Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اللہ دے بندہ لے

رضیہ سجاد ظہیر

اللہ دے بندہ لے

رضیہ سجاد ظہیر

MORE BYرضیہ سجاد ظہیر

    جب فخرو سرسی سے سمبھل آیا تو اس نے دھوتی کی جگہ تہمد با ندھا۔ کمری اتار کے کرتا پہنا، سمبھل سے مراد آباد پہنچا تو تہمد کی جگہ پاجامے نے اور کرتے کی قمیض نے لے لی۔ سرسی میں وہ الف کے نام لٹھا نہیں جانتا تھا، سمبھل میں ہمارے ماموں نے اس کو اردو پڑھنا لکھنا سکھایا اور مراد آباد پہنچ کر وہ تو اتنا تیز ہوگیا کہ ہمارے بیرسٹر ماموں جو کتاب کہتے وہ الماری سے نکال لاتا، قانون کی ایک ایک کتاب پہچاننے لگا، سب قصے داستانیں رسالے اسے معلوم ہوگئے۔

    لیکن اس ترقی کے باوجود ایک کمی اس کی شخصیت میں رہ گئی کہ وہ بوٹ جوتا نہیں خرید سکا۔۔۔ بوٹ اس وقت بھی کافی مہنگے تھے، اور پانچ روپیہ میں سے تین روپیہ گھر بھیجنے اور چار آنے مہینہ مسجد میں چراغی، چار آنے یتیم خانے کا چندہ اور آٹھ آنے فاخری دادی کے پاس جمع کرانے کے بعد پھر بچتا ہی کیا تھا جو فخرو بوٹ جوتا بھی خریدسکتا۔ آخر ہر مہینہ حجامت بنواتا تھا، بیڑی، ماچس، دھوتی کی دھلائی، سرکا تیل، یہ سب مفت تو ہوتا نہیں تھا، اس لیے اس کی شخصیت میں یہ ایک کمی رہ گئی۔۔۔ اور دوسری کمی اس کی ذہنیت میں رہ گئی تھی۔۔۔ کہ وہ نماز پڑھنے سے برابر انکارکرتا چلا گیا۔ ترقی کے کسی اسٹیج پر بھی اس نے نماز نہیں پڑھی، ہمارے بیرسٹر ماموں کو اس معاملے میں اس کا یہ اڑیل بیل والا رویہ سخت ناپسند تھا۔

    بیرسٹر ماموں کئی سال ولایت میں رہے تھے، سوٹ پہنتے تھے، انگریزی فروَٹ بولتے تھے مگر نماز پانچوں وقت کی پڑھتے تھے۔ جب وہ نماز کے لیے بآواز بلند اذان دیتے تو باقی گھروالوں کی سٹی گم ہوجاتی، ہرشخص ان کی گرج دار آواز کے رعب میں آکر فوراً نماز پر کھڑا ہوجاتا۔ ہمارے نانا جب تک جیے، اس بات پر بے حد فخر کرتے رہے کہ ان کے کئی دوستوں کے بیٹے تو ولایت جاکر اپنا دین و ایمان بھول گئے مگر ان کا بیٹا اتنے دنوں ولایت رہنے کے بعد بھی پانچوں وقت کی نماز پڑھتا اور تیسوں روزے رکھتا تھا۔ اجی اس کی نماز کی تو طوائفیں تک قائل تھیں، ایسی جنے کتنی عورتوں کو اس نے نماز سکھاکر ان گمراہوں کو د ین و ایمان کا راستہ دکھایا تھا۔

    ویسے بیرسٹر ماموں کو فخرو سے محبت بہت تھی اور کیوں نہ ہوتی، یوں تو وہ عمر میں ان سے بڑا تھا، پر آخر انہوں نے ہی تو اس کو جانور سے آدمی بنایا تھا۔ یہ بات اور تھی کہ اب فخرو کے بغیر ان کا کوئی کام نہیں ہوسکتا تھا، اتنا سستا، اتنا زیادہ کام کرنے والا اور ایسا خیر خواہ نوکر نہیں مل سکتا تھا۔۔۔ ورنہ کبھی کبھی تو وہ خود بھی کہتے تھے کہ ایسے آدمی کے ہاتھ کا تو پانی بھی نہ پینا چاہیے، جو کبھی ایک ٹکر نہیں مارتا، جس کے دل پر اللہ نے مہر لگادی ہے!

    فخرو روزے تیسوں رکھتا تھا، رمضان بھر جو کچھ ہوسکتا خیرات کرتا، مسجد میں آنے والوں کے لیے نکڑ کی لالٹین میں تیل اپنے پاس سے رمضان بھر ڈالتا۔۔۔ تاکہ راستہ پر روشنی رہے مگر خود مسجد کے اندر نماز پڑھنے نہ جاتا۔۔۔ اور کاموں سے پچاس پھیرے مسجد کے کرتا۔ ماموں رمضان کے دوران دوتین بار اس سے کہتے، ’’ابے تیرے روزے رکھنے سے فائدہ ہی کیا، بے کار فاقہ کرے ہے، بغیر نماز کے کہیں روزے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’اجی آپ نے جو کتاب پڑھائی تھی میرصاحب، اس میں تو نماز الگ لکھی ہے گی، روزہ الگ لکھا ہے گا، یوں تو نہ لکھا کہ نماز بغیر روزہ نہ ہوسکتا یا روزہ بغیر نماز نہ ہوسکتی۔‘‘ اب اس صریحی منطق کا ما موں کے پاس کیا جواب تھا۔ وہ اسے دھتکارتے ہوے کہتے، ’’چل کم بخت دور ہو، لاکھ طوطے کو پڑھایا پر حیوان ہی رہا۔۔۔‘‘ دل چسپ بات یہ تھی کہ فخرو نے کبھی بیرسٹر ماموں سے انکار بھی نہیں کیا تھا وہ نماز نہیں پڑھے گا پر کچھ ایسا ہوجاتا کہ وہ صاف بچ نکلتا اور پھر مزے میں رہتا۔

    مثلاً مغرب کی نماز کے لیے ماموں مسجد جانے لگتے تو فخرو سے بھی کہتے، ’’ابے چل مسجد۔‘‘ مغرب اور صبح کی نماز وہ مسجد میں پڑھتے تھے۔۔۔ پہلے گھر میں اذان دیتے۔۔۔ پھر مسجد میں جاکر نماز پڑھتے۔ فخرو گھر کے دفتر والے کمرے کی طرف اشارہ کرتا اور بڑی معصوم سی صورت بناکر چپکے سے کہتا، ’’اجی بڑا موٹا مؤکل ہے بلشٹر صاحب، جو میں تمہارے ساتھ چلا جاؤں تو وہ مچھلی کی طرح کھیل جاوے گا، تم پڑھ یاؤ نماز جتے میں اسے باتوں میں الجھائے ہوں۔‘‘ اب اس کے آگے ماموں کیا کہتے!

    جب مغرب کی نماز پڑھ کر وہ لوٹتے تو فخروکو مؤکل سے گپ شپ کرتے پاتے۔ کبھی کبھی صبح کو وہ فخرو کو آوازدیتے، ’’ابے آ۔۔۔ مسجد جارہا ہوں۔‘‘ وہ چائے کی ننھی سی پتیلی مانجتا ہوا صندلے ہی پر سے بڑے اطمینان سے جواب دیتا، ’’اجی تم چلو، فاخری دادی کو رات لرزہ چڑھ گیا، ان کے لیے دوپتی چائے دم کرکے ابھی آؤں ہو فروٹ۔ تم چلو میر صاحب۔‘‘

    فاخری دادی بڑی جلالی سیدانی تھی اور گھر میں سب سے زیادہ پھوس قسم کی بزرگ، پچانوے برس کی تو ان کی عمر تھی، لہٰذا ان کو سب کے حالات معلوم تھے، ہر ایک کی ماں کا مہر اور ہر ایک کے بزرگوں کی خرابی یا عمدگی ا ن کو پتہ تھی، ان کو غصہ چڑھتا تھا تو وہ سات پشت توم کے دھر دیتی تھیں، ظاہر ہے ان کی چائے میں کون اڑچن لگاکے اپنی سات پشت تو مواتا، ماموں بڑبڑاتے پیر پٹختے چلے جاتے۔ جاڑوں میں اکثر سب لوگ رات کو کھانے کے بعد بیرسٹر ماموں کے کمرے میں جمع ہوجاتے، کیوں کہ وہاں سب سے بڑی والی انگیٹھی سلگتی تھی۔۔۔ فخرو بھی وہیں ہوتا۔۔۔ کبھی کبھی بیرسٹر ماموں اس سے بحث کرتے۔

    ’’ابے میں کہوں ہوں آخر تو اللہ کے گھر جانے سے کیوں کنی کاٹے ہے۔‘‘ فخرو بڑے بھولے پن سے حیران ہوکے جواب دیتا، ’’اجی لو، اللہ کے گھر جانے سے کون بندہ کنی کاٹ سکے ہے۔ ابھی اس دن نہ گیا تھا روزہ داروں کے افطار لے کے؟ گے بڑا دیگچہ گھنگھنی کا جلو آپا نے حوالے کردیا کہ لے جا مسجد، ونوں نے تو کیا بھی کہ پھگنا کو لے لے پکڑوانے کو، پر میں نے اکیلے ہی سر پر اٹھاکے منٹوں میں پہنچادیا کہ افطار ہے گی ثواب ہوئے گا۔۔۔ بھلا پندرہ سیر سے کیا کم رئی ہوگی گھنگھنی۔۔۔ کیوں جلوآپا؟‘‘

    ’’ائے نہ ڈنڈی کی تلی، پورے اٹھارہ سیر کی۔‘‘ جلو آپا نے گواہی دی۔

    ’’ابے وہ تو ٹھیک ہے پر تو نماز پڑھنے کیوں نہیں جاتا؟ دعا مانگنے سے کیوں گھبراوے ہے؟‘‘ بیرسٹر ماموں نے صاف صاف سوال کیا۔

    ’’اجی واہ میر صاحب، اِتّے بڑے بالشٹر ہوکے یہی انصاف کرو ہو! اجی دعا نہ مانگوں ہوں تو کیا اللہ میاں نے یونہی سر سی سے مردہ باد تک پہنچادیا؟ اجی میرے برابر تو کوئی دعا نہ مانگتا ہوگا۔۔۔ اِتّی اِتّی دعا مانگی تب تو جاکے اللہ میاں نے یہ چار حرف پیٹ میں ڈالے کہ اب داستان امیر حمزہ کی پڑھ سکوں ہوں۔‘‘ بیرسٹر ماموں زچ ہوجاتے پر بحث کیے جاتے۔۔۔ آخر وہ بیرسٹر تھے۔ یہ سرسی کا لنگوٹی بند ان کو جرح میں کیا ہرا سکتا تھا۔ کہتے، ’’تو کوٹھری میں بیٹھ کے ڈھیروں دعا مانگے ہے تو پھر کیا! جماعت میں نماز کا حکم ہے نا!‘‘

    فخرو ذرا سا جھینپ کے جواب دیتا، ’’اجی بات گے ہے کہ سب کے سامنے کسی سے کچھ مانگتے ذرا شرم آوے ہے۔۔۔ اور دعا تو اللہ میاں ہر ایک کی سن لیویں ہیں میر صاحب۔۔۔ کیا کوٹھری کی نہ سنتے؟ اور مولوی صاحب تو اس دن کے رہے تھے کہ رسول اللہ کبھی اپنے حجرے میں نماز پڑھیں تھے اور کبھی مسجد میں اور حضرت یوسف نے تو قید خانے میں دعا مانگی تھی اور۔۔۔‘‘ ماموں کھسیاکے بولے، ’’اور اور کے بچے کیا بکتا چلاجاوے ہے، استغفراللہ، تیری اور نبیوں کی برابری ہے؟‘‘

    فخرو نے کان کو ہاتھ لگایا، ’’توبہ ہے توبہ ہے، اجی میں گے تھوڑا ہی کئے ریا ہوں میں تو گے، کے ریا ہوں کہ گنہ گار بندوں کو تو وہی کرنا چاہیے جو آپ کریں تھے، جب ہی تو نجات ہووے گی، جب ہی تو آپ شفارش کریں گے۔۔۔ صلی اللہ۔‘‘ اس نے اپنی انگلیاں آنکھوں کو لگاکے چومیں۔۔۔ مارے عقیدت کے اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ بیرسٹرماموں نے عاجز ہوکے حقہ طلب کیا اور گڑگڑانے لگے۔ یقیناً فخرو کے دل پر خدا نے مہر لگادی تھی!

    پھر ایک دن گھر میں بڑا ہنگامہ مچا۔ بات یہ ہوئی کہ فخرو کے پاس ایک جوڑ جوتا کہیں سے آگیا۔۔۔ جوتا نہیں بوٹ۔۔۔ ایک دم عمدہ والا، چما چم کرتا، چاہو تو اس میں منہ دیکھ لو، اس کی چھ ننھی ننھی آنکھوں میں کالے ہی ریشمی فیتے پڑے ہوئے تھے، جن کے آخر میں سیاہ بٹن جڑا تھا اور بٹن میں سے آخر کی طرف فیتے کا بالکل مناسا، بالکل ذرا سا ریشمی پھندہ اوپر کو منہ اٹھائے جیسے کوئی محبوب اپنے بھرے بھرے کلی سے ہونٹوں کو سکوڑ کر سیٹی بجارہا ہو۔

    اور پھر اکیلا جوتا بھی نہیں، ساتھ میں ایک ڈبیہ اس پر کرنے والی پالش بھی اور ا یک برش بھی۔ سب بچے بے حد جوش میں تھے، باری باری سے جوتا اٹھاکے دیکھتے، کوئی پالش کی ڈبیہ کو گول گول زمین پر نچاتا، کوئی برش کے بالوں پر ہاتھ پھیرتا، کوئی فیتے کے پھندے پر انگلی چھواتا، نوری آپا نے تو یہاں تک تجویز کی کہ جوتے کا کوئی نام بھی رکھا جائے۔ بیرسٹر ماموں کا بھی موڈ اس وقت اچھا تھا۔ ہنس کے بولے، ’’ہاں ہاں ضرور رکھو۔۔۔ خدا بخش رکھو اس جوتے کا نام۔‘‘

    سب ہنسنے لگے مگر فخرو سنجیدگی سے بولے، ’’اجی گے تو ٹھیک کہو ہو میر صاحب، میں نے بہتیری دعائیں مانگی تھیں کہ اللہ میاں تم نے سب کچھ دیا بس اب ایک بوٹ جوتا اور دلوادو کئیں سے، میر صاحب وہ جو عورت بھگانے والا مؤکل آیا تھا، اجی وہی جس نے اجھاری والی تمیزن کو لونڈیا بھگائی تھی اور تم نے وِسے صاف چھڑالیا تھا تو وہ وِن نے مجھ سے کیا بھائی جب میں آؤں تھا تو تو میری بڑی خاطر کرے تھا، اب میں باعزت بری ہوکے گھر جاریا ہوں تو بتا کیا لیوے گا۔ سو چٹکی بجاتے میں، چھپر پھاڑ کے اللہ میاں نے دلوادیا گے بوٹ۔۔۔ اچھا ہے نہ میر صاحب۔‘‘ اس نے بڑے پیار سے جوتے کو دیکھا۔

    ’’اے ہاں! بہت اچھا ہے۔‘‘ بیرسٹر ماموں بولے، ’’اب آج تو چل مسجد، شکرانہ تو ادا کر۔‘‘ فخرو چپ ہوگیا، جھک کے اس نے جوتے اٹھائے، بڑی احتیاط سے ڈبے میں رکھے، برش جوتوں کی آڑ میں فٹ کیا، پھر ڈبیہ ایک کونے میں بٹھائی، ڈھکنا ڈھک کے اسے ایک ستلی سے باندھا۔ ڈبہ بغل میں دبایا اور کھسک لیا۔ شام کو مغرب کے وقت بیرسٹر ماموں مسجد میں داخل ہو رہے تھے کہ انہیں فخرو کا سایہ گلی کے نکڑ پر دکھائی دیا۔۔۔ نئے جوتے پہنے، نئی قمیض کا دامن اڑاتا، نئے پائجامے کے پائنچے پھٹکارتا، پان چباتا، ایک دوست کے ہاتھ میں ہاتھ دیے وہ گلی میں مڑنے ہی والا تھا کہ بیرسٹر ماموں نے للکارا، ’’فخرو۔۔۔ ابے او فخرو۔۔۔ ہیاں آ۔۔۔ ابے آہیاں۔‘‘

    فخرو پھنس چکا تھا۔ اس کا دوست اور وہ دونوں آئے۔ ’’چل وضوکر۔‘‘ ماموں نے حکم دیا۔ فخرو کسمساکے بولا، ’’اجی پان کھاریا ہوں میر صاحب۔۔۔ اور پھر گے بھی تو بات ہے کہ۔۔۔‘‘

    ’’کہ پان سسرال والوں نے کھلایا ہے، تھوک نہ سکے ہے بے چارہ۔‘‘ اس کے دوست نے ٹکڑا جوڑا۔ ماموں ہنسنے لگے، ’’سسرال؟ کیسی سسرال۔۔۔ ابے یہ چپکے ہی چپکے!‘‘

    فخرو خاموش رہا۔۔۔ پر اس کا دوست بولا، ’’اجی کوئی ایسی ویسی بات نہ ہے، اشراف ہیں گے وہ لوگ بھی۔ اپنی برادری ہے بالشٹر صاحب، سرسی کے ہی، لڑکی بھی قبول صورت ہے گی، نماز پڑھے، کلام پاک ختم کرچکی ہے، اس دکھیا کا گھر بھی میاں کے مرنے سے اجڑچکا ہے سو بس جاوے گا۔‘‘

    ’’اچھا، اچھا چلو وضو کرو دونوں آدمی۔۔۔ چلو۔‘‘ ماموں نے اصل بات چھیڑدی۔ فخرو نے بے بسی سے دوست کی طرف دیکھا، دوست نے اس کی طرف، دونوں مٹی کا بدھنا اٹھاکے وضو کرنے لگے۔ مغرب کی نماز کے بعد مولی صاحب روز وعظ کہتے تھے، آج بھی کہا، اس میں کافی دیر لگی، کچھ لوگ اٹھ اٹھ کے چلے گئے۔ فخرو اور اس کے دوست نے بھی کئی بار پہلو بدلا، پر بیرسٹر ماموں نے ان کو ایسا گھورا کہ وہ پھر دبک کے بیٹھ گئے۔ آخر کار وعظ ختم ہوا۔ لوگ باہر نکلے اور فخرو کو ایک ہی لمحے بعد پتہ چل گیا کہ اس کا نیا بوٹ جوتا غائب ہے۔

    اس کے دوست کی پھٹیچر پھٹیاں اسی طرح محفوظ رکھی تھیں۔ سب لوگوں میں ہراسانی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ بیرسٹر ماموں بھونچکا رہ گئے۔ ان پر ایک دو منٹ کے لیے تو بالکل سکتہ طاری ہوگیا، پھر فخرو کو سمجھاتے ہوئے بولے، ’’چل جانے دے۔۔۔ ہوگا۔ میں تجھے دوسرا لے دوں گا اس سے بھی اچھا۔۔۔‘‘

    ’’سمجھ لے جس اللہ نے دیا تھا وِسی نے لے لیا۔‘‘ فخرو پر ابھی تک گو سکتہ طاری تھا پر یہ سن کر وہ بپھر گیا۔ بھناکے بولا، ’’اجی گے تو میں کبھی نہ ماننے کا ہوں کہ اللہ نے لے لیا۔۔۔ ان نے تو مجھے اتی دعائیں مانگنے پہ دیا تھا، پھر لے کیوں لیوے گا اور وِسے کیا ضرورت ہے بوٹ جوتے کی۔۔۔ خوامخی کو اللہ کو الزام دو ہو بالشٹر صاحب۔ لیا تو ہے کسی نمازی نے۔‘‘ اب بیرسٹر ماموں کیا کہتے۔ وہ تو صاف ہی ظاہر تھا کہ کسی نمازی نے لیا ہے۔ کھسیا کے بولے، ’’نہ جانے کون تھا شیطان کی اولاد۔ اجی مسجد میں نماز کے بہانے آویں ہیں آدمیوں کے جوتے چرانے۔ ابھی پولیس میں رپورٹ کرکے بندھواؤں ہوں۔‘‘

    پولیس میں رپورٹ ہوئی۔ بیرسٹر ماموں نے انعام کا اعلان کیا۔ دوسرے دن وعظ میں بڑے مولوی صاحب نے بھی خوب لعنت ملامت کی۔ محلے میں ایک ایک سے کہا سناگیا۔ پر بوٹ کو نہ ملنا تھا نہ ملا۔

    چوتھے دن ایک عجیب بات ہوئی۔ مغرب کی نماز کے وقت فخرو مسجد میں پہنچا، سب کو یہ معلوم تھا کہ اس کا جوتا چوری ہوچکا ہے، لوگ اسے دیکھ کر حیران ہوئے، پر بولا کوئی نہیں۔ جب نماز ختم ہوئی اور مولی صاحب وعظ کہنے منبر کی طرف بڑھے تو فخرو ان کے اور منبر کے بیچ کھڑا ہوگیا اور بولا، ’’اجی مولی صاحب ذرا میں کچھ کہنا چاہوں ہوں۔‘‘ مولی صاحب کو اس سے ہمدری تھی، فوراً ایک طرف کو ہوگئے۔

    فخرو لوگوں کو مخاطب کرکے بولا، ’’بھلے آدمیوں، پرسوں ہیاں مسجد سے میرا جوتا چوری ہوگیا۔۔۔ نمازیوں کے سوا تو کوئی ہیاں آتا نہ ہے سو کسی نمازی نے ہی چرایا ہووے گا۔۔۔ خیر۔۔۔ پر میں نے گوے سوچا کہ جس مسجد میں جوتا گیا ہواں ہی گے پالش کی ڈبیہ اور گے برش بھی چلاجاوے، سو میں لیتا آیا ہوں اور آپ نمازیوں کو بخش دوں ہوں، میں تو اب کبھی مسجد میں آنے کا نہ ہوں اور تازندگی نماز نہ پڑھنے کا ہوں، پر اللہ سے دعاء ضرور مانگوں گا کہ ایک بار دیا تھا سو دوسری بار بھی دیوے۔۔۔ اور اس کی کریمی سے کچھ دور نہ ہے وہ پھر دیوے گا۔۔۔ ضرور دیوے گا۔‘‘

    اس تقریر کے بعد اس نے کرتے کی ایک جیب سے پالش کی ڈبیہ اور دوسرے سے برش نکالا اور مسجد کے ایک کونے میں اچھال دیا۔۔۔ پھر باہر نکل کر اپنی پرانی سلیپریں پہنیں اور روانہ ہوگیا۔

    جب میری عمر کوئی سات آٹھ سال کی تھی تو فخرو کافی بوڑھے ہوچکے تھے، ڈیوڑھی میں بیٹھے کھانسا کرتے تھے، پوتوں، پڑپوتوں والے تھے، مگر ہر بار جب ہم لوگ اپنے ننھیال جاتے تو میں ایک ایک سے یہ قصہ سنتی۔ اس واقعہ کے بعد وہ نہ کبھی مسجد گئے نہ کبھی انہوں نے نماز پڑھی۔۔۔ حسبِ عادت نماز کا ذکر سن کر وہ کچھ نہیں کہتے تھے۔ کبھی کبھار مسکرادیتے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہہ دیتا کہ ’’اللہ کی مرضی یونہی تھی، خدا کا کرنا یونہی تھا‘‘ تب وہ بے حد بگڑتے، بے حد خفا ہوتے، ’’اجی واہ خوب کہو ہو، اللہ کا کرنا تھا، اجی وہ تو دیوے ہے اسے لے کے کیا کرنا ہے۔ لے تو ہے انسان، چھینے ہے تو بندہ اور نمازی بندہ کی تو جب نیت بدلے ہے تو ایسی بدلے ہے کہ جس کی کچھ ٹھیک نہ ہے۔ سمجھے ہے کہ نماز پڑھوں ہوں تو سات خون مجھ کو معاف ہوجاویں گے، جانے ہے کہ اللہ کچھ کہنے کو آنے سے ریا، گواہی دینے سے ریا، اپنی ساری کی کرائی، اگلی پچھلی گوڑی سمیٹی اور اللہ کے سر تھوپ دی۔ اپنے ہاتھ جھاڑ کے الگ ہوگئے۔۔۔ اور خوامخی اللہ کو الزام۔۔۔ کیا انصاف کرو ہو۔۔۔ واہ جی واہ!‘‘

    مأخذ:

    اردو افسانے (Pg. 126)

      • ناشر: نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1974

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے