Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

امانت

مبین مرزا

امانت

مبین مرزا

MORE BYمبین مرزا

    اماں کی فرمائش پوری کرنے کا وقت نکل آیا تھا۔

    وقت تو نکل ہی آئےگا، اس کا مجھے یقین تھا، لیکن میں اماں کو ٹالنے کے لیے کہہ رہا تھا کہ وقت ملا تو جاؤں گا۔ ظاہر ہے، مقصد یہی تھا کہ واپس آکر جب وہ سوال کریں تو میں آرام سے کہہ دوں کہ وقت ہی نہیں ملا، بہت مصروفیت رہی۔ اب یہ ہوا کہ جب میں اپنے کاموں سے نمٹ گیا تو مجھے اماں کی فرمائش کا دھیان آیا۔ میں نے سوچا، کہہ دوں گا کہ وقت نہیں۔۔۔ لیکن یہ سوچتے ہوئے خیال آیا کہ یہ تو جھوٹ ہوگا اور پھر ساتھ ہی مجھے اماں کی وہ سب باتیں یاد آنے لگیں جو بچپن میں وہ مجھے سمجھایا کرتی تھیں۔ ’’اباجی، خدا ان کی مغفرت کرے، کہتے تھے کہ جھوٹ سو برائیوں کی ماں ہے، جو اس سے بچ جائے وہ سو برائیوں سے بچ جاتا ہے۔‘‘ اسی طرح وہ کبھی کہتیں، ’’اللہ بخشے، اماں جی کہتی تھیں، ایک جھوٹ کو نبھانے کے لیے آدمی کو دس جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔‘‘ اماں کی ساری نصیحتیں اور اچھی باتیں اسی طرح ان کی اماں اور ابا کے ذکر سے شروع ہوتی تھیں۔

    ان باتوں کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میں نے بچپن میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ ان باتوں پر بھی نہیں جن پر کبھی کبھی مجھے ماسٹر وجیہہ الدین صاحب سے سزا ملتی تھی۔ وہ مجھے ریاضی پڑھایا کرتے تھے۔ چھٹی سے دس ویں جماعت تک وہ میرے استاد رہے۔ میں ریاضی میں شروع سے کمزور تھا، حالاں کہ چوتھی جماعت میں ہی مجھے بیس تک پہاڑے اچھی طرح یاد ہو گئے تھے مگر خدا جانے کیا ہوتا کہ میں ریاضی کے سوال حل کرتے ہوئے ضرور غلطی کرتا تھا۔ دوسرے سارے مضامین میں میرے نمبر اچھے آتے مگر ریاضی میں بس واجبی سے نمبر لے کر پاس ہوتا۔ وجیہہ الدین صاحب نے اس کا حل یہ نکالا کہ وہ مجھے گھر پہ کرنے کا کام زیادہ دینے لگے، مگر اس سے بھی وہ بات نہ بنی۔ اب انھوں نے مجھے تاکید کی کہ سوال حل کرکے میں اپنی کاپی بند کرکے رکھ دوں اور دو گھنٹے بعد اسے اٹھا کر دوبارہ، ایک ایک سوال کو چیک کروں۔ میں سوال تو سارے حل کرلیتا، لیکن دوبارہ چیک کرنے پر میری طبیعت کبھی آمادہ نہ ہوتی۔ میں ایک بار کاپی بند کرکے رکھتا تو پھر اگلے دن اسکول آکر ریاضی کے پیریڈ میں ہی اسے کھول کر دیکھتا۔ ماسٹر جی سوال چیک کرتے، غلطیوں کی نشان دہی کرتے اور مجھ سے پوچھتے کہ کام خود چیک کیا تھا۔ میں سچ بولتا اور مار کھاتا۔ ویسے اب بھی میں زیادہ جھوٹ نہیں بولتا۔ اکثر تو بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بولنا ہی پڑجائے تو کم سے کم بول کر کام چلانے کی کوشش کرتا ہوں۔

    سچی بات یہ ہے کہ میں اماں کی فرمائش کو ٹالنے کا کبھی سوچتا بھی نہیں۔ اول تو وہ بے چاری کوئی فرمائش کرتی ہی نہیں۔ اور اگر کبھی کریں بھی تو وہ ان کی ذات کے لیے ہرگز نہیں ہوتی، کسی دوسرے ہی کے فائدے کے لیے کچھ کہتی ہیں۔ البتہ کہتی وہ ایسے ہیں جیسے اپنے ہی لیے کہہ رہی ہیں۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ انھوں نے زندگی میں مجھ سے جو پہلی فرمائش کی وہ بھی ایسی ہی تھی، ورنہ میں نے تو اپنی چھپن سالہ عمر میں انھیں کسی سے اپنے لیے کبھی کوئی فرمائش کرتے نہیں دیکھا۔ حتیٰ کہ ابا سے بھی نہیں۔ میرے ابا ریڈیو کے محکمے میں ملازم تھے۔ وہ اپنے ادارے کے نیک نام اور بہت قابل لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ دوسرے شہروں میں بھی ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ کئی بار میں نے خود سنا کہ گھر سے چلتے ہوئے انھوں نے اماں سے پوچھا، ’’تمھارے لیے وہاں سے کیا لے کر آؤں؟‘‘

    ’’بس آپ ساتھ خیریت کے لوٹ آئیے۔‘‘ اماں کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا۔

    ابا جواباً کبھی مسکراتے اور کبھی سر ہلاتے اور اکثر جب وہ لوٹ کر آتے تو کچھ نہ کچھ ساتھ لاتے۔ انھوں نے زیادہ عمر نہ پائی۔ چالیس سے کچھ مہینے اوپر ہوئے تھے۔ ایک شام دفتر سے واپس آئے تو تھکے تھکے سے لگ رہے تھے۔ بتایا داہنے بازو کے پچھلے حصّے میں کچھ درد اور کھنچاؤ سا ہے۔ ہمارے گھر میں ایک بام رکھا رہتا تھا، جو اسی تکلیف کے لیے استعمال کیا جاتا۔ اماں نے ان کی قمیص اوپر کرکے بام مل دیا۔ کہنے لگے، ’’کچھ دیر لیٹ جاتا ہوں۔‘‘ اماں نے کھیس لا دیا۔ وہ ڈرائنگ روم میں رکھی چوکی پر ہی لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر میں اماں نے جاکر پوچھا تو کہنے لگے، ’’پیچھے تو بہتر ہے، مگر اب درد بازو اور سینے کی طرف نکل آیا ہے۔‘‘ اماں نے بازو اور سینے پر بام لگا دیا۔ ان کے چہرے پر نقاہت دیکھتے ہوئے اماں نے باورچی خانے میں جاکر اچھوانی کا سامان کیا۔ میں اس وقت بی اے کے آخری سال میں تھا۔ اسی وقت گھر لوٹا تھا اور آنگن میں سائیکل کھڑی کر رہا تھا۔ اماں نے مجھے اشارے سے بلایا اور کہا، ’’تمھارے ابا کا جی اچھا نہیں ہے۔ داہنے بازو میں درد بتاتے ہیں۔ جا کے پوچھو اور دبا دو تھوڑی دیر۔‘‘

    میں نے جا کے ابا کو سلام کیا۔ انھوں نے اشارے سے جواب دیا۔ کچھ ورد وظیفہ چل رہا تھا۔ میں پائینتی کی طرف بیٹھ گیا۔ انھوں نے پیچھے سرک کے مجھے جگہ دی۔ ورد پورا ہوا تو مجھ سے پڑھائی کا پوچھا۔ میں نے بتایا اور ان کی طبیعت کا دریافت کیا۔ کہنے لگے، ’’اللہ کا شکر ہے۔ بس ذرا درد سا ہے۔‘‘ سینے اور داہنے بازو کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے کہا، ’’دبا دیتا ہوں‘‘ اور اٹھ کر سرھانے کی طرف جا بیٹھا۔

    ’’ضرورت نہیں بیٹا! تم ابھی گھر آئے ہو، ہاتھ منہ دھولو۔‘‘

    ’’جی ابھی جاتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور ان کا بازو کاندھا دبانے لگا۔

    ذرا سی دیر بعد میں نے پوچھا، ’’کچھ آرام ہوا ابا؟‘‘

    وہ جیسے غفلت میں تھے۔ میری آواز پر چونکے اور بولے، ’’الحمدللہ!‘‘

    مجھے پہلے خوشی ہوئی کہ میرے دبانے سے انھیں آرام ملا اور پھر خفت ہوئی کہ ان کی آنکھ لگ گئی تھی اور میں نے جگا دیا۔ میں دوبارہ اسی طرح دبانے لگا کہ شاید پھر سو جائیں۔ اتنی دیر میں مغرب کی اذان شروع ہو گئی۔ میں نے ان کے ہونٹ ہلتے ہوئے دیکھے۔ جوابی کلمہ کہتے تھے۔ اذان پوری ہونے کے چند ہی منٹ بعد اماں اپنی اوڑھنی سے ہاتھ پونچھتی کمرے میں داخل ہوئیں۔ پہلے لائٹ جلائی پھر ابا سے پوچھا، ’’اچھوانی بنائی ہے آپ کے لیے۔ لادوں یا پہلے نماز پڑھیں گے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ان کے سرھانے آگئیں۔ ایک دم گڑبڑا کے میری طرف دیکھا اور بولیں، ’’ایسے کیوں لیٹے ہیں؟ یوں تو نہیں لیٹتے۔‘‘

    مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کہتی ہیں۔ میں نے ابا کی طرف دیکھا۔ وہ آنکھیں موندے ہوئے تھے۔ ’’شاید آنکھ لگ گئی۔‘‘ میں نے آواز دھیمی رکھتے ہوئے کہا۔

    ’’نہیں یوں کب سوتے ہیں یہ۔‘‘ انھوں نے نفی میں سر ہلایا اور ابا کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ ’’اجی سنیے!‘‘ انھوں نے خاصی بلند آواز میں پکارا۔

    ابا گہری نیند میں بے سدھ لیٹے تھے، جو ناقابل یقین تھا۔ وہ تو ذرا سی آہٹ پر جاگ جاتے تھے۔ اب میں ٹھٹکا۔ ابا کو آواز دی۔ ہلایا جلایا، مگر وہ نہ جاگے۔ بھلا ابدی نیند سے بھی کوئی جاگتا ہے۔

    میرے بڑے ماموں تعلیم کے محکمے میں تھے۔ بی اے کے امتحان سے فارغ ہوتے ہی انھوں نے مجھے ایک اسکول میں نوکری دلا دی۔ یہ عارضی ملازمت تھی۔ بی اے کا نتیجہ آنے کے بعد پکی ہو گئی۔ اب اماں کو میری شادی کی فکر ہوئی۔ میں شادی کے لیے تیار نہیں تھا۔ آگے پڑھنا اور بہتر ملازمت کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے کہ جو کچھ میں کما رہا تھا اس سے بس گھر کی دال روٹی چل رہی تھی۔ بہن بھائی چھوٹے تھے۔ میں سوچتا، شادی کرکے گھر گرہستی کے چکروں میں پھنس جاؤں گا۔ کسی کے لیے کچھ نہیں کرسکوں گا۔ اماں نے ایک دن بٹھا کے سمجھایا، ’’آگے پڑھنے سے میں کب روکتی ہوں؟ شوق سے پڑھو۔ گھر بسالو گے تو میرا ہاتھ بٹانے والی آ جائےگی، جو تمھاری ذمے داری سنبھال لےگی۔‘‘

    میں نے اماں کو دلائل دے کر قائل کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ساری باتیں بڑے تحمل اور توجہ سے سنیں پھر بولیں، ’’ماشاء اللہ پڑھے لکھے ہو۔ بات کرنا جانتے ہو۔ مجھے تو کچھ نہیں آتا۔ سیدھے سادے لفظوں میں ایک بات کہی ہے۔ میری فرمائش پوری کردو گے تو خوش ہو جاؤں گی۔ آگے جو تمھاری مرضی۔‘‘

    بس یہ بات ایسی جا کے میرے دل کو لگی کہ میں نے کہا، ’’جو آپ چاہیں گی وہی کروں گا۔‘‘ اب پلٹ کر زندگی کو دیکھتا ہوں تو بڑی تقویت ملتی ہے۔ بہن بھائیوں کے لیے اس وقت جو ممکن ہوا، خدا نے توفیق دی، میں نے خوشی سے کیا۔ آج سب اپنے اپنے گھر بار کے اور بال بچوں دار ہیں۔ ماشاء اللہ اچھی زندگی جیتے ہیں۔ میری ریٹائرمنٹ میں ابھی چار سال باقی ہیں۔ اپنے تینوں بچوں کے فرض سے فارغ ہو چکا ہوں۔ بیوی اچھی ملی۔ گھر کا ماحول بنائے رکھنے میں اس نے میرا پورا ساتھ دیا۔ سو بس یہ تھی اماں کی مجھ سے پہلی فرمائش۔ کبھی سوچتا ہوں تو ہنسی آ جاتی ہے کہ اماں نے اس روز فرمائش کرکے کیسے مجھے قائل کر لیا تھا۔ یہ بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اماں کو اپنے لیے کوئی فرمائش کرنا آتا ہی نہیں۔ میں نے انھیں جب دیکھا، ایسی ہی کوئی فرمائش کرتے دیکھا جس میں دوسروں کا بھلا ہو۔ اب کے بھی اماں کو جب پتا چلا کہ میں سرکاری دورے پر ملتان جا رہا ہوں تو انھوں نے کہا، ’’لو بس اللہ نے ایک سبیل نکال دی۔‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا تو بولیں، ’’آپا ناجو کے ہاں جانا ہے۔‘‘ میں سمجھا کہ خود جانے کا ارادہ کرتی ہیں، بتایا، ’’میں تو بس دو دن کے لیے جا رہا ہوں اور موسم بھی سردی کا ہے۔ وہاں تو ویسے ہی کڑا کے کا جاڑا پڑتا ہے۔ مشکل ہو جائےگی آپ کو۔ ذرا موسم بہتر ہو جائے پھر پروگرام بنائیےگا۔‘‘

    بولیں، ’’میرا جانا ضروری نہیں ہے۔ بس ایک کام ہے، تم کرتے آنا۔‘‘

    اس وقت تو خدا جانے کس رَو میں ہامی بھرلی میں نے۔ بعد میں خیال آیا کہ بیس اکیس برس بعد اب ملتان جا رہا ہوں۔ سو پتا نہیں اب شہر کیا سے کیا بن چکا ہوگا۔ راستوں کا مجھے ٹھیک سے اندازہ نہیں۔ بھلا کہاں ڈھونڈتا پھروں گا خالہ ناجو کو۔ کیا معلوم، وہ اب اس دنیا میں ہیں بھی کہ نہیں۔ مجھے تو ان سے ملے ہوئے بھی اتنی مدت ہو گئی۔ انھوں نے جب مجھے دیکھا میں لڑکا تھا اور اب میرے لڑکے ماشاء اللہ جوان تھے۔ وہ بھلا اب مجھے کیا پہچانیں گی۔ وہ خود بھی جانے اب کیا ہوگئی ہوں گی؟ ایسے میں بس ناموں کی پہچان سے کام چلانا ہوگا۔ ملنا ملانا بہت رسمی اور اجنبیت کے ساتھ ہوگا۔ میں نے یہ سب باتیں بعد میں اماں سے کہیں۔ انھوں نے جواب دیا، ’’ابھی حیات ہیں اور اسی پاک گیٹ والے مکان میں ہیں۔ تم آرام سے گھر پہنچ جاؤگے۔ کوئی مشکل نہیں ہوگی۔‘‘

    ’’آپ کو کیسے معلوم کہ وہ ابھی حیات ہیں؟‘‘

    ’’میرا دل کہہ رہا ہے۔‘‘ اماں نے اطمینان سے جواب دیا۔

    مجھے ہنسی آ گئی۔

    اماں سنجیدہ تھیں۔ مجھے دیکھا اور بولیں، ’’کئی دن سے خواب میں آرہی ہیں۔‘‘ اک ذرا تأمل کیا پھر بولیں، ’’دیکھو اب میں بھی ایسی ہی رہتی ہوں اور ان کا بھی جی اچھا نہیں رہتا۔ یوں سمجھو دونوں ہی کا بس اب چل چلاؤ ہے۔ میرے پاس ان کی ایک امانت رکھی ہے، وہ بھیجنی ہے۔ دنیا کی چیز ہے، یہیں واپس ہو جائے، اچھا ہے۔‘‘

    پہلے تو مجھ سے کچھ جواب نہ بن پڑا پھر کہا، ’’ایسا ہے تو پھر آپ کو خود جانا چاہیے۔‘‘ کہتے ہی محسوس ہوگیا کہ بے تکی بات کر رہا ہوں۔

    ’’بچے! مجھ سے چلا پھرا نہیں جاتا۔ بڑے جھمیلے ہوجائیں گے مجھے ساتھ لے جانے میں۔‘‘ اماں کی بات درست تھی۔ گٹھیا کے مرض کی وجہ سے ان کے چلنے پھرنے کے بڑے مسائل تھے۔ پتا نہیں کیوں، میں بہرحال اس کام کو ٹالنے پر مُصر تھا۔ ’’وقت نہیں نکلےگا اماں۔ جا نہیں سکوں گا۔‘‘

    ’’اللہ خیر رکھے، نکل آئےگا۔‘‘ انھوں نے بڑے تیقن سے کہا، ’’بس تم میری دی ہوئی چیز ساتھ لے جاؤ، اور کچھ فکر نہ کرو۔ آگے اللہ سب آسانی رکھےگا۔‘‘

    میں چپ ہو گیا۔

    جس دن چلنا تھا، اماں کے پاس سلام کرنے گیا تو انھوں نے ایک چھوٹی سی پوٹلی اپنے تکیے کے نیچے سے نکالی۔ تکیے کے دوسری طرف سے ایک شاپر نکالا اور اس میں وہ پوٹلی ڈال کر گرہ لگائی اور مجھے یوں تھمائی جیسے کوئی بہت نازک شے ہے۔ بولیں، ’’آپا ناجو کو سلام کہنا۔ جی اچھا نہیں ہے ان کا۔ میری طرف سے بھی پوچھنا۔ کہنا، میں ان کے لیے پابندی سے دعا کرتی ہوں۔ اللہ انھیں اچھا رکھے۔‘‘

    میں نے پوٹلی اٹھا کر کوٹ کی جیب میں ڈال لی۔ اماں نے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے خیریت سے لوٹ آنے کی دعا دی۔ اٹھ کر چلنے لگا تو بولیں، ’’خالی ہاتھ نہیں جایا کرتے۔ ساتھ کچھ پھل لے جانا اور بہت دن بعد ملو گے ان سے، کھڑے کھڑے مت جانا۔ دو گھڑی پاس بیٹھنا۔ بہت کھلایا ہے، بہت لاڈ کیا ہے انھوں نے تم سے۔ شروع میں بہت دن یہ ہوا کہ تمھیں کچھ پچتا نہیں تھا۔ بےچاری روز تمھارے لیے کہیں سے بکری کا دودھ لے کر آتی تھیں۔‘‘

    اماں کی دی ہوئی پوٹلی میں نے لے کر جیب میں رکھ لی تھی اور یہ ساری باتیں بھی آرام سے سنی تھیں۔ خالہ ناجو کے لیے میرے دل میں احترام بھی تھا، مگر سچی بات یہ ہے کہ چلتے چلتے تک میرے ذہن میں یہی تھا کہ لوٹ کر اماں سے کہہ دوں گا کہ وقت نہیں ملا، لیکن اب کاموں سے نمٹ کر ذہن اس بات پر الجھنے لگا کہ اماں سے جھوٹ بولنا پڑےگا۔ تب میرے دل نے کہا، آخر ہوٹل کے کمرے میں پڑے ہوئے تمھیں کیا ملےگا۔ ٹی وی دیکھو گے، چائے کافی پیو گے۔ خالی وقت گزارو گے۔ اس سے بہتر ہے نکلو اور اماں کی فرمائش پوری کر آؤ۔ اس وقت دفتر کی گاڑی کاموں سے نمٹ کر واپس مجھے ہوٹل اتارنے کے لیے جا رہی تھی۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ پاک گیٹ لے چلو۔

    ’’پاک گیٹ کس جگہ جانا ہے سر؟‘‘ ڈرائیور نے پوچھا۔

    ’’بس تم چوک پر اتار کر چلے جانا۔ آگے میں خود دیکھ لوں گا اور واپس بھی خود ہی آ جاؤں گا۔‘‘

    ’’میں رک جاؤں گا، جب تک آپ کہیں گے سر جی، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘

    ’’نہیں مجھے دیر ہو جائےگی اور پھر معلوم نہیں آگے میرا کیا پروگرام بنے۔ بس تم اتار کر چلے جانا۔‘‘

    ’’بہتر ہے سر!‘‘

    مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے میں شہر میں ہونے والی تبدیلیوں پر غور کر رہا تھا۔ پچھلے بیس برس میں کہتے ہیں کہ دنیا بہت بدلی ہے۔ یہ خیال ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ اس عرصے میں ملتان میں تبدیلی کی رفتار بہت زیادہ نہ رہی ہو، لیکن دیکھنے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ شہر بھی اب کیا سے کیا ہو گیا تھا۔ گاڑی کچہری چوک کے فلائی اوور سے گزر رہی تھی، جو میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ میں جس سے واقف تھا، یہ وہ کچہری چوک نہیں تھا، حالاں کہ کچہری یعنی لوئر کورٹس اور سیشن کورٹس وہیں اپنی جگہ پر تھے۔ گھنٹا گھر کی طرف جاتے ہوئے لڑکیوں کا کالج بھی اپنی جگہ تھا۔ اس سے آگے کئی عمارتیں نئی نظر آئیں۔ ظاہر ہے پرانی گرا کر کثیر المنزلہ عمارتیں اٹھائی گئی ہوں گی۔ ذرا سا آگے قاسم العلوم کا گیٹ نظر آیا مگر اب یہ مدرسۃ للبنات ہو گیا تھا۔ اس زمانے میں جب یہ مدرسہ قاسم العلوم تھا، یہاں کتنی رونق رہتی تھی۔ اس کے اندر جو مسجد تھی، وہاں صرف مدرسے کے طلبہ اور اساتذہ ہی نماز نہیں پڑھتے تھے، آس پاس کی آبادی سے بھی خاصے نمازی یہاں آیا کرتے تھے۔ جب کبھی مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود صاحب یہاں آتے تو قریب کے ہی نہیں دور دراز سے بھی بہت لوگ ان سے ملنے اور ساتھ نماز پڑھنے کے لیے پہنچا کرتے تھے۔

    یہ سوچتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ انتقال کے بعد جب مولانا مفتی محمود کی میت آبائی گاؤں لے جائی گئی تو ملتان میں روک کر بھی ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی تھی۔ نماز جنازہ کا انتظام مسلم ہائی اسکول کے سامنے والے گراؤنڈ میں کیا گیا تھا۔ اس وسیع و عریض گراؤنڈ کے تین حصے تھے جن میں بہ یک وقت کرکٹ، ہاکی اور باسکٹ بال کے میچ ہوا کرتے تھے۔ نماز جنازہ میں جانے کہاں کہاں سے لوگ آکر شریک ہوئے تھے۔ اس گراؤنڈ کے بائیں طرف بوائے اسکاؤٹس ہیڈ کوارٹر تھا اور پچھلی طرف سے ایک راستہ سول لائنز کالج کو جاتا تھا۔ بھٹو صاحب کے شیدائی اس زمانے میں سب سے زیادہ اسی کالج میں تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے جب ۱۹۷۷ء میں مارشل لگایا اور انھیں نظر بند کیا تو ملتان میں نکلنے والے طلبہ کے جلوسوں کی قیادت اسی کالج کے لڑکے کیا کرتے تھے۔ طلبہ تنظیموں پر لگنے والی پابندی پر احتجاج کرنے کی وجہ سے اسی کالج کے لڑکے سب سے زیادہ اس دور میں گرفتار ہوئے تھے۔

    سول لائنز کالج سے نکلنے والے جوان پرجوش طلبہ کے یہ جلوس پل موج دریا کے چوک پر پہنچ کر رکتے تھے۔ طلبہ لیڈر دھواں دھار تقریریں کرتے۔ ضیاء الحق کے خلاف اور بھٹو صاحب کے حق میں زوردار نعرے لگتے۔ ایک ایک کرکے تصویریں آنکھوں کے آگے سے گزر رہی تھیں۔ ذرا سی دیر میں مجھے کیا کچھ یاد آ رہا تھا۔

    گاڑی اب گھنٹا گھر چوک سے گزر رہی تھی، لیکن یہاں تو اب نقشہ ہی کچھ اور تھا۔ وہ پھولوں کے ٹوکرے لے کر بیٹھنے والے کہیں نظر آ رہے تھے نہ وہ مٹکے کی قلفی بیچنے والے کی دکان تھی اور نہ ہی وہ برابر والا ہوٹل تھا جس کے سامنے چارپائیوں پر بیٹھے لوگ مٹھی چاپی کراتے رہتے تھے۔ وہ گولی والی بوتل کی دکان بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ گھنٹا گھر کی عمارت جہاں بلدیہ کے دفاتر تھے اور کبھی یہاں بلدیاتی نمائندوں کا اجلاس ہوا کرتا تھا، اب وہ بھی کچھ سے کچھ ہوگئی تھی۔ ’’یہ علاقہ تو بہت بدل گیا، اب تو نقشہ ہی کچھ اور ہے۔‘‘ میں نے ذرا بلند آواز سے کہا۔

    ’’جی سر! شہر کے کئی علاقے بدل گئے ہیں۔ آپ بہت دن بعد آئے ہیں۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ میں نے جواب دیا اور گاڑی کو لوہاری گیٹ کے برابر والی روڈ پر چڑھتے دیکھنے لگا۔ یہی روڈ آگے بوہڑ گیٹ کی طرف نکلےگی۔ اس سے آگے حرم گیٹ اور اس کے بعد پاک گیٹ۔ ان علاقوں میں بھی بہت تبدیلی آ گئی ہوگی۔ میں نے سوچا پھر ڈرائیور سے پوچھا، ’’پاک گیٹ کا علاقہ کتنا بدلا ہے؟‘‘

    ’’زیادہ نہیں بدلا سرجی۔ اصل میں یہ حصہ تو سارے کا سارا پرانا شہر ہے۔ یہاں مکان، دکانیں، بازار، گلیاں سب آپس میں گتھے ہوئے ہیں، اس لیے اسے زیادہ نہیں بدلا جا سکتا۔‘‘ ڈرائیور کے فقرے سے مجھے جیسے طمانیت محسوس ہوئی۔ بہت برسوں بعد ہی سہی، جہاں جارہا ہوں وہاں ایسی تبدیلی نہیں ہوگی کہ مجھے علاقہ ہی اجنبی لگے۔ میں نے سوچا۔ عمر گزر گئی، بڑھاپے کی دہلیز پر آ پہنچا ہوں مگر جانے کیا ہے کہ اجنبیت سے خواہ لوگوں سے ہو یا جگہوں سے، مجھے اب بھی وحشت ہوتی ہے۔ میں حتی الوسع مانوس لوگوں کے ساتھ اور مانوس جگہوں پر ہی اطمینان محسوس کرتا ہوں۔ اعلیٰ سول سروس کا امتحان دینے کے بعد میں جس شعبے میں آیا، اس میں دوسرے شہروں میں آنے جانے اور بعد ازاں ملک سے باہر کے دوروں کے بہت مواقع آتے ہیں۔ میری زندگی میں بھی آئے اور میں گیا بھی ہوں، لیکن وہیں جہاں لازماً جانا پڑا۔ اس کے لیے بھی میں نے کوشش کی کہ دفتر کا کوئی نہ کوئی ساتھی ہم راہ ہو۔ اب سے نہیں، میری یہ عادت شروع سے ہے۔

    صاف بات اصل میں یہ ہے کہ اماں نے جب خالہ ناجو کے یہاں جانے کو کہا تو فوراً میرے ذہن میں یہی خیال آیا کہ اس عرصے میں شہر بہت بدل چکا ہوگا۔ مجھے راستہ سمجھ نہیں آئےگا، گلیوں بازاروں میں بھٹکتا پھروں گا۔ اس کے ساتھ جو دوسرا کوندا ذہن میں لپکا، وہ اور وحشت خیز تھا۔ اتنی مدت کے بعد خالہ ناجو مجھے کیا پہچانیں گی۔ بے چاری خود پتا نہیں کس حال میں ہوں گی؟ ان کا ایک بیٹا ریاض میرا ہم عمر تھا اور ہماری دوستی بھی تھی، لیکن میری ملازمت کے آغاز کے دنوں سے ہی ہمارا ملنا ملانا کم ہو گیا تھا۔ جب میں سول سروس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا تو ساری دنیا سے کٹ گیا تھا، پھر اس سروس میں آنے کے بعد تو شب و روز ہی بدل گئے۔ اب ہم ملیں بھی تو بڑی اجنبیت حائل رہےگی۔ بس ان باتوں نے مجھے الجھایا اور میں نے سوچا کہ اماں کو ٹال دوں گا۔

    جہاز کا سفر چاہے کتنا ہی مختصر ہو مگر میں پھر بھی کچھ دیر اونگھنے کی گنجائش نکال ہی لیتا ہوں۔ اب کے بھی یہی ہوا، لیکن یہ اونگھ نہیں، گہری نیند تھی جس میں، میں نے باقاعدہ خواب بھی دیکھا۔ دیکھا کہ میں خالہ ناجو کے پاس بیٹھا ہوں۔ وہ بہت محبت سے مجھ سے بات کرتی ہیں اور اماں کو تھوڑی تھوڑی دیر میں یوں یاد کرتی ہیں کہ جیسے انھیں بہت مس کرتی ہوں۔ میرے سب بہن بھائیوں کا احوال نام لے کر فرداً فرداً پوچھا۔ میری بیوی اور بچوں کا پوچھا۔ اپنے بچوں کا بتایا۔ یہ ساری باتیں اس انداز سے اور ایسے ماحول میں ہوتی رہیں کہ مجھے ایک پل کو بھی یہ نہ لگا کہ میں خواب دیکھتا ہوں۔ اسنیکس کی ٹرالی لے کر آنے والی خاتون نے میرا کاندھا تھپتھپایا تو میں جاگا۔ مجھے اس خواب پر حیرت ہوئی، لیکن پھر میں نے اس سے ذہن ہٹا لیا اور اپنی سرکاری مصروفیات کے بارے میں سوچنے لگا۔

    خواب سے تو میں نے ذہن ہٹا لیا، لیکن خالہ ناجو سے میرا دھیان نہ ہٹا۔ کبھی وہ، کبھی ان کی باتیں، کبھی ان کے بچے، کبھی ان کا گھر رہ رہ کر ان سے متعلق کچھ نہ کچھ ذہن میں آنے لگا۔ سچی بات یہ ہے کہ ان کو میری اماں ہی نہیں، ابا اور بہن بھائیوں سمیت پورا گھر ہی پسند کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے تو بہت دیر میں پتا چلا کہ وہ اماں کی سگی بہن نہیں ہیں، ورنہ ہم سب بہن بھائی انھیں اپنی حقیقی خالہ ہی سمجھتے تھے۔ اصل میں وہ ہمارے ساتھ رہتی بھی اسی طرح تھیں کہ کیا اپنے رہتے ہوں گے۔ وہ اماں سے عمر میں دس بارہ سال بڑی ہوں گی۔ ان کا دیکھ بھال کرنے والا مزاج ہر وقت اماں اور ہم سب بہن بھائیوں کا پرسان حال رہتا۔

    وہ ہمارے گھر سے تین گلی ادھر رہتی تھیں، لیکن صبح سے شام تک کئی چکر ہمارے گھر کے لگاتیں۔ وہ شٹل کاک برقع پہنتی تھیں مگر اس کی ٹوپی سر پہ جما کر چہرے کا نقاب الٹ دیتیں اور چادر جسم کے گرد یوں لپیٹ لیتیں کہ کاندھوں سے ٹخنوں تک اس میں چھپ جاتیں۔ میاں ان کے جوانی میں فوت ہوگئے تھے۔ چار بیٹیاں اوپر تلے تھیں جن میں سے دو تو سیانی ہو گئی تھیں۔ بیٹے دو تھے اور بہنوں سے چھوٹے۔ گھر میں کمانے کھلانے والا کوئی نہ تھا۔ خالہ نے عدت کے دن تو جیسے تیسے گزارے اور اس کے بعد برقع سر پہ رکھا اور گھر سے نکلنے لگیں۔ محلے پڑوس میں گھوم کر وہ سلائی کے لیے کپڑے اکٹھے کرتیں اور گھر جاکر بیٹیوں کو ساتھ لگاکر سینے بیٹھ جاتیں۔ یوں گھر کا دال دلیا چلنے لگا۔ بڑی لڑکی میٹرک پاس کرچکی تھی۔ اس سے محلے کے کچھ بچے پڑھنے کے لیے بھی آنے لگے۔ پھر تو یہ سلسلہ ایسا چلا کہ شاید ہی محلے کا کوئی گھر ہو جس کا کوئی نہ کوئی بچہ خالہ ناجو کے یہاں پڑھنے نہ آتا ہو۔ اس سلائی کڑھائی کے کام اور بچوں کی ٹیوشن سے ان کا گھر چلتا رہا۔ ایک ایک کرکے بیٹیوں کی شادیاں کیں اور بیٹے تعلیم حاصل کرکے ملازمتوں تک پہنچے۔

    خالہ ناجو نے کڑے دن ضرور گزارے ہوں گے، لیکن میرے حافظے میں کوئی واقعہ ایسا نہیں ہے جس میں وہ وقت سے یا لوگوں سے شکوہ کرتی نظر آئیں۔ ان کا اصل نام کیا تھا، مجھے آج تک معلوم نہیں۔ میں نے تو سب بڑوں کو انھیں آپا ناجو اور بچوں کو خالہ ناجو پکارتے ہی سنا تھا۔ ان کا رنگ سفید تھا، لیکن اس میں نمایاں قسم کی پیلاہٹ جھلکتی تھی۔ قد لانبا اور جسم اکہرا تھا۔ تیز قدموں سے چلتیں اور محلے بھر کی خبر گیری کرتیں۔ کسی کے یہاں زچہ بچہ کا مسئلہ ہو، کوئی بیمار ہو، کہیں سگائی یا بیاہ کی تیاری ہو، خالہ ناجو سب کے یہاں اول تو بن بلائے پہنچ جاتیں ورنہ بس ایک بار کہلا بھیجنے کی دیر ہوتی۔ اس کے بعد کام نمٹنے تک وہ اس گھر کی ہورہتیں۔ دن میں دس کام ہوں، دس چکر لگانے پڑیں، مجال ہے جو کبھی وہ انکار کریں یا غیر حاضر نظر آئیں۔ اماں سے تو ان کا معاملہ ہی الگ تھا۔ اماں انھیں بڑی بہن سمجھتیں اور خالہ نے بھی ہمیشہ بڑی بہن ہونے کا ثبوت دیا۔ ابا کے انتقال کے بعد تو وہ دن کا زیادہ حصہ ہمارے گھر میں گزارتیں۔ عدت کے بعد جب اماں نے گھر سے باہر پہلی بار قدم نکالا تو خالہ ناجو انھیں اپنے گھر لے کر گئیں۔ کھانا کھلایا۔ چلتے ہوئے ایک سوٹ اور کانچ کی چوڑیاں دیں۔ اس کے بعد اماں کو میرے بڑے ماموں اپنے گھر لے کر گئے تھے۔

    پاک گیٹ چوک پر مجھے اتارتے ہوئے ڈرائیور نے ایک بار پھر رک کر انتظار کرنے کا عندیہ دیا۔ میں نے اسے منع کیا اور گاڑی سے اتر کے النگ کی طرف چل دیا۔ دائیں بائیں پھلوں کے ٹھیلے نظر آ رہے تھے۔ مجھے یہ خیال بھی آیا تھا کہ اگر خالہ ناجو اس گھر میں نہ ملیں تو ان پھلوں کا کیا کروں گا۔ بہرحال اماں کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے پھل لیے اور آگے بڑھا۔ اب بہ یک وقت کئی سمتوں کو جاتے ہوئے راستے میرے سامنے تھے۔ میں نے رک کر ایک لمحہ سوچا اور بس پھر یک لخت سارا نقشہ میرے ذہن میں کھلتا چلا گیا۔ اتنے برس کی دوری کا سارا حساب ایک پل میں منہا ہو گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے ابھی ذرا سی دیر پہلے میں فالسے کا شربت لینے آیا ہوں۔ گرمیوں کے موسم میں حکیم محمود اعظم کے دوا خانے سے شربت فالسہ اور شربت بزوری ہمارے گھر اکثر جایا کرتے تھے۔ ان سے مہمانوں کی تواضع بھی کی جاتی اور گرمیوں میں اماں ہم بہن بھائیوں کو بھی اکثر دوپہر میں پلایا کرتی تھیں۔ حکیم صاحب کا مطب داہنے ہاتھ پر شروع کی دکانوں میں تھا۔ اس سے آگے چل کر داہنے ہاتھ پر ہی ایک گلی اندر مڑتی تھی۔ اس میں اتر جائیے تو بیس بائیس قدم بعد بائیں ہاتھ مڑ کر سیدھا چلتے رہیے۔ اسی گلی میں نواں مکان ہمارا تھا۔

    حکیم صاحب کا مطب ختم ہوچکا تھا۔ اس کی جگہ اب پلاسٹک کے برتنوں کی دکان کھل گئی تھی۔ اس کے برابر میں جو دودھ دہی کی دُکان تھی وہاں بھی اب ایک شخص کھلونے لیے بیٹھا تھا۔ آگے چل کر یہ راستہ دو شاخہ ہو جاتا تھا۔ بائیں طرف چلیں تو صرافہ بازار میں جا نکلیں۔ میرے قدم خود بہ خود اپنے راستے کی طرف اٹھ رہے تھے۔ اپنی گلی میں داخل ہوا تو بچپن سے ذہن میں رچی ہوئی بو نے استقبال کیا۔ یہ گلی بہت کشادہ نہیں تھی۔ دو رویہ مکانات بھی بڑے نہیں تھے۔ جب میں اپنے مکان کے آگے پہنچا تو قدم خود بہ خود تھم گئے۔ مکان کا ایک دروازہ بند تھا۔ دوسرے کے آگے دو بچے بیٹھے پلاسٹک کے بلاکس سے کچھ بنا رہے تھے۔ ان کی عمریں ڈھائی تین برس کے لگ بھگ ہوں گی۔ چہرے سے دونوں بھائی اور جڑواں معلوم ہوتے تھے۔ جی میں آیا دروازے پر دستک دوں۔ کوئی مرد ہو تو اسے بتاؤں کہ یہ ہمارا مکان تھا۔ اب اتنے برس بعد آیا ہوں۔ ایک بار اندر سے دیکھنا چاہتا ہوں کہ اب یہ مکان کیسا ہے؟ خیال آیا، معلوم نہیں کون لوگ ہیں، میری اس بات کا مطلب کیا سمجھیں اور کیا جواب دیں۔ یوں بھی مکان کی حالت باہر سے کچھ اچھی نظر نہیں آرہی تھی۔ لگ رہا تھا، برسوں سے رنگ روغن تو کیا، صفائی کا بھی کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ دروازے بھی چکٹ گئے تھے۔ بچوں نے مجھے کھڑا ہوا دیکھا تو متوجہ ہوئے۔ ایک مسکرایا، دوسرا سنجیدہ رہا۔ وہ پھر اپنے بلاکس میں مصروف ہو گئے۔ میرے قدم بھی آگے اٹھنے لگے۔

    ذرا سی دیر میں، تین گلیوں سے ہوتا ہوا خالہ ناجو کے مکان کے آگے تھا۔ مجھے ایک دم حیرت ہوئی کہ کسی سے کچھ بھی پوچھے بغیر میں کسی سہولت سے یہاں پہنچ گیا ہوں۔ تب مجھے اماں کی بات یاد آئی کہ تم آرام سے گھر پہنچ جاؤگے، کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ ان کی یہ بات تو بالکل درست ثابت ہوئی تھی، لیکن کیا خالہ ناجو اب بھی واقعی اس مکان میں رہتی ہیں؟ میں نے خود سے پوچھا۔ یہ بات تو دروازہ کھٹکا کر ہی معلوم ہوگی۔ میں نے خود کو جواب دیا۔ اگر وہ یہاں نہیں رہتیں تو؟ کوئی بات نہیں۔ میں اس مکان کے باسی سے معذرت کرلوں گا اور پوچھوں گا کہ آیا وہ اس حوالے سے میری کوئی رہ نمائی کر سکتا ہے؟ یہ سب خود سے کہنے کے باوجود مجھے دروازے پر دستک دینے میں جھجک ہورہی تھی۔ میں نے در و دیوار پر نظر ڈالی۔ مکان سنبھلی ہوئی حالت میں تھا۔ اندازہ ہورہا تھا کہ مکین اس سے غافل نہیں تھے۔ میں نے اس کی پہلے والی حالت ذہن میں لانے کی کوشش کی۔ خیال ہوا کہ مکان اب پہلے سے قدرے بہتر حالت میں ہے۔ میں ابھی دستک دینے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا اور انیس بیس برس کا ایک لڑکا سال بھر کی بچی کو گود میں لیے برآمد ہوا۔ میں ایک لمحے کو ہڑبڑایا۔ لڑکا بھی مجھے یوں دروازے کے عین سامنے کھڑے دیکھ کر ٹھٹکا پھر سنبھل کر بولا، ’’جی!‘‘

    ’’بیٹے جمیل صاحب سے ملاقات ہو سکتی ہے؟‘‘ میں نے خالہ کے بڑے بیٹے کا نام لے کر پوچھا۔

    ’’وہ تو یہاں نہیں رہتے۔‘‘ اس نے قطعیت مگر شائستگی سے جواب دیا۔

    میں بالکل گڑبڑا گیا۔ کچھ سمجھ نہ آیا اب کیا کہوں یا کیا کروں۔

    اس نے میری صورت دیکھی اور پھر اسی شائستگی سے پوچھا، ’’آپ کون؟‘‘

    ’’بیٹے میرا نام مزمل ہے اور میں اسلام آباد سے آیا ہوں۔‘‘

    ’’آپ یقیناً بہت عرصے بعد آئے ہیں۔ ان کو تو یہاں سے شفٹ ہوئے نو سال سے زیادہ ہوگئے۔‘‘ اس کی نظریں میرے چہرے پر تھیں۔

    میں نے اثبات میں سر ہلایا، ’’میں تو بہت برسوں بعد آیا ہوں۔‘‘

    میرے اس جواب پر اس نے بھنویں چڑھا کر حیرت کا اظہار کیا اور کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا، لیکن ایک لمحے رکا اور پھر اسی شائستگی سے بولا، ’’میں آپ کو ان کا موبائل نمبر دیتا ہوں، آپ کونٹیکٹ کر لیجیے ان سے۔‘‘

    لڑکے کی شائستگی سے مجھے ذرا حوصلہ ہوا۔ میں نے جیب سے فوراً موبائل نکالا اور کہا، ’’اصل میں مجھے ان سے تو کوئی کام نہیں ہے، ان کی والدہ خالہ ناجو سے۔۔۔‘‘ اور میں پھر گڑبڑا گیا کہ کیا کہہ رہا ہوں اور کس سے کہہ رہا ہوں۔ یہ بات اس نوجوان سے کہنی بھی چاہیے کہ نہیں۔

    لڑکا توجہ سے میری بات سن رہا تھا۔ اس نے چند لمحے انتظار کیا کہ میں اپنی بات پوری کروں مگر مجھے خاموش پاکر بولا، ’’آپ کو دادی سے ملنا ہے؟‘‘

    میں نے کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے سر کے اشارے سے ہاں کہا۔

    ’’اچھا رکیے، میں ابّو کو بلاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ الٹے قدموں گھر میں داخل ہوا اور پیچھے دروازہ کھلا چھوڑ گیا۔

    ایک ڈیڑھ منٹ بعد کوئی صاحب کھنکارتے آتے سنائی دیے۔ وہ بیٹے سے کہہ رہے تھے، ’’اس نام کے تو ایک ہی صاحب ہوسکتے ہیں۔ وہ تمھارے چچا ہیں۔ باہر کیوں کھڑا کر دیا انھیں۔ اندر لے آتے۔‘‘ اتنی دیر میں وہ دروازے پر تھے۔ ایک پل کے لیے مجھے دیکھا اور پھر دونوں ہاتھ پھیلا کے میری طرف بڑھے، ’’ارے مزمل بھائی آپ!‘‘ انھوں نے مجھے سینے سے لگا لیا۔ اب میں بھی پہچان چکا تھا۔ یہ ریاض تھا، خالہ ناجو کا چھوٹا بیٹا۔ وہ بھینچ کر مجھے گلے لگائے ہوئے تھا اور دونوں ہاتھ میری کمر پر تھپتھپا کے خوشی کا اظہار کر رہا تھا اور بار بار کہے جا رہا تھا، ’’آپ کو دیکھ کر جی خوش ہوگیا۔‘‘ اس کا یوں جوش سے ملنا مجھے بھی بہت اچھا لگا۔ پھر وہ الگ ہوا اور فوراً میرا ہاتھ پکڑ کر ایسے آگے بڑھا جیسے بچپن میں کھیلتے ہوئے کرتا تھا۔ آگے بڑھتے ہوئے وہ اچانک رکا اور بیٹے سے بولا، ’’یہ تمھارے چچا ہیں۔ انھیں باہر کیوں کھڑا کیا۔ اندر لے کر آتے۔‘‘ پھر وہ بچے کا جواب سنے اور میری طرف دیکھے بغیر میرا بازو پکڑے ہوئے چلنے لگا۔ بولا، ’’مزمل بھائی! آئیے آئیے، اندر آئیے۔ اماں سے ملواؤں آپ کو۔ وہ تو پچھلے تین دن سے خالہ کا بلکہ آپ سب لوگوں کا بہت ذکر کر رہی ہیں۔ آپ کو دیکھ کر تو خوش ہی ہو جائیں گی۔ آج صبح ہی پتا ہے، انھوں نے مجھ سے کیا کہا؟ خالہ کا نام لے کر کہنے لگیں، ’کہیں سے اتا پتا لو اور مجھے ایک بار لے جاکر ملوا لاؤ بس اس سے۔‘‘

    میں اس کی بات کا جواب دینا چاہتا تھا، بلکہ کچھ نہ کچھ جواب دے بھی رہا تھا، مگر اسے میرے جواب سے کوئی سروکار ہی کب تھا۔ وہ تو بس اپنی کہے جارہا تھا۔ میں دل ہی دل میں ہنس دیا۔ اتنی عمر ہو جانے کے بعد بھی وہ اب تک ویسا کا ویسا ہی تھا۔ جذبات سے مغلوب ہو جانے اور جوش میں کھو جانے والا۔ اس کی اس سادگی نے میرا دل موہ لیا تھا۔ اس لیے میں اطمینان سے ہاتھ پکڑائے ہوئے اس کے پیچھے لپک رہا تھا۔ خالہ ناجو کے اس گھر سے میں اسی طرح اور اتنا ہی مانوس تھا، جتنا خود اپنے گھر سے۔ دروازے سے داخل ہوتے ہی الٹے ہاتھ والا کمرہ بیٹھک کہلاتا تھا۔ یہاں رسمی مہمانوں کو بٹھایا جاتا۔ ذرا سا آگے جائیں تو اسی ہاتھ پر ایک چھوٹا کمرہ تھا جو اسٹور کا کام دیتا۔ خالہ کے یہاں یہ گودام کہلاتا تھا۔ اس کے برابر میں باورچی خانہ تھا۔ سامنے کے رخ پر دو کمرے متصل تھے اور سیدھے ہاتھ پر ایک کمرہ اور تھا۔ ریاض مجھے اسی سیدھے ہاتھ والے کمرے کی طرف لیے جا رہا تھا کہ باورچی خانے کے دروازے پر ایک ادھیڑ عمر نسوانی صورت ابھری۔ ریاض رک کر اس سے مخاطب ہوا، ’’یہ مزمل بھائی ہیں۔ اسلام آباد سے آئے ہیں، اماں سے، میرے سے ملنے کے لیے۔‘‘ پھر اس نے میری طرف دیکھا، بولا، ’’مزمل بھائی، یہ آپ کی بھابی ہے۔‘‘ خاتون نے سر پہ ڈوپٹہ درست کرتے ہوئے کہا، ’’سلالیکم بھائی!‘‘ میں نے جواب دیا اور پھلوں کے تھیلے آگے بڑھا دیے۔

    ’’بھائی یہ کیا تکلف کیا؟ آپ کا اپنا گھر ہے یہ، اس کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ خاتونِ خانہ نے تھیلے میرے ہاتھ سے نہیں لیے تھے۔

    ’’اپنے گھر میں بھی آدمی لے کر آتا ہے بھابی۔ لیجیے پلیز۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’اچھا بھئی چل لے لے اب۔‘‘ ریاض نے کہا۔

    اتنی دیر میں باورچی خانے کے دروازے پر بائیس تئیس برس کی لڑکی ان کے برابر سے نکل کر آئی اور بلند آواز میں سلام کرکے سر میرے آگے کیا۔ میں نے سر پہ ہاتھ رکھا۔ ریاض نے بتایا، ’’یہ بڑی لڑکی ہے۔ اس کی شادی ہو چکی۔ یہ بچی اسی کی ہے۔‘‘ اس نے دروازے پر ملنے والے لڑکے کی گود میں گول مٹول بچی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’میرے چار بچے ہیں۔ یہ دونوں بڑے ہیں۔ چھوٹا لڑکا اور لڑکی ٹیوشن پڑھنے گئے ہیں۔ بس اب آدھے گھنٹے میں آنے والے ہوں گے۔‘‘ اس نے گھڑی دیکھ کر کہا۔ پھر پوچھا، ’’آپ کے ماشاء اللہ کتنے بچے ہیں؟‘‘

    ’’میرے تین بچے ہیں۔‘‘

    ’’ماشاء اللہ، ماشاء اللہ۔ آپ میرے سے ایک بچہ پیچھے رہ گئے۔‘‘ ریاض نے قہقہہ لگایا۔

    مجھے بھی ہنسی آ گئی۔

    ’’آپ کی شادی تو میرے سے کئی سال پہلے ہو گئی تھی۔ بچے تو ماشاء اللہ سب سیانے ہوں گے۔‘‘ ریاض نے کہا۔

    ’’جی، جی۔‘‘

    ’’بھائی ہماری بھابی بھی ٹھیک ہیں؟‘‘ خاتون نے پوچھا۔

    ’’جی، خدا کا شکر ہے۔‘‘

    ’’راجے! کون آیا ہے بچے؟‘‘ یہ آواز داہنے ہاتھ کے کمرے سے آئی تھی اور میں نے پہچان لی تھی۔

    ’’خالہ پوچھ رہی ہیں؟‘‘ میں نے ریاض کی طرف دیکھا۔

    ’’ہاں اماں ہی تو پوچھ رہی ہیں۔‘‘ وہ تیزی سے کمرے کی طرف بڑھا۔

    میں بھی پیچھے ہولیا۔

    ’’لو اماں! دیکھو تو کون آیا ہے؟ اپنے مزمل بھائی آئے ہیں تم سے ملنے کے لیے۔‘‘ اس نے کمرے کے دروازے پر ہی بلند آواز میں اعلان کر دیا۔

    میں نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے سامنے دیوار کی طرف بان کی کھری چارپائی پر کپڑوں کی ایک چھوٹی سی گٹھڑی کو دیکھا۔ کمرہ نیم تاریک تھا۔ ریاض نے بلب جلایا تو گٹھڑی کو جنبش ہوئی پھر میں نے دیکھا کہ ڈوپٹہ منہ پر ڈال کر لیٹی ہوئی خالہ چارپائی کی پٹی کا سہارا لیتی ہوئی اٹھ بیٹھیں۔ بال سمیٹ کر انھوں نے ڈوپٹہ سر پہ درست کیا پھر تکیے کے برابر رکھی ہوئی عینک اٹھا کر ناک پر رکھی اور پوچھا، ’’کون آیا ہے بچے؟‘‘

    اس سے پہلے کہ ریاض بولے، میں آگے بڑھا ’’السلام علیکم خالہ! میں ہوں مزمل، ہاجرہ کا بیٹا۔‘‘

    خالہ خاموشی سے میرا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔

    ’’مزمل بھائی ہیں اماں، اپنے مزمل بھائی، ہاجرہ خالہ کے بڑے بیٹے۔‘‘ ریاض نے اونچی آواز میں کہا پھر میری طرف دیکھا اور آواز نیچی کرکے بولا، ’’اماں اونچا سننے لگی ہیں اب۔ آپ ان سے اونچی آواز میں بات کرنا۔‘‘

    میں نے دوبارہ بلند آواز میں خالہ کو سلام کیا۔

    انھوں نے دونوں ہاتھ آگے بڑھائے۔ میں ان کے اور قریب ہوگیا۔ انھوں نے دونوں ہاتھ پورے سر پہ پھیرے اور پھر میرے چہرے کو تھام کر پوچھا، ’’کیسے ہو میرے لال؟‘‘ ان کے ٹھنڈے اور کھردرے ہاتھ میرا چہرہ تھامے ہوئے تھے۔

    میں ان کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا اور کہا، ’’میں ٹھیک ہوں خالہ۔ آپ بتائیے، آپ کیسی ہیں؟‘‘

    ریاض نے جلدی سے سامنے کی دیوار کے ساتھ رکھی کرسیوں میں سے ایک اٹھا کر آگے کی اور بولا، ’’اس پر بیٹھ جائیے اماں کے پاس ہی۔‘‘

    ’’ماں کیسی ہیں تمھاری؟‘‘ خالہ نے شاید میرا جواب ٹھیک سے نہیں سنا تھا۔

    میں نے اب آواز کچھ اور اونچی رکھی اور ان کی خیریت پوچھی، پھر اپنی، اماں اور سب بہن کی خیریت بتائی۔ یہ بھی بتایا کہ وہ انھیں بہت یاد کرتی ہیں اور اکثر ان کا ذکر کرتی رہتی ہیں۔

    خالہ کی آنکھوں میں روشنی کی ایک لہر سی اتر آئی۔ بولیں، ’’ماں کو ساتھ ہی لے آتے۔ مل جاتیں مجھ سے۔‘‘

    ’’خالہ، میں تو اپنے دفتر کے کام سے بس دو دن کے لیے آیا تھا۔ اگلی بار ساتھ لے کر آؤں گا۔‘‘

    ’’اچھا ٹھیک ہے، پر جلدی آنا۔ اس دفعے بہت دنوں پیچھے آئے ہو۔‘‘

    ’’نہیں خالہ، اب جلدی آؤں گا۔ بس چند مہینے بعد ہی آپ کے پاس آتا ہوں اماں کو ساتھ لے کر۔‘‘

    ’’مزمل بھائی! خالہ کو لےکر آؤ تو یہیں رکنا آکر اماں کے پاس۔ یہ آپ کا ہی گھر ہے۔‘‘ ریاض بولا۔

    ’’ارے یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے، جیسے تیرا ہے، ایسے ہی اس کا بھی ہے۔ اور ہاجرہ یہاں آکر اور بھلا کہیں رک سکتی ہے۔ میرے ہی پاس رکے گی۔‘‘ خالہ نے پورے یقین سے کہا۔ پھر وہ مجھ سے میرے بیوی بچوں کا پوچھنے لگیں۔ اس اثنا میں ریاض کی بیگم چائے کی کشتی اٹھائے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں۔ ریاض نے لپک کر چھوٹی میز کھینچ کر میرے اور خالہ کے درمیان جمائی۔ چائے پیتے ہوئے مجھے اماں کی دی ہوئی امانت کا خیال آیا۔ میں نے جیب سے وہ پوٹلی نکال کر خالہ کو دی۔ انھوں نے کچھ بھی پوچھے یا کہے بغیر آرام سے لے کر اپنے تکیے کے نیچے رکھی اور بولیں، ’’کئی دن سے ہاجرہ خواب میں آ رہی ہے۔ اس کا بھی بتایا تھا کہ بھیج رہی ہے۔ میں نے کہا بھی کہ رہنے دو۔ تمھارے پاس ہے یا میرے پاس ہے، ایک ہی بات ہے۔ کہنے لگی، آپا، امانت ہے آپ کی۔ وقت کا بھروسا نہیں اب۔ اچھا ہے جیتے جی آپ کے پاس پہنچ جائے۔ میں نے کہا، خدا تمھیں بچوں پہ سلامت رکھے۔ وقت تو پہلے ہمارا ہے۔ ہنس کر بولی، آپا ضروری تھوڑی ہے کہ جانے کی ترتیب بھی وہی ہو جو آنے کی تھی۔‘‘ پھر وہ جیسے ایک دم تھک گئیں اور غافل سی ہو گئیں۔

    اس دوران میں ریاض اور میں باتیں کرتے رہے۔ اس کی چھوٹی بیٹی اور بیٹا ٹیوشن پڑھ کر واپس آ گئے تھے۔ انھوں نے آکر سلام کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ریاض کے گھر میں ماحول ویسا ہی تھا جیسا میں نے بچپن میں خالہ کے گھر میں دیکھا تھا۔ بچے سب بہت شائستہ تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑھاپے کی دہلیز پر آکر بھی ریاض خود اب تک ویسا ہی سادہ اور محبتی تھا۔ میں نے بڑے بھائی کا پوچھا۔ اس نے بتایا کہ انھوں نے شاہ رکنِ عالم کالونی میں اپنا مکان بنا لیا ہے اور کئی سال پہلے وہاں شفٹ ہو گئے ہیں۔ کہنے لگا، ’’اماں وہیں تھیں۔ چار دن پہلے ہی آئی ہیں اور جب سے آئی ہیں خالہ کا اور آپ لوگوں کا روز ذکر کررہی ہیں۔ بتاتی ہیں کہ خالہ روز خواب میں آتی ہیں۔‘‘

    میں ہنس دیا۔ بتایا کہ اماں بھی آج کل روز خالہ کو خواب میں دیکھ رہی ہیں۔

    خالہ کی غفلت دور ہوئی تو انھوں نے ریاض سے کہا کہ میرے لیے کھانے کا انتظام کرے۔ اس نے بتایا کہ وہ تو پہلے ہی سے ہورہا ہے۔ خالہ سے، ریاض اور ریاض کے بچوں سے باتیں کرتے ہوئے وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ یہ سب لوگ بھی اس طرح مجھ سے گھل مل گئے تھے جیسے میں روز کا آنے والا ہوں۔ وقت کا اندازہ اس وقت ہوا جب ریاض کے چھوٹے بیٹے نے آکر کہا، ہاتھ دھولیجیے، دسترخوان لگ رہا ہے۔

    کھانے کے بعد چائے پر پھر باتیں ہونے لگیں۔ جب میں نے گھڑی دیکھی تو پونے گیارہ بج رہے تھے۔ اجازت طلب کی۔ خالہ اور ریاض دونوں کہنے لگے، رات کو وہیں رک جاؤں۔ میں نے بتایا صبح ناشتے کے فوراً بعد ایک میٹنگ ہے اور اس کے بعد لنچ سے نمٹ کر مجھے بھاگم بھاگ ایئرپورٹ جانا ہے۔ اگلی بار امّاں کو ساتھ لانے اور انھی کے یہاں رکنے کا طے کر کے میں اٹھا۔ ریاض مجھے موٹر سائیکل پر بٹھا کر میرے ہوٹل چھوڑ گیا۔

    گھر آکر میں نے اماں کو ساری باتیں تفصیل سے بتائیں اور کہا، ’’آپ تو کوئی پہنچی ہوئی بزرگ، کوئی پیر جی بنتی جا رہی ہیں۔ آپ نے جیسا کہا تھا، سب کچھ بالکل ویسا ہی ہوا۔ خالہ مجھے اسی گھر میں ملیں اور گھر ڈھونڈنے میں مجھے ذرا مشکل نہیں ہوئی۔ بہت آسانی سے پہنچ گیا تھا۔ آپ کی ساری پیشین گوئیاں درست نکلیں۔ آپ تو اب پڑھ کر پھونکا کریں اور تعویذ بناکر دیا کریں۔‘‘

    اماں ہنس دیں۔ بولیں، ’’نیت صاف منزل آسان۔‘‘

    صبح کی نماز کے بعد اماں کو بیٹھ کر تسبیحات کرنے کی عادت تھی۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ کر اخبارات دیکھتا رہتا اور ہم دونوں ساتھ چائے پیتے۔ چار دن بعد انھوں نے اٹھ کر نماز پڑھی اور تسبیح لے کر چوکی پر بیٹھ گئیں۔ میں اخبار اٹھا کر پہنچا تو دیکھا کہ لیٹی ہیں اور تسبیح ہاتھ میں جھول رہی ہے۔ میں نے آواز دی، وہ کچھ نہ بولیں۔ پھر آواز دی، پر اماں ہوں تو جواب دیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے