- کتاب فہرست 188778
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں59
ادب اطفال2074
ڈرامہ1028 تعلیم377 مضامين و خاكه1533 قصہ / داستان1740 صحت108 تاریخ3580طنز و مزاح749 صحافت217 زبان و ادب1977 خطوط817
طرز زندگی26 طب1033 تحریکات300 ناول5031 سیاسی372 مذہبیات4902 تحقیق و تنقید7357افسانہ3057 خاکے/ قلمی چہرے294 سماجی مسائل118 تصوف2281نصابی کتاب568 ترجمہ4580خواتین کی تحریریں6355-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1498
- دوہا53
- رزمیہ106
- شرح211
- گیت66
- غزل1331
- ہائیکو12
- حمد54
- مزاحیہ37
- انتخاب1660
- کہہ مکرنی7
- کلیات717
- ماہیہ21
- مجموعہ5355
- مرثیہ400
- مثنوی886
- مسدس62
- نعت602
- نظم1318
- دیگر82
- پہیلی16
- قصیدہ201
- قوالی18
- قطعہ74
- رباعی307
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت28
تسنیم منٹو کے افسانے
توتیا من موتیا
شمع اور بختیار کی شادی عام روایتی شادیوں جیسی تھی۔ اس قدر رواجی کہ شمع اور بختیار کی عمروں کا پندرہ سال کا تفاوت بھی مد نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ بختیار ایک لاابالی اور پختہ عادات و اطوار کا مالک تھا۔ اس روایتی مرد کے دل میں بیوی کی شناخت محض ایک ذاتی وجود
متھ
زندگی کیسے اجاڑ رنگ موسموں کے نرغے میں ہے۔نہ بہار جوبن دکھاتی ہے، نہ ساون کھل کر برستا ہے۔ حالات کی زبوں حالی ودگر گونی سے میرے خطے کی خلقت بےسمتی ہوئی جاتی ہے۔ ایک جنگل ہے، انسانوں کا جنگل، تباہ حال مجبور و لاچار انسانوں کا جنگل۔ سپاٹ چہروں، بے رنگ
اپنی اپنی زندگی
یہ دوسری صبحِ کاذب تھی کہ ’’اَلصَّلٰوۃُ خَیْر’‘ مِنَ النَّوْم‘‘ کی آواز پر نہ تو وہ بستر سے ایک جھٹکے سے اٹھی، نہ ہی بِنا دیکھے پیروں میں چپل اُڑسی کہ غسل خانے کی جانب لپکے۔ اس کے ذہن کی اندھیر نگری میں سوچوں کا کہرام مچا تھا،بل کہ سوچ کے دونوں سرے ایک
بند کمروں کی شناسائیاں
دو چار روز سے گھر میں کچھ ہو رہا تھا۔ اس کے بچے اور میاں کچھ پلان کر رہے تھے۔ فون آ جا رہے تھے اور اس کامیاں بچوں کو بتا رہا تھا کہ ہاں فلاں وقت ٹھیک ہے، ہاں ہاں فلاں کا گھر بھی صحیح رہے گا۔ زرینہ کو اس تمام Activity سے یہ پلے پڑا کہ کسی بڑی خاتون شخصیت
یوزلیس
جب منیر اور وہ لڑکی جلال کے دفتر کی سیڑھیاں چڑھ کر، جلال کے کمرے میں آ کر کھڑے ہوئے تو جلال نے پہلے لڑکی کوبغور دیکھا اور پھر منیر سے نظر ملائی۔ پھر بڑی دھیمی آواز میں اس کے منہ سے عادتاً ’’یُوزلیس‘‘ نکل گیا۔ اس پر جو منیر کا ردعمل ہوا وہ حیران کن تھا۔
حالتے رفت
تسلسل کیوں ٹوٹتا ہے؟ عمارت کیوں ڈھے جاتی ہے؟ یقیناً تسلسل جس تار سے بندھا ہوتا ہے، بے عملی کے عمل سے، کسی جوڑ پر وہ تار زنگ آلود ہو جاتا ہے اور اگر عمارت ڈھے جاتی ہے تو بھی کسی کاریگر کے ہاتھ کی کجی یا ناقص میٹیریل کا استعمال عمارت کے وجود کو ختم کر
میں ہوں فرزانہ
ابتدائی سیشن کے بعد گروپس میں بھی ڈسکشن اختتام پذیر ہو چکی تھی، اور اب چاے کا وقفہ تھا۔ ڈیلی گیٹس دو دو، چار چار کی ٹولیوں میں بیٹھے کسی نہ کسی موضوع پر اظہارِ خیال کر رہے تھے۔ نعیمہ ہیومن رائٹس والوں کی طرف سے کراچی سے پہنچی تھیں، ڈاکٹر راشدہ کانفرنس
سلامت رہو!
سو یہ گھر آج سے اپنا ہوا۔ یہ اینٹیں، یہ سیمنٹ، یہ لال رنگ مٹی، یہ کھڑکی، یہ دروازہ، یہ سب میرا اپنا ہے۔ ایک کمرا، ایک کچن اور ایک باتھ، میری زندگی بھر کی کل کائنات، یہ گھر اور میرا اپنا بے معنی وجود۔۔۔ جس طرح گھر کے معنی اس کی وسعتوں سے ہوتے ہیں، کہ
کم آشنائی، گریز پائی
نہ کم نہ زیادہ پورے ستائیس برس بعد اسے اچانک محسوس ہوا کہ آج دھوپ بہت دھوم دھام سے نکلی ہے۔ اس کے چاروں جانب بے حد شفّاف روشنی تھی۔ وہ باہر لان میں کرسی ڈالے بیٹھی تھی۔ اس نے آنکھیں سکیڑیں، تھوڑا کرسی کے پیچھے کھسکی اور گردن کو کندھوں پر پھینک کر آسمان
ہجوم ہم نفساں
بارہ برسوں کا سلسلہ وقت اورحالات و واقعات پر مشتمل ایک دراز سلسلہ ہے۔۔۔ گزرے زمانوں میں بن باس کی مدت بارہ برسوں پر محیط تھی۔ بارہ برس ایک لمبا زمانہ تھا، اور بہت سی امثال بارہ برسوں کے حوالے سے مروج تھیں۔ دیو مالا میں لکشمن ریکھا بھی بارہ برسوں کے لیے
گل و گلزار سے آگے
فقیر جو کہ دانش رکھتا تھا۔ اس نے چالیس بھیڑوں کے مالک گڈرئیے کو نصیحت کی، ’’جس مہم پہ تم جا رہے ہو اس میں علامتوں پر نظر رکھنا۔‘‘ زندگی کا سفر ایک مہم ہے۔ علامتوں پہ نظر رکھنے کی صلاحیت کے باوجود اس کی وسعت اور حجم بے کراں ہے۔ جو سالوں، مہینوں، دنوں
اجل ان سے مل
جب رابعہ پہلے پہل ان سے ملی تھی تو بے حد خوف زدہ اور رونکھی ہو رہی تھی۔ سب چہرے اپنے آپ میں فٹ، لیکن آنکھوں میں وحشت، بے گانگی اور ہنسی میں طنز تھا۔ وہ سب کے سب اسے فالتو لگے۔ ایک بے معنی زندگی نے انہیں دبوچ رکھا ہے، اس نے سوچا تھا، لیکن پھر اپنی دوست
رفاقت
لکھنا آتا ہو تو اِنسان اندر کی دُنیاکو باہر لاسکتا ہے اور اکلا پے کو بانٹ دیتا ہے، لیکن جب انسان لکھ بھی نہ پائے تو اپنے دُکھ دُوسرے سے بیان کرنے میں Ego آڑے آتی ہے۔ نظر سے نظر مِلا کر بات کہنے سے حیا آتی ہے۔ آنکھیں اپنے اندر بسی دُنیا سمیت بندہو جاتی
ذرا سی بات
پچھلے آٹھ روز سے گھر میں ایک تناو کی کیفیّت تھی۔ وقت ٹھہر گیا تھا، اور یہ آٹھ روز آٹھ صدیاں بن گئے تھے، اور اِن آٹھ صدیوں میں اُس کا وُجُود اِس طور سِمٹا تھا کہ جیسے کسی نے شکنجے میں کس دِیا ہو۔ شادی کے شُرُوع کے دِنوں میں اُس کے شوہر نے اپنے مُعاشقوں
بند کتاب
دوپہر کی دھوپ کی تمازت ڈھل چکی تھی۔ اب سہ پہر تھی۔ شہاب نے صوفے پر لیٹے لیٹے ذرا سا سر اونچا کر کے ادھر ادھر نگاہ ڈالی۔ بیگم کرسی پہ بیٹھی ٹیلی ویژن پر نظریں جمائے ہوئے تھیں۔ انہوں نے ٹی وی کی آواز کو بہت دھیما کر رکھا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ انہیں اسے
join rekhta family!
-
کارگزاریاں59
ادب اطفال2074
-
