Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اگلا جنم

احمد ہمیش

اگلا جنم

احمد ہمیش

MORE BYاحمد ہمیش

    ایک سطحی سورج چار ارب آدمیوں اور ان کے جانوروں پرندوں کیڑوں اور نبادات پر چمکتا آ رہا ہے۔ ڈھیروں سطحی سورج میکانکی تناسبوں پر ٹمٹما رہے ہیں، یہاں تک کہ دن ختم ہوتا ہے۔ ختم نہیں ہوتا معنی بدل جاتے ہیں۔ رات کوئی تبدیلی نہیں۔ رات کے معنی ان گنت احمقوں کی نیند ہے کیونکہ اس عرصے میں دنیا کے چند منجھے ہوئے کارندے زمین کے کرسٹ کو گھورتے ہیں۔ یہ کرسٹ ان کے لئے کارآمد ہے۔ صدیاں کلرکوں کے نام سے ملتی جلتی رجسٹرڈ ہیں۔ کرسٹ صرف پٹرول سے صاف ہو سکتا ہے جب تک پٹرول باقی ہے، مستقبل بڑے کام کی چیز ہے۔ یہ ہم کہہ رہے ہیں یہ ان لوگوں نے نہیں کہا تھا۔

    وہ لوگ کہہ رہے تھے، ڈھبریوں اور لالٹینوں سے ایشیائی پیغمبروں کی یادیں باقی تھیں۔ اس کے بعد بچے جرسی اور خاکی نیکر پہنے ہوئے فیلڈ میں دوڑ رہے تھے۔ فٹ بال مضبوط اور خوبصورت تھا۔ بوڑھوں کا دھیان شام کی طرف تھا۔ شام ان کو پن چکی کی آواز سنوائےگی۔ گاؤں کی مٹی کالی تھی آٹا سفید تھا۔ آواز سے آٹا پسواکر جب بوڑھے لوٹ رہے ہوں تو ان کی عمریں ختم ہو چکی ہوں گی۔ ڈھبریوں اور لالٹینوں کے شیشوں میں دھواں بھر گیا ہوگا اور ان کی سرخ سیاہ تمتماہٹ پر سفید کپڑے پہننے والی عورتوں کے اداس چہرے جھکے ہوں گے کہ انکے مرد ہبچھڑ گیے، ان کوزبردستی لے جایا گیا، ورنہ وہ انکو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتے تھے۔ یہ موت کی ڈپلومیسی تھی۔ اس نے لاکھوں لوگوں کو ایک مٹی سے دوسری مٹی کی طرف ہنکانے کا کام کیا۔ اس نے زندگی کی ندی پر کنٹرول کرنے کا دعویٰ کیا۔اس نے ان لوگوں کو ریت اور راکھ سے پاٹ دیا جو بہت کچھ کہہ رہے تھے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ وہ کچھ نہیں کہیں گے۔ پہاڑوں سے برف اتاری گئی۔ اس میں کچھ بلند نام تھے۔ انہیں جما دیا گیا۔ پہاڑ فراڈ تھے یا برف یا ان کے نیچے پھیلے ہوئے میدانوں کے افق فراڈ ہوں گے پھر دریا، جھیل، ریگستان، جنگل سب فراڈ ہو گئے۔ اس لئے کہ ہمیں برف کے کارندوں کو دیکھنا تھا۔ کارندے پہلے بھی برف تھے اور بھی برف ہوتے گئے۔ اب فراڈ افق آبادیوں پر باقی ہیں یا گہرے کھڈ جو تمام پچھلے افقوں کی یادگار ہیں۔ جب جب آدمیوں، جانوروں، کیڑوں اور درختوں پر موت آئی ان کے اپنے اپنے حصے کے افق کھڈ بن گئے۔ ایک کھڈ کے کنارے ہم کھڑے تھے۔ کھڈ میں شور ہو رہا تھا اس میں سے شانتی کا ایک چہرہ نکلا۔ بہت گمبھیر تھا۔ وہ کچھ دیر کے لئے ابھرا، ہم نے اسے دیکھا دنیا بھر میں اسے دیکھا گیا مگر ہمارے لئے وہ اوجھل ہو گیا۔ کیا وہ میں تھا یا میرا اگلا جنم!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے