بینگن
فلائیٹ سان فرانسسکوائر پورٹ پر کب کی اتر چکی ہے اور مسافر رینگ رینگ کر امیگریشن اور کسٹمز کے مرحلوں سے گزر چکے ہیں۔ سوائے ان کے جو مرد ہیں، عمریں اٹھارہ سال سے پینتالیس سال کے بیچ ہیں اور چند خاص ممالک کے شہری ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ان کی قطاریں لگی ہوئی ہیں کیونکہ انہیں اپنی ’’سپیشل ایلئین رجسٹریشن‘‘ کروانی ہے۔ اس کے لئے انہیں علیحدہ کمرے میں لے جایاجاتاہے اور پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ اس سب کے دوران اگر پوچھ گچھ کرنے والے افسر کو کوئی شک پیدا ہو تو بات کہیں سے کہیں بھی جاپہنچ سکتی ہے۔ صائمہ، اس کے بچے سیف اور حسین اور نادر کی والدہ اپنی امیگریشن اور کسمٹز کرواکر باہر آچکے ہیں جہاں رام اور کرسٹینا ان کے منتظر موجود ہیں۔ نادر ابھی اندر ہی ہے۔ اس کی ’’سپیشل ایلئین رجسٹریشن‘‘ ہورہی ہے۔
کافی کا یہ مگ شاید تیسرا یا چوتھا، نہیں یہ چوتھا ہی مگ ہے جو وہ لینے جارہی ہے۔ انہیں یہاں بیٹھے بیٹھے تین گھنٹے ہوگئے ہیں۔ وہ نادر کی والدہ سے بھی کافی کاپوچھتی ہے۔ مگر وہ نفی میں سر ہلا دیتی ہیں۔ وہ بھی پچھلے تین گھنٹے سے ایک سخت سی کرسی پر بیٹھی ہیں۔ انہوں نے گرم شال اوڑھ لی ہے اور تسبیح والا ہاتھ شال کے اندر کر لیا ہے۔ اب تھکاوٹ اور فکر سے ان کا چہرہ اجاڑ ہے اور آنکھوں میں نمی ہے۔ وہ ان کے چہرے کی یہ کیفیت نظر انداز کرتی ہے اور کافی کا چوتھامگ ہاتھ میں لئے اپنی جگہ پر آکر بیٹھ جاتی ہے۔
رام اور کرسٹینا ان کے دوست ہیں۔ رام ہندوستانی اور کرسی امریکن۔ رام اور نادریونیورسٹی سے دوست چلے آرہے ہیں۔ کرسٹینا کو پیارسے یہ سب کرسی کہتے ہیں۔ بچے ان دونوںسے بے حد مانوس ہیں۔ یکایک بچے ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں۔ ’’بابا آگئے۔‘‘ ناد رباہرآگیا ہے۔ وہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھتی ہے۔ اس کے بال سلجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے غور سے دیکھنے پر وہ جھنجھلا جاتا ہے اور ترش روئی سے کہتا ہے، ’’کیا ہے؟ کیا پرابلم ہے؟‘‘ اکثر ایسے ہی ہوتا ہے کہ مرد کمزور لمحات میں بیوی پر جھنجھلاتا ہے۔ وہ سوچوں کے بپھرے سمندر میں ہاتھ پاؤں ماررہی ہے۔ یہ سوچیں اسے مزید بے بس کئے دے رہی ہیں۔ ہم چور تو نہیں تھے۔ ہم تو اس ملک میں کچھ بننے کے لئے آئے تھے۔ اپنی زندگی کے چھوٹے سے پودے کو سینچنے اور پرورش کرنے آئے تھے۔ ہمارے پاس اپنی بھاری ڈگریاں اور مضبوط بیگ گراؤنڈ تھی۔ زمانہ قدیم سے لوگ دوسرے ملکوں میں جا کر اقامت پذیر ہوتے چلے آئے ہیں۔ کچھ گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔ کچھ انہی نئی جگہوں پر بس جاتے ہیں۔
’’امی کہاں ہیں؟‘‘ نادر پوچھتا ہے۔ پھر اسے امی نظر آتی ہیں اور وہ ان کے پاس جاتا ہے۔ جو تا آگے کرتا ہے اور بازو پکڑکر انہیں اٹھاتا ہے۔ سب اس سارے سین کو سرسری لینے کی کوشش میں ہیں۔ چادر اوڑھنے میں اماں کے بال ماتھے پر آخر الجھ جاتے ہیں۔ نادر بڑے دلارسے ماں کے بال سلجھاتا ہے اور مسکرا کر ماں سے پوچھتا ہے۔ ’’آپ ٹھیک ہیں نا؟‘‘ اماں بیٹے کے سوال کے جواب میں مسکرا نے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن ایسا کرنہیں پاتیں۔ ان کا چہر دکھ اور حیرت کے دباؤ میں ہے۔ اس سین کو دیکھ کر کرسی قدرے حیراں ہے۔ رام کرسی کی حیرانگی پر تبصرہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں ہمارے کلچر میں یہی ہے۔ ماں بیٹے کا رشتہ ایسے ہی بے ساختہ رویوں سے مزین ہے۔ ماںسے محبت کو کسی مادی شے سے نہیں ناپا جاسکتا۔ باتیں کرتے کرتے سب لوگ گاڑی میں بیٹھ چکے ہیں۔ رام گاڑی سٹارٹ کرتا ہے۔ ماحول سنبھل چکا ہے لیکن ابھی گہری خاموشی ہے۔
اماں کے ساتھ آنے سے گھر میں رونق پھیل گئی۔ تسبیح، جائے نماز، قرآن شریف، چادر، جسے اوڑھ کر اماں نماز پڑھتی تھیں۔ بچے دادی جی کی ان مصروفیات کو بڑے اشتیاق سے دیکھتے تھے۔ ٹی وی لگتا تو دونوں پوتے اور دادی جی فلم دیکھتے۔ اماں اپنے بیٹے کی پسند کے کھانے خود بناتی تھیںاور بچوں کو ان کے بابا کے بچپن کی باتیں سناتی تھیں جو وہ نہایت دلچسپی سے سنتے اور خوب ہنستے تھے۔ سیر سپاٹے، کھانے، پکنک، یہ سب کچھ ہو چکا تو اماں نے ایک روز نادر سے کہا کہ بیٹے اب میری واپسی کا کچھ کرو۔ تمہارے بابا کا خیال آرہاہے۔ یہ گھر میری اگلی نسل کا ہے۔ تم سب خیر وبرکت سے رہو۔ میں اپنے گھر جاؤںگی۔ پھر ہمت ہوئی تو دوبارہ آجاؤنگی۔ اتفاق تھا کہ ایک پاکستان کی فیملی واپس لاہور جارہی تھی۔ نادر کے جاننے والے تھے۔ نادر نے اماں کو ان کی سپر داری میں روانہ کردیا۔
اماں واپس چلی گئیں، گھر میں ان کے وجود کی پھیلی خوشبو مدھم ہونے لگی اور گھر جگہ جگہ خالی نظرآنے لگا۔
صائمہ اسی روز سے ذہنی طور پر بکھری ہوئی چلی آرہی تھی۔ دادی جی کی موجود گی میں اس نے خود کو سنبھالے رکھا تھا لیکن ان کے پاکستان جانے کے فوراًبعد اس نے اپنی امی کو ای میل لکھی۔
پیاری امی، دو سال پہلے کا ایک واقعہ آج آپ کو سناتی ہوں۔ اس وقت سیفوکنڈر گارٹن میں تھا۔ ہم نئے نئے نیویارک سے کیلفورنیا آئے تھے۔
اس سال 16 جنوری کو مارٹن لوتھر کنگ جونئیر ڈے تھا۔ اس روز امریکہ میں بچوں کو امریکن ہسٹری میں سے کالوں کی غلامی کے دور اور کالوں کے استحصال کے بارے میں بتایا جاتاہے اور سمجھایا جاتاہے کہ کس طرح رنگ ونسل کو چھوڑ کر صرف اچھا انسان بننے کی ضرورت ہے۔ سیفو نے بھی کلاس میں غلامی کی چند کہانیاں سنیں اور کالوں پر ظلم وستم کی داستانیں اس کے منے سے دماغ میں گردش کرنے لگیں۔
’’ماما، آپ کو پتہ ہے کہ بلیکس سٹورز میںنہیں جاسکتے تھے۔ اور بسوں میں بھی نہیں چڑھ سکتے تھے۔ اور اگر کہیں بھی گورے کھڑے ہوتے تو بلیکس کو ان کے لئے اپنی Seats خالی کرنی پڑتی تھیں۔ اور ماما، کچھ ایسے سٹورز ہوتے تھے جن پر لکھا ہوتا تھا کہ کتوں اور بلیکس کو اندر آنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
سیف کی اس گفتگو کے کچھ ہی دن بعد میں اسے معمول کے مطابق سکول سے لینے گئی تو اس کی ٹیچر میری منتظر تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ سیف نے آج ایسی بات کی ہے جو میں آپ کو بتانے پر مجبور ہوں۔ ہم مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کی سوانح پڑھ رہے تھے۔ میں نے بچوں کو بتایا کہ اب حالات بالکل مختلف ہیں۔ اب تو Mixed Race فیملیز عام ہوتی ہیں۔ اب رنگ اور نسل کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے اور ان سب رنگوں اور نسلوں کو باہم متحد رکھنے والی قوت کا نام محبت ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا ہماری کلاس میںکوئی ایسی فیملی سے ہے؟ اس کے جواب میں سیف نے کہا کہ اس کے خیال میں وہ Bi-racial فیملی سے ہے کیونکہ اس کے بابا اور بھائی گورے ہیں اور اس کی ماما اور وہ کالے ہیں۔ گوری ٹیچر مصر تھی کہ مسز خان آپ سیف کو بتائیں کہ گو وہ گورانہیں مگر اصل میں کالا بھی نہیں ہے۔ لیکن ماما میں کیا کروں کہ امریکن کے لئے کالا رنگ صرف افریقی کالا ہے۔ پاکستانی، جو رنگوں کی پھلجھڑی ہے، خود کو کس رنگ کا ثابت کرے؟ جی تو چاہا کہ ٹیچر کو بتاؤں کہ پاکستان تو صدیوں سے Multi racial ہے مگر امریکیوں کے سنگل ٹریک مائنڈ کی وجہ سے امریکہ میں پلا ہوا میرا سیفو بابا خود کو حبشی سمجھنا شروع ہوگیا ہے۔
لیکن اس سے بھی زیادہ خاص بات ایک اور ہے جو میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہم کچھ دوستوں کے ساتھ پہاڑوں پر گئے۔ برف کے موسم میں امریکن Skiing کا بہت شوق رکھتے ہیں۔ سو ہم بھی Skiing کرنے والوں میں شامل ہوگئے۔ جس روز ہمیں واپس لوٹنا تھا۔ میں اور سیفو Ski Lodge کی لابی میں نادر اور حسین کا انتظار کررہے تھے جو کمرے سے سامان لینے گئے ہوئے تھے۔ لکڑی کی میزوں کے گرد جمع لکڑی کے بینچوں پر ہم دونوں اور بہت سے دوسرے لوگ بیٹھے تھے مگر جس بینچ پر میں اور سیفو تھے وہ باقی کا خالی تھا۔ اتنے میں ایک سفید فام خاندان، میاں، بیوی اور دوبچے آئے اور ہمارے بینچ کے خالی حصے پر بیٹھنے لگے۔ سیفو نے میری جانب سادگی سے دیکھا اور کہا، ’’اماں کچھ سفید لوگ یہاں بیٹھنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ بہتر ہوگا کہ میں یہ جگہ خالی کردوں ؟‘‘
میں خوش ہوں کہ لابی میں اس قد ر شور تھا کہ سیفو کی آواز میرے کانوں کے علاوہ اور کہیں نہیں پہنچ پائی کیونکہ یہ بات اس نے انگریزی میں کہی تھی۔ اگر وہ گوری فیملی سن لیتی تو یقینا مجھے وضاحت کرنی پڑتی۔ یہ اور بات ہے کہ میری وضاحت کے بعد سب مطمئن ہوجاتے کہ آج کا امریکہ غلامی کے دور والا امریکہ نہیں ہے اور سب کچھ بالکل ٹھیک ہے۔ مگر حقیقت میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ انگریزی کے لفظ''Colour''کے معنی ہمارے ہاں رنگ اور رنگینی کے ہیں جبکہ یہاں امریکہ میں یہی رنگ Racial Profiling کا اولین ذریعہ ہے۔ امی میرے بچے کے لئے یہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
امی جان ایک اور خاص بات۔ وہ یہ کہ ایک دن پلنگ پہ قلا بازیاں کھاتے سیفو نے مجھ سے پوچھا کہ ماما نانی جان مجھے بینگن کیوں کہتی ہیں۔ مجھے تو سمجھ آگئی کہ اس کے من میں کیا ہے مگر میں نے الٹی سیدھی بات بنائی کہ نانی جان آپ کو اس لئے بینگن کہتی ہیں کیونکہ آپ کی آنکھیں خوبصورت اور بینگن کے رنگ والی ہیں۔ اور آپ بینگن کی طرح Shineکرتے ہو۔ سیفو نے مسکراتے ہوئے انتہائی بے اعتباری سے میری طرف دیکھا اور ایک قلابازی لگانے کی تیاری کرنے لگا۔ آپ سوچ سکتی ہیں امی کہ اس کے دماغ میں کیسا کنفیوژن پیدا ہوا ہوگا۔ وہ اس کیفیت کو کوئی سمت دینا چاہتا ہے۔ امی ایسے بھی کبھی ہوا ہوگا کہ کوئی نانی یا دادی بچے کو پیار کا نام دے اور یہ نام بچے کی معصومیت میں اذیت کا باعث بن جائے؟ میری جان، میرا پیارا سیفو! بس امی جی یہی کچھ کہنا تھا۔ آپ کی صائمہ۔
ای میل کرنے کے بعد وہ باہر نکل گئی۔ یونیورسٹی کی طرف۔ وہ جب بھی اداس ہوتی یونیورسٹی اسے اپنی بانہوں میں جکڑ لیتی۔ لمبے لمبے کاریڈور، کھلتے بند ہوتے دروازے، اونچے لمبے درخت، خوبصورت رنگوں سے مزین ہرے ہرے لان اور کیاریاں۔ اس وقت وہ اداسی اور تساہل کی گرفت میں تھی۔ اس کیفیت میں اس نے تھوڑا سا رنگ بھرنے کی کوشش کی۔ ترو تازہ اور بولتی آنکھوں والی لڑکیاں۔ شاداب اور صحت مند چہروں والے لڑکے۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتے اپنے مستقبل کے پیچھے لپکتے۔ اس کے دماغ میں ٹھہراؤ کی لہر بیدار ہوئی۔ اس رات اس نے دیر تک سیفو کو ایسے چمٹائے رکھا جیسے وہ ایک نومولود ہے اور نرس ابھی ابھی اسے اس کے پہلو میں لٹا کر گئی ہے۔ پھر اس نے اسے بہت آہستگی سے کمبل میں لپیٹا اور بستر سے اٹھ گئی۔
کچن میں کھانے کے برتن گندے پڑے تھے۔ ڈش واشر میں لگانے کی بجائے وہ برتنو ں کو ہاتھوں سے ہی دھونا چاہ رہی تھی۔ میں آج اپنی امی کی طرح برتن دھوؤں گی۔ اپنی ساس کی طرح۔ یہ ایک انتہائی حقیر احتجاج اور Catharsis تھا۔ ایسا حقیر کہ وہ اس پر کچھ شرمندہ سی تھی۔ لیکن ابھی اور کوئی راستہ کھلا نظر نہیں آرہا تھا۔ برتن دھونے کے بعد ا س کا کچھ اور کرنے کو جی نہ چاہا تو وہ ٹی وی روم میں آکر صوفے پر لیٹ گئی۔ کسی وقت، کسی طرح اس کی آنکھ لگ گئی۔
صبح صبح اسے پہلا خیال یہی آیا کہ شاید امی نے ای میل کا جواب دیاہو۔ نادر اسے جگائے بغیر واک پر جا چکا تھا۔ صائمہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ گئی اور ای میل چیک کرنے لگی۔
صائمہ میری بیٹی، رزق علم اور نظریے انسان سے بہت سے کڑے امتحان لیتے ہیں۔ یہ تمام امتحان اور آزمائشیں عزت نفس سے جڑے ہوئے ہیں۔ سو ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ تم ایک بہادر لڑکی ہو۔ خود کو سنبھالو۔ کیا تم اس لمحے کی اذیت سے واقف ہو جب تمہیں اپنی تمام وفاداریاں ایک ایسے ملک کے حوالے کرنا ہوںگی جو طاقت اور دولت کے نشے اور حرص میں غلاظت کی حد تک ظالم اور خطرناک حد تک جاہل ہوچکا ہے۔ پاکستان میں بارشیں ہیں۔ آنکھیں بارش سے بھی بھیگتی ہیں اور ویسے بھی بھیگتی ہیں کہ کچھ عرصے سے تمہارے میرے رب کی دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ تمام دکھ الیکڑانک میڈیا روز ہم بے بسوں کی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔ بہر حال موسم خوبصورت ہے۔ چاروں جانب بے پنا ہ سبزہ ہے۔ اس ڈھیروں سبزے کے سینکڑوں رنگ ہیں۔ موسم کے تمام پھل ہیں۔ کیا ایسے خوبصورت پھل اور ایسے خوبصورت رنگ تمہارے وہاں ہیں؟ دیکھو نا میں باز نہیں آتی۔ کچھ نا کچھ کہہ جاتی ہوں۔ میری سب دعائیں تمہارے سکون کے لئے ہیں۔ تمہاری ماں۔
امی کی ای میل سے اسے بجز صبر کی تلقین کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس کے ذہنی اشتعال کی وجہ سے دکھ کا بوجھ مزید حاوی ہوتا چلا گیا۔ ذہن بالکل خالی محسوس ہونے لگا تو ہ باہر برآمدے میں آکر بیٹھ گئی۔ یوں ہی خالی نظروں سے درختوں پودوں اور پھولوں کو دیکھتی رہی۔ اسے پتہ نہیں چلا کہ بچے کب آکر اس کے دائیں بائیں بیٹھ گئے۔ فضا سے نظر ہٹی تو گھاس پر پڑی۔ امی نے لکھاتھا کہ پاکستان میں سبزے کے سینکڑوں رنگ ہیں۔ یہ امی مجھے چڑاتی کیوں ہیں۔ کیا میں نہیں جانتی کہ پاکستان میں سبزے کے کتنے رنگ ہیں۔ اس نے اپنے ذہن میں گھاس، پتوں، پودوں اور پھلوں کے تمام رنگ جمائے تو چپکے سے ایک پرانا خوبصورت خیال اور خیال سے جڑا شعر اس کی زباں پر در آیا۔
چلتے ہو تو چمن کو چلئے سنتے ہیں کہ بہاراںہے
پھول کھلے ہیں پات ہرے ہیں کم کم باد و باراں ہے
گنگناتے گنگناتے اس کے آنسو بے جھجھک ہوکے آنکھوں سے گرنے لگے۔
’’ماما، بابا واک سے آگئے۔‘‘ حسین نے سہمے سہمے ماں کی کہنی ہلا کر بتایا۔ نادر جانتا تھا کہ صائمہ کے ذہن میں کونسا لاوادھک رہا ہے۔ لیکن وہ اس موضوع پر براہ راست بات نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔
’’بچو۔۔۔ آج کون سا دن ہے؟‘‘ نادر نے کہا۔
’’سنڈے‘‘ بچوں نے ماحول کو سازگار ہوتے دیکھ کر نعرہ لگایا۔
’’سنڈے کو ہمارا ناشتہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ نادر نے پوچھا۔
’’آملیٹ اور پراٹھا‘‘ بچوں نے اور زور سے نعرہ لگایا۔
جیسے کلاس روم میں ہوں۔
’’سیفو۔۔۔ آپ کونسی آملیٹ کھاؤ گے؟‘‘
’’پاکستانی‘‘ سیفو ہاتھ کھڑا کر کے چلایا۔
’’بابامیں بھی پاکستانی‘‘ حسین نے کہا۔
’’اور ماما آپ‘‘ نادر نے صائمہ سے پوچھا جو جواباً آہستہ سے ہنس دی۔
Very Good'' نادر نے کہا۔ ’’سب پاکستانی آملیٹ کھائیںگے اور اب جو میں کہنے لگا ہوں وہ سب میرے بعد زور سے دہرائیں گے۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’پاکستان زندہ باد‘‘
بچوں نے اپنے ننھے ننھے بازو ہوا میں لہرائے،
’’پاکستان زندہ باد‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.