Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بانگی مرغا

دیپک کنول

بانگی مرغا

دیپک کنول

MORE BYدیپک کنول

    جموں کشمیر محکمہ ٹرانسپورٹ کی پندرہ سالہ ملازمت کے دوران میرا واسطہ بھانت بھانت کے لوگوں سے رہا ہے۔ ان میں سے بیشتر اسی محکمے میں کام کرنے والے ڈرائیور اور کلینر تھے۔ میرا کام ان سب کی حاضری کا ریکارڑ رکھنا ہوتا تھا اور اسی ریکارڑ کی بنا پر انہیں تنخواہ ادا کی جاتی تھی۔ کچھ ملازم ایسے بھی تھے جو تنخواہ اس محکمے سے وصول کرتے تھے اور کام کہیں اور کرتے تھے۔ یہ دوغلے حرام خور مہینے کے اٹھائیس دن ڈیوٹی سے غیرحاظر رہتے تھے پر تنخواہ ملنے سے دو دن قبل کسی خود رو جھاڑی کی طرح اچانک کہیں نہ کہیں سے اگ آتے تھے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر چلے جاتے تھے۔ اس بے ایمانی میں میری رضا بھی شامل ہوتی تھی۔ وہ حرام خور سب سے پہلے متعلقہ افسروں کی منھ بھرائی کر دیتے تھے۔ ان افسروں میں میں بھی شامل ہوتا تھا۔ چونکہ اس حمام میں سبھی ننگے تھے اس لئے یہ ساری بے ظابطگی دیکھکر کسی کے کان پر جوتک نہیں رینگتی تھی۔ سبھی افسر جیسے گونگے بہرے بنے بیٹھے تھے۔ کسی نے بھی اس لوٹ کھسوٹ کو روکنے کی کبھی کوئی پہل نہ کی۔ یہ سلسلہ بس یونہی چلتا رہا۔

    اسی محکمے میں طرح طرح کے کردار تھے۔ ایک دلچسپ کردارتبرک شاہ نام کا ڈرائیور تھا جو جب بھی ملتا تھا تو ہمیشہ اپنا ہی رونا روتا رہتا تھا۔ ”صاحب جی! کیا دسوں۔ پنڈی میں جی میرے چاچا کے بیس ٹرک۔ وہ لاہور والے پھوپھا کی بارہ بسیں اور وہ جو پشاور میں ساڑھے موسا جی ہیں اس کے پاس جی پندرہ ٹیکسیاں وہ بھی سبکی سب ٹیوٹا کمپنی جاپان کیں۔ کب سے میرے پیچھے پڑے ہیں ادھروں آجاو، ادھروں آجاو۔ توڑی تقدیر بنا دیں گے۔ جانے کیوں میں اتھوں تے نکل نہیں پا رہا ہوں۔“ یہ ترانہ وہ برسوں سے گا رہا تھا۔ اب اس میں سچ کتنا تھا اور جھوٹ کتنا یہ تو وہی جانے پر مجھے اس بات سے حیرانی ہوتی تھی کہ بگانی کھیتی پر جھینگر کیوں ناچے۔ یعنی دوسروں کے مال پروہ کیوں اٹھلاتا رہتا تھا؟ اس کے پاس ایسی کوئی دستاویز تو تھی نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ ساری جائیداد اسی کو ملنے والی ہے۔ مانا کہ پنڈی کے چاچا کے پاس بیس ٹرک ہیں۔ وہ تھوڑے ہی یہ سارے ٹرک اپنے بھتیجے کو بخش دےگا۔ اس کا بھی تو اپنا پریوار ہوگا۔ وہ تو بس راولپنڈی اور لاہور سے رشتہ ملا کر اپنا قد بڑھانا چاہتا تھا جسمیں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا تھا۔ پہلے پہل تو میں بھی اس کی باتیں سن کر مرعوب ہونے لگا تھا۔ بعد میں جب میں نے دیکھا کہ یہ اس کے روز کاوتیرہ بن چکا ہے تو میں اس سے کنی کاٹنے لگا۔ وہ جتنا شیخی باز تھا اتنا ہی اکل کھرا۔ وہ اپنے آپ کو بڑا زیرک اور عقلمند سمجھتا تھا۔ اپنے آگے وہ کسی کو کچھ سمجھتا ہی نہیں تھا۔ اپنی ذات برادری والوں کو تووہ منھ ہی نہیں لگاتا تھا۔ کلینروں کو تو وہ خدا کی بنائی ہوئی سب سے کمتر مخلوق سمجھتا تھا۔ ان سے بات کرنا بھی وہ کسر شان سمجھتا تھا۔

    اس محکمے میں ہر رنگ کے کردار تھے۔ کچھ اتنے بد رنگ تھے کہ انہیں پاس بٹھانا بھی گوارہ نہیں ہوتا تھا۔ کچھ اتنے دلچسپ تھے کہ ایسے کرداروں سے ملنے کے لئے میں ہر دم بےقرار رہتا تھا۔ اس محکمے کی ایک خوبی یہ تھی کہ یہاں جو بھی آتا تھا کچھ دنوں کے اندر اس کا کوئی اور نام پڑ جاتا تھا اور وہ اصلی نام سے کم اور اپنے لاحقہ سے فوراً پہچانا جاتا تھا۔ ایسے ہی دو ڈرائیور تھے۔ ایک کا نام گلہ چرسی تھا اور دوسرے کا نام کاشی وسکی تھا۔ جیسا کہ ان کے القاب سے ہی ظاہر ہے وہ دونوں بلا کے مے نوشتھے۔ گلہ چرسی صرف دارو پر ہی اکتفا نہیں کرتا تھا بلکہ وہ کبھی کبھی چرس کے دو چار کش بھی لگا لیتا تھا۔ دونوں ایک جان دو قالب تھے۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا جب یہ دونوں الگ الگ نظر آئے ہوں۔ ہر دم سایے کی طرح ساتھ ساتھ پھرتے تھے۔ دونوں ایک ساتھ کام پر آتے تھے، ایک ساتھ پھیرہ لگاتے تھے۔ ایک ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے تھے اور ایک ساتھ گھر لوٹتے تھے۔ ان میں بہت ساری چیزیں مشترک تھیں۔ دونوں ایک ہی محلے گاو کدل میں رہتے تھے۔ دونوں ہم عمر تھے۔ دونوں شادی شدہ تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ ایک رنڈوا تھا اور ایک شادی شدہ ہوکے بھی رنڈوے کی سی زندگی گزار رہا تھا۔ کاشی وسکی کی بیوی آٹھ سال قبل حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے مر چکی تھی جب کہ گل چرسی کی بیوی حلیمہ کا ایک پاوں میکے میں اور ایک سسرال میں رہتا تھا۔ وہ گل چرسی کی مے نوشی سے کافی دکھی اور آزردہ تھی۔ وہ جب رات کو پی پاکے گھرمیں آ دھمکتا تھا تو آتے ہی بیوی پر دھونس جمانے لگتا تھا۔ بیوی بھی بڑی تنک مزاج اور جھگڑالو تھی۔ رات بھر دونوں میں خوب جوتم پیزار ہوتا تھا۔ گل چرسی کو یہبات کسی بھی قیمت پر گوارہ نہ تھی کہ کوئی اسے پینے پر روکے یا ٹوکے۔ حلیمہ بھی نہ موقع محل دیکھتی تھی نہ وقت بس ایک بار جو اس کی زبان چل پڑتی تھی تو پھر رکنے کا نام ہینہیں لیتی تھی۔ گل چرسی اس ٹیں ٹیں سے ایکدم اپنا آپا کھو بیٹھتا تھا اور وہ پھر حلیمہ کی جم کر پٹائی کرتا تھا۔ رات کو گھرمیں خوب ہنگامہ رہتا تھا۔ بھور ہوتے ہی حلیمہ روٹھکے میکے چلی جاتی تھی۔ محلے والے اس روز روز کے حیص بیص سے اس قدر عاجز آ چکے تھے کہ وہ یہ محلہ چھوڑ کر کہیں اور جاکے رہنا چاہتے تھے۔ گل چرسی سے کچھ کہہ نہیں پاتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ گل چرسی غنڈہ موالی ہے اس سے کچھ کہنا بھڑکے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔ ویسے بھی اس کا کچھ نہیں بگڑنے والا۔ بے حیا کی رد بلا۔ وہ تو شرم و حیا سب طاق پر رکھ کے بیٹھا تھا۔ وہ عزت دار لوگ تھے۔ مفت میں، محلے بھر میں انکی ہی تھڑی تھڑی ہوکر رہ جاتی اس لئے طوعاً و کراہاً وہ ہر روز زہر کا یہ گھونٹپی کر رہ جاتے تھے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا تھا۔

    گل چرسی اور کاشی وسکی کی دوستی ایسی پکی اور کھری تھی کہ اگر ایک کو چوٹ لگتی تھی تو درد دوسرے کو ہوتا تھا۔ یہ رام لکھن کی جوڑی پورے سری نگر میں مشہور تھی۔ یہ لوگ یارڑ میں ہوں یا کسی ریسٹورنٹ میں جب دیکھو چونچ سے چونچ ملائے بیٹھے ہیں جب کہ دوسروں سے بہت کم بولتے تھے۔ اپنی ذات برادری سے بھی یہ الگت ھلگ ہی رہتے تھے۔ یہ نہ یونین کی کسی میٹنگ میں شامل ہوتے تھے، اورنہ ہی کسی کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔ کچھ لوگوں کو ان کی یہ دوستی پھوٹی آنکھ نہ بھاتی تھی اسلئے وہ ان میں پھوٹ ڈالنے کے سبھی داو پیچ آزمانے لگے۔ کمال کی بات یہ رہی کہ انکے حریفوں نے ان دونوں کو الگ کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا مگر ہر بار انہیں منھ کی کھانی پڑی۔ یہ لوگ کسی کے بہکاوے میں آ ئے نہ ان کی یاری پر کوئی حرف آیا۔ انکی یاری دوستی ان تھپیڑوں کے ساتھ اور زیادہ مظبوط اور مستحکم ہوتی چلی گئی۔

    گل چرسی بڑا کم گو اور خاموشی پسند تھا پر وہ جب بھی بولتا تھا تو اس کا انداز بڑا فلسفیانہ ہوتاتھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس کے اندر کسی مفکر کی روح حلول کر گئی ہو۔ وہ جب بھی بولنے لگتا تھا تو غیرضروری محاوروں کا بےدریغ استمال کرتا تھا۔ کچھ محاورے خود اس کے پلے نہیں پڑتے تھے اور کچھ سننے والے کے۔ ایک دن مجھے آفس میں ملا تو میں نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔

    ”کیا گل جانا، تم تو ہم کو ایکدم بھلا ہی چکے ہو۔ خود تو مزے کر رہے ہو اور ہمیں جھوٹے منھ بھی نہیں پوچھتے؟ معلوم ہے مہنگائی کتنی بڑھ چکی ہے۔“

    ”وہ کیا ہے صاحب جی۔ کمل جتنی بھیگے گی اتنی ہی بھاری ہوگی نا۔ آجکل لوگ کیا کرتے ہیں کہ چادر دیکھے بنا ہی پاوں پھیلاتے ہیں۔ وہ یہ سوچ کر بیٹھے رہتے ہیں کہانڈے سیوے بی فاختہ اور کوے بچے کھائیں۔ ایسا نہیں ہوتا ہے صاحب جی۔ مزے کرنے ہیں تو خود محنت کرو۔ اڑتے بادل دیکھ کر گھڑے لے کر مت دوڑو۔“

    یہ جواب سن کر میری تو بولتی ہی بند ہو گئی۔ موسم جاڑے کا تھا۔ اچھی خاصی ٹھنڈ تھی پر اس کی باتیں سن کر مجھے ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔ وہ تو درس خوان کی طرح مجھے اونچ نیچ سمجھانے بیٹھ گیا یہ تو میری قسمت اچھی تھی کہ اس وقت میں آفس میں اکیلا تھا۔ اس سے پہلے کہ ماتحتوں کے سامنے میری کرکری ہو جائے میں نے اپنی جان چھڑانے کے لئے اسے وہاں سے چلتا کر دیا۔ اُس کے جانے کے بعد میں اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ مجھے اس سنکی سے یہ سب کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ تو اتنا اکڑواور منھ پھٹ تھا کہ کسی کو بھی لتے لے سکتا تھا جبھی تو سارے افسر اس سے دور دور ہی بھاگتے تھے۔ وہ تو کسی کو کچھ سمجھتا ہی نہیں تھا اس لئے کوئی اس سے کچھ مانگتا نہیں تھا۔ ایسے ننگ، نیستی سے کوئی کیا مانگے جو خود ہی محتاج ہو۔ جتنا کماتا تھا اُس سے کہیں زیادہ دارو اور عیاشی میں نکل جاتا تھا ایسے میں چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں بچا رہےگا۔ وہ دونوں جس حال میں بھی ہوں رہتے تھے بڑے ٹھاٹ سے۔ ڈیوٹی پر ان دونوں کی من مانی چلتی رہتی تھی۔ جب ان کا موڑ ہوگا تو وہ پھیرہ دے کے آئیں گے نہیں تو گاڑی ایسی ہی کھڑی رہےگی۔ ان کی من مانی دیکھ کر بھی کوئی ان سے کچھ کہتا نہیں تھا۔ در اصل ہر افسر کو اپنی عزت و آبرو پیاری تھی۔ یہ دونوں ٹھہرے بےحیا اور بےشرم۔ جس نے اتار دی ہو لوئی اس کا کیا کرےگا کوئی اس لئے ہر کوئی ان سے فاصلہ بنائے رکھتا تھا۔۔۔ یہ اپنی اس دادا گری کا بھر پور فائدہ اٹھاتے تھے اور جب بھی پھیر ہلگانے نکلتے تھے تو ایک ساتھ۔ یہ تو طے تھا کہ کوئی بھی افسر انہیں الگ الگ روٹ پر بھیجنے کی کبھی حماقت نہیں کر سکتا تھا۔

    جب یہ دونوں جموں کے پھیرے پر نکل جاتے تھے تو انکے کلینر منھ اندھیرے ہی ٹرک کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ جب تک یہ دونوں نہیں آتے تھے وہ ٹرک میں تیل پانی بھروا کے رکھتے تھے۔ وہ دونوں جوں ہی آ جاتے تو ٹرک لے کر سیدھے نکل جاتے تھے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ ایک ٹرک کے پیچھے دوسرا ٹرک رکھتے تھے۔ اسسے یہ فائدہوتا تھا کہ اگر راستے میں کوئی مشکل آن پڑی یا ٹرک میں کوئی خرابی آ گئی تو دوسرا مدد کے لئے تیار کھڑا ہے وہ دن بھر چلتے ہی رہتے تھے اور شام کوجب بٹوت پہنچ جا تے تھے تو ٹرک بازار سے پہلے کھڑا کرکے وہ لنگر ڈالتے تھے۔ ٹرک میں کھانا پکانے کا ہر سامان موجود رہتا تھا۔ دونوں کلینر ٹرک کے اگل بغل میں ہی اسٹو گرم کرکے کھانا پکاتے تھے۔ جب تک کھانا پک کر تیار ہوتا تھا گل چرسی اور کاشی وسکی دارو کی بوتل سے دل لگی کرنے لگتے تھے۔ گل چرسی کے ساتھ مسلہ یہ تھا کہ وہ جونہیچار پیگ سے تجاوز کر جاتا تھا تووہ اول جلول بکنے لگتا تھاجب کہ کاشی وسکی چھ سات پیگ انڈیلنے کے بعد بھی چپ کی مورت بنا رہتا تھا۔ آٹھ پیگ کے بعد وہ اپنی بیوی کویاد کرکے رونے لگتا تھا۔ یوں بکتے جھکتے اور وتے دھوتے آدھی رات بیت جاتی تھی۔ ان کے کلینروں کو انہیں کھانا کھلانے میں بڑی مشقت کرنی پڑتی تھی۔ ایک کو اٹھانے لگتے تھے تو دوسرا چت ہو جاتا تھا۔ وہ بھی نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے تھے کہ اس سیوا ٹہل کے بدلے انہیں گالی گفتار سے نوازا جاتا تھا پھر بھی وہ اپنے فرضسے منھ نہیں موڑتے تھے۔ اُن کے منھ میں تب تک اناج کا ایک دانہ نہیں جاتا تھا جب تک وہ اپنے استادوں کو کھانا نہیں کھلا دیتے تھے۔ وہ ان کی اس بےغرض اور بے لوث خدمت سے غافل نہ تھے۔ وہ دونوں انہیں اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ گل چرسی کا کلینر کشن لال تھا جب کہ کاشی وسکی کے کلینر کا نامعلی قبائلی تھا۔ اس بے میل کے جوڑ میں بھی ایک الگ ہی نشہ تھا۔

    گو کہ دونوں نشے باز تھے پر دونوں بڑے ہی توہم پرست، تنگ نظر اورپرہیز گار تھے۔ یہ پرہیز گوشت تک ہی محدود تھی۔ کاشی وسکی کے سامنے اگر کوئی بڑے گوشت کا نام بھی لیتا تھا تو وہ جاکر گنگا جل سے اپنا منھ دھو لیتا تھا۔ یہی حال گل چرسی کا تھا وہ جھٹکے کے نام سے ہی بدکنے لگتا تھا۔ اگر اسے بہ سبب مجبوری ہندو ڈھابے میں کھانا کھانا پڑتا تھا تو وہ پہلے خود کچن میں جاکر اس بات کی تسلی کرتا تھا کہ اس ڈھابے میں گوشت نہیں پک رہا ہے۔ اگر ہندو ڈھابے میں حلال کا گوشت بھی پکا ہو تببھی وہ ڈھابے کا بنا گوشت کبھی نہیں کھاتا تھا۔ اس بات کو لے کے دونوں میں بڑی لمبی بحث و تکرار ہوتی تھی۔ گل چرسی کا ایک ہی جواب ہوتا تھا۔ مذہب میں جھٹکا کھانا حرام ہے اسلئے وہ بھوکوں مرنا پسند کرےگا مگر کبھی بھی جھٹکا نہیں کھائےگا۔ کاشی وسکی بھی بڑے گوشت کے بارے میں ایسا ہی نظریہ رکھتا تھا۔

    جنور ی کا مہینہ تھا۔ گل چرسی اور کاشی وسکی کے ٹرک پچھلے چار دن سے یارڑ میں منھ اٹھائے کھڑے تھے۔ دونوں ٹرکوں میں سوپور کے ڈیلی شیس سیبوں کی پیٹیاں بھری پڑی تھیں۔ چونکہ وادی میں برفباری ہوئی تھی اس لئے سری نگر جموں شاہراہ کچھ دنوں سے بند پڑا تھا۔ وہ صبح سویرے ہی یارڑ میں پہنچ جایا کرتے تھے جبوہاں انہیں راستہ بند ہونے کی خبر ملتی تھی تو دونوں کے چہرے لٹک جاتے تھے اور وہ مایوس ہوکے لال چوک کی طرف چل پڑتے تھے۔ وقت گزاری کے لئے وہ دن میں پلیڈیم سینما میں بیٹھ کر کوئی فلم دیکھتے۔ اس کے بعد وہ تب تک یونہی مٹر گشتی کرتے رہتے جب تک کہ جھٹپٹے کا وقت نہیں ہوتا تھا۔ ایک بار آفتاب غروب ہوجاتا تھا اور شام کا ارغوانی آنچل فضا میں لہرا نے لگتا تھا تو وہ رتن لال کے ڈھابے میں گھس جاتے تھے۔ رتن لال امرتسر کا رہنے والا تھا اور پچھلے کئی دہائیوں سے ”رتن ویشنو ڈھابہ“ چلاتا تھا۔ رتن لال کے زیادہ تر گراہک محکمہ ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور کلینر یا پلیڈیم سینما کے بلیکر ہوا کرتے تھے۔ اُسکی وجہ یہ تھی کہ رتن لال بڑا زندہ دل اور یار باش آدمی تھاوہ اپنی خوش اخلاقی سے دشمن کو بھی اپنا دوست بنا لیتا تھا۔ ڈرائیوروں کی فطرت سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ سرکاری ٹھیکے کی دوکان اُسکے ڈھابے سے دو کوس کے فاصلے پر تھی۔ وہ ہمیشہ ٹھرے کی دو تین بوتلیں منگوا کے رکھتا تھا۔ اگر کسی کے پاس پینے کے لئے پیسے نہ ہوں تو وہ اپنے سٹاک میں سے اُسے پلا دیتا تھا۔ اُسکی اس فراخ دلی نے اسے شرابیوں کا محبوب بنا دیا تھا۔ وہ اس کی یاری دلداری کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔

    گل چرسی اور کاشی وسکی اس کے بہت پرانے گاہک تھے جو جب ڈیوٹی سے فارغ ہوتے تو سیدھے ڈھابے کا رخ کر لیتے تھے۔ چنانچہ یہاں انہیں سوڑا پانیہی نہیں بلکہ چکھنے کے لئے مولی یا پیاز کی چٹنی بھی مفت میں مہیا کی جاتی تھی اس لئے وہ یہیں بیٹھنا پسند کرتے تھے۔ دیر ہوجائے تو وہ کھانا بھی یہیں کھا لیا کر تے تھے۔ دیسیگھی کا تڑکا لگی دال، سبزی اور چاول ان کا من بھاتا کھانا ہوا کر تا تھا۔ اس دن بھی وہ رات گئے تک پیتے رہے۔ جب نشہ حاوی ہونے لگا تو اُنہوں نے دو دو روٹیاں زہرمار کرکے کھا لیں۔ رتن لال کا بل چکا کے جب وہ اُٹھنے لگے تو دونوں کے پاوں ڈگمگانے لگے۔ دونوں پوری طرح نشے میں غین تھے۔ پورے شہر میں جیسے ہو کا عالم طاری تھا۔ ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ وہ دونوں کچھوے کی چال کی مانند آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ ایک کلو میٹر کا سفر اُنہیں ہمالیہ کو سر کرنے جیسا لگ رہاتھا۔ وہ جونہی بڈشاہ چوک سے آگے بڑھنے لگے تو شہر کے آوارہ کتوں نے اُن پر ہلہ بول دیا۔ کسی نے جھپٹ کر ان کے کپڑے نوچے۔ کوئی ہڑ بڑا کر گرا۔ وہ بڑی مشکل سے ان آوارہ کتوں سے جان چھڑا کر آگے بڑھتے چلے گئے۔ ان کی حالت دیکھنے کے لائق تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ دونوں جنگ کے مورچے سے ابھی ابھی لوٹے ہوں۔ وہ گرتے پڑتے کاذب صبح نمودار ہوتے ہوتے اپنے محلے میں وارد ہوئے۔ جونہی وہ گاو کدل کے چوک میں پہنچے تبھی ولی محمد کے مرغے کی بانگ سنائی دی۔ اُس کی بانگ کے فوراً بعد مسجد سے موذن کی اذان گونجی۔ پہلے بانگ اور پھر اذان سن کر گل چرسی کی باچھیں کھل گئیں اور وہ زور زور سے اللہ اکبر کا ورد کرنے لگا۔ کاشی وسکی اس کا یہ روپ دیکھ کر دم بخود رہ گیا۔ اچانک وہ رکا اور کاشی وسکی کی طرف مڑکر سرشاری کے عالم میں اس سے سوال کر بیٹھا ”تم نے مرغے کی بانگ سنی؟“

    ”ہاں سنی۔“ وہ بڑی بے پروائی سے بولا۔

    ”مرغے کی بانگ کے ساتھ ہی تم نے اذان سنی۔“ گل چرسی نے مظطرب ہوکے پوچھا۔

    ”ہاں سنی۔“ کاشی وسکی زچ ہوکے بولا۔ ”اسمیں ایسی کیا خاص بات ہے جو تم اسطرح اچھلنے لگے ہو؟“

    ”خاص بات ہے۔ بہت ہی خاص بات ہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ یہ مرغا مسلمان ہے اسی لئے تو اس نے موذن کو یاد دلانے کے لئے بانگ دی۔“

    ”ہٹ!“ کاشی وسکی چڑ کر بولا۔ ”جانوروں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔“

    ”ہوتا ہے۔ ہوتا ہے۔“ گل چرسی اپنی بات پر اڑ گیا۔ ”میں دعوی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ مرغا مسلمان ہے۔ اسے اذان کا وقت معلوم ہے“

    دونوں اس بحث کو لے کے الجھ پڑے۔ بات اتنی بڑھی کہ وہ گالی گفتار پر اتر آئے۔ اتنے میں نمازی گھروں سے باہر آنے لگے انہوں نے جب ان دونوں کون شے کی حالت میں دیکھا تو پہلے وہ اچنبھے میں رہ گئے پھر ان کی خوب سرزنشؐ کی۔ حالانکہ ان دونوں نے بے غیرتی کا ٹھیکرا آنکھوں پر رکھ لیا تھا اسلئے لعنت ملامت ہونے کے باوجود وہ بہت دیر تک محاز پر ڈٹے رہے۔ جب نمازیوں کی تعداد بڑھنے لگی اور اُنہیں ہر طرف سے پھٹکار پڑنے لگی تو وہ دم دبا کر وہاں سے بھاگ گئے اوراپنے اپنے گھر پہنچ کر اس طرح اوندھے پڑ گئے کہ دن کے بارہ بجے تک انہیں ہوش ہی نہیں رہا۔

    دو بجے وہ پھر اسی چوک میں ملے جہاں وہ روز ملا کرتے تھے۔ اس بار وہ بنا کسی علیک سلیک کے سیدھے ٹرانسپورٹ یارڑ کی طرف بڑھنے لگے۔ راستے میں وہ دونوں بالکل خاموش رہے جیسے چپ شاہ کا روزہ رکھ لیا ہو۔ یارڑ میں پہنچے تو وہاں بھی کوئی خوش کن خبر نہ ملی۔ وہاں سے مایوس اور دل برداشتہ ہوکر ان کے قدم خود بخود لال چوک کی طرف بڑھنے لگے۔ اس بار وہ فلم دیکھنے نہیں گئے بلکہ سیدھے رتن لال کے ڈھابے میں گھس گئے۔ انہیں صبح صبح دیکھ کر رتن لال بھی حیران رہ گیا۔ گلچرسی نے جیب سے سو کا نوٹ نکال کر ایک لڑکے سے دیسی دارو کی ایک بوتل منگائی اور پھر وہ دونوں بیٹھ کر پینے لگے۔ دراصل گل چرسی کے دل و دماغ میں اب تکایک ہی سوال کلبلا رہا تھا۔ ایک دو پیگ حلق کے نیچے اتارنے کے بعد اس نے مرغے کی بحث پھر سے چھیڑ دی۔ کاشی وسکی مرغے کے نام سے ہی بر افروختہ ہو اٹھا۔ وہ گلچرسی کی طرف خشم سے دیکھ کر بولا۔ ”کیوں اس بدبخت مرغے کو لے کر تم میرے موڑ کی ایسی تیسی کرنا چاہتے ہو؟“

    کاشی وسکی نے مرغے کو بدبخت کیا کہا کہ گل چرسی ہتھے سے اکھڑ گیا اور طیش میں آکر اس نے اپنا گلاس زمین پر دے مارا اور چلاتے ہوئے بولا۔

    ”تم نے اس پرہیزگار مرغے کو گالی دی؟ یہ تم نے اچھا نہیں کیا کاشی۔ یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔“

    دیکھتے ہی دیکھتے بات اتنی بڑھی کہ وہ ایک دوسرے سے دست گریبان ہونے لگے۔ اس سے پہلے کہ بات حد سے بڑھ جائے، رتن لال بھاگ کر آیا اور وہ دونوں کو سمجھاتے ہوئے بولا۔ ”ارے ارے۔ یہ کیا کر رہے ہو تم لوگ۔ کیوں ذرا سی بات کا بھتنگڑ بنانا چاہتے ہو۔ اس طرح آپس میں لڑنے بیٹھ جاوگے تو لوگ کیا کہیں گے۔ تم دونوں اتنے پرانے یار غار ہو۔ کوئی بات ہے تو اسے مل بیٹھ کر سلجھا لونا۔ اس طرح سب کے سامنے اپنا تماشہ کیوں بنانا چاہتے ہو۔“

    رتن لال کی بر وقت مداخلت نے ان دونوں کو دست گریبان ہونے سے روک لیا۔ طے یہ پایا گیا کہ یہاں سے نکل کروہ سیدھے مرغی فروش ولی محمد کے پاس جائیں گے جو کہ اس مرغے کا مالک ہے اور اسی سے اس بات کی تصدیق کرائیں گے کہ آیا یہ مرغا مسلمان ہے کہ نہیں۔ طوعاً و کراہاً کاشی کو اس فیصلے سے صادکرنا پڑا شام کا وقت تھا۔ ولی محمد دوکان بند کرنے والا ہی تھا کہدونوں آ دھمکے۔ ولی محمدبھی اسی محلے میں رہتا تھا اور ان دونوں کو اچھی طرح جانتا تھا اس لئے جب اُسنے ان دونوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ ترت پھرت دوکان بندکرنے لگا کہ گل چرسی بیچ میں کھڑا ہو گیا اور قدرے بیزاری سے بولا۔ ”ارے تم اس طرح ہوا کے گھوڑے پرسوار کیوں ہو۔ ذرا رکو تو سہی۔ مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے۔“

    ”میری طبعیت ذرا ٹھیک نہیں ہے اس لئے دوکان بند کرکے گھر جا رہا ہوں۔“ وہ مسکین سی صورت بنا کے بولا۔

    ”گھر جانا چاہتے ہوتو شوق سے جاونا۔ کوئی نہیں روکے گا تمہیں۔ ہمیں بس اتنا بتا دو کہ وہ جو بانگی مرغا تمہارے پاس ہے وہ کہاں ہے۔“

    ”وہ مرغا تو میں نے آج ہی بیچ ڈالا۔“ ولی محمد بڑے اطمینان سے بولا۔

    ”کیا“ گل چرسی تیورا کر دھم سے نیچے بیٹھ گیا۔ ”کس کے ہاتھ بیچ دیا تو نے اسے؟“

    ”وہ پپو سنگھ ہے نا جو کورٹ روڑ پر فرئی مچھلی اور چکن کی ریڑھی لگاتا ہے وہی اس مرغے کو خرید کر لے گیا۔“

    گل چرسی کو لگا جیسے کسی نے اس کے سینے پر وزنی گھونسا مارا ہو۔ وہ چکرا کر نیچے بیٹھ گیا اور پھر اپنا سر تھام کر سیاپا کرنے والے انداز میں بولا۔

    ”ہائے رے ظالم۔ یہ تو نے کیا کیا۔ ایک پرہیزگار مرغے کو ایک کافر کے ہاتھ بیچ دیا۔ اس کمبخت نے اس مظلوم کو ایک جھٹکے میں مار ڈالا ہوگا۔“ یہ کہکر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ولی محمد صم بکم بنا رہا۔ بہت دیر تک اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ گل چرسی اس کے مرغے کے لئے اتنا دکھی اور پریشان کیوں ہے۔ اُسنے اس موضوع کے پیچھے زیادہ مغز پچی کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس نے جلدی سے دوکان بڑھالی اور وہاں سے سرپر پاوں رکھ کر بھاگا۔ گل چرسی بلک بلک کر روتا رہا اور کاشی وسکی اس کے پاس سوگوار کی طرح بیٹھا رہا۔ وہ چھاتی پیٹ پیٹ کر کہہ رہا تھا۔ ”اس ظالم پپو سنگھ نے اُسے جھٹکا کرنے سے پہلے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلایا ہوگا۔“ وہ کاشی کی طرف مڑا اور سسکتے ہوئے بولا۔ ”ہمیں ابھی پپو سنگھ کے پاس چلنا چاہے۔ ہو سکتا ہے کہ ابھی اس نے اُس مرغے کو ذبح نہ کیا ہو۔“

    کاشی وسکی کچھ نہ بولا۔ چپ چاپ گل چرسی کے پیچھے ہو لیا۔ وہ دونوں بھاگتے ہوئے پپو سنگھ کے پاس پہنچ گئے۔ ریڑھی پر مسالے لگے مرغے دیکھ کر گل چرسی کا کلیجہ پھٹا جانے لگا۔ وہ جارحانہ انداز سے پپو سنگھ کی طرف دیکھ کر چلایا۔ ”اوئے سر دارا، ظالمامار ڈالا تو نے میرے بانگی مرغے کو؟“

    ”پرا جی میں مرغے نہیں ماروں گا تو کیا مکھیاں ں ماروں گا۔ مرغے بیچنا تو میرا دھندہ ہے۔ آپ بولو کیا چاہے آپ کو؟“

    ”اوئے تف ہو تمہاری اوقات پر۔ تو کیا دےگا مجھے۔ مجھے صرف اتنا بتا دو کہ وہ بانگی مرغا کہاں ہے جسے تم ولی محمد سے خرید کر لائے ہو؟“

    ”وہ مرغا؟“ پپو سنگھ کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ فخریہ انداز میں بولا۔ ”او جی وہ مرغا تو بڑے کمال کا ہے۔ سویرے سویرے جب میں سو رہا تھا تو وہ میرے کمرے میں آکر بانگ دینے لگا۔ اوئے مالکو مزے کی بات سنو۔ اُسکے بانگ دینے کی دیر تھی کہ بغل والے گوردوارے سے گورو گرنتھ صاحب کا پاٹھ شروع ہوا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ مرغا سکھ ہے جبھی تو اس نے گرنتھ صاحب کاپاٹھ شروع ہونے سے پہلے ہی بانگ دے دی۔“

    پپو سنگھ کی بات سن کر کاشی وسکی نے گل چرسی کی طرف دیکھا۔ اس کا منھ تو جیسے ہو ا میں لٹک کے رہ گیا تھا۔ اس نے گل چرسی کا ہاتھ تھاما اور پھر وہ دونوں رتن لال کے ڈھابے کی طرف بوجھل قدموں کے ساتھ بڑھے۔ گل چرسی ابھی تک کاشی وسکی سے آنکھیں نہیں ملا پا رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے