Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اجنبی

انور سجاد

اجنبی

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    لڑکی نے اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی نقاب اتار کے چاروں طرف دیکھا۔ اس کی نگاہیں دائیں طرف اور سامنے کے بند کواڑوں پر دستک دیتی ہوئی بائیں طرف کے دروازے میں داخل ہوگئیں۔ لڑکے نے مڑ کراس کی للچائی ہوئی آنکھوں کو دیکھا۔۔۔ ’’یہ باورچی خانہ ہے۔‘‘

    ’’جی۔‘‘ لڑکی نے اپنی نگاہوں کے پیچھے داخل ہونے کے لیے قدم بڑھایا۔

    ’’اونہوں۔‘‘

    ’’جی؟‘‘

    ’’۔۔۔ تم اندر نہیں جاؤگی تم۔۔۔‘‘ پھٹی پھٹی حیران سی مجرم آنکھوں نے فقرہ اس کے گلے میں دبا دیا۔ ’’میرا مطلب ہے کہ اس میں، باورچی خانے میں صرف میری اماں۔‘‘

    ’’جی۔۔۔‘‘ لڑکی جلدی جلدی برقعے کے نچلے حصے کے بٹن کھولنے لگی۔ پھر سوالیہ نظروں سے لڑکے کی طرف دیکھا۔

    ’’اوپر۔‘‘ لڑکا بڑبڑایا۔ لڑکی نے مڑ کے باورچی خانے کو ایک نظر دیکھنے کے بعد سر جھکا لیا اور لڑکے کی طرف دیکھا۔

    اور لڑکے کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔

    ’’ہائے۔ یہاں کتنا اندھیرا ہے۔‘‘ اسے دوسری سیڑھی پر ہلکی سی ٹھوکر لگی تھی۔

    ’’ہاں۔ یہاں کا بلب فیوز ہو گیا۔‘‘ لڑکے نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے سوچا۔۔۔ یہ سیڑھیاں روشن نہیں ہیں۔

    ’’اوئی۔‘‘

    ’’کیا بات ہے۔‘‘

    ’’کچھ نہیں۔‘‘ لڑکی نے اس کا ہاتھ دھک دھک کرتے دل پر رکھ لیا۔ وہ سمجھ گیا کہ بات کوئی تکنیکی تھی۔

    کمرے میں بیمار سا بلب اونگھ رہا تھا۔ اگرسورج یہاں چمکے تو سیڑھیوں میں بلب کی ضرورت نہ پڑے۔ اس نے سوچ سے پیچھا چھڑاتے ہوئے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے جمخانہ کی بوتل نکالی اور میز پر رکھ کر سوچنے لگا۔ یہ میں آج بار بار کیوں سوچ رہا ہوں۔

    لڑکی نے کھونٹی پر برقع لٹکا دیا اور کمرے کی واحد کرسی کو دیکھتی ہوئی بستر پر بیٹھ گئی۔

    ’’لحاف لے لو۔‘‘

    لڑکی نے لحاف کنارے سے پکڑ کر اپنے اوپر کھینچتے ہوئے بڑی پیشہ ورانہ نظروں سے لڑکے کو دیکھا۔ اس نے لڑکی کی آنکھوں پر پڑے معصومیت کے نقاب کو تار تار ہوتے دیکھ کر اپنی سوچ کو ایک ہی جھٹکے سے کارک کے ساتھ بوتل میں گرادیا۔ اس نے قینچی سے، بوتل کے منہ پر لگے کارک کو ہمیشہ بڑی صفائی سے نکالا تھا، لیکن وہ سب نگاہیں ننگی تھیں۔ بےنقاب۔

    لڑکی نے اسے کھونٹی سے قمیض اور پاجامہ اتارتے دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ لڑکے نے کپڑے بدلتے بدلتے لڑکی کی طرف دیکھا۔ دلبر ٹانگے والا ٹھیک ہی کہتا تھا، لڑکی بالکل نئی ہے، زیادہ سے زیادہ تین یا چار بار۔

    ’’آپ بھی لحاف میں آ جائیں نا۔‘‘

    تمہاری جگہ کوئی اور ہوتی تو میں خود ہی آ جاتا، لیکن ابھی میرا جی نہیں چاہ رہا۔ ابھی نہیں۔ وہ لڑکی کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا۔

    ’’آپ کو سردی لگ جائےگی۔‘‘

    اس انداز میں ایسے الفاظ کہنے تم نے کہاں سے سیکھے۔ اس طرح تو میری۔۔۔! ماں کا خیال ذہن میں آنے سے پہلے ہی اس نے کرسی کی ٹیک سے سویٹر اٹھاکر پہن لیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ لڑکے نے بھی مسکرانے کی کوشش کی۔ لڑکی لحاف اوڑھے خواہ مخواہ کانپنے لگی۔ لڑکے نے میز پر پڑی شراب کی بوتل کے حلق میں اٹکے ہوئے کارک کو دیکھا۔ میں ابھی آیا۔

    ’’ہائے۔ کدھر چلے آپ؟‘‘

    ’’جگ اور گلاس لے آؤں۔‘‘

    ’’میں اکیلی رہ جاؤں گی۔ مجھے بڑی سردی لگ رہی ہے۔‘‘ لڑکی نے لحاف کا کنارہ اٹھادیا۔ لڑکے کو شاید لحاف کے غار میں دہکتی ہوئی پنڈلی نظر نہ آئی۔ ’’میں انگیٹھی بھی لاتا ہوں۔‘‘

    لڑکی کی کپکپاہٹ ختم ہو گئی۔ بڑا عجیب ہے۔ اس نے جمائی لیتے ہوئے سامنے اندھیرے میں ڈھلتے ہوئے سائے کو دل ہی دل میں بڑے زور سے گالی دی۔ دلبرے تیرا پرانا باؤ تو بالکل اناڑی ہے۔ اسے تو مسکرانا بھی نہیں آتا۔۔۔ جانے کیوں ناراض ہے۔ اگر کل اس نے تم سے شکایت کی تو مجھے۔ مجھے نہ پیٹنا۔ میں بالکل بے قصور ہوں۔ میں تو پوری کوشش کر رہی ہوں۔ اسے میں نے ناراض نہیں کیا۔ اس نے قمیص اتار کے کرسی پر پھینک دی اور اپنی گرم چادر اوڑھ لی۔

    لڑکا بغلوں میں ہاتھ دبائے سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ بغیر ٹھوکر لگے۔ اس کا ذہن دن میں بھی تاریک سیڑھیاں اترنے چڑھنے کا عادی ہو گیا تھا۔ دلبر نے تین سالوں میں آج پہلی مرتبہ سچ بولا ہے۔ اس میں واقعی پختگی نہیں۔ صاف لگتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے ٹین کی ٹرے میں پانی کاجگ اور دو گلاس رکھے۔ میں اس کے سامنے چپ سا کیوں ہو گیا ہوں۔ میں ہمیشہ کی طرح فوراً ہی چارپائی پر کیوں نہیں چلا گیا۔ آج تو میں نے پہلے سے پیسے بھی دوگنے دیے ہیں۔ اس نے آخری سیڑھی پر ٹرے رکھی۔

    ’’کون؟‘‘

    ’’میں ہوں۔‘‘ وہ انگیٹھی لینے کے لیے پھر باورچی خانے میں آ گیا۔ دلبر ریلوے لائینوں کے پار مکان میں اپنے بابو کو لڑکی کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے، اپنی نوکیلی مونچھوں کو تاؤدے رہا تھا۔۔۔ ’’باؤجی اس نے سرخی پاؤڈر نہیں لگایا۔‘‘ ہوں۔۔۔ ’’باؤجی۔ بالکل تازہ ہے۔‘‘ لڑکی نچلاہونٹ دانتوں میں لے کر شرماتی ہوئی پرامید نظروں سے لڑکے کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں پر پڑا ہوا معصوم سی نظروں کا غلاف دھواں بن کر لڑکے کے گرد چھا گیا۔ ’’باؤجی۔ پھر کیا خیال ہے۔‘‘ ٹھیک ہے۔ ’’رقم۔ دوگنی۔‘‘ میری جیب میں پوری تنخواہ ہے۔ دلبر نے لڑکے کو سنانے کے لیے لڑکی کے کان میں سرگوشی کی تھی۔ ’’باؤجی بہت پرانے گاہک ہیں۔ سمجھیں؟‘‘

    میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آج میں کیوں بالکل نیا، اناڑی بن کر رہ گیا ہوں۔ اس نے بوری سے کچے کوئلے نکال کر انگیٹھی میں جلتے ہوئے کوئلوں پر ڈالے۔ دلبر اپنے نمبر ون ٹانگے کو اڑائے جا رہا تھا۔ لڑکے نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر اس لڑکی کے سامنے کر دیا۔ وہ ہمیشہ اسی طرح ٹانگے میں بیٹھ کر لڑکی کے ہاتھ میں پیسے دیا کرتا تھا۔ لڑکی، نوٹ پکڑنے کے بجائے اس کا ہاتھ اپنے نقاب کے پیچھے لے گئی اور اس کے ہاتھ سے نوٹ انگیا کے پیچھے اڑس کے اس کا ہاتھ چوم لیا۔ کاروباری اعتبار سے ہٹ کر وہ اس نئی تکنیک سے بڑا متاثر ہوا۔ بجلی کے کرنٹ کے ساتھ بوسے کا خلوص کپکپی بن کر اس کے جسم میں سرایت کر گیا۔ بہت مزہ رہے گا۔ دگنی رقم، دگنا مزہ۔

    وہ انگیٹھی اٹھاکر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ میں خواہ مخواہ جذباتی ہوں۔ اس کی نگاہوں میں کوئی خاص بات نہیں۔۔۔ سو روپے ضائع نہیں ہونے چاہئیں۔ صبح دلبر آکر اسے لے جائےگا اور پھر ایک مہینے کے بعد وہ بالکل باسی ہو جائےگی۔ پچاس روپے والی۔ یہ سب، اپنے آپ کو تازہ رکھنے کے حربے استعمال کر رہی ہے تاکہ گاہک آنکھوں کی بھول بھلیاں میں ہی بھٹکتا رہے اور اپنی رقم تک نہ پہنچے۔

    ٹرے دہلیز میں نہیں تھی۔ وہ کمرے میں آ گیا۔ ٹرے میز پر بوتل کے پاس پڑی تھی۔ اس نے لڑکی کی طرف دیکھا وہ اپنے کندھے سے چادر سرکائے بیٹھی تھی۔ اس نے میز کی طرف اشارہ کیا۔ ’’یہ میں اٹھا لائی تھی۔‘‘ وہ ایک بار پھر آنکھوں کی بھول بھلیاں میں بھٹک گیا۔ اس نے خاموشی سے انگیٹھی زمین پر رکھ دی اور ایک گلاس میں وہسکی انڈیل کر لڑکی کو اشارہ کیا، ’’پیو۔‘‘

    ’’میں نے کبھی نہیں پی۔‘‘ باؤجی لڑکی نئی نئی ہے پیتی ویتی نہیں۔۔۔ اگر آپ پلاسکیں تو آپ کی ہمت۔

    ’’میں تو پلایا کرتا ہوں۔ میں نے تمہاری قیمت دی ہے۔‘‘

    ’’ہائے نہ۔‘‘

    لڑکے نے دوسرا گلاس بناکر اٹھا لیا اور لڑکی گو گھورتا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا۔

    یہ پہلوں سے مختلف ہے۔ وہ تو بھوکے تھے۔ درندے۔ اس نے ابھی تک خود مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔۔۔ اس کی نظریں میز پر پڑے بھرے گلاس میں تیر کے لڑکے کی آنکھوں کے کنارے لگ گئیں۔ وہ بالکل چپ تھا۔ یہ لڑکی میرا وقت ضائع کر رہی ہے۔ اگر اس نے نہ پی تو سارا لطف جاتا رہےگا اور میرے پیسے۔

    لڑکی نے چادر اتار کے انگڑائی لی۔ ’’بتی بجھا دوں۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’تو آپ مجھے یہاں لائے کس لیے ہیں۔‘‘ اس نے انگیہ کے پیچھے اڑسا ہوا نوٹ نکال کر مٹھی میں بھنچ لیا۔

    تم جب تک پیئوگی نہیں میں اسی طرح بیٹھا رہوں گا۔۔۔ اور سمجھوں گا کہ کسی نے میری جیب کاٹ لی ہے۔۔۔ میں کیوں خواہ مخواہ جان بوجھ کر جیب کٹوا رہا ہوں۔۔۔ پھر مجھے ایک مہینہ انتظار کرنا ہوگا۔ تنخواہ کا۔۔۔ پھر ایک ماہ بعد میری ماں اپنے بھائی کے ہاں جائےگی۔۔۔

    ’’بالکل بچوں کی طرح ضدی ہے۔‘‘

    لڑکی نے پھر شراب کے گلاس کو دیکھا۔۔۔ لڑکا کچھ اس طرح چہرہ بنائے بیٹھا تھا جیسے کوئی بچہ خواہش پوری نہ ہونے پر روٹھ گیا ہو۔ یک دم جانے کیوں اسے لڑکے پر اتنا پیار آیا۔ اس نے سوکا نوٹ سرہانے کے نیچے رکھ کر گلاس تھام لیا۔

    ’’تم بڑے عجیب ہو۔‘‘

    ’’تم بھی تو ہو۔‘‘

    لڑکے کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ لڑکی نے ایک ہی سانس میں سارا گلاس ختم کر دیا۔ ’’بہت کڑوی ہوتی ہے۔۔۔!‘‘ اس کی شکل دیکھ کر لڑکے کو ہنسی آ گئی۔ ’’شکر ہے ہنسے تو ہو۔۔۔ اب آ جاؤ۔‘‘ میں حلال کی کمائی کھانا چاہتی ہوں۔ لڑکی نے سینے پر ہاتھ رکھ کر ڈکار لیا۔

    ’’ابھی نہیں۔ ابھی میراجی نہیں چاہتا۔‘‘

    ’’میں اچھی نہیں ہوں؟‘‘

    تم بہت اچھی ہو بہت ہی اچھی لیکن پہلے شراب ختم کر لیں۔ لڑکے نے دونوں گلاس ٹرے میں رکھ دیے اور میز اٹھاکر چارپائی کے ساتھ لگا دی۔

    ’’تم بناؤ۔‘‘

    لڑکی نے میز پر جھکے ہوئے لڑکے کو بالوں سے پکڑ کر اس کا منہ اپنے ہونٹوں کے قریب لے آئی۔ ’’میرے ہونٹوں میں بھی شراب ہے۔ میرے نہ پینے پر پہلوں نے مجھے بتایا تھا۔‘‘ جب انہوں نے اپنے ہونٹوں سے ایک دوسرے کے پیمانے ہٹائے تو دونوں کی آنکھوں میں کمرہ گھوم گیا۔ چند لمحے خاموشی میں گزر گئے۔ لڑکے نے دوسرے گلاس کا آخری گھونٹ بھی پی لیا۔ اس نے پینے میں آج تک اتنی جلدی نہیں کی تھی۔ ’’پیونا۔‘‘

    لڑکی نے اس کی طرف لمحہ بھر دیکھنے کے بعد گلاس اٹھا لیا۔ ’’اتنی جلدی چڑھ جاتی ہے۔‘‘ اس کی آواز میں شراب گھل رہی تھی۔ آنکھوں میں خمار۔۔۔ آج تو مجھے بھی بہت جلد سرور آ گیا ہے۔ الفاظ اس کے منہ سے موبل آئل کی طرح لٹک لٹک کر بہنے لگے۔ ’’جب انسان بیک وقت منہ ہونٹوں اور آنکھوں سے پئیے تو۔‘‘ میں مہینے میں ایک بار پیتا ہوں۔ لیکن اگر میں ہر روز پینے والا ہوتا تو بھی آج یہ آگ مجھے اتنی ہی تیزی سے جلاتی۔۔۔

    ’’کمرہ بہت گرم ہو گیا ہے۔‘‘ اس نے چادر لے کر انگیا اتاردی۔ ’’تمہیں گرمی نہیں لگتی۔‘‘

    گرمی؟ تمہارے برف میں بنے مجسمے نے مجھے اور بھی سرد کر دیا ہے اور یہ سردی کچھ اتنی عجیب سی ہے کہ لگتی نہیں۔ برف کو کچھ عرصہ پکڑنے کے بعد ہاتھوں کو گرمی سی لگتی ہے اور بعد میں سن ہو جاتے ہیں۔ میں سن ہونے والا ہوں۔

    ’’تم بولتے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’اور بناؤ۔‘‘

    اور اس نے اور بنانے سے پہلے ایک ہی جرعے میں اپنا گلاس ختم کر دیا۔ لڑکے نے جانے کیوں گرم چادر پھر اس پر ڈال دی۔۔۔ ’’تم بڑے عجیب ہو۔‘‘

    ’’بار بار نہ کہو۔ تم مجھے بالکل عجیب بنا دوگی۔‘‘

    ’’ناراض ہو گئے۔‘‘ لڑکی نے اسے گلاس پکڑا دیا۔ ’’لو اب میں چپ رہوں گی۔‘‘ لیکن میں نے آج تک اتنی باتیں نہیں کیں اور تم نے میری قیمت دی ہے تم بڑے نادان ہو۔ بڑے بچے ہو۔ فضول خرچ۔۔۔ لڑکی نے ڈبیا سے سگریٹ نکالا۔

    ’’اچھی لڑکیاں سگریٹ نہیں پیا کرتیں۔‘‘ اس نے سگریٹ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔

    ’’شراب پیا کرتی ہیں۔‘‘ لڑکی نے ہنستے ہوئے اپنے گلاس میں شراب انڈیلی۔

    ’’شراب بھی نہیں پیتیں۔‘‘ اس کی تیز آواز نے لڑکی کا قہقہہ کاٹ کر رکھ دیا اور لڑکی کے ہاتھ سے بوتل چھین لی۔ لڑکی کی آنکھوں میں آنسو سمٹتے دیکھ کر اس کا اپنا گلا رندھ گیا۔۔۔ ’’مجھے معاف کر دو۔‘‘

    معافی؟ الو کے پٹھے، معافی مانگنا ہماری قسمت میں لکھا ہے۔ ’’تم۔۔۔ تم کتنے اچھے ہو۔‘‘

    مجھے آج تک ایسا محسوس نہیں ہوا۔ میں نے ایسی حرکتیں آج تک نہیں کیں۔ میں بےوقوف نہیں ہوں۔ میں جب سے جوان ہوا ہوں۔ ایک رات خریدتا ہوں۔ میں نے مہینے کے انتیس دنوں میں آنکھ اٹھاکر کبھی کسی لڑکی کو نہیں دیکھا۔۔۔ میں صرف ایک رات آنکھ اٹھاکر دیکھتا ہوں اور دوسری صبح نگاہیں پھر جھک جاتی ہیں۔۔۔ مبادا میرے پیروں میں پلکوں کی زنجیریں نہ پڑ جائیں۔ کیوں کہ میں دو سو روپے ماہوار کماتا ہوں۔ میری ماں کی بڑی خواہش ہے کہ میں شادی کر لوں۔۔۔ لیکن پیروں میں پڑی ہوئی پلکوں کی زنجیروں کو توڑکر ہاتھوں میں ڈالنے کے لیے پیسہ چاہیے۔ اس لیے میں ہر مہینے پچاس روپے میں ایک رات خریدتا ہوں۔ میرے پاس پیسے جمع نہیں ہو سکتے کیوں کہ میں اتنی راتوں کو جمع نہیں کر سکتا۔ پچھلے تین سالوں کو گرہ نہیں دے سکتا۔۔۔ لیکن تم میری آنکھوں میں گھل کر کیوں میری رگ رگ میں اتر رہی ہو۔ جب کوئی اس طرح دبے پاؤں آنکھوں میں داخل ہو جاتا ہے تو جانتی ہو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔۔۔ ’’آؤ محبت کریں۔‘‘

    ’’جی؟‘‘ لڑکی مسکرائی اور پھر ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ’’وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘

    لڑکا کچھ کھسیانا سا ہو گیا۔۔۔ پگلے اگر وہ اس لفظ سے واقف ہوتی تو اس دنیا میں اس کو جاننے والا صرف ایک ہی ہوتا۔ واقعی محبت کیا ہوتی ہے۔ یہ تو ایک خاص لمحے میں زندگی بھر کے لیے چھایا ہوا ایک احساس ہوتا ہے۔۔۔ یہ اس لمحے سے مانوس نہیں اور میری جھکی ہوئی نظروں کو کنکھیوں سے دیکھتا ہوا یہ لمحہ چپکے سے گزر گیا ہوگا۔ میرے پاس احساس تو ہے لمحہ نہیں تھا اور اس سمے میں لمحے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا ہوں۔۔۔ وہ دھیرے سے اٹھا اور لڑکی کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتا ہوا لمحے کا امرت چوسنے لگا۔

    ’’یہ ہوتی ہے محبت۔‘‘

    ’’اچھا۔ اس طرح تو کئی بار ہواہے۔‘‘ لڑکی نے اس سے علیحدہ ہوکر بلب کی طرف دیکھا۔ لڑکے نے نفی میں سر ہلا دیا۔

    ’’وہ کئی بار والی محبت صرف تاریکی میں ہو سکتی ہے۔۔۔‘‘ اجالے میں نہیں اور آج سے بلب نہیں بجھےگا۔ کیوں کہ میرے پاؤں میں زنجیریں ہیں۔

    ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    ’’ہم لوگ اپنا نام ہمیشہ غلط بتایا کرتی ہیں۔ کبھی کچھ، کبھی کچھ اور پھر نام سے فرق کیا پڑتا ہے، غرض تو کام سے ہونی چاہیے اور اس غرض میں ہم کبھی کبھی اپنا نام بھی بھول جایا کرتی ہیں۔ لڑکی نے آدھا لحاف، چارپائی سے ٹانگیں لٹکاکر بیٹھے ہوئے لڑکے کو اوڑھا دیا۔ وہ اس کے گھٹنوں پر ٹھوڑی رکھے اس کی گیلی گیلی آنکھوں کی دلدل میں اتر رہا تھا۔ لیکن تمہیں میں اپنا اصلی نام بتاؤں گی۔

    ’’میرا نام۔ لڑکی ہے۔‘‘ اس کی ہنسی میں شرارت تھی۔ میں تمہیں نام دوں گا۔ تمہیں اپنے ماں باپ کا دیا ہوا نام بھول ہی جانا چاہیے تھا۔ ’’تمہارا کیا نام ہے؟‘‘

    ’’لڑکا۔‘‘ دونوں پھر ہنس دیے۔ تمہیں بھی میرا نام رکھنا ہوگا مجھے میری ماں کا دیا ہوا نام اس کی امانت ہے۔ آج مجھے بھی یہ نام بھول گیا۔ ’’تمہاری آنکھیں گیلی گیلی کیوں ہیں؟‘‘

    نہیں تو۔ ’’ویسے جب بہت زیادہ خوش ہوں تو بھی تو آنکھیں گیلی ہو جاتی ہیں۔‘‘

    ’’تو آج تم بہت خوش ہو؟‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    میں بھی ہوں

    ’’جب کبھی تم تنہا ہوتی ہو تو تمہارے دماغ میں کوئی ایسی تصویر نہیں آتی جسے دیکھ کر تم خود ہی شرمانے لگو؟‘‘

    شاید کل سے مسکرانے لگوں۔

    ’’ویسے تم نے مجھے پلاکر بڑا ظلم کیا ہے۔ پتا نہیں مجھے اپنے دماغ پر اختیار کیوں نہیں رہا۔‘‘ اس کا ہاتھ بوتل کی طرف بڑھا۔ لڑکے نے میز اٹھاکر پرے رکھ دیا۔ ’’تم صرف باتیں کرو اور پی کر سونا چاہتی ہو؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’نہیں نہیں۔ اگر سونا چاہتی ہو تو میں نیچے چلا جاتا ہوں۔‘‘

    ’’ہائے رے کیسی باتیں کرتے ہو۔‘‘ لڑکی نے اپنے ہاتھوں کے کٹورے میں اس کا چہرہ لے لیا۔ پہلی رات کو اس طرح نہیں جایا کرتے۔ دنیا میں تم ایسا ایک نہ ایک نیک انسان ضرور ہوتا ہے۔

    ’’تمہیں گانا آتا ہے۔‘‘ لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’تو سناؤ۔‘‘

    دو پترا ناراں دے۔

    ماہیا۔

    جندداوساہ کوئی ناں۔

    اور ماہیے۔ آنسو۔۔۔

    اور آنسو

    ’’روؤ تو نہیں۔‘‘

    ’’تو کیا کروں۔ جب سے اس شہر میں آئی ہوں پہلی مرتبہ کھل کر روئی ہوں۔‘‘

    کیا ہوا تھا تمہیں۔ تم اس شہر میں کس طرح آئی تھیں؟ ہرلڑکی زندگی میں ایک بار کھل کر رو لیتی ہے۔ تمہاری بھی وہی بوسیدہ سہی کہانی ہوگی۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔‘‘

    سکوت

    ’’میں قصبے سے آئی ہوں۔ میں دو سال کی تھی تو میرے ماں باپ مر گئے تھے۔ میرے چاچے نے مجھے پالا تھا۔ میں نے بڑے بڑے ظلم دیکھے ہیں۔۔۔ جانے عمر کے ساتھ ساتھ خوابوں میں بھی رنگ کیوں آتا جاتا ہے۔ میرا بڑا جی چاہتا تھا کہ چاچے کی طرح میرا بھی کوئی شام میں کاروبار سے واپس آئے تو میں باورچی خانے میں اسے گرم گرم روٹی اتار کر دوں۔۔۔ لیکن میرے چاچے کو اپنی لڑکی کی شادی کرنی تھی اور جانے کیا کیا کچھ کرنا تھا اور میں اپنے خوابوں سمیت پانچ سو روپے میں بک گئی۔۔۔‘‘ ہنسی۔

    ’’کتنی پرانی سی کہانی ہے۔ بابے آدم کے وقت کی۔۔۔ ہے نا۔۔۔ لیکن تم کیوں رو رہے ہو۔‘‘

    ’’تمہارے آنسو میری آنکھوں میں آ گئے ہیں۔‘‘ میں تمہارا نام رکھوں گا۔ میں اپنے گھر میں سورج جلاؤں گا۔۔۔ چلو۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’نیچے باورچی خانے میں۔‘‘

    سوالیہ نظریں۔۔۔

    ’’مجھے روٹی اتاردو۔ گرم گرم‘‘۔۔۔ ’’کل کو اتار کے دوں گی۔‘‘ لڑکی ہنسی۔ ’’وہ تو خواب تھے۔ تم بتی کیوں نہیں بجھاتے؟‘‘

    ’’کوئی اور گانا سناؤ۔‘‘

    گیا پہج تقدیر دے نال ٹھوٹھا۔ تے ساتھوں قیمت لے لے۔ لڑکی یکدم چپ ہو گئی۔ اس نے سرہانے کے نیچے سے سو کا نوٹ نکالا۔

    ’’وے۔ یہ واپس لے لے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    بیمار بلب کی اونگھتی ہوئی روشنی نے کروٹ لی۔۔۔ ’’یہ میری رات کی قیمت ہے۔‘‘ کل کو جب دلبر پیٹ پیٹ کر میرے جسم پر لاشیں ڈال دےگا۔ تو میں گر گئے ہیں، کھو گئے ہیں کہتی کہتی تھک جاؤں گی اور سچ پھر بھی نہیں بولوں گی۔۔۔ میں اس سچ کو اپنے آپ سے بھی چھپاؤں گی اور پھر اکیلے میں شرمایا کروں گی۔ آپ ہی آپ۔ ’’وے لے نا۔ تجھے میری جان کی قسم۔‘‘ اس نے نوٹ لے کر میز پر میزپوش کی جگہ پڑے اخبار کے نیچے رکھ دیا۔

    ڈولی چڑھ دے آں ماری آں ہیر چیکاں۔۔۔ ساری رات ڈولی چڑھے بنا ہیر روتی رہی۔ روتی ہی رہی اور لڑکے کی آنکھوں سے اس کے آنسو بہتے ہی رہے۔۔۔ ماں اب تمہیں مجھ سے شکایت نہیں۔۔۔ تم اس روشنی کے لیے اپنے زیور بیچنے سے بھی دریغ نہیں کروگی۔ اب سیڑھیوں میں، میرے کمرے میں، ہمارے گھر میں سورج چمکےگا۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ ’’وے۔۔۔ میرا ڈولا لینے تم ہی آنا۔‘‘

    ’’میں تمہارا نام رکھوں گا اور تم۔۔۔ تم۔۔۔ تم۔۔۔‘‘ ’’وے۔۔۔ وے سو گئے ہو۔۔۔‘‘ بچہ۔۔۔ بالکل بچہ۔۔۔‘‘

    ٹھک۔ ٹھک۔ ٹھک۔ لڑکے کی نیند کے دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔ ’’کون۔۔۔‘‘

    ’’میں جی۔ دلبر۔۔۔ ٹانگے والا۔‘‘

    روشن دان سے سورج کی پہلی کرن کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھی ’’اچھا۔‘‘

    لڑکی بھی اٹھ بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں تھکی تھکی رات تھی۔۔۔ تم مسکراتیں کیوں نہیں۔۔۔ لڑکے نے بلب کی طرف دیکھا۔ پہلی کرن اس کی روشنی کو چاٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لڑکی نے قمیض پہن کر تکیے کے نیچے ہاتھ پھیرا اور پھر تکیہ پلٹ دیا۔

    ’’آپ۔۔۔ آپ کے گھر میں چور بستے ہیں؟‘‘

    ’’کیوں کیا ہوا؟‘‘

    ’’میرا نوٹ کوئی لے گیا ہے۔‘‘

    لڑکی کی نگاہوں نے لڑکے کی آنکھوں میں سارے شبہے انڈیلتے ہوئے سو کانوٹ ڈھونڈا۔ لڑکے کی نظریں فوراً میز پر اخبار کے نیچے چلی گئیں۔۔۔

    اور سورج کی پہلی کرن کو بلب کی بیمار روشنی چاٹ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے