Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بابا

MORE BYنیلم احمد بشیر

    کنول کو اپنے نصیبے پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ واقعی وہاں آ پہنچی تھی؟ یہ تو وہی جگہ تھی جس کا اس نے بچپن سے بس خواب ہی دیکھ رکھا تھا۔ ایسا خواب جس کی تعبیر کی اسے کوئی خاص امید بھی نہ تھی۔ اس کے سکول ماسٹر بابا غیاث الدین نے اس جگہ کے بارے میں اتنا کچھ بتا رکھا تھا کہ اسے لگتا وہ وہاں اس سے پہلے بھی کئی بار آ چکی ہے۔ بابا خود بس ایک ہی بار وہاں آئے مگر اس کی خوبصورتی کے سحر سے کبھی آزاد نہ ہو سکے تھے۔ دراصل بابا کو اس عمارت میں سوئے ہوئے عظیم رہنما سے دیوانگی کی حد تک پیار تھا اور اسی محبت کا بیج انہوں نے اپنی بیٹی کنول کے دل میں یوں منتقل کر دیا تھا کہ وہ بھی اس شخص سے ایک نسبی تعلق، ایک رشتہ، ایک ناطہ محسوس کرتی تھی۔ اپنے آ پ کو اس سے علحٰیدہ نہیں سمجھتی تھی۔

    مزارِ قائد کی سفید، پرشکوہ، سنگِ مرمر کی عظیم الشان باوقار عمارت اس کے سامنے تھی اور اس کی لاتعداد سیڑھیاں کنول کی قدم بوسی کو تیار جنہیں وہ اڑتی اڑتی، دھیرے دھیرے پھلانگ رہی تھی اور مشتاق اس کی بیتابی دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ کتنا اچھا ہے میرا شوہر جس نے میری خواہش پوری کرنے کو دفتر سے چھٹی لی، بس کا کرایہ بھرا اور پھر واقعی مجھے وہاں لے بھی آیا۔ وہ دل ہی دل میں مشتاق کا شکریہ ادا کرتی گئی۔ ان کی شادی کو بھی ایک ہی ماہ گزرا تھا، اس لئے سب کچھ ویسے بھی گلابی گلابی اور اجلا اجلا سا تھا مگر اسے یقین تھا مشتاق کے ہمراہ اس کی زندگی بہت بھرپور اور مسرور ہی گزرےگی۔

    ’’ہائے کتنی پیاری جگہ ہے۔ یہ سرسبز باغ، فوارے، سیرے کرتے ہوئے اتنے سارے لوگ، کتنا اچھا لگ رہا ہے نا مشتاق؟‘‘ اس نے اپنے شوہر کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا

    ’’آج مجھے بابا واقعی بہت یاد آ رہے ہیں۔‘‘ اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں

    ’’ہاں واقعی! ماسٹر جی کی تو مجھے بھی بہت یاد آ رہی ہے۔‘‘ مشتاق نے جواب دیا۔

    گاؤں بھر کے سکول ماسٹروں میں بس ماسٹر غیاث ہی ایسے تھے جن کے گھر اس کا آنا جانا تھا۔ ماسٹر صاحب اور ان کی بیگم بھی مشتاق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے کیونکہ وہ حد درجہ لائق ہونے کے ساتھ ساتھ تمیز دار، فرمانبردار اور سعادت مند بھی تھا۔ اسی لئے جب مشتاق کے گھر والوں نے کنول کو اپنی بہو بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو ماسٹر جی نے ہاں کرنے میں دیر نہیں لگائی اور جلد ہی کنول، مشتاق کی دلہن بن کر اس کے حیدر آباد والے گھر میں منتقل ہو گئی۔

    مزار اندر سے بھی بہت متاثرکن تھا۔ بڑی بڑی اونچی اونچی سنگ مرمر کی دیواروں کا جاہ و جلال اور چھت کے بیچوں لگا ہوا شاندار جگمگاتا چین کا بنا فانوس دیکھ کر تو کنول بس دنگ ہی رہ گئی۔ ایسی کوئی چیز تو اس نے زندگی میں پہلے کبھی دیکھی ہی نہ تھی۔ کنول نے نظریں اونچی کیں تو اس کے کالے ریشمی برقعے میں جارجٹ کا بنا ہوا نقاب اس کے چہرے سے کھسک گیا۔ مشتاق کی ہنسی چھوٹ گئی۔ اس نے ستائشی نظروں سے اپنی نئی نویلی دلہن کے چاند چہرے کو نظر بھر کے دیکھا اور اس کے کاندھے پر پیار سے ٹہوکا دیا۔ کنول بھی مسکرا دی اور ڈوری کو ٹھوڑی کے نیچے کس کر باندھنے لگی۔ اسے مشتاق کے ساتھ یوں باہر آنے، سیر کرنے کا کتنا مزہ آ رہا تھا۔ ہنی مون واقعی مزے کی چیز ہوتا ہے۔ اس کی سہیلیوں نے اسے یہی بتایا تھا مگر اب وہ خود اس کا میٹھا میٹھا تجربہ کر رہی تھی۔ ایک لحظے کو وہ شرما کے رہ گئی۔ چند لمحوں بعد اس کے ہاتھ اس کے بٹوے میں گئے اور ایک ننھی سی کتاب باہر نکل آئی۔

    ’’ارے یہ بھی ساتھ لائی ہو؟‘‘ مشتاق نے حیرت سے کہا اور اسے اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ ’’فرموداتِ قائد‘‘ کی ہرے جلد والی پاکٹ سائز کتاب اب اس کے ہاتھوں میں تھی جسے وہ مضبوطی سے تھامے دیکھ رہا تھا۔

    ’’مشتاق! آپ کو تو پتہ ہے، اس کتاب میں بابا کی جان تھی۔ وہ اسے ہر وقت اٹھتے بیٹھتے اپنے پاس رکھتے تھے۔ میں نے سوچا کیوں نہ اسے بھی مقبرے کی سیر کروا دوں۔‘‘ کنول نے مسکراتے ہوئی کہا

    ’’پگلی ہو تم بھی... بھلا...‘‘ مشتاق نے فقرہ ادھورا ہی چھوڑ دیا۔

    ’’بس اسے مزار سے ذرا سا چھوا دوں گی نا اور کیا... بابا خوش ہو جائیں گے۔‘‘ کنول نے بچوں کی سی معصومیت سے کہا اور آگے بڑھنے لگی۔

    ’’کدھر جا رہی ہو بی بی...؟ آگے جانا منع ہے۔‘‘ مزار پر کھڑے گارڈ نے اس کا راستہ روکتے ہوئے کہا تو مشتاق نے اپنی بھولی بھالی بیوی کا بازو پکڑ کر اسے احتیاطاً پیچھے کی طرف کھینچ لیا۔

    ’’جنگلے سے پیچھے رہیں سب لوگ۔‘‘ گارڈ نے اونچی آواز میں کہا تاکہ سب زائرین اس کی آواز سن لیں۔ لوگوں نے ایک ایک قدم پیچھے کر لیا اور اپنے اپنے ہاتھ اٹھا کر عقیدت سے فاتحہ خوانی کرنے لگے۔ کنول نے ناگواری سے وہاں کھڑے محافظوں کو پل بھر کے لئے غور سے دیکھا اور سوچ میں پڑ گئی۔ باوردی، بندوق بردار، ہوشیار، خبردار، مشاق محافظوں کو کیا سچ مچ علم بھی تھا کہ وہ کس بے جان مگر ہمیشہ زندہ رہنے والے وجود کی حفاظت کر رہے ہیں۔ کیا انہیں ان کے بارے میں واقعی کوئی واقفیت بھی تھی یا بس یونی ڈیوٹی پوری کر رہے تھے؟ کیا انہوں نے کبھی سچے دل سے یہ سوچا ہوگا کہ جس وجود کے آرام کا خیال رکھنے کو وہ چوبیس گھنٹے کھڑے رہتے ہیں اس کا کام، اس کی سوچ، اس کا مقصد حیات، اس کے افکار کیا تھے؟ کنول کو لگتا تھا جیسے صرف اس کے بابا کو ہی پتہ تھا کہ دراصل قائدِ اعظم کیا تھے؟ انہوں نے کیا سوچا اور کیا حاصل کیا تھا۔ اس راہ عشق میں کیا کیا کھویا تھا؟ یہ عظیم ملک ان ہی کی تو دین ہے۔

    ’’کاش ماسٹر جی بھی ہمارے ساتھ ہوتے۔‘‘ مزار سے باہر نکل کر ایک سبز قطعے پر بیٹھے ہوئے مشتاق بولا۔

    ’’ہاں وہ بم دھماکہ نہ ہوتا تو آج بابا بھی ہمارے ساتھ ہوتے۔ انہوں نے یہاں میرے ساتھ آنے کا وعدہ کیا ہوا تھا، کتنا مزہ آتا۔‘‘ کنول کے منہ سے سسکی نکلی۔

    ’’ان بم دھماکوں نے تو ہماری زندگیوں میں وحشت ہی وحشت بھر دی ہے۔‘‘ پاس سے گزرتے ہوئے ایک شخص نے اپنے ساتھی سے کہا جو بڑے غور سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ لوگ ٹہلتے ہوئے باتیں کرتے جارہے تھے۔ ان کا اظہار خیال اکثر قریب سے گزرتے لوگ بھی سن رہے تھے مگر کسی کو بھی اچنبھا نہیں ہو رہا تھا کیونکہ آج پاکستان کے لوگوں کے دلوں میں ایسی زہریلی باتوں کے بدنما شگوفے کھلتے ہی رہتے ہیں اور اب یہ بھی نارمل زندگی میں شامل ہوتا جا رہا تھا ہے کہ لوگ بڑبڑائیں، کڑھیں مگر بس چلتے رہیں، چلتے رہیں۔ بےسمت اور بےمنزل، اندھا دھند اور مسلسل۔

    ’’کتنے دکھ اٹھائے تھے بابا نے مگر انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری تھی۔ بابا بتاتے تھے تقسیم کے وقت ان کے خاندان کے ساتھ بہت ظلم ہوا تھا۔ پتہ ہے نا...؟‘‘ کنول خلاؤں میں گھورتے ہوئے بولی۔

    ’’ہاں کبھی کبھی کلاس میں وہ ایسی باتیں کرتے تو بہت بے چین ہوجایا کرتے تھے۔‘‘ مشتاق نے ہرے جلد والی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا۔

    ’’آپ کو شاید علم نہیں... بابا کہتے تھے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی والدہ اور بہنوں کی آبروریزی کی گئی اور پھر بعد میں انہیں کاٹ ڈالا گیا۔‘‘ کنول نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا

    ’’پھر بھی بابا کہتے تھے... بیٹی! ہمیں شکر کرنا چاہئے کہ ہمارے قائد نے ہمیں اپنا ایک علحٰیدہ ملک دیا ہے، جہاں ہم محفوظ اور آزاد زندگی گزارنے کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں۔ ہندوستان میں تو ہمارا اپنا کچھ بھی نہیں تھا۔‘‘ کنول بولی

    ’’ایک بار ماسٹرجی نے ہمیں کلاس میں بتایا تھا کہ انہوں نے اپنے بچپن میں قائد اعظم کو ایک جلسے میں تقریر کرتے سنا تھا۔ ان کی پرجوش خطابت اور سحر انگیز شخصیت کے آگے کوئی ٹھہر نہ سکتا تھا۔ ایک دیہاتی کو انگریزی کی سمجھ نہیں تھی۔ کسی نے اس سے پوچھا، کچھ سمجھ میں آ رہی ہے کیا؟ وہ بولا نہیں مگر جو بات یہ شخص کہہ رہا ہے وہ سچ ہے اور مجھے اسی پر اعتماد ہے۔ میرے لئے اتنا ہی کافی ہے۔‘‘ مشتاق نے کنول کو بتاتے ہوئے کہا۔

    ’’ہاں بابا کو کبھی کبھی یہ سن کر بہت رنج ہوتا تھا کہ لوگ کہتے ہیں قائدِ اعظم نے پاکستان بنایا ہی کیوں؟‘‘ کنول غمگین لہجے میں بولی۔ بابا کہتے تھے ’’لوگوں کو کیا پتہ کہ وہ حالات کتنے عجیب تھے، جب پاکستان وجود میں آیا تھا۔‘‘

    ’’حالات اب بہت خراب ہو چکے ہیں۔ اس ملک میں صرف جبر کا ہی راج رہا ہے، کبھی فوجی بوٹ کی دھمک اور کبھی سیاستدان کی لوٹ مار کا بازار...‘‘ قریب سے گزرتے ہوئے ایک اور شخص کا تبصرہ کنول اور مشتاق کے کانوں میں پڑا۔ ساتھ ٹہلنے والے نے ہاں میں ہاں ملائی اور دونوں چلتے چلتے دور ہوتے چلے گئے۔

    ’’رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی ہے۔‘‘ کنول اور مشتاق نے آخری فقرہ سنا تو چپ سے ہو گئے۔

    ’’بابا کہتے تھے قائدِ اعظم کو خواتین کا بہت خیال تھا۔ وہ انہیں ہر قسم کی آزادی، خود مختاری اور حقوق دینے کے حامی تھے مگر آپ کو تو میرا کوئی خیال ہی نہیں ہے۔‘‘ کنول نے جھوٹ موٹ منہ پھلا لیا۔

    ’’کیا مطلب؟ تمہاری خوشی کے لئے تمہیں یہاں لے کر آیا ہوں۔ گھما پھرا رہا ہوں اور اب بھی مجھے تمہارا خیال نہیں؟‘‘ مشتاق حیرت سے بولا

    ’’دیکھیں نا... کتنی دیر سے ہم آئے ہوئے ہیں مگر آپ نے اب تک مجھے کچھ کھلایا پلایا بھی نہیں۔ یہ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ کنول شوخی سے بولی اور مشتاق ہنس پڑا۔

    ’’ہاں یہ بات تو تمہاری ٹھیک ہے، واقعی غلطی ہو گئی ہجور... ہم کا مافی دے دو۔‘‘ مشتاق اٹھ کھڑا ہوا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد کنول مزار کے نچلے حصے کی طرف چل دی۔ وہاں کی تاریکی اور خموشی میں ایک عجیب سا اسرار تھا۔ قائد سامنے پڑے سو رہے تھے۔ کنول کو یکلخت ان پر پیار آ گیا اور وہ مرقد کے پائنتی مؤدب کھڑی ہو گئی۔ سلام کر کے آنکھیں بند کر لیں اور عقیدت سے فاتحہ خوانی کرنے لگی۔ فاتحہ ختم کر کے اس نے پر س سے ہرے جلد والی ’’فرمودات قائد‘‘ نکالی۔ اسے پیار سے آنکھوں سے لگایا اور قائد کے سرہانے سے چھوا دیا۔ اسے اندھیرے میں ایک سرسراہٹ سی محسوس ہوئی تو اس نے چونک کر نظریں گھمائیں۔ ایک تاریک کونے میں پڑی ایک چارپائی پروردی اور بوٹ نظر آ رہے تھے۔ کنول گھبرا گئی، بھاگ نکلنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں یکایک ایک زلزلہ سا آ گیا۔ وہ اوندھے منہ نیچے جا گری اور ہاتھ پاؤں مارنے لگی۔ اسے لگا وہ کسی وحشی سمندیر میں ڈوبتی چلی جا رہی ہے، کسی نے اسے دبوچ لیا تھا۔

    اسے ٹھڈوں اور تھپڑوں سے نوازا جانے لگا۔ شکست و ریخت کا ایک طوفان تھا جس میں وہ کسی بادبانی کشتی کی طرح ہچکولے کھا رہی تھی۔ لاتعداد کتے اس کی ہڈیاں چچوڑ رہے تھے۔ بھیڑیئے اس کا گوشت بھنبھوڑ رہے تھے اور دیمک کے کیڑے دیواروں کو چاٹ چاٹ کر کھوکھلا کئے چلے جا رہے تھے۔ اژدہے ثابت جانداروں کو سالم نگل رہے تھے اور لاتعداد کاکروچ اور چیونٹیاں اس کے خوبصورت، تروتازہ، توانا وجود کو ریزہ ریزہ کرنے کی کارروائی میں مصروف ہو چکی تھیں۔ ملک بھر کی لائبریریوں کی شیلفوں پر دھری، قائد اعظم کے بارے میں لکھی جانے والی لاتعداد کتابوں پر جمی مٹی کی تہیں کتابوں کا سانس روکنے میں کامیاب ہو چکی تھیں۔ محافظ اسے سیلاب ذلت میں ڈبو رہا تھا۔ اس کے پاس اسلحہ تھا اور جس کے پاس اسلحہ ہو، وہ جبر میں کامیاب رہتا ہے۔ وہ کچھ بھی نہ کر سکی۔

    ’’فرمودات قائد‘‘ کے صفحات اپنی جلد میں سے نکل نکل کر زمین پر ڈھیر ہوتے چلے گئے اور قائد اطمینان سے سوتے رہے۔ وہ کتنی ہی دیر بے حس و حرکت، خاموش پڑی سسکتی رہی۔ آنکھ کھلی تو دیکھا وہ قائد کی آرام گاہ سے بہت قریب تھی۔ اسے یکدم ایک عجیب سی شرم محسوس ہوئی اور اپنے آپ کو ڈھانپنا شروع کر دیا۔ اس سے زمین پر سے اٹھا ہی نہیں جا رہا تھا۔

    ’’بابا... بابا...‘‘ اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ ایسا لگا جیسے بابا پاس آ گئے ہوں اور اسے زمین پر سے اٹھا رہے ہوں۔ اسے ایک عجیب انوکھی سی طمانیت، تقویت اور تحفظ کا احساس ہوا۔ بابا ہمیشہ سے ہی اسے کٹھن مرحلوں او رمشکل گھڑیوں میں بچا لیا کرتے تھے۔ باہر سے روشنی کی ایک پتلی سی لکیر اندرآتی دکھائی دے رہی تھی۔ کنول اندھیرے میں راہ ٹٹولتے ہوئے اٹھی، فرموداتِ قائد کے بکھرے ہوئے اوراق کو اکٹھا کیا تو اسے لگا جیسے بابا اس کو دھیرے دھیرے روشنی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ بابا کا ہاتھ اس کے شانے پر تھا اور وہ اس کے ساتھ تھے۔

    ’’میرے پیارے بابا...‘‘ کنول بڑبڑائی۔

    چند لمحوں بعد جب وہ روشنی کی لکیر میں راستہ تلاش کرتے کرتے باہر آئی تو اسے خیال آیا... میرے بابا اتنے نحیف، دبلے اور لمبے تو نہیں ہوا کرتے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے