Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بے زبان کا قتل

کوثر چاند پوری

بے زبان کا قتل

کوثر چاند پوری

MORE BYکوثر چاند پوری

    شہر میں عام طور پر ہراس پھیلا ہوا ہے۔ سڑکوں اور گلیوں پر زندگی کے بہتے ہوئے دھارے رک گئے ہیں۔ بازار بند ہے، کل ہڑتال کااعلان ہو چکا تھا۔ پوسٹر اب بھی دیواروں پر چپکے ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں دو چار دوکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ لڑکے انھیں بند کرانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ پولیس کی گاڑیاں بار بار سنسناتی گزر رہی ہیں۔ ان میں لاؤڈاسپیکر لگے ہوئے ہیں۔ بہت سے جوان سر پر آہنی خود رکھے پیدل گشت کر رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں اور گلے میں کارتوسوں کی پیٹیاں پڑی ہیں۔ وہ کسی سے کچھ کہتے نہیں، تیز تیز آنکھوں سے ماحول ک اجائزہ لے رہے ہیں۔

    جگہ جگہ سائن بورڈ ٹوٹے پڑے ہیں۔ کسی پر لوہے کے لوٹے ابھرے ہوئے حروف ہیں، ماڈرن ڈرائی کلینرس (Modern dry cleaners) لکھا ہوا ہے۔ کسی پر موہن ٹیلرنگ ہاؤں اور کسی پر بھارت کیفے ٹیریا۔ ان میں سے بعض بالکل ٹوٹ گئے ہیں۔ دوکانوں اور فرموں کی پیشانیاں اجڑی اجڑی نظر آ رہی ہیں جیسے کسی نئی نویلی دلہن کے ماتھے سے بندی اتار دی گئی ہو اور مانگ کا سیندور بھی کھرچ ڈالا گیا ہو۔ دوکانیں سہاگ لٹ جانے پر روتی بسورتی محسوس ہو رہی ہیں، کئی دن سے انگریزی کے خلاف ہنگامے ہو رہے ہیں۔ اس بدیشی زبان کی طرف سے جن لوگوں کے دلوں میں نفرت اور حقارت کے جذبات بھڑک اٹھے ہیں، وہ اسے باہر سے آئی ہوئی تہذیب کانشان سمجھ رہے ہیں۔ انھیں یاد نہیں رہا کہ انگریزی نے ہمیں کچھ دیا بھی ہے۔ اس نے لائبریریوں میں ایسی کتابوں کا اضافہ کیا ہے جن سے اندھیرے دماغوں میں چراغ جل اٹھے ہیں۔ یہی زبان ہے جس نے ہمیں سوتے سے جھنجھوڑ کر جگایا ہے۔

    بات کچھ بھی ہو، یہ طے کیا جا چکا ہے کہ انگریزوں کی لائی ہوئی اس علمی اور شائستہ زبان کو ملک سے نکال دینا چاہیے۔ آج دوکانوں، کارخانوں اور کمپنیوں کی پیشانی سے وہ جھومر اتارنے کا پروگرام ہے جو برسوں سے اپنی آب و تاب دکھاتے رہے ہیں۔ اس منصوبے کی تکمیل شہر بھر میں ہو رہی ہے۔ بعض مقامات پر دوکانداروں سے جھڑپیں بھی ہو رہی ہیں۔ دو ایک جگہ آگ لگائی جا چکی ہے۔ فائربریگیڈ کی گھنٹیاں بڑے بھیانک انداز سے بج رہی ہیں اور دھوئیں کے اژدھے فضامیں بل کھا رہے ہیں۔ مظاہرین سے جھگڑا کرنے والوں کی جگہ ملک دشمن صفوں میں ہے۔ انگریزی کی حمایت میں ایک لفظ بھی کسی کے منہ سے نکلتا ہے تو بیسیوں ہاتھ اس کی جانب اٹھ جاتے ہیں۔ ان میں پتھر بھی ہوتے ہیں اور سوڈے کی بوتلیں بھی۔ چند خالی ہاتھوں کی صرف انگلیاں ہی تنی ہوئی ہیں اور پورا پنجہ پھیل کر طمانچہ بن گیا ہے۔ اس کو دیکھتے ہی گالوں پر سرخی دوڑ جاتی ہے اور لال لال بدھیاں ابھر آتی ہیں۔ جلوس نہایت پرجوش نعرے لگا رہا ہے۔

    انگریزی نہیں چلےگی

    انگلش زبان مردہ باد

    انگریزی کے بورڈ اتار دو

    ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے پہلی بار ملک آزاد کرایا جا رہا ہے اور خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر آزادی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ پولیس کے جوان وردیاں پہنے ہاتھوں میں موٹے موٹے ڈنڈے لیے آگے پیچھے چل رہے ہیں۔ بار بار ان کے بازوؤں کی مچھلیاں پھڑپھڑانے لگتی ہیں، ڈنڈوں پر انگلیوں کی گرفت مضبوط ہو جاتی ہے، یوں لگتا ہے کہ ان کی طرف ایک کنکری بھی پھینک دی گئی تو فوراً لاٹھی چارج شروع ہو جائے گا اور چن چن کر نوجوانوں کے سروں پر لاٹھیاں برسائی جانے لگیں گی۔ نوجوانوں کو یہ خصوصیت ورثے میں ملی ہے۔ انگریزی راج میں پرانی نسل کے سپاہی بھی یہی کرتے تھے، اب ان کے بیٹوں اور پوتوں نے اس وراثت کو اپنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سڑک سے گزرنے والے ہر جلوس پر لاٹھی چارج ضرور ہو جاتا ہے۔ آزادی کے زمانے میں اسی عمل سے پولیس کی فرض شناسی اور سرگرمی کا ثبوت ملتا ہے۔ لہو بہے نہ بہے ان کا نام مجاہدوں کی فہرست میں ضرور لکھ لیا جاتا ہے۔

    کسی جلوس کا پرامن طریقے سے نکل جانا پولس والوں کی موت اور غفلت کا نشان ہے۔ جن گلیوں کے آگے سے جلوس گزر رہا ہے، وہاں تماشہ دیکھنے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ وہ نعرے نہیں لگاتے، جلوس کے ساتھ بھی نہیں چلتے، بس دور کے جلوے ہی سے اپنا حصہ لے رہے ہیں، بورڈ کھٹا کھٹ گرائے جا رہے ہیں۔ ان بےتکی آوازوں میں اس شعر کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

    ٹھوں ٹھوں ٹھوں ٹھام کریں گے

    ریل کا پہیہ جام کریں گے

    اور سچ مچ زندگی کی ٹرین ہر چوراہے پر رکی کھڑی ہے۔ اس میں ایسا بریک لگاہے کہ آگے سرکنے کانام ہی نہیں لیتی۔ اس وقت کافی برہمی پیدا ہو جاتی ہے جب کسی طرف سے مزاحمت ہوتی ہے۔ بہت سے امن دوست دوکانداروں نے رات ہی کو انگریزی کے بورڈ اتار دیے۔ مجھے اور جن کو جمہوریت پر بھروسہ تھا یا جو دباؤ سے عقیدہ بدلنے کے حامی نہ تھے، ان کی دوکانوں پر اسی طرح سائن بورڈ آویزاں تھے۔ ان میں جڑے ہوئے پیتل کے حروف سورج کی کرنوں سے آنکھ مچولی کھیلنے میں مصروف ہیں۔ مظاہرین سیڑھریوں پر چڑھ کر انہیں بڑی سنگ دلی کے ساتھ نوچ رہے ہیں۔ چند گز کی بلندی پر کھڑے ہوکر انھیں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ آسمان کے ستارے توڑ رہے ہیں۔ چاند، سورج اور مریخ سب ہی ان کی دسترس میں ہیں۔ ڈھلے ہوئے فگرس کو نالیوں میں پھینکا جا رہا ہے۔ نوجوانوں میں کافی جوش ہے۔ ان کے چہرے تمتما رہے ہیں۔ آنکھیں سرخ ہو گئی ہیں۔ وہ دیوانہ وار چلا رہے ہیں۔

    انگریزی سامراج کی زبان ہے

    انگریزی نہیں چلےگی

    گلی میں کھڑا ہوا ایک کلرک طنزیہ اندازمیں کہہ رہا ہے،

    انگریزی ضرور چلےگی

    انگلش ڈکشنری چلےگی

    یورین بلڈ اور اسٹول ٹیسٹ ہوتا رہےگا

    آپریشن تھیٹر میں سرجن کا نائف چلتا رہےگا

    ڈاکٹر اپرن پہنے بیماروں کو دیکھتا رہےگا

    اور تم بولتا ہے انگریزی نہیں چلےگا، بابا، اس کا پاؤں بہت لمبا ہے، ایک بھارت میں ہے دوسرا امریکہ میں، تیسرا لندن اور اسپین میں اور انگلیاں نہ جانے کتنے ریشوں میں گڑی ہوئی ہیں۔ کینسر کی جڑیں باڈی سے نہیں نکالی جا سکتیں، تم انگریزی کو کیوں کر نکال دو گے۔

    اس کلرک کا تعلق کسی ہسپتال سے ہے۔ اس کے ہاتھ میں ربر کی ٹیوب ہے۔ شاید اینماکین میں لگائی جاتی ہو۔ وہ پھر بولنے لگا ہے،

    انگریزی دیسی ہو یا بدیشی، دوسری بولیوں کے ساتھ اسے چلنے دو۔

    گورنمنٹ انگریز چلا رہا تھا، انگریزی نہیں چلا رہی تھی۔ وہ نہ جانے کب تک بولتا رہتا، اچانک ایک نوجوان نے اس کا بایاں ہاتھ پکڑ لیا جس میں رسٹ واچ بندھی ہوئی تھی۔ وہ بولا،

    یہ گھڑی پھینک دو۔

    کیوں پھنکواتے ہو بابا؟

    اس پر انگریزی کے ہندسے ہیں۔

    پن ٹائم تو وہی ہے جو تمہارے دیش میں چلتا ہے۔

    نوجوان نے کلرک کی بغل سے فائل گھسیٹ لی اور اسے موڑ توڑ کر نالی میں ڈال دیا۔ کلرک بولا، باپ رے باپ! فائل میں ایک کاغذ بھی انگلش کا نہیں، ہم توساتھ والے بابو سے ٹرانسلیشن کرانے جا رہا تھا۔

    اس میں پے شیٹ تھا۔

    ایک پیشنٹ کا ہسٹری تھا۔

    دو تین ٹیسٹ رپورٹ تھا۔

    کلرک نالی میں جھکا فائل نکالنے میں مصروف ہے۔ جلوس آگے برھتا جا رہا ہے۔ نعرے اسی طرح گونج رہے ہیں، سڑکوں پر دوڑتی ہوئی موٹریں روکی جا رہی ہیں، ڈرائیوروں کو نمبر پلیٹ اکھاڑ کر پھینک دینے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ ابھی ابھی ایک ایمبولینس کار کو کھڑا کر لیا گیا ہے۔ اس میں کچھ ایسی عورتیں پڑی ہوئی ہیں جن کی ڈلیوری کاوقت قریب آ چکا ہے۔ ایک عورت کے پیٹ میں درد ہونے لگا ہے۔ اس کی کوکھ سے وہ نسل جنم لینے والی ہے جو ٹھنڈے دل سے یہ فیصلہ کرےگی کہ دیش میں انگریزی رہے یا نہ رہے۔ ایمبولینس کار کا ڈرائیور اپنی سفید یونیفارم پہنے اس طرح سیدھا کھڑا ہے جیسے پانی کے کنارے بگلا ایک ٹانگ پر کھڑا ہو۔ وہ کہہ رہا ہے،

    گاڑی میٹرنٹی سینٹر کی ہے۔ اس میں مہلائیں بیٹھی ہوئی ہیں۔

    وہ تو ضرور بیٹھی ہیں۔ ایک نوجوان طمانچہ تان کر کہہ رہا ہے، مگر یہ انگریزی کی نمبر پلیٹ کیوں لگی ہے؟ مہلاؤں کو بیٹھا رہنے دو، اسے اتار دو۔

    کیا بگاڑا ہے تمہارا انگریزی نے؟

    کیا بگاڑا ہے انگریزی نے، یہ تم پوچھ رہے ہو ہم سے!

    اور کس سے پوچھوں؟

    بکواس مت کرو۔ نمبر پلیٹ اتارکر پھینک دو جلدی سے۔

    میں نہیں اتاروں گا۔

    ہم اتاریں گے۔ ایک دم بہت سے نوجوان ایمبولنس کی کار کی طرف دوڑے ہیں اور نمبرپلیٹ پر جھک گئے ہیں۔

    ڈرائیور کہہ رہا ہے، الگ رہو گاڑی سے، کسی نے ہاتھ بھی لگایا تو جان کی خیر نہیں۔

    اسی وقت اندر سے آواز آئی ہے،

    ہوآں، ہوآں۔۔۔ دراصل وہ نسل جنم لے چکی تھی جو ان جھگڑوں کا تصفیہ کرنے کی ہمت رکھتی ہے۔

    ڈرائیور جلدی چلو، میری بٹیا کے بچہ ہو گیا اور ابھی ہسپتال دور ہے۔

    بچہ ہو گیا؟ ہجوم میں سے کسی نے کہا ہے۔

    پوچھو اس کی بولی کون سی ہے؟

    بڑا ہوکر انگریزی تو نہیں بولےگا؟ کسی اور نے مزاح کے موڈ میں جملہ کسا۔

    انگریزی بولنے کا ارادہ رکھتا ہو تو ابھی زبان کھینچ لو تالو سے۔

    اسی دوران میں ایک سردار کار ڈرائیو کرتا ہوا آ گیا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ٹرانسسٹر ہے، گانے کی سریلی آوازیں بالکل یوں نکل رہی ہیں جیسے چنبیلی کے پھول سے مہک پھوٹا کرتی ہے۔ ایک رضاکار نے اس سے کہا، نمبر پلیٹ اتار دو اور ٹرانسسٹر پر بھی انگریزی لکھی ہے تمہارے۔

    اب تک انگریزی ہی لکھی جاتی رہی ہے۔ ٹرانسسٹروں پر دھیرے دھیرے دوسری زبانیں بھی لکھی جانے لگیں گی۔ سب کام آہستہ ہوا کرتے ہیں۔ روم ایک دن میں آباد نہیں ہو گیا تھا۔ بچہ نو مہینے سے پہلے پیدا نہیں ہوا کرتا۔

    اس نے ایک منٹ پہلے ہی ایمبولینس میں جنم لیا ہے، سردارجی انقلاب کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے، راکٹ سے بھی زیادہ تیز۔

    اچھا تو انقلابی ہیں آپ لوگ، معاف فرمائیے میں آپ کی توڑ پھوڑ والی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتا، نمبر پلیٹ یہی رہے گی اور ٹرانسسٹر پر انگریزی بھی لکھی رہےگی۔ اچھا سست سری اکال!

    سردار نے مسکراتے ہوئے کار اسٹارٹ کر دی اور اس کی ایمبیسڈر کار مگرمچھ کی مانند سڑک پر تیرنے لگی۔

    جلوس اپنے راستے پر بڑھ رہا ہے۔ پولیس کے جوان ڈنڈے تانے حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے بازوؤں پر تڑپتی ہوئی مچھلیاں دم توڑنے لگی ہیں، جیسے انھیں پانی سے نکال کر پھینک دیا گیا ہو، ٹیئر گیس شیل چلانے کی امنگ بھی دل میں گھٹ کر رہ گئی ہے۔ جن لوگوں کے نزدیک زندگی ایک ہنگامہ ہی کا نام ہے، وہ اس خاموشی سے سمجھوتہ نہیں کیا کرتے، جوان ہجوم کی بزدلی پر چپکے چپکے ملامت کر رہے ہیں۔

    سامنے چوراہے پر ڈاکٹر اروڑا، ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کامیڈیکل ہال کھلا ہوا ہے۔ وہ ایک ہاتھ کا آدمی ہے۔ کٹے ہوئے ہاتھ کو آستین میں چھپائے سوچ رہے ہے، کہاں ہیں دونوں ہاتھوں سے دنیا کو لوٹنے والے، میں نے ایک ہی ہاتھ سے نہ جانے کتنی تجوریوں کو خالی کر دیا ہے، ان بیوقوفوں میں سے بھی دس بیس گھائل ہوکر ابھی مرہم پٹی کرانے آئیں گے۔ میڈیکل ہال کے آگے بیماروں کا جمگھٹا ہے، ایک دبلی پتلی، دھان پان عورت رنگین ساری باندھے انچی ایڑی کا سینڈل پہنے، پھول سے منے کو گود میں لیے تیزی سے میڈیکل ہال کی سمت چل رہی ہے۔ اس پر ہنگامہ کا کوئی اثر نہیں ہے۔ وہ جلد سے جلد ڈاکٹر اروڑا سے مل کر کہنا چاہتی ہے،

    ڈاکٹر کل تم نے میرے منے کو دوا دی تھی،

    یہ سات ہی دن کا ہے ابھی،

    رات بھر روتا رہا ہے،

    دوا سے اس کا پیٹ پھول گیا۔

    شام سے صبح تک گود میں لیے پھرتی ہوں، ابھی اس نے آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ ہجوم میڈیکل ہال کے قریب پہنچ کر رک گیا ہے، کسی نے کہا ہے بورڈ اتار لو۔

    بھائی یہ میڈیکل ہال ہے۔ یہاں پر دوائیں بانٹی جاتی ہیں۔ کوئی اور بولا ہے۔

    وہ الگ بات ہے۔ ہم بورڈ اتارنے کو کہہ رہے ہیں۔ ایک دم ہلہ بول دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اروڑا گلے میں اسٹیتھیسکوپ ڈالے بغیر ہاتھ کی آستین ہلاتا دروازے میں آیا ہے اور امن کا پرچم بن کر کھڑا ہو گیا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے،

    شانت رہو دوستو!

    Please be Patient

    چھی! تم انگریزی بول رہے ہو۔

    بائیبل امن کاسبق دیتی ہے۔ گیتا اور قرآن کا بھی یہی کہتا ہے۔

    چپ رہو حضرت مسیح کے چیلے، یہ بتاؤ کہ بورڈ اب تک کیوں نہیں اتارا؟

    صرف اس لیے کہ بیمار یہ نہ سمجھ لیں کہ میں دنیا میں نہیں ہوں، انہیں کوئی مس انڈراسٹینڈنگ نہ ہو جائے۔

    تم انگریزی بولے جا رہے ہو؟

    یہ بڑی پیاری زبان ہے دوستو!

    ایک لڑکے نے ڈاکٹر کے منہ پر زور سے چپت مار کر پوچھا ہے اور یہ چانٹا کیسا ہے؟

    ڈاکٹر نے بڑے وقار کے ساتھ صرف اتنا کہا ہے، مائی ڈیر سن، یہ بھی بہت پیارا ہے، آگے آؤ میں تمہارا منہ چوم لوں۔

    میں تمہارے قریب نہیں آؤں گا، تم انگریزی بولتے ہو۔

    مگر ہندوستانی زبان سے بولتا ہوں۔

    ہجوم مشتعل ہو گیا ہے۔ لوگ سیڑھی کے ڈنڈوں پر پاؤں رکھ کر چھت پر چڑھ گئے ہیں اور بورڈ اتار کر نعرے لگا رہے ہیں، بہت سے لڑکے میڈیکل ہال میں گھس گئے ہیں۔ وہاں ہر طرف انگریزی ہی انگریزی تھی، بوتلوں، شیشیوں اور الماریوں پر انگریزی ہی میں چٹیں لگی ہوئی تھیں۔ بہت سے کاغذات اسی زبان میں چھپے ہوئے میز پر رکھے تھے۔ بوتلیں اور شیشیاں باہر پھینکی جانے لگیں، ذرا سی دیر میں سڑک کے سیاہ چہرے پر سفید، نیلے اور سرخ دھبے پڑ گئے۔ اسپرٹ، کلوروفارم اور ٹنکچر کارڈیم کی مہک فضا میں گھل گئی۔ عورت میڈیکل ہال کے سامنے پہنچ گئی ہے اور فٹ پاتھ پر کھڑی سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ اسکولوں کے طالب علم کندھوں پر سیڑھیاں رکھے دوسری دوکانوں سے بورڈ اتارنے کے لیے ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹر اروڑا اپنے ایک ہاتھ سے مختلف کام کر رہا ہے۔ اس نے الماریوں میں چابیاں گھمائیں ہیں، بی پی آپریٹس میز سے اٹھاکر کارنس پر رکھ دیا ہے اور پولیس اسٹیشن سے فون ملاکر کہہ رہا ہے۔

    Help- Help

    My life is in danger

    پولیس کے جوانوں نے میڈیکل ہال کو گھیر لیا ہے۔ بورڈ اتار دیا گیا ہے، بوتلیں پھینکی جا رہی ہیں، پولیس کے جوان بس حکم کے منتظر ہیں لیکن آرڈر نہیں دیا جا رہا، عورت نے منے کو چھاتی سے چمٹا لیا ہے وہ بلک بلک کر رو رہا ہے کسی طرح خاموش نہیں ہوتا۔ اس نے دونوں ہاتھوں کی کلائیوں پر منے کو ڈال لیا ہے اور جھولا جھلانے لگی ہے۔

    چپ جا میرے چندا

    ابھی ڈاکٹر کو دکھاتی ہوں

    وہ اس طرح بچے سے باتیں کر رہی ہے جیسے وہ ان طفل تسلیوں کو سمجھ رہا ہو۔ بچہ روئے جا رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورت کی کوئی بات نہیں سمجھ رہا ہے۔ وہ بھیڑ کو چیرکر میڈیکل ہال کی سمت بڑھتی جا رہی ہے اور ایک آدمی کو آگے سے ہٹاتے ہوئے کہہ رہی ہے،

    یہ ڈاکٹر کی دوکان ہے،

    یہاں روگی اور دکھیارے ہی آتے ہیں،

    ڈاکٹر اروڑا ہندوستانی ہے۔ میں نے اسے ہاتھوں سے روٹی کھاتے دیکھا ہے، وہ چھری کانٹے سے نہیں کھاتا،

    بڑا پکا ویجی ٹرین ہے۔

    مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے،

    راستہ دو، ایک طرف ہٹ جاؤ۔

    وہ چار قدم ہی چلی تھی کہ ایک بوتل منے کے سر پر گری اور پھوٹ گئی، کانچ کے نوک دار ٹکڑے سر میں چبھ گئے، خون بہنے لگا، بچہ ہاتھ پاؤں مارتے مارتے اچانک خاموش ہو گیا۔ عورت اس کے لہو میں بھیگے ہوئے جڑولے بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی ہے، اس کی گردن ڈھلک گئی ہے، چہرہ بے رونق ہو گیا ہے۔ عورت کہہ رہی ہے۔

    سات دن کے اس بےزبان کو کیوں مار ڈالا پاپیو!

    مأخذ:

    آوازوں کی صلیب (Pg. 151)

    • مصنف: کوثر چاند پوری
      • ناشر: حلقۂ فکر و شعور، دہلی
      • سن اشاعت: 1974

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے