Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

برف کا صحرا

طلعت زہرا

برف کا صحرا

طلعت زہرا

MORE BYطلعت زہرا

    برف کا یہ صحرا میری کھڑکی سے نکل کر دور جھکتے آسمانوں کو چھونے کی سعی کر رہا تھا۔ کہیں کہیں کوئی برہنہ شجر اس سمندر نما میں سر اٹھائے مجھے یوں تک رہا تھا جیسے مجھے اپنے سے تشبیہہ دینا چاہتا ہو۔ میں نے سوچا کہاں وہ شجر اور کہاں میں ہونہہ، تم میری طرح قیدی تو ہو لیکن تمہارے سر پر کھلا آسمان ہے اورتمہاری جڑیں زمین میں آباد جب کہ میں۔۔۔؟

    میں، اس کوٹھری میں بند دوبارہ برف زار کی لامحدود وسعتوں کو سمیٹنے کی سعیِ لاحاصل کرنے لگی۔ مجھے معلوم تھا کہ ایک مخصوص فاصلے پہ جا کر اس برف کے نیچے سے زمین کھینچ لی گئی ہے اور پانی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ موجود ہے۔ بظاہر ہر طرف برف ہی برف ہے۔

    مجھے اپنے بچے کو ایک نظر دیکھنے دو، آج ساتوں دن ہے۔ میں اس کے بغیر تڑپ رہی ہوں، بے شک وہ بہت چھوٹا نہیں لیکن پھر بھی۔۔۔ میں نے فریاد کی تھی،

    وہ گرجا اگر لے سکتی ہو تو قانون کا سہارا لو، اب توثقلین کو قانون بھی تمہیں نہیں دلا سکتا، میری طاقت کو تو تم جانتی ہو

    برف کی پہلی سِل میرے لاشعور پر رکھی جا چکی تھی۔

    میری ہمت نے جواب نہ دیا میں گھٹنوں گھٹنوں برف میں بوسیدہ لباس زیب تن کئے اور ٹوٹے جوتوں سے نشان بناتی آگے بڑھتی گئی۔

    ساتواں مہینہ بھی گذرنے والا ہے اور بچے کی شکل تک دیکھنے کو ترس رہی ہوں براہِ مہربانی کچھ تو کیجیئے

    جواب میں وہی ڈھاک کے تین پات آپ بچے سے نہیں مل سکتیں جب تک مقدمہ کی کاروائی میں جج آپ کو اس سے ملنے کی اجازت نہ دے۔

    برف باری زوروں پر تھی ہواؤں کے جھکڑ ریت نما برف کو اڑا اڑا کر آنکھوں میں ٹھندی چبھن پیدا کر رہے تھے، یادیں پیچھا نہیں چھوڑ رہیں تھیں: اس دن بھی برف کا طوفان تھا اور میں ثقلین کا ہاتھ تھامے اس کو سکول لے جا رہی تھی۔ برف اڑ اڑ کر منہ پر پڑ رہی تھی اور وہ معصوم بار بار اپنے ننھے منے ہاتھوں سے منہ صاف کر رہا تھا۔

    مما یہ برف مجھے تنگ کر رہی ہے

    کتنی پیاری پیاری باتیں یاد آ رہی تھیں اور یہ سوچ سوچ کر ذہن پریشان ہو رہا تھا کہ میں نے اس ایک سال میں اور کون کون سے قیمتی لمحات کھو دیئے۔ میں اپنی آنکھوں کی ٹھندک کو اس برفیلی ہوا میں کہاں ڈھونڈوں۔

    میں نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور باقاعدگی سے مقدمے کی پیروری کرتی گئی۔ حتیٰ کہ وہ دن آن پہنچا جب جیت ماں کا مقدر بننے کو تیار تھی۔ صبح دس بجے کورٹ پہنچنے کی جلدی تھی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔

    ’’ہیلو‘‘

    ارے ثقلین، میری جان، میرا دل، میں قربان ایک سال بعد یہ آواز سن کر قابو نہ رہا، کیسے ہو میرے بچے

    ثقلین نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا، مما آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ آپ آج کورٹ میں نہیں آئیں

    مجھے ایک جھٹکا سا لگا، لیکن کیوں میرے بیٹے، اگر میں نہیں گئی تو۔۔۔

    وہ بات کاٹتے ہوئے بولا، مما اگر آپ کورٹ آئیں تو میں آپ کو ساری زندگی اپنی شکل نہیں دکھاؤں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میری ملکیت سے دستبردار ہو جائیں

    یہ جانتے ہوئے بھی کہ ثقلین پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، میں نے اپنا پرس الماری میں ٹانگا ، کوٹ اتار کر ہینگر میں لٹکایا اور ایک نئے ولولے کا عزم لے کر کھڑکی سے باہر برف کا صحرا عبور کرنے کے منصوبے بنانے لگی۔

    سامنے جھکتا آسمان ہی میری منزل تھی اور اس لاحاصل سعی کو حاصل بنانا میری زندگی۔

    برف کی یہ بھاری سِل ہٹانی ذرا مشکل تھی لیکن میں نے اپنا دھیان قائم رکھا۔

    ثقلین، بیٹا اب تو خوش ہونا، میری کورٹ میں غیرحاضری نے مجھے آپ کے حق سے دستبردار کر دیا ہے ثقلین کا فون آتے ہی میں نے اس سے کئے وعدے کے پورا کرنے کی یاد دہانی کروائی۔

    ثقلین کو بچپن سے ہی ایک بات سے بہت چڑ تھی مما، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آج آپ مجھے سکیٹس skates لے کر دیں گی لیکن آپ نے پورا نہیں کیا

    یہ اس کے بچپن کی بات تھی اور میرے جواب پر اس نے کہا تھا لیکن مما کل کا وعدہ تو نہیں کیا تھا نا، آج کا کہا تھا تو آج ہی ہونا چاہیئے تھا

    اس دن کے بعد سے میں صرف وہی وعدہ کیا کرتی جو میں پورا کر سکتی تھی۔ سکیٹس لے کر ہم دونوں برف پر کھیلتے تو وہ مجھے خوب خوب تماشے دکھاتا تھا۔ آج میں بھی ایک برف کا گولا اس کی طرف اچھال چکی تھی اور وہ میرے اس احسان تلے دب چکا تھا۔

    جی مما، شکریہ مجھےآپ کی یہ وعدہ پورا کرنے کی عادت بہت خوش رکھتی ہے بیٹے آپ سے بات کئے ایک سال ہو گیا تھا، امید ہے آپ اپنے بابا کے ساتھ خوش رہ رہے ہوں گے۔

    میرے پیار بھرے لہجے کی ایک ہی چمکتی کرن نے بیٹے کے جذبات پر جمی ساری برفوں کی تہیں نے پگھلا دیں۔

    مما باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن وہ اپنے کئے وعدے کبھی پورے نہیں کرتے۔ اب دیکھیں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں ان کے ساتھ ہی رہوں گا تو وہ مجھے اور میرے دوست کو ایک الگ گھر میں رہنے کی اجازت دے دیں گے لیکن ابھی تک پورا نہیں کیا۔

    اچھا میں اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکی کیونکہ بظاہر یہ سِل اٹھانا میرے بس سے باہر لگتا تھا۔

    مما، کیا آپ مجھے انٹرنیٹ گیم کے لئے اپنا ویزا کا نمبر دے سکتی ہیں صرف سات ڈالر ہر ماہ کی بات ہے

    ثقلین اب مجھ سے وہ کھیل کھیلنا چاہ رہا تھا جو میرے مزاج کے خلاف تھا، یعنی والدین کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرنا۔ لیکن مجھے بھی برف کا صحرا عبور کرنے کے لئے بیساکھی کی ضرورت تھی۔

    ہاں ہاں کیوں نہیں بیٹا، پنسل ہے تو ابھی لکھ لو نمبر اور بیٹا آپ کو معلوم ہے نا کہ مجھے یہ خونی قسم کی گیمز نہیں پسند، ایسا ہوا تو میں ویزا کی سہولت واپس لے لوں گی۔

    نہیں مما یہ صرف گھر بنانے والی ایک گیم ہے، اس میں کوئی کِلنگ نہیں ہوتی

    اوکے۔ میں برف ہٹانے کا کدال سنبھال چکی تھی۔

    دن بھر جتنی برف میں کدال سے ہٹاتی گئی، ہر رات اتنی ہی برف باری سے نئی تہیں جم چکی ہوتیں۔ مجھے اس صبح کا انتظار تھا جب سورج کی کرنیں بھی میرے استقلال کو سلامی دینے آ جائیں۔

    مما

    بولو میری جان آج پورے آٹھ ماہ بعد مجھے اپنے ثقلین کی آواز سنائی دی تھی۔

    مما، کیا میں آپ کے ساتھ رہنے آ سکتا ہوں، صرف ایک دن کے لئے بچے کی التجا بھری آواز سے کلیجہ پھٹنے لگے تو آواز رندھ جاتی ہے لیکن مجھے صبر اور ذہانت سے کام لینا تھا۔

    بیٹا یہ بھی آپ کا ہی گھر ہے، اس میں پوچھنے کی تو کوئی بات نہیں البتہ آپ کو اپنے بابا سے اجازت لینا ضروری ہے۔ کیا آپ نے انکو آگاہ کیا ہے

    نہیں مما پلیز ان کو نہیں بتایئےگا، مجھے ان سے شدید نفرت ہے ، وہ کبھی بھی اپنا وعدہ پورا نہیں کرتے

    اب میں کچھ کچھ صورتحال سے واقف ہو گئی تھی لیکن بیٹا، میں آپ سے وعدہ نہیں کر سکتی کہ میں ان کو نہیں بتاؤں گی کیونکہ اس طرح وہ بہت پریشان ہوں گے، دوسرے آپ بھی مشکل میں پڑ سکتے ہیں

    میری اس بات پر ثقلین نے مجھے احساس دلانے کے لئے کہا مما آپ نہیں چاہتیں کہ میں آپ کے گھر رہوں

    اب مجھے چھتری سنبھال کر اپنا سفر جاری رکھنا تھا۔

    بیٹا، سو بسم اللہ، آپ میرے گھر کی رونق ہو، لیکن یہ رونق میں ہمیشہ کے لئے دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ آپ کوئی بھی جذباتی فیصلہ کرو۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اور آپ نے بھی یہ تین سال کیسے کاٹے ہیں۔ آپ بےشک مجھ سے یا بابا سے نفرت کرتے رہو لیکن ہم آپ سے ہمیشہ پیار کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ جب آپ میرے گھر رہوگے تو آپ کے دوستوں کو بھی ایک خاص دن گھر آنے کی مکمل آزادی ہو گی اور ہم مل کر تمام ویڈیو گیمز کھیلا کریں گے

    مجھے لگا کہ میرا پھینکا ہوا یہ برف کا گولا اس کو کھیل پر اکسانے لگا اور وہ بھی میرے ساتھ آئندہ پروگرام بنانے میں محو ہو گیا۔

    مما یاد ہے جب میرے دوست آتے تھے تو آپ ہمارے ساتھ ہمارا کھیل دیکھا کرتی تھیں مجھے وہ دن بہت یاد آتے ہیں۔ بابا تو کبھی بھی ہمارا کھیل نہیں دیکھتے۔ بلکہ دوستوں کے سامنے ہی ڈانٹ بھی دیتے ہیں۔

    گو اس لمحے اس شخص سے جس نے میری کوکھ کو مجھ سے جدا کیا، میں بدلہ لے سکتی تھی لیکن اس رقابت میں میرے اپنے بچے کا نقصان مجھے ہرگز منظور نہ تھا۔ مجھے برفوں کی سلوں کو ہٹانا تھا، دوسروں پر ان کا بوجھ نہیں ڈالنا تھا۔

    بیٹا بڑے جو بھی کرتے ہیں اس میں بچوں کی بھلائی ہی ہوتی ہے۔ چلو کیا آج ہم باہر ڈنر کے لئے چلیں، میں گورنمنٹ سے اس کی اجازت لے لوں گی صرف مجھے آپ کی خوشی پوچھنی ہے ثقلین تو پہلے ہی اداس تھا میری یہ آفر اس نے فوراً قبول کر لی اور ہم نے اس شام کوالٹی ٹائم گزارا، جس میں صرف ثقلین کی سکول رپورٹ، کھیلیں، دوست اور باقی ایکٹیوٹیز کے بارے میں بات کی اور پھر ہم گو کارٹ go-cart کے مزے لینے لگے۔

    برف پہ کدال چلا چلا کر میرے ہاتھ اور پاؤں سخت سردی میں جم چکے تھے لیکن ایک نئی صبح کا آغاز ہو چکا تھا۔ میری دن رات کی بھاگ دوڑ، دفتروں کے چکر اور ذہانت سے اپنی ہی وکالت کرتے ہوئے اپنے ہی دلائل نے ہیومن رائٹس کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، مجھے میرا ثقلین سے کبھی کبھی ملنے کا حق جو میں نے کورٹ نہ جا کر کھو دیا تھا واپس مل چکا تھا۔ میں جب بھی اس سے ملتی تو اپنے کھردرے ہاتھ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی، کانپتے ہونٹوں سے دعائیں دیتی اور استخوان میں گھسی ٹھنڈک سے لڑتی جھگڑتی اپنے بچے کو سینے سے لگاتی۔ کبھی وہ خوش ہوتا تو کبھی اس کے دل میں بٹھائے گئے اندیشوں اور وسوسوں کو دور نہ کر پاتی۔ میں نے ایک فیصلہ کر رکھا تھا کہ کچھ بھی ہو والدین کے آپسی معاملات کتنے ہی کشیدہ کیوں نہ ہوں، میں بچوں کے سروں میں ان کا بھوت نہیں بننے دوں گی۔ سو میں ہمیشہ ثقلین کو اس کے بابا کی تکریم اور عزت کرنا، پیار کرنا اور زندگی میں اچھے اصولوں کو اپنانے کا ماڈل بن کر ہی دکھاتی رہی۔ وقت گزرتا رہا۔ برف کا صحرا عبور ہوتا چلا گیا اور وہ وقت آن پہنچا جب۔۔۔

    ثقلین، ارے میرے دل کے چین، اندر آؤ نا

    ثقلین نے دروازے سے ہی مژدہ سنایا، مما، بابا نے ہمیشہ کے لئے یہ ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور میں نے سوچا ہے کہ میں اپنی مما کے ساتھ ہی رہوں گا۔ کیا آپ کی اجازت ہے۔

    مجھے لگا کہ آسمان خود جھک کر میرے سامنے آ گیا ہے

    بیٹا آپ کون سا کمرہ لیں گے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے