Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آسیہ

MORE BYبلال حسن منٹو

    ہو سکتا ہے کبھی کبھی لوگوں کو محسوس ہوتا ہو کہ ہم محلے والے یونہی، بلا وجہ آپا صغراں کے خلاف تھے۔ شاید وہ سوچتے ہوں کہ آخر ایسی دین دار عورت کیخلاف کیوں کر کوئی ہو سکتا ہے جس نے گھر کی صفائی کرنے والی ملازمہ ایلس کو نوکر ی سے اس اصولی بناء پر نکال دیا تھا کہ وہ اس کے مسلمان گھرانے کے شیشے کے بنے پاک گلاسوں میں پانی پیتی پکڑی گئی تھی اور ایسی راست باز عورت جس نے سوزن کو اس لیے کھڑے کھڑے نوکری سے برخاست کیا کہ اس کا خاوند ایک مسلمان کو شراب فراہم کرتا تھا۔ مگر ایسے لوگ اگر ہیں، جو آپا صغراں کے لیے ہماری نفر ت پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، تو وہ حقائق سے نابلد ہیں۔ ہم ہمیشہ سے آپا صغراں کے خلاف نہیں رہے تھے۔ جب وہ ہمارے ساتھ والے گھر میں کرائےدار بن کے نئی نئی آئی تھیں تو امی نے ان کو پہلے دن دونوں وقت کا کھانا بھی بھیجا تھا کہ آج پہلے دن آپ کے باورچی خانہ وغیرہ کا نظام چالو نہ ہوا ہوگا سو لیجیے یہ کھانا ہماری طرف سے کھا جائیے۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ ایسا نہیں تھا کہ ہم ازل سے اور بلا وجہ ان سے نفرت کرتے تھے۔ جو جو دہشت ناک باتیں ان کے بارے میں ہمیں بعد میں پتہ چلیں، ان کا تو خیر ذکر ہی کیا، انھوں نے ہمارے ہمسائے میں آنے کے کچھ عرصہ بعد جو اپنی سگی بیٹی پری کے ساتھ کیا صرف وہ بات ہی ایسی تھی کہ انھیں برا بھلا کہا جائے، گالیاں دی جائیں اور ان کے ساتھ نفرت آمیز رویہ اختیار کیا جائے اور اس قصے میں پری کا کوئی قصور بھی نہیں تھا۔ جس نے وہ واقعہ سنا یہی کہا کہ ’’بیچاری بچی کا کیا قصور تھا؟‘‘ نوید بھائی کو بہت ہی غصہ آیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ آپا صغراں کو سبق سکھانا چاہیے مگر امی نے سختی سے منع کیا کہ خبردار، اس چڑیل کے منہ لگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ میرا خیال تھا کہ امی یوں نہ بھی کہتیں تو نوید بھائی کے پاس ایسا کوئی حربہ نہیں تھا جس کو بروئے کار لا کے وہ آپا صغراں کو کسی عبرتناک انجام سے ہمکنار کر سکتے۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ یوں ہی ڈینگ مار رہے ہیں۔

    جب سے آپا صغراں اس گھر میں رہائش پذیر ہوئی تھیں، تب سے ہم نے یہی دیکھا تھا کہ وہ اپنی جڑواں بیٹیوں فری اور پری کو بالکل بھی گھر سے باہر ادھر ادھر جانے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ ہمارے ساتھ تو خیر فری پری نے کیا ملنا ملانا تھا، محلے کی لڑکیوں تک سے بھی ان کو ملنے اور ان کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہم ہمیشہ سوچتے تھے کہ بیچاری سکول سے آ کے گھر میں بند ہو جاتی ہیں۔ کیا کرتی ہیں سار ا دن؟ ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتی ہیں یا اس کی بھی اجازت نہیں؟ اور ایسی ہی پابندیاں ان پر عائد ہیں تو آپا صغراں انھیں پڑھنے کے لیے سکول بھیجتی ہی کیوں ہیں؟ انھیں پڑھا ہی کیوں رہی ہیں؟

    فری پری کے گھر کے بہت نزدیک مس نبیہہ کا سکول تھا۔ اس کا کوئی نام ضرور ہوگا مگر مجھے بس اتنا یاد ہے کہ سب اسے مس نبیہہ کا سکول کہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مس نبیہہ ایک قد آور، بہت گوری سی عورت تھیں جو اپنے ہونٹوں پر ہمہ وقت سرخ لپ سٹک لگائے رکھتی تھیں اور مزدا گاڑی چلاتی تھیں۔ ایسی عورتیں، جیسا کہ سب جانتے ہیں، اس زمانے میں کم کم دیکھنے میں آتی تھیں اور ظاہر ہے کہ مس نبیہہ اپنے ان وصائف کی وجہ سے بہت نمایاں تھیں۔ طرح طرح کے سکول تو جگہ جگہ کھلے ہوئے تھے مگر مس نبیہہ جیسی نمایاں اور جدید عورتیں کم ہی ہوتی تھیں۔ اسی لیے لوگوں نے شاید یہ پسند کیا کہ ان کے سکول کو اس کے نام کی بجائے مس نبیہہ کے حوالے سے پکارا جائے۔ ظاہر ہے کہ آپا صغراں کی سی راست باز عورت فری پری کو مس نبیہہ کی سی جدید حرکات کرنے والی عورت کے سکول نہیں بھیج سکتی تھیں۔ فری اور پری مس نبیہہ کے سکول سے ذرا آگے گول سٹرک پر واقع ماڈل گرلز سکول میں پڑھنے جاتی تھیں اور آپا صغراں کی سخت ہدایت کے مطابق جب وہ پیدل چلتے مس نبیہہ کے سکول کے سامنے سے گزرتی تھیں تو اپنی رفتار تیز کر لیتی تھیں اور اپنے سر جھکا لیتی تھیں۔

    ماڈل ٹاؤن میں تب سڑک کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے کچے نالے چلتے تھے۔ یہ شاید اس لیے بنائے گئے تھے کہ گھروں کے باہر سڑک کے کنارے لگے ہوئے سبزے کو سیراب کریں۔ اب تو نہ یہ نالے ہیں نہ اس قدر سبزہ مگر اس زمانے میں یہ نالے پانی سے بھرے رہتے تھے اور سبزہ بھی بہت تھا۔ فری اور پری کی زندگیوں میں ان نالوں کا یہ دخل تھا کہ چھٹی ہوتے ہی وہ ان میں سے ایک نالے کے ساتھ ساتھ پیدل چلتی گھر آ جاتی تھیں۔ اس میں انحراف کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ انھیں چھٹی ہوتے ہی، فوراً برقعے اوڑھ کر، نالے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے گھر آنا ہوتا تھا جبکہ بہت سی لڑکیاں ایسی تھیں جو چھٹی کے بعد کچھ وقت سکول کے باہر منڈلاتی رہتی تھیں۔ کچھ اپنی سواریوں کا انتظار کرتی تھیں اور کچھ ان کی سہیلیاں ان سے باتیں کرنے کے لیے کھڑی رہتی تھیں۔ یہ لڑکیاں ٹھیلے والوں سے خرید کر طرح طرح کی چیزیں کھاتی پھرتی تھیں۔ غلیظ چنے۔ برف کے رنگ برنگے زہریلے گولے۔ گٹا اور لچھے۔ ہفتے کے روز یہ سب ذرا زیادہ ہوتا تھا کیونکہ سکول جلد بند ہو جاتا تھا، گیارہ بجے ہی اور اگلے روز اتوار کی ہفتہ وار چھٹی ہوتی تھی تو لڑکیاں سکول کے باہر ذرا زیادہ دیر منڈلا کے خوشی کا اظہار کرتی تھیں۔ فری اور پری البتہ اس روز بھی اپنے کالے برقعوں میں ملبوس نالے کے ساتھ ساتھ چلتی گھر آ جاتی تھیں۔

    شاید ہفتے کے دن ہی کی یہ بات ہے۔ فری اور پری سکول بند ہونے پر باہر نکلیں اور تیز تیز چلتی ہوئی اپنے گھر کی جانب روانہ ہوئیں۔ ادھر نزدیک ہی سڑک کے کنارے ایک لڑکی نے دوسری ایک لڑکی کے ہاتھ سے بھنا ہوا سٹہ اچکا اور بھاگنے لگی۔ یوں ہی کھیل کھیل میں اور ازراہ مذاق۔ اس کے پیچھے پیچھے وہ دوسری لڑکی بھاگنے لگی تاکہ اپنے سٹے کو بازیاب کروا سکے۔ بھاگتے بھاگتے وہ دونوں فری پری کے نزدیک جا پہنچیں اور سٹہ اچکنے والی لڑکی فری پر ی کے گرد گول گول گھوم کے اپنے کو دوسری لڑکی سے بچانے لگی۔اس گول گول گھومنے کے عمل میں، وہ لڑکی جس کا سٹہ اچکا گیا تھا، زیادہ پھرتیلی ثابت ہوئی اور ایسی تیزی سے گھومی کہ لحظہ بھر کو چور لڑکی کا بازو اس کی گرفت میں آ گیا۔ چور لڑکی کو کچھ اور نہ سوجھا تو اس نے پری کو پکڑ کے اپنی جانب کھینچنا چاہا جیسے اس کی آڑ لینا چاہتی ہو۔ بد قسمت پری کا بازو تو اس کے ہاتھ میں نہ آیا مگر اس کا برقعہ ضرور آ گیا۔ چرررررررر کی آواز سے برقعہ پھٹتا چلا گیا، پری بیچاری گھبرائی، برقعہ پھٹنے اور کھینچے جانے سے ڈگمگائی اور سٹہ چور لڑکی سے جا ٹکرائی۔ دونوں لڑکیاں اپنا وزن قائم نہ رکھ پائیں، تھوڑا اور ڈگمگائیں اور نالے میں جا گریں۔

    وہ کوئی خطر ناک نالہ نہیں تھا اور بس دو تین فٹ ہی گہرا تھا اس لیے یوں اس کے اندر گر جانے میں ڈوبنے کا یا زخمی ہو جانے کا خدشہ نہیں تھا۔ سو بس اتنا ہی ہوا کہ دونوں لڑکیوں کے کپڑے بالکل بھیگ گئے اور وہ کیچڑ میں لت پت ہو گئیں۔ پری کے لیے اس میں زیادہ بڑا سانحہ یہ تھا کہ اس کے برقعے کا ایک بڑا حصہ پھٹ کر لٹک گیا تھا اور اس کی سکول یونیفارم کی گیلی اور کیچڑ زدہ قمیض نظر آنے لگی تھی۔ یہ منظر، یعنی برقعے کے اس قدر پھٹ جانے کا اور گیلی قمیض کے عیاں ہو جانے کا منظر دیکھتے ہی نالے کے کنارے کھڑی فری نے نیم ہذیانی انداز میں چلانا شروع کر دیا۔

    ’’ہائے پری، ہائے پری۔ برقعہ۔ برقعہ۔ ہائے اللہ، ہائے اللہ۔ قمیض۔‘‘

    اس وقت حساب کی استانی مس طیبہ، سکول کے پھاٹک سے نکل کر اسی طرف آ رہی تھیں۔ یہ حادثہ رونما ہوتا دیکھ کر وہ تیز تیز چلتی جائے وقوعہ پر آئیں۔ چور لڑکی تو تب تک نالے سے خود ہی نکل آئی تھی اور کھڑی دانت نکال رہی تھی مگر پری نالے کے اندر دم بخود بیٹھی تھی۔ مس طیبہ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تا کہ وہ بھی ان کا ہاتھ تھام کر باہر نکلے مگر اسنے جنبش نہ کی۔ مس طیبہ نے اس کے برقعے کا ایک حصہ پکڑ کر کھینچا جس سے وہ کچھ اور پھٹ گیا۔تب جھنجلا کر انھوں نے پری کو بالوں سے پکڑا اور باہر کھینچنے لگیں۔

    بال کھینچے جانے پر پری کو کچھ ہوش تو آیا مگر بالوں کی تکلیف سے زیادہ اس کے حواس پر برقعے کا پھٹ جانا طاری تھا۔

    ’’میرا برقعہ۔ میرا برقعہ۔‘‘ وہ روتے روتے بولی۔

    مس طیبہ نے دونوں لڑکیوں کے سروں پہ ایک ایک تھپڑ لگایا اور دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں پکڑ کے دونوں کے بال کھینچے۔ فری علیحدہ کھڑی ابھی تک چیخ رہی تھی۔ مس طیبہ نے اسے بازو سے پکڑ کے جھنجھوڑا اور غصے سے کہا:

    ’’ تم کیوں چیخ رہی ہو؟ تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘

    ’’مس برقعہ۔ ہائے مس، پری کا برقعہ۔‘‘ فری نے قریب قریب روتے ہوئے کہا۔

    ’’پھٹ گیا ہے برقعہ‘‘ مس طیبہ نے کہا۔ ’’بےکار ہو گیا ہے۔‘‘ انھوں نے کھینچ کھانچ کے برقعہ پری پر سے اتار کے سڑک پر پھینک دیا۔

    فری زور زور سے چیخنے لگی۔

    ’’مس برقعہ۔۔۔ مس آپ نے پری کا برقعہ اتار دیا۔ امی غصے ہوں گی۔ ‘‘ یہ بات سنتے ہی پری نے بھی سسکی بھری اور رونا شروع کر دیا۔

    ’’تو کیا پھٹے ہوئے گندے کیچڑ میں بھرے برقعے میں گھر جانا تھا؟‘‘ مس طیبہ نے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں کہتیں امی۔ چلو گھر جاؤ اور اتنی تکلیف ہو رہی ہے برقعے کی تو یہ لو، گھر لے جاؤ۔’’ انھوں نے سڑک سے اٹھا کر پھٹا ہوا برقعہ اس کے ہاتھ میں تھمایا اور چلتی بنیں۔

    مس طیبہ آپا صغراں کو نہیں جانتی تھیں۔ ایسے معاملات میں آپا صغراں سوالات بعد میں کرتی تھیں اور ہاتھ پہلے اٹھاتی تھیں۔ جب یہ دونوں لڑکیاں اس حادثے کی وجہ سے ذرا چند منٹ دیر سے گھر پہنچیں تو آپا صغراں گیٹ پر کھڑی تھیں۔ نہ انھوں نے یہ پوچھا کہ دیر سے کیوں آئیں نہ یہ پوچھا کہ کیا واقعہ ہوا کہ پری نے برقعہ اتار دیا۔ انھوں نے تو بس ایک تھپڑ پری کے منہ پر کھینچ کے مارا۔ اس وقت سڑک پر بچے سکولوں سے آ جا رہے تھے۔ کوئی اکیلے، کوئی ماں باپ یا ملازمین کے ساتھ۔ کوئی پیدل اور کوئی سائیکلوں پر۔ پری کو تھپڑ پڑا تو آس پاس کے بچے رک گئے اور انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔

    اسی لمحے کچھ ہوا۔ پری میں کوئی باغی رگ پھڑکی یا بس وہ بدحواس ہو گئی۔ تھپڑ کھاتے ہی وہ اندھا دھند سڑک پر بھاگنے لگی۔ بستہ پھینکا، برقعہ پھینکا اور اندھا دھند بھاگنے لگی۔

    آپا صغراں کے تو سر میں جیسے آگ لگ گئی۔ ’’ادھر آ کتی۔ میں تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گی۔’’ آپا صغراں نے کہا اور پری کے پیچھے بھاگیں۔ سڑک پر سب لوگ تماشا دیکھ رہے تھے۔ آگے آگے پری اور پیچھے پیچھے آپا صغراں۔

    ’’پکڑو۔۔۔ اس کو پکڑو۔‘‘ آپا صغراں چیختی جائیں۔ ’’یہ میری بیٹی ہے الو کی پٹھی۔ گھر سے بھاگ رہی ہے۔ پکڑو۔ پکڑو۔‘‘ وہ دوڑ میں پری کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ وہ موٹی تھیں اور عمر کی زیادہ۔

    پری بھاگتے بھاگتے کافی آگے نکل چکی تھی۔ بیوقوف لڑکی کو یہ سمجھ نہ آئی کہ ہر گزرتا لمحہ جس میں وہ دور بھاگ رہی تھی، اس کی ماں کو غصے سے اور بھی دیوانہ کیے دے رہا تھا۔ جس سمت میں پری بھاگ رہی تھی، اسی سمت سے آپا صغراں نے دیکھا کہ ان کا مالی آہستہ آہستہ بائیسکل چلاتا چلا آ رہا تھا۔ پری اس کے پاس سے فراٹا بھرتے گزری تو وہ بھی رک کے تماشا دیکھنے لگا، یوں، کہ اس کا ایک پاؤں سائیکل کے پیڈل پہ رہا اور ایک زمین پر۔ جیسے لوگ اکثر سائیکل پہ بیٹھے بیٹھے رک جاتے ہیں۔ پری فراٹا بھرتی مالی کے ساتھ سے گزری اور کچھ دیر میں چیختی چلاتی اس کی ظالم ماں۔

    ’’مالی تجھے نظر نہیں آتا؟ تماشا کیا دیکھ رہا ہے؟ پکڑ کے لا پری کو۔‘‘

    ’’کیہ ہویا اے بیگم صاب؟ بی بی برقعہ لاہ کے گھروں نس رہی اے؟‘‘ (1)

    ’’بکواس نہ کر مالی۔ تیرا مونہہ توڑ دیاں گی۔ جا کے پھڑ کے لیا اوہنوں، سیکل تے جا۔‘‘ (2)

    پری کتنا بھی بھاگتی۔۔۔ کہاں بھاگتی؟ مالی نے تیز تیز سائیکل چلائی اور پری کے بالکل نزدیک پہنچ گیا۔ وہ شہدا پچاس سال کا آدمی سڑک پر کھڑے تماشا دیکھتے لوگوں کو اپنی رفتار دکھا رہا تھا۔ پری سڑک سے پرے، نالے کے ساتھ ساتھ بھاگتی چلی جا رہی تھی۔ مالی اپنی طرف سے بڑی مہارت کے ساتھ چلتی سائیکل سے اتر کر اس کی جانب بھاگا حالانکہ یہ کوئی ایسی مہارت کی بات نہ تھی کیونکہ مالی کے پاس لیڈیز سائیکل تھی، یعنی جس میں آگے گدی کے نیچے سے لے کر ہینڈل تک ڈنڈا نہیں لگا ہوتا۔ میں خود اور عاقب اور طلعت بھی، ہم لوگ توبڑی تیزی سے جینٹس سائیکل سے بھی اتر سکتے تھے۔

    مالی کی لیڈیز سائیکل تھوڑی دور چل کر نیچے گر گئی اور اس کا پچھلا پہیہ گھومنے لگا۔

    ’’پری، مالی آ رہا ہے۔۔۔ مالی آ رہا ہے۔‘‘ فری پری کو چیخ چیخ کر بتانے لگی مگر چند ہی سیکنڈ میں مالی نے پری کو جا لیا۔

    ’’ایدھر لیا۔ ایدھر لے کے آ ایہنوں۔‘‘ (3)

    آپا صغراں چلانے لگیں اور ساتھ ساتھ پری کی جانب بڑھنے بھی لگیں۔ سڑک پہ چلتے لوگ اب بالکل خاموشی سے کھڑے تھے کہ دیکھیں کیا دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان میں بہت سے ماڈل ٹاؤن والے ہی تھے، سکولوں کے بچے، ہمسائے، نوکر ووکر، جن میں سے کئی نے آپا صغراں اور ان کی دو برقعہ پوش بیٹیوں کے بارے میں سن بھی رکھا تھا۔

    مالی پری کو بازو سے پکڑے ہوئے تھا اور ہلکا سا کھینچتا تھا کہ اس کے ساتھ چلے، مگر وہ ہلتی نہ تھی۔ مالی زور سے نہیں کھینچ رہا تھا کیونکہ شاید اسے خدشہ تھا کہ اس سے زیادہ زور لگانا غیرمناسب سمجھا جائےگا۔ اتنے میں آپا صغراں خود ہی پری کے نزدیک پہنچ گئیں اور ہاتھ بڑھا کے اس کے بالوں کو اپنی مٹھی میں لے لیا۔

    ’’چل گھر۔ ابھی تجھے بتاتی ہوں۔’’ انھوں نے بالوں سے ہی پری کو گھسیٹنا شروع کیا۔ پری نے اپنے پاؤں زمین پر جما دیئے مگر آپا صغراں بڑی طاقتور تھیں۔ پری کو قدم اٹھاتے ہی بنی۔ لیکن پھر دو تین قدموں کے بعد وہ زمین پر بیٹھ گئی۔

    ’’مالی، بانہہ پھڑ کے کھچ ایہنوں۔‘‘ (4) اور پھر پری سے کہا، ’’تو چل تو سہی گھر۔‘‘

    فری نے دیکھا کہ پری پکڑی گئی تو وہ گھر کے اندر بھاگ گئی اور لان میں کھڑی ہوکر انتظار کرنے لگی۔ وہ خوف اور اندیشے سے کانپ رہی تھی کیونکہ ایسا ہولناک واقعہ، آپا صغراں کے احکامات کا یوں رد ہونا اور پری کی بے پردگی کے ایسے بھیانک مناظر پہلے کبھی اس کے دیکھنے میں نہ آئے تھے۔

    ’’دفع ہو ادھر سے‘‘ آپا صغراں نے گیٹ پر پہنچ کے ارد گرد کھڑے لوگوں سے کہا اور گھر کے اندر گھس کے گیٹ کو کنڈی لگا لی۔ پھر انھوں نے مالی سے کہا کہ کہیں سے ایک سوٹی لائے۔ زیادہ تر لوگ تو ان کی ڈانٹ سن کے جانے لگے تھے مگر کچھ بچے جن میں میں بھی تھا، گھر کی دیوار پر چڑھ کے اندر جھانکنے لگے۔ سڑک کے تقریباً تمام گھروں میں پری کی چیخوں کی آواز آئی۔ وہ سوٹی جو ابھی سورج مکھی کے پودے کے ساتھ بندھی اس کو سیدھا کھڑا کیے ہوئی تھی، اب پری پر زور زور سے برس رہی تھی۔ ہم دیکھتے رہے، خاموش اور کچھ خوفزدہ۔

    پری کو چاہیے تھا کہ چپ چاپ سوٹیاں کھا لیتی کیونکہ اس تمام بھاگم دوڑ کی وجہ سے آپا صغراں کو عنقریب اسے مارتے مارتے تھک جانا تھا۔ مگر پتہ نہیں کیوں، شاید اس لیے کہ بہت دردہو رہا ہوگا، وہ اچانک اٹھی اور پھر سے دوڑ لگا دی۔ آپا صغراں کے غصے کی انتہا نہ رہی اور وہ نیم ہذیانی کیفیت میں اس کے پیچھے بھاگیں۔ پری نے گیٹ کی کنڈی ابھی کھولی ہی تھی اور گیٹ کو ذرا سے دھکا دیا ہی تھا کہ وہ چھڑی جو ابھی اس پر برس رہی تھی، پیچھے سے اڑتی ہوئی آئی اور آ کے اس کے سر پر لگی۔ ہم نے دیکھا کہ چھڑی اس کے سر پہ لگ کے فوراً ہی نیچے نہیں گری بلکہ لمحہ بھر کو سر میں اٹکی رہی۔ پری کے حلق سے ایک چیخ نکلی۔ چھڑی کا نوکیلا حصہ، جو پہلے زمین میں گڑا رہا تھا، جب چھڑی سورج مکھی کے پودے کے ساتھ جڑی اس کو سہارا دے رہی تھی، وہ حصہ، پری کے سر میں کھب گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ چھڑی فوراً ہی نیچے نہیں گری تھی بلکہ ذرا لمحہ بھر اٹک کے گری تھی۔ ذرا سی دیر میں پری کی سکول یونیفارم والی قمیض پر خون کے قطرے گرنے شروع ہو گئے۔

    اس منظر پر تو آپا صغراں بھی ذرا ٹھٹھک گئیں۔ مگر بالکل تھوڑی دیر کے لیے۔ کوئی دو لمحے انھوں نے غور سے پری کو دیکھا جیسے نقصان کا اندازہ کرتی ہوں اور پھر تیزی سے اس کی جانب بڑھیں۔

    ’’خون۔ خون۔‘‘ فری چیخی۔ ’’پری کا خون نکل رہا ہے۔‘‘

    ’’بکواس بند کر‘‘۔ آپا صغراں نے مڑ کے فری سے کہا اور پھر پری کی طرف متوجہ ہوئیں۔

    ’’ڈرامے کرتی ہے؟ میں ابھی ٹھیک کرتی ہوں تجھے۔‘‘

    اس میں بھلا ڈراما کیا تھا؟ ہم سب کو نظر آ رہا تھا کہ پری کے سر سے خون بہہ رہا ہے۔ دو چار لڑکے جو دیوار پر چڑھ کے تماشا دیکھ رہے تھے اس قدر سہم گئے کہ چپ چاپ نیچے اتر کے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ آپا صغراں پری کے قریب پہنچ کر دوبارہ اس پر حملہ آور ہونے ہی والی تھیں کہ مالی بھی بول اٹھا۔

    ’’بی بی جی۔۔۔ بس کرو۔ ‘‘

    آپا صغراں نے مالی کی بات سنی ان سنی کی اور پری کے بال ہاتھوں میں پکڑ لئے۔ وہ اسے گھسیٹنے ہی لگی تھیں کہ پری وہیں کھڑے کھڑے ڈگمگائی اور پھر بےہوش ہو کے زمین پہ گر پڑی۔

    ۔۔۔۔۔۔

    ابا اور نوید بھائی یہ واقعہ سن کے بہت ہی غصے میں آئے تھے۔ چونکہ ابا انسانی حقوق اور اس طرح کے دیگر معاملات کو بہت سراہتے تھے، اس لیے انھوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ آپا صغراں کی رپورٹ پولیس کو کریں گے اور نوید بھائی نے بھی کہا تھا کہ ہاں بالکل ایسا ہی کرنا چاہیے۔

    ’’This is criminal ’’ ابا نے انگلش میں کہا تھا اور اس عالمگیر حیثیت کی قابل قدر زبان کو اس موقع پر ابا کے یوں استعمال میں لانے سے میں بہت مرعوب ہوا اور اس واقعہ کی نزاکت مجھ پر صحیح طور پہ واضح ہوئی۔ گو ابھی مجھے خود انگلش بولنے میں جھجک محسوس ہوتی تھی مگر میں اس زبان کے اہم ہونے پر کوئی شک نہیں کرتا تھا۔ ابا کے علاوہ نوید بھائی بھی بہت تیزی سے یہ زبان بولتے تھے۔ وہ مجھ سے بھی اکثر اسی اہم زبان میں بات کرتے تھے اور یہ بھی بالکل سچ ہے کہ کبھی کبھی میں انھیں برجستہ انگلش ہی میں جواب بھی دے دیتا تھا۔

    She should go to Jail نوید بھائی نے بھی وہی زبان بروئےکار لاتے ہوئے کہا تھا۔

    Yes. Kot Lakhpat Jail, Lahore. میں نے برجستہ ان سے اتفاق کیا تھا۔

    مگر پھر ابا نے خود ہی کہہ دیا کہ ہمیں اس بات سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہیے اور یہ بھی کہ آپا صغراں چونکہ ایک بدتمیز عورت ہے اس لیے کسی کو اس کے منہ لگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کی بچیاں ہیں، جو چاہے کرے اور اس عورت کی نہ دوستی اچھی ہے نہ دشمنی۔ بس ہمیں اس سے بچ بچا کے رہنا چاہیے اور ہمسائے ہونے کے ناطے جتنا تعلق ضروری ہے، صرف اتنا ہی رکھنا چاہیے۔

    ’’کسی مہذب ملک میں ہوتی تو اس وقت جیل میں ہوتی۔‘‘ ابا نے کہا تھا۔ مگر امی نے کہا کہ ایسی فضول باتوں کا کوئی فایدہ نہیں کیونکہ ہم اس قسم کے ملک میں نہیں رہتے۔ اس پر ابا نے کہا کہ ایک تو یہ کہ یہ بات جو انھوں نے کی ہے، اہم ہے، فضول ہر گز نہیں۔ دوسرا یہ کہ کیا صرف وہی باتیں کرنی چاہیے جن کا کوئی فایدہ ہو؟ اگر ایسا ہے تو پھر ابھی کل ہی امی نے اپنے ایک گلاب کے پودے کو دیکھ کر یہ کیوں کہا تھا کہ واہ، کیسے خوبصورت اور سرخ گلاب ہیں؟ امی نے کچھ جواب نہ دیا، کیونکہ وہ ابا کی ایسی باتوں کو عام طور پر قابل اعتنا نہیں سمجھتی تھیں۔ اس بات سے، اس مہذب ممالک والی بات سے، کچھ دیر اور باتیں نکلتی رہی تھیں جو زیادہ تر کرۂ ارض کے دیگر بہت سے ممالک کی تعریف میں تھیں۔ مثلاً یہ کہ اگر مغرب کی سمت چلتا چلا جایا جائے تو کیسے کیسے اعلیٰ درجے کے ممالک سے گزر ہونا یقینی ہے جہاں صاف ستھری سڑکیں، سفید لوگ اور تیز رفتار ریل گاڑیاں موجود ہوں گی اور ان میں سے کچھ ریل گاڑیاں ایسی بھی ہوں گی جو زیر زمین چلتی ہیں۔ امی نے کہا کہ آپ لوگ جب کسی کی تعریف پر اترتے ہیں تو ایسے بولنے لگتے ہیں کہ اگلے کو فرشتہ بنا دیتے ہیں اور جب کسی کے خلاف ہو جائیں تو شیطان اور یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں درست ہوگا کہ ان ممالک میں یہ سب ہوتا ہے مگر وہاں کے لوگ نہاتے کم ہیں، طہارت نہیں کرتے، عورتیں ہمہ وقت نیم برہنہ رہتی ہیں، اکثر لوگ شام کو سر عام شراب نوشی کرکے نشے کی حالت تک جا پہنچتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ ایسا کرتے ہیں بلکہ ایسی جگہیں بنا رکھی ہیں جہاں جا کے شام کو یہ موذی محلول پیتے ہیں اور سب سے زیادہ ناقابل برداشت بات یہ ہے کہ ایسے پکوان تیار کرکے کھاتے ہیں جن میں سور کا گوشت شامل ہوتا ہے۔ جب ہم یہ باتیں کر رہے تھے تو اسماعیل امی ابا کو پیالیوں میں چائے بناکر دے رہا تھا۔

    ’’بیگم صاحب۔ انگلینڈ اور امریکہ کے شہروں میں بہت بڑی بڑی بلڈنگیں ہوتی ہیں۔ دس دس منزلہ۔‘‘

    ’’دس دس منزلہ۔‘‘ نوید بھائی نے اسماعیل کی نقل اتاری۔ ’’دیکھو کیسے حیران ہو کے کہہ رہا ہے۔ آنکھیں باہر نکال کے۔‘‘

    ’’بیوقوفوں والی باتیں مت کرو۔ دس دس منزلہ نہیں، وہاں اس سے بھی بڑی عمارتیں ہوتی ہیں۔ امریکہ میں تو ساٹھ، ستر، اسی منزلہ بلڈنگیں بھی عام ہوتیں ہیں۔ ’’نوید بھائی نے کہا۔

    ’’ساٹھ؟ ستر؟‘‘ اسماعیل کے ہاتھ میں چائے کی پیالی لرزی۔

    ’’اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ نہایت اعلیٰ درجے کے مہذب لوگ ہیں۔ وہاں ایسا تماشا ہو ہی نہیں سکتا جیسا آج صغراں نے کر کے دکھایا ہے‘‘۔

    اسماعیل کو مشرق و مغرب کے تقابل سے تعلق رکھنے والے یہ تہذیبی امور تو سمجھ میں نہ آئے، مگر اتنا اندزہ ہو گیا کہ کچھ خاص بات ہے جو وہاں بے شمار ریل گاڑیاں زیر زمین بھاگی پھرتی ہیں اور اتنی بلند عمارتیں تعمیر ہو جاتی ہیں جوہمارے ہاں نہیں ہو سکتیں اور یہ بھی کہ آپا صغراں اور فری کے واقعہ سے مشرق و مغرب کے فرق کو کم از کم کچھ نہ کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔

    ’’یہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ بچوں کو مارو ہی نہ۔ ہم بھی مارتے ہیں۔ مگر ایسے تو نہیں کہ وہ مرتے مرتے بچیں۔ ‘‘ امی نے افسوس سے کہا۔

    خیر ہم لوگ ایسی ہی کچھ باتیں واتیں کر کے چپ ہو گئے تھے اور آپا صغراں کی اس ذلیل اور مکروہ حرکت کے بارے میں ہم نے کچھ نہ کیا۔ مگر اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد تک نوید بھائی جب بھی ہیپی کو گھر سے لے کے باہر نکلتے اور کہیں آپا صغراں کو اپنے گیٹ پہ کھڑا دیکھتے تو ــ’’اوش اوش‘‘ کی آواز منہ سے نکال کر کوشش کرتے کہ ہیپی ان پر حملہ کر دے۔لیکن ہیپی ایک خاموش طبع، بےنیاز اور بردبار کتا تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا اور اس بات سے نوید بھائی جھنجھلا جاتے تھے۔

    چونکہ آپا صغراں ایسی ذلیل النفس تھیں جیسا میں نے بتایا ہے، سو جب اختر آنٹی نے وہ عجیب بات کی تو امی ششدر رہ گئیں اور انھیں بہت منع کیا کہ یہ آپ کیسی حرکت کرنے چلی ہیں؟ ایک تو وہ لڑکیاں، فری پری، بہت چھوٹی ہیں اور دوسرے آپ کیا ان کی ماں کو نہیں جانتیں؟ اختر آنٹی نے پیشانی پر تاسف سے ہاتھ مارا اور کہا کہ بس ندرت کیا بتاؤں۔ میرا بیٹا پاگل ہو گیا ہے۔ کہتا ہے میں انہی دونوں میں سے ایک سے شادی کروں گا۔ فری ہو یا پری، جوبھی ہو، مگر انہی دونوں میں سے ایک ہو۔ امی نے دریافت کیا کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ایسا کیوں کر ہوا کہ کپیٹن فراز کی سوئی فری پری پر اٹک گئی ہے جو اور کچھ نہیں تو دس بارہ برس تو اس سے عمر میں چھوٹی ہوں گی۔ اختر آنٹی نے کہا کہ فراز پر کوئی عجیب بھوت سوار ہو گیا ہے۔ جب سے اس کے بیاہ کا قصد ہوا ہے تب سے کہہ رہا ہے کہ میں کسی بڑی ہی شریف النفس بی بی سے شادی کروں گا جو پردہ کرتی ہو اور نہایت پاکیزہ دکھتی ہو۔ میں نے ڈانٹا بھی ہے کہ کیا مطلب ہے تمہارا؟ جو پردہ نہیں کرتیں، مثلاً میں خود، تمہاری ماں، وہ کیا شریف النفس نہیں ہو سکتیں؟ مگر خیر، مصیبت تو یوں آئی کہ جب وہ پچھلی بار چھٹی پر آیا تو اس نے فری پری کو برقعے میں ملبوس سڑک پر سکول سے گھر جاتے دیکھ لیا۔ تب سے کہہ رہا ہے کہ دیکھیں کیسی خوب سیرت لڑکیاں یہیں ہمارے محلے میں رہتی ہیں، صرف ایک گھر چھوڑ کے اور ہمارے سامنے کی سڑک پر چلتی چلتی اپنے گھر جاتی ہیں۔ بس اب دور جانے کی کوئی ضرورت نہیں، میں ان میں سے ہی ایک سے شادی کروں گا۔ اختر آنٹی نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے کپتان فراز کو بہت سمجھایا کہ ان بیچاری بچیوں کی ماں چڑیلوں میں سے ہے مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ پری کے سر میں سوٹی کھب جانے کا واقعہ سن کے تو بجائے اس کے کہ وہ اپنا ارادہ ترک کر دیتا کہ ایسی دیوانی عورت کو ساس بنائے وہ مزید متاثر ہوا کہ واہ، اتنی سخت طبیعت کی راسخ العقیدہ عورت ہے تو پھر یہ بات سوچنے سے تعلق رکھتی ہے کہ اس نے اپنی بیٹیوں کی کیسی اعلیٰ پائے کی تربیت کی ہوگی۔ کیسا اچھا اخلاق ہوگا ان کا اور کس قدر وہ نیک ہوں گی۔ بس ایسی ہی لڑکیاں ہیں جو صحیح معنی میں اپنے خاوندوں کی خدمت کر سکتی ہیں اور بطور بیوی اپنے فرائض درست طرح سے سر جھکا کے نباہ سکتی ہیں۔ یہ بھی کہا کہ اندازہ لگانا چاہیے، اگر کوئی لگا سکے، کہ ایسی نیک بیبیاں، جنھوں نے ایسے پرورش پائی ہے، خود اپنی اولاد کی تربیت کس اعلیٰ درجے کی کریں گی اور کن کن اعلیٰ خصائل کا نمونہ ان کی اولاد نہ ہوگی۔

    ابا نے خیال ظاہر کیا کہ یہ سب جنرل ضیاء کے ــ’’اسلام اسلام’’ کے جھوٹے نعرے کی وجہ ہے کہ آج کل لوگوں کے دماغ ایسی عجیب و غریب باتیں سوچنے لگے ہیں اور چونکہ فراز ایک فوجی ہے، سو اس پر تو جنرل ضیاء کا اثر اور بھی گہرا ہے۔ امی اس بات کے بارے میں بہت واضح نہ تھیں کہ کیا یہ درست ہے کہ ابا کسی کی ایک نیک بی بی کی تلاش کا مذاق اڑائیں اور یہ کہ کیا فراز کی ایسی جستجو قابل مذمت تھی؟

    ’’آپ تو یوں کہہ رہے ہیں جیسے اس بات میں کوئی خرابی ہے کہ فراز کسی شریف لڑکی کی تلاش کرے‘‘۔ امی نے کہا۔

    ’’کوئی خرابی نہیں۔ ہر گز‘‘ ابا نے کہا۔

    ’’تو پھر؟ اس کے فری پری کو پسند کرنے میں کیا خرابی ہے؟‘‘

    ’’ہا ہا ہا‘‘ ابا ہنسے۔ ’’اصل نیک سیرت، بلکہ معصوم تو آپ ہیں۔ ہا ہا ہا۔‘‘

    ’’او ہو میرا مذاق نہ اڑائیں۔ یہ بولیں کہ کیا خرابی ہو گئی اگر فراز نے کہا کہ اسے فری پری پسند ہیں؟ کیا خرابی ہے اس میں؟ اس کے علاوہ کہ وہ صغراں جیسی چڑیل کی بیٹیاں ہیں‘‘۔

    ’’خیر یہ تو کوئی خرابی نہیں۔‘‘ ابا نے کہا۔ ’’ان بیچاریوں کو اس کی سزا تو نہیں مل سکتی کہ ان کی ماں ایک ڈائن ہے۔ بلکہ ان کو تو اس بات پر تمغہ دینا چاہیے کہ ماں کے ظلم اور زیادتی کے آگے آواز بلند نہیں کرتیں اور سوٹیاں بھی کھا لیتی ہیں۔ سو، نہیں یہ تو کوئی خرابی نہیں۔‘‘

    ’’تو پھر آپ بتائیں نا۔ کیوں آپ فراز کی پسند میں سے کیڑے نکال رہے ہیں؟ کیوں؟‘‘ امی اب اس بات پر کچھ جھلانے لگی تھیں کہ ابا انھیں اپنا نقطہ نظر صاف صاف پیش نہیں کر رہے تھے۔ گو ابا اس سقراطی بحث سے لطف اندوز ہوتے نظر آ رہے تھے کہ امی کے سوالا ت کا سیدھا سیدھا جواب نہ دیں اور انھیں سوچ بچار میں مبتلا رکھیں کہ اگر ہے تو آخر کیا خرابی ہے فراز کے فری پری کو پسند کرنے میں، مگر امی کے صبر کا بھی ایک پیمانہ تھا جولبریز ہونے کے نزدیک تھا۔

    ’’پہلے یہ پتہ تو چل جائے کہ شرافت اور نیک سیرتی ہوتی کیا چیزیں ہیں؟ کہیں کوئی ان کی تعریف لکھی ہے کہ کوئی ایسا ہو تو شریف ہے اور ایسا نہ ہو یا کسی اور طرح کا ہو تو بدمعاش؟‘‘ ابا نے سقراطی گفتگو آگے بڑھانی چاہی۔

    ’’اچھا خیر‘‘، امی بیزاری سے کہنے لگیں، ’’جو بھی ہو کوئی، نیک ہو یا بد ہو، میں کچھ نہیں کر سکتی۔ مصیبت یہ ہے کہ اب اختر چاہتی ہے کہ میں اس کے ساتھ صغراں کے گھر فراز کا رشتہ لے کر جاؤں تو جانا تو پڑےگا۔‘‘

    ’’ہاں، پھنس گئی ہیں آپ۔‘‘ ابا نے کہا۔

    ’’بری پھنس گئی ہوں‘‘۔ امی بڑبڑائیں۔ ’’اس چڑیل کے گھر جانا پڑےگا۔ آخر اختر مجھے کیوں گھسیٹنا چاہتی ہے؟ میں کون سی صغراں کی سہیلی ہوں۔ بس مجبوری کی مصیبت ہے کہ وہ میرے گھر کے ساتھ رہتی ہے۔ مجھے تو وہ کبھی گیٹ پر کھڑی نظر آ جائے تو کوشش کرتی ہوں کہ بات نہ کرنی پڑے۔‘‘

    امی کی جھنجھلاہٹ تھی بھی درست۔ رشتہ لے کر جانا ہے تو آپ خود جائیں یا کسی رشتہ دار کو لے جائیں۔ کسی بزرگ کو کیونکہ بزرگوں کے بارے میں یہ بات بہت عرصے سے مشہور ہے کہ چونکہ وہ طویل العمر ہو چکے ہوتے ہیں اور دنیا کا تجربہ رکھتے ہیں اس لیے ان کو ایسے معاملات میں شامل رکھنا چاہیے تا کہ وہ اعلیٰ درجہ کے مشورے دے سکیں اور اگر ایسے معاملات میں کوئی بات دوسروں کی نظر سے اوجھل رہ جائے تو وہ بزرگ اس کی نشاندہی کر دیں۔ سو بزرگوں کو تو لے جائے جس نے لے جانا ہے مگر بھلا کوئی ایک ہمسائی کو کیوں کہےگا کہ آپ رشتہ لینے میرے ساتھ چلیں؟ صرف اس لیے کہ جہاں رشتہ لینے جا رہے ہیں وہ بھی ایک ہمسائی ہے؟ مگر شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اختر آنٹی آپا صغراں سے خوف کھاتی تھیں اور وہ کسی رشتہ دار، خاص طور پہ کسی برزگ کو شاید اس لیے ساتھ نہ رکھنا چاہتی ہوں کہ نہ جانے اس خوفناک عورت کے ہاں کیا گزرے اور کچھ ایسا نہ گزر جائے کہ رشتے دار یا بزرگ کے سامنے خفت اٹھانی پڑے۔

    ’’مگر لگتا ہے آپ کو جانا پڑےگا۔‘‘ ابا نے ہنس کر کہا، جیسا کہ اس بات میں ان کے لیے تفریح کا بہت سامان ہو۔ ’’آپ کو پھنسا لیا ہے اختر نے‘‘۔ انھوں نے مزید ہنس کر کہا۔ ’’اب دیکھتے ہیں صغراں آپ کے ساتھ کیا کرتی ہے‘‘۔

    جانا تو تھا ہی۔ اختر آنٹی کا امی پہ احسان بھی تو تھا۔یہی بے چاری اختر آنٹی ہی تو کپتان فراز کو لے کے امی کی مدد کو لائی تھیں جب نوید بھائی کو ان کی سیاسی کار گزاریوں کی وجہ سے جنرل ضیاء کی فوجی سرکار اٹھا لے گئی تھی۔ امی نے سوچا کہ اگر جان سے گزرنا ہے تو تاخیر بےسود ہے۔ سو انھوں نے اختر آنٹی کو فون کر کے کہا کہ چلو کل ہی ہو آتے ہیں۔ اختر آنٹی فوراً بولیں کہ ہاں ٹھیک ہے اور ساتھ ہی یہ کہہ کر اطمینان کا اظہار کیا کہ ’’ہاں کل ہی چلے جاتے ہیں کیونکہ میں نے ابھی دو دن پہلے ہی بال رنگوائے ہیں‘‘۔

    امی نے انھیں تجویز کیا کہ وہ صغراں کو بتا دیں کہ وہ دونوں کل آئیں گی مگر اختر آنٹی نے کہا کہ اوہو اس کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے بغیر بتائے بھی تو ہمسائیوں کے ہاں جا سکتے ہیں نا۔ سو بتانے کی کوئی ضرورت نہیں مگر یہ بھی کہا کہ ویسے اگر آپ بتانا چاہیں تو ضرور بتا دیں۔ بھلا امی کیوں بتاتیں؟ کام اختر آنٹی کا تھا اور کیا یہ بہت کافی نہ تھا کہ امی ایسے ناپسندیدہ معرکے کے لیے ان کے ساتھ جا رہی تھیں؟ مگر اس سے یہ تو ظاہر ہو گیا کہ اختر آنٹی آپا صغراں سے کچھ نہ کچھ خوف کھاتی تھیں اور ان سے متعلق ہر کام امی کے ذریعے کروانا چاہتی تھیں اور یہ اس کے باوجود تھا کہ فوج کی حکومت تھی اور اختر آنٹی ایک فوجی کپتان کی ماں تھیں۔

    جب امی اگلے روز آپا صغراں کے گھر سے لوٹیں تو ان کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا اور وہ بیحد سراسیمہ تھیں۔ہم گھبرا گئے۔ میرے دماغ میں پہلی بات یہ آئی کہ کہیں آپا صغراں نے انھیں سوٹی سے مارا تو نہیں؟ مگر ان کے سر سے خون نہیں بہہ رہا تھا اور وہ بے ہوش بھی نہ ہوئیں۔ میں نے سوچا کہ شاید صرف اختر آنٹی کو مارا ہو اور امی جان بچا کے بھاگ آئیں ہوں سو میں نے پوچھا کہ اختر آنٹی کہاں ہیں۔

    ’’وہ بیچاری اپنے گھر چلی گئی ہیں۔‘‘ امی نے کہا۔ یعنی اختر آنٹی کو بھی سوٹیاں نہیں پڑی تھیں۔ پھر امی نے کہا ’’ایہہ کی ہو جی ہی عورت اے؟ میں ایسی کمینی تے بدمعاش عورت کدی نہیں ویکھی۔‘‘ (5)

    لفظ بدمعاش سے میرے دماغ میں وہ لوگ آتے تھے جو خواہ مخواہ دوسروں کو مارتے کوٹتے ہوں اور زبردستی اپنی مرضی کی باتیں منواتے ہوں۔ سو اس کا مطلب تھا کہ کم از کم یہ ضرور ہوا تھا کہ آپا صغراں امی اور اختر آنٹی پہ حملہ آور ہوئی تھیں اور کسی تدبیر سے شاید یہ دونوں عورتیں ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے وہاں سے سر پٹ بھاگ آئی تھیں۔ یہ، یا ایسی کوئی اس کے قریب قریب بات ہوئی ہوگی۔ یہ سوچ کر کہ یہ دونوں وہاں سے بھاگ آئیں، مجھے کچھ شرمندگی ہو رہی تھی کیونکہ اگر یہ دو عورتیں ایک عورت کے حملے سے ڈر کر بھاگ آئی تھیں تو اس کا صاف مطلب تھا کہ یہ دونوں بزدل تھیں۔ گو میں خود بزدل ہوں، مگر مجھے یہ بات پسند نہ آئی کہ میری امی بھی بزدل ہیں اور اسی لیے میں کچھ شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔

    ’’آپ کو سوٹی لے کر جانا چاہیے تھا‘‘۔ میں نے کہا۔

    ’’سوٹی نہیں۔ بندوق’’۔ امی نے کہا۔ ’’اس عورت کو بندوق سے اڑا دینا چاہیے‘‘۔

    ’’تو جب ابا کے پاس چینی بندوق ہے تو آپ کیوں اسے ساتھ لے کر نہیں گئیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’یہ بات آپ کو پتہ تھی نا کہ آپا صغراں ایک خطر ناک عورت ہے اور سوٹی مار کے اپنی بیٹی کے سر میں سوراخ بھی کر چکی ہے؟‘‘

    ابا نے مجھے اشارہ کیا کہ میں خاموش رہوں۔ انھوں نے کہا کہ جاؤامی کے لیے پانی لے کر آؤ اور پھر امی سے ماجرہ دریافت کیا۔ وہ حیران تھے کہ آخر ایک رشتہ لینے کی بات کرنے جانے پر ایسی کیا قیامت برپا ہو سکتی ہے۔

    ’’اوہ اک بپھری ہوئی پاگل عورت اے‘‘۔ (6) امی نے کہا اور پھر انھوں نے ماجرہ بتایا۔ پہلے پہل تو سب ٹھیک رہا تھا۔ جب امی اختر آنٹی کو ان کے تازہ رنگے بالوں سمیت لے کر وہاں پہنچیں تو آپا صغراں نے خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا۔ یعنی وہ کچھ نہ کچھ اس بات سے خوش ہوئیں کہ ہمسائیوں میں سے کوئی انھیں ملنے آیا ہے کیونکہ سب ہمسائے ان سے عام طور پر گریزاں رہتے تھے۔

    ’’آؤ جی آؤ‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’کنی چنگی گل اے کہ تسیں آئیاں او‘‘ (7)وہ بولیں۔

    ’’او فری پری۔۔۔ چاء بناؤ ‘‘۔ انھوں نے آواز لگائی۔ پھر قدرے توقف سے انھوں نے فری کو دوبارہ آواز دی کہ آ کر ان کی بات سنے۔ جب فری آئی تو انھوں نے اسے چابیوں کا ایک گچھا دیا اور کہا کہ گھی والی الماری کا تالہ کھولے اور اس میں پڑے ڈبے میں سے چار باقر خانیاں بھی نکالے۔

    ’’تے اک منٹ وچ چابی واپس لے کے آمیرے کول، نہیں تے مونہہ توڑ دیاں گی تیرا‘‘۔ (8) انہوں نے سختی سے کہا۔ جب فری واپس مڑی تو انھوں نے کہا ’’ڈبے وچ بارہ باقرخانیاں نیں۔ میں گنیاں ہوئیاں نیں‘‘۔ (9) امی اور اختر آنٹی ابھی اسی عجیب و غریب گفتگو پر ہی دم بخود تھیں کہ آپا صغراں بولیں۔ ’’اج کل کڑیاں تے بڑی نظر رکھنی پیندی اے۔ ذرا کھچ کے رکھنا پیندا اے۔‘‘ (10) پھر چہرے پر مسکراہٹ لا کر کہا۔ ’’ہور کیہ حال چال اے؟ اللہ دی قسمیں بڑی خوشی ہو رہی اے تہاڈے آن دی۔ جے تسیں دس کے آندیاں تے میں فریزر وچوں چکن دے کباب وی کڈھ کے رکھدی۔‘‘ (11)

    یہ بکواس تھی۔ ہمارے گھر میں بھی کباب فریز کر کے رکھے ہوئے ہوتے تھے اور بالکل اسی لیے کہ کوئی مہمان ناگہانی آ جائے تو فوراً نکال کے فرائی کیے جائیں۔ اس میں قطعاً اس بات کی ضرورت نہیں تھی کہ پہلے سے پتہ ہو کہ کوئی آئےگا تو پھر کباب نکالے جائیں۔ آپا صغراں بالکل بکواس کر رہی تھیں۔ یا تو ان کے فریزر میں کوئی کباب وباب نہیں تھے چکن وکن کے یا پھر وہ اتنی کنجوس تھیں کہ ان دو ہمسائیوں پر انھیں ضائع نہیں کرنا چاہتی تھیں جن کے بارے میں انھیں ضرور علم ہوگا کہ وہ انھیں کچھ خاص پسند نہیں کرتی تھیں اور آج حیرت انگیز طور پر یوں ملنے آ گئی تھیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا فریج، ہمارے فریج کے بر عکس، پرانی وضع کا ہو اور اس کے ساتھ ایسا کوئی قابل ذکر فریزر نہ جڑا ہو جس میں کھانے کی اشیا کو برفا کے رکھا جائے۔ چند لمحے بعد پری اندر آئی اور چابیاں آپا صغراں کو واپس کر گئی۔ پھر کچھ دیر بعد چائے بھی پری ہی لے کر آئی۔ جب وہ چائے کی ٹرے میز پر رکھ رہی تھی تو اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور چمچ اور برتن باہم ٹکرا کے چھن چھن کی آواز پیدا کر رہے تھے۔

    ’’کیا ہوا ہے تمھیں؟‘‘ آپا صغراں بولیں۔ ’’ٹوٹے ہوئے ہاتھوں سے کیوں کام کر رہی ہو؟‘‘ پھر انھوں نے دیکھا کہ پلیٹ میں ان کے حکم کے غیر مطابق چار نہیں بلکہ صرف تین باقر خانیاں تھیں۔ ’’میں فری نوں کہیا سی چار باقر خانیاں کڈھے۔‘‘ (12)

    پری نے ہکلاتے ہوئے بتایا کہ ڈبے میں کل گیارہ باقر خانیاں تھیں اس لیے فری نے صرف تین نکالیں تاکہ باقی آٹھ بچ جائیں اور آپا صغراں کا حساب خراب نہ ہو۔

    ’’یارھاں؟ اک اوہنے اپنے واسطے رکھ لئی ہووےگی۔ ذرا بلا اوہنوں ایدھر‘‘۔ (13)

    جو ہونے والا تھا، اس کا تصور کرتی کرتی پری کانپتی ہوئی ڈرائنگ روم سے باہر چلی گئی۔

    ’’دیکھو ذرا۔۔۔‘‘ آپا صغراں دانت نکال کے بولیں۔ ’’میں چار باقر خانیاں منگوائیاں سن تا کہ تسیں دو دو تے کھاؤ‘‘۔ (14)

    امی اور اختر آنٹی نے کہا کہ ان کے لیے ایک ایک باقر خانی ہی کافی ہے۔ یہ انھوں نے اس لیے بھی کہا کہ باقر خانیاں کافی بسی ہوئی نظر آتی تھیں۔ امی نے اپنے بلڈپریشر کا حوالہ دیا جس کا باقر خانیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اختر آنٹی نے کہا کہ وہ ڈائٹنگ کر رہی ہیں۔ امی نے کہا کہ ایک ایک تو وہ دونوں کھا لیں گی اور آپا صغراں کو چاہیے کہ وہ تیسری کھا لیں۔ آپا صغراں نے کہا کہ نہیں، امی اور اختر آنٹی دو دو کھائیں گی کیونکہ وہ خود ایسی گند بلا چیزیں کھانا پسند نہیں کرتیں۔ ’’میں بس چاء پیاں گی‘‘ (15)۔ انہوں نے کہا۔

    جب کچھ دیر تک فری نہ آئی تو آپا صغراں اٹھیں اور ان دونوں خواتین کو چائے پیتا چھوڑ کر باہر گئیں۔ امی نے بتایا کہ کچھ لمحوں بعد ان دونوں خواتین نے چیخ و پکار کی آوازیں سنیں۔ ظاہر ہے کہ وہ فری کی چیخ و پکار تھی۔ پھر وہ چیخ و پکار غرغراہٹ میں تبدیل ہو گئی۔ یہ ہمیں نہیں معلوم کہ آپا صغراں اسے سوٹیوں سے مار رہی تھیں یا اس کے بال کھینچ کھینچ کر اس پر تھپڑوں یا جوتوں کی بارش کر رہی تھیں۔ چیخ و پکار کا غرغراہٹ میں تبدیل ہونا اس بات کا مظہر بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس کا گلا دبا رہی تھیں یا اس کی مار کٹائی کرتے ہوئے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ رہی تھیں تا کہ مہمان خواتین تک اس کی مزید چیخ و پکار نہ پہنچ سکے، گو یہ بات کچھ زیادہ قرین از قیاس نہیں تھی کیونکہ واقعات گواہ تھے کہ آپا صغراں کو نہ صرف اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ لوگوں تک یہ بات پہنچے کہ وہ اپنی بیٹیوں پر تشدد کرتی ہیں بلکہ شاید وہ اس کو ایک قابل فخربات جانتی تھیں اور ممکن ہے کہ یہ بھی سمجھتی ہوں کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنی بچیوں کی بڑی سخت تربیت کرتی تھیں۔ جو بھی ہو، وہ فری پر تشدد کر رہی تھیں اور وہاں ڈرائنگ روم میں امی اور اختر آنٹی خود ان واقعات کی وجہ سے بیحد گھبرا رہی تھیں۔ امی نے اختر آنٹی سے کہا کہ وہ پھر سوچ لیں کہ کیا وہ اس قسم کی عورت سے ناتا جوڑنا چاہیں گی؟ اختر آنٹی نے کہا کہ وہ فراز کی فرمائش کے آگے بے بس ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اس قدر گھبرا رہی تھیں کہ انھوں نے رشتے کی بات کرنے کا کام بھی امی کے سر تھوپا اور کہا کہ ندرت جان، تم بڑی سیانی ہو، تم ہی بات کرنا۔ یہ باتیں سنتے سنتے مجھے امی پر بہت ترس آیا کہ بیچاری کیسی بری پھنسی تھیں اور کیسا مکروہ کام اختر آنٹی ان سے کروانا چاہ رہی تھیں۔

    امی نے اختر آنٹی سے کہا کہ اس وقت، ان حالات میں جو گیارہ باقر خانیوں نے پیدا کر دیئے تھے، شاید رشتے کی بات کرنا مناسب نہ ہو اور جلد از جلد چائے کی پیالی ختم کر کے گھر واپس لوٹنا بہتر ہو مگر اختر آنٹی نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمیں اک بار پھر اس پل صراط سے گزرنا پڑےگا اور کسی اور دن یہاں واپس آنا پڑےگا۔ امی نے ایک بار پھر کوشش کی اور کہا کہ آپا اختر اگر آپ اتنا ڈر رہی ہیں یہاں واپس آنے سے تو پھر اگر آپا صغراں نے رشتہ منظور کر لیا اور وہ آپ کی سمدھن بن گئیں تو آپ کیا کریں گی؟ پھر تو اکثر آپ کو یہاں آنا پڑےگا اور وہ بھی آپ کے گھر آیا جایا کریں گی۔ امی نے ان پر زور دیا کہ وہ یہ رشتہ کرنے کا مکروہ خیال دل سے نکال دیں۔ اختر آنٹی کو آپا صغراں سے مستقل ملنے جلنے کے اس ممکنہ بندوبست کے خیال سے جھر جھری آئی مگر انھوں نے بیچارگی سے پھر کہا کہ وہ فراز کی ضد کے آگے مجبور ہیں۔ از راہ خود تسلی یہ بھی کہا کہ کم از کم ایک بات تو ثابت ہے کہ بچیاں بڑی ہی اطاعت گزار ہیں۔

    آپا صغراں جب واپس آئیں تو ان کا چہرہ غصے سے سرخ تھا۔ ’’سدھا کر کے آئیں آں فری نوں‘‘۔ (16) انھوں نے کہا۔ ’’تسیں باقر خانیاں نہیں کھا رہے؟‘‘ (17) انہوں نے کہا اور یہ کچھ ایسے لہجے میں، ایسے تحکمانہ لہجے میں کہا کہ امی اور اختر آنٹی دونوں نے فوراً باقر خانیاں اٹھا لیں اور اُنھیں چائے میں ڈبو کر کھانے لگیں۔

    ’’ہم اصل میں ایک ضروری بات کرنے آئی تھیں‘‘، امی نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔

    آپا صغراں نے تیوریاں چڑھا لیں جیسے کہ اس بات پر غصے میں آ رہی ہوں کہ یہ عورتیں ان کے گھر کسی کام کی وجہ سے آئی تھیں۔ وہ کوئی خدائی خدمتگار نہیں تھیں اور انھیں لوگوں کے کام کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔

    ’’اچھا؟ بتائیں‘‘۔ انھوں نے رکھائی اور تکلف سے اردو میں کہا۔ ’’کیا بات ہے‘‘؟

    امی کو الفا ظ نہیں مل رہے تھے جن میں مدعا بیان کرتیں۔ ویسے تو ایسی باتیں عورتیں خوب آرام سے کر لیتی ہیں اور ان کو کرنے کے طرح طرح کے طریقے ہیں۔ پہلے تھوڑی سی تمہید باندھی جاتی ہے مثلاً یہ کہ ’’ماشااللہ آپ کی بچیاں بڑی پیاری ہیں۔ بڑی اچھی تربیت آپ نے ان کی کی ہے۔ کیسی فرمانبردار، نیک سیرت اور گھر گرہستی میں بےحد ماہر ہیں جس کا ثبوت یہ اعلیٰ درجے کی چائے ہے جو انھوں نے ابھی جھٹ پٹ تیار کر کے پیش کی ہے اور مزید اس پر یہ ہے کہ آپ انھیں تعلیم بھی دلوا رہی ہیں۔ یعنی آپ کی بیٹیاں ہی ایسی اعلیٰ درجے کی اولاد نہیں ہیں بلکہ آپ بھی کیسی ہوشیار اور قابل ذکر ماں ہیں کہ ان کی ایسی متوازن تربیت کرتی رہی ہیں اور کیے جا رہی ہیں‘‘۔ یہ، یا ایسی دیگر باتیں کہی جا سکتی ہیں اور پھر کہا جا سکتا ہے کہ ’’اختر آپا کا بیٹا فراز بھی ماشااللہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ فوج میں کپتان ہونا تو خیر اس کی اعلیٰ ترین خصوصیت ہے ہی، مگر وہ بھی بہت ہی فرماں بردار اور شریف ہے‘‘۔ حالانکہ یہ بات کچھ اتنی درست نہ ہوتی کیونکہ ایسا ہی فراز فرماں بردار ہوتا تو اس معاملے میں اتنی ضد کا مظاہر ہ نہ کرتا اور اپنی ماں کو یوں مجبور نہ کرتا کہ وہ اس خطرناک عورت کے گھر رشتہ لے کر جائے اور ہر روز اس خوف میں گرفتار رہے کہ اگر رشتہ ہو گیا تو اسے اس کی سمدھن بن کے رہنا پڑےگا اور عمر بھر اسے برداشت کرنا پڑےگا۔

    ’’اختر آپا کے بیٹے کی بڑی خواہش ہے کہ وہ آپ کا داماد بنے‘‘ امی نے یک لخت بغیر تمہید کے کہا۔ کچھ دیر بالکل سکوت رہا۔ پھر آپاصغراں نے ہاتھ میں تھامی پیالی آہستہ سے میز پر رکھ دی اور ان دونوں عورتوں کو گھورنے لگیں۔ اب بہت ٹھہر ٹھہر کے، دانت بھینچ بھینچ کے وہ بولنا شروع ہوئیں:

    ’’جیہڑی چاء تسی پی رہیاں ہو۔۔۔جے تسی میری ہمسائیاں نہ ہوندیاں تے ایہو چاء میں تہاڈے مونہہ تے سٹ دیندی۔ تے اختر سلطاناں بیگم، تیرے اتے تے میں پوری چینک سٹ دیندی‘‘۔ (18)

    امی اور اختر آنٹی یہ فقرہ سن کر سکتے کی حالت میں آگئیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امی اور اختر آنٹی جواباً کوئی بہت سخت بات کہتیں۔ مثلاً یہ کہ ’چل چل الو کی پٹھی، تو کیا چائے پھینکے گی ہمارے منہ پر، ہم پوری ابلتی پانی کی کیتلی خود تیرے منہ پر پھینکیں گی‘ اور یہ کہہ کر وہاں سے فوراً اٹھ کر خدا حافظ کہے بغیر واپس اپنے گھروں کو آ جاتیں۔ مگر آپا صغراں نے ایسے ناگہانی طور پر بکواس کی تھی کہ یہ دونوں سٹپٹا گئیں۔ امی سکتے سے ذرا سنبھلیں تو بس اتنا پوچھ سکیں کہ ’’کیوں آپا صغراں، اس میں ایسے ناراض ہونے والی کیا بات ہے؟‘‘

    اب آتش فشاں نے زہر بھرا لاوہ اگلا۔ آپا صغراں نے کہا کہ امی اور اختر آنٹی نے بھلا ایسی جرأت کی ہی کیسے؟ انھوں نے کہا کہ فری اور پری عام لڑکیاں نہیں ہیں، ’’میری بیٹیاں نے اوہ، میری‘‘۔ (19) انھوں نے سینہ ٹھونک کر بےحد ڈرامائی انداز میں کہا۔ پھر آتش فشاں پورے زور سے پھٹا اور انھوں نے چیخ چیخ کر کہا کہ وہ کسی معمولی فوجی ملازم سے اپنی بیٹیوں کی شادی کریں گی بھلا؟ اک عام سی ہمسائی کے بیٹے سے؟

    ’’ایہدے پتر نال؟‘‘ (20) انھوں نے اختر آنٹی کی طرف حقارت سے اشارہ کرکے کہا۔ ’’ایس اختر سلطانہ بیگم دے پتر دے نال؟ (21) وہ دانت بھنیچ کر اختر آنٹی کا پورا نام لے رہی تھیں اور اس کے ساتھ ’’بیگم‘‘ بھی لگا رہی تھیں۔ اس سے ان کا مقصد یہی تھا کہ طنز میں ڈوبی گہر ی حقارت اور گہرے غصے کا اظہار کیا جائے۔ پھر انھوں نے کہا کہ میری بیٹیوں کے لیے تو عمران خان تک کا رشتہ آ چکا ہے مگر میں نے اس سے بھی انکار کر دیا تو پھر یہ اختر سلطانہ اور اس کا بیٹا کیا چیز ہیں؟ یہ صاف جھوٹ تھا کیونکہ ایک تو یہ کہ یہ صرف کپتان فراز کی ہی ضد تھی کہ میں ان دونوں میں سے ایک سے شادی کروں گا ورنہ ان لڑکیوں کی ابھی رشتے آنے کی عمر کہاں تھی۔ کپتان فراز بھی شاید فوراً شادی نہ کرتا مگر وہ ان میں سے ایک کو اپنے لیے ریزرو کروانے پر بہرحال مصر تھا۔ دوسرا یہ کہ عمران خان اک مشہور لڑکا تھا جس نے کرکٹ کے کھیل کی مختلف جہتوں کی بے اندازہ مشق کر رکھی تھی جن میں سرفہرست گیند کو نہایت تیزی سے پھینکنا تھا اور کھیل کود کی دنیا میں یہ ایک ایسا خاص وصف سمجھا جاتا تھا کہ اس بنا پر وہ بے نظیر شہرت کا حامل ہو چکا تھا۔ اسے کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ فری پری کا رشتہ بجھواتا اور یہ بھی کہ چونکہ وہ بےحد مشہور تھا اس لیے اس قسم کی باتیں، کہ فلاں مشہور آدمی نے کہیں رشتہ بھیجا، چھپی نہیں رہتیں بلکہ کئی بار تو اخبار میں بھی چھپ جاتی ہیں۔ مزید ثبوت اس بات کے جھوٹے ہونے کا یہ تھا کہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو آپا صغراں جیسی عورت ضرور اس بات کا چرچا کرتی کہ دیکھو دیکھو میرے گھر عمران خان کا رشتہ آیا اور میں نے انکار کر دیا۔ خیر، جھوٹ تو یہ تھا ہی، مگر زیادہ اہم بات اس میں یہ دیکھنے کی ہے کہ اگر آپا صغراں عمران خان سے بھی اپنی بیٹیوں کا رشتہ نہیں کرنا چاہتی تھیں تو بھلا پھر انھیں کس قسم کا انسان قابل قبول ہوتا؟

    انہوں نے اس پر روشنی نہ ڈالی اور بس عمران خان والا جھوٹا قصہ بتا کے ان خواتین کو اپنے گھر سے فوراً نکل جانے کے لیے کہا اور جب یہ دونوں جلدی جلدی اس گھر سے باہر نکل رہی تھیں تو پیچھے سے چلا کر یہ بھی کہا کہ پہلے تو میں یہ پتا چلاؤں گی کہ اس اختر سلطانہ کے بیٹے کے دماغ میں یہ بات آئی کس طرح اور اسے میری بیٹیوں کی ہوا لگی کیسے اور اگر مجھے پتہ چلا کہ میری سخت تربیت کے باوجود اس معاملے میں میری بیٹیوں کا کوئی ہاتھ ہے، تو میں ان کے پرخچے اڑا دوں گی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کپتان فراز کے پرخچے بھی اڑانا چاہتیں مگر وہ فوجی تھا اور فوج اسلحے سے لیس ایک بہت طاقتور ادارہ ہے اس لیے شاید یہ ممکن نہیں تھا اور چونکہ وہ ایک چالاک عورت تھیں اور یہ بات خوب سمجھتی تھیں اس لیے انھوں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ بہرحال یہ بات عیاں تھی کہ فری پری پر آنے والا وقت بہت، بہت ہی کڑا تھا۔

    ہم یہ کہانی سنتے جاتے تھے اور دم بخود ہوتے جاتے تھے کہ اس درجہ دیوانی اک عورت ہمارے گھر کے عین ساتھ رہتی ہے۔ ابا کے پاس ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہنے کو ہوتا تھا مگر وہ بھی خاموش تھے۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے صرف یہ کہا کہ ’’میرا خیال ہے کہ اس کا خاوند اس کو چھوڑ کے بھاگا ہوگا‘‘۔ یہ انھوں نے اس لیے کہا تھا کہ آپا صغراں نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ ان کا شوہر ایک نہایت بدذات آدمی تھا اس لیے انھوں نے اس کو چھوڑ دیا۔ کبھی انھوں نے کسی کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کے میاں نے کیا بد ذاتی کی تھی اور اب یہ بات صاف ہو چلی تھی کہ بدذات صرف وہ تھیں، دنیا بھر کی بد ذات ترین عورتوں میں سے ایک۔

    امی کا یہ واقعہ بیان کرنا ابھی ختم ہی ہوا تھا کہ اختر آنٹی کا فون آ گیا۔ وہ فون پر رو رہی تھیں۔ امی نے کہا کہ ایسی خبیث عورت جو ذہنی طور پر بیمار ہے، اس کی باتوں پر رو نا نہیں چاہیے مگر اختر آنٹی نے کہا کہ انھیں بہت احساس ذلت ہو رہا ہے۔ امی نے کہا کہ باجی دیکھیں میں بھی آپ کے ساتھ گئی تھی اور اس نے میری بھی تو کتنی بےعزتی کی مگر میں رو نہیں رہی کیونکہ میں یہ بات سمجھ چکی ہوں کہ وہ عورت پاگل ہے۔ اختر آنٹی نے کہا کہ ہاں آپ گئی تھیں اور آپ کی بھی اس نے بےعزتی کی جس کی وجہ سے میں آپ سے شرمندہ ہوں کیونکہ آپ کو وہاں میرے کہنے پر جانا پڑا مگر مجھے آپ سے زیادہ احساس ذلت ہے کیونکہ آخر رشتہ میرے بیٹے کا تھا۔ گو بات شاید صحیح تھی مگر مجھے محسوس ہوا کہ وہ امی سے جیتنا چاہ رہی تھیں کہ جی نہیں، میری ذلت آپ سے زیادہ ہوئی ہے اور ساتھ ہی اپنے رونے کا جواز بھی پیش کر رہی تھیں تا کہ امی ان کا مذاق نہ اڑائیں کہ دیکھو اختر رو پڑی حالانکہ امی اس طرح لوگوں کا مذاق نہیں اڑایا کرتی تھیں کیونکہ وہ آپا صغراں کی طرح کمینی عورت نہ تھیں۔

    اختر آنٹی نے کچھ دیر بعد اپنے رونے پر قابو پایا اور امی کو یہ بھی بتایا کہ انھوں نے فراز کو فون کر کے تمام واقعہ سنا دیا ہے اور فراز غصے سے دیوانہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ فراز نے کہا ہے کہ میں اس عورت کو مزہ چکھاؤں گا۔ یہ بات اس وقت واضح نہ ہوئی، کیونکہ اختر آنٹی خود بھی یہ نہیں جانتی تھیں، کہ کپتان فراز کس طرح آپا صغراں کو مزہ چکھائےگا مگر اس میں شبہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ ایسا کر لےگا کیونکہ وہ فوج سے تعلق رکھتا تھا اور فوجی اگر چاہیں تو ان کے ہاتھ بڑے لمبے ہو سکتے ہیں جیسا کہ فراز نے ایک بار نوید بھائی کو پولیس کے چنگل سے چھڑا کے ثابت بھی کیا تھا اور جیسا کہ ہمیں بچپن میں ایک ایسی عورت کی کہانی سنائی جاتی تھی جس کا نام رومانہ تھا۔ وہ دراصل چڑیل تھی اور اس کا ثبوت یہ تھا کہ ایک بار کسی نے اس سے کہا کہ رومانہ سنو، ذرا سوئچ اوپر کر کے پنکھا بند کر دو تو اس نے وہیں، سوئچ سے بہت دور، صوفے پر بیٹھے بیٹھے اپنا ہاتھ سوئچ کی طرف بڑھایا جو دیکھتے ہی دیکھتے لمبا ہوتا چلا گیا اور اس طرح اپنی جگہ پر بیٹھے بٹھائے اس نے اس لمبے ہاتھ سے پنکھے کا سوئچ اوپر کر دیا۔ اس وقت، جب اس نے یہ کارنامہ کیا، اس کا ہاتھ انسانوں کے پنجے کی بجائے بکری کے کھر کی طرح دکھتا تھا۔

    ۔۔۔۔۔۔

    کچھ دن بعد اختر آنٹی نے امی کو پھر فون کیا اور رونے لگیں۔ امی نے کہا کہ اختر آپا چھوڑو، جو ہوا سو ہوا بلکہ آپ کو خوش ہونا چاہیے کہ ایسی جگہ رشتہ نہ ہو سکا ورنہ آپ تمام عمر روتی رہتیں۔ اس پر اختر آنٹی نے کہا کہ وہ اپنی اس ذلت پر نہیں رو رہیں جو آپا صغراں کے ہاتھ انھیں اٹھانا پڑی بلکہ اس ذلت پہ رو رہی ہیں جو انھیں اس واقعے کے بعد اپنے بیٹے کے ہاتھ اٹھانا پڑی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کپتان فراز نے اس واقعے کے اگلے ہی دن آپا صغراں کے گھر فون کیا اور انھیں ڈرایا دھمکایا۔ انھیں کہا کہ وہ انھیں سیدھا کر دےگا اگر انھوں نے فری پری میں سے ایک کے لیے اس کا رشتہ قبول نہ کیا۔ امی بہت حیران ہوئیں اور کہا کہ ہاں یہ تو بڑی ذلت کی بات ہے کہ اس عورت نے جو سلوک آپ کے ساتھ کیا اس کے بعد بھی فراز بیٹے نے اس کی بیٹی سے شادی کرنے کے لیے ضد کی۔ اختر آنٹی کو امی کا یہ کہنا پسند نہ آیا کہ ذلت صرف ان کی ہوئی تھی جب کہ امی بھی ان کے ساتھ گئی تھیں اور انھیں بھی آپا صغراں نے اسی طرح گھر سے نکالا تھا۔ سو انھوں نے کہا کہ ’’اور تمہاری بے عزتی کیا کم ہوئی تھی ندرت؟ رشتے کی بات تو تمہیں نے کی تھی‘‘ کہ جیسے امی نوید بھائی کا یا میرا رشتہ مانگنے گئی ہوں۔ خیر امی نے اس بات پر کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا کیونکہ اختر آنٹی اس وقت بڑی دل گرفتہ تھیں اور ویسے بھی امی تفصیلات جاننے کی زیادہ خواہاں تھیں کہ ٹھیک کس طرح فراز نے اختر آنٹی کی مزید ذلت کا موقع پیدا کیا تھا۔

    اختر آنٹی نے بتایا کہ جب فراز نے آپا صغراں کو فون کیا تو انہوں نے اسے بہت موٹی موٹی گالیاں دیں، ایسی کہ جن کو بیان کرنا ناممکن ہے گو کہ سب ان کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ کیسی گالیاں ہوتی ہیں۔ ایسی، کہ جو ایک اسلامی مملکت میں، عورتوں، خاص طور پر متوسط طبقے کی عورتوں کے منہ سے سننے میں نہیں آتیں البتہ آدمی، چاہے وہ کسی بھی طبقے کے ہوں، ہمہ وقت انھیں لب پر لا سکتے ہیں۔ ایسی گالیاں تھیں وہ جو آپا صغراں نے فراز کو دیں اور پھر فون بند کر دیا۔ بس تب اس ٹیلی فون کے بعد فراز نے رومانہ کی طرح اپنے ہاتھ لمبے کرنے شروع کیے اور پھر جو تفصیلات پردۂ شہود میں آئیں وہ ایسی گھناؤنی تھیں کہ انھیں سن کر سب نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔

    یہ تفصیلات کپتان فراز نے ٹیلی فون کر کے آپا صغراں کو بتائی تھیں اور پوچھا تھا کہ وہ اب کہاں جا کے چھپیں گی؟ یہ بھی کہا تھا کہ وہ ان تفصیلات کی روشنی میں عنقریب انھیں مزہ چکھانے والا ہے۔

    پہلی بات جو پتہ چلی وہ یہ تھی کہ آپا صغراں کا پیدائشی نام آسیہ فرید تھا اور وہ کسی فرید احمد کی بیٹی ہوا کرتی تھیں جو روالپنڈی میں رہتے تھے۔ دوسری بات یہ پتہ چلی کہ ان کے بچارے باپ نے انھیں ڈاکٹری کی تعلیم کے لیے لاہور میں لڑکیوں کے میڈیکل کالج میں داخل کروایا تھا جہاں وہ ہوسٹل میں رہ کر ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ چونکہ وہ کوئی بیوقوف لڑکی نہیں تھیں، اس لیے چار سال تو وہ باقاعدہ کالج کے امتحان پاس کرتی رہیں مگر آخری عرصہ میں جب پڑھائی مزید سخت ہوئی اور ہسپتال میں بھی کام کرنا پڑا تو ان کی طبیعت اس بکواس سے اچاٹ ہوئی اور وہ امتحانوں میں فیل ہونے لگیں۔ ویسے بھی ان کے مزاج میں یہ داخل نہ تھا کہ وہ محنت اور حق حلال جیسی چیزوں پر زیادہ توجہ دیتیں۔

    انہوں نے کالج کے امتحان میں اپنا پیہم فیل ہونا گھر والوں سے چھپائے رکھا حتیٰ کہ ایک روز کالج والوں نے ان کی طالبعلمی کا دور ختم کیا اور انھیں کالج سے نکال دیا۔ انھوں نے یہ بات بھی اپنے گھر والوں کو نہ بتائی اور اسی طرح لاہور میں رہتی رہیں کہ جیسے کالج کی طالب علم ہوں۔ کالج والوں نے ظاہر ہے کہ ہوسٹل سے بھی نکل جانے کا کہا ہوگا سو اس اثنا میں وہ کہاں رہیں، یہ ہم نہیں جانتے۔ ہو سکتا ہے کہ کرائے پر کہیں رہی ہوں یا کالج ہی میں کسی سہیلی سے کہا ہو کہ مجھے اپنے کمرے میں کچھ عرصہ رہنے دو یا شاید کوئی غمناک اور جھوٹی کہانی سناکر کالج والوں سے کہا ہو کہ مجھے کچھ عرصہ مزید ہاسٹل میں رہنے دو۔ بہرحال، یہ قیاس آرائیاں ہیں، کیونکہ یہ تفصیل اختر آنٹی نے ہمیں فراہم نہ کی تھی۔ اس اثنا میں، جب وہ کالج کی طالبعلم نہیں رہی تھیں، وہ روز کیا کرتی تھیں، کہاں جاتی تھیں اور اپنا وقت کیسے گزارتی تھیں یہ بھی ہم نہیں جانتے مگر یہ ضرور معلوم ہوا کہ اسی دوران ان کی ملاقات مزمل صاحب سے ہوئی جن سے بعد میں انھوں نے شادی کر لی۔

    یہ شادی پسند کی تھی مگر انھوں نے اپنے گھر والوں سے چھپائے رکھا کہ وہ پہلے سے مزمل صاحب کو جانتی ہیں اور مزمل صاحب سے کہا کہ وہ باقاعدہ ان کے لیے رشتہ لے کر راولپنڈی آئیں۔ ایک تو شاید یہ اس لیے چھپائے رکھا کہ ہمارے ہاں یہ بات سخت معیوب اور ہیبت ناک سمجھی جاتی ہے کہ کوئی لڑکی خود سے کسی لڑکے سے ملے جلے اور پھر کہے کہ میں اسی لڑکے سے شادی کروں گی یعنی یہ کہ مجھے کوئی لڑکا پسند آ گیا ہے۔ اگر کبھی ایسا ہو بھی جائے تو عام طور پہ سب لوگ ششدر رہ جاتے ہیں اور کئی بار تو ایسی لڑکیوں کو ہلاک بھی کر دیتے ہیں۔ ہلاک نہ بھی کریں، تو یہ تو اکثر پوچھ لیتے ہیں کہ ایسی بات کرنے سے پہلے تو ڈوب کیوں نہ مری یا زمین پھٹ کیوں نہیں جاتی اور تو اس میں سما کیوں نہیں جاتی۔دوسری وجہ شاید یہ ہو گی کہ پھر یہ بھی بتانا پڑتا کہ اگر اس اثنا میں وہ ڈاکٹری کی سخت مشکل تعلیم حاصل کر رہیں تھیں اور روز کالج جاتی تھیں اور کالج سے واپس سیدھا ہاسٹل آتی تھیں، دم مارنے تک کی انھیں فرصت نہ تھی، تو پھر محکمہ ریلوے کے بیچارے مزمل صاحب سے ان کی ملاقات کیسے ہوئی؟ کسی ریل گاڑی پر؟

    جوں جوں کالج کا آخری سال ختم ہو رہا تھا آسیہ کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی کیونکہ یہ راز بالآخر کھلنا تھا کہ وہ ڈاکٹرنی نہیں بن سکیں، بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ راز بھی کھل جانا تھا کہ وہ تو کچھ ماہ سے کالج جاتی ہی نہیں رہیں۔

    تبھی جب وہ مستقبل کی فکروں میں ڈوبی ہوئی تھیں ان کے حق میں وہ معجزہ ہوا جو ان کی آنے والی زندگی اور اب تک کے حالات کا پیش خیمہ بنا۔ انھوں نے اخبار میں ایک خبر پڑھی اور ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

    ان کی آنکھیں اس لیے نہیں چمکی ہوں گی کہ ایک بیچاری لڑکی جس کا نام صغراں تھا اور جو اسی میڈیکل کالج میں ان سے دو جماعتیں آگے رہی تھی، بس میں سوار اپنے گھر گوجرانوالہ جاتے ہوئے ایک حادثے میں ماری گئی تھی۔ اس بات پہ تو ممکن ہے انھیں خبر پڑھتے پڑھتے کچھ نہ کچھ افسوس ہی ہوا ہو کہ جی۔ ٹی۔ روڈ پر جہلم کے نزدیک سامنے جاتے ہوئے ٹرک میں لدے سریے کی سلاخوں میں سے ایک اس بیچاری کے سینے کے آر پار ہو گئی تھی اور وہ موقع پہ ہی دم توڑ گئی تھی۔ مگر چمک تو ان کی آنکھوں میں یقینا آئی تھی۔ اس لیے کہ اخبار میں لکھا تھا کہ بیچاری متوفی صغراں کے بد نصیب والد کا نام بھی فرید احمد تھا۔آپا صغراں ایسے غیبی اشارے اور ایسی غیبی مدد کو ضائع کرنے والوں میں سے نہ تھیں۔

    سیدھے سادے ماں باپ کو اور سیدھے سادے محکمہ ریلوے کے مزمل صاحب کو اپنا نام آسیہ سے صغراں تبدیل کرنے کی یہ وجہ بتانا کافی تھا کہ ایک بہت قابل نجومی نے مشورہ دیا ہے کہ تمہیں تمہارا موجودہ نام راس نہیں ہے اور تم کوئی ایسا نام رکھو جو حرف ’’ص‘‘ سے شروع ہوتا ہو۔ صغراں فرید ولد فرید احمد کا نیا شناختی کارڈ بنانا توکچھ مشکل نہیں تھا اور اسی طرح یونیورسٹی سے جھوٹی سچی خط و کتابت کر کے ڈگری گم جانے کا بہانہ کر کے صغراںفرید کے نام کی ڈگری کی ڈوپلیکیٹ کاپی جاری کروانا بھی مشکل نہیں تھا۔ چونکہ وہ پنڈی میں رہتی تھیں اس لیے تقسیم اسناد کے جلسے پر لاہور جانا بھی کوئی بہت ضروری نہیں تھا۔ سر درد کا بہانہ بنانا ہی بہت ہوتا۔ صرف اتنا مسئلہ رہ جاتا کہ بعد میں سند پرDuplicate لکھا دیکھ کر کبھی کوئی پوچھ بیٹھتا کہ یہ کیا ہے؟ ‘‘ڈوپلیکیٹ‘‘ کیوں لکھا ہے؟ اصل ڈگری کہاں گئی؟ ایسا ہو بھی جاتا تو یہ کہنا بالکل آسان تھا کہ چونکہ میں نے سر درد یا بخار کی وجہ سے جلسے میں جاکر سند قبضے میں نہیں کی تھی، سو وہ وہیں کہیں گم ہو گئی اور اب یہ اس کی نقل بنوانا پڑی ہے۔یوں بھی، بھلا کون ڈگریاں دیکھنے کے چکروں میں پڑتا ہے؟ آپ کہہ دیں کہ میں پاس ہو گئی ہوں تو عام طور پہ تو لوگ مان ہی لیتے ہیں۔

    مزمل صاحب سے شادی کے بعد آپا صغراں نے پہلے تو پنڈی کے ایک پرائیویٹ کلینک میں کچھ عرصہ کام سیکھا اور پھر پنڈی کے راجا بازار کی ایک گلی میں اپنا کلینک کھولا۔ وہ کس چیز کا کلینک تھا اور اس میں آپا صغراں کیا خدمات انجام دیتی تھیں، یہ ایسی تفصیلات ہیں جو مجھے بہت دیر میں سمجھ آئیں۔ باقی ساری تفصیلات کا ذکر تو میرے سامنے امی نے ابا کے گوش گزار کر دیا تھا مگر یہ بات کہ اس کلینک میں کیا کام ہوتا تھا انھوں نے میرے سامنے بیان نہ کی اور کر بھی دیتیں تو مجھے کچھ خاص پتہ نہ چلتا کیونکہ تب تک مجھے ان عجیب و غریب سلسلوں کے بارے میں کوئی بہت زیادہ علم نہیں تھا کہ انسان اور دیگر جانور اپنے چھوٹے چھوٹے بچے کس طرح ایجاد کرتے ہیں اور یہ کہ کوئی ایسے حالات بھی ہو سکتے ہیں کہ کسی بچے کا پیدا ہونا ناگزیر ہو جائے جبکہ لوگ، یعنی اس کے ماں باپ، یہ نہ چاہتے ہوں کہ وہ بچہ وجود میں آئے۔

    ’’ آپ سمجھ جائیں نا‘‘۔ امی نے ابا سے کہا۔ ’’یہ ’وہ‘ کام کرتی تھی‘‘۔

    ابا تو فوراً تمام بات سمجھ گئے اور چونکہ میں وہیں موجود تھا اس لیے انھوں نے امی کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ میرا خیال ہے کہ اگر نوید بھائی وہاں موجود ہوتے تو وہ بھی سمجھ جاتے کیونکہ وہ بہت ہوشیار تھے اور دنیا کے معاملات کا کافی علم رکھتے تھے۔

    لوگ آپا صغراں کے بارے میں جو بھی کہیں، ان کیخلاف جیسی مرضی باتیں کریں، ان پر جتنا بھی کیچڑ اچھالیں، میں نے جو بھی تفصیلات سنیں ان کی بنا پر میں ان کی چالاکی اور اعلیٰ عقلی کا بہت قائل ہوا اور دل ہی دل میں ہر اک بات پر بار بار آفرین کہا۔ یہ سچ ہے کہ اس تمام کام میں بیچاری اصل صغراں فرید کی بروقت موت ان کی مددگار رہی تھی مگر ایسا خیال اور ایسا حیرت انگیز منصوبہ ذہن میں آنا کیا بے حد اعلیٰ عقلی کا ثبوت نہیں تھا؟ پھر یہ بھی کہ انھوں نے نہایت کامیابی سے اپنا کلینک چلایا اور کافی عرصہ چلایا۔ اگر بدقسمتی سے وہ ایک عورت ان کے کلینک میں ان کے ہاتھوں ہلاک نہ ہوتی، وہ ایک عورت جس کے ہلاک ہونے کی خبر ان کے کلینک پر صفائی کا کام کرنے والی ایک نمک حرام ملازمہ نے پولیس کو دے دی، تو کون کہہ سکتا ہے کہ آپا صغراں کو اپنی بیٹیوں کو لے کر روپوش ہونا پڑتا اور نقل مکانی کر کے لاہور آنا پڑتا؟ کون کہہ سکتا ہے کہ ابھی تک یہ زبردست عورت وہ کلینک کامیابی سے پنڈی کے راجہ بازار میں چلائے نہ جا رہی ہوتی؟ کون؟اور وہی ایک عورت، جس کی قسمت میں موت لکھی تھی، اگر ان کے ہاتھوں ہلاک نہ ہوتی تو مزمل صاحب کو آپا صغراں کے کاروبار کے بارے میں بھلا کچھ بھی کیوں معلوم پڑتا اور وہ کیوں اس قدر گھبرا کر فوراً ان کو طلاق دیتے؟

    ۔۔۔۔۔۔

    کپتان فراز نے یہ سب تفصیل ٹیلی فون پر آپا صغراں کے گوش گزار کی اور کہا کہ ذلیل اور بدتمیز عورت، تو دیکھتی جا اب میں تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ بس یہی کپتان فراز کی غلطی تھی جس کی وجہ سے اسے منہ کی کھانا پڑی کیونکہ آپا صغراں جیسی زبردست عورتیں کبھی کسی بدقسمتی کی وجہ سے مصیبت میں پھنس جائیں تو پھنس جائیں، ورنہ ایک کپتان فراز کیا، پانچ براعظموں کے تمام ممالک کی تمام افواج بھی اکٹھی ہو جائیں تو ان کی صلاحیتوں کے آگے بےبس ہوں۔

    اگلی صبح جب ہم اٹھے تو اسماعیل نے بتایا کہ آپا صغراں اور فری پری رات ہی رات میں گھر خالی کر کے جا چکی ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ گھر کے باہر مالک مکان، یعنی ناصر صاحب اور ایک اور آدمی میں تکرار ہو رہی ہے کیونکہ وہ آدمی وہاں اپنے سامان سے بھرے ٹرک کے ساتھ موجود ہے اور مصر ہے کہ اس نے کل ہی خود یہاں آ کر ایک موٹی عورت سے یہ گھر کرایہ پر لیا ہے اور اسے چھ مہینے کا کل بہتر ہزار روپے کرایہ ایڈوانس بھی دیا ہے۔ و ہ آدمی ناصر صاحب کو باقاعدہ رسید دکھا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ یہ دیکھئے، دستخط بھی ہیں اور صاف صاف حرفوں میں اس عورت نے دستخطوں کے نیچے اپنا پورا نام لکھا ہے: ’’بیگم اختر سلطانہ والدہ کیپٹن فراز‘‘۔

    حواشی:

    کیا ہوا ہے بیگم صاحب؟ بی بی برقع اتار کے گھر سے بھاگ رہی ہے؟

    بکواس مت کرو مالی۔ تمھارا منہ توڑ دوں گی۔ جا کے پکڑ کے لاؤ اس کو۔ سائیکل پہ جاؤ۔

    ادھر لاؤ۔ ادھر لے کے آؤ اس کو۔

    مالی۔ بازو پکڑکے کھینچو اس کو۔

    یہ کس طرح کی عورت ہے؟ میں نے ایسی کمینی اور بدمعاش عورت کبھی نہیں دیکھی۔

    وہ ایک بپھری ہوئی پاگل عورت ہے۔

    کتنی اچھی بات ہے کہ تم آئی ہو۔

    اور ایک منٹ میں چابی واپس لے کے آؤ میرے پاس نہیں تو تمھارا منہ توڑ دوں گی۔

    ڈبے میں بارہ باقر خانیاں ہیں۔ میں نے گنی ہوئی ہیں۔

    10۔ آج کل لڑکیوں پہ بہت نظر رکھنی پڑتی ہے۔ ذرا کھینچ کے رکھنا پڑتا ہے۔

    11۔ اور کیا حال چال ہے؟ اللہ کی قسم بڑی خوشی ہو رہی ہے تمھارے آنے کی۔ اگر بتاکے آتیں توں میں فریزر میں سے چکن کے کباب بھی نکال کے رکھتی۔

    12۔ میں نے فری سے کہا تھا کہ چار باقر خانیاں نکالے۔

    13۔ گیارہ؟ ایک اس نے اپنے لیے رکھ لی ہوگی۔ ذرا بلاؤ اسے ادھر۔

    14۔ میں نے چار باقر خانیاں منگوائی تھیں تا کہ تم دو دو تو کھاؤ۔

    15۔ میں بس چائے پیوں گی۔

    16۔ سیدھا کر کے آئی ہوں فری کو۔

    17۔ تم باقر خانیاں نہیں کھا رہیں؟

    18۔ جو چائے تم پی رہی ہو، اگر تم میری ہمسائیاں نہ ہوتیں تو یہی چائے میں تمھارے منہ پر پھینک دیتی اور اختر سلطانہ بیگم، تمھارے منہ پہ تو میں پوری چائے دانی پھینک دیتی۔

    19۔ میری بیٹیاں ہیں وہ۔ میری۔

    20۔ اس کے بیٹے کے ساتھ؟

    21۔ اس اختر سلطانہ بیگم کے بیٹے کے ساتھ؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے