Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اندھیرا اجالا

حیات اللہ انصاری

اندھیرا اجالا

حیات اللہ انصاری

MORE BYحیات اللہ انصاری

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک جیب کترے کی کہانی ہے، جو اپنے کام میں جتنا پرفیکٹ ہے خاندان کے معاملے میں اتنا ہی ناکام۔ اس کی بیٹی ایک دوسرے جیب کترے کے بیٹے کے ساتھ بھاگ جاتی ہے اور بیٹا بھی ایک دوسرے جیب کترے کے ساتھ ایک نازیبا حالت میں پولس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔

    اب جو سیٹھ جی نے اپنے ریشمی کرتے کے بائیں جانب سینے پر ہاتھ پھیرا تو سدھو کو یقین ہو گیا کہ میرا اندازہ غلط نہیں تھا۔ کرتے کے نیچے بنڈی کی جیب میں ہے کوئی بھاری رقم۔ تبھی تو سیٹھ جی بس اسٹینڈ کی لائن میں کھڑے کھڑے اس کو دو بار ٹٹول چکے ہیں۔ اس بار ٹٹولنے میں ریشمی کرتے پر دو شکنیں آ گئی تھیں۔ ان سے سدھو کی مشاق نظروں نے پرس کی موٹائی کا بھی اندازہ لگا لیا۔ اب وہ بے چین تھا اس رقم کو ہتھیانے کے لیے۔ لیکن کوئی ساتھی نظر نہیں آ رہا تھا اور ساتھی کے بغیر اتنا بڑا ہاتھ مارنا استاد کی ہدایت کے خلاف تھا۔

    اتنے میں ڈبل ڈیکر بس آ گئی اور مسافر سوار ہونے لگے۔ سیٹھ جی تیسرے نمبر پر تھے اور سدھو پانچویں نمبر۔ لیکن اوپر چڑھنے میں جو دھکم پیل ہوئی تو سدھو جھپٹ کر سیٹھ جی کے بالکل پیچھے آ گیا۔ اتنے میں کنڈکٹر کچھ لوگوں کو یہ کہہ کر روکنے لگا۔ لائن سے، لائن سے، لیکن دو مسافر تو چڑھ ہی گئے۔ ان میں سے ایک سوٹ پوش نے سنبھلنے میں سدھو کے کندھے کا سہارا لیا۔ سدھو نے ایک نظر اس پر ڈالی اور یہ دیکھ کر کہ موہن ہے، وہی نظر سیٹھ جی کی طرف موڑدی۔ ابھی بس چلی ہی تھی کہ موہن نے اپنی ناک کی نوک سے سیٹھ جی کی عینک اس طرح اچکا دی کہ وہ گر پڑی۔ وہ زور سے چلایا۔

    ’’ارے، ارے۔ ساری۔ ساری۔‘‘

    لوگ گری ہوئی عینک کو دیکھنے لگے۔ موہن چلانے کے ساتھ ہی سیٹھ جی کے ساتھ عینک اٹھانے کو جھک گیا۔ اس کا ہاتھ سیٹھ جی سے پہلے لگ گیا عینک میں۔ لیکن لوگوںکو ایسا لگا جیسے کہ یا تو بس کے ہلنے سے یا ہاتھ کے بے تکا لگنے سے عینک کھسک کر دوسری سیٹ کے نیچے چلی گئی۔

    اب تو سب مسافر جھک جھک کر عینک کو دیکھنے لگے۔ دو ایک بتانے لگے کہ ’’وہ ہے۔‘‘ وہ ’’ادھر ہے۔‘‘ سیٹھ جی جھکے تو ان کا ریشمی کرتا بھی جھک آیا۔ یہ موقع اور وقت بالکل ٹھیک تھا سدھو کے لیے۔ وہ بائیں ہاتھ سے بس کا ڈنڈا پکڑ ے اپنے کو سنبھال رہا تھا۔ اس نے داہنا ہاتھ سیٹھ کے کرتے کے نیچے ڈالا اور بات کی بات میں بھاری پرس نکال کر اپنی ران سے چپکا کر پینٹ کی جیب میں ڈال لیا۔ پھر اس نے ایسا کیا کہ بس کے ہلنے کی جھونک میں آ کر ایک قدم پیچھے چلا گیا۔ یہاں اگر اس نے پرس کو اس تھیلی میں پہنچا دیا جس کا منہ پینٹ کی جیب میں کھلتا تھا۔ پھر اس منہ کو زب سے بند کیا۔ اسی وقت دوسرے ہاتھ سے ایک ڈوری کھینچی جس سے تھیلی آکر داہنی ران کے اندر کی طرف چپک گئی۔

    ادھر سدھو کا کام ختم ہوا ادھر سیٹھ جی کی عینک ان کی ناک پر پہنچ گئی۔ اب سدھو کو اس اندیشے نے گھیر لیا کہ ابھی سیٹھ جی اپنی جیب کو ٹٹول کر شور مچائیں گے کہ ’’ہائے ہائے میں لٹ گیا‘‘ اور پھر مسافروں کی تلاشی شروع ہو جائےگی۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی چالاک آدمی میری ران کے اندر بھی ٹٹول لے۔ اب کیا کروں؟ اس وقت سدھو کو احساس ہوا کہ لالچ میں آ کر میں جلدی کر گیا۔

    سدھو نے بس کی رفتار دیکھی اور سڑک کے کنارے پر نظر ڈالی۔ پھر سوچنے لگا کہ اگر میں یہ کہتا ہوا کود جاؤں ’’ارے روکو، مجھے اس جگہ اترنا ہے۔‘‘ تو کیسا رہےگا۔ دو مرتبہ ایسا کر چکا ہوں۔ لیکن ایک تو بس کی رفتار تیز ہے اور دوسرے جگہ ایسی ہے کہ میں جلد ہی کسی طرف چھپ نہیں سکتا۔ اس لیے بہت ممکن ہے کہ ادھر میں کودوں اور ادھر سیٹھ جی اپنی جیب دیکھ کر چلائیں پھر تو سب مسافروں کو مجھی پر شک ہوگا اور بس رکواکر دوڑ پڑیں گے۔ابھی ایک ہی ہفتہ ہوا کہ ظالم مسافروں نے ایک جیب کترے کو اتنا مارا کہ بیچارا اسپتال پہنچتے پہنچتے مر گیا۔

    اب تو سدھو دل میں کہنے لگا کہ میں نے بڑی غلطی کی جو اونچ نیچ نہیں دیکھی۔

    گروجی روز کہتے ہیں کہ فرار کی راہ دیکھ لو پھر مال پر ہاتھ ڈالو۔ اب کیا ہوگا؟

    سیٹھ جی سنبھلے ہی تھے کہ مسافروں میں ایک کھدر دھاری نے اٹھ کر موہن کے گال پر یہ کہہ کر ایک تھپڑ مار دیا کہ ’’ابے سالے سوٹ والے اندھا بن کر بس پر چڑھتا ہے۔ ابھی ان سجن کی عینک ٹوٹ جاتی تو۔۔۔‘‘

    جواب میں موہن نے مسافر کے دو تھپڑ مارے اور گالیاں دےکر کہنے لگا،

    ’’تجھے کیا غرض۔ جس کی عینک گری تھی اس نے تو کچھ نہیں کہا۔‘‘

    اب تو دونوں مارپیٹ میں لگ گئے۔ سدھو تھپڑ مارنے والے کھدر دھاری کو پہچان گیا اور دل میں کہنے لگا، ’’ہے تو مجھے اس حرامزادے سے نفرت۔ لیکن اس وقت بہت کام آیا۔‘‘

    سیٹھ جی اور چند مسافر دونوں لڑنے والوں کو الگ کرنے لگے۔ کنڈکٹر زور سے چلایا۔

    ’’لڑائی بند کرو۔ ورنہ بس روک دوں گا۔‘‘

    اب تو سب مسافر چلانے لگے۔ ’’لڑائی بند کرو۔ لڑائی بند کرو۔‘‘ سیٹھ جی نے دونوں کو الگ کیا۔ مگر وہ الگ ہوئے ہی تھے کہ سیٹھ جی چلائے۔

    ’’ہائے میں لٹ گیا۔ کسی نے میری جیب کاٹ لی۔‘‘

    جس مسافر نے تھپڑ مارا تھا وہ آگے آ کر بولا،

    ’’پہلے میری تلاشی لے لو۔‘‘

    موہن کہنے لگا، ’’پہلے میری تلاشی لے لو۔‘‘

    بس اسٹاپ قریب تھا اور بس دھیمی ہونے لگی۔ اسٹاپ کے پاس مسافروں کی بھیڑ اکٹھا تھی۔ سدھو اچانک مسافروں کی طرف منہ کر کے چلانے لگا،

    ’’ارے بیٹے، ارے بیٹے، تو اب تک کہاں تھا؟‘‘

    اور یہ کہہ کر دھیمی ہوتی ہوئی بس سے کود کر مسافروں کی جھنڈ میں گھس گیا اور پھر اس کے اندر سے نکل کر سڑک کے ایک موڑ کی طرف آہستہ آہستہ چلنے لگا اور دو منٹ میں وہ بس والوں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس وقت سدھو کے دماغ میں اپنا کارنامہ گونج رہا تھا۔ اس نے اپنی پانچوں انگلیوں کو اس کام میں کتنی پھرتی اور ہوشیاری سے استعمال کیا تھا۔ گروجی اپنے چیلوں سے کہا ہی کرتے ہیں کہ یہ کبھی نہ بھولنا کہ جب بھی تم دھیان سے کام کروگے تو تمہاری دسوں انگلیان دس ہاتھ ثابت ہوں گی۔ گرو اپنے چیلوں سے ایسی مشقیں بھی کرایا کرتے تھے کہ کبھی دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے اور دوسری تیسری انگلیاں باندھ دیں اور ایک لڑکی کو جس کے سر میں جوئیں تھیں بٹھا کر کہا کہ اس کے جوئیں نکالو۔ جانے اس طرح کتنی مشقیں وہ کراتے رہتے ہیں۔

    سامنے پیشاب خانہ تھا۔ سدھو وہاں چلا گیا اور پینٹ سے پرس نکالا۔ گننے کا موقع تو تھا نہیں۔ ہاں یہ اندازہ ہو گیا کہ ہزاروں کی رقم ہے۔ اس نے فوراً اپنے جیب سے سو، دس اور پانچ کے نوٹ جو اس کے پاس اس غرض سے موجود رہتے تھے، نکال کر سیٹھ جی کے نوٹوں کے بیچ میں لگا دیے اور پھر وہ سب نوٹ اپنے پرس میں رکھ لیے۔ اب اگر تلاشی ہوئی تو سیٹھ کی بتائی ہوئی رقم سے سدھو کی رقم زیادہ نکلےگی۔ سیٹھ جی کا پرس نالی میں ڈال کر اس نے ٹھوکر سے اندر کر دیا۔ اب سدھو بے خوف ہو کر کہ میں پولیس کی زد سے بالکل باہر ہوں پیشاب خانے سے باہر آ گیا۔

    سدھو کو اس کارنامے کا بدمزہ حصہ اب یاد آیا۔ وہ تھا کھدر دھاری چندر کا اس کی مدد کو آ جانا۔ سدھو کا دل بولا مجھے یقین ہے کہ جو لڑکا میری سیتا کو اغوا کر لے گیا ہے وہ چندر کا بیٹا رام بھروسے ہی تھا۔ گواہوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سیتا سے، جب وہ اسکول جاتی تھی تو ملتا رہتا تھا۔ اس کے سوا اور کسی لڑکے سے ملنے جلنے کی بات سننے میں نہیں آئی اور جہاں تک خبر ملی ہے رام بھروسے بھی تبھی سے غائب ہے۔

    سدھو نے سوچا کہ شام ہو رہی ہے۔ گروجی سے ساڑھے نو بجے سے پہلے تو ملنا ہو نہیں سکتا ہے۔ اس لیے کیوں نہ ایک بوتل لے کر منی بائی کے یہاں چلیں اور تین گھنٹے مزے کریں۔ یہ سوچ کر وہ شراب کی دوکان کی طرف بڑھا تھا کہ بہادر مل گیا۔ وہ تھا تو کنور جی کے گروہ کا لیکن سدھو سے بہت اچھی طرح ملتا تھا۔ بہادر سدھو سے ہاتھ ملا کر کہنے لگا،

    ’’کسی طرف جا رہے یا خالی ہو؟‘‘

    ’’یہ وقت کیا خالی ہونے کا ہے؟‘‘

    ’’وقت تو نہیں ہے لیکن ذرا دل بہلانے کو جی چاہ رہا ہے۔ چلو چاند بائی کے یہاں چل کر بیٹھیں۔

    سدھو نے دل میں کہا، یہ پروگرام بھی برا نہیں رہےگا۔

    بولا، ’’چلو‘‘

    راستے میں بہادر نے کہا،

    ’’کیا تمہارے گروہ میں کچھ نئے لوگ آ گئے ہیں؟‘‘

    بہادر کی آواز میں کچھ ایسی کھٹک تھی کہ سدھو نے چونک کر پوچھا۔

    ’’کیا بات ہے۔‘‘

    ہفتہ دس دن ہوئے، میں اسٹیشن پر ایک گھات میں لگا ہوا تھا کہ گیٹ کے آگے پیچھے کسی نے میری جیب سے نیلا پار کر اڑا دیا۔ تب سے میں سوچ رہا ہوں کہ یہ کون ہو سکتا ہے۔‘‘

    ’’میرے گروہ میں تو کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے والوں میں سے کسی کی جیب کاٹے اور پھر تم کو تو سب ہی پہچانتے ہیں۔ میں جانوں کالج کا کوئی چھوکرا ہوگا۔ وہ بھی ایسے کام کر ڈالتے ہیں۔‘‘

    ’’نہیں یار! میں ایسے رخ سے تھا کہ کوئی مشاق ہی قلم اڑا سکتا تھا۔‘‘

    ’’جانے بھی دو ایک پارکر کی کیا بات ہے۔‘‘

    ’’بات تو کچھ بھی نہیں۔ لیکن میرے ایسے کی جیب کٹ جائے۔ یہ چیز مجھے بہت کھل رہی ہے۔ اب چلوپی کر غم غلط کریں۔ تمہارا کام کچھ بن گیا یا نہیں؟‘‘

    ’’کچھ بن تو گیا ہے۔ چلو۔‘‘

    جب صحبت جم گئی تو ہنسی ہنسی میں سدھو نے بہادر سے پوچھا۔

    ’’یار یہ تو بتاؤ یہ چندر کیسا آدمی ہے۔‘‘

    ’’اس کو پوچھتے ہو۔ ایسا آدمی نہ تو تمہارے گروہ میں نکلےگا اور نہ ہمارے گروہ میں۔ اس نے آج تک خود ایک کام بھی نہیں کیا۔ لیکن آڑے وقت پر اس طرح ہم لوگوں کے کام آ جاتا ہے کہ اس کا احسان ماننا ہی پڑتا ہے اور خوشی خوشی ہم اس کو حصہ دے دیتے ہیں۔‘‘

    سدھو نے چونک کر پوچھا۔ ’’کس طرح مدد کرتا ہے وہ۔۔۔؟‘‘

    بہادر نے قہقہہ مار کر کہا، ’’چار روز کی بات ہے کہ پرتاپ نے کچھ ایسا بھونڈا کام کیا کہ لوگ اس کو پکڑنے دوڑ پڑے اور وہ بھاگا۔ اس وقت چندر جانے کسی طرف سے نکل کر ایسا بے تحاشا بھاگنے لگا کہ لوگوں نے پرتاپ کا پیچھا کرنا تو چھوڑ دیا اور اس کو پکڑ لیا۔ وہ چلانے لگا،

    ’’ارے میری بیوی درد سے تڑپ رہی ہے مجھ کو ڈاکٹر کے پاس جانے دو۔‘‘

    لوگ اس کو تھانے لے گئے وہاں پوچھ گچھ کی گئی تو چندر نے ڈاکٹر کا نسخہ دکھایا جس پر فوری لکھا تھا اور کہا کہ میں بیوی کی دوا لینے بھاگا جا رہا تھا۔ تھانے والوں نے تلاشی لی تو اس کے پاس بیس روپیہ سے بھی کم رقم نکلی اور جس شخص کی جیب کٹی تھی وہ پانچ سو روپئے سے اوپر کی رقم بتا رہا تھا۔ تب تو پکڑنے والوں نے چندر سے معافی مانگی اور تھانے والوں نے اسے چھوڑ دیا۔ استاد کنور کو جب حال معلوم ہوا تو انھوں نے پرتاپ کی کمائی میں سے چندر کو تہائی رقم دلوادی اور کہا کہ اگر یہ مدد نہ کرتا تو تم آج جیل میں ہوتے۔ اس طرح کی جانے کتنی حرکتیں کر چکا ہے۔‘‘

    چاند چلبلی سی لڑکی تھی۔ دونوں اس سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہے لطف اٹھاتے رہے۔ سدھو پیشاب خانے چلا گیا اور وہاں اپنی رقم دیکھی تو وہ پورے ساڑھے سات ہزار سے کچھ اوپر نکلی۔ اتنی رقم بہت دنون کے بعد ملی تھی۔ اس کاد ل خوش ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اس میں سے ماں کو کیا بھیجوں۔ اپنی ماں اور بہنوں کے اخراجات کا حساب اس کی سمجھ میں بالکل ہی نہیں آتا تھا۔ جب باپ مرے تھے تو گھر کی کل آمدنی تھی صرف ڈھائی سو روپئے ماہوار اور کسی نہ کسی طرح کام چل جاتا تھا اور اب وہ ہزار روپیہ ماہوار بھیجتا ہے لیکن پھر بھی برابر خط آتے رہتے ہیں کہ فلاں کی شادی کرنا ہے فلاں بہت بیمار ہے، فلاں حادثے کا شکار ہو گیا ہے، فلاں کے بچہ ہوا ہے اور فلاں کے بچہ ہونے والا ہے۔ سدھو کو تو ایسا نظر آتا تھا کہ اگر میں اپنی ساری آمدنی بھی بھیج دیا کروں تو بھی وہاں کچھ بھلانہ ہوگا۔

    (۲)

    گروجی چار سال سے اپنا کام چھوڑ کر شنکر کے بھگت بن چکے تھے۔ مگر اتنا ضرور کرتے تھے کہ بےکار مگر ہوشیار نوجوانوں کو کام سکھا کر روزگار سے لگا دیتے تھے۔ شام کو نو بجے رات تک پوجا پاٹھ کرتے تھے اور پھر شاگردوں سے ملتے تھے۔ لیکن شاگردوں کے دن بندھے ہوئے تھے۔ اس لیے دو تین سے زائد شاگرد ایک دن میں اکٹھے نہیں ہوتے تھے۔ آج سدھو اور موہن کا دن تھا۔ دونوں مندر کے لان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ گروجی آ گئے۔ پہلے انھوں نے واردات سنی پھر کہنے لگے۔

    ’’جب بس اسٹاپ اتنی دور تھا تو کام کیوں کیا؟ کام کرنے سے پہلے سب ہی طرح کی باتیں دیکھنا ہوتی ہیں۔ ایسی ہی غلطیوں سے لوگ پکڑے جاتے ہیں۔ سدھو تجھ کو تو میں بہت ہوشیار سمجھتا تھا اور تونے ایسا کیا۔‘‘

    ’’گروجی غلطی تو ضرور ہوئی۔ مگر اس وقت میں نے سوچا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سونے کی چڑیا اگلے ہی بس اسٹاپ پر اتر جائے۔‘‘

    ’’اتر جاتا تو اتر جاتا۔ ایسے ایسے دسوں مل سکتے ہیں۔ میں برابر کہتا رہتا ہوں کہ پہلے اپنی خیر منایا کرو پرےکارنامے کی سوچا کرو۔‘‘

    سدھو نے وہ بات کہی جو اس کے دماغ پر گھنٹوں سے مسلط تھی۔

    ’’گروجی چندر ہمارے علاقے میں کیوں آیا؟‘‘

    ’’ہو سکتا ہے کہ وہ کہیں کسی کام سے جا رہا ہو اور تم کو پھنستا ہوا دیکھ کر مدد پر آ گیا ہو۔ اب تو ان لوگوں کا احسان ماننا ہی پڑےگا اور ہاں حصہ بھی دینا ہوگا۔‘‘

    ’’گروجی اس کا احسان ماننا اور حصہ دینا یہ تو مجھ سے نہ ہوگا۔ اس نے آج مجھ کو بچا لیا۔ لیکن میرا گھر بھی تو اسی کے بیٹے نے اجاڑا ہے۔ بس چلے تو میں اس آدمی کو پھنسوا دوں۔ سالا چندر۔۔۔‘‘ (گالیاں)

    ’’تجھے کتنی بار سمجھا چکا ہوں کہ آج کل کے پریم میں نہ صرف لڑکے کا قصور ہوتا ہے اور نہ صرف لڑکی کا۔اب تو جو بھی کرتے ہیں دونوں مل کر کرتے ہیں۔‘‘

    پھر گروجی کہنے لگے۔

    ’’سنو سدھو! میں کنور سے بات کر چکا ہوں۔ وہ کہنے لگا گروجی میں تو اپنے شاگردوں کو روز سمجھاتا ہوں کہ ادھر تم پریم کے چکر میں پڑے اور ادھر تمہارا فن بگڑا۔ کیوں کہ ہم لوگوں کی آمدنی اگر کسی دن دو تین ہزار ہو جاتی ہے تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہفتوں بلکہ مہینوں تک پیسہ بھی نہ ملے۔ اس لیے ہم لوگوں کی بیویوں کو سگھڑ ہو نا چاہیئے۔ جو پریم سے نہیں، گھروں گھروں ڈھونڈنے اور پوچھ گچھ کرنے سے ملتی ہے۔ بیوی ایسی نہ ہوگی تو پیسے کے لیے بدحواس رہوگے اور جہاں بدحواسی سے کام کیا پھر یا تو عقل بہک جائےگی یا ہاتھ۔‘‘

    پھر کنور کہنے لگا، ’’گروجی جب چندر اپنے لونڈے کو لے کر میرے پاس آیا تو میں نے دو روز اس کی جانچ پڑتال کی اور پھر چندر سے کہاکہ یہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کو یہ فن شریف سکھایا جائے۔ چندر سالے نے بہت واویلا مچایا اور خوشامد کی۔ لین میں نہیں مانا۔‘‘

    گروجی بولتے گئے۔

    ’’اور ہاں سدھو، مجھے یقین نہیں ہے کہ سیتا ، چندر کے لونڈے کے ساتھ بھاگی کیوں کہ وہ لونڈا نرا جاہل ہے۔ بدصورت ہے اور دیکھنے ہی میں بدمعاش لگتا ہے۔ تیری سیتا سندر ہے اور اسکول مین پڑھتی تھی۔‘‘

    ’’گروجی، میں نے خوب پوچھ گچھ کر لی ہے۔ ہوا یہ کہ پہلے کسی نے دروازے پر صدا لگائی، آئس کریم، آئس کریم، سیتا اس کو خریدنے نکلی۔ ذرا ہی دیر میں اسکوٹر چلنے کی آواز آئی۔ میری پتنی کھٹک گئی کہ اسکوٹر کے آنے کی آواز نہیں آئی تھی۔ پھر یہ کہاں سے آ گیا۔ اس نے باہر جا کر دیکھا تو سیتا اسکوٹر کے پیچھے بیٹھی ہوئی جا رہی تھی۔ میں نے ان لوگوں سے جو موقع پر موجود تھے۔ پوچھا تو سب نے کہا کہ لڑکی جانے پر تیار نہیں تھی لیکن اسکوٹر والے لڑکے نے بہت اصرار سے بلکہ زبردستی ہاتھ پکڑ کر اسکوٹر پر بٹھا لیا اور چل دیا۔‘‘

    ’’اسکوٹر پر زبردستی بٹھانے کی بات سمجھ میں نہیں آتی اور یہ بات بھی کہ آئس کریم۔۔۔آئس کریم سنتے ہی وہ دوڑی چلی گئی۔ ضرور پہلے سے کچھ کہی بدی ہوگی۔‘‘

    ’’گروجی ! میرے بچے، کیا بتاؤں، کہتے برا معلوم ہوتا ہے، بے حد چٹورے ہیں۔ اس وجہ سے گھر میں شکر گھی وغیرہ جتنا بھی لاؤ سب اڑا جاتا ہے۔‘‘

    پھر ذرا سوچ کر سدھو بولا،

    ’’ایک بات اور بھی ہے جو مجھے کھٹک رہی ہے، وہ یہ کہ جانے سے دو دن پہلے سیتا نے مجھ سے اکیلے میں پوچھا تھا کہ پتاجی آپ کے پاس پیسہ کیوں کر آتا ہے؟ اور یہ بات وہ کسی طرح بھی نہیں مانی کہ میں انگوٹھیاں بیچتا ہوں۔ تبھی میں کھٹک گیا تھا کہ کسی نے اسے سکھا پڑھا دیا ہے۔ اب تو یقین ہے کہ چندر کے لونڈے نے یہ کہہ کر بھڑکا دیا ہوگا کہ جو فن تمہارے پتا کے پاس کے وہی میرے پاس بھی ہے۔ چلو میرے سنگ۔‘‘

    موہن کہنے لگا،

    ’’میں جانوں کہ چندر اس معاملے میں بے قصور ہے۔ اس نے آج مجھ سے جو باتیں کیں اس سے تو ایسا ہی پتہ چلتا ہے۔‘‘

    ’’کیا باتیں کیں؟‘‘ گروجی نے پوچھا۔

    موہن بولا،

    ’’چندر اگلے اسٹاپ پر میری طرف دیکھ کر اتر گیا۔ میں اس کے بعد والے اسٹاپ پر جا کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ ذرا دیر میں وہ آ گیا اور آتے ہی سدھو کی تعریف کرنے لگا کہ کیا جیب کاٹی ہے۔ کرتے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور اسی وقت سیدھا ہو گیا۔ واہ۔۔۔ واہ میں نے سدھو کے کام کی تعریف تو سنی تھی مگر آج خود دیکھ لیا۔ کمال ہے۔‘‘ یہ کہہ کر چندر کہنے لگا۔

    ’’سدھو نے جو پرس نکالا تھا وہ کافی موٹا تھا۔ لیکن جب وہ کود کر گیا ہے تو اس کی پینٹ اور شرٹ کی جیبیں خالی لگ رہی تھیں۔ اس کے پیچھے بھی کوئی شخص نہیں تھا جو کہا جائے کہ پرس کو اس کو دے دیا تھا۔ پھر اس نے اپنے بدن میں پرس کہاں اور کیوں کر چھپایا۔ یہ بتادو تو زندگی بھر احسان مانوں گا۔‘‘

    یہ سن کر میں ہنسنے لگا اور بولا، ’’ارے کرتب کی پوچھتا ہے تو گروجی سے جاکر پوچھ انھوں نے جانے ہم کو کیا کیا سکھا دیا ہے اور ابھی جانے کیا کیا سکھانے والے ہیں۔‘‘

    ’’ہم نے سنا ہے کہ تمہارے گروجی ہر ایک کو شاگرد نہیں بناتے ہیں اور اپنے ہر شاگرد کو بھی سب باتیں نہیں بتاتے ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے؟‘‘

    میں نے کہا، ’’ہاں صحیح ہے۔‘‘

    پھر اس نے پوچھا۔

    ’’میں نے یہ بھی سنا ہے کہ گروجی کا حکم ہے کہ تم لوگ اپنے بیوی بچوں وغیرہ میں سے کسی کو بھی نہ بتاؤ کہ تم کیا کاروبار کرتے ہو۔ کیا یہ صحیح ہے؟‘‘

    ’’ہاں گروجی کا ایسا ہی حکم ہے۔‘‘

    ’’پھر تمہارے لڑکوں کو یہ فن کیوں کر آئےگا؟ اور اگر نہیں آئےگا تو، وہ کمائیں گے کیوں کر؟‘‘

    ’’گروجی جس لڑکے کو پسند کرتے ہیں اس کو اپنے طور پر یہ فن سکھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سکھاؤ ایسے شخص کو جو فن کو ڈھنگ سے برت سکے۔ اگر بےڈھنگے کو سکھاؤ گے تو وہ بھی ڈوبےگا اور تم کو بھی لے ڈوبےگا۔‘‘

    چندر ٹھنڈی سانس بھر کر کہنے لگا،

    ’’ٹھیک کہتے ہیں گروجی۔ میں نے اپنے بیٹے کو سکھایا تو وہ بلا مشق کے کام کرنے لگا اور ایک دوبار جو کامیابی ہوئی تو ایسا اترایا کہ اپنے کو استا دسمجھنے لگا۔‘‘

    گروجی یہ سن کر ہنسنے لگے اور کہنے لگے۔

    ’’سکھانے سے پہلے میں صورت بھی دیکھتا ہوں کہ وہ دیکھنے میں شریف معلوم ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ اگر کہیں شور مچ گیا کہ جیب کٹ گئی، جیب کٹ گئی، تو پہلے اس آدمی کو پکڑا جاتا ہے جس کی صورت گھٹیا آدمیوں کی سی ہوتی ہے۔ صورت کے بعد میں دیکھتا ہوں کہ شاگرد نازک وقت میں حواس قائم رکھ سکتا ہے کہ نہیں۔ یہ بھی دیکھتا ہوں کہ ٹھاٹ باٹ کا شوقین تو نہیں ہے۔ جیب کترے کو چاہے جتنی دولت مل جائے لیکن اس کو رہنا چاہیے سیدھی سادی طرح۔ ورنہ لوگ سوچنے لگیں گے کہ اس کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہے۔ اسی طرح کی میں درجنوں باتیں دیکھ لیتا ہوں۔ تب شاگرد بناتا ہوں۔‘‘

    ’’بیٹا، وکیل بننا، کلرک بننا یا ٹیچر بننا آسان ہے، لیکن جیب کترا بننے کے لیے بڑا دل اور بڑا دماغ چاہیے۔ تم تو جانتے ہو کہ میں نے کبھی کسی لڑکی کو شاگرد نہیں بنایا۔ حالاں کہ جوان لڑکیاں عام طور سے شریف معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن وہ جلد باز اور بے صبری ہوتی ہیں اور جہاں کوئی ان کی باتیں غور سے سننے اور صورت تکنے لگا بس سمجھ لیتی ہیں کہ اس کو مار لیا۔ کلکتہ کے استاد لڑکیوں کو جیب کترا بناتے ہیں۔ لیکن وہ پکڑ لی جاتی ہیں اور ایسی پکڑ لی جاتی ہیں کہ سزا سے نہیں بچتیں۔‘‘

    پھر گروجی نے پوچھا۔ ’’چندر نے اور بھی کچھ کہا‘‘ موہن نے ابھی جواب نہیں دیا تھا کہ سدھو پوچھ بیٹھا۔

    ’’اس ماں کے۔۔۔ نے اپنے بیٹے رام بھروسے کو کچھ فن ون بھی سکھا دیا تھا کہ نہیں؟‘‘

    موہن ہنسا اور بولا، ’’ابھی اس کو صرف اوپر کی جیب سے قلم نکالنا ہی سکھایا تھا۔ مگر قلم نکالتے ایک بار پرس بھی نکالنا چاہا تو فوری پکڑ لیا گیا۔ خیریت یہ ہوئی کہ مارپیٹ کر چھوڑ دیا گیا۔ چندر کہتا تھا کہ جب وہ پکڑا کیا گیا تو میں نے اس کو سمجھا دیا کہ پرس نکالنے سے پہلے کوٹ ہو یا شرٹ ہو اس کے جھول اور بدن کے کساؤ کی پہچان ضروری ہے اور یہ کام بھی بہت مشق سے آتا ہے۔‘‘

    پھر چندر کہنے لگا، ’’وہ نکما ایسی باتوں کی طرف دھیان نہیں دیتا تھا۔ دیکھنا چاہیے کیا حشر ہوتا ہے اس کا۔‘‘

    آخری فقرہ سن کر سدھو پریشان ہو گیا اور بولا،

    ’’سب کچھ بھگوان کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

    پھر گروجی نے پوچھا۔

    ’’یہ تو بتاؤ سدھو سیٹھ جی کے پرس سے کتنی رقم نکلی۔‘‘

    ’’ساڑھے سات ہزار۔‘‘

    ’’بہت اچھی رقم۔ مبارک ہو۔‘‘ گروجی نے کہا ’’اور یہ بھی سن لو کہ ابھی تک کسی نے پولیس میں اتنی رقم نکل جانے کی رپورٹ نہیں لکھائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ رقم نمبر دو والی ہے۔‘‘

    سدھو بولا، ’’تو پھر پولیس کو علم نہیں ہوگا۔ اس لیے اس کو حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔‘‘

    ’’ہاں ہم چاہیں تو نہ دیں۔ لیکن پولیس سے معاملے کو صاف رکھنا ضروری ہے۔ ہم کم دیں مگر دیں ضرور، وہ ایسی رقم کا احسان ضرور مانیں گے۔‘‘

    موہن نے پوچھا۔

    ’’کیا کنور جی والوں کو بھی حصہ ملےگا؟‘‘

    ’’چندر کو حصے کے ساتھ انعام بھی ملنا چاہیے۔ میرے خیال میں پانچ سو دیے جائیں۔ پھر وہ لوگ جگہ جگہ ہمارے کام آئیں گے۔ بھئی مل کر چلنا اچھا کام ہوتا ہے۔‘‘

    سدھو بگڑ کر بولا،

    ’’انعام دینا ہے تو کنور جی کودو، وہ جسے چاہیں گے دے دیں گے۔‘‘

    ’’چلو یو ں ہی سہی۔‘‘

    (۳)

    سدھو اپنے فن کا ماہر تھا۔ کام ایسا پلک جھپکتے میں انجام دیتا تھا کہ اپنے تو اپنے دوسری پارٹی کے لوگ بھی اس کی پھرتی پر حیران رہ جاتے تھے۔ حد یہ ہے کہ آج چندر تک جو فن کا بڑا ماہر تھا تعریف کر بیٹھا۔ لیکن اپنا کام ختم کرنے اور محفوظ جگہ پہنچ جانے کے درمیان جو چند منٹ کا خطرناک وقفہ گزرتا تھا، اس میں سدھو کو ایسا لگتا تھا کہ کہیں میرا ہارٹ فیل نہ ہو جائے۔ پھر جیسے ہی وہ وقفہ گزر جاتا تو اس پر ایک سرشاری سی چھا جاتی تھی۔ پھر اس کا جی چاہتا تھا کہ اپنا کارنامہ سنا سنا کر خوشی مناؤں۔ مگر اس وقت وہ عام طور سے تنہا ہوتا تھا اور ایسا نہ بھی ہوتا تو بھی کارنامے کی باتیں وہ کس کو سناتا۔ پارٹی والے تو صرف یہ سن کر کہ رقم کتنی ملی ہے دوسری باتیں کرنے لگتے اور پارٹی سے باہر کے لوگوں سے فن کی باتیں کرنے کی زبردست ممانعت تھی۔ رنڈیوں سے، جن کے پاس سدھو کبھی کبھی چلا جاتا تھا۔ جسمانی سکون تو مل جاتا تھا۔ لیکن ایسی گفتگو نہیں ہو سکتی تھی۔ جس سے دل کو راحت ملے۔ رہا گھر سو آج کل تو سدھو کو گھر سے الجھن ہوتی تھی۔ کیوں کہ وہاں صرف وہی باتیں ملتی تھیں جن سے اس کو چڑ تھی۔

    بس اگر دل کو کوئی چیز بہلا دیتی تھی تو وہ تھی شراب۔ اس نے کئی جگہیں بنا رکھی تھیں پینے کے لیے۔ ایک جگہ ٹھرا چلتا تھا، دوسری جگہ وہسکی اور تیسری جگہ وہسکی کے ساتھ خوبصورت ساقی بھی مل جاتی تھی۔ آج آمدنی ایسی ہوئی تھی۔ ساتھیوں کا حصہ، پولیس کا حق اور مشترکہ فنڈ اور استاد کے نذرانے کے بعد بھی اس کے حصے میں پانچ ہزار آئے تھے۔ نوٹ بھی استعمال شدہ تھے۔ اس لیے ان کو کٹوتی دے کر بدلوانے کی ضرورت نہ تھی۔ اتنی رقم ہونے پر بھی سدھو ساقی والے میخانے کی طرف نہیں گیا۔ بات یہ تھی کہ چندر کی صورت بار بار سامنے آ رہی تھیں جس سے دل میں عجب الٹ پلٹ ہو رہی تھی۔ ایک طرف تو چندر کا برے وقت میں کام آ جانا اور دوسری طرف یہ یاد کہ میری سیتا کو جو تمام بچوں میں مجھے پیاری تھی، اس کا بدمعاش بیٹا اغوا کر کے لے گیا ہے۔ ایسی کیفیت میں سدھو دارو گھر میں گھس گیا اور وہاں ایک گھنٹے میں ایک بوتل ٹھرا پی گیا۔ جب نشے سے جھومنے لگا تو گھر کی طرف چلا۔ راستے میں مٹھائی کی دوکان پڑی۔ اس نے کہا کہ آج بہت سی مٹھائی لے لو۔ اس کو دیکھ کر بیوی اور بچے خوشی کی چیخیں ماریں گے تو ذرا دل بہل جائےگا۔

    راستے میں سمبھو کی پرچون کی دوکان تھی جو بند تھی۔ سدھو نے آہستہ آہستہ کھٹ کھٹ کی تو شمبھو جو کہ اندر سو رہا تھا۔ اٹھ بیٹھا اور بولا کون۔ سدھو نے نیچی آواز میں کہا،

    ’’انگوٹھی‘‘

    شمبھو نے دوکان کا ایک گوشہ کھول کر انگوٹھیوں کا بکس سدھو کو دے دیا۔ اب سدھو نے کہا،

    ’’کچھ حساب بھی ہے۔‘‘

    ’’اندر آجاؤ‘‘

    اندر جا کر سدھو نے اپنی پانچ ہزار کی رقم میں سے ساڑھے چار ہزار شمبھو کے پاس رکھوا دیے دوکان والے نے پوچھا۔

    ’’کوئی نوٹ بدلنے والا تو نہیں؟‘‘

    ’’نہیں‘‘

    پھر ہنس کر سدھو بولا،

    ’’ایسی رقم سے آج تم محروم رہ گئے۔‘‘

    انگوٹھیوں کا صندوقچہ لے کر سدھو دوکان کے باہر آ گیا۔ وہ ہر شخص سے یہی کہتا تھا کہ میں انگوٹھیوں کا کاروبار کرتا ہوں۔ لیکن اسے یقین تھا کہ لوگوں کو اس بات کا یقین نہیں ہے۔ یہاں تک کہ خود اس کی بیوی اور بچوں کو بھی یقین نہیں ہے۔ بیوی تو کبھی کبھی رات کو پوچھ لیا کرتی تھی۔

    ’’سچ سچ بتاؤ کہ تم کیا کاروبار کرتے ہو۔ کہیں کو کین تو نہیں بیچتے ہو؟ لوگ یہی کہتے ہیں۔‘‘ جواب میں وہ کہتا تھا کہ۔ ’’ایسا شک کیوں دل میں لاتی ہو؟ کیا انگوٹھیوں سے اچھی آمدنی نہیں ہو سکتی ہے؟‘‘

    گھر میں بھاری فرنیچر تو کافی تھا۔ مسہریاں، تخت، میز اور کرسیاں لیکن چادریں اور میز پوش نظر نہیں آتے تھے۔ بیوی نے سدھو کو دیکھتے ہی آواز لگائی۔ ’’بچو پتاجی آ گئے۔‘‘

    دو بڑی لڑکیاں اور دو چھوٹے لڑکے بستروں کو چھوڑ کر آ گئے اور سدھو کے پاس مٹھائی دیکھتے ہوئے شور مچاتے اس پر ٹوٹ پڑے۔

    ’’لڈو، لڈو۔‘‘

    ’’میں تو برفی لوں گا۔‘‘

    ’’رس گلہ، رس گلہ۔ واہ واہ۔‘‘

    سب چیخ رہے تھے۔ چھین جھپٹ رہے تھے۔ قہقہے لگا رہے تھے۔ سدھو تماشہ دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔ بیوی بھی کھاتی رہی ۔ لیکن بلا شور کیے۔ پھر سدھو نے پوچھا۔

    ’’شنکر کہاں ہے۔‘‘

    ’’اس حرامی کو سنیما کی ایسی لت پڑ گئی ہے کہ روز دیکھتا ہے، روز دیکھتا ہے، وہیں گیا ہوگا۔‘‘

    ’’روز سینما دیکھتا ہے؟ پیسہ کہاں سے لاتا ہے؟‘‘

    ’’کیا معلوم، یہ نہیں دیکھتے کہ گھر میں کوئی چیز نہیں ٹکتی۔ پلنگ کی دو چادریں تھیں پرسوں تک، وہ بھی غائب ہو گئیں۔‘‘

    سدھو بگڑ کر بولا، ’’ابھی تک کھانے پینے کا سامان اڑ جاتا تھا۔ اب چادروں کی بھی نوبت آ گئی۔ تم روکتی نہیں ہو۔‘‘

    ’’لڑکا جوان ہونے کو آ رہا ہے۔ بھلا میری وہ ماننے لگا۔ تم بچوں کی خبر لو ورنہ سب سیتا کی طرح بگڑ جائیں گے۔‘‘

    ’’خبر لو۔۔۔ خبرلو! جیسے میں نے کوئی کسر چھوڑی ہے ان کی خبر گیری کرنے میں۔ روز سمجھتا ہوں۔ بری حرکتوں پر خوب پیٹتا بھی ہوں۔ مہنگے اسکولوں میں پڑھاتا ہوں، فیشن کے کپڑے پہناتا ہوں تاکہ اچھے لڑکوں اور لڑکیوں سے میرے لڑکے اور لڑکیوں سے دوستی ہو۔‘‘

    کچھ یاد کر کے کہنے لگا، ’’سیتا کے پاس جب ایک لڑکے کا خط میں نے پکڑ لیا تھا تو سیتا کو کتنا مارا تھا۔ اپنے بچوں کے لیے میں نے کیا نہیں کیا۔‘‘

    ’’بچے پوچھتے ہیں کہ پتا جی کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ جب کہوں کہ انگوٹھیاں بیچتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ محلے والے کہتے ہیں کہ ان کو انگوٹھی بیچتے کسی نے آج تک نہیں دیکھا۔‘‘

    سدھو غصے سے بولا،

    ’’تم یہ کیوں نہیں کہتی کہ محلے والے ہم لوگوں سے جلتے ہیں۔‘‘

    ’’میں سب کچھ کہتی رہتی ہوں۔ لیکن سنتا کون ہے۔ ارے محلے والے تو مجھ سے بھی یہی بات پوچھتے ہیں۔‘‘

    سدھو بولا، ’’اس سال ابھی تک میں نے کیرتن نہیں کیا ہے۔ وہ کر لوں تو محلے والوں کا دل صاف ہو جائےگا۔‘‘

    یہ کہہ کر سدھو کا موڈ ذرا سنبھل گیا۔ بیوی بولی۔

    ’’تم نے تو ستیا کے اغوا کی رپورٹ تک پولیس میں نہیں لکھوائی۔ پھر کہتے ہو کہ بچوں کی خبر لیتا ہوں۔‘‘

    پولیس کا نام سن کر سدھو پھر بھڑک اٹھا۔

    ’’پولیس۔۔۔ پولیس، تم سے کتنی بار کہا ہے کہ اس کا نام میرے سامنے نہ لیاکرو۔ رپورٹ لکھواؤں گا تو الٹا مجھے ہی پھانس لے گی اور جب تک تمہارے سب زیور ہضم نہ کر لےگی تب تک وہ جان نہیں چھوڑےگی۔ پولیس۔۔۔ پولیس۔‘‘

    سدھو ناگوار بحث کو ٹالنے کے لیے کہنے لگا،

    ’’چلو، چائے بناؤ۔‘‘

    ’’کیا باتیں کرتے ہو، تم تو جانتے ہی ہو کہ گھر میں جتنی بھی شکر یا دودھ ہو سب کا سب ایک ہی دن میں اڑ جاتا ہے۔ ذراسی چائے کی پتی پڑی ہو تو ہو؟‘‘

    ’’چلو اسی کی چائے بناؤ شکر کے بجائے برفی ڈال لوں گا۔‘‘

    بیوی نے پہلے ہی کچھ مٹھائی شنکر کے لیے نکال رکھی تھی۔ سدھو سے چائے کی یہ ترکیب سن کر اس نے جھپٹ کر برفی کی دس ڈلیاں مٹھائی کے جھاپے سے اور نکال لیں۔

    چائے کے آتے آتے سدھو کا مزاج سنبھل چکا تھا۔ اس نے بچوں کو جو دیکھا کہ وہ مٹھائی کھا کر خوش ہیں تو وہ بھی خوش ہو گیا۔ اسے اپنے بیوی بچوں سے گہری محبت تھی۔ اس وجہ سے جب بھی اچھی آمدنی ہو جاتی تو کھانے کی عمدہ عمدہ چیزیں ضرور لاتا تھا۔ دو دو سیر مٹھائیاں، بیس بیس سیر آم، چار چار بڑے بڑے تربوز، ٹافیاں اور کیک وغیرہ۔ اس چیز نے بچوں اور بیوی کو بے حد چٹورا بنا دیا تھا۔ ان لوگوں کو ڈھنگ کی چیز پکانا تو آتی نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی عجیب عجیب طرح کے بدرنگ اور بدمزہ حلوے سے بنابنا کر گھی شکر کو ختم کر دیتے تھے۔ ان حرکتوں سے سدھو بےحد چڑتا تھا۔ اور کبھی کبھی تو غصے میں آکر ایک ایک بچے کو دھنک کر رکھ دیتا تھا۔

    چائے بنتے اور پیتے کافی رات آ گئی۔ تب سدھو گھڑی دیکھ کر کہنے لگا،

    ’’یہ کون سافلم ہے جو ابھی تک ختم نہیں ہوا۔‘‘

    ’’شنکر نے آج تک تو اتنی دیر نہیں لگائی تھی ، جانے معاملہ کیا ہے۔‘‘

    دونوں گھبرا گئے۔ سدھو نے کہا،

    ’’کس سنیما گھر میں گیا ہے؟‘‘

    ’’وہ مجھ سے کہہ کر کب جاتا ہے۔‘‘

    ’’کہاں جاؤں اسے ڈھونڈھنے۔‘‘

    (۴)

    سدھو رات بہت دیر کو سویا تھا۔ دن کو دس کے قریب آنکھ کھلی۔ اس نے فوراً ہی پکارا۔

    ’’شنکر‘‘

    بیوی نے آنسو بھری آواز میں جواب دیا۔

    ’’ابھی تک نہیں آیا۔‘‘

    ’’نہیں آیا؟ تم تو کہتی تھیں کہ سنیما دیکھنے گیا ہے۔‘‘

    ’’میں ایسا ہی سمجھتی تھی کیوں کئی روز سے سینما کے نام سے آدھی آدھی رات تک غائب رہ چکا تھا۔ میں محلے میں سب جگہ پوچھ آئی ہوں۔ کسی کو بھی شنکر کی کوئی خبر نہیں۔ جو لڑکے اس کے ساتھ کھیلتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ شنکر نے کئی دن ہوئے ہم سے لڑائی کر کے بولنا چھوڑ دیا تھا۔

    سدھو گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور سوچنے لگا کہ کیا کیا جائے۔ پھر بیوی کو ڈھارس دیتے ہوئے بولا،

    ’’فکر نہ کرو ہمارے گروجی کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ وہ پولیس کے ذریعہ پتہ لگالیں گے۔ میں جاتا ہوں ان کے پاس۔‘‘

    اس محلے میں دس سال ہوے سدھو نے بیس ہزار کی پگڑی دے کر مکان کرائے پر لیا تھا۔ تب سے وہ محلے والوں کی خوشی اور غم میں برابر شریک ہوتا رہا۔ سال میں جنم اشٹمی دھوم سے مناتا تھا اور ایک بار کیرتن بھی کرتا تھا۔ اس کے لڑکے اور لڑکیاں اچھے اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ ان باتوں کی وجہ سے محلے والوں سے اچھے تعلقات تھے۔ لیکن جب لوگوں کو سیتا کے اغوا کا حال معلوم ہوا تو وہ ذرا کھینچ کر ملنے لگے۔ اس کا بڑا دکھ تھا سدھو کو اور اس کو محلے والوں سے یہ کہتے برا لگ رہا تھا کہ رات سے بڑا لڑکا بھی غائب ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ محلے والے سمجھیں کہ سدھو کا گھرانا ہی ایسا ہے۔ اس لیے جہاں بھی وہ گیا براہ راست شنکر کی بات نہیں پوچھی۔ صرف یہ ٹوہ ہی لگانے کی کوشش کی کہ کسی کو اس کے بارے میں علم ہے یا نہیں۔

    سدھو کا شک تھا کہ شنکر اگر چہ بارہ سال کا ہے لیکن چہرے مہرے کا اچھا ہے۔ اس لیے ہو سکتا ہے۔ کہ اسے کوئی لڑکی اغوا کر لے گئی ہو۔ لیکن جب محلے والوں نے ایسی کوئی بات نہیں بتائی تو وہ سوچنے لگا کہ پھر کیو ں اور کہاں گیا۔

    تلاش سے مایوس ہو کر سدھو اپنے کام کے لیے انگوٹھی کا بکس لینے شمبھو کی دوکان پر آیا۔ تب شمبھو نے کہا،

    ’’گروجی کی آ گیا ہے کہ آج مقررہ وقت پرتم برلامندر کے سامنے کے چائے خانے میں ان سے مل لو۔‘‘

    آج منگل کا دن تھا اس لیے مقررہ وقت رات کے دس بجے ہوتا تھا۔ سدھو کو فکر ہو گئی کہ گروجی نے اس طرح کیوں بلایا ہے اور گروجی اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ ایک آدمی ان سے بلا کسی ضرورت کے ہفتے میں دو دن سے زائد ملے۔ ہے ضرور کوئی بےحد اہم بات۔ کیا ہو سکتی ہے وہ؟ یہ سوچتا ہوا سدھو دورہ کرنے نکل کھڑا ہوا۔

    اپنے حلقے میں سدھو کا وقت تھا دن کو ڈھائی بجے سے لے کر نو بجے رات تک۔ اس کے حلقے میں تین سنیما گھر، چار بڑے ہوٹل اور دو بھیڑ بھاڑ والے بازار تھے۔ اس کے اپنے ساتھ ایک مددگار ضرور ہوتا تھا۔ سوچنے لگا کہ کل تو موہن تھا ہو سکتا ہے کہ آج گروجی نے یادو کو بھیجا ہو۔ وہ بھی کافی ہوشیار ہے۔ رنگ محل سینما کے آس پاس ہو سکتا ہے۔

    سدھو کا خیال درست نکلا۔ یادو رنگ محل سینما کے ٹکٹ کی بلیک کر رہا تھا۔ سدھو کی نظروں نے اس وقت یہ بھی دیکھا کہ ایک لڑکا ایک لڑکی کو جو تنہا معلوم ہوتی ہےَ۔ آنکھوں سے اشار ے کر رہا ہے۔ سدھو اندازہ لگانے لگا کہ یہ اشارے کہیں یہ تو نہیں بتاتے ہیں کہ دونوں کسی طے شدہ پروگرام کے تحت آئے ہیں۔ ایسے پروگرام کے تحت آنے والے جوڑے کے پاس عام طور سے اچھی رقم ہوتی ہے۔

    سدھو کو یاد آیا کہ پندرہ سال پہلے اسی سینما ہال میں میں نے جو کارنامہ انجام دیا تھا اس نے شہر میں کیسا میرا ڈنکا بجا دیا تھا۔

    ہوا یہ تھا کہ سدھو نے ابھی کام شروع ہی کیا تھا کہ اس سینما ہال میں دیکھا کہ پختہ سن کی ایک لیڈی خوب بنی سنوری گلے میں بے حد قیمتی ہار پہنے ٹیکسی سے اتر کر سنیما ہال کے اندر آ کر تصویریں دیکھنے لگی۔ وہ بار بار گیٹ کی طرف بھی دیکھتی جاتی تھی۔ ذرا دیر میں کرائے کے اسکوٹر پر ایک جوان آیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ جب اس کی نظریں لیڈی سے ملیں تو دونوں کے چہرے چمک اٹھے۔ مگر دونوں نے دوسری طرف منہ موڑ لیے۔ سدھو سمجھ گیا کہ چوری چھپے کی ملاقات ہے۔ ذرا دیر میں لیڈی تو ہال میں چلی گئی۔ لیکن جوان ٹہلتا رہا۔ جب اصل پکچر شروع ہوئی تو وہ اندر گیا۔ اس دن ٹکٹوں کی بلیک کرنے والوں میں یادو تھا ہی۔ اس سے ٹکٹ لے کر سدھو اندر چلا گیا اور ایک طرف کھڑا ہو کر لیڈی کو دیکھنے لگا۔ ایک موقع پر اس کا ہار چمکا تو دیکھا کہ اس کے گلے میں جوان کی باہیں پڑی ہوئی ہیں۔ اب سدھو کو معلوم ہو گیا کہ ان دونوں میں کیا سلسلہ ہے۔ پھر تو وہ تاک میں رہا۔ آخر پتہ چلا کہ تیسرے چوتھے دن وہ دونوں آتے ہیں اور جوان سیٹیں بک کرا لیتا ہے۔

    پھر سدھو تاک میں رہا ایک دن جب جوان نے سیٹیں بک کرا لیں تو سدھونے جوان کی سیٹوں کے دونوں طرف کی سیٹیں بک کرا لیں۔

    اس دن بھی یہی ہوا کہ پہلے لیڈی جا کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ سدھو فوراً جا کر اس کے برابر کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جب پکچر شروع ہوئی تو جوان آ گیا اور چند منٹ کے بعد اس نے لیڈی کے گلے میں باہیں ڈال دیں۔ ادھر اس کی باہیں پڑیں ادھر سدھو کا ہاتھ گیا اور اس نے ڈوری کاٹ دی۔ جیسے ہی جوان نے لیڈی کو اپنی طرف جھکایا۔ سدھو نے لیڈی کے سینے پر ہاتھ لے جا کر ہار کھینچ لیا۔ لیڈی چونکی ضرور، لیکن جیسا کہ سدھوکا خیال تھا وہ یہ سمجھی کہ جوان کا ہاتھ ادھر آ گیا ہے۔ اس لیے ذرا سی سسکی بھری اور چپ رہی۔ سدھو سیٹ پر دوسری طرف دب گیا۔ ابھی دونوں بوس و کنار میں مصروف تھے کہ یہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔

    اس کارنامے میں صرف ہاتھ کی صفائی ہی نہیں تھی بلکہ وہ چیز بھی تھی جسے گروجی کہتے ہیں۔ شکار کے دماغ اور مزاج کا اندازہ لگانا۔ پھر سدھو نے یہ کارنامہ اکیلے انجام دیا تھا۔ ان باتوں کی وجہ سے شہر بھر کے جیب کترے سدھو کو چھوٹا استاد مان کر عزت کرنے لگے۔

    یہ قصہ یاد آنے سے سدھو کے ہاتھ کلبلانے لگے نیا کارنامہ کرنے کے لیے۔ لیکن اس وقت ایک لڑکا نظر آ گیا جس پر سدھو کو شنکر کا شک گزرا۔ مگر جب لپک کر اس کے پاس گیا۔ تو وہ کوئی اور نکلا۔ شنکر کے غائب ہونے کی بات یاد آتے ہی وہ بے جان سا ہو گیا اور اس نے طے کر لیا کہ آج میں نے کوئی کام کیا تو ہاتھ بہک سکتا ہے۔ اس لیے چھٹی منالو اور دیکھو کہ گروجی کیا کہتے ہیں۔ بچا ہوا پیسہ کافی تھا اس لیے فکر نہیں تھی۔ اس نے یادو کو اشارہ کر دیا کہ اپنے کام میں لگے رہو۔ پھر ٹہلتا ہوا اپنے خاص شراب خانے چلا گیا۔ وہاں پی کر رنڈی کے گھر جا پہنچا۔

    جب سدھو نو بجے گروجی کے پاس گیا تو وہاں بھیکو اور سردار مستانہ سنگھ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ دونوں گروجی کی پارٹی کے نہیں تھے اور اسمگلنگ وغیرہ کا کاروبار کرتے تھے۔ سدھو کو دیکھ کر گروجی نے بہت محبت سے بلا کر بٹھایا اور جوباتیں کر رہے تھے وہ جاری رکھیں۔ بولے۔ ’’بھیکو! تم ٹھیک ہی کہہ رہے ہو کہ عورتیں ناگن ہوتی ہیں۔ ان کے کاٹے کا منتر نہیں اور لڑکیا ں جو دیکھنے میں بھولی بھالی نظر آتی ہیں ان کا کاٹا تو پانی نہیں پی سکتا۔ انھوں نے جس جس طرح مجھے گرایا ہے کیا بتاؤں ایک دن ایک شاگرد کی عورت میرے گھر ایک بجے رات کو آ گئی لیکن شاگرد کو بیٹا سمجھتا ہوں اور اس کی بیوی کو بییم۔ اس لیے سر جھاکائے بیٹھا رہا۔ اسی طرح رات کٹ گئی۔ لیکن صبح اس نے ایسا فعل کیا اور وہ ہنگامہ کھڑا کیا کہ تم لوگوں کو کیا بتاؤں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اس کو رکھنا پڑا۔ لیکن بات اسی جگہ ختم نہیں ہو گئی۔ دو سال کے بعد وہ ایک گویے کے ساتھ اس امید پر بھاگ گئی کہ سینما میں ہیروئن بن جائےگی۔ اس کے بعد میں نے ایک اچھے گھر کی لڑکی سے شادی کر لی۔ مگر وہ بھی دو سال کے بعد بھاگ گئی ۔ وہ کس کے ساتھ بھاگی؟ میرے ہی ایک شاگرد کے ساتھ۔ پھر میں نے ایک بیوہ کو گھر ڈال لیا۔ وہ رہی وفادار ۔ بیچاری دو سال ہوئے بھگوان کے گھر چلی گئی۔ مگر واہ واہ کیا بیوی تھی وہ! اب اولاد قسمت میں نہیں تھی تو اس کو کیا کروں؟‘‘

    سدھو بولا، ’’ہاں گروجی! وہ تو دیوی تھی۔ مجھ سے تو اولاد کی طرح محبت کرتی تھی۔‘‘

    ’’میں اس کو سمجھایا کرتا تھا کہ میرے شاگرد ہی میرے بیٹے ہیں۔ تم بھی ان کو یہی سمجھو۔‘‘

    بھیکو نے کہا ’’جیسے آپ گرو ہیں ویسے آپ کے چیلے۔ میں نے سنا کہ کل کس طرح سدھو نے کام کیا۔ سیٹھ ابھی جھکا ہی تھا کہ پلک جھپکتے ہی ان کی جیب اڑ گئی۔‘‘

    مستانہ بولا،

    ’’بھائی بھیکو یہ مشاقی ہر ایک کے بس کی چیز نہیں۔‘‘

    گروجی نے چائے منگوائی۔ چائے کے آنے پر ذرا دیر خاموشی رہی۔ پھر گروجی سدھو کی طرف گہری نظروں سے دیکھ کر بولے۔

    ’’یہ بتاؤ سدھو تم کو میں نے اپنا بیٹا سمجھا کہ نہیں؟‘‘

    ’’گروجی! میرے تو سب کچھ تم ہی ہو۔ تمہاری وجہ سے میں کچھ بن گیا۔ ورنہ گلی گلی مارا مارا پھرنے والا لونڈا تھا۔‘‘

    ’’اچھا تو اب میری ایک بات مانو۔ تم آج سے سیتا کو میری بیٹی سمجھو اور اس کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو۔‘‘

    ’’ایسی نکمی لڑکی کو بیٹی بناؤگے؟‘‘

    ’’تم تو میرا کہا مانو۔ کہہ دو کہ وہ میری بیٹی ہے۔‘‘

    ’’آپ کی آ گیا ہے تو میں مانتا ہوں۔‘‘

    ’’تو اب سنو ایک نیا معاملہ۔ میں نے بھیکو اور سردار کو اس میں مدد کے لیے بلایا ہے۔ کل رات میں تین بجے کے قریب اپنے کمرے پر جو گیا تو دیکھتا کیا ہوں کہ دہلیز پر کوئی لڑکی سو رہی ہے۔ میں نے ڈانٹا کون ہے تو وہ بولی میں ہوں سیتا، سدھو مہاراج کی بیٹی۔

    یہ کہہ کر میرے قدموں پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ مجھے ترس آ گیا۔ اندر لے جا کر اس کا منہ دھلایا۔ اس وقت پتہ چلا کہ اس نے پرسوں سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ جو کچھ میرے گھر پر تھا اس کو کھلایا۔ چائے پلائی پھر حال پوچھا تو معلوم ہوا کہ چندر کے لونڈے رام بھروسے نے کانپور اسٹیشن پر اٹیچی اڑانے کی کوشش کی تھی تو وہ پکڑا گیا۔‘‘

    سدھو نے کہا، ’’اتنے بڑے جیب کترے کی اولاد ہو کر چوری کرتے حرامی کو شرم نہیں آئی۔‘‘

    گروجی بولے۔ ’’ارے بھائی آج کل کے لونڈے بری صحبت میں پڑ کر خاندانی عزت کو بھلا بیٹھے ہیں۔ کانپور میں کون تھا جو رام بھروسے کی پیروی کرتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دو سال کی سزا ہو گئی۔ سیتا نے اس کے لیے بہت دوڑ بھاگ کی اور جو شخص بھی کام کا نظر آیا اس کے سامنے گڑگڑائی۔ مگر کچھ حاصل نہیں ہوا اور الٹا پولیس والوں نے اس کو خراب کرنا چاہا۔ یہ حال دیکھ کر وہ کانپور سے چلی آئی۔ کسی طرح ہمارے وکیل کا پتہ لگاکر ان کے پاس گئی۔ انھوں نے ڈانٹ کر نکال دیا اور کہا میں چوروں اچکوں کا مقدمہ نہیں لیتا ہوں۔ لڑکی نے خوشامد در آمد کر کے کسی طرح میرا پتہ پوچھ لیا اور میرے یہاں آ گئی۔‘‘

    سدھو کا پارہ چڑھ گیا اور گرم ہو کر بولا،

    ’’گروجی اب اس حرامزادی کا کیا بناؤ گے۔ نکال دو اس کو اور کہو جائے وہ جیل میں اپنے بدمعاش کے پاس۔‘‘

    ’’دیکھو تم سیتا کو میری بیٹی بنا چکے ہو۔ اب خاموش رہو۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ کیا کروں گا۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ ابارشن کرانے پر راضی ہو گئی ہے۔ سردار کی بیوی بڑی ہوشیار دائی ہے۔ وہ یہ کام کر دے گی اور ہاں میں نے یہ بھی معلوم کر لیا ہے کہ سیتا اور رام بھروسے کی شادی نہیں ہوئی ہے۔ رام بھروسے نے یہ کیا تھا کہ کسی مندر میں لے جا کر اس کی مانگ میں سیندور، بھر دیا تھا اور کہا تھا کہ اب تم ہو گئیں میری بیوی۔‘‘

    ’’کچھ دیا بھی اس نے؟ کچھ ساتھ لے کر آئی ہے؟‘‘

    گروجی تلخ ہنسی ہنسی کر بولے۔ ’’ہاں لائی ہے ایک سو چالیس بال پوائنٹ پین۔ ان کے کوئی پچیس روپیہ دے دے تو سمجھو کہ بہت دے دیے۔ بس ایک پار کر ضرور ایسا ہے جس کے کچھ دام مل سکتے ہیں۔‘‘

    پار کر کا نام سن کر سدھو چونک پڑا۔

    ’’کس رنگ کا ہے وہ؟‘‘

    ’’نیلا۔ کیوں تم نے رنگ کیوں پوچھا؟‘‘

    نیلا سن کر سدھو مسکرا دیا، بات بنا کر کہنے لگا،

    ’’ایک جگہ پار کر دینے کا میں نے وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اچھے رنگ کا ہوگا۔‘‘

    گروجی نے کہا ’’ہوں‘‘ مگر اس ہوں سے یہ ظاہر تھا کہ وہ سمجھ گئے ہیں کہ سدھو کچھ چھپا رہا ہے۔ ذرا دیر خاموش رہ کر گروجی ڈھارس دینے والے انداز سے کہنے لگے۔

    ’’ادھر کئی نوجوان میرے شاگرد بن رہے ہیں۔ دیکھوں گا کہ سیتا کے لائق کون ہے؟‘‘

    ’’گروجی مجھے اب اپنے پیشے سے نفرت ہو گئی ہے۔ جیب کترے کو میں داماد نہیں بناؤں گا۔ یہ بھی کوئی زندگی میں زندگی ہے۔ میرا گھر تو سرائے سے بدتر ہے اور بچے جن سے محبت کرتا ہوں۔ ان سے تو گلی کے کتے بہتر ہوں گے۔ میں تو اب شمبھو سے مال ادھار لےکر اسی طرح کی دوکان کھولوں گا اور اسی کی طرح ایمانداری کی آمدنی سے جیسی بھی کٹے گی کاٹ لوں گا۔‘‘

    شمبھو کا نام سن کر تینوں ہنس پڑے بھیکو نے زور سے کہا،

    ’’اس سے بڑا جیب کترا شہر بھر میں نہیں ملےگا۔ وہ تو ترازو کی ڈنڈی سے گاہکوں کی جیب کاٹتا ہے۔‘‘

    ’’اور طرح سے بھی کاٹتا ہے۔ ہمارے سو کے مال کے پچاس بھی نہیں دیتا۔ چالیس اور پینتالیس پر مول کرتا ہے۔ جو روپیہ اس کے پاس رکھؤ اس کو سود پر چلاتا ہے اور اس میں سے ہم کو ایک پیسہ بھی نہیں دیتا ہے۔‘‘

    سردار بولا، ’’جیب کون نہیں کاٹتا ہے۔ میری پتنی سے پوچھو جو کہ اسپتال میں کام کرتی ہے ڈاکٹر کس کس طرح مریضوں کی جیب کاٹتے ہیں۔‘‘

    بھیکو۔ ’’یہ جو تیسرے چوتھے دن ہم میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ بھاری رقم ایسی آجاتی ہے جس کی رپورٹ پولیس میں نہیں کی جاتی ہے۔ وہ کیا ہوتی ہے؟ سب جانتے ہیں کہ وہ نمبر دو کی رقم ہوتی ہے۔ یعنی کسی نہ کسی کی جیب سے اڑائی ہوئی۔ ایسی ہی رقموں سے تو لوگ لکھ پتی اور کروڑپتی بنتے ہیں۔ اب بتاؤ کہ اصلی جیب کترے کون ہیں؟ وہ لوگ یا ہم لوگ‘‘

    گروجی سنجیدہ آواز میں کہنے لگے،

    ’’ساری دنیا جیب کا ٹتی ہے۔ سدرشن وکیل کو لو جو ہمارے مقدمے لڑتا ہے۔ سادھو مل سیٹھ کو لو جو ہماری ضمانتیں لیتا ہے۔ اس کو ماہوار رقم بھی دو اور جب کوئی مقدمہ ہو تو اس کے پیسے الگ دو۔ دو دو رقمیں ایک ہی کام کے لیے۔ یہ جیب کاٹنا نہیں تو اور کیا ہے۔ پھر عدالت کو لو وہاں کون ہے جو مظلوم کی جیب نہیں کاٹتا ہے۔ سب دیکھ چکا ہوں سدھو۔ تمہارا کام شروع ہی سے اچھا چل رہا ہے۔ اس لیے تم نے ابھی اونچ نیچ نہیں دیکھی۔ دیکھوگے تب معلوم ہوگا کہ جیب کترے بہتوں سے اچھے ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن گروجی اب میرا دل اکھڑ رہا ہے اس کام سے ۔ بلکہ اس کی وجہ سے زندگی سے نفرت ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    ’’سدھو عقل کے ناخن لو۔ جس دن تم الگ ہو گئے تمہاری برادری والے دشمن ہو جائیں گے تمہارے۔ کیوں کہ سب ڈریں گے کہ جانے کب کس کے راز پولیس کو بتا دو۔ ایسی برادری میں آ کر کوئی الگ نہیں ہو سکتا ہے ۔ ہوتا تو جان سے ہاتھ دھو لیتا ہے۔ یہ بھی دیکھو کہ ہم لوگ کس شرافت سے زندگی گزارتے ہیں اور دھرم کرم کے کام کتنے کرتے ہیں۔‘‘

    سدھو آنسو بھری آواز میں کہنے لگا،

    ’’گروجی کل شام سے شنکر بھی تو غائب ہے۔ آج دوپہر تک تو نہیں آیا تھا۔ معلوم نہں اس کا کیا ہوا۔ زندہ بھی ہے یا نہیں۔‘‘

    ’’آتے ہی تم نے یہ بات کیوں نہیں دی۔‘‘

    ’’سیتا کی بات جو آ گئی تھی۔ وہ بھی اولاد یہ بھی اولاد اور دونوں نکمے۔‘‘

    ’’موہن آتا ہوگا تھانے سے خبریں لے کر۔‘‘

    آدھا گھنٹہ ادھر ادھر کی باتوں میں گزر گیا۔ آخر موہن آ گیا۔ اس نے سدھو کو گہری نظروں سے دیکھا اور پھر بیٹھ گیا۔ گروجی نے کہا،

    ’’بہت دیر کر دی؟‘‘

    ’’گروجی آج کل کئی نئے افسر آ گئے ہیں جو بہت اونچے اڑتے ہیں۔ شہر میں اب صرف ایک داروغہ اور چند کانسٹبل رہ گئے ہیں اپنے مطلب کے۔ لیکن وہ بھی حالات دیکھ کر ہاتھ زیادہ پھیلانے لگے ہیں۔

    گروجی۔ ’’کوئی خاص بات؟‘‘

    موہن نے گہری گہری نظروں سے سدھو کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

    سدھو کچھ معلوم ہے تم کو کہ شنکر کہاں ہے؟‘‘

    ’’نہیں، کیا کوئی خبر ملی۔‘‘

    موہن نے گروجی کی طرف اجازت طلب نگاہوں سے دیکھا اس نے کہا،

    ’’جو بات ہو صاف صاف کہو۔ یہ موقع ایسا ہی ہے۔‘‘

    موہن کہنے لگا، ’’کل رات پولیس نے کالے نالے کی پلیا کے نیچے سے ایک مرد اور ایک بارہ سالہ لونڈے کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا ہے۔

    سدھو بہت زور سے کڑک کر بولا، ’’جھوٹ ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔ شنکر نہ ہوگا۔‘‘

    موہن نے جواب دیا۔ ’’دونوں کا ڈاکٹری معائنہ ہو چکا ہے اور دونوں حوالات میں بند کر دیے گیے ہیں۔‘‘

    ’’کون ہے وہ مرد؟‘‘

    ’’مرلی‘‘

    ’’وہ بدمعاش میں نے ہزار بار شنکر سے کہا تھا کہ اس کے ساتھ گھومو پھرو مت۔ زبردستی کی ہوگی اس مادر۔۔۔‘‘

    ’’شنکر نے بیان دیا ہے کہ مرلی اس کو سینما دکھاتا تھا اور شو کے بعد کالے نالے کی پلیا کے نیچے لے جاکر۔۔۔‘‘

    ’’اب میں سمجھا کہ یہ روز روز کا سینما کیا تھا۔ کیا شنکر نے بھی اقبال کیا ہے؟ اتنا بھی نہ آیا کہ اس کو کہ پولیس کے سامنے بیان کیسا دیا جاتا ہے۔‘‘

    گروجی نے کہا، ’’سدھو بات سمجھو۔ پولیس قبولوانے پر آتی ہے تو چپ کون رہ سکتا ہے۔ تم تو جانتے ہی ہو ایسی باتوں کو۔ وہ ناخون گھسواتے ہیں، سگریٹ سے بدن داغتے ہیں اور جانے کیا کیا کرتے ہیں۔‘‘

    سدھو تلملا کر اٹھا۔ ’’میں جاتا ہوں اور ملاقات کے لیے اجازت مانگتا ہوں۔ اسی وقت حرامزادے کا گلا دبا دوں گا۔ یہ اولاد ہے یا حرامی کا پلا۔‘‘

    سدھو جوش میں چند قدم بڑھا تھا کہ گروجی چلائے۔

    ’’سدھو تم ہم سب کو پھنسوادوگے۔‘‘

    وہ چلتے ہوئے بولا،

    گروجی میں صرف اپنے بیٹے کی جان لوں گا۔ کیا باپ کا حق اتنا بھی نہیں۔‘‘

    ’’کیا میں تمہارا کوئی نہیں ہوں؟‘‘

    سدھو کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے اور وہ بولا،

    ’’میرے لیے تو اب تم ہی سب کچھ ہو۔‘‘

    گروجی نے اس کی طرف غور سے دیکھ کر کہا،

    ’’ہمارے پاس پیسہ بھی ہے۔ وکیل بھی اور داروغہ بھی۔ گھبراؤ نہیں۔‘‘

    سدھو ہولے ہولے قدم دھرتا ہوا واپس آ گیا اور بیٹھ کر سر پکڑ کر رونے لگا۔

    مأخذ:

    ٹھکانا (Pg. 8)

    • مصنف: حیات اللہ انصاری
      • ناشر: حیات اللہ انصاری
      • سن اشاعت: 1991

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے