Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک اور کہانی

تسنیم منٹو

ایک اور کہانی

تسنیم منٹو

MORE BYتسنیم منٹو

    کچھ گذرے وقتوں کی باز گشت یا چند لمحوں میں گذرتے زمانے کا مشاہدہ دیکھنے والے کے ذہن میں ڈھلتا، گھلتا اور پکتا رہتاہے اور پھر ذہن کی کٹھالی سے نکل کر کاغذ کو اپنا مسکن بناتا ہے۔ یہ ایک کہانی کا سفر۔ پھر ایک اور کہانی، اور پھر ایک اور کہانی۔ کہانی کا سفر کہیں ختم نہیں ہوتا۔ کہانی تو بس ایک ہی ہے، بس اپنا لہجہ بدلتی رہتی ہے اور جس موڈ میں ہوتی ہے اسی رنگ کی اوڑھنی اوڑھ لیتی ہے۔

    اگر چہ ہوا کا رخ بدل رہا تھا لیکن وقت ابھی اتنا بے اعتبار نہیں ہوا تھا اور اپنی ساکھ کو قائم رکھنے کی تگ و دو میں تھا۔۔۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب گھروںکے مین گیٹ مکمل طور پر بند نہیں ہوتے تھے، فقط بھڑے ہوئے ہوتے تھے۔ لان میں بیٹھی سطوت نے بند آنکھوں سے اونچی ایڑی کے سینڈل کی ٹپ ٹپ کو محسوس کیا۔ یعنی آنے والا گیٹ کھول کر اندر آچکا تھا۔ اندر آنے والی ایک خاتون تھیں۔ اس خاتون نے اپنے وجود کو اوور کوٹ، مفلر، ٹک ٹک کرتی گرگابی اور کالی عینکوں سے مزین کر رکھا تھا۔ کھلے موسم میں اس لبادے میں ملبوس یہ خاتون سطوت کو دلچسپ لگی۔ خاتون ابھی تک لان میں بیٹھی سطوت کی موجودگی سے بے خبر تھی۔ بہر حال سطوت کھنکاری، خاتون متوجہ ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد ملازمین کی ضرورت کے بارے میں پوچھا۔ ہاں وہ تو ہے! سطوت نے جواب دیا۔ تو جی پھر ایسا ہے کہ آپ ہمیں کواٹر دے دیں۔ میری دو بیٹیاں دو بیٹے اور میں ہوں۔ میرا شوہر مرچکا ہے۔ تو جی کام تومیری چھوٹی بیٹی فری کرے گی۔ مجھے تو گٹے گوڈوں کا درد ہی دم نہیں لینے دیتا۔ سطوت کو اس کے گٹے گوڈوں سے کیا لینا تھا۔ اسے نوکر کی اشد ضرورت تھی لہذا اس نے فوراً کہا کہ تم لوگ آج ہی آجاؤ۔

    فری! عمر نودس سال، ایک ذہین ملازمہ ثابت ہوئی۔ چولہے تک پہنچنے کے لئے وہ ایک چوکی پر کھڑے ہوکر کام کرتی۔ تقریباً سارے کام اسے کرنے آتے تھے۔ یہ سب دیکھ کر سطوت اکثر کڑھ سی جاتی اور سوچتی کہ آخر اس نے کس عمر میں کام کرنا شروع کیا ہوگا؟ ثریا! یہ فری کی ماں کا نام تھا، ایک عجیب کریکٹر کی عورت تھی۔ وہ اپنے چاروں معصوم بچوں کو مختلف جذباتی سطحوں پر بلیک میل کرتی اور اس طرح وہ انہیں اپنے قبضے سے ادھر ادھر نہ ہونے دیتی۔ وہ اپنے معیار کی ایک مختلف فیشن زدہ اور ہنسنے کھیلنے والی عورت تھی۔ لیکن بوقت ضرورت وہ دھاروں دھار روتی۔ بچے سہمے رہتے اور وہ مطمئن رہتی۔ نہ صرف بلکہ وہ فری کے گھر کے باقی افراد بھی شوقین مزاج، آزاد منش تھے اور فلم، گانا، ایکٹر، ایکٹریسیں، سب کے بارے میں ان کے اسباق مکمل تھے۔ حتی کہ فری کی ماںجب سطوت سے ناراض ہوتی تو ایک عدد فلمی گانا لکھ کر بھیج دیتی۔ جب اسے اپنی بدتمیزی کا احساس ہوتا تب بھی اس کا بیٹا ننھا بند لفافے میں رقعہ لاتا جس پر موقع کی مناسبت سے گانا لکھا ہوتا اور آخر میں خوشیوں سے بھر پور گانا بھی بند لفافے میں سطوت کو موصول ہوجاتا۔ سطوت ثریا کو جنونی سمجھتی تھی اور ثریا کی ان حرکات کا خودی کو عادی بنالیا تھا۔ اس کی وجہ محض فری کی موجودگی تھی جس کی وجہ سے سطوت بہت آرام میں تھی۔۔۔ فری ایک خوش مزاج، ہنس مکھ اور ذہین ملازمہ ثابت ہوئی لیکن اب وہ بڑی ہوتی جارہی تھی اور رنگ ڈھنگ نکھرنے لگا تھا۔ سطوت پریشان تھی کیونکہ اب فری اکثر کسی خالہ، کسی پھوپھی اور مامی وغیرہ کے جانے لگی تھی۔ اس کے علاوہ چند ایک رشتے زادے جن کو کزن کہہ کر گھر کے اندر بلایا جاسکتا تھا، کواٹر میں اکثر آنے جانے لگے۔ فری اب دوسرے چوتھے روز چھٹی بھی مانگنے لگی تھی، رشتے داروں میں اکثر فوتیدگی ہونے لگی یا پھر کہیں شادی سالگرہ، منگنی، مایوں وغیرہ ہوتی رہتیں اور فری چھٹیاں مناتی رہتی۔ رات گئے واپس آتی تو کچے کچے میک اپ سے اس کا چہرہ لپاپتا ہوتا۔ سطوت حیران ہوکر پوچھتی کہ یہ کیا ہوا ہے تو فری کمال سادگی سے کہتی کہ جی و ہ شادی پر گئے تھے نا۔ سطوت خاموش رہتی۔ ایک روز فری چھٹی گذار کر آئی تو میک اپ کا وہی عالم تھا۔ سطوت نے پوچھا کہ تم آج بھی شادی پر گئی تھیں؟ کیونکہ خبر یہی تھی کہ اس روز پورا خاندان فوتیدگی پر گیا تھا۔ بہر حال اس قسم کے جھوٹ سچ کی بھرمار ہونے لگی تو سطوت نے فری کی ماں کو کوراٹر خالی کرنے کا کہہ دیا۔ سطوت جانتی تھی کہ کام کا تمام بوجھ اس پر آن گرے گا لیکن اس قسم کی مشکوک اور مکدر فضا میں وہ فری سے خوشدلی سے کام نہیں لے سکتی تھی۔ یہ فیملی زیادہ دور نہیں گئی۔ سطوت کے گھر سے فقط دو بلاک پر ایک بے آباد پرانی کوٹھی میں چوکیدار کی حیثیت سے رہنے لگے۔

    فری کا اصل نام افروز بیگم تھا۔ یہ انکشاف یوںہوا کہ کسی اخبار میں فوٹو سیشن سمیت اپنا انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا کہ میرا نام ’’افروز بیگم‘‘ ہے اور میں ساہیوال سے لاہور اس لیے آئی ہوں کہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکوں۔ میں میٹرک پاس ہوں اور کپڑے سی کر اپنے خاندان کی ضروریات پوری کررہی ہوں۔ ایک دو روز تک گھر میں فری کے موضوع پر بات ہوتی رہی اور پھر سب بھول بھال گئے۔

    ایک رات تقریباً گیارہ بجے کا عمل ہوگا کہ فری کی بہن صغراں آئی اور کہا کہ بی بی جی ’’فری بہت بیمار ہے، وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے۔‘‘ سطوت کے دل میں فری کے لیے ایک نرم گوشہ تو تھا ہی۔ فوراً ڈرائیور کو جگایا اور فری کے گھر چلی گئی۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ فری بیمار نہیں بلکہ اس نے کوٹھے سے چھلانگ لگائی ہے جس کے نتیجے میں اس کی ریڑھ کی ہڈی کو بہت چوٹ آئی ہے۔۔۔ فری چارپائی پرلیٹی تھی۔ اس کا چہرہ خالی تھا اور اس پہ لاتعلقی کی چھاپ تھی۔ آنکھیں بنجر تھیں، بنا کسی سوال وجواب کے، بغیر کسی معذرت یا شرمندگی کے۔۔۔

    اس کی ماں حسب معمول ڈرامہ کرنے کی کوشش کررہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ بی بی جی! بالکل فلمی سین تھا۔ کہ بس جی! فری نہائی، اچھے والے کپڑے پہنے، بال کھولے اور شپاشپ چھت پر چلی گئی اور چھلانگ لگادی۔ جی بالکل فلمی سین تھا۔ اس نے پھس پھسا کر رونے کی کوشش کی توسطوت نے بے زاری سے چہرہ دوسری جانب موڑ لیا۔ رات کے دو بجے تک سطوت مختلف ضروریات کے تحت فری کو مختلف لیبارٹریز اور ہسپتالوں میں لیے پھرتی رہی اور آخر جنرل ہسپتال میں اسے داخل کروادیا گیا۔

    فری کے چل پھر سکنے اور تندرست ہونے میں بہت وقت لگا لیکن اب وہ لنگڑاکر چلتی تھی۔ زندگی جیسی بھی تھی اپنے معمول پر آگئی۔

    ایک روز فری سطوت کے ہاں آئی، بیٹھی اور تھوڑی دیر بعد سطوت کے بالوں میں تیل لگاتے لگاتے بولی۔ بی بی جی! آپ نے مجھے سے پوچھا نہیں کہ یہ ایپی سوڈ کیونکر ہوا؟ فری ڈراموں میں باقاعدہ کام کرنے لگی تھی لہذا اس کی گفتگو میں ڈراموں کی زبان بھی شامل ہوتی بلکہ اب وہ انگریز ی کے جملے بھی بولنے کی کوشش کرتی۔ اردو وہ پہلے ہی ٹھیک ٹھاک بولتی اور لکھتی تھی۔ ہاں تم خود بیمار رہی ہو۔ میں نے اس لیے بھی نہیں پوچھا کہ تم مائینڈ نہ کرو۔ بتانا چاہتی ہو تو ضرور بتاؤ۔ ہاں توکیا ہوا تھا؟

    ہم جہاں اس وقت رہ رہے ہیں، اس کے سامنے ایک کوٹھی ہے۔ کوٹھی والوں سے کچھ پہچان بندھی تو وہ بیگم مجھے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بلانے لگیں اسی آنے جانے میں ان کے بیٹے سے بھی بات چیت ہوجاتی کچھ ہی عرصہ بعد یہ بات چیت چار حرفوں میں تبدیل ہوگئی۔ بیٹا ڈاکٹری پاس کرکے ہاؤس جاب کررہا تھا۔ بات کچھ اور آگے بڑھی تو اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے نرسنگ کا کورس کروائے گا۔ پھر ہماری شادی ہوگی اور پھر ہم دونوں کام کریںگے وغیرہ وغیرہ۔ مجھے اس کی باتوں کا یقین آگیا۔ یقین تو آنا ہی تھا جی کہ وہ خود میرا یقین بنا ہوا تھا۔

    لیکن جی کلائیمکس تو اس وقت ہوا جب ایک روز اس کی ماں نے مجھے بلایا اور کہا تھوڑا سا کام ہے۔ کل جمیل کی منگنی ہے اور چھوہاروں باداموں وغیرہ کے لیے یہ دو تھیلے گوٹا لگا کر تیار کردو۔ میں تو جی سر سے پاؤں تک مرسی گئی۔ بہر حال جیسے تیسے میں نے تھیلے سی دئیے۔ اور گھر واپس آگئی۔ میں نہیں جانتی کہ یہ تمام واقعہ کیونکر رونما ہوا۔ مجھے کچھ یاد نہیں۔ جب میں ہوش میں آئی تو آپ میری چارپائی کے پاس کھڑی تھیں۔ لیکن میری ماں اس واقعہ کو جس طور پر بیان کرتی ہے، اصل میں وہ آپ کو سنانا چاہتی ہوں۔ سنیے!ابھی میں اور آپ دونوں ہنسیںگے۔۔۔ امی کہتی ہے کہ تم نے بال کھولے او رفٹا فٹ چھت پر چلی گئیں۔ میں تمہیں حیران ہو کر دیکھ رہی تھی او ر ابھی سوچ رہی تھی کہ چھت سے ایک دھماکے سے کچھ گرنے کی آواز آئی۔ یہ تم تھیں اور پتہ ہے آگے میں نے کیا سوچا تھا۔۔۔ نہیں میں نے سوچا نہیں تھا، یہ سب خود بخود میرے دماغ میں آگیا تھا، کہ تم ٹھیک ہو کر ارمان والی زیبا کی طرح چلو گی اور گاؤ گی ’’اکیلے نہ جانا ہمیںچھوڑ کر تم۔‘‘ یہ سب کہہ کر میری ماں خوب ہنسی تھی۔ کیوں بی بی جی! ہے کسی کی ایسی ماں؟ فری کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ کچھ دن بعد سطوت نے اسے مشورہ دیا کہ تم سلائی وغیرہ اچھی طرح جانتی ہو، میں تمہیں سلائی کی مشینیں مہیا کردیتی ہوں۔ دو چار شاگرد قسم کی لڑکیاں تم خود ڈھونڈ لو اور پچھلے برآمدے میں یہ کام شروع کردو۔ میں کام دلوانے میں بھی تمہاری مدد کروںگی۔ فری جواب میں خاموش رہی۔ یقینا اس کو یہ تجویز پسند نہیں آئی تھی۔

    اب فری کی آمد ورفت میںلمبے لمبے وقفے پڑنے لگے تھے۔ اس نے ڈراموں میں دوبارہ کام شروع کردیا تھا۔ اگر چہ اب وہ قدم دبا کر چلنے لگی تھی لیکن اس کی ذہانت اور اچھی پر فارمنس کی وجہ سے اسے ڈراموں میں کام ملتا رہا۔ ایک لمبے عرصے کے لیے فری سطوت کے گھر کے سین سے غائب ہوگئی۔

    لیکن سردیوں کی ایک دوپہر وہ پھر آگئی۔ وہ ایک خوبصورت فری تھی۔ اس کے چہرے پہ آب ورنگ تھا اور وہ سر تا پا کھلی کھلی تروتازہ تھی۔ خوشی اس کے اندر سے کہیں پھوٹ رہی تھی۔ سطوت چند لمحوں کے لیے مبہوت سی ہوئی اورا نجانے میں سوال کر ڈالا۔ کیا فیشل کروا کر آرہی ہو۔ فری نے جواب میں تھوڑا توقف کیا اور پھر فوراً ہی سنجیدگی سے اپنے لہجے کو مضبوط کرتے ہوئے بتایا کہ جی! میں نے شادی کر لی ہے۔ سطوت یہ سن کر خوش ہوئی اور ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔ اچھا؟ کب کی ؟ کون ہے ؟ کیا کرتا ہے وغیرہ وغیرہ؟ ۔۔۔ جی بی بی! اور تو سب ٹھیک ہے جی! لیکن جی اس کے تین بچے ہیں اور ان بچوں کی ماںبھی ہے جو اپنے گاؤں میںہے۔ سطوت سناٹے میں آگئی اور چپ کی چپ رہ گئی۔ فری نے اپنے اور سطوت کے درمیان سناٹے کی دیوار کو توڑااور جھلا کر بولی! میں کیا کرتی بی بی جی! جب سے میں پاؤں دبا کر چلنا شروع ہوتی میرے ساتھ کام کرنے والوں نے مجھے حقیر سمجھنا شروع کردیا۔ مخول، ٹھٹھا، بیہودہ مذاق۔ میں آپ کو کس طرح سمجھاؤں جی ؟ بس جیسے کسی کھوکھے پہ کوئی چھوٹا کام کرتا ہو اور ہر کوئی اس پہ حق جتانا اپنا حق سمجھتا ہو۔

    بس کچھ ایسا ہی سلوک میرے ساتھ بھی ہونے لگا۔ لیکن بی بی جی! میں چھوٹا نہیں بننا چاہتی۔ ایسے چھوٹے بیچارے کبھی بھی بڑے نہیں ہوپاتے۔ عزت، توقیران چھوٹوں کے نصیب میں نہیں لکھی گئی۔ یہ اندھا فیصلہ میری مجبوری تھی۔ مجھے مرد کے ہاتھ کی ضرورت تھی جی! پلیز بی بی جی آپ خفا اور رنجیدہ نہ ہوں۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ فری کی آنکھوں میں اٹکے آنسو اس کے گالوں پہ ڈھلک آئے۔ سطوت نے اسے اپنے ساتھ لگالیا او ر کہا کہ دیکھو! مجھے اس بات کا دکھ نہیں کہ تم نے شادی کر لی۔ افسوس یہ ہے کہ تین بچوں کا باپ اور پہلے سے بیوی رکھنے والا شخص تمہارے قابل نہیں تھا۔ اور پھر تم نے معصوم بچوں کو باپ سے جدا بھی کردیا۔ تمہیں کوئی تم جیسا ہی اچھا سا مل سکتا تھا۔ اچھاخیر۔ قسمت، نصیب وغیرہ شاید اسی کو کہتے ہیں۔

    زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ایک روز فری تھکی ہاری، میلی میلی سی آئی اور سطوت کے ہاتھ میں ایک کاغذ دیا۔ یہ اس کا نکاح نامہ تھا۔ سطوت نے کاغذ کو ہاتھ میں ہلایا اور پوچھا؟ میں اس کا کیا کروں؟ اس میں جی جو کالم نمبر18 ہے وہ حق طلاق کا کالم ہے اور اس میںمیرے دستخط ہیں۔ یعنی مجھے طلاق کا حق حاصل ہے۔ بس جی صاحب جی سے کہیں میرا فیصلہ کروادیں۔ کیوں؟ اتنی جلدی ایسی کیا بات ہو گئی جو اتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہو ؟ سطوت نے حیرانگی سے پوچھا۔ بس اول دنوں سے ہی بات بنی نہیںجی۔ وہ میرا سہارا نہیں بنا بلکہ وہ مجھے اپنا سہارا بنانا چاہتا تھا۔ سو میں نے علیحدگی اختیار کرلی اور امی کے پاس آگئی۔۔۔ کچھ ہی دنوں بعد اس نے میرے ہمسایوں کے گھر فون کر کے مجھے بلایا اور ترلے منتیں کرنے لگا کہ تم مجھے بیٹی سے ملنے کی اجازت دو کہ میں تمہاری ماں کے گھر آکر اس سے مل جایا کروں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ سو کل رات وہ آیا۔ میری امی ہمسائے میں فلم دیکھنے گئی ہوئی تھی۔ بیٹی سے وہ سرسری سا ملا۔ بس جی پھر وہ اپنا حق جتانے لگا اور ہاتھا پائی پہ اتر آیا۔ مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا میں نے پیتل کالوٹا اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا۔ گھر کو میں نے کھلا چھوڑا، بچی کو گود میں لیا اور محلے میں اپنی ایک ملنے والی کے چلی گئی۔ کسی کو کچھ نہیں بتایا۔ تھوڑی دیر بعد گھر آئی تو وہ دفع ہو چکا تھا۔ دیکھیں ناں جی! جب میری سوچ اور میرے دماغ میں ہی اس کا کوئی رشتہ نہیں بن سکا تو پھر میرے وجود سے اس کا کیا رشتہ بنتاہے ؟ ہیں ناں بی بی جی ؟ نہ مول نہ بیاج۔ خوا مخواہ۔۔۔ افروز کا چہرہ میلا تھا۔ سطوت کو ایسا لگا جیسے اندر کے دکھ نے اس کے چہرے کو سکیڑ دیا ہو۔ اس کے گالوں پہ آنسوؤں کی دھاریںبہہ رہیں تھیں۔ سطوت کو اس پر بے طرح پیا رآیا۔ چلو چھوڑ و، چلو اندر چلتے ہیں۔ تم نہا لو، پھر ہم دونوں چائے پیتے ہیں۔ سطوت نے اندر جانے کے لئے فری کا بازو پکڑا تو وہ دھاڑیں مارتی ہوئی اپنی بی بی سے لپٹ گئی۔

    کچھ اور وقت گزر گیا۔ فری آئی۔ اس کے رویے میں سرسری پن تھا۔ اس نے آتے ہی سطوت سے کہا، ’’جی وہ آپ کو دیا تھا نا۔۔ سطوت اس کے رویے سے فوراً سمجھ گئی اور کہا ہاں وہ! ابھی لائی۔ سطوت نے ایک کاغذ لا کر اس کو تھما دیا اور اس نے بنا کچھ پوچھے، بنا نظر ملائے، اپنے پرس میں رکھ لیا۔ مجھے ذرا جلدی ہے اس نے معذرت کی۔ ہاں! ہاں ٹھیک ہے کوئی بات نہیں۔ تم جاؤ۔

    اب یہ محض اتفاق تھا کہ چند روز بعد کہ سطوت کے پاؤں میں تکلیف تھی اور وہ کسی آرام دہ جوتے کی تلاش میں تھی، یونہی کسی دکان سے نکلتے سطوت کی نگاہ فری پر پڑی جو گول گپے کھا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ایک مرد تھا۔ فری کا چہرہ مطئمن اور بارونق تھا۔ اس اثناء میں فری نے بھی سطوت کو دیکھ لیا تھا لہذا وہ بڑے ادب، آداب سے مسکراتی ہوئی اس مرد کو ساتھ لئے سطوت کے پاس آگئی اور بتایا کہ جی یہ ریاض ہے اور ہم دونوں نے شادی کرلی ہے۔ پھرتھوڑا کھسیاتے ہوئے بولی کہ جی ریاض عمر میں مجھ سے چھوٹا ہے۔ بی اے پاس ہے۔ چلو اچھا ہوا تم بھی تو کسی بے اے پاس سے کم نہیں ہو۔ لیکن تمہاری بیٹی؟ بیٹی کو جی امی نے رکھ لیا ہے کیونکہ اسے بھی چھوٹے چھوٹے رول مل جاتے ہیں اور امی کو پیسے مل جاتے ہیں۔ اچھا بھئی کبھی گھر آنا۔ سطوت نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا! لیکن وہ سوچ میں تھی کہ اس عدت کا کیا ہوا؟ وہ تو ان تھوڑے سے دنوں میں ممکن نہیں۔ لیکن مجھے اس سے کیا لینا دینا۔ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ میری کرید بے معنی ہے۔

    ایک روز دوپہر کوسطوت گھر میں کام میں مشغول تھی کہ مالی پریشان سا گھرکے اندر آیا۔ بی بی جی وہ افروز بیگم گیٹ کے باہر کھڑی ہے۔ وہ تو جی مجھے مرنے والی لگ رہی ہے۔ اس کودیکھ لیں جی۔ مالی بہت گھبرایا ہوا تھا۔ بہرحال سطوت اور مالی فری کو سہارا دے کر اندر لائے۔ پانی، جوس وغیرہ پلایا تو اس نے کچھ طاقت پکڑی۔ سطوت نے اس سے کوئی سوال جواب نہیں کیے۔ سکون آور گولی دے کر اسے سلادیا اور وقفے وقفے سے اسے دیکھتی رہی۔ تھوڑی نیند لینے کے بعد وہ اٹھی، ادھر ادھر دیکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے ؟ سطوت نے پوچھا؟ جی ریاض مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی بھئی، افروز بیگم۔ یہ تم نے کیا تماشا لگا رکھا ہے۔ ڈرامہ کرتے کرتے تم اپنی زندگی کو ڈرامہ بنا رہی ہو۔ یہ تو غلط بات ہے۔ پہلے والا تمہیں پسند نہیں آیا۔ لیکن اس ریاض نے ایسا کیوں کیا؟ سطوت کے لہجے میں پہلی بار فری کو تلخی اور بے زاری کا احساس ہوا۔

    بی بی جی کچھ ہی دنوں بعد اس نے کہنا شروع کر دیا کہ چونکہ تم مجھ سے عمر میںبڑی ہو۔ اس لئے تمہارے ساتھ بول چال، اٹھنے بیٹھنے غرض کہ کسی بھی قسم کا تعلق قائم کرنے میں بجائے خوشگواری کے ایک دشواری اور اوپرا پن محسوس ہوتا ہے کچھ لمحوں کے لیے فری خاموش سر جھکائے بیٹھی رہی اور پھر بولی! میں جانتی ہوں جی اس نے ایسا کیوں کیا ہے۔ اس لیے کہ شادی سے پہلے اس نے بتادیا تھا کہ گاؤں میں اس کی منگیتر موجود ہے۔ اس کے باوجود بھی میں اس میں الجھ گئی اور وہ بھی پور و پور مجھ میں الجھ گیا۔ پہلے والے کا قصہ بھی میری سزا تھی اور یہ بھی میری ہی سزا بنی کہ میں جانتی تھی کہ اس کی منگیتر موجود ہے پھر بھی میں نے ہٹ دکھائی۔ پرجی! یہ سزا میرے ہی ذمے کیوںلگی؟ جبکہ ریاض بھی پوری طرح محبت کی اس واردات میں شامل تھا۔ پر نہیں۔ وہ مرد ہے نا جی! میں ڈائیلاگ نہیں بولتی جی۔ اسے ڈھونڈنا میری انا کا مسئلہ بن گیا ہے اور میرا دل و دماغ بھی اس کے اندر اٹک گیا ہے۔ میں ریاض کو ڈھونڈوںگی۔ اس کے پیچھے جاؤںگی۔ اپنا یہ فیصلہ سنانے کے بعد شاید وہ کچھ نارمل محسوس کرنے لگی تھی۔ وہ اٹھی۔ دو پیالی چائے بنائی ایک اپنے، ایک سطوت کے آگے رکھی۔ اطمینان سے چائے پی چکنے کے بعد وہ اٹھی اور نحیف آواز میں بولی!اچھا جی میں چلتی ہوں!

    جاؤ، ایک اور کہانی، ایک نیا ڈرامہ بناؤ ایک اور گھر میں انتشار ڈالو۔ سطوت کی یہ دو ٹوک گفتگو اس نے تحمل سے سنی اور گردن گھما کر چند ثانیوں کے لیے سطوت کو تکتی رہی۔ سطوت نے اس سے نظر ملانے سے گریز کیا کہ وہ جانتی تھی کہ ان لمحوں میں فری کی نگاہوں میں سطوت کے لیے بجز حیرت اور نفرت کے کچھ نہ ہوگا۔

    ایک طویل عرصہ دنوں میں گزر گیا۔ اس گزرتے وقت میں چند ایک بار فری کو ڈھونڈھنے کی کوشش کی گئی۔ دو چار محلوں میں جن میں وہ گھر بدل بدل کر رہی تھی، تلاش کیا۔ لیکن نہ ہی اس کی ماںملی نہ افروز بیگم کا اتا پتا معلوم ہوسکا۔

    کراچی ’’پین فارپیس‘‘ کانفرنس شروع ہوئے تیسرا روز تھا اور اب سہ پہر میں اس کا اختتامی سیشن تھا۔ سطوت کو تھکن محسوس ہوئی تو وہ چپکے سے کانفرنس سے اٹھی اور اختر صاحب کے ڈرائیور کو لے کر سمندر کے کنارے چلی گئی۔ یہاں موسم خوبصورت تھا۔ ہوا بہت ہی خوشگوار تھی۔ سطوت گاڑی سے نکل کر سمندر کے کنارے بنی لمبی سیڑھیوں پہ بیٹھ گئی اور ڈرائیور سے کہا کہ تم چائے، ٹھنڈا، جو چاہو پی لو، میں کچھ دیر یہاں بیٹھوںگی۔ سیڑھیوں سے آگے لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو اپنے بچوں کے ساتھ پانی اور ریت کے کھیل میں مشغول تھا۔ سطوت اس کھلی فضا اور ماحول سے بہت لطف لے رہی تھی۔

    اس کی پشت پر کسی نے چائے، بوتل، برگر کی آواز لگائی۔ آواز لگانے والا سطوت کے بائیں جانب چلتا چلا جارہا تھا۔ سطوت نے اسے سرسری سا دیکھا اور دوبارہ سمندر کی جانب دیکھنے لگی گئی۔ لیکن دوسرے ہی لمحے ٹھٹھک کر اس نے یک لخت اپنا چہرہ اسی جانب موڑا تو اسے احساس ہوا کہ آواز لگانے والے کی چال میں قدرے دباؤ تھا۔ سطوت بے چین سی ہو گئی اور آواز لگانے والے کی واپسی کا انتظار کرنے لگی تاکہ اس کا چہرہ دیکھ سکے۔ گردن میں چھا بڑی لٹکائے جب یہ واپس ہو اتو یہ کوئی مرد یا لڑکا نہیں تھا بلکہ اپنے وقت کی تھیٹر کی افروز بیگم تھی۔ سطوت لڑکیوں کی سی چستی سے سیڑھیوں سے اٹھی اور لپک کر فری کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ سطوت اور فری دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ایک گہرے سناٹے میں محصور خاموش کھڑی تھیں۔ سطوت نے سر سے پاؤں تک فری کے سراپا پہ نگاہ ڈالی اورایک ہی نظر میں اُس کے وجود کی ساری تفصیل اسے ازبر ہوگئی۔

    فری کے جسم پر ایک بے حد میلا لنڈے کا فراک اور ویسا ہی جالی کا سکارف نما دوپٹہ تھا جس کی ڈوری جگہ جگہ سے ادھڑ رہی تھی۔ کالا ریشمی کوٹ جو بے تحاشا استعمال سے کالے سے براؤن ہو چکا تھا، پیروں میں گھسے ہوئے چپل، تیل سے چپڑے اور کئی روز سے نہ دھوئے ہوئے بال، جن کو پیچھے باندھ کر اس نے کلپ لگا رکھا تھا۔ بے رونق آنکھیں اور چھائیوں سے سیاہ ہوتا ہوا چہرہ۔۔۔ سطوت کی نظروںمیں برسوں پہلے والی کامنی سی افروز بیگم گھوم گئی۔

    تو پھر وہ تمہیں ملا؟ سطوت نے نہ معلوم کس شدید ذہنی کوفت اور اذیت کے بوجھ تلے یہ سوال داغ دیا۔ جی بی بی!وہ مجھے ملا۔ اسی سمندر پر۔ فری نے بے حد متانت سے سوال کا جواب دیا۔ گویا وہ اس قسم کے سوال کے لیے تیار تھی۔ ’’میں نے اسے دیکھا‘‘ وہ مزید بولی۔ لیکن جی مجھے کچھ بھی نہیں ہوا۔ نہ میں اس کی جانب لپکی، نہ روئی، نہ مچلی، اور پھر میں نے خود پہ نظر ڈالی۔ اپنے گندے جسم کو دیکھا، اپنے حلیے کو دیکھا تو جی بس ایک ذرا سا ملال ہوا کہ وہ کچھ ایسا اہم تو نہیں تھا جس کی خاطر میں نے زندگی کو اس قدر نیچ اور غلیظ بنا ڈالا۔ اس کے ساتھ کوئی تھی؟ سطوت نے مزید پوچھا! جی! فری ہنسی۔ اس سمندر پر یہ سب کچھ ملتا ہے۔ آنکھوں کے لیے بھی بہت کچھ ہے اور جسموں کے لیے بھی سبھی کچھ میسر ہے اور جی میرا اور آپ کا رب تو، یہ دو جہانوں کا مالک ہے نا، یہ خوب ٹھگی کرتا ہے۔ چوبیس گھنٹے جی! مجھ جیسیوں کو ایک پل چین نہیں لینے دیتا۔ فری نے ایک ہسٹریائی اور بے باک قہقہے کیساتھ اپنے ہی ہاتھ پہ ہاتھ مارا۔ اس کے دانت اب بھی صاف اور چمکیلے تھے۔ سطوت سکتے میں تھی اور ادھر ادھر خلاء میں دیکھ رہی تھی۔ ڈرائیور نے سطوت کو کھڑے دیکھا تو قریب آگیا اوور بولا کہ جی! ان کے پیسے دینے ہیں۔ شائد ڈرائیور نے فری سے ہی لے کر کچھ کھایا تھا۔ سطوت پرس میں سے پیسے نکالتے نکالتے گاڑی کے قریب آگئی۔ فری بھی اس کے ساتھ ساتھ چلی آئی۔ سطوت نے نگاہ ادھر ادھر دوڑائی تو ڈوبتے سورج پہ اٹک گئی جو کانسی اور تانبے کی آگ میں ڈھلتا، گھلتا ہوا دور پاتال میں اتر رہا تھا سطوت بے معنی لمحوں کو بامعنی بنانے کی کوشش میں بولی، ’’سورج ڈوب رہا ہے!‘‘

    جی! روز ڈوبتا ہے ہے‘‘ فری نے سپاٹ لہجے میں گویا اطلاع سی دی۔ سطوت کھسیانی ہوگئی۔ سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے اس کا ہاتھ فری کے سر کی جانب بڑھا لیکن فری کے چہرے کی بیگانگی اور کرختگی کو محسوس کرتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ نیچے کر لیا اور ایک شل وجود کے ساتھ وہ تقریباً گرتے ہوئے سیٹ پر بیٹھ گئی۔ ’’خدا حافظ‘‘، سطوت نے رندھے ہوئے گلے سے آواز نکالی۔ جی ’’خدا حافظ بی بی جی۔‘‘ سطوت نے بے حد تھکی ہوئی آواز سے ڈرائیور کو واپس جانے کے لیے کہا۔

    وقت گزرتا رہا۔ خاص خاص وقتوں میںفری یاد آتی اور سطوت کو دکھ ہوتا۔ ایک دوپہر ڈاک آئی تو اس میں ایک خط کراچی سے تھا اور سطوت کے نام تھا۔ کراچی سے مجھے کون خط لکھے گا! سطوت نے لفافہ کھولا ’’کھارادر‘‘ کھارا در میں میرا تو کوئی جاننے والا نہیں۔ اس نے ایک دفعہ لفافے کو مزید سرسری سا دیکھا۔ اور خط کھول کر پڑھنے لگی۔ پہلی سطر پڑھنے کے بعد وہ سنبھل کر بیٹھ گئی۔

    بی بی جی!

    میری قسمت میں نہ تھیڑ تھا نہ سٹیج۔ وہ میرے وقت کے ساتھی ضرور تھے اورمیرے رزق کا وسیلہ تھے۔ لیکن میری قسمت میں سفر بھی وہی تھا اور منزل بھی وہی ہے جو کہ دس سال کی عمر میں میں نے آپ کے گھر سے شروع کیا تھا یعنی کہ آج بھی میں اپنی ریڑھ کی ٹوٹی ہڈی کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر اس فیکٹری میں بکھرے، الجھے دھاگوں کو سلجھاتی ہوں۔

    بی بی جی! کسی بڑے سٹیشن تک پہنچنے کے لیے میں چھوٹے چھوٹے سٹیشنوں پہ اترتی رہی اور جلد جلد گاڑیاں بدلتی رہی۔ جلدی جلدی چڑھنے، اترنے سے سامان گرجاتا ہے اور کچھ سامان ایسا ہوتا ہے جو دوبارہ مل نہیں سکتا تو شاید میری جلدی میں میرا کچھ ایسا ہی سامان گر گیا کہ میں آج تک کی زندگی میں کبھی سرخرو نہ ہو پائی۔ بی بی جی! غربت کی شکل ہر جگہ ایک جیسی ہوتی ہے۔ جہاں پہ میں اس وقت ہوں یہ جگہ، یہ گلی، محلہ، دروازے سب میرے ہم شکل ہیں۔ آپ سے ملنے کے بعد میری بے چینی بہت بڑھ گئی تھی سو مجھ سے سمندر کا کنارا بھی چھٹا۔۔۔ جس روز میں نے اسے پایا، یعنی دیکھا، گویا اسی لمحے کھودیا۔ وہ مجھے بے حد عام سا شخص لگا۔ جبکہ اپنا آپ ہمیشہ سے زیادہ پیار الگنے لگا ہے۔ لیکن بی بی جی میرے دل کا ایک سوال مجھے بہت پریشان کرتا ہے کہ میرا قصور تو فقط صحیح کی تلاش تھی، سچ کی جستجو تھی تو پھر میرے وجود کی بے بسی اور زندگی کی غلاظت ہی میرا نصیب کیوں بنی؟ اب تو جی مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں ہاتھ پاؤں تو رکھتی ہوں، جسم تو ہے لیکن ذہن سے سوچ سے اس کا رابطہ باقی نہیں رہا۔ میرا وجود تو ہے لیکن میں، افروز بیگم اس میں موجود نہیں ہوں جی۔ میری ساری دعائیں آپ کے لیے ہیں۔ آپ سدا خوش رہیں۔ آپ کی افروز بیگم۔

    سطوت خط پڑھ کر بے حد افسردہ ہوئی۔ نامعلوم کیا کیا سوچتی رہی۔ آخر اس نے زمین ہاتھ سے گرے افروز بیگم کے خط کو اٹھایا اور آنکھوں کو دھندلاتا پانی صاف کیا۔ چاروں طرف نظر دوڑائی۔ شام ہو رہی تھی، پتہ ہی نہیں چلا! لان سے اٹھ کر گھر کے اندر داخل ہوئی۔ کیتلی میں چائے کے لئے، پانی ڈالا۔ چولہا جلایا تو جیسے سکتے میں آگئی۔

    پتھر کے کوئلوں سے دہکتی انگیٹھی لمبے برآمدے میں رکھی ہے۔ پشمینے کا سرمئی رنگ کا دھسہ، جس کی کنی پر ہرے رنگ کی باریک باڈرہے۔ تایا جی یہ دھسہ اوڑھے صوفے پر بیٹھے ہیں۔ عمر کا وہ پہر ہے کہ جب گھر کی بیٹھک آنے والوں سے آہستہ آہستہ خالی ہوتی چلی جاتی ہے اور سناٹا اور تنہائی پیچھے رہ جانے والے کے گردا اپنا جال بننا شروع کردیتے ہیں۔ ہم سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہیں۔ یعنی ہم سب ہیں، لیکن تایا جی تنہا ہیں۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے چوڑی ہتھیلی اور لمبی انگلیوں والا اپنا دایاں ہاتھ دھسے سے باہر نکالتے ہیں۔ کوئلوں کی انگیٹھی جو قریب ہی رکھی ہے، اس سے لمحہ بھر کو ہاتھ سینکتے ہیں اور پھر اپنی انگلیوں کو انکار کی صورت میں دائیں جانب موڑ لیتے ہیں اور ایک ایسے لہجے میں بولتے ہیں جیسے خود کو تنبیہ کر رہے ہوں یا خود کو یقین دلا رہے ہوں۔

    ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہےہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے