Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایڈوینچر

محمد شہزاد

ایڈوینچر

محمد شہزاد

MORE BYمحمد شہزاد

    ’تم یہاں؟‘ راجو نے سیما کو پارک کے بنچ پر بیٹھا دیکھتے کہا۔

    ’ہاں۔ میں یہاں! مگر تم یہاں کس لئے؟‘

    ’ایسے ہی۔ مگر یہ ہی سوال تو میں بھی کر سکتا ہوں!‘

    ’پتہ تو ہے تمہیں پھر کیوں پوچھتے ہو۔۔۔‘

    ’فرض کر لینا درست نہیں۔ ہو سکتا ہے تمہارے یہاں آنے کا سبب وہ نہ ہو جو میں سمجھ رہا ہوں۔‘

    ’ہوں۔۔۔ بات میں وزن ہے۔ میرے آنے کا سبب وہی ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔ اب تم کہو۔ کیا تم بھی اسی مقصد کے لئے۔۔۔‘

    ’ہاں اسی مقصد کے لئے۔۔۔‘

    ’وہ نہیں آئے گی۔ چلو کافی پیتے ہیں۔‘

    ’کچھ دیر اور انتظار کرنے دو۔ کیا پتہ ٹریفک میں پھنس گئی ہو۔‘

    ’فون کیوں نہیں کر لیتے!‘

    ’اٹھا نہیں رہی! بس دس منٹ اور۔ ویسے تم بہت خوبصورت لگتی ہو بلیک ٹراوزر اور وہائٹ شرٹ میں۔ اور جب تم بالوں کا جوڑا بنا لیتی ہو تو غضب ڈھاتی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ حسین تم بندانا پہنے اچھی لگتی ہو۔ بیلی چین پہنی ہوئی ہے؟‘

    سیما نے راجو کی بات کا جواب مسکراہٹ کی صورت میں دیا۔ یہ مسکراہٹ اسکی پسندیدہ تھی۔ اکثر وہ لفظوں سے کہیں زیادہ پراثر ہوتی۔ اسے چپ دیکھ کر راجو نے ایک اور سوال داغا، ’’کیا مشن کامیاب رہا؟‘‘

    ’’میرا مشن ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔‘‘

    ’’تو پھر تم ابھی تک یہاں کیوں بیٹھی ہوئی ہو؟ گھر کیوں نہیں گئیں؟‘‘

    ’’کچھ سوچ رہی تھی اس خاموش سہانے ماحول میں۔ یہ جگہ مراقبے کے لئے کتنی خوبصورت ہے۔ میں شادی سے پہلے بھی یہاں آیا کرتی تھی۔ گھنٹوں یہاں بیٹھی رہتی۔ یہ جگہ میری استاد ہے۔ بہت کچھ سیکھا میں نے۔ ابھی تک سیکھ رہی ہوں۔ تم بھی مراقبہ کیا کرو۔ بہت فائدہ ہو گا۔ تمہارے اندر جو شدید غصہ بھرا ہوا ہے اسے کم کرنے میں مدد دے گا۔‘‘

    ’’کوشش کی کئی بار لیکن اس میں یاد ماضی بہت دکھ دیتا ہے۔ تب ہی تو غالب نے اسے عذاب کہا۔ پھر میں ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہوں۔ اسی لئے مراقبہ کرنا چھوڑ دیا۔‘‘

    ’’اس کا مطلب یہ ہے تمہارا مراقبہ کامیاب رہا۔ یہ مراقبے کی پہلی کامیابی ہے جسے تم یاد ماضی اور عذاب کہہ رہے ہو۔ اگلی سٹیج تمہیں شانت کر دے گی۔‘‘

    ’’اچھا چھوڑو فلسفے کو۔ وہ نہیں آئے گی۔ چلو کافی پینے چلتے ہیں۔‘‘ راجو نے بیزاری سا کہا۔ بیزاری کی وجہ فلسفہ نہیں بلکہ وہ لڑکی تھی جو وعدہ کر کے مکر گئی۔ لیکن اسے سیما کو دیکھ کر اور ملکر بہت خوشی ہوئی۔ آج اسکی خوبصورتی کا روپ ہی کچھ اور تھا۔

    کچھ دیر بعد دونوں ایک کافی شاپ میں تھے۔ راجو تو بلیک کافی بغیر چینی کے پینے کا عادی تھا۔ وہ اس بات کا قائل تھا کہ شراب اور کافی میں کسی چیز کی ملاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ سیما کیپی چینو کی شوقین تھی۔ دونوں ٹیبل کے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ حسب عادت سیما نے اپنا ایک پیر پھیلا کر راجو کے گھٹنے پر رکھ دیا۔ یہ ادا راجو کی چند اداؤں میں پسندیدہ تھی۔ اسے دیکھ کر یقین کرنا ناممکن تھا کہ یہ عورت چالیس برس کی ہو چکی ہے۔ پچیس برس سے اوپر تو کسی صورت نہ لگتی۔ ہر وہ خوبی بدرجہ اتم اس میں موجود تھی جو ایک خوبصورت عورت میں ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ ذہانت مردوں سے بھی زیادہ۔

    ’’کیوں نہیں آئی وہ؟‘‘

    ’’خدا معلوم۔ پچھتاوا ہو رہا ہو گا۔ یہاں ہرتیسری عورت کو کچھ عرصے بعد پچھتاوے شروع ہو جاتے ہیں۔ بھگوان یاد آنے لگ جاتا ہے۔‘‘ راجو بولا۔

    ’’کتنی بار ملاقات ہوئی؟‘‘

    ’’چار بار۔‘‘

    ’’پچھتاوا کیوں ہوا؟‘‘

    ’’وہی پرانا رنڈی رونہ۔ یوں روز روز نہیں مل سکتی۔ شادی کر لو۔ ہمیشہ کے لئے تمہاری داسی بن کر رہونگی!‘‘

    ’’تم نے بتایا نہیں کہ شادی شدہ ہو۔ اور یہ کہ تمہارا مقصد شادی نہیں محض ایڈوینچر ہے؟‘‘

    ’’بتایا تھا۔ اور وہ بھی شادی شدہ ہے۔ اسے بھی ایڈوینچر ہی چاہیے تھا۔‘‘

    ’’تو پھر شادی کا مطالبہ کیوں؟‘‘

    ’’کہتی ہے اسے مجھ سے پیار ہو گیا ہے۔ بار بار گناہ نہیں کر سکتی۔ اپنے شوہر کو چھوڑنے پر تیار ہے۔‘‘

    ’’تم نے پھر کیا جواب دیا؟‘‘

    ’’میں نے یہ ہی کہا کہ دماغ خراب ہو گیا ہے۔ ہمارے درمیان شرائط پہلے سے ہی طے تھیں کہ یہ صرف ایڈوینچر ہے۔ اور دوسری بات کہ میں اپنی بیوی سے بے حد پیار کرتا ہوں۔ وہ بھی مجھے پاگلوں کی طرح چاہتی ہے۔ نہ میں اسے نہ وہ مجھے چھوڑ سکتی ہے۔ یہ کسی صورت ممکن نہیں۔ اور جو عورت اپنے شوہر کو دھوکہ دے، کوئی احمق ہی شادی کرے گا اس سے۔‘‘

    ’’ایڈوینچر میں کیسی تھی؟‘‘

    ’’ٹھیک ہی تھی۔ جیسے سب ہوتی ہیں۔‘‘

    ’’سب کیسی ہوتی ہیں؟‘‘

    ’’تنگ نہ کرو۔ تمہیں سب پتہ ہے۔ سب ایک ہی جیسی ہوتی ہیں کچھ دنوں بعد۔‘‘

    ’’تو پھر ایڈوینچر کرنے کی کیا ضرورت؟‘‘ سیما نے پوچھا۔

    ’’یہ ہی سوال تو میں بھی کر سکتا ہوں۔ تم کیوں کرتی ہو ایڈوینچر۔‘‘

    ’’میں چھپ چھپا کر نہیں کرتی۔ علی الا علان کرتی ہوں۔‘‘

    ’’یہ ہی بات تو پسند ہے مجھے تمہاری۔ اچھا چھوڑو۔ تم بتاؤ کچھ اپنے ایڈوینچر کے بارے میں۔‘‘

    ’’اچھا تھا مگر آوٹ سٹینڈنگ نہیں!‘‘

    ’’کیا اچھا تھا اور کیا آوٹ سٹینڈنگ نہیں۔‘‘

    ’’بیڈ میں کمزور تھا۔ فور پلے میں زبردست!‘‘

    ’’ہوں۔ مجھے پتہ ہے تمہیں فور پلے بہت پسند ہے۔‘‘

    ’’تم بھی اچھا کرتے ہو فور پلے مگر صبر کم ہے تم میں۔‘‘

    ’’کتنی بار مل چکی ہو اس سے؟‘‘

    ’’کئی بار!‘‘

    ’’اگر کمزور ہے تو بار بار ملنے کی وجہ؟‘‘

    ’’تمہارے مقابلے میں کمزور ہے ڈارلنگ۔ ویسے دوسروں سے بہتر ہے۔ اسے کتابوں کا بہت شوق ہے۔ اس نے وہ تمام کتابیں پڑھ رکھی ہیں جو میں نے پڑھ رکھی ہیں۔ ہم بہت کچھ شئیر کر سکتے ہیں۔‘‘

    ’’کتابیں تو میں بھی پڑھتا ہوں۔‘‘

    ’’تم صرف کلاسیکل اور قدیم لٹریچر پڑھتے ہو۔‘‘

    ’’کیا کلاسیکل ادب لٹریچر نہیں۔‘‘

    ’’ہے لیکن وہ میں نے نہیں پڑھا۔ تو میں تم سے کیا شئیر کروں!‘‘

    ’’تم پڑھنا شروع کر دو۔‘‘

    ’’میری جاب بہت ڈیمانڈنگ ہے۔ تمہیں معلوم ہے اچھی طرح۔ سینئر لیول پر بہت سی چیزیں دیکھنا پڑتی ہیں۔ پھر ٹریولنگ بہت ہے۔ گھر پہنچ کر بس گھنٹہ یا ڈیڑھ ہوتا ہے کچھ پڑھنے کے لئے۔ میری کوشش ہوتی ہے ایسی چیز پڑھی جائے جسے سمجھنا مشکل نہ ہو۔ اب غالب اور شیکسپئیر کو بغیر شرح سمجھنا ناممکن ہے۔ اس قسم کا لٹریچر سنجیدگی اور وقت مانگتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پڑھونگی۔‘‘

    ’’کلاسیکل ادب ماں ہے۔ جس طرح سا رے گا ما پا دھا نی سا سیکھے بغیر موسیقی سیکھی سمجھی نہیں جا سکتی اسی طرح کلاسیکل ادب پڑٖھے بغیر ادب سمجھا نہیں جا سکتا۔‘‘

    ’’میں نے کب اختلاف کیا! بس وقت نہیں ہے اور اچھے لکھنے والے اس دور میں بھی اچھا لکھ رہے ہیں۔‘‘

    ’’وہ ٹھیک ہے۔ لیکن کلاسیکل بہت ضروری ہے۔ ایک بار غالب سمجھ آ گیا تو فیض و فراز بچے لگنا شروع ہو جائینگے تمہیں۔‘‘

    ’’مجھے شاعری سے کوئی خاص لگاؤ نہیں۔ جانتے ہو تم اچھی طرح۔‘‘

    ’’معلوم ہے معلوم ہے۔ مثال دے رہا تھا!‘‘

    ’’بھئی جس کو جو پسند ہے وہ پڑھ لے۔‘‘ اب سیما راجو کی بحث سے بیزار ہونا شروع ہو چکی تھی۔ اس پر راجو نے سیما کی بات سے اتفاق کیا۔ وہ بھی سیما کا ہی ہم عمر تھا۔ لگتا وہ بھی کم ہی تھا عمر میں۔ لیکن سیما تو حسن کی ملکہ تھی۔

    ’’اچھا وہ تمہاری والی تو آئی نہیں۔ کیا تم نے کمرہ بک کرایا تھا کہیں؟‘‘

    ’’ہاں کرایا تھا۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’امپیریل ہوٹل میں۔‘‘

    ’’اوہ! اپنے جناح صاحب جب بھی دہلی آتے وہیں ٹہرتے تھے۔‘‘

    ’’ہاں لیکن وہ اس مقصد کے لئے نہیں آتے تھے!‘‘ راجو کی یہ بات سن کر سیما ہنسے بغیر نہ رہ سکی۔

    ’’تو تین سو ڈالر تو گئے ایڈوانس میں!‘‘

    ’’وہ تو ہے۔ تم اس سے کہاں ملتی ہو؟‘‘

    ’’امپیریل میں ہی۔ میرا لیول امپیریل یا حیات سے نیچے کا نہیں!‘‘

    ’’معلوم ہے معلوم ہے۔ ابھی کیا امپیریل سے ہی پارک پہنچیں تم؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ سنو امپیریل چلیں؟‘‘

    ’’میرے ساتھ؟‘‘

    ’’ارے بدھو تمہارے ساتھ نہیں تو اور کس کے ساتھ۔ وہ جو تمہارے تین سو ڈالر حرام میں ضائع ہونگے، بچ جائینگے اور ہم کچھ ایڈوینچر بھی کر لیں گے۔‘‘

    ’’آئیڈیا تو اچھا ہے لیکن پہلے کبھی ایسا کیا نہیں۔‘‘

    ’’کیا مطلب؟ کیا ہم اجنبی ہیں؟‘‘

    ’’نہیں نہیں میرا مطلب تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا گھر میں ہی ہوا۔ ہوٹل میں نہیں۔‘‘

    ’’ہر چیز پہلی بار ہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد بار بار!‘‘

    ’’بات تو درست ہے۔ تو چلو چلتے ہیں۔ رات پھر وہیں گذاریں تو مزہ ہے۔‘‘

    ’’میرا بھی یہ ہی موڈ ہے۔ ویسے بھی کل سرکاری چھٹی ہے۔‘‘

    ’’اوہ ہاں۔ یہ تو میں بھول ہی گیا۔‘‘ راجو نے کہا اور پھر پوچھا، ’’بچوں کو کون سنبھالے گا؟‘‘

    ’’آج کامنی کو گھر پر ہی روک لیا تھا میں نے۔ سنبھال لے گی۔‘‘

    ’’بہت اچھا کیا!‘‘

    راجو نے کہا اور اسکے بعد دوں وں کچھ ہی دیر بعد امپیریل میں چیک ان ہو گئے۔ سیما کے ساتھ وہ رات اسکی زندگی کی سب سے حسین ترین ثابت ہوئی۔ اسے ایسا لگا جیسے اس نے سیما کو پہلی بار دیکھا ہو حالانکہ ان دونوں کی شادی کو بارہ برس بیت چکے تھے۔ نہ جانے کتنی بار اس نے سیما کے انچ انچ کا لطف لیا ہو گا مگر امپیریل میں وہ رات کچھ ایسی تھی کہ ’اس رات میں جی لیں ہم اس رات میں مر جائیں۔ اب صبح نہ ہو پائے آؤ یہ دعا مانگیں، اس رات کے ہر پل سے راتیں ہی ابھر آئیں!‘ اور سیما کی بھی یہ ہی کیفیت تھی۔ اپنے شوہر سے جو لطف آج اسے ملا اس کا عشر عشیر اسے بارہ برسوں میں نہ ملا۔

    دوپہر تک وہ ہوٹل سے چیک آوٹ ہو کر اپنے گھر پہنچ چکے تھے۔

    ایک سال کے عرصے میں ایسا اتفاق کئی بار ہوا۔ کبھی راجو کی ڈیٹ نہ آئی تو کبھی سیما کی۔ اور دونوں کی یونہی سرراہ ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد وہی کچھ ہوا جو امپیریل میں ہوا۔ صرف مقام سکونت بدلا۔ ان واقعات نے دونوں کی سوچ بتدریج بدل دی۔ اب ازدواجی زندگی خوشگوار رکھنے کے لئے باہمی معاہدے کے تحت بیرونی ایڈوینچر کی ضرورت نہیں!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے