بند کتاب
دوپہر کی دھوپ کی تمازت ڈھل چکی تھی۔ اب سہ پہر تھی۔ شہاب نے صوفے پر لیٹے لیٹے ذرا سا سر اونچا کر کے ادھر ادھر نگاہ ڈالی۔ بیگم کرسی پہ بیٹھی ٹیلی ویژن پر نظریں جمائے ہوئے تھیں۔ انہوں نے ٹی وی کی آواز کو بہت دھیما کر رکھا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ انہیں اسے سننے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور ٹی وی کے اندر چلتے پھرتے انسانوں کو گھر کے اندر سانس لیتے اور زندگی بسر کرتے ہوئے انسان سمجھ رہی ہیں۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ سوائے پانی کی موٹر کے چلنے کی آواز کے، جسے مالی نے ہدایت کے مطابق مخصوص وقت پر چلا دیا تھا۔
شہاب نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں کھبوئیں اور ایک جھٹکے سے صوفے سے اٹھے۔ ’’آج کوئی نہیں آیا؟‘‘ انہوں نے زینب کو مخاطب کیا۔
’’نہیں کوئی نہیں آیا‘‘ لیکن زینب کو لگا کہ اس نے بہت سپاٹ سا جواب دیا ہے۔ وہ دوبارہ بولی، ’’نہیں شہاب، ابھی تک تو کوئی نہیں آیا۔‘‘
’’زینب‘‘ شہاب بولے۔
’’دیکھو، مئی، جون جولائی سب گزر گئے اور آج اگست کی پندرہ ہے۔ ساری گرد بیٹھ چکی ہے اور ہم نے ابھی تک برآمدے کی کھڑکیا ں ہی نہیں کھولیں۔‘‘
یہ کہہ کر شہاب نے کھڑکیاں کھولنی شروع کردیں۔ زینب نے خالی نظروںسے شہاب کی جانب دیکھا اور دل ہی دل میں کہا، ’’کس قدر سادہ انسان ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ اِ س کے اندر کی نہ لو تھمی ہے نہ گرد بیٹھی ہے۔ یہ شخص کیوں خود کو اندر ہی اندر کھاتا جارہا ہے؟ آخر کیوں‘‘ یہ سوچ کر زینب کے دل میں شہاب کے لئے ترس اور پیار ایک ساتھ ابھرآئے اور آخر کی دو کھڑکیاں کھولنے میں وہ بھی اس کے ساتھ شامل ہوگئی۔
ہائے وہ شاخ سی کمر۔۔۔ ہائے وہ قد نہال سا
وہ جھنجھلاگیا۔ یہ ادائیگی اس کے ہونٹوںسے نہیں ہوئی تھی لیکن ذہن گنگنا اٹھا تھا۔ یہ کیفیت اس کی زندگی میں ایک دفعہ پہلے بھی وارد ہوچکی تھی لیکن وہ نوجوانی کی عمر تھی۔ ہوا یوں کہ اسے ایک دم سے سہگل کے گانوں سے عشق ہوگیا۔ وہ دن بھر اسی تاک میں رہتا کہ کب موقع ملے اور وہ پوری آواز کے ساتھ ریکارڈ لگا دے اور ساتھ خود بھی گائے کہ اس کی اپنی آواز بھی اچھی تھی۔ سہگل کے گانے اس قدر اس کے کمرے میں رچ بس گئے کہ وہ غسل خانے جاتا اور شیو بنانے کیلئے کھڑا ہوتاتو وہاں اس کو نے میں سہگل کے گانوں کی آوازیں یوں سنائی دیتیں جیسے ریکارڈ بج رہا ہو۔
پہلے پہلے اس نے اسے وہم سمجھا لیکن پھر اسے یہ وہم نہیں بلکہ حقیقت لگنے لگا۔ اس نے گھر کے دوسرے افراد کو بھی اپنی اس پریشانی میں شامل کیا اور انہیں بھی اس خاص کونے میں لا لا کھڑا کیا اور پوچھا کہ ہے نا؟ آواز آرہی ہے نا؟ اب سہگل یہ گارہا ہے،
’’دکھ کے دن اب بیتت نا ہیں‘‘ دیکھا۔۔۔ دیکھا۔۔۔ یہ۔۔۔ ’’یہ چاہ برباد کرے گی ہمیں‘‘ ہے نا؟
غسل خانے میں آیا ہو ا شخص ایک دو منٹ خاموش رہتا۔ کچھ سننے کی مزید کوشش کرتا۔ آخر مسکرا کر شہاب کو دیکھتا ہوا چپ چاپ باہر نکل جاتا اور شہاب کنفیوزاور شرمندہ ہوجاتا۔
ہائے وہ شاخ سی کمر۔۔۔ ہائے وہ قد نہال سا
اس بے ساختہ عمل پہ وہ خود بھی خفیف ہوا کہ یہ کیا لچر پن ہے لیکن ایسا ہوتا رہا۔ شروع میں بلا ارادہ اور لاشعوری طور پر، لیکن بعد میں التزاماً۔ وقت دیکھا جانے لگا، انتظار ہونے لگا اوروقت پر دماغ میں یہ خوبصورت گنگناہٹ خود بخود لہرانے لگتی۔ آخر تھوڑی سی ہمت کر کے ایک روز رو برو ہوکر دیکھا تو سب کچھ اچھا لگا۔ وہ چہرہ خوبروئیوں میں شاید شمار نہ ہوتا ہو لیکن وہ صورت اپنے طور پر خوبصورت تھی۔ معاملہ گھر والوں کے سامنے رکھا اور چند ہی دنوں میں سب کچھ سہج سبھاؤ انجام پذیر ہوا۔
شہاب احمد نے ایک نفیس مزاج اور اچھی شہرت رکھنے والے بیورو کریٹ کی حیثیت سے زندگی بسر کی تھی۔
پچھلے برس ریٹائر ہوئے تھے اور اب سوچ رہے تھے کہ باقی ماندہ زندگی کا مصرف کیا ہو۔ شادی کے دو سال بعد ایک بیٹی کی آمد نے گھر کی رونق کو دوبالا کیا تھا۔ شہاب نے اپنی دادی کے نام پر اپنی بیٹی کا نام گیتی رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ زینب کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ اس جوڑے کی زندگی بسر کرنے کی اساس زندگی کے نارمل رویوں کو اپنانے میں تھی۔ گیتی کی پیدائش کے بعد شہاب کے گھر میں کوئی اور بچہ گیتی کے کھیلوں کا ساتھی بن کر نہ آیا۔۔۔ مرکز نظر صرف گیتی۔۔۔ گیتی اور بس گیتی ہی تھی۔ اتنی بے شمار محبتیں سمیٹ کر بھی گیتی چھوٹی جماعتوں سے لے کر بڑی کلاسوں تک غیر معمولی حد تک ذہین، سلجھی ہوئی اور متحمل مزاج ہی رہی۔
بہت سارا وقت ایسے رواں دواں گزراکہ گیتی گائنا لوجسٹ بھی بن گئی۔ بچے اسے بے حد پسند تھے۔ جب بھی کوئی بچہ گیتی کے ہاتھ سے دنیا میں آتا تو گھر آکر وہ اس بچے کے نقش ونگار پر تبصرہ کرتی اور نقل اتار کر بتاتی کہ وہ یوں رویا تھا۔ وہ کالو تھا، وہ گورا تھا وغیرہ وغیرہ۔ شہاب اور زینب یہ باتیں بہت اشتیاق سے سنتے۔ لیکن وقت اور زندگی پہ بھروسا ایک دن دغا دے گیا۔ دروازے پہ بیل ہوئی اور شہاب یہ کہتے ہوئے لپک کر دروازے کی جانب گیا کہ گیتی کراچی سے واپس آگئی ہے۔ جب دروازہ کھولا تو گیتی کو اس کی دوستوں نے تھام رکھا تھا اور اُس کے چہرے پرزردی کھنڈی تھی۔ وہ نامعلوم سی مسکراہٹ سے مسکرائی اور بابا کی ہونق اور بے جان صورت کو نظر انداز کرتے ہوئے گھر کی دہلیز کے اندر آگئی۔ زینب نے کچھ غیر معمولی آوازیں سنیں تو وہ بھی کاریڈ ور میں آگئی۔
کیا ہوا؟ بتاتی کیوں نہیں ہو؟ سب خاموش کیوں ہو ؟ بتاؤ، جلدی بتاؤ۔ زینب ہسٹریکل ہوتے ہوئے چیخی۔ آخر ایک دوست کھنکھاری اور مضبوط آواز سے بولی، ’’آنٹی گیتی کا بریسٹ کینسرکا آپریشن ہوا ہے۔ آپریشن کامیاب ہے۔‘‘
کیا! کینسر کا آپریشن اور مجھے اور شہاب کو کچھ خبر ہی نہیں۔ کینسر کا پتا کب چلا، آپریشن کس نے تجویز کیا؟ سینکڑوں سوالات تھے جن کا جواب گیتی کی دوستوںکے پاس فقط یہ تھا کہ انکل! گیتی کو ہم نے سمجھایا تھا کہ تم ایسے مت کرو۔ آخر تو انہیں پتا چلنا ہی ہے۔ لیکن گیتی مصر تھی کہ نہیں! ماما اور باباپہ آپریشن کی کاروائی کی لمحہ بہ لمحہ خبر سے جو اذیت گزرے گی وہ میں برداشت نہیں کرپاؤںگی۔ انہیں فی الحال بے خبر ہی رہنے دو۔ میں بعد میں سب سنبھال لوںگی۔ لہذا کراچی جاکر آپریشن کروانے کا پلان بن گیا۔ میں اور توحیدہ اس کے ہمراہ تھیں۔ زینب کی چیخ وپکار اور گیتی کے کمرے کو ایک مریض کے کمرے کی صورت میں بدلنے کے عمل کو شہاب ادھ کھلے منہ اور چہرے پہ زردی لئے ساکت کھڑا دیکھتا رہا۔ زینب بے قراری سے پھر مچلی او ربولی گیتی تو کراچی میں کسی اہم سیمینارمیں شرکت کا کہہ کر گئی تھی اور یہ بھی کہاتھا کہ تین چار روز سے زیادہ بھی لگ سکتے ہیں۔۔۔ گیتی کی ایک دوست شہاب کی خاموشی کی وجہ سے شہاب کی ذہنی جذباتی کیفیت قدرے بہتر سمجھتے ہوئے قریب آئی۔ اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور بولی انکل! میرا خیال ہے کہ ہمیں اس بحث کو بند کردینا چاہیے۔ اس طرزِ عمل سے گیتی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ زینب سسک کر رہ گئی۔ شہاب نے آواز پیدا نہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کرسی کھینچی اور بیٹی کے سر ہانے بیٹھ گیا۔ گیتی کی ڈاکٹر دوستوں نے کمرہ ضرورت کے مطابق سیٹ کیا۔ دوائیاں وغیرہ میز پر پروفیشنل انداز میں رکھیں۔ دونے کمرے میں ہی دو چار روز کے لئے گیتی کے پاس رہنے کا بندوبست کر لیا اور اپنی اپنی دیوٹی مقررکر لی۔ دو چار روز گیتی کی ڈاکٹر دوستیں اس کی دیکھ بھال خود کرنا چاہتی تھیں۔
گیتی کی بیماری کے یہ شب و روز ایک بڑی ابتلا کا زمانہ تھا۔ اس قدر گھٹن میں شہاب کا ردعمل قطعی منفی اور عجیب تھا۔ وہ گیتی کی بیماری کے بارے میں گفتگو کرنے اور سننے سے جھنجھلاتا اور کتراتا تھا۔ اس نے اپنے وجود پہ سکون اور اطمینان کی چادر اوڑھ لی۔ جب دوست اور رشتہ دار گیتی کی مزاج پرسی کے لئے آتے شہاب ان کی بات کو نظر انداز کرکے کوئی اورہی ذکر لے بیٹھتا۔ مہمان کی خاطر مدارت بھی نارمل انداز میں کرنے کی کوشش کرتا۔ زینب یہ سب دیکھتی لیکن بجز کڑھنے کے کیا کرسکتی تھی۔ وہ دل میں شہاب کے لیے بہت محبت اور ترس محسوس کرتی اور سوچتی کہ ہمارا دکھ سگریٹ کا دھواں تو نہیں ہے جسے یہ شخص ہوا میں اڑانا چاہتا ہے۔ شہاب پل پل گیتی کے کمرے میں جاتا۔ اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتا، پیار کرتا اور اپنی دانست میں کوئی خوش مزاجی کی بات کرکے قہقہہ لگاتا ہوا کمرے سے باہر نکل آتا۔
اگرچہ وقت بہت کڑا تھا۔ لیکن نہ کڑا نہ بھلا، وقت کبھی تھمتا نہیں۔ سو ایک سہ پہر گیتی سب کے بیچ لیٹی، بے آرام ہوئی، کسمسائی، بے چین ہوئی، پاؤں بستر پر رگڑے، پاس بیٹھے باپ کا ہاتھ پوری سکت سے تھاما۔۔۔ اور اپنی سانسوں کا قرض قدرت کو واپس لوٹادیا۔ چند روزسہما سہماہنگامہ رہا۔ دوستوں اور رشتہ داروں نے اپنے اپنے حقوق ادا کیے۔ وقت نے بھی گویا اپنی ایک مسافت طے کی اور آگے قدم بڑھائے۔
پچھلے تین ماہ سے ایک اذیت شہاب کی ہم سفر تھی۔ ذہنی وجسمانی۔ اپنے وجود کے ہونے نہ ہونے کی اذیت۔۔۔ اگر میں موجود ہوں تو ہر لحظہ دل کو زخمی کرتی فضا کا حصہ کیوں نہیں بن رہا۔ اگر معدوم ہوںتو ڈھے کیوں نہیں جاتا؟ اپنی اس الجھن کی تہہ کو پانے کے لئے اس نے اپنا کتھار سس یوںبھی کیا کہ اس نے گیتی پر ایک مضمون لکھا۔ اس میں اس کی پروفیشنل زندگی کے اعزازات کا ذکر کیا اور اسے ایک رسالے میں چھپوادیا۔ یہ رسالہ اس نے اپنے دوستوں اور ملنے والوں کو دستی بھی دیا۔ اسے یقین تھا کہ قارئین کی آرا کی ایک بڑی تعداد اگلے شمارے میں مضمون کی تعریف میں ضرور چھپے گی۔ وہ اپنے روئیے پر شرمسار تھا اور سوچتا تھا کہ انگریزی زبان کا لفظ Casual جس قدر وسیع مفہوم میں ان دنوں اس پر واضح ہورہاتھا، اردو کا کوئی لفظ اپنے معنی میں اتنی وسعت نہیں رکھتا تھا جو اس کے رویے کی وضاحت کرسکتا۔ رسالے میں چھپے مضمون سے اسے کوئی واضح رد عمل نہ مل سکا۔
کھڑکھیاں کھولنے کے بعد شہاب کچن میں گیا، پانی پیا، ادھر ادھردیکھا اور پھر گھر سے باہر برآمدے کی سیڑھیوں پرآن کھڑا ہوا۔ اس کے دونوں بازو بغلوں میں تھے۔ پانی کی مشین چل رہی تھی پھربھی اس نے مالی کو پکار ااور کہا پانی کی موٹر چلادو۔ مالی نے حیران ہو کر شہاب کو دیکھا اور ذرا سنبھل کر بولا، ’’صاحب جی! گیتی بی بی، مالی کا جملہ ادھورا تھا کہ شہاب نے بغل میں سے بازو نکالا اور بولا!’’ہاں یار۔ بس۔۔۔ وہ‘‘ اور سر کھجاتا ہوافوراً اندر چلا گیا۔ مالی حیران سا اسے دیکھتا رہ گیا۔
شہاب نے بہت دنوں بعد سوچا کہ ذرا تیار ہوکر باہر گھوم آتا ہوں۔ اس نے الماری میں سے کپڑے نکالے اور قمیض کو میز پر استری کرنے کے لیے پھیلایا کہ باہر بیل ہوئی۔ شہاب باہر گیا۔ ڈاکیا نے ایک خط دیا۔ خط آسٹریلیا سے تھا اور گیتی کے نام تھا۔ یہ کون ہوسکتا ہے۔ یہ کون ہے جسے خبر نہیں۔ یہ سب وہ ایک لمحے میںسوچ گیا اور خط کھولا۔ ڈئیر گیتی! میں آج کل آسٹریلیا(سڈنی) میں ہوں۔ میں ستمبر کے آخری ہفتہ میں پاکستان آرہا ہوں۔ اس یقین کے ساتھ کہ تمہارے بابا ’’ہماری بہتری کس میں ہے‘‘ کے بارے میں فیصلہ کر چکے ہوںگے۔ سڈنی ایک اپنے ہی طرز کی خوبصورت جگہ ہے۔ جب ہم دونوں اکھٹے یہاں ہونگے تو تم یقینا انجوائے کروگی۔ اپنے بابا اور اماںکو میرا آداب کہو۔‘‘(تمہارا فرحان)
شہاب کے ذہن میں ایک کوندا سالپکا۔۔۔ ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ یاد آیا۔ گیتی نے کہا تھا کہ بابا میں اور فرحان کو لیگ تھے۔ اب دوست بن گئے ہیں۔ میں اسے جان گئی ہوں، وہ مجھے پہچان گیا ہے اور ہم ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ہیں۔ لیکن میں نے اسے سرسری سا لیا اور زینب کے اصرار کے باجود انکار کردیا۔ وہی رٹا رٹایا ایک جملہ جو وہ پہلے آنے والے لوگوں کو بھی کہہ چکا تھا کہ گیتی ہماری اکلوتی بیٹی ہے اور تم بھی بہت سے دوسرے لڑکوں کی طرح باہر ہی جاؤ گے جبکہ گیتی ہمیں چھوڑ کر نہیں جانا چاہے گی۔ یہ کہہ کر شہاب نے گردن موڑ کر اور مسکرا کر گیتی کی جانب دیکھنا چاہا لیکن گیتی وہاں سے اٹھ کر جاچکی تھی۔ میں پاگل تھا، یقینا پاگل تھا بلکہ اپنی ذات، اپنے وجود کی خبر گیری کے لئے خود غرض ہوگیا تھا۔ میں یہ بھول ہی گیا کہ ازدواجی زندگی کی ایک اپنی ہی خوشگواری اور سرشاری ہوتی ہے اور میں نے اپنی بچی کو ان سرشار اور خوشگوار کیفیتوں سے محروم رکھا۔ شہاب نے گہری سوچ میں خط میز پہ رکھا اور دھیمی چال سے الماری کے قریب آیا۔ الماری سے قمیض نکالی۔ استری کے لئے میز پر پھیلائی تو اس کا ذہن برسوں پیچھے گھوم گیا۔ استری کرتے میں شہاب کو گنگنانے کی عادت تھی۔
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
اسی کمرے کے ایک کونے میں رکھے منے سے ڈیسک کے آگے اسی سائز کی کرسی پہ بیٹھی ایک گول مٹول پیاری سی بچی، یونیفارم پہنے اکثر ہوم ورک کرتی نظر آتی۔ بنٹوں جیسی چمکتی آنکھوں والی چار سالہ بچی پوچھتی، ’’بابا!آنکھ سے لہو کیسے گرسکتا ہے؟ آنکھوں میں توپانی ہوتا ہے۔‘‘ اور شہاب اس بچی کے فہم کی سطح کو دیکھتے ہوئے اسے مطلب سمجھانے کی کوشش کرتا۔
شہاب نے خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس یاد کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔ قمیض استری کرنے کے لئے میز پر پھیلائی لیکن وہی پرانی گنگناہٹ اس کے گلے میں جاگی۔ پیشتر اس کے کہ گنگناہٹ بول کی صورت میں ڈھلتی، کمرے میں ایک منی سی زندہ جیتی جاگتی آواز ابھری ’’بابا! آنکھوں سے خون کیسے بہہ سکتا ہے۔ آنکھوں میں تو پانی ہوتا ہے‘‘ شہاب کا وجود ہل گیا۔ استری کے لئے بچھی قمیض پر اسے جابجا خون کے دھبے دکھائی دیے۔ وہ ایک بار اور بہت پیچھے چلا گیا۔ اس نے سنبھلتے ہوئے کمرے میں نگاہ دوڑائی۔ ڈیسک والا کونہ خالی تھا۔ وہ لڑکھڑایا، لیکن فوراً سنبھلا۔ اس سے کوئی اضطراری حرکت سرزدنہ ہوئی۔ چند لمحوں کے لئے وہ ایک اتھاہ سکون میں ڈوبا رہا۔ پھر حرکت میںآیا اور استری کا سوئچ آف کرکے پاس رکھی کرسی پر ششدر اور بے بس سا بیٹھ گیا۔ خود کو خلا کے جھول میں جھولتا محسوس کیا۔ قمیض کو گھیسٹ کر گود میں رکھا، چند ثانیے ادھر ادھر دیکھا کیا اور آخر کار ہچکیوں اور سسکیوں سے پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔
راہ داری سے گزرتے گزرتے زینب نے شہاب کو اس حالت میں دیکھا تو وہ اوٹ میں ہوگئی کہ وہ چاہتی تھی کہ یہ بند کتاب کھلے۔ اس میں سکتے کو ہوا لگے اور اس کی گرد جھڑے۔ زینب نے سکون کی ایک لمبی سانس لی۔ میز پہ رکھے خط کو اس نے آہستگی سے اٹھایا، پڑھا، اسے ہونٹوں سے لگایا اور واپس رکھ دیا۔ وہ شہاب کے قریب گئی۔ شہاب اسے دیکھ کر چونکا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور دونوں بے محابا لپٹ گئے۔ دونوں کھل کر برسے۔ زینب شہاب کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں کی گرفت میں لیا اور سمجھانے کے انداز میں بولی، ’’شہاب! زندگی سٹیج نہیں ہے۔ زندگی میں کبھی ریہرسل کا موقع نہیں ملتا۔ جان لو کہ کوئی ریہرسل نہیںہے۔ جو ہوجاتا ہے وہ ہمیں قبولنا ہوتا ہے کہ وہی سچ ہے۔ وہی زندگی ہے۔ یہ وقت جو بھی ہے، جیسا بھی ہے، ہمیں اس کو اپنانا ہے۔ زینب زمین سے اٹھی۔ دوپٹے سے اپنا اور شہاب کا چہرہ صاف کیا اور خوش دلی سے شہاب سے کہا۔ چلو ڈرائیوپہ چلتے ہیں۔ لمبی ڈرائیوپہ۔ میں اورتم باتیں کریںگے۔ بہت سی باتیں۔۔۔ چلوگے؟
شہاب کھنکارا، پورے ہاتھوں سے ایک دفعہ پھر چہرہ صاف کیا اور بچوں کی سی معصومیت سے اثبات میں سر ہلادیا۔ کمرے سے نکلتے زینب زیر لب بولی، ’’میری جان!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.