Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اجل ان سے مل

تسنیم منٹو

اجل ان سے مل

تسنیم منٹو

MORE BYتسنیم منٹو

    جب رابعہ پہلے پہل ان سے ملی تھی تو بے حد خوف زدہ اور رونکھی ہو رہی تھی۔ سب چہرے اپنے آپ میں فٹ، لیکن آنکھوں میں وحشت، بے گانگی اور ہنسی میں طنز تھا۔ وہ سب کے سب اسے فالتو لگے۔ ایک بے معنی زندگی نے انہیں دبوچ رکھا ہے، اس نے سوچا تھا، لیکن پھر اپنی دوست شاہدہ کے اصرار پر وہ یہاں اکثر آنے لگی تھی۔ شروع شروع میں رابعہ یہاں آکر گھبراتی تھی اور اگر کوئی اسے چھو بھی جاتا تو وہ خوف زدہ ہو جاتی۔ لیکن آہستہ آہستہ اسے یہاں آنا دل دلچسپ لگنے لگا تھا۔ یہاں اس کیلئے مشاہدات کا ایک جہان آباد تھا۔ اس نے یہاں کے مکینوں سے خود ہی ربط اور تعلق بڑھایا اور محبت پائی۔ وہ سوچتی کہ یہ نفوس جو خود سے، اپنی ذات سے لاپتہ ہوئے اور جو اپنے اپنے مسکنوں سے اسی عالم بے خبری میں اس جگہ لا کر رکھ دیے گئے ہیں، یہ سب ان کے کس گناہ کی سزا ہے۔ نہ معلوم کہ یہ سب حالات کی کن کھٹنائیوں سے گزرے اور عافیت کی تلاش میں یہ جگہ ان کا مسکن بن گئی۔

    یہ گئے سال کی آخری رات ہے۔ رابعہ اور شاہدہ ایک چھوٹے سے کلچر ل پروگرام کی ریہرسل کروا کر فارغ ہوتی ہیں۔ یہ پروگرام رابعہ اور شاہدہ کے فرزانوں کی تخلیق ہے اور وہی سب اس پروگرام کو پیش بھی کریں گے۔

    دونوں دوست ایک نظر سجے ہوئے سٹیج اور ہال پر ڈالتی ہیں۔ دونوں خوش اور مطمئن ہیں۔ شاہدہ رابعہ کا ہاتھ پکڑتی ہے اور کہتی ہے،

    ’’چلو نئے بلاک کا راؤنڈ لگا کر آتے ہیں۔ تب یہ سب کھانا کھانے سے فارغ ہو جائیں گے۔‘‘

    ہلکی ہلکی بارش اور گھنے بادلوں میں دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے بارش سے بچتے بچاتے نئے تعمیر شدہ بلاک میں داخل ہوتی ہیں۔ ابھی اس بلاک کا فقط ایک کمرہ اپنے مکین سے آباد ہوا ہے۔

    کمرے میں لگے بلب کی ہلکی روشنی میں تین خواتین صوفے پر بیٹھی نظر آئیں۔ وہ تینوں اپنے حلیئے، خدوخال اور لباس سے خوش حال گھرانے کی دکھائی دیتی تھیں۔ رابعہ اور شاہدہ کو دیکھ کر خواتین رسماً مسکرائیں۔ تیسری خاتون نے جو کھڑکی کے پاس والی کرسی پہ بیٹھی ہوئی تھیں، رابعہ اور شاہدہ کو بغور دیکھا۔ دوسری دونوں خواتین نے انہیں ادارے سے وابستہ ڈاکٹر سمجھا۔ انہوں نے کھڑکی کے قریب بیٹھی خاتون کی جانب دیکھا اور بولیں،

    ’’یہ ہماری خالہ ہیں۔ یہ قطعاً بیمار نہیں ہیں۔ بس گزرا وقت، اس وقت کی باتیں، وہ دوست، احباب، کالج، یونی ورسٹی اور اس کے بعد کا گزرا تمام عرصے کا ذکر ہر وقت ان کے لبوں پر رہتا ہے۔‘‘

    ’’کیا یہ تنہا ہیں؟‘‘ شاہدہ نے پوچھا۔

    ’’نہیں یہ ایسی کچھ تنہا بھی نہیں ہیں۔ کبھی یہ میرے پاس ہوتی ہیں، کبھی دوسری بہن کے پاس اور ہم دونوں کے گھر میں بہت چہل پہل ہے۔ لیکن ان کا اصرار ہے کہ یہ تنہا ہیں۔‘‘

    ’’ہاں کچھ لوگ صرف اپنی ذات کے حوالے اور پیمانے سے دوسروں کو پہچانتے ہیں۔ ان کے بنتے ہیں یا ان کو اپنا بناتے ہیں۔ جہاں یہ حوالہ اور پیمانہ ان کو دستیاب نہیں ہوتا وہاں احساس محرومی کا حصار ان کے گرد گھیرا تنگ کرتا چلا جاتا ہے۔‘‘

    ’’ہاں تو! کیوں جی، آپ کو کیا یاد آتا ہے؟‘‘

    شاہدہ نے اس خوب رو خاتون سے دوستانہ لہجے میں بات کرنا چاہی۔

    ’’ہاں۔۔۔ یاد آتا ہے۔۔۔ بہت کچھ یاد آتا ہے۔۔۔ سب کچھ یاد آتا ہے۔۔۔ نہ معلوم کیوں یاد آتا ہے۔۔۔ میں تو کسی کو بھی یاد نہیں کرتی۔‘‘

    آخری جملے پہ خاتون کی آواز بھراسی گئی اور وہ اپنی کلائی کے گنبد نما ڈیزائن والے کنگن کو گھمانے لگیں۔ جس ہاتھ سے وہ کنگن گھما رہی تھیں اس کی تیسری انگلی میں سفید نگوں والی خوب صورت انگوٹھی تھی۔ شاہدہ نے صورتِ حال کو ملول ہوتے محسوس کیا تو فوراً بات کا رخ بدلا۔

    ’’چلو! رابعہ پروگرام شروع ہو چکا ہو گا۔۔۔ پلیز جلدی کرو۔ ذرا بھاگ لو نا!‘‘

    ’’دیکھو شاہدہ اگر پروگرام نے طول کھینچا تو میں بیچ میں اٹھ جاؤں گی۔ میں نے علی الصبح پانچ بجے کی فلائیٹ سے جانا ہے۔‘‘

    ’’ہاں بھئی معلوم ہے کہ تم بیٹی کے پاس امریکا جا رہی ہو۔ لگتا ہے بش تمہارا کزن ہے جو اس شوق سے جا رہی ہو۔ شاہدہ نے رابعہ کو چھیڑا۔‘‘

    ’’بہار ہے بھی اور نہیں بھی عجیب سناٹا اور اداسی سی ہے۔‘‘

    شاہدہ نے اپنے آفس میں بیٹھے بیٹھے گویا اپنے دل سے بات کی۔ ایک لمبی جمائی لی۔ ہاتھ بڑھا کر میز کے دوسرے کونے پہ رکھی فائل کو اپنی جانب گھسیٹا اور خود سے بولی،

    ’’اس کام کو تو میں آج نبٹا ہی لوں تو اچھا ہے۔‘‘

    رابعہ گیٹ میں داخل ہوئی تو تذبذب میں بھی تھی کہ دائیں جانب مڑے یا بائیں طرف پہلے جائے۔ دائیں جانب سے بہت زور سے ناخوش گوار آوازیں اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ اس نے بائیں جانب ہی جانا مناسب سمجھا۔ شاہدہ کے دفتر کی طرف جاتے چھوٹے سے راستے میں رنگ برنگے پھول کھلے تھے لیکن فضا کی ذرا سی تپش میں رابعہ کو جھکے جھکے پھول ایسے لگے جیسے خمار میں کوئی اپنی قامت کو کوتاہ کر لے اور وجود اور شخصیت کی ایستادگی کو کھو دے۔ شاہدہ کی کرسی کے پیچھے والا دروازاہ کھٹ سے کھلا اور کھلکھلاتی ہوئی رابعہ شاہدہ کے گلے لگ گئی۔

    ’’تم کب آئیں؟ کیوں ؟ امریکا میں دل نہیں لگا؟ کوئی فون شون بھی نہیں کیا!‘‘

    ’’بس میں نے سوچا دو ایک روز میں خود ہی ملاقات ہو جائے گی۔ رہی دل لگنے کی بات تو میرا دل سوائے اپنے گھر کے کہیں نہیں لگتا۔ لیکن تم کچھ بجھی بجھی سی کیوں ہو؟‘‘

    ’’کچھ نہیں یار! بس موسم ذرا بدل رہا ہے نا!‘‘

    شاہدہ نے آنکھیں چراتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’تو گویا موسم بدلا رت گدرائی۔۔۔!‘‘

    ’’نہیں یار! اپنی زندگی میں ایسے موسم کب آتے ہیں۔ البتہ اہل جنوں سے اپنا رابطہ برسوں سے استوار چلا آ رہا ہے!‘‘

    شاہدہ نے خواہ مخواہ کاغذوں کو الٹ پلٹ کیا۔

    ’’فرزا نے اچھے ہیں؟‘‘

    رابعہ نے پوچھا۔

    ’’ہاں جتنے اچھے وہ ہو سکتے ہیں۔ اس قدر ہیں۔‘‘

    شاہدہ نے ذرا اکتاہٹ کا اظہار کیا۔

    ’’کیا پیو گی؟ چائے، ٹھنڈا؟‘‘

    ’’نہیں کچھ بھی نہیں۔ تھوڑی دیر بعد سوچیں گے۔‘‘

    ’’رابعہ! میں تمہیں بہت مس کر رہی تھی۔ اچھا ہوا تم آ گئیں۔ ورنہ میں دو ایک روز میں چھٹی لینے والی تھی۔‘‘

    ’’کیوں ایسی کیا خاص بات ہوئی ؟ بتاؤ نا؟‘‘

    ’’کچھ نہیں بھئی ہونا کیا ہے۔ لوگ مرتے ہیں۔ ہر روز مرتے ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں اچانک بیمار ہو جاتے ہیں اور بس۔ پر مرنا ورنا میں نے اپنی جاب کے دوران اور ویسے بھی اپنی زندگی میں بہت دیکھا ہے۔ لیکن اس کی موت کا دکھ مجھے کچھ اندر سے ہلا گیا ہے۔ میری بے یقینی مزید بڑھ گئی ہے۔‘‘

    شاہدہ نے گلا کھنکار کر اپنی بھرائی ہوئی آواز پہ قابو پاتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’تمہیں یاد ہے نا؟ نئے سال کے طلوع سے ایک رات پہلے، جب فرزانوں کا ڈراما ہونا تھا اور نیا بلاک بھی بنا تھا۔ اسی رات تمہیں اپنی بیٹی کے پاس امریکا جانا تھا! یاد ہے نا؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ یاد ہے۔‘‘

    ’’اس نئے بلاک کے نئے کمرے میں دو فیشن زدہ سی خواتین ایک خوبصورت اور مہذب سی خاتون کو ہمارے پاس داخل کروانے آئی تھیں۔‘‘

    ’’ہاں! ہاں! وہ خوب صورت سی خاتون، مخمل کا میرون سوٹ، ایک ہاتھ میں بھاری گنبد نما سا کنگن۔ دوسرے ہاتھ میں جگمگاتی خوبصورت انگوٹھی۔ دیدہ زیب، خوش رو، خوش لباس سی خاتون تھیں نا، مجھے ان کا پورا سراپا یاد ہے۔ تو کیا ہوا انہیں؟‘‘

    رابعہ نے عجلت میں سوال کیا۔

    ’’ایک تو شگفتہ کی شخصیت بہت دلکش تھی۔ دوسرے اپنے رویے سے وہ ذہنی طور پر کچھ زیادہ متزلزل بھی نہیں تھیں۔ ہم دونوں کی آپس میں کچھ دوستی سی ہو گئی۔ وہ میرے پاس آ کر بیٹھ جاتیں، اپنی فیملی، کالج، یونیورسٹی کی باتیں سناتیں، فرزانوں کے بارے میں پوچھتیں کہ کون کیسے یہاں تک پہنچا وغیرہ وغیرہ۔‘‘

    ’’تو پھر؟‘‘

    رابعہ نے بے چینی سے پوچھا۔

    ’’یہاں جس غرض سے انہیں لایا گیا تھا اس کیلئے دوائیاں وغیرہ دینے سے وہ کافی سنبھل گئیں۔ لیکن کچھ ہی دن بعد کہنے لگیں،

    ’’شاہدہ! میں اندر سے کچھ ٹھیک محسوس نہیں کرتی ہوں۔ دل میں اضطراب مزید بڑھتا چلا جا رہا ہے اور شام میں بخار، بخار سا محسوس ہوتا ہے۔ تمہیں اس لیے نہیں بتایا کہ تم مزید دوائیوں پہ ڈال دوگی۔‘‘

    میں نے دو چار روز بخار کی دوائی دی لیکن یہ بخار نہیں اترا۔ نہ معلوم کیوں میں ایسے محسوس کرنے لگی کہ شگفتہ سے محبت کرنا اور اس کا خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے۔ چنانچہ اسی خیال کے پیش نظر میں نے اس کے تمام ضروری ٹیسٹ اور الٹرا ساؤنڈ کروائے یعنی جو کچھ جس ڈاکٹر نے کہا کرتی چلی گئی۔ آخر میں پتا چلا کہ وہ ہزار پائے کی گرفت میں ہیں۔‘‘

    شاہدہ نے بات کرتے کرتے خواہ مخواہ میں کچھ فائلوں کو دوبارہ سمیٹنا شروع کر دیا۔

    ’’پھر؟‘‘

    چند لمحوں کے بعد رابعہ نے بمشکل اپنے گلے سے آواز نکالنے کی کوشش کی۔

    ’’پھر۔۔۔ پھر کیا! پھر ایک روز میں نے ہمت کر کے بتا دیا۔ سب سن کر شگفتہ نے میری جانب کچھ ایسی نظروں سے دیکھا کہ جن میں دیوانگی سے مشابہت رکھتی ملی جلی ہنسی تھی۔ اس میں دکھ تھا اور آنکھوں میں استفسار کہ اچھا! ہم جیسوں کے ساتھ مزید یوں بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

    ’’بیماری کی تفتیش کے دوران ان کی بہنوں سے رابطہ رہا۔۔۔ ؟‘‘

    شاہدہ نے ہاتھ میں پکڑے پین کو اپنی ہتھیلی پہ بجایا۔

    ’’بہنیں آئیں اور انہیں بڑے ہسپتال میں داخل کروا گئیں۔‘‘

    ’’رابعہ! نہ معلوم مجھے ان لمحوں میں کچھ ایسا لگا کہ جیسے کوئی کنڈم مال کو گودام میں داخل کروا دے۔ البتہ بہنوں نے یہ فراخ دلی ضرور دکھائی کہ علاج کیلئے پیسوں کی فکر نہ کرنی پڑی۔ انہوں نے ایک بھاری رقم جمع کروا دی اوراس معذرت کے ساتھ واپس چلی گئیں کہ ہماری مجبوریاں ہیں کہ وہاں اپنے گھروں میں ہماری اپنی زندگی ہے۔ اسے بھی گزارنا ہے۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’بس پھر ڈاکٹروں نے ان کی زندگی کا حاصل ضرب تقریباً تین ماہ نکالا اور روٹین کا علاج بھی شروع کر دیا۔ وہی کیموتھراپی، ریڈی ایشن، مارفیا کے انجکشن اور نہ معلوم کیا کیا۔ شگفتہ نے بڑے سکون سے اپنی زندگی کا یہ سارا تماشا دیکھا۔ شاید انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ ان کی زندگی کا منطقی انجام اور حقیقت یہی ہے۔‘‘

    ’’ہسپتال میں تم ان سے ملنے جاتی تھیں؟‘‘

    ’’ہاں بھئی کیوں نہیں جانا تھا میں نے؟ وہ میری دوست تھیں۔ ایک روزکہنے لگیں،

    ’’شاہدہ! مجھے ایک چھوٹے سائز کا کیسٹ پلیئر اور چھوٹے سائز کے ٹیپ چاہییں۔‘‘

    ’’کیا کریں گی آپ؟‘‘

    ’’بھئی کچھ نہیں میں باتیں کروں گی۔ ٹیپ سنتا رہے گا۔‘‘

    مجھے ہنسی آ گئی۔ بھئی آپ میری بجائے ٹیپ سے باتیں کریں گی۔ یہ کوئی دوستی نہ ہوئی۔ خیر اگلے ہی روز میں نے ان کی فرمائش پوری کر دی۔

    مہلت ہی کتنی تھی۔ دن رات جھپا جھپ گزرے لگے۔ کبھی بہت اہتمام اور شوق سے ڈریس اپ ہوتیں تو لگتا کہ سنبھل جائیں گی۔ بہر حال وہ روز بروز سکڑتی جا رہی تھیں۔ دو چار روز کیلئے مجھے اسلام آباد میں ایک سیمینار میں شرکت کرنے کیلئے جانا پڑا۔ واپس آکے ملنے گئی تو دل کو زبردست دھچکا لگا۔ وہ ہسپتال کے معمولی لباس میں تھیں اور ان کا وجود ایک دم سکڑ گیا تھا۔ میں پلنگ کی پٹی پر بیٹھ گئی۔ ان کے پیروں پہ سوجن تھی۔ پوچھنے لگیں،

    ’’یہ پاؤں کیوں سوج گئے ہیں؟‘‘

    ’’کچھ نہیں، یہ ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘

    میں نے قدرے تجاہل کا اظہار کیا۔ انہوں نے پیروں پہ یوں ہاتھ مارا جیسے کوئی گرد جھاڑے۔ بے اعتباری اور طنز بھری نگاہوں سے میری جانب دیکھا اور ہلکا سا مسکرا دیں۔ نرس کو بلایا، کمرے کی الماری میں سے ایک بیگ نکلوایا۔ مجھے دیا اور کہنے لگیں،

    ’’یہ بند ہے۔ یہ میری جانب سے آپ کیلئے تحفہ ہے۔ اسے کھولنے کا آپ کو اختیار ہے۔

    بس یہ ایک چھوٹا سا تالہ ہے، توڑا جاسکتا ہے۔‘‘

    پھر میری جانب دیکھا اور پوچھا!

    ’’ہم دونوں دوست تھے نا؟‘‘

    تھوڑی دیر تک میں ان سے اوپری اوپری باتیں کرتی رہی۔ یعنی جھوٹ بولتی رہی۔ نرس ٹیکا لگانے آئی تو ہم دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ دبایا۔ ان کی آنکھیں نم ناک تھیں۔ میں منہ، پھیر کر چلی آئی۔۔۔ تین روز بعد صبح سویرے ہسپتال سے فون آیاـ،

    ’’جی وہ آپ کی دوست شگفتہ بی بی۔۔۔ جی۔۔۔ جی۔۔۔ وہ چلی گئیں۔‘‘

    ’’یعنی کہ۔۔۔ اچھا‘‘کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔ مجھے ان کے جن رشتہ داروں کے فون یا ایڈریس معلوم تھے میں نے سب کو اطلاع کر دی۔‘‘

    ’’تم بھی گئیں؟‘‘

    رابعہ نے پوچھا۔

    ’’نہیں رابعہ! میں نہیں گئی۔ میرا جی ہی نہیں چاہا۔ میرا دل، میرا ذہن میرا تمام وجود خالی سا ہو گیا۔ میرا ایک آنسو نہیں نکلا۔ اس روز میں نے دن بھر دفتر میں ڈٹ کر کام کیا۔ دیکھو نا! ہے نہ عجیب سی بات۔‘‘

    یہ کہتے کہتے شاہدہ کی آواز ٹوٹ گئی اور ساتھ ہی موٹے موٹے آنسو آنکھوں سے گرنے لگے۔ چند لمحوں بعد وہ سنبھلی، کھنکھاری اور رابعہ سے پوچھا۔‘‘

    ’’تمہیں گھر جانے کی جلدی تو نہیں؟‘‘

    ’’کیوں؟ تم کیوں پوچھ رہی ہو؟‘‘

    ’’تمہیں کچھ دکھانا تھا۔‘‘

    ’’ہاں! ہاں دکھاؤ نا! مجھے بالکل جلدی نہیں۔ میں سب سمیٹ سماٹ کر آئی ہوں۔‘‘

    شاہدہ نے اپنی رائٹنگ ٹیبل کی دراز کھولی اور کالے چمڑے کے بیگ میںسے اخروٹ کی لکڑی سے بنا ہوا ایک چوکور ڈبہ نکالا۔ ڈبے پہ چنار کا پوری ہتھیلی جیسا چوڑا پتا اپنے ارد گرد کے تمام کٹاؤ کے ساتھ کھدا ہو اتھا۔ رابعہ کو قائد اعظم ریذیڈنسی کا چنار کا وہ درخت یاد آگیا جس کی بڑی بڑی مضبوط ٹہنیاں اپنے فطری جھکاؤ میں جھکتی چلی گئی تھیں۔ دھوپ میں سورج کی شعاعوں سے بنے دھیمے شعلوں جیسے رنگ ان پتوں پر برستے تھے تو ماحول عجیب خوابناک سا لگتا۔

    ’’کیا ہوا؟ تم کیا سوچ رہی ہو۔‘‘

    ’’کچھ نہیں بھئی! بعض اوقات ذہن خواہ مخواہ قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’یہ وہی ڈبہ ہے کیا؟‘‘

    رابعہ نے پوچھا۔

    ’’ہاں یہ وہی تحفہ ہے۔‘‘

    شاہدہ نے آہستگی سے جواب دیا۔

    تھوڑی سی کوشش کے بعد چھوٹی تالی کھل گئی۔ ڈبے میں بڑے سلیقے سے وہی منا سا ٹیپ ریکارڈر اور ٹیپیں تھیں۔ شاہدہ نے رابعہ سے کہا،

    ’’تم ذرا اخبار دیکھو۔ میں راؤنڈ لگا کر آتی ہوں۔ پھر دونوں سنتے ہیں۔‘‘

    ’’زندگی کی گمبھیرتا اور حالات کا کھوکھلا پن جب کسی فرد کی زندگی میں در آتا ہے اور وہ اس کیفیت کو با معنی بنانے کی سعی کرتا ہے تو وقت کا جھکڑسے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ میں ذہنی طور پر خود کو ذرا سنبھال سمیٹ لوں تو بات آگے چلے۔

    کسی بھی کہانی کا جنم بڑے جتنوں کا مرحلہ ہے۔ حالات کی واقعاتی بد شکلی و بد زیبی کو بھی پیش کرنے میں حسن سلیقہ درکار ہوتا ہے۔ مگرمجھے اتنی گہری باتوں سے کیا لینا دینا۔ میں تو کچھ بولنا چاہتی ہوں، سنانا چاہتی ہوں۔۔۔ جب بیتتی ہے تو کتنی لمبی لمبی بیتتی ہے، جب سمیٹنے لگو تو کس قدر مختصر سی ہوتی ہے۔

    کچھ بھی نہیں بس عام دنوں جیسا ایک دن تھا۔ سہ پہر بھی روز جیسی سہ پہر تھی کہ میں نے پڑھتے پڑھتے تھکن محسوس کی تو اپنی کزن کے گھر چلی گئی۔ وہاں کچھ اور ہی سین تھا کہ جیسے کوئی اہم مہمان آنے والوں ہوں۔ مجھے سمجھ آ گئی اور میں کھسیانی سی ہو گئی کہ میں غلط وقت پر اور کسی غلط جگہ پر آ گئی ہوں۔

    مختصر یہ کہ میری شادی نے کسی اور کو حیران کیا ہو یا نہیں لیکن میں ششدر تھی کہ یہ قطعی ایک فلمی شادی تھی جسے ایک اوسط درجے کے ڈائریکٹر نے ڈائریکٹ کیا ہو۔ جب میرا رشتہ طے ہو رہا تھا تو اس وقت بھی میرے لا شعور میں عمل مکافات کا لفظ اپنے لغوی معنی کے علاوہ بہت سے دیگر نازک احساسات و امکانات کے ساتھ موجود تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ میں کسی نا انصافی کی مرتکب ہوئی ہوں۔ ایسی نا انصافی جو اگلے کے دل کو اندر تک چیر دے۔ نا انصافی کرنے والا آنے والے وقت میں خود یا اس کی آنے والی نسل میں سے کوئی نہ کوئی اس نا انصافی کو بھوگتا ہے۔

    اور یہ نا انصافی کرنے والا میرا گورا چٹا وجود تھا جو میرے اچانک وہاں آنے پر تمہیں بھا گیا۔ سو میں نے اسے بھگتا اور یہی عمل مکافات ہے۔ میرے خاندان کی لڑکیاں خوش شکل تھیں۔ میرے لیے بھی شادی کوئی مسئلہ نہیں تھی۔ تم با وجود اپنے منگول خدوخال، ان منجھے تانبے کی رنگت، لیکن متناسب جسم اور اونچی قامت کے مجھے دلکش لگے، تمہاری سسرال یعنی میرے گھر میں اور سہیلیوں میں تمہیں آبنوس کہا جانے لگا۔

    جمنا میں کل نہا کے اس نے جو بال باندھے

    ہم نے بھی اپنے دل میں کیا کیا خیال باندھے

    تم الماری میں سے کپڑے نکالتے ہوئے گنگنا رہے تھے۔ میں چونکی۔ یہ مصحفی ہیں۔ آپ کا شعر سے کیا تعلق ہے؟ میں نے پوچھا تھا۔ ہم انجینئر ہیں، کباڑیے تو نہیں ہیں۔ اب اگر کسی کے خوبصورت بال حیران کر دیں تو مصحفی یاد آئیں گے نا۔ تم نے بہت بشاشت سے جواب دیا تھا۔ اس ستائش بے محابا سے میں گلنار ہو گئی تھی۔ میرے حیران ہونے پر مزید کہا کہ واقعی میں نے ایسے خوبصورت اور لمبے بال کسی اور خاتون کے نہیں دیکھے۔ میں اپنی کلائی کا کنگن گھما کر رہ گئی۔ ہماری شادی کو اس روز صرف پندرہ روز ہوئے تھے اور مری، سوات وغیرہ گھوم گھام کر ایک رات پہلے گھر واپس پہنچے تھے۔ عجب سرشاری کے شب و روز تھے۔ تیز دھوپ میں مجھے نرم گرم بادلوں کا احساس رہتا اور بارش اور بادل کا گمبھیر موسم مجھے خوش گوار تمازت کا احساس بخشتا۔ نہ تمہارے ہاتھ اور بازو دم لینے دیتے نہ میرے پاؤں زمین پہ ٹکتے۔ سارا وجود ہوا کے ایک لطیف سے جھونکے کی لپیٹ میں رہتا۔ یہ ساری کیفیتیں میرے اندر تھیں۔ باہر تو سب کچھ اپنی روٹین رفتار سے چل رہا تھا۔ تمہیں بھی یاد ہو گا کہ تمہاری سالگرہ تھی اور میں تمہیں سرپرائز گفٹ دینا چاہتی تھی۔ وہ گفٹ سویٹر تھا جو میں خود بننا چاہتی تھی۔ میری بہن ثمن اس سرپرائز میں میری ہمراز تھی۔ ایک دوپہر اس نے تمہیں باتوں میں لگایا اور مجھے تمہاری پشت کی لمبائی کو بالشت سے ناپنے کا اشارہ کیا۔ تمہیں دوسری ہی بالشت پر سمجھ آ گئی۔ ’’یہ محبت کا نیا انداز ہے کیا؟‘‘ یہ کہتے ہوئے مجھے کلاوے میں لے لیا۔ بھئی اگلے وقتوں میں بہت سوں نے ہمارے ناپ ہمارے روبرو کھڑے ہو کر لیے ہیں۔ تمہارے منہ سے یہ سن کر شاید لمحہ بھر کو میرا کوئی رنگ بدلا ہو گا تو تم نے کہا تھا نہیں اب ایسا نہیں ہو گا اور میں نے بھی دل میں یہ دعا کی تھی کہ بختیار وہ وقت تمہارا تھا جو ہوا سو ہوا لیکن اس موجود لمحہ سے آنے والے زمانوں تک یقینا ایسا نہیں ہو گا۔ ساتھی بن سکتا ہے، ساتھ چل سکتا ہے تو گویا سب چلے گا۔ میں نے اپنے دل کے ساتھ کچھ عہد نما سی بات کی۔۔۔!

    میں فطرتاً Sense of Belonging میں بڑی شدت کے ساتھ یقین رکھتی تھی۔ میں ہر دو جانب سے ایک ہی جیسی سطح کی Relationshipکا خواب دیکھتی تھی۔

    رلّی کا چھاپا خواہ کتنا ہی خوب صورت کیوں نہ ہو لیکن اوڑھنے پر پتا چلے کہ یہ کچے رنگوں سے سجائی گئی ہے تو دل دکھتا ہے اور تمام کی تمام رلّی دھبے دھبے ہو جاتی ہے۔ میں اپنے اور تمہارے درمیان رنگوں کی رت میں ہی جینا چاہتی تھی، دھبوں میں نہیں۔

    گھر سے ہم دونوں ہنستے کھیلتے نکلے۔ ادھر ادھر کے چھوٹے موٹے کام کیے، لیکن جب میں اور آپ بائبل سوسائٹی سے ڈکشنری خرید کر باہر نکل رہے تھے کہ توصیف مجھ سے ٹکرایا۔ توصیف بھی فلسفے کا طالب علم تھا۔ لیکن وہ کہیں ملازمت بھی کرتا تھا، اس لیے کلاس میں کم آتا تھا۔ وہ ایک ہنس مکھ اور دوست قسم کا لڑکا تھا۔ اس کی سب لڑکیوں اور لڑکوں سے دوستی تھی اور ہم سب لڑکیاں اس سے ایسے ہی ہنسی مذاق کرتی تھیں جیسے وہ بھی لڑکی ہی ہو۔ جب وہ مجھ سے ٹکرایا اور ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا تو بے ساختہ ہنس دیے۔ یوں اچانک ملنے پر ہم دونوں کو خوشی بھی ہوئی، جو ہمارے چہروں پہ چھائی ہوئی تھی۔ میں تم سے دو چار قدم آگے تھی۔ تم کاؤنٹر پہ ادائیگی کر کے ہماری طرف آ رہے تھے۔ توصیف نے ایک نظر تمہیں دیکھا اور آہستگی سے کہا،

    ’’اچھا تو اس گلفام کی خاطر تم نے اپنا ماسٹرز مکمل نہیں کیا۔‘‘

    اور شرارت سے ہلکا سا آنکھ کو دبایا۔ تم نے یہ سب دیکھ لیا۔ باقی کے مفروضے تمہار اپنے ذہن کی ترتیب و تدوین تھی۔ اس واقعہ نے ہمارے پیروں کے نیچے بچھی زمین کو انہی لمحوں میں پاٹ دیا تھا۔ نہ گلفام ہی رہا نہ پری رہی۔

    یہ بھونچال تم نے کمال نفاست سے اپنے ہاتھ پہ روک لیا لیکن یہ بھونچال ہم دونوں کی زندگیوں میں گاہے بگاہے نہ معلوم طور پر نقب زنی کرتا رہا۔ نتیجتاً میں سہمی سہمی رہنے لگی اور میرا تمہارا رشتہ مالک اور غلام کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ تمہیں یقینا یاد ہو گا کہ اس واقعے کے تھوڑے دنوں بعد میں نے اپنی پوزیشن صاف کرنے کی کوشش کی۔ تم نے کمال تحمل سے سنا اور جواب میں کہاـ،

    ’’آپ اس واقعہ کو بھول جائیں۔ لیکن میں۔ میں، ولیوں، پیغمبروں اور مجذوبوں میں سے نہیں ہوں کہ اپنی ذات کو فراموش کر دوں۔ لا محالہ آپ سے التفات کے لمحوں میں یہ واقعہ میرے ذہن میں در آئے گا۔ میں کوشش کرتا رہوں گا کہ ذہن کو قابو میں رکھوں۔‘‘

    زندگی خود نہیں چل رہی تھی بلکہ ہم دونوں اس کی انگلی پکڑ کر اسے قدم قدم چلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک اور دھماکا ہو گیا۔

    میری دوست فائزہ نے اپنے گھر پہ چار چھ لوگوں کی پارٹی کی۔ اس نے ہم دنوں کو بھی شوق سے بلایا۔ تمہارے لیے خاص طور پر تاکید بھی کی لیکن تم جانا نہیں چاہتے تھے سو کوئی بہانہ بنا لیا اور نہ گئے۔ مجھے فائزہ کے گھر ڈراپ کر کے تم گھر آگئے۔ واپسی کیلئے میں نے کہا کہ کوئی بھی گھر پر اتار دے گا۔ یہ واقعہ میں نے تمہیں تب بھی سنایا تھا، آج پھر سے دہراتی ہوں۔ جس طرح سے یہ وقوع پذیر ہوا وہ یوں تھا کہ خدا حافظ کہتے کہتے سب فائزہ کے گھر سے باہر نکل گئے۔ فائزہ کی امی کو میں شادی کے بعد پہلی مرتبہ مل رہی تھی۔ انہوں نے مجھے شگن کے طور پر کچھ نقدی دینی چاہی۔ میں نہ نہ کرتی رہی اور انہوں نے زبردستی رقم میرے بٹوے میں ڈال دی۔ یقین جانو بس اتنی ہی دیر ہوئی تھی لیکن جب میں گاڑی کے پاس پہنچی تو پچھلی سیٹ پر میری تینوں دوستیں بیٹھ چکی تھیں۔ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ خالی تھی اور گاڑی چلا رہا تھا توصیف۔۔۔ میرے پاس سوائے ساتھ بیٹھ جانے کے کوئی چارہ نہ تھا۔ راستہ بھر سانس رو کے بیٹھی رہی کہ خدانخواستہ تم کہیں گھر کے گیٹ پر موجود نہ ہو لیکن تم گیٹ پر میرے انتظار میں موجود تھے۔ مجھے نہیں یاد کہ میں گھر کے اندر کن قدموں سے چل کر گئی۔ بہرحال اب دونوں جہان کا مالک بھی ہم دونوں کے درمیان کسی مفاہمت کی کوشش کرتا تو یقینا ناکام رہتا۔ گھر میں سناٹوں کی دیواریں مزید تہ در تہ ہوتی چلی گئیں اور میرا وجود بھی بھر بھری مٹی کی ڈھیری میں ڈھل گیا جو کوئی بھی صورت اختیار نہیں کر پاتا۔

    میں نے تم سے باتیں کرتے ہوئے کہیں پہ عمل مکافات کا لفظ بولا ہے۔ یہ لفظ میرے اندر کھب گیا ہے۔ اس احساس کا ایک پس منظر ہے۔ یہ پس منظر میری کزن کی بیمار والدہ کی وہ نگاہ ہے جب انہوں نے تمہاری موجودگی میں مجھے بھی وہاں موجود پایا۔ ان کی نگاہوں میں لکھا بالکل صاف پڑھا جا رہا تھا کہ میں نے ان کے گھر میں ڈاکا ڈالا ہے۔ اس سب کے باوجود میں وہاں موجود رہی حالانکہ میرے خاندان میں لڑکیوں کی شادی کوئی مسئلہ نہیں تھی کیونکہ تمام لڑکیاں خوش شکل و خوب رو تھیں۔ بہر حال میرے بعد کی زندگی عمل مکافات کی نذر ہوتی رہی اور مختلف حالات و واقعات سے اس کی تشریح در تشریح بھی ہوتی چلی گئی۔

    بختیار! یہاں ہاسپٹل میں مجھے اپنی ایک تائی جی بہت یاد آ رہی ہیں۔ خاندان میں کسی کی شادی تھی۔ میری اماں اور تائی جی کو جانے کیا سوجھی کہ دونوں نے لڑکیوں سے ڈھولک لی، تائی جی نے اپنی لرزتی آواز اٹھائی اور ابرو سے میری اماں کو بھی آواز ملانے کا اشارہ کیا۔ گانے کے بول تھے۔

    اچیاں لمیاں ٹاہلیاں اوئے

    وچ گجری دی پینگھ وے ماہیا

    پینگھ چوٹینڈے دو جنے اوئے

    عاشق تے معشوق وے ماہیا

    چوہڈے چوہڈے ڈگ پئے اوئے

    ہو گئے چکنا چور وے ماہیا

    سسی نے پاسا پرتیا اوئے

    پنوں تے ہے نئیں نال وے ماہیا

    اور ’’پنوں تے ہے نئیں نال وے ماہیا‘‘ کی تکرار کرتے کرتے ان دونوں خواتین کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میں خود اس وقت پانچویں کلاس میں تھی لیکن یہ رنجیدہ لمحات میرے منے سے ذہن میں لفظ ’’پنوں‘‘ کی تکرار کے ساتھ نقش ہو گئے۔ دیکھو بختیار! میں کوئی بہت سوجھ بوجھ نہیں رکھتی لیکن پھر بھی تم میری بات اور سوچ کوسراہتے تھے۔ سو آج، اس وقت تک میں یہی سمجھ پائی ہوںکہ ہوش مندی، عقل، دانش، شعور، ادراک، تقریباً ایک ہی جیسے معانی کے سب الفاظ اور پھر وہی اشتباہ نظر کا حصار، مشاہدہ، گمان، یقین اور پھر ایمان۔۔۔ یہ زمانے، یہ فاصلے، سوچ فکر کی تمام مسافتیں کب طے ہوتی ہیں۔ ایک وقت میں سب کچھ جگمگ اور پھر شور مچاتا سناٹا اور ہر سو گھپ اندھیرا۔ نا معلوم کتنی زندگی آس اور یاس، شعور اور لا شعور کے زیر و زبر میں مبتلا اپنے اندر کے گھنے جنگل میں خود کو تلاشتا ہوا ایک وجود بنا مرکزکے، کبھی کسی مزار پر، کبھی کسی درویش کے دربار میں اور آخر کار مہلک بیماری کے جنرل وارڈ میں، گزرے زمانے کی گزری آہٹ کو ذہن میں محفوظ کیے، موجود وقت کی قربان گاہ پر چڑھ جانے کیلئے تیار۔ میں بہت دانش نہیں رکھتی لیکن زندگی کی کڑواہٹ دل کو سکیڑ دیتی ہے۔

    برسوں پہلے میری تائی کی زبان سے نکلی گانے کی یہ ایک سطر حقیقت بن کر میرا سایہ بن گئی ہے اور آج میں یہ سوچتی ہوں کہ میری تائی جی کا پنوں بھی ان کی زندگی کا کوئی آدرش کوئی پرایا جو اپنا نہ بن سکا، کوئی دوست کوئی ماں جایا۔ بختیار! محبت کے سو رنگ ہیں۔ نہیں جانتی تھی کہ محبت کا گاڑھا اور گوڑھا رنگ ایک ہی ہے اور اس کے ساتھ انا کا خار بھی ہے کہ دو انسانوں کے درمیان ایک کی انا دوسرے انسان کے ہوش و حواس کی فنا ہے۔ تمام گلیاں، در، دروازے، بند نظر آنے لگتے ہیں۔ زندگی اندھا کنواں بن جاتی ہے۔ ہر چاہت جس میں سچائی ہے، گہرائی ہے، یہ سب ’’پنوں‘‘ ہیں۔ آج مجھے اپنی تمام چاہتیں، ساری محبتیں یاد آ رہی ہیں جو ایک بڑے خاندان کی صورت میں پیچھے چھوڑ آئی تھی۔

    توصیف کا نام ہم دونوں کی زندگیوں میں بہت گہرا اتر گیا۔ اسے ذہن سے جھٹکنا ہمارے بس کی بات نہ رہی۔ میں گوارا کر بھی لیتی، لیکن میں تمہیں عذاب میں مبتلا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ حقیقت یہی تھی کہ ہم دونوں اس ذہنی اذیت و کیفیت کے ساتھ ایک گھر میں نہیں رہ سکتے تھے کہ نہ میں عام لڑکی تھی نہ تم عام مرد تھے۔ ہم دونوں بد دیانت نہیں تھے۔ تم میری ذات کا مکمل Possessionچاہتے تھے جب کہ میں ہر دو جانب سے Belonging کی خواہش رکھتی تھی۔ شب و روز گزارنے ایسے تھے کہ جیسے جہنم کے عذاب میں مبتلا۔ سو بتانے والوں نے بتایا کہ ایک رات اچانک میں نے چیخنا چلانا اور اپنے سنبھالنے والوں کو دھکے دینے شروع کر دیے تو مجھے ہسپتال لے جایا گیا۔ جب دو روز بعد میں سنبھل کر گھر آئی تو تم گھر پر نہیں تھے۔ معلوم ہوا کہ تمہارا بلڈ پریشر بہت اونچا چلا گیا تھا۔ تمہیں بھی ہسپتال داخل کروانا پڑا۔ اس روز کے بعد سے ہم ایک دوسرے کی صورت نہ دیکھ پائے۔ دو روز بعد تم برین ہمیرج کا شکار ہوئے۔ تنہائیوں اور سناٹے کی آگ نے مجھے بھسم کر دیا۔ میں رو نے اور چیخنے کے عمل سے بار بار گزرنے لگی۔ میرا ذہن کچھ ایسے اوپر تلے ہوا کہ لوگوں نے مجھے دیوانہ سمجھ لیا۔ لیکن بختیار سنو تو! میں دیوانی تو نہیں تھی۔ میں تو فقط تمہارے ساتھ گزرے خوب صورت وقت کو اور تمہیں یاد کرتی تھی۔ تمہاری یاد نے مجھے تماشا بنا ڈالا۔

    شاہدہ نے نئی ٹیپ لگائی۔ آواز آئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ نرس آج مجھے مار فیا کی ڈوز زیادہ دے گئی ہے تاکہ درد قابو میں آئے اور میں سو سکوں۔ مجھے واقعی نیند آ رہی ہے۔ ہاں یاد آیا، سونے سے پہلے میں تمہیں جلدی سے بتا دوں کہ جمنا کا پانی سوکھ گیا ہے اور ریڈی ایشن نے میرے بال نوچ لیے ہیں۔ کتنا خوبصورت شعر تھا جو تمہاری زبان سے میرے لیے پہلی بار نکلا۔ میرا وجود اب ڈھیلا پڑتاجا رہا ہے۔ اب مجھے واقعی نیند آ رہی ہے۔‘‘ ٹیپ خالی چلتی گئی آخر ٹک کی آواز سے پتا چلا کہ آگے ساری ٹیپ خالی ہے۔ شاہدہ نے کمرے سے نکلتے ہوئے رابعہ سے کہا، ’’اب اٹھو! میں جا رہی ہوں۔‘‘ یہ ڈبہ دراز میں رکھ دینا۔ رابعہ جواب میں کچھ نہ بولی۔ اس نے میز پر ٹکا سر اٹھایا آنکھوں کے دھندلے پن کو دوپٹے سے صاف کیا اور فرزانوں کے کامن روم کی جانب چل دی۔ وہاں ایک ہنگامہ تھا۔ آیا ئیں مختلف رپورٹیں دے رہی تھیں۔ روبینہ ہر کسی کو مکے مار رہی تھی اور مسلسل ہنستی جا رہی تھی۔

    عاشی بال نہیں کاٹنے دیتی۔ ثمینہ سر میں جوئیں مارنے کی دوا نہیں لگانے دے رہی۔ آسیہ نے نہانے سے انکار کر دیا ہے۔ ماجد بھائی سحری کے وقت سے برآمدہ ناپ رہے ہیں۔ یہ ماجد بھائی ہیں کیوں کہ یہ پچھلے تیس سال سے یہاں ہیں۔ شاہدہ یہ سب معاملات طے کرنے کی کوشش میں ہے۔ رابعہ خلق خدا کی اس مجہولیت پہ دکھی اور نادم ہے لیکن اس وقت اس کے اندر ان فرزانوں سے ایک لا تعلقی پیدا ہو گئی ہے۔ وہ کمرے کے ہنگامے سے نکل کر برآمدے میں آ گئی اور ستون سے ٹیک لگائے خالی ذہن ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ دفعتاً اس کے ذہن کی ایک پرت کھلی تو دور بہت دور برسوں دور کا ایک منظر، گرمی سے گلے ملتا موسم بڑے بڑے لان، آم کا تناور درخت پھل کے بور سے بوجھل، اسی آم سے ذرا ہٹ کر کین کی کرسیوں پر بیٹھے بچپن کے تین دوست، زندگی کی جنگ جیتے ہوئے۔ من و تو سے سرخ رو شام کی چائے کا وقت۔ وہ یونی ورسٹی سے آج دیر سے گھر آئی تھی۔ عزیز چائے کی ٹرالی اندر لایا تو اس نے عزیز سے کہا، ’’مجھے بھی چائے دے دو اور یہ کاغذ تم کیوں اٹھا لاؤ ہو؟‘‘ میں تو نہیں لایا بی بی جی۔ اس کاغذ کے لکھے پر ہمارے صاحب اور ولایت والے صاحب بہت اونچی آواز میں بول رہے تھے۔ رابعہ نے برسوں پہلے اس کاغذ پہ لکھا جو پڑھا تھا آج، اس لمحے اس کے ذہن میں سکول کی دعائیہ اسمبلی میں پڑھی جانے والی نظم کی طرح از بر تھا۔

    تمہیں زندگی سے کوئی ربط باقی نہیں

    اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنساؤ!

    اجل! یہ سب انسان منفی ہیں

    منفی زیادہ ہیں، انسان کم

    ہو ان پر نگاہ کرم

    اجل ان سے مت کر حجاب

    اجل، ان سے مل

    اجل، اجل

    رابعہ کو اطمینان قلبی محسوس ہوا کہ اسے یقین تھا کہ مخلوق خدا کیلئے اس نے دعائے خیر مانگی ہے۔ اس نے بیگ کو کندھے پہ لٹکایا اور شاہدہ کو بتائے بغیر پیس ہاؤس سے باہر نکل آئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے