Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اگر

ہما فلک

اگر

ہما فلک

MORE BYہما فلک

    ’’سیمی ایک کپ چائے تو بنا دو۔ پلیز‘‘

    ’’اس وقت؟ یہ کون سا وقت ہے چائے پینے کا ؟ رات کو نیند بھی نہیں آئےگی۔‘‘ سیمی جو کہ پوری طرح ناول میں گم تھی اسے یہ بے وقت کی راگنی بہت کھلی۔

    ’’میرا ابھی موڈ ہے چائے پینے کا تو کیا اب میں صبح کا انتظار کروں؟‘‘

    ’’افوہ۔۔۔ سارے دن میں ایک یہی وقت ہوتا ہے آرام کا اب اس میں بھی۔۔۔‘‘ سیمی جھنجھلا کر بولی۔

    ’’تم کرتی کیا ہو سارا دن؟، صفائی اور کپڑے تو کام والی کے ذمے ہیں۔ یا فون پر گپ بازی کر لیتی ہو یا ناول پڑھتی رہتی ہو۔‘‘

    ’’تو آپ کے خیال میں صرف صفائی اور کپڑے ہی کام ہیں؟ اور کوئی گھر کی ذمہ داری نہیں ہوتی؟‘‘ سیمی جانتی تھی کہ وہ ہر بار یہ جملہ اسے چڑانے کے لئے بولتا ہے۔ پھر بھی وہ چڑ جاتی تھی۔نہ تو کبھی ایسا ہوا تھا کہ اس نے یہ جملہ نہ بولا ہو، نہ ہی کبھی سیمی نے نظر انداز کیا تھا۔

    ’’تو ایسا کون سا تیر مارتی ہو؟ ساری عورتیں ہی گھروں کی ذمہ داریاں پوری کرتی ہیں۔وہ بھی تو ہیں جو جاب بھی کرتی ہیں اور گھر بھی سنبھالتی ہیں۔ سارا دن دفتر میں سر کھپا کے ایک کپ چائے ہی تو مانگا ہے تم سے۔‘‘

    ’’ تو آپ کون سا کوئی انوکھا کام کرتے ہیں۔ سارا دن فلی ائیر کنڈیشنڈ آفس میں آرام سے گزرتا ہے۔ وہ بھی تو ہیں جو شدیدتپتی دوپہروں میں مزدوری کرتے ہیں۔‘‘سیمی نے بھی ترکی با ترکی جواب دیا۔

    ’’دیکھو ایک کپ چائے کے لئے اتنی چخ پخ کی ضرورت نہیں بناکر دوگی یا نہیں؟‘‘اب وہ جانتی تھی کہ اب نہ کی گنجائش نہیں۔ بڑبڑاتی ہوئی باورچی خانے کی طرف چلی آئی۔ ایک تو گرم بستر سے نکلنا، اوپر سے ناول ایسے موڑ پر تھا کہ تجسس عروج پر تھا۔موڈ تو خراب ہونا ہی تھا۔

    چائے بنا کر لائی توساجد بڑا مگن ہوکر ٹی وی پر خبریں دیکھ رہا تھا۔ سیمی کو اس کے ہر وقت نیوز چینل لگائے رکھنے سے سخت چڑ تھی۔کبھی تو انسان کچھ اور بھی دیکھتا ہے۔

    ’’وہ ساجد۔۔۔ میں کہہ رہی تھی کہ۔۔۔ ٹھہرو ذرا ایک منٹ بہت ضروری خبر آ رہی ہے۔‘‘

    ’’آپ سے تو جب بات کرو کوئی نہ کوئی خبر آرہی ہوتی ہے۔ انسان بات کب کرے؟‘‘

    ’’مجھے سننے دوگی ذرا؟‘‘

    ’’تو سنیں میں نے کون سا آپ کے کانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’یار۔۔۔ تمہاری بک بک میں پوری خبر نکل گئی اب کیا خاک سنوں؟‘‘ جھنجھلا کر ساجد نے ڈبی میں سے سگریٹ نکالا اور سلگانے لگا۔ سیمی کو بک بک والی بات پر ویسے ہی غصہ تھا، سگریٹ سلگاتے دیکھ کر اور بھی سوا ہو گیا۔

    ’’آپ جانتے ہیں نا مجھے اس کی بو نہیں پسند۔۔۔‘‘

    ’’تو کیا کروں؟ اب سگریٹ بھی نہ پیوں؟‘‘

    ’’نہیں ضرور پیئیں میرے روکنے سے کون سا آپ باز آنے والے ہیں۔ یہ تو آکسیجن ہے آپ کے لئے، لیکن یہ مہربانی کریں کہ بالکونی میں چلے جائیں۔‘‘

    ’’دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟ اتنی سخت سردی میں میں باہر چلا جاؤں۔‘‘ ساجد نے ایک لمبا کش لے کردھواں اگلتے ہوئے کہا۔اب یا تو سیمی خود اٹھ کر وہاں سے جاتی، یا دھواں اور بو برداشت کرتی۔ گرم بستر میں لیٹ کر ناول پڑھنے کا جو مزہ تھا اسے تھوڑی دیر کے دھوئیں پر قربان نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس نے اٹھ کر کھڑکی کھولی اور لیٹ کر پھر سے ناول میں مگن ہو گئی۔

    ’’لائٹ آف کرو مجھے سونا ہے۔‘‘ ساجد چائے اور سگریٹ سے فارغ ہو چکا تھا۔ اپنی طرف کا لیمپ بند کرتے ہوئے بولا۔

    ’’صرف یہ والا چیپٹر پڑھ لوں۔ بہت دلچسپ ہے اس عورت کو زنجیروں سے کیوں باندھ کر رکھا گیا تھا بس یہ پتہ چل جائے تو بند کرتی ہوں۔‘‘ سیمی جانتی بھی تھی کہ اسے اس سب میں دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ اسے اس کے فضول مشغلے گردانتا ہے۔ مگر پھر بھی اسے لگا کہ اس کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے وہ اس سے لائٹ آٖف کرنے کی ضدنہیں کرےگا۔

    ’’تم جانتی ہو مجھے صبح آفس جانا ہے اور لائیٹ مجھے ڈسٹرب کرتی ہے۔‘‘

    ’’ہاں تو آپ اپنا لیمپ آف کرکے دوسری طرف منہ کرکے سو جائیں پلیز، بس تھوڑا سا ہی پارٹ رہ گیا ہے۔‘‘

    ’’لائیٹ بند کرو یا دوسرے کمرے میں چلی جاؤ۔‘‘ ساجد نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔

    ’’اف۔۔۔ آپ بھی نا۔‘‘ اب دوسرے کمرے میں جانے کے تصور سے ہی اسے کپکپی آ گئی اس لئے ناچار اس نے لیمپ بند کیا اور خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگی۔

    یہ یا اسی طرح کی بحثیں ان کا روز کا معمول تھا اور اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ان کی شادی کو دوبرس گزر چکے تھے اوراس طرح کی چھوٹی موٹی نوک جھونک ہر وقت چلتی رہتی تھی۔ سیمی کو اب لگنے لگا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ اور مزے کی بات یہ تھی کہ ساجد کو بھی یہی گلہ تھا۔صبح دفتر جاتے ہوئے اسے بتانا پڑتا کہ شام میں وہ گھر آئے گا یا کہیں اور کا پروگرام ہے۔ اگر کوئی اور پروگرام ہوتا تو اسے بتانا پڑتا، کہاں جانا ہے، کب واپس آئےگا۔ یا جیسے ہی دفتر سے چھٹی کا وقت ہوتا وہ فون کر کے پھر کنفرم کرتی تھی کہ وہ گھر ہی آ رہا ہے یا کہیں اور جانا ہے۔ اگر اس نے کہیں اور جانا ہوتا دوستوں وغیرہ کی طرف وہ تب بھی دو تین دفعہ کال کر کے ضرور پوچھتی کب آ رہے ہیں۔اب تو اس کے کولیگز بھی اس بات سے واقف ہو چکے تھے اور اسکا مذاق بناتے کہ آ گئی ہیڈ کوارٹر سے کال۔ وہ کبھی ہنس کر ٹال دیتا اور کبھی جھنجھلا جاتا۔

    اسی طرح چھٹی کے دن بھی اسے یا تو سیمی کو لے کر اس کے میکے جانا پڑتا۔ یاخریداری وغیرہ کے لیے جو کہ وہ اسکی چھٹی آنے تک اٹھا رکھتی تھی۔

    وہ جو بھی پروگرام دیکھتا تھا۔سیمی کو بہت بور لگتے تھے۔اسی طرح سیمی کی فلمیں، ڈرامے، کتابیں ساجد کو بے کار مشغلے لگتے۔

    سیمی لیٹ کر اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ پھر اس کا دھیان ناول والی زنجیروں میں بندھی ہوئی عورت کی طرف چلا گیا۔ کس جرم کی پاداش میں اسے حویلی کے اندر زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا تھا۔ آدھے سے زیادہ ناول وہ پڑھ چکی تھی اور حویلی کے لوگ بظاہر تو بہت نرم دل اور انسان دوست دکھائے گئے تھے۔ اس پر یہ تضاد اس کے تجسس کو ہوا دے رہا تھا۔ کچھ دیر تو وہ لیٹی سوچتی رہی۔پھر اس نے مڑ کر ساجد کو دیکھا، وہ گہری نیند میں خراٹے لے رہا تھا۔ اس کے خراٹے بھی سیمی کی نیند میں ہمیشہ مخل ہوتے تھے۔ لیکن اس کے پاس اس کا حل کوئی نہیں تھا۔ اس نے سائیڈ پر ایک تکئے کی آڑ سی بنائی اور لیمپ آن کر لیا۔ لیمپ آن ہوتے ہی ساجد کے خراٹے رک گئے۔

    ’’ہوں۔۔۔ ہوں۔۔۔ بند کرو اس کو۔‘‘ گہری نیند میں وہ بڑ بڑایا۔

    سیمی نے سخت کوفت زدہ ہو کر لیمپ بند کیا۔پھر آہستگی سے اٹھی، بہت احتیاط سے الماری میں سے ایک کمبل نکالا اور ناول لے کر لونگ روم میں آ گئی۔ دروازاہ بند کر کے صوفہ پر آرام سے لیٹ کر پڑھنے لگی۔

    ’’تم تو مجھے پاگل لگتی ہو جسے نیند ہی نہیں آتی۔‘‘ ابھی اسے یہاں آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ نیند میں ڈوبا ہوا ساجد دروازے میں کھڑا کہہ رہا تھا۔

    ’’یہ وقت ہے تمہارا پڑھنے کا، صبح نہیں ہوگی کیا؟۔‘‘

    ’’ساجد میں آپ کو تو کچھ نہیں کہہ رہی ہوں، آپ جا کر سو جائیں آرام سے۔‘‘ سیمی کو اس کی اسوقت کی مداخلت سخت ناگوار گزری تھی۔

    ’’کیسے سو جاؤں؟ مجھے دروازے کے نیچے سے لائیٹ تنگ کر رہی ہے۔‘‘

    سیمی نے انتہائی بے بسی سے ناول بند کیا اور بیڈ روم میں آ گئی۔

    انسان اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کر سکتا۔ وہ لیٹتے ہوئے بڑبڑائی تھی۔

    ’’چپ کر کے سو جاؤ میرا بحث کا موڈ نہیں ہے۔ میں نے صبح دفتر جانا ہے۔ تم نے تو سارا دن بستر میں لیٹ کر ناول پڑھنے ہوتے ہیں۔ اس وقت سیمی کا دل چاہا کہ کووئی ایسا بٹن ہوتا جسے دبا نے سے ساجد گہری نیند سو جاتا اور وہ آرام سے اپنا ناول مکمل کر لیتی۔یا پھر اس کا اپنا ہی کوئی بٹن ہوتا۔ جسے دبا کر وہ ان سوچوں سے نجات حاصل کر لیتی۔‘‘

    *

    ’’سیمی ایک کپ چائے تو بنا دو۔ ‘‘

    ’’اس وقت۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ ابھی موڈ ہے۔‘‘

    ’’اوکے جان۔۔۔ ابھی لاتی ہوں۔‘‘ سیمی نے ساجد کی طرف کروٹ بدلی اور مسکراکر اسکی طرف دیکھا۔ ساجد اسے قریب پاکر اس پر جھک گیا۔سیمی نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کے بالوں میں اپنا ہاتھ پھنسایا۔ تو ساجد گہری نیند سو گیا۔ سیمی نے اس کا سر آرام سے تکیئے پر رکھا اور اپنا ناول پڑھنے لگی۔

    ’’دوسرا چینل لگاؤ، آج بہت اہم اجلاس ہوا ہے۔ ہر طرف اسی کا شور ہے۔ مجھے دیکھنا ہے۔‘‘

    ’’ساجد بہت اچھی فلم آ رہی ہے، مجھے بہت عرصے سے اسے دیکھنے کا شوق تھا۔‘‘

    ’’میں نے کہا ہے کہ یہ خبر بہت اہم ہے۔ تمہاری فلمیں تو سارا دن چلتی ہیں۔‘‘

    سیمی اٹھ کر ساجد کے قریب آئی۔

    ’’یہ لیں دیکھ لیں اپنا پروگرام۔‘‘ نرمی سے کہہ کر اس نے ساجد کے سر کو سہلایا۔ ساجد گہری نیند میں ڈوب گیا تو وہ آرام سے اپنی فلم دیکھنے لگ گئی۔ وہ جانتی تھی کہ ساجد جب اٹھےگا تو اسے وقت کا صرف ایک لمحہ گزرا ہوا محسوس ہوگا اور وہ اپنی سونے سے پہلے کی خواہش، ڈیمانڈ یا سوال بھول چکا ہوگا۔

    اس بٹن کی یہی خوبی تھی جو کہ سر میں کان کے پاس لگا ہوا تھا۔ دبانے والا غیرمحسوس انداز سے اسے دباتا تھا اور دوسرا شخص گہری نیند میں چلا جاتا تھا اور ایک مخصوص وقفے کے بعد ہوش میں آتا تھا۔یا دوبارہ اسی بٹن کو دبانے سے اور اٹھنے پر وہ سونے سے پہلے کی بات بھول چکا ہوتا تھا۔

    ’’آپ جانتے ہیں مجھے سگریٹ کا دھواں نہیں پسند۔‘‘

    ’’تو پھر ادھر چلی جاؤ۔‘‘ اور پھر ساجد گہری نیند میں سو چکا تھا۔اب سیمی کو ساجد کے خراٹے بھی ڈسٹرب نہیں کرتے تھے۔ اب وہ اتنی آہستہ سانس لیتا تھا۔ کہ بہت قریب سے سننے پر بھی مدہم سی سانسوں کی آواز آتی تھی۔

    ’’آج پارٹی میں بہت مزہ آیا، لیکن تھکن بھی بہت ہوگئی۔‘‘ وہ لوگ باہر سے آئے تھے سیمی نے جوتے اتارتے ہوئے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔

    ’’ہاں اور تم غضب کی حسین لگ رہی تھیں،سب میں نمایاں۔‘‘ ساجد اس کی طرف جھکا۔

    ’’جاؤ نا اپنی سرخ نائیٹی پہن کر آؤ۔‘‘

    ’’اف۔۔۔ ساجد سچ بہت تھکی ہوئی ہوں۔‘‘

    ’’چینج تو تم نے کرنا ہی ہے تو وہی پہن لو۔‘‘

    ’’وہ پہن تو لوں لیکن اس کے بعد۔۔۔ پلیز ساجد۔۔۔ سخت نیند آ رہی ہے۔‘‘

    ’’اگر تم سے نہ کہوں تو کسی اور سے کہوں؟‘‘

    ’’کسی اور کا سوچ کر بھی دیکھیں۔۔۔ لیکن آج نہیں بس۔۔۔‘‘ سیمی دلار سے بولی۔

    ’’فریش ہو جاؤگی مان جاؤ۔۔۔۔ ‘‘

    ’’پلیز۔۔۔ آج نہیں۔‘‘

    ’’او کے۔۔۔ ایز یو وش۔۔۔‘‘ ساجد نے قریب آکر اس کا چہرہ اس کے ہاتھوں میں تھاما اور اس کے بالوں میں سہلایا۔سیمی گہری نیند میں چلی گئی۔ اسے احتیاط سے بیڈ پر لٹا کر اس نے موبائل پر کوئی نمبر ملایا۔

    ’’ڈارلنگ۔۔۔ تم بس پندرہ منٹ انتظار کرو۔ میں آ رہا ہوں۔۔۔‘‘

    سیمی نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔

    ’’اگر کوئی ایسا بٹن ہوتا تو؟‘‘۔۔۔ اس سے آگے وہ سوچ بھی نہ سکی۔۔۔ اس نے پلٹ کر ساجد کو دیکھا۔ وہ گہری نیند میں بلند آواز میں خراٹے لے رہا تھا۔ اسے اب کوئی خواہش نہیں رہی تھی کہ ساجد کے خراٹے بند ہوں اور وہ گہری نیند سو سکے۔

    دی ونش فے (خواہش کی پری)

    ’’کاش کوئی مجھ سے میرا سب کچھ لے لے اور مجھے میرا بچپن واپس کر دے۔‘‘ پہلی بار یہ جملہ لیزانے اس وقت کہا جب وہ اپنی زندگی کی بیایس بہاریں دیکھ چکی تھی۔ اس کے بارے میں اگر کہا جاتا کہ وہ اپنی زندگی کی بیالیس بہاریں دیکھ چکی تھی تو یہ ایسا کچھ غلط بھی نہ تھا کہ ہوتے ہیں کچھ لوگ جن کی زندگی میں خزاں بھی بہار کا روپ دھار کر آتی ہے۔ جنہیں زمین پر ادھر ادھر اڑتے ہوئے زرد پتے بھی نئے موسموں کی نوید سناتے ہیں اورپیروں تلے آکر ان کے چرمرانے کی آواز میں بھی ان کو موسیقیت ملتی ہے۔

    *

    ’’بچپن۔۔۔ جانتے ہو بچپن عمر کا وہ دور ہے جب ہم کیا غلط کیا صحیح جیسی سوچ سے آزاد ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس تخیل کی ایسی دنیا ہوتی ہے کہ ہم اس میں اپنے آپ کو کسی بھی روپ میں ڈھال سکتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ہر انسان زندگی میں ایک بار یہ ضرور سوچتا ہوگا کہ کاش وہ ایک بار پھر سے بچہ بن جائے۔‘‘ کبھی جرمی اس کی اس خواہش پر اس کا مذاق اڑاتا تو وہ بہت سنجیدگی سے اسے دلائل دینے لگتی تھی۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا وہ اپنی اس خواہش کا اظہار اکثر کرنے لگی تھی۔ خاص طور سے اپنی اولاد کے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے یہ خواہش شدید ہو جاتی۔

    اپنے چھ سالہ پوتے جان کے ساتھ کھیلتے ہوئے وہ اسے اپنے بچپن کے واقعات سناتی رہتی۔

    ’’مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں نے اپنے لیونگ روم سے چھوٹا قالین کا ٹکڑا باہر لان میں بچھایا تھا اور اس پر کھڑے ہو کر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر سوچا تھا میں اڑ رہی ہوں۔ نیلے آسمان پر روئی کے گالوں جیسے بادلوں کے سفید ٹکڑے بھاگے چلے جا رہے تھے اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ٹھہرے ہوئے ہیں اور میں اڑ رہی ہوں۔‘‘ وہ یہ واقعہ بہت بار اپنے پوتے جان کو سنا چکی تھی چھ سالہ جان پرشوق انداز لئے یہ وقعہ ہر بار اتنی ہی دلچسپی سے سنتا تھا۔جب وہ اسے بتاتی کہ قالین باہر لان میں لے کر جانے پر اسے اپنی ماں سے کیسے ڈانٹ پڑی تھی تو جان کھلکھلا کر ہنس دیتا۔اور اس کے بعد وہ اس سے دوسرا واقعہ بھی سننے کی فرمائش کرتا اور وہ اتنے ہی شوق سے سنانے لگ جاتی۔

    ’’اس وقت میری عمر بالکل تمہارے جتنی تھی۔ دوپہر ایک سے تین بجے سب کے آرام کا وقت ہوتا تھا۔ جیسا کہ اب بھی ہے۔ مگر مجھے نیند تو آتی نہیں تھی اور شور کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔میں چپکے سے لان میں نکل گئی۔۔. وہاں اگی گھاس کی مٹی دیکھ کر بس ایک آئیڈیا آ گیا۔ میں نے مٹی کھودنے والی کھرپی سے لان کا ایک کونا کھود کر اس میں پانی بھر دیا۔ پھر گھاس کے ان ٹکڑوں کو اور کچھ پھول توڑ کر اس کے کنارے کنارے لگا دئیے۔ اب وہ میرا چشمہ تھا جس کے گرد پھول کھلے ہوئے تھے۔پھر میں نے دبے پاؤں کچن سے گلاس میں جوس بھرا اس میں سٹرا ڈالا لیمو ں کی ایک قاش کاٹ کر گلاس کے کنارے پر سجائی اور باہر لان میں اپنے بنائے چشمے کے پاس کرسی ڈال کر بیٹھ گئی، جوس کا ایک گھونٹ لے کر میں نے اپنی آنکھیں بند کیں اور ایک ایسی وادی میں پہنچ گئی جہاں اونچے اونچے پہاڑ ہیں جن کے درمیان وہ چشمہ تھا۔ نیلا آسمان اور دور تک پھیلی سبز گھاس ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بہت بھلے محسوس ہو رہے تھے۔‘‘

    ’’اور پھر جو ڈانٹ پڑی تھی؟‘‘ ننھا جان پر اشتیاق لہجے میں پوچھتا، اسے دادی کی کہانی میں سب سے دلچسپ حصہ یہی لگتا تھا۔

    ہاں جو ڈانٹ پڑی تھی اس کا اپنا مزہ تھا اور جانتے ہو اس وقت مجھے تمہاری طرح ہی بہت شوق ہوا کرتا تھا کی میں جلدی سے بڑی ہو جاؤں۔

    ’’ہاں دادی میرا دل کرتا ہے میں جلدی سے بڑا ہو جاؤں تاکہ جو دل چاہے کرسکوں۔ ‘‘جان نے بہت جوش سے کہا۔

    ’’بچپن میں سب کا ہی دل کرتا ہے جلدی سے بڑاہونے کو پھر بچپن کی یادیں گھیر لیتی ہیں۔ اس وقت جس وادی کی سیر کی تھی میں آج بھی آنکھیں بند کروں تو اس منظر کو دیکھ سکتی ہوں،‘‘ دادی نے زیر لب کہا۔

    بچپن کی باتیں، وہ یادیں اور انھیں واپس پا لینے کی خواہش وقت گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوئی تھی بلکہ شدید تر ہوتی جا رہی تھی۔وہ اپنے بچوں کو ان کے بچوں کو کبھی ڈانٹنے نہیں دیتی تھی۔اسے بچوں کی یہ شرارتیں بہت دلچسپ لگتی تھیں اور وہ ان کے ساتھ ان میں شامل ہوتی تھی۔دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھی اور کل ملا کر اس کے آٹھ بچے تھے۔ مگر سب سے چھوٹے بیٹے کے بیٹے جان میں تو جیسے واقعی اس کی جان اٹکی ہوئی تھی۔جان بھی دادی سے بہت مانوس تھا اور اس کے ساتھ مختلف کھیل کھیلنے کے ساتھ ساتھ اس کی کھلونا ٹیب میں میموری گیم بھی بہت شوق سے کھیلتا تھا، جس میں دو کارڈز کو الٹا کر یاد رکھنا ہوتا ہے پھر ان کارڈز کے جوڑے ملانے ہوتے ہیں، جس کے زیادہ جوڑے بن جاتے وہ جیت جاتا تھا، لیزانے کبھی اس کا دل رکھنے کے لئے جان بوجھ کر ہارنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ پورا مقابلہ کرتی اور جیت جانے پر بھر پور خوشی کا اظہار کرتی۔ جسے دیکھ کر جان جب کہتا دیکھنا دادی اگلی بار آپ کو جیتنے نہیں دوں گا ہرا کر ہی چھوڑوں گا تو لیزا کھلکھلا کر ہنستی اور اسے چیلنج کرتی نہیں تم مجھ سے جیت ہی نہیں سکتے،اس طرح جیتنے کے شوق میں جان کا جوش بڑھ جاتا اور وہ اور زیادہ ذوق و شوق سے کھیلنے لگ جاتا۔

    وہ سب ایک ہفتے کے لئے پیرس جا رہے تھے۔ جان اور لارا کو ڈزنی لینڈ دیکھنا تھا اور انہوں نے چھ ماہ پہلے ہی سارا پروگرام طے کر کے بکنگ کروا لی ہوئی تھی، جرمی اور لیزا کی شادی کی گولڈن جوبلی کی خوشی میں تمام بچو ں نے مل کر یہ ٹرپ اپنے ماں باپ کو تحفہ کیا تھا۔

    پیرس۔۔۔ روشنیوں اور خوشبو وں کا شہر۔۔۔ڈزنی لینڈ۔۔۔خوابوں کی دنیا۔۔۔ چھوٹے بڑے ہر عمر کے انسان کی دلچسپی کا سامان جہاں موجود تھا۔ لیزا یہاں پہلے بھی دو تین بار آ چکی تھی۔ ہر بار ایک انوکھا احساس۔۔۔ بچپن کی کہانیاں وہ سب یادیں۔۔۔ اسے یہ سب بہت خوبصورت لگتا تھا۔

    پنوکیو کی رائڈ کے پاس کھڑی وہ خواہش کی پری (die w252nschfee) جس نے چاندی رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔ سر پر چاندی کا تاج اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی وہ اسٹک۔۔۔ جسے گھماکر وہ خواہش پوری کرتی تھی۔۔۔ لیز ا مبہوت سی ہو کر اسے دیکھے گئی۔ اس نے اس لباس میں بہت سی لڑکیوں کو دیکھا تھا۔ مگر اس بار جو لڑکی وہاں کھڑی تھی۔۔۔ وہ واقعی آسمان سے اتری ہوئی پری ہی لگ رہی تھی۔ جان نے دادی کے ساتھ مل کر پنوکیو کی رائڈ لینے کے بعد اس پری کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بنوائی۔

    ایک تو جگہ نئی تھی اس پر لیزا شروع سے ہی نیند کے معاملے میں چور تھی۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا۔ جرمی گہری نیند سو رہا تھا، وہ آہستگی سے اٹھی۔ تاکہ اپنے ہینڈبیگ میں سے کتاب نکال سکے۔اس نے کتاب نکالی تو ساتھ ہی دوپہر میں جان کے ساتھ بنوائی ہوئی تصویر بھی نکل آئی۔ اس نے کتاب کوکھڑکی کے پاس پڑے میز پر رکھا اور کرسی پر بیٹھ کر تصویر کو غور سے دیکھنے لگی۔

    بچپن۔۔۔ کتنا خوبصور ت ہے۔۔۔ کسی نے اگر اسے دیکھنا ہے تو جان کی آنکھوں میں دیکھے۔۔۔ خوشی جوش۔۔۔ مسکراتی ہوئی آنکھوں میں تجسس اور حیرت بھی۔۔۔ ہر قدم نئی کہانی۔۔۔نئے راستوں پر اٹھتے ہوئے نئی منزلوں کی طرف بڑھتے ہوئے قدم۔۔۔ اس نے ہلکے سے لبوں کو جان کے گال پر رکھا۔ پھر وہ اس لڑکی کو غور سے دیکھنے لگی۔ کس قدر معصوم اور خوبصورت لڑکی ہے۔۔۔ بالکل بچپن کی خواہشوں جیسی۔۔۔

    ’’کیا خواہش کی پری ہوتی ہے؟؟ اگر واقعی ہوتی تو ایسی ہی ہوتی۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھتی گئی۔‘‘

    اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ صاف آسمان پر روشن ستارے۔۔۔ چاند نہ ہونے کی وجہ سے آج ان کی چمک کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی تھی۔

    ’’ایسے ہی کوئی تارا ٹوٹتا ہے۔۔۔ جو خواہش کی پری کے روپ میں ڈھل کر لوگوں کی کھڑکیوں سے داخل ہوتا ہے۔۔۔ ان سے ان کی خواہشیں پوچھتا ہے۔۔۔ اگر مجھے ایسی پری مل جائے تو میں کیا مانگوں گی؟۔۔۔ ایسا کیا ہے جو میرے پاس نہیں ہے؟‘‘ وہ آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھتے ہوئے سوچ میں گم تھی۔

    ’’میرا بچپن۔۔۔ ہاں اگر ایسی کوئی پری ہوتی۔۔۔ وہ مجھ سے میری خواہش پوچھتی تو اس سے میں اپنا بچپن واپس مانگ لیتی۔ بدلے میں اگر وہ مجھ سے میرا سب کچھ بھی مانگ لے تو میں دے دوں۔‘‘

    وہ زندگی کے اس پڑاؤ پر تھی جہاں اگر اس نے کہا تھا ’’سب کچھ‘‘ تو اس سب کچھ میں بہت کچھ تھا ایک مکمل اور بھر پور زندگی اور وہ اپنی مکمل زندگی دے کر دوبارہ اپنا بچپن پانا چاہتی تھی۔

    آسمان پر ایک ستارہ بہت روشن بہت چمکدار تھا۔ وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتے ہوئے گہری سوچ میں گم تھی۔

    ستارہ بڑا ہونے لگا۔۔۔ اور بڑا اور بڑا۔۔۔ اس ستارے کے پیچھے چاندی کی اسٹک بھی اب نمایاں نظر آنے لگی تھی اور پھر وہ خوبصورت وجود جسے آج دوپہر میں دیکھ کر اس نے سوچا تھا کہ یہ واقعی آسمان سے اتری ہوئی پری ہی ہے۔

    ’’کو ن ہو تم ؟‘‘ لیزا ا جانتی تھی وہ کون ہے مگر پھر بھی پوچھ بیٹھی۔

    ’’میں خواہش کی پری ہوں۔‘’ اس کی آواز بھی اس کی طرح حسین تھی۔ اس کی مسکراہٹ میں فرشتوں جیسی معصومیت، بچوں جیسی شوخی تھی۔

    ’’مگر۔۔۔ تم ہو ؟۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ کیا واقعی تم۔۔۔؟؟‘‘ لیزا کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا پوچھے، یا وہ شاید جانتی ہی نہیں تھی کہ وہ کیا پوچھنا چاہتی ہے۔

    ’’ہاں میں ہوں۔۔۔ میں واقعی خواہش کی پری ہوں اور آپ کی کوئی بھی ایک خواہش پوری کرنے آئی ہوں۔‘‘ پری کی دلفریب مسکراہٹ سے لیزا کو حوصلہ ہوا۔

    ’’تو کیا تم میری کوئی بھی خواہش پوری کر سکتی ہو؟ ‘‘

    ’’ہاں کوئی بھی ایک خواہش۔۔۔ اس کے بدلے آپ کو بھی کچھ دینا ہوگا۔‘‘

    ’’تم میرا سب کچھ لے لو۔۔۔اور۔۔۔ ‘‘

    ’’اور؟۔۔۔ کہیں آپ کو کیا چاہیے؟۔ ‘‘

    ’’اور میرا بچپن مجھے دے دو۔ کیا ایسا ممکن ہے؟‘‘

    ’’ہاں یہ ممکن ہے۔۔۔ اس کی کچھ شرطیں ہونگی۔۔۔ جیسا کہ آپ نے کہا کہ میں آپ سے آپ کا سب کچھ لے لوں۔۔۔ تو ہر شخص جو چیز پہلی بار میں کہتا ہے وہ وہی دینے کا پابند ہو جاتا ہے۔ اب اسے آپ تبدیل نہیں کر سکتیں۔’’ بےشک خواہش کی پری کا لہجہ ٹھوس تھا مگر اس کے چہرے پر اتنی ملاحت اور آواز میں اتنی نرمی تھی کہ لیزا سحر زدہ سی ہوکر اسے سن رہی تھی۔

    ’’دوسرے یہ کہ آپ اپنے بچپن میں واپس ضرور جائیں گی لیکن آپ کے ذہن کے ایک حصے میں آپ کے موجودہ دور کی یادیں محفوظ ہوں گی، یعنی کہ بچپن میں ہوتے ہوئے بھی آپ کو اپنے شوہر، اہنی اولاد اور ان کے بچوں کے متعلق سب یاد رہےگا۔‘‘ لیزا اس کی بات سنتے ہوئے اس کا جائزہ بھی لے رہی تھی۔ اس کا لباس ایسا تھا جیسے چاندی کے تاروں سے بنایا گیا ہو۔ جس پر لگے ستاروں کی چمک آنکھوں کو خیرہ کرنے کی بجائے ایک خوش کن تاثر پیدا کر رہی تھی۔ اس کے چہرے پر بچوں جیسی معصومیت تھی اور بولتے ہوئے اس کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ سجی ہوئی تھی۔

    ’’تیسرے یہ کہ آپ جب اپنے بچپن میں چلی جائیں گی تو واپس اپنی اس زندگی میں نہیں آسکیں گی، جو کچھ بھی زندگی میں اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کیا ہے اس سب کے لئے آپ کو دوبارہ محنت کرنا ہوگی۔ بتائیں منظور ہے۔؟‘‘ پری نے بہت پیار سے جیسے کسی بچے کو سمجھاتے ہیں تمام تفصیلات اسے بتائیں۔ لیزا سحر زدہ سی اسے دیکھنے میں ایسی مگن تھی کہ اس کے سوال پر چونک اٹھی۔

    ’’ہاں مجھے منظور ہے۔۔۔‘‘ لیزاا نے سوچنے کے لئے ایک سیکنڈ کی تاخیر نہیں کی۔ جیسے اگر اس نے فوراً ہاں نہ کہا تو پری غائب ہو جائےگی۔

    ’’تو پھر تیار ہو جائیں۔۔۔‘‘ پری نے چھڑی گھمائی۔

    اگلے ہی پل وہ پری غائب ہو چکی تھی۔۔۔ پیٹرا اپنے گھر میں اپنے ہی بنائے ہوئے چشمے کے پاس کھڑی تھی۔۔۔ چشمے کو دیکھتے ہی اسے سب سے پہلا خیال جان کا آیا، اب میں جان کو دکھا سکتی ہوں جو چشمہ میں نے بنایا تھا۔ وہ یہ سوچ کر اندر کی طرف بھاگی۔ اس نے وہی فراک پہنا ہوا تھا جو پہلے پہنا کرتی تھی۔ اس کا سب سے زیادہ پسندیدہ فراک تھا۔

    اندر بالکل خاموشی تھی۔ اس کے ماں باپ دونوں سو رہے تھے۔ مگر جان کہیں نہیں تھا۔

    ’’سب کچھ میں۔۔۔ میرے بچے میرا شوہر میرے پوتے پوتیاں بھی تو شامل تھے۔۔۔ ایک پل کے لئے اس نے حسرت سے سوچا مگر دوسرے ہی لمحے یہ خیال کہ وہ یہ سب دوبارہ پالےگی اسے سکون دے گیا۔‘‘

    ’’کاش مجھے اپنی اگلی زندگی کے متعلق کچھ یاد نہ ہوتا تو میں اپنے اس بچپن سے زیادہ بہتر طریقے سے لطف اندوز ہو سکتی تھی۔۔۔ لیکن نہیں پھر تو میرا یہ بچپن بھی میرے پہلے بچپن جیسا ہی ہوتا۔‘‘وہ سوچوں کے تانے بانے بنتی گھر کے اندر برامدے میں چلی آئی۔

    ’’اس بار میں زیادہ بہتر طریقے سے زندگی گزار سکوں گی اور وہ غلطیاں جن کے بارے میں میں سوچا کرتی تھی کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ان کو نہیں دہراؤں گی۔ مگر اپنا بچپن واپس پا کر اس سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہونے کے لئے ضروری ہے کہ میں باقی سب کچھ بھول جاؤں۔‘‘ لیزا برآمدے میں لگے شیشے میں اپنے سراپا کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ جس میں وہ چھ برس کی معصوم سی بچی نظر آ رہی تھی۔ سرخ فراک جس پر سفید پھول بنے ہوئے تھے۔سر پر سلیقے سے بنی ہوئی دو چوٹیاں جن میں سرخ اور سفید ربن بندھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر آئینے میں خود کو دیکھتے رہنے کے بعد وہ اپنے کمرے کی طرف آ گئی۔ اس کا ایک الگ کمرہ تھا۔ جسے کنڈر زمر (بچوں کا کمرہ) کہا جاتا تھا۔ یہ کمرہ بھی اس کے ماں باپ کی اپنی اکلوتی بیٹی کے لئے محبت ان کے سلیقے اور نفاست کی گواہی دے رہا تھا۔ اس نے اپنے کمرے کو دیکھ کر ایک گہری سانس لے کر سر کو جھٹکا۔ یوں جیسے دماغ سے کچھ جھٹک دینا چاہتی ہو۔ پھر وہ کمرے کے اندر داخل ہو گئی۔

    ایک دراز کو کھول کر اس نے اس میں سے کچھ کارڈز نکال کر میز پر رکھے، پھر ایک ٹیڈی بئیر جس کی جسامت خود اس کے برابر تھی۔ اسے اٹھا کر اپنے سامنے پڑی کرسی پر رکھا اور خود دوسری کرسی پر بیٹھ گئی۔ اب اس نے ان کارڈز کو ایک ترتیب سے میز پر لگانا شروع کر دیا۔ اس کام سے فارغ ہو کر اس نے اپنے ٹیڈی بئیر کو دیکھا۔ ‘‘ٹیڈی۔۔۔ پہلی باری تمہاری کیونکہ کل پہلی باری میں نے لی تھی۔‘‘ پھر اس نے جیسے ٹیڈی بئیر کے جواب کا انتظار کیا اور اٹھ کر اس کی کرسی کے پاس آ گئی۔ اپنے دونوں بازو ٹیڈی کے گرد پھیلا کر اس نے دو کارڈز اٹھائے ان کو دیکھا اور الٹا کر رکھ دئیے۔ پھر وہ واپس اپنی جگہ پر آ گئی اور ٹیڈی کی طرف دیکھا۔ ’’تم جانتے ہو نا میں کبھی جیتنے کے لئے وہ پتے نہیں اٹھاتی جو تم نے اٹھائے تھے۔ یہ دیکھو۔ ان میں سے ایک وہی ہے جو تم نے پہلے اٹھایا تھا۔ پھر اس نے کارڈز الٹا کر رکھ دئیے۔‘‘

    ’’یہ دیکھو میرا ایک جوڑا بن بھی گیا۔‘‘ وہ ٹیڈی بئیر کی آواز میں بولی۔اور اسی طرح ایک دفعہ وہ ادھر آتی اور ایک دفعہ ٹیڈی کی طرف جا کر کارڈز اٹھاتی۔ مگر تھوڑی دیر بعد ہی اسے اکتاہٹ سی محسوس ہونے لگی۔ اسے حیرت ہوئی۔ کیونکہ یہ تو اس کا بہت پسندیدہ کھیل تھا اور جب تک سارے کارڈز ختم نہ ہو جاتے وہ کھیلتی رہتی تھی۔ اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ اکیلی کھیل رہی ہے۔ اپنے ٹیڈی کو اس نے کبھی بھی ایک عام سا کھلونا نہیں سمجھا تھا۔ مگر اب جیسے لاشعور میں کہیں ٹیب کی اسکرین پر متحرک انگلیاں اور ایک چھ سالہ بچے کی کھلکھلاہٹیں گونج رہی تھیں۔

    وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلی آئی۔ ماں باپ کے کمرے میں سے اسے باتوں کی آواز آ رہی تھی۔ جس سے اسے اندازہ ہوا کہ وہ اٹھ چکے ہیں۔ وہ حسب عادت ان کے درمیاں جا کر لیٹ گئی اور ایک ایک ہاتھ دونوں کے گالوں پر رکھ کر کنڈر گارٹن میں سیکھی ہوئی ماں باپ کے بارے میں نظم گنگنانے لگی۔

    ’’اور جب تم بوڑھے ہو جاؤگے۔۔۔‘‘ ان الفاظ کے ساتھ ہی جیسے کچھ یاد آنے لگا تھا اور ایک گہری اداسی نے اس کے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ کچھ بھی سوچنا نہیں چاہ رہی تھی۔

    ’’پاپا چلیں نا آپ نے کہا تھا سو کر اٹھ کر آئس کریم کھلانے لے کرجائیں گے۔‘‘ اس نے جیسے ہر قسم کی سوچ سے خود کو چھڑایا۔

    ’’ہاں چلتے ہیں پہلے میں کافی پی لوں۔۔۔‘‘

    ’’پرامس نا پاپا ؟۔۔۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ ہاں پرامس۔۔۔ تم جانتی ہو تم سے کیا ہوا وعدہ میں ہمیشہ پورا کرتا ہوں۔‘‘ کلے نے اس کے گال پر چٹکی بھری۔

    ٓ

    آئس کریم کیے ٹھیلے کے پاس کھڑے ہو کر وہ اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ جہاں سفید گاؤن پہنے ہوئے ایک آدمی ہاتھوں سے تیز تیز ہینڈل گھما رہا تھا۔ اسے آج یہ انتظار بہت زیادہ محسوس ہوا۔۔۔ ایک بٹن۔۔۔ اور گھررر کی آواز کے ساتھ کون بھر جاتی تھی۔ اس آدمی نے ہینڈل گھمانا روک کر اب پیالے میں جمع ہوئی آئس کو ایک چمچ سے اکٹھا کیا اور ایک کون میں بھر کر اس سے آگے کھڑے بچے کو مسکرا کر دیکھا۔ سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں والا وہ لڑکا تقریبا اس کا ہم عمر ہی تھا۔اس کی آنکھوں میں جو چمک لہرائی تھی اور منہ میں آئے ہوئے پانی کی جیسے اس نے واپس اندر کھینچا۔۔۔ ایک شبیہہ سی اس کے ذہن کے پردے پر نمودار ہوئی۔ اس نے جلدی سے سر جھٹک کر اپنی ساری توجہ اس آدمی پر مرکوز کر دی جو اب دوبارہ سے تیز تیز ہینڈل گھما رہا تھا۔ اب اس کی باری آنے والی تھی۔

    اس نے آئس کریم لے کر لاشعوری طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا۔

    ’’تم میری بادام والی چکھو میں تمہاری آم والی چکھتی ہوں۔‘‘ یہ جملہ اس کے کانوں میں گونجا۔ جان کی آئس کریم میں سے چکھنا اور اسے اپنی چکھانا اسے بھی بہت پسند تھا اور جان بھی یہ بہت شوق سے کرتا تھا۔ مگر اب وہاں کوئی نہیں تھا۔ اب آئس کریم میں وہ ذائقہ نہیں رہا تھا اس نے آدھی کھا کر باقی ماں کو دے دی۔ کلے بہت حیرت سے اسے دیکھنے لگاتھا وہ تو کبھی ایک آئس کریم سے مطمئن نہیں ہوتی تھی آج ایک بھی پوری نہیں کھائی۔

    وہ لوگ رات کا کھانا کھا کر فارغ ہو چکے تھے واس کی ماں اسے لے کر کمرے کی طرف آئی اور بستر میں لٹا کر ایک کہانی کی کتاب کھول کر پڑھ کر سنانے لگ گئی۔ کہانی سنا کر اس نے اس کے ماتھے پر پیار کیا اس کی چادر ٹھیک کر کے شب بخیر کہا اور کمرے سے نکل گئی۔

    لیزا اس کے جانے کے بعد سیدھی ہو کر دونوں ہاتھوں کو سر کے نیچے رکھ کر چھت کو گھورنے لگی۔ جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے بے شمار ستارے لگے ہوئے تھے، کمرے کے عین درمیان میں ایک بڑا سا چاند بھی تھا۔یہ سب اندھیرے میں خوب چمک رہے تھے۔

    ’’ہر انسان کا گزرا ہوا وقت اسے کچھ اچھی کچھ بری یادیں دے کر جاتا ہے۔ ان اچھی یادوں کو لے کر کبھی کبھی ہم خواہش کرنے لگتے ہیں کہ کاش وہ وقت ہمیں واپس مل جائے۔ لیکن ہمیں واپس ملنے پر بھی کیا ہم اسے اسی طرح گزار پاتے ہیں جیسی ہم خواہش کرتے ہیں؟‘‘ اس وقت وہ چاہ کر بھی خود کو ان سوچوں سے چھڑا نہیں پا رہی تھی۔

    ’’خواہش کی پریاں۔۔۔ اگر ان ستاروں میں بسا کرتیں اور ہم زمیں پر رہنے والوں کو مل بھی جایا کرتیں تو کیا ہر پوری ہو جانے والی خواہش ہمیں اپنے تکمیل پر وہ خوشی دے سکتی تھی جس کے لئے ہم نے یہ خواہش کی تھی؟ اگر ایسا ہے تو وہ خواہش جس کے لئے میں نے اپنا سب کچھ دے دیا۔ مجھے وہ خوشی کیوں نہیں دے پائی۔۔۔ جس کے لئے میں کئی برسوں سے منتظر تھی۔۔۔ اور جس کا بار بار اظہار بھی کیا۔ کیا کمی ہے؟ کیسا خالی پن ہے؟‘‘ کمرے کی چھت ہر ٹکے ہوئے سب سے بڑے ستارے پر نظریں جمائے وہ خود سے پوچھ رہی تھی۔

    ‘‘دادی۔۔۔ دادی۔۔۔ آپ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سو گئی تھیں۔۔۔ ہا ہا ہا ہا ہا ننھا جان کھلکھلاکر ہنس رہا تھا۔‘‘

    لیزا نے مندی مندی آنکھوں سے اسے دیکھا۔ اس کی گود میں وہ تصویر پڑی تھی اور میز پر کتاب۔۔۔ اس نے جھٹ سے آنکھیں کھول کر اسے یوں دبوچ لیا جیسے ایک سیکنڈ کی تاخیر سے وہ اس سے دور ہو جائےگا۔

    ’’ہم اپنا بچپن ایک ہی بار جی سکتے ہیں دوبارہ مل بھی جائے تو وہ بات نہیں ملتی۔۔۔ ہاں یہ ہے میرا بچپن مجھے اس میں جینا ہے اس میں پانا ہے۔‘‘ اس نے ننھے جان کو سینے سے لگائے ہوئے طمانیت بھری گہری سانس لی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے