تاریکی قید۔

    ابھی تھوڑی دیر میں جب پرندے آسمان پر اندھیرے کا تعاقب کریں گے تو کچھ لوگ آئیں گے اور اسے اس کمرے کی تاریکی سے آزاد کریں گے۔

    وہ گھاس پھونس پر بچھی دری کے اوپر دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اس کے کان اور آنکھیں آہنی دروازے پر لگی تھیں۔ لیکن تالے میں ابھی زبان نہیں پڑی تھی اور دروازے کے درمیان گول سوراخ میں کوئی آنکھ نہیں تھی۔

    یہ لوگ آئے کیوں نہیں؟ میں گزشتہ دومہینوں سے ان کا منتظر ہوں۔

    وہ دری پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ دری والا بستر برف کی سل تھا، کسی بھی سلوٹ کے بغیر۔

    تو آج رات میں بالکل نہیں سویا۔ مجھے تو نیند آ رہی تھی لیکن میں سونا بھول گیا شاید۔ بستر پر کمبل بھی لپیٹا پڑا ہے۔ سردیاں ہوں گی شاید۔ مجھے ٹھنڈ تو بالکل نہیں لگ رہی۔ شاید اس بار سردی جلد ختم ہو گئی ہے اور داروغے کو کمبل اٹھوانا یاد نہیں رہا۔ کیا داروغے کو بھی بعض باتیں بھول جاتی ہیں؟

    وہ مسکرایا۔ لیکن اس کے ہونٹ فوراً ہی سکڑ گئے۔ اس کی نگاہوں نے کوٹھری کی مٹی کی دیواروں کو، فرش کو خواہ مخواہ کھودنا شروع کر دیا۔

    یہ ممکن ہے کہ وہ مجھے یہاں سے نکالنا بھی بھول گیا ہو۔ نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ جب وہ آئیں گے تو میں مسکرانے لگوں گا اور بڑے سکون سے ان کے ساتھ جاؤں گا۔ کیونکہ آج تک جتنے بھی لوگ میری طرح اس کوٹھری میں آکر نکلے ہیں، ہمیشہ بڑے سکون سے مسکراتے ہوئے نکلے ہیں۔

    اس نے آنکھیں موند کر انگڑائی لی اور اٹھ کر ٹہلنے لگا۔

    میں اتنا تھکا ہوا کیوں ہوں؟ اوہ۔ میں ساری رات یہاں گھومتا رہا ہوں۔ مجھے سونا یاد نہیں رہا ہوگا۔ یامیں سو گیا تھا؟ لیکن کمبل اسی طرح لپیٹا پڑا ہے اور بستر جیسے ابھی ابھی بنایا گیا ہے۔ عجیب سوتے میں جاگنے اور شاید جاگتے میں سونے کی کیفیت ہے۔

    اس نے جمائی لی۔ اس کا بدن ٹوٹنے لگا۔ وہ بستر پربیٹھ گیا۔ بالکل خالی الذہن، پھر چند منٹ بعد لیٹ گیا۔

    آ جاؤ کم بختو۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔

    ’’میرے لعل۔‘‘

    اس کی ماں کے پوپلے منہ سے آواز آئی تھی اور وہ اپنے برقعے کا نقاب اٹھاکے اسے بس دیکھنے لگی تھی۔

    ’’باتیں کرو ماں۔ مجھے اس طرح نہ دیکھو۔‘‘

    بلکہ فوراً مجھے اپنی گود میں چھپا لو۔ آج پھر میں مسجد سے بھاگ گیا تھا اور ابا نے مجھے مسجد کی دیوار کے ساتھ اخروٹ کھیلتے دیکھ کر بہت پیٹا ہے۔ وہ پھر مجھے پیٹنے آ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے، آج وہ مجھے بالکل مار دےگا۔

    ’’بڑا آیا مارنے والا۔‘‘

    ’’اس حرامی نے آج پھر سپارے کو ہاتھ نہیں لگایا۔‘‘

    ’’میرا ایک ہی بچہ ہے۔ اسے بھی مار کے دم لوگے؟‘‘

    ’’نکما۔ حرام زادہ۔‘‘

    مجھے اپنی گود میں چھپالو ماں۔ تم چپ کیوں ہو؟ دیکھو میں خود ہی نہا دھوکر آیا ہوں اور تمہیں میرے پیچھے بھاگنا نہیں پڑا۔ میں نے اچھے والے صاف کپڑے پہنے ہیں اور بال بھی بنائے ہیں۔ میری بلائیں لو تاکہ مجھے نظر نہ لگ جائے۔

    ’’باتیں کرونا ماں۔ ہمارے کرائےدار کا لڑکا ہسپتال میں تھا۔ اب اس کا کیا حال ہے؟‘‘

    ’’میرے ہیرے۔‘‘

    ماں اس کے سینے کے ساتھ لگ کر رونے لگی تھی۔ وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا لیکن اس کے آنسو نہیں بہے تھے اور آواز بھی حلق سے کہیں نیچے ہی رہ گئی تھی۔

    ’’میں روئی تو نہیں پتر۔ یونہی دل بھر آیا تھا۔‘‘

    ’’اس میں رونے کی بات ہی کیا ہے۔‘‘

    سنا ہے ایسے موقعوں پر تو لوگ خوش ہوا کرتے ہیں اور میں بہت خوش ہوں بہت ہی خوش۔

    اس نے چاروں اور دیکھا تھا۔ ماں نے برقعے سے لفافہ نکالا۔

    ’’یہ میں تمہارے لیے مٹھائی لائی ہوں دینے۔ تمہیں برفی پسند تھی نا؟‘‘

    دینے نے لفافہ کھولا۔ اس کو متلی ہونے لگی، سر چکرانے لگا، پیٹ میں بل پڑنے لگے۔ میرا دل کچھ بھی کھانے کو نہیں چاہتا، برفی بھی نہیں۔ مجھے اب بھوک نہیں لگتی۔

    ’’تم کتنی اچھی ہو ماں۔‘‘

    ’’لاؤ۔ میں تمہیں اپنے ہاتھ سے کھلاؤں۔‘‘

    اس کی ماں نے لفافے سے برفی کا ٹکڑا نکال کر اس کے منہ میں ڈالا۔ وہ اپنی ماں کی اس حرکت پر ہنسنا چاہتا تھا۔

    بس بس اور نہ دو ماں۔۔۔ اب مجھ پر گوٹے والا دوپٹہ ڈال کر داتا صاحب سلام کرانے بھی لے جاؤگی؟ قربانی کے بکرے کی طرح۔ بس کرو۔ مجھے شدید متلی ہو رہی ہے۔ اب میں قے کر دوں گا۔

    اس نے پیٹ پر ہاتھ رکھ لیے۔ ماں نے خالی لفافہ پھینک کر اسے سینے سے بھینچ لیا۔ اتنی زور سے نہیں ماں۔ اس طرح تم مجھے اپنے سینے کے اندر تھوڑی چھپا لوگی۔

    ماں اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی پھسک پھسک روئے جا رہی تھی۔ اسے نیند آنے لگی۔ اس کے ہونٹوں پر خودبخود ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔

    میری پاگل ماں۔ بازار میں بچے کھیلتے کھیلتے بڑے ہو گئے ہیں۔ میرے تینوں دوستوں نے اپنا اپنا کاروبار سنبھال لیا ہے۔ دودھ دہی کی دکان، ریڑھا اور جوئے کی بیٹھک۔ سب اپنے فارغ وقت میں بھنگ پیتے ہیں۔ جوا کھیلتے ہیں۔ شراب سے شغل کرتے ہیں اور شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی گانا سننے کے بعد اکثر گھر نہیں آتے، ان ہی کے کوٹھوں پر سوتے ہیں۔ میرے چوبیس گھنٹے فارغ ہیں۔ کبھی کبھی ان اکتائی ہوئی گھڑیوں میں جیرے کا ریڑھا، دریا کا کنارہ اور دوڑ۔ راوی کے کنارے اکتائی ہوئی گھڑیاں، سموں کے نیچے، پھر وہی چوبیس کے چوبیس گھنٹے فارغ۔

    ’’تو بھی کوئی کام کیا کر۔‘‘ اس کا باپ گرجا۔ ’’دینے۔ الو کے پٹھے۔‘‘

    ’’ابا۔ مجھے کام کرنے کی کیا ضروت ہے۔ تم نے چینی کی بلیک سے جو مکان بنوایا ہے اس کا آدھا حصہ اور نیچے کی دکانوں کا کرایہ ہمارے لیے بہت ہے۔‘‘

    ’’ماں۔ میں تانگے گھوڑے سے بھی اکتا گیا ہوں۔‘‘

    ’’بیٹے۔ ابھی گنتی کے چار ہی دن تو ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’لو ماں پیسے۔ میں تانگہ گھوڑا بیچ آیا ہوں۔‘‘

    ’’لاکھ لعنت۔۔۔ اوئے لعنتی، حرام زادے۔‘‘

    وہ باپ کے غصے پر ہنسنے لگا۔

    اس کی ہنسی ہونٹوں پر سمٹتے سمٹتے اداس ہو گئی۔ وہ سر نیہوڑائے بیٹھا تھا۔ سامنے کٹہرے والی چارپائی کے اوپر کلمہ اور آیات لکھی چادر تھی اور اس کی ماں رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔

    اب تو خرچ بھی کم ہو گیا ہے۔ اب ہم دو رہ گئے ہیں۔ تم اور میں۔

    ماں، دل اتنی ہی نازک شے ہوتی ہے کہ ذرا سی بات پر ٹوٹ جاتا ہے۔ ابا کو یوں نہیں مرنا چاہیے تھا۔ انسان بیماری کے ساتھ لڑکر مرے تو افسوس کم ہوتا ہے۔

    ’’بیٹا میں بہو لاؤں گی۔‘‘

    ’’نہیں ماں۔ ابھی تو میرے کھانے پینے کے دن ہیں۔‘‘

    ’’وے! ان لوفروں کے ساتھ نہ بیٹھاکر دینے۔‘‘

    ’’تو پھر میں کیاکروں؟‘‘

    ’’یہ حرامی تمہیں خراب کریں گے۔‘‘

    ’’ماں یہ مجھے کیا خراب کریں گے!‘‘

    ’’تم چارپائی پر لیٹے کیا سوچتے رہتے ہو۔ یہ صرف کچھ نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ تمہارا دماغ الٹی باتوں میں مصروف رہتا ہے۔‘‘

    ’’اوترا۔ نکھٹو۔‘‘

    اگر میں اتنا ہی نکھٹو ہوں تو۔۔۔ ماں، تیری باتوں سے میرا دل کیوں نہیں ٹوٹتا؟ کیامیرا دل نازک نہیں کہ میں باپ کی طرح۔۔۔ لیکن میں بیکار کہاں ہوں ماں۔ بھنگ پینے سے فرصت ہی نہیں ملتی مجھے تو۔ دراصل سب کچھ بکواس ہے۔ زندگی بکواس ہے۔ موت بکواس ہے۔ دراصل دنیا میں جو چیز بیکار ہے اسے زندگی کہنا چاہیے۔ مثلاً رس نچڑی بوٹی کو پھوگ نہیں بلکہ زندگی کہنا چاہیے۔ ماں میں پھوگ ہوں۔ میرا رس کہاں گیا؟ میری موت کہاں گئی؟ میں زندہ ہوں تو بوٹی کہاں ہے۔ میں بھنگی ہوں۔ تو پھر تو بھنگی ہے۔ ساری دنیا۔ کیونکہ سب زندہ ہیں۔ تو پھر مرجانا چاہیے؟ اوں ہوں۔ خود ہی پھوگ کی طرح سوکھ کر ہوامیں بکھر جاؤں گا، سب بکھر جائیں گے۔ چھت کی کڑیاں کتنی ہیں؟ ایک، دو۔۔۔ اوہ، یہ کمرہ ڈول رہا ہے۔ تو بھی ڈول رہی ہے ماں۔ تو نے بھنگ تو نہیں پی لی ماں۔ ہاہاہاہاہا۔

    ’’وے۔ تیرا فٹے ای منہ۔‘‘

    وہ آنکھیں بند کرکے ماں کے سینے کے ساتھ لگ گیا۔

    کسی نے اس کا کندھا ہلایا۔ داروغے نے کہا، ’’کتنے مزے سے سو رہا ہے۔‘‘

    اس نے آنکھیں کھول دیں۔ سرمئی اندھیرے میں سائے تھے۔ انگریز مجسٹریٹ نے انگریزی میں کہا، ’’جانے ان لوگوں کو نیند کس طرح آ جاتی ہے۔‘‘

    نیک مقصد کے لیے جان قربان کر دینے میں سکون تو بہت ہوتا ہے۔۔۔ خاکروب نے جیسے اپنے آپ سے کہا۔ داروغے نے پھر اس کاکندھا ہلایا۔

    ’’اٹھو بھئی۔‘‘

    اس نے اپنی آنکھیں مل کر دیکھا۔ چاروں اس پر جھکے ہوئے تھے۔ جانے کیوں وہ یکایک ڈر گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ اس نے نیم دراز ہوکر کہنیوں کے سہارے خود کو بستر پر ذرا پیچھے کو گھسیٹا، دروازے کی طرف دیکھا۔ اس کا جی چاہا کہ اٹھ کر بھاگ جائے۔ لیکن باہر، دروازے کے وسطی گول سوراخ میں آنکھ تھی۔

    لیکن میں کیوں بھاگوں؟ اگر بھاگنا ہی تھا تو اتنا سفر طے کرکے یہاں کیوں آیا تھا اور اگر کوشش کروں تو بھی دروازے پر قفل پڑا ہے اور وسطی گول سوراخ میں آنکھ سرخ۔

    ’’خوب نیند آئی؟‘‘

    ڈاکٹر نے جیب سے ٹوٹیاں نکال کر گردن میں اٹکائیں اور نبض پر انگلیاں رکھ دیں۔ اس نے جمائی لی اور مسکرایا، ’’جی ہاں۔ خوب مزے سے سویا۔‘‘

    ان چاروں نے ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ داروغہ دل ہی دل میں بڑبڑایا۔ اس قسم کے قاتل اس طرح کے کیوں ہوتے ہیں۔

    ’’ڈاکٹر صاحب، میں بیمار نہیں ہوں۔‘‘

    ’’نہیں نہیں مسٹر دین محمد۔‘‘

    ڈاکٹر کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا کہے۔ اس نے اس کے سینے سے سویٹر اور قمیص ہٹاکر ٹوٹیوں سے دل کی آواز سنی پھر ٹوٹیاں اتار کے جیب میں ڈال لیں۔ داروغے نے سوالیہ نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھا۔ ڈاکٹر نے فوراً کہا، ’’ٹھیک ہے۔‘‘

    ’’چلو۔‘‘

    اس نے اٹھتے ہوئے اچانک سوال کیا، ’’اگر میں بیمار ہوتا تو؟‘‘

    ’’تو تمہارے صحت مند ہونے تک انتظار کرتے۔ انگریز مجسٹریٹ نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا۔

    ’’ہوں۔‘‘

    مجھ سے، مجھ سے اٹھا نہیں جاتا۔ میں بیمار ہوں۔ بہت ہی بیمار۔ میں بالکل سن ہو گیا ہوں اور میرا دل۔ آپ لوگ دیکھ نہیں رہے تم، تم میری نبض پھر دیکھو ڈاکٹر، میرا دل دیکھو، شدید درد ہے۔

    ’’اٹھو، جلدی کرو، وقت ہو رہا ہے۔‘‘

    داروغے نے اپنی جیبی گھڑی نکال کر دیکھی۔ اس نے دراروغے کے ہاتھ کی طرف دیکھا جس میں گھڑی تھی پھر باری باری سب کو دیکھا، واپس داروغے کے ہاتھ پر آکر اس کی نظریں داروغے کی گھڑی کے ساتھ ساتھ ہلنے لگیں۔ ٹک ٹک، ٹک ٹک۔ اس کے سینے کے اندر بھی یہی ٹک ٹک جیسے یہ آواز گھڑی سے نکل کر اس کی طرف بڑھنے لگی تھی اور دل گھڑی کی طرح۔ ٹک ٹک، ٹک ٹک، اٹھو، اٹھو۔ دستک، ٹک ٹک۔

    آواز کہاں ہے؟ سوئیاں کہاں ہیں؟ حرف کہاں ہیں؟ وقت ہو رہا ہے؟ کتنے بجے ہیں؟ ہنہ وقت ہو رہا ہے۔ اس گھڑی میں تو آواز ہی نہیں۔ وقت ہی نہیں اور ڈاکٹر۔۔۔ میں بیمار ہوں۔ میرا دل دھڑک رہا ہے۔ دیکھو، دیکھو۔

    ’’ٹوٹیوں سے دیکھو ڈاکٹر۔‘‘

    دینے نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے بیٹھے سینہ ڈاکٹر کے آگے کر دیا۔ سب ہنس پڑے۔۔۔ جانے ان لوگوں کو تختے پر بھی مذاق کیسے سوجھ جاتے ہیں۔ خاکروب نے اپنے آپ سے کہا۔

    اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔ واقعی۔ گھڑی تو۔

    ’’میں آپ کی گھڑی دیکھ سکتا ہوں۔‘‘

    اس نے داروغے کو گھڑی جیب میں ڈالتے دیکھ کر کہا، داروغے نے گھڑی اس کے سامنے رکھ دی۔ وہ گھڑی میں اٹکا وقت دیکھ کر مسکرایا،

    ’’چلیئے، داروغہ جی۔‘‘

    دروازے کی دہلیز میں وہ رک گیا۔ اس نے پلٹ کر کمرے کا جائزہ لیا۔

    میں اب یہاں کبھی نہیں آؤں گا۔ اس کوٹھری میں۔ خدا حافظ کوٹھری۔

    وہ خوش تھا پھر بھی اس نے آنکھیں بند کرکے سرجھکا لیا اور وہاں کی کی فضا کو پوری طرح پھیپھڑوں میں بھر کے نکل آیا۔

    اس نے کوٹھری سے باہر آکر پر زور انگڑائی لی اور سرمئی اندھیرے میں ان چاروں کو دیکھا۔ ان کی شکلیں بہت دھندلی سی تھیں۔ اس کی نظریں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ ستارے نیلاہٹ مائل سیاہی میں گھل کر پھیل رہے تھے۔ اس نے باری باری پھر ان کو دیکھا۔ ان کے چہرے بھی سیاہ رنگ ملے پانی کے چھینٹے تھے جو رفتہ رفتہ پھیل رہے تھے۔ اس نے فوراً اپنی آنکھیں ملیں۔ اس کی انگلیاں اپنی آنکھوں میں دور تک اترتی چلی گئیں۔ اس نے گھبرا کے پھر آسمان کی طرف دیکھا۔ جیسے سمندر میں طوفان آ رہا تھا۔ بڑی بڑی لہریں اٹھ رہی تھیں اور ان لہروں پر دو آنکھیں ابھر ابھر کر ڈوب رہی تھیں۔ اس نے بہت غور سے دیکھنے کی کوشش کی۔

    آنکھیں۔ یہ آنکھیں۔۔۔ میری آنکھیں۔ وہ آنکھیں کس کی ہیں جو لہروں میں۔۔۔ داروغہ جی مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔

    ’’آپ، آپ لوگ کہاں ہیں۔‘‘

    اس نے اندھیرے کو ٹٹولتے ہوئے کہا۔

    ’’ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘

    ’’اب اور کتنی دور جانا ہے؟‘‘

    ’’وہ سامنے دیوار سے ذرا آگے۔۔۔ وہ چوکھٹا۔‘‘

    ’’دیوار۔‘‘

    کہاں ہے دیوار؟ مجھے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا۔ میں تو ان کے ساتھ ہی کوٹھری کے دروازے سے باہر نکلا تھا۔ لیکن میرا قدم کہاں پڑا ہے۔ میں اونچی اونچی دیواروں میں کیسے گھر گیا ہوں؟ اور دیواروں میں غاروں کے منہ کھلے ہیں یا شاید کوٹھریوں کے دروازے ہیں اور سیڑھیاں ہی سیڑھیاں، دیواروں سے اترتی ہوئی یا آسمان پر چڑھتی ہوئی۔ ٹوٹی پھوٹی، نئی نئی۔ سیڑھیاں ہی سیڑھیاں ہیں جو ان کوٹھریوں میں جا رہی ہیں۔ ان کوٹھریوں سے آ رہی ہیں اور یہ تنگ راستہ جس کے ہر قدم پر موڑ ہے اور جس پر بہتی دھند کی تہ میں پیر کھو گئے ہیں۔ میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں؟

    سامنے صرف ایک آئینہ ہے، سانس کی ہواڑ سے دھندلایا ہوا۔ چاروں اور دھواں ہی دھواں اور دھوئیں سے ابھرتی سیڑھیاں، دیواریں اور دیواروں میں پھٹے غاروں کے منہ۔ یہ سب کچھ میں دیکھ رہا ہوں؟ نہیں۔ میری بھنووں کے نیچے دو سوراخ ہیں اور آنکھیں وہاں سمندر میں ہچکولے کھا رہی ہیں۔ نیچے دھند کی تہ میں میرے پیر ہیں اور اوپر پانی میں پھیلتے ہوئے سیاہ دھبے ہیں لیکن سنا ہے تب آسمان پر کوئی طوفان نہیں آیا تھا۔ پانی میں دھبے نہیں تھے۔ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی اور اس کا بیٹا صاف و شفاف کپڑے پہنے اس کے ہاتھ میں پکڑی چھری کے نیچے لیٹا تھا۔ جب چھری چلانے کے بعد اس نے اپنی آنکھوں سے پٹی کھولی تھی تو دنبہ ذبح ہوا پڑا تھا اور اس کا بیٹا پاس کھڑا تھا۔

    نہیں تو میں چل رہا ہوں اور دھند کے پہیوں پر پھسل رہا ہوں اور مجھے کسی سامنے کی دیوار سے ذرا آگے کسی چوکھٹے تک پہنچنا ہے۔ میں نہایا تھا۔ میں نے پاک صاف کپڑے پہنے تھے اور میری ماں نے کہا تھا کہ حوصلہ کرو یہ ایک عظیم قربانی ہے۔ تب بھی مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ میری ماں کہہ رہی تھی دیکھو میرا کتنا حوصلہ ہے کہ میں اتنی خوش ہوں۔ ماں نے کہا تو تھا لیکن اس کی آنکھوں میں یہ خوشی پانی کیوں ہو گئی تھی؟ غم؟ ہو سکتا ہے خوشی کی انتہا ہو جو سنبھالی نہ جاسکے تو آنکھوں سے بہہ جاتی ہے۔ میں چل رہا ہوں یا کھڑا ہوں لیکن میرے پیر یقیناً دھند میں پگھل کر بہہ رہے ہیں، چوکھٹے کی طرف، لیکن چوکھٹا کہاں ہے؟ یہ بھول بھلیاں ہیں۔ ہر قدم موڑ ہے اور ہر موڑ پر چوکھٹے کا خیال کہ اب سامنے ہوگا اور وہاں میری گردن پہلے ہی موجود ہوگی۔

    میری ماں بھی کتنی بےوقوف ہے اور میں اس سے بھی زیادہ۔ نہیں۔ ناممکن۔ یہ میری آنکھیں میری ہی باندھی ہوئی پٹی کے پیچھے سے نکل کر آسمان کی لہروں پر چلی گئی ہیں اور میں خود اپنی چھری کے نیچے لیٹا ہواہوں، چھری کے نیچے گردن میری ہی ہے؟ آسمان کے بھنور سے آنکھوں نے پہچاننے کی کوشش کی ہے، اس دہانے سے لال لال دھواں کیوں نکل رہا ہے۔ دھواں اتنا، اتنا سرخ ہوتا جا رہا ہے۔ میں اس کوٹھری کی سیڑھیوں سے کیوں اتر رہا ہوں؟ اس دھوئیں میں میرا دم گھٹ رہا ہے۔ مجھ سے جلتے مردے کی بدبو برداشت نہیں ہوتی۔ یہاں سے غرر غرر کی آوازیں کیوں آ رہی ہیں؟ ایسی آواز تو بکرے کی شہ رگ کٹنے پر آتی ہے۔ غرر غر، یہ کون تڑپ رہا ہے؟ یہ، یہ، یہ تو میں ہوں اور میرے ہاتھ میں چھری ہے۔

    سامنے سرخ تالاب میں لاش نہا رہی تھی۔ زمین پر بہتی، خون کی سرخ انگلیاں اس کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ کٹی ہوئی گردن سے غرغراہٹ کی آواز آئی اور وہ گھبرا گیا۔ اس نے دکان کے دروازے کی طرف دیکھا۔

    دروازہ تو میں نے دکان کے اندر داخل ہوتے ہی بند کر دیا تھا۔

    تو، تو یہ آواز؟

    سامنے پڑے ہوئے جسم نے جھر جھری لی۔ گردن کے نرخرے سے پھر آواز آئی اور اس کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چھری کو دیکھا، چھری کی نوک پر خون کی بوند گرتے گرتے اٹک گئی تھی۔

    میں نے اس کو واقعی قتل کر دیا ہے؟ یہ دروازہ بند کرکے دن بھر کی کمائی گن رہا تھا۔ میں نے اندر آکے پہلے دروازے کی کنڈی لگائی تھی اور ردی خریدنے کے بہانے اسے کتابوں کی الماری کے پیچھے لے گیا تھا اور پھر۔۔۔

    اس کے ہاتھوں میں چھری کانپنے لگی، اس زور سے کہ ہاتھ سے چھوٹ کر خون میں جاگری۔ فرش پر خون کی انگلیاں اس کی طرف بڑھتی بڑھتی جم گئی تھیں۔ اس نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے دیکھا۔

    نہیں۔ نہیں نہیں۔ یہ میرے ہاتھ نہیں ہو سکتے۔ میں اسے قتل کر ہی نہیں سکتا۔ یہ چھری اس جن نے چلائی ہوگی۔ اس کا قاتل جن ہے۔ تم لوگ مجھے اس لاش کے پاس تنہا کیوں چھوڑ گئے ہو، تم کہاں ہو؟ ماں میں تنہا ہوں اور یہ خون! یہ سرخ دھواں میرے اردگرد۔ یہ خون میں نے نہیں کیا۔ بھوت کی پرچھائیں، جن کا سایہ مجھ کو یہاں لاکر چھوڑ گیا ہے۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ماں۔ ابلتے ہوئے دھوئیں میں جھریوں والا ہاتھ ابھرا ہے، ماں تیرے ہاتھ میں تعویذ ہے اسے فوراً میری گردن میں ڈال دو۔۔۔ لاؤنا۔ یہ تیرا ہاتھ پیچھے کیوں ہٹتا جا رہا ہے۔ میں آگے بڑھتا ہوں اور ماں کا ہاتھ اور پیچھے اور پیچھے۔۔۔ لاؤنا۔۔۔ یہ، یہ کیا؟ یہ کیا ہو رہا ہے، یہ جھریوں والاماں کا ہاتھ کسی مرد کے ہاتھ میں کیوں ڈھل رہا ہے، کیوں ڈھل گیا ہے۔ یہ، یہ ہاتھ کس کا ہے؟ میرے، میرے ہاتھوں جیسا۔۔۔؟

    اس نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ ایک ہاتھ نہیں تھا۔ سامنے دھوئیں میں دوسرے ہاتھ سے خون کی بھاپ ٹھنڈی ہوکر بہہ رہی تھی۔

    یہ، یہ تو میرا ہاتھ ہے۔ میں نے ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تھی اور ہاتھ آگے بھاگنے لگا تھا اور میں ہاتھ کے پیچھے۔ یہ ہاتھ مجھے کھینچ کے کہاں لے جا رہا ہے؟

    یک دم سرخ دھواں چھٹ گیا اور ہاتھ اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ اندھیرے میں شام کی نیلاہٹ ابھری اور وہ سہم کر ایک طرف کھڑا ہو گیا اور اس نے دیکھا کہ سامنے آسمان پر جلتے ہوئے گولے کی آگ دور زمین پر گر رہی ہے۔ اس کا وجود آہستہ آہستہ پگھل رہا ہے۔ تاحد نگاہ زمین سے چھریاں اگ رہی ہیں۔ جلتے ہوئے گولے کی آگ اتنی تیز ہو گئی ہے کہ چھریاں بھی دہکنے لگی ہیں۔ پھر اس کاوجود پگھل کر زمین پر بہنے لگا ہے۔ سایہ پھیل رہا ہے آہستہ آہستہ دہکتی چھریاں اس کے ماس کو جلا رہی ہیں۔ رفتہ رفتہ۔ وہ کرب میں چیخ رہا ہے۔ چلا رہا ہے لیکن بہتے ہوئے ماس کو چھریوں کے دو دھاری پھل کاٹ رہے ہیں اور تاحد نگاہ اس کی لجلجی بوٹیاں پھیلتی چلی جا رہی ہیں اور اس کا سر آسمان پر جلتے آگ کے گولے کی طرف بڑھ رہا ہے، آسمان سے گرتی آگ سر کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وہ دکان کے کونے میں کھڑا اپنے سامنے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ وہاں کھڑے کھڑے اس کا سانس تیز ہو گیا۔

    اس آگ کو روکو میری ایک ایک بوٹی میں میرا دماغ ہے۔ سر کو آگ کی طرف بڑھنے سے روکو ورنہ۔۔۔ ورنہ۔۔۔ میرا نچلا دھڑ پتھر کا ہو گیا ہے۔ میں ہل نہیں سکتا۔ ماں، ماں، بڑھ کر آگ کو روکو۔ ماں، میرا سر۔

    اس نے آنکھیں بند کرکے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ آگ نے سر کو چھواوہ چیخ اٹھا،

    ’’مر گیا ماں!‘‘

    ’’کیا ہوا میرے پتر۔ میں واری جاؤں۔‘‘

    ’’ماں۔ میرا سر۔‘‘

    ’’ہائے میرا جوان جہان پتر۔ تمہیں ضرور کسی جن بھوت کا سایہ ہو گیا۔ آج پھر تم خواب میں ڈر گئے۔ صبح ہوتے ہی جاکر تعویذ لے کر آؤں گی۔‘‘

    لیکن تعویذ والا ہاتھ غائب ہو گیا ہے۔ میرا ہاتھ بھی کلائی کے ساتھ آن جڑا ہے اور میرے دونوں ہاتھ خالی ہیں۔ چھری بھی میرے پاس نہیں۔ اسے جن نے قتل کیا ہے۔ وہ، وہ دیکھو۔ سامنے جن کا پرچھانواں ہے، سرخ دھواں بن کر پھیل رہا ہے۔ وہ دیکھو، اسی کے ہاتھ میں چھری ہے۔

    ’’اسے میں نے قتل نہیں کیا۔‘‘

    ’’یہ تو ثابت ہو چکا ہے۔‘‘ مجسٹریٹ نے زیر لب کہا۔

    ’’لو، سگریٹ پیو۔‘‘ داروغہ بولا۔

    ’’اتنا نارمل۔‘‘ ڈاکٹر نے زیر لب اپنے آپ پر حیرت کا اظہار کیا۔

    ’’مسکراؤ۔ آخری وقت چہرے پر سکون ہوا کرتا ہے۔‘‘ خاکروب نے سرگوشی میں کلمہ بھی پڑھا۔

    ’’ہم پھانسی تک کب پہنچیں گے؟‘‘

    ’’شاباش۔‘‘ خاکروب نے تصور ہی میں اس کے کندھے پر تھپکی دی۔

    ’’وہ سامنے چوکھٹا ہے۔ دس بیس قدم پر۔‘‘

    اور مجھے کمرے سے نکلے صدیاں بیت گئی ہیں لیکن چوکھٹا نظر نہیں آتا۔ آنکھیں سب سے اونچی لہر پر چڑھ کے دیکھتی ہیں اور دوسری لہر میں اترجاتی ہیں۔ یہاں چاروں اور پھیلی ہوئی ہلکی ہلکی دھندہے میں سیڑھیاں اترتا ہوں لیکن زمین نہیں آتی۔ میں سیڑھیاں چڑھتا ہوں لیکن آخری سیڑھی کے بعد ایک اور سیڑھی ہوتی ہے۔ میں بہہ رہا ہوں لیکن میرے پیر راستے پر جمی دھند کی تہ میں کھو گئے ہیں اور دیواروں میں غاروں کے دہانے ہیں۔ کمرے کا دروازہ پھر اسی کمرے میں کھلتا ہے۔ یہی کمرہ دن ہے جو پلک جھپکتے میں گزر جاتا ہے۔ یہی غار رات ہے جو ربڑ کی طرح تنتی ہی جاتی ہے۔ نیند روکنے سے بھی نہیں رکتی۔ نیند کے ساتھ ہی گزرا ہوا دن سیاہ لبادے میں بڑے بڑے دانت نکالے آ جاتا ہے اور رات بھی لمبی ہو جاتی ہے۔

    اور میں دیکھتا ہوں کہ ایک میدان میں بہتے سرخ دریا کے کنارے چلتا جارہا ہوں۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کا پانی سرخ کیوں ہو رہا ہے۔ میدان میں دور دراز درختوں کا نشان نہیں۔ چلتے چلتے مجھے قہقہوں کی آواز سنائی دیتی ہے جو رفتہ رفتہ میرے قریب ہوتی جا رہی ہے اور قریب۔ بالکل میری بائیں طرف۔ میں گھبرا کے اس کی طرف دیکھتا ہوں میرے بالکل قریب بڑی بڑی سوکھی شاخوں والا درخت ہے، جس کی ہر شاخ کانٹا ہے اور ہر کانٹا میرے کٹے ہوئے سر میں گردن کی جانب سے پیوست ہے اور خون ان ہی سے گر رہا ہے۔ قطرہ قطرہ اور یہیں سے دریا کا پانی لال ہو رہا ہے۔ درخت کے تنے کے پیچھے سے قہقہوں کی آوازیں آرہی ہیں۔ میں درخت کی اوٹ سے دیکھتا ہوں تو وہاں۔۔۔ وہاں کتابوں کے تخت پر اخباروں کے کاغذوں سے بنا کوئی جسم بیٹھا پاگلوں کی طرح ہنس رہا ہے۔

    میں اسے غور سے دیکھتا ہوں تو اس کی شکل بازار کی نکڑ والے ملحدسے ملتی جلتی ہے۔ اس کے سامنے میری لاش پڑی ہے اور وہ بار بار میری شہ رگوں کے اندر سے اپنی انگلیوں سے کوئی شے نکالنا چاہتا ہے۔ میں اپنے دونوں ہاتھ اس کی طرف بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں مگر مجھ سے ہلا نہیں جاتا۔ اس نے میری شہ رگوں کو خالی کرنے کی کوشش سے تنگ آکر مجھے کتابوں پر لٹا دیا ہے اور کتابوں کو آگ لگا دی ہے۔ میرا دھوئیں میں دم۔۔۔ دم۔۔۔ گھٹ۔۔۔ گھٹ رہا ہے۔ مجھے بچاؤ۔ ماں۔ مجھے سانس نہیں آتا۔ میرا دم۔۔۔ ماں۔

    ’’پانی۔‘‘

    ’’لو۔ میرے بچے۔‘‘

    ’’ماں یہ جن میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتا۔۔۔ یہ سایہ۔‘‘

    گلے کی زنجیر میں ایک اور تعویذ۔

    ’’ماں۔ دن میں تو میں ٹھیک ٹھاک ہوتا ہوں۔‘‘

    ’’تم کوئی نیک کام کرو تو تعویذوں کا کوئی اثر بھی ہو۔‘‘

    ’’ماں وہ نکڑ پر ردی کی دکان والا، میرے، میرے خوابوں میں کیوں آتا ہے؟‘‘

    ’’تم اس دکان کی طرف نہ جایا کرو۔ کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ خواہ مخواہ اس سے جھگڑا مول نہ لو۔ بازار میں اتنے ڈشکرے کیا کم ہیں۔‘‘

    ’’تم نہیں جانتیں ماں وہ ملحد، خدا اور رسول کو نعوذ باللہ۔۔۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ماں۔ میں۔ مجھے بہت غصہ آتا ہے۔‘‘

    ’’ان لفنگوں کو غصہ نہیں آتا آخر وہ بھی تو۔۔۔ ان ہی قاتلوں کو نپٹنے دو۔ اس سے۔‘‘

    ’’لیکن میراجی چاہتا ہے کہ میں اس کافر کو، اسے، اوہ میرے خدا، میرے رسولؐ کو۔ میں جانتا ہوں تم کیا کہنا چاہتی ہو۔ ٹھیک ہے میں نماز قرآن نہیں پڑھتا لیکن اور خدا رسولؐ کو؟ نعوذ باللہ۔۔۔ جانے یہ خیال کیوں جن کی طرح میرے دماغ سے چمٹ گیا ہے اور وہ خواب!‘‘

    لاحول ولاقوۃ۔

    خواب اس کے ذہن میں پھر گھوم گیا۔ اس نے سینے پر لٹکتے تعویذوں پر ہاتھ رکھا، آیت الکرسی جتنی یاد تھی، پڑھ کر سینے پر پھونک ماری اور سو گیا۔

    ماں کی ہدایت کے باوجود صبح بیٹھک کی طرف جاتے ہوئے وہ ردی والے کی دکان کے سامنے سے گزرتا تھا اور ہنستے ہوئے یاروں کو سارا قصہ سناتا تھا۔ باتیں کرتے کرتے وہ یک دم خالی الذہن ہوکر چپ ہو جاتا۔ کوئی کہتا، ’’پھر‘‘ اور بات پھر جاری ہو جاتی۔

    ’’یار، مجھے واقعی کہیں جن نہ چمٹ گیا ہو۔‘‘ اس نے یک دم سنجیدہ ہوکر کہا۔

    ’’ویسے اس نے حرام زادے کافر کو ٹھکانے لگانا ہے تو بڑے ثواب کا کام۔ امام صاحب۔۔۔ وہی اپنی مسجد والا کہہ رہا تھا کہ اس نے کوئی کتاب بھی لکھی ہے جس میں۔۔۔‘‘

    ’’یار دِینے۔ کسی سے اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھو، ہمیں تو ایسے خواب کبھی نہیں آئے۔‘‘

    ’’پوچھی تھی یار۔۔۔ امام صاحب سے۔‘‘

    ’’پھر۔۔۔؟‘‘

    ’’بس کچھ نہ پوچھو۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت ثواب کا کام ہے۔ سیدھا جنت میں۔‘‘

    ’’تو مولوی یہ کام خود کیوں نہیں کردیتا۔‘‘

    ’’یار! تم ہمیشہ اوکھی بات ہی کرنا۔ مولوی کو تو بخش دو۔‘‘

    ’’گولی مارو۔ میرا اس جن سے، اس خواب سے پیچھا چھڑاؤ۔‘‘

    ’’اگر تم نے اس جن سے پیچھا نہ چھڑایا نا بچو جی تو انگریز تمہیں لٹکا دے گا۔‘‘

    ’’یار مذاق نہ اڑاؤ۔ میں بہت پریشان ہوں۔ اچھا بھلا کون موت سہیڑتا ہے۔‘‘

    ’’چھوڑ یاد دینے۔۔۔ دم لگاؤ دم کہ مٹے غم۔ آخر تم سارادن سوچتے کیا رہتے ہو؟‘‘

    جنگل کی بوٹی گھوٹ کے پتی، انگریز دی ماں دی تیتی۔

    اور سب اپنے اپنے غم مٹاتے لمبی چپ میں اتر گئے۔

    واقعی۔ میں سارا دن کیا سوچتا رہتا ہوں؟ کیا کرتا رہتا ہوں؟ ہوں میں سوچتا رہتا ہوں کہ وقت کیسے گزارا جائے اور کرتا یہ رہتا ہوں کہ وقت گزارتا رہتا ہوں۔ بڑی سیدھی بات ہے۔۔۔ اور پل بھر میں گزرا ہوا، سیاہ لبادے میں دانت نکالے گورا دن۔ جن کا سایہ، رات ربڑ کی طرح تنتی ہوئی لمبی۔ پیروں میں بندھے گھنگھروں سے بھی اس کافر کی ہنسی کی آواز اور بائی کے سازندوں کے ہاتھوں میں اڑتے سازوں سے آندھیوں کا شور۔ جنگل کے درختوں میں تیز آندھی، گردوغبار میں ابھرتی مٹتی خوفناک شکلیں، یہ میں کیڑے مکوڑوں کی طرح اتنا چھوٹا کیوں ہو گیا ہوں۔ مجھ سے بھاگا کیوں نہیں جا رہا۔

    اس نے بھاگنا چاہا لیکن فوراً ہی گھاس کی پتی سے چپک گیا، آندھی چڑیلوں کے دانتوں کی طرح تیز تھی۔ وہ گھاس سے پھر زمین پر اتر آیا اور رینگنے لگا۔ رینگتے رینگتے اس کا جسم دکھنے لگا تھا۔ جب اس کے گرد چڑیلوں کاناچ ذرا تھما تو اس نے دیکھا کہ وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ کوئی زنجیر کے دوسرے سرے سے اسے کھینچ رہا ہے۔ کھینچنے والا اسے نظر نہیں آتا۔ چڑیلیں ناچتی ہوئی اس کے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ جب وہ انہیں غور سے دیکھتا ہے تو ان چڑیلوں کے چہرے کا ماس سکڑتا ہوا برادہ بن جاتا ہے، ہوا میں اڑ جاتا ہے اور ان کے دل کی جگہ پر بغیر سوئیوں کے گھڑیاں ٹک ٹک کرنے لگتی ہیں۔

    ہر قدم پر ہنسی کی آواز بڑھتی جاتی ہے اور وہ چلتا جا رہا ہے۔ جنگل کی بھول بھلیاں میں چلتے چلتے سب کچھ یک دم جامد ہو جاتا ہے۔ وہ نظریں اٹھاکر سامنے دیکھتا ہے تو زنجیر کا دوسرا سرا اس کافر کے ہاتھ میں ہے۔ قریب بہت بڑا الاؤ جل رہا ہے جس کے گرد لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ان میں سے ایک کے آگے کتابوں کا انبار لگا ہے۔ وہ وقفے وقفے کے بعد ایک ایک کرکے کتاب اٹھاتا ہے اور الاؤ میں پھینک دیتا ہے۔ وہ ملحد کافر مسکراتا ہوا اس کی زنجیریں کھول دیتا ہے اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے۔ وہ لوگوں کو غور سے دیکھتا ہے تو ان میں اس کا دوست بھی بیٹھا نظر آتا ہے۔ جیرا۔ وہ جیرے کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور وہ اسے اشارہ کرتا ہے، یہی وہ کتاب ہے۔ دینے کی کنپٹیاں پھڑکنے لگتی ہیں اور وہ بہت غصے میں کافر کی طرف دیکھتا ہے۔ دینے کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔

    آگ کے بالکل پاس ایک لاش ہے جس کے سینے سے وہ چھری کی مدد سے دل نکال رہا ہے۔ دینا نظروں ہی میں جیرے سے پوچھتا ہے، یہ میں ہوں؟ جیرا اثبات میں سر ہلا دیتا ہے۔ وہ دل نکال کر اس کی بوٹی بوٹی کرکے کھا جاتا ہے۔ پھر شہ رگ کو منہ لگاکر خون پیتا ہے، پھر لاش کا سر کاٹ کر اسے ہاتھ میں بالوں سے پکڑے آگ کے گرد چکر لگانے لگتا ہے۔ ایک، دو۔۔۔ ساتویں چکر پر سرآگ میں پھینکا جائےگا۔ دل کی جگہ سوئیوں بغیر گھڑیوں والی چڑیلیں بھی کہیں سے آ جاتی ہیں اور آگ کے گرد ناچنے لگتی ہیں۔ چو تھا چکر، پانچواں۔۔۔،

    تم اٹھتے کیوں نہیں۔ یہ تمہارا سر ہے۔ اسے چھین کر، کافر کو آگ میں پھینک دو، اٹھو۔ اٹھو۔ زندگی میں ایک تو کام کرو۔ اپنے آپ کو تو بچاؤ تمہارے دل کی دھڑکن تمہاری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ اٹھو۔ اس کافر کے منہ سے خون بہہ رہا ہے اور یہ اس کا چھٹا چکر ہے۔ اٹھو۔۔۔

    اس نے پھر جیرے کی طرف دیکھا اور اس کااشارہ پاتے ہی اٹھ کر لپکا اور کافر سے گتھم گتھا ہو گیا۔ اس چھینا جھپٹی میں اس نے اپنا سر کافر کے ہاتھ سے چھٹ کر آگ میں گرتے دیکھا۔ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔

    ’’رات پھر خواب آیا ہے۔‘‘

    ’’دیکھ یار دینے خواب جن کی طرح تمہیں چمٹ گئے ہیں۔ اگر تجھ میں ہمت نہیں نا تو۔۔۔ یار زندگی میں ایک کام تو کرو، اپنے آپ کو تو بچاؤ۔‘‘

    ’’میری مانو بھنگ چھوڑدو۔ اویار کچھ تو کرو۔‘‘

    وہ ان کو جوا کھیلتا چھوڑ کر بازار میں آ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے اور کدھر جائے۔ وہ تھڑے پر بیٹھ گیا۔ اس کی نظریں بازار کی نکڑ پر کچھ دیر کے لیے رکیں اور پھر بازار میں بھٹکنے لگیں۔ میں کیا ہوں؟ وہ بازار میں یک دم تنہا ہو گیا۔ میں نے آج تک کیا کیا ہے؟ کچھ تو کر۔ سارے بازار میں کٹی ہوئی زبانیں چھپکلی کی کٹی دم کی طرح پھدک رہی تھیں،

    زندگی میں ایک کام تو کرو۔ اپنے آپ کو بچاؤ۔ میں کیا ہوں؟ میں اس کافر پر ثابت کردوں گا کہ میں ہوں اور میرا دل کاٹنے اور شہ رگ سے خون پینے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ پھر میں ماں کو بتاؤں گا کہ میں بیکار نہیں ہوں۔ مجھے زندگی کتنی پیاری ہے، بیکار لوگوں کو زندگی پیاری نہیں ہوتی اور دیکھو ماں، میں اپنی زندگی بچاکے لایا ہوں۔ لیکن کس طرح، کیونکر؟ میں کیسے اپنے زندہ رہنے کا جواز، تھڑے پر بیٹھے بیٹھے اس کا سر چکرانے لگا اور وہ سڑک پر اتر آیا۔

    بازار میں لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ وہ دبے پاؤں چلتا ہوں بازار کی نکڑ تک گیا اور کن اکھیوں سے دکان کی طرف دیکھا۔ وہ کافر بیٹھا ردی تول رہا تھا۔ اس کو جھرجھری آ گئی۔ وہ بازار کا چکر لگاکر پھر اس دکان کے سامنے آ گیا۔ وہ ہنس ہنس کر گاہکوں سے باتیں کرتا تھا۔ دینے نے اپنے کانپتے ہاتھوں کو ایک دوسرے میں جکڑ لیا اور قصائی کی دکان پر آ گیا۔ قصائی قیمہ بنا رہا تھا۔ قیمہ بناتے ہوئے اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا، اسے یہ بھی احساس نہیں تھا کہ اس کے ہاتھ میں چاپڑ ہے جو بار بار لکڑی کی مڈی پر گرتا ہے اور اس کا دوسرا ہاتھ قیمہ بنتے گوشت کو چاپڑ کے نیچے کھسکاتا رہتا ہے۔ دینے نے اس سارے عمل کو بہت غور سے دیکھا پھر باہر کے کیل پر لٹکے ادھ کٹے بکرے پر ہاتھ پھیرتے، قصائی سے، مرغی ذبح کرنے کے بہانے چھوٹی چھری ادھار مانگ لی۔

    ہاں میں نے چھری مانگی تھی، لبھے قصائی سے، مرغی حلال کرنے کے لیے، بہانے سے؟

    اس نے خون میں گری، خون سے لت پت چھری اٹھا لی۔ اس کے گرد دھواں اور بھی گہرا ہو گیا۔

    پھر میں اسے ڈب میں اڑس کر بےمقصد پھرتا رہا تھا۔ پاگلوں کی طرح؟ میں دریا پر بھی گیا تھا اور چھری سے ریت کا قیمہ بھی بناتا رہا تھا۔ وہ لاش کو دیکھتے ہوئے دھیرے دھیرے اٹھا۔

    پھر میں نے داروپی تھی اور پھر مجھے پتا نہیں کیا ہوا تھا۔ جن مجھ سے علیحدہ ہو گیا تھا اور سائے کے ہاتھ میں چھری تھی اور یہ اور یہ سب کیا ہے میرے تہ بند اور کرتے پر یہ خون؟ کب لگا یہ خون؟ جواَب سوکھ رہا ہے۔ میں یہاں کیوں ہوں؟ یہ چھری تو میں لبھے سے لایا تھا۔ تو بہ کتنا خوفناک منظر ہے۔ خون، لاش، کٹی ہوئی گردن اور چھری میرے ہاتھ میں۔۔۔ اور میں بالکل سلامت ہوں۔ آج کے بعد یہ میرے خواب میں نہیں آئےگا۔ میں ابھی جاکر ماں کو بتاتا ہوں۔ سائے نے قتل کر دیا ہے، سائے کو۔

    ’’یہ قتل ہو گیا ہے۔ کافر۔‘‘

    ’’کس نے کیا؟‘‘

    ’’اس نے، اس نے۔‘‘

    دینے نے تاریکی کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’اور چھری، خون آلود۔ تمہارے ہاتھ میں ہے!‘‘

    دوسرا آدمی بھاگ کھڑا ہوا۔

    دینا بھی بھاگنے لگا۔ جلدی جلدی سیڑھیاں اترنے لگا۔

    یہ، یہ میں نہیں ہوں۔ میں، میں سیڑھیوں کے اس قیدخانے سے لٹکنا چاہتا ہوں۔ یہاں دھند میں میرا دم گھٹ رہا ہے، سرخ دھوئیں میں تیز دانت ہیں۔ یہ میں نہیں ہوں۔ بازار میں لوگ سرجھکائے کیوں پھر رہے ہیں؟ کس کے جنازے کے ساتھ ہیں؟

    اس نے چیخ کر کہا،

    ’’قتل ہو گیا ہے۔‘‘

    تھڑے کے نیچے کتا بھونکا۔ اس نے کتے سے کہا،

    ’’وہ، وہ دکان میں۔‘‘

    کتے نے جیسے سنا ہی نہیں تھا، وہ دوسرے تھڑے کے نیچے چلا گیا۔

    ’’تم سنتے کیوں نہیں۔‘‘ اس نے لوگوں سے کہا، ’’سائے نے سائے کو مار دیا ہے۔‘‘

    کسی نے سر اٹھاکر نہ دیکھا۔ سب چلتے جا رہے تھے، سنو، وہ قتل ہو گیا ہے، لوگ قدم قدم، آہستہ آہستہ۔

    دیکھو۔ دیکھو۔ میرے کپڑوں پر خون ہے۔ لیکن یہ کپڑے میرے جسم پر نہیں ہیں۔ میری طرف دیکھو تو سہی۔ خدا کے لیے۔ اچھا۔ اچھا سنو!

    یہ قتل میں نے کیا ہے۔ میری طرف دیکھ تو لو۔

    لوگ رک گئے۔ انہوں نے سر اٹھاکر دیکھا۔

    ہاں، ہاں۔ یہ میں ہوں بیکار، آوارہ، بدمعاش۔

    اس نے اپنے سینے پر ہاتھ مارا اور چھری لوگوں کے سامنے کر دی۔ سیاہ آستین کے منہ میں بال تھے اور بالوں کے ساتھ اس کا کٹا ہوا سر لٹک رہا تھا۔

    نہیں۔ نہیں۔

    وہ الٹے پاؤں چلتا چلتا یک دم مڑ کر بھاگنے لگا۔

    یہ بھی خواب ہے، خواب ہے؟

    بازار نعروں سے گونج اٹھا۔ زندہ باد۔ لوگ گیت گانے لگے۔ اس نے کانوں میں انگلیاں دے لیں،

    ’’ماں۔ ماں۔ دروازہ کھولو۔‘‘

    ماں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

    ’’میں تو آج زندہ ہوا ہوں، ماں۔‘‘

    ماں اس کے کرتے پر پڑے خون کے چھینٹے دیکھے جا رہی تھی۔

    ماں، سایہ قتل کرکے بھاگ گیا ہے۔

    ’’میں مرنا نہیں چاہتا تھا۔‘‘

    دینے نے ہول سے کہا اور ماں کے کندھے پر سر رکھ دیا۔

    داروغے نے اس کے سر پر تھپکی دی اور اپنے کاندھے سے اس کا سر اٹھایا۔

    کم بخت تمہیں یہ نہیں کہنا چاہیے تھا، میں مرنا نہیں چاہتا، خاکروب نے اپنے دل ہی دل میں اسے گالی دی۔

    ’’ہم پہنچ گئے ہیں۔‘‘ داروغے نے کہا۔

    ’’کہاں؟‘‘

    دینے نے داروغے کو دیکھا۔ پھر سر گھمایا۔ پیچھے دھند ہی دھند تھی۔ اس کے بالکل سامنے، دور اور دور دیوار تھی اور دیوار سے ذرا آگے،

    ’’محمد دین ولد۔۔۔‘‘

    پاس کھڑا انگریز مجسٹریٹ کاغذ سے پڑھ رہا تھا۔

    لوگوں نے تو مقدمہ جیتنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی تھی۔ سناہے، انگریز بہت انصاف پسند قوم ہے، لیکن۔۔۔ اور مجھے زیادہ سے زیادہ عمر قید ہوگی یا کالا پانی۔۔۔ لیکن انگریز کا قانون۔۔۔ اور پھر میں بھی تو چپ تھا۔ میں کیوں بولتا۔

    ’’ملزم بولتا کیوں نہیں؟‘‘ انگریز جج نے پوچھا تھا۔

    جو ملزم ہوگا، قاتل ہوگا بولےگا۔ میں نے قتل نہیں کیا۔ میں کیوں بولوں؟

    اس لیے عدالت اسے سزائے موت کا حکم۔۔۔

    لانگ لودی کنگ! سیاہ آستین کے منہ میں میرا سر ہے اور میں چپ ہوں۔ میرے بیٹے، میں تمہیں خود نہلا دہلاکر بھیجوں گی۔ کہاں ماں، کہاں؟ یہ غازی کون ہے؟ میں نے تو جن سے نجات حاصل کی ہے شہید کون ہو رہا ہے؟ یہ تو چھری نے کہا تھا کہ میں بھی ہوں اور اب دنیا گیت گا رہی ہے۔ کس کے گیت ہیں یہ؟ میرے؟ مجھے گیت نہیں چاہئیں۔ بکرا، بکرا لٹاؤ میری جگہ ماں۔ بکرا کہاں ہے،

    ’’مجھے چھوڑدو۔ مجھے چھوڑدو۔‘‘

    اس نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی۔

    شاباش، شاباش، تمہیں کسی سہارے کی ضرورت نہیں، تمہارے قدموں میں کوئی گھبراہٹ نہیں، شاباش، اسی طرح مسکراتے ہو، ے، خاکروب مسکرایا۔

    میں مرنا نہیں چاہتا، اتنی مشکل سے، اتنے عذاب کے بعد تو میں نے زندگی حاصل کی ہے، مجھے چھوڑدو۔ مجھے بچاؤ۔ میں نے قتل نہیں کیا۔ وہ تو سایہ تھا، سایہ۔

    ’’وصیت کروگے؟‘‘

    وصیت؟ اس نے کھوکھلی نظروں سے انہیں دیکھا۔

    ’’آخری خواہش؟‘‘

    ہاں آخری خواہش! آسمان سے میری آنکھیں اتار لاؤ۔

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے پھر نبض دیکھی۔

    میری آخری خواہش؟ مجھے میرا وجود دکھادو، میرے ہاتھ کی چھری تلے سے میری گردن نکالو، میری آنکھیں بھنور میں اتر رہی ہیں، مجھے بچاؤ۔

    شاباش غازی، خاکروب کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی، کلمہ پڑھو۔

    ’’میری آخری خواہش؟‘‘

    شاباش، شہید، مسکراؤ۔۔۔ خاکروب کا دل چیخا۔

    ’’میری آخری خواہش۔۔۔؟‘‘ اس نے چیخ کر کہا،

    ’’یہ پھندا فوراً میری گردن میں ڈال دو۔‘‘

    آسمان کے بھنور میں اترتی آنکھوں کے تاگے چشم زدن میں ٹوٹ گئے اور آسمان کی تہہ میں گھلتی آنکھوں نے دیکھا۔

    وارڈر نے اس کوٹھری کے آہنی دروازے کا تالا کھڑکا کر دیکھا کہ لگ گیا ہے یا نہیں،

    سورج پر تالے کی ضربیں چیخیں اور آہنی سورج کے درمیان گول آنکھ کے اندر ایک اور آنکھ آکر تاریک ہو گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے