Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بے گور

جوگندر پال

بے گور

جوگندر پال

MORE BYجوگندر پال

    کہانی کی کہانی

    یہ کہانی ہندوستان میں غریبی اور فاقہ کشی کے شکار لوگوں کے خوفناک حالت کی عکاسی کرتی ہے۔ کلکتہ آئے ایک امریکی ڈاکٹر کو اپنے ریسرچ کے لیے پانچ مردوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے وہ ایک ایجینٹ سے بات کرتا ہے۔ ایجینٹ اسے شہر کی سڑکوں سے ہوتا ہوا ایک ایسی گلی میں لے جاتا ہے، جہاں غریبی اور بھوک سے موت کے قریب پہنچے لوگوں کی بھیڑ جمع ہوتی ہے۔

    کلکتہ کے فائیواسٹار ہوٹل میں ایک کمرے کی گھنٹی کی آواز سن کر امریکی ڈاکٹر دروازہ کھولنے لگا۔

    ’’کون؟‘‘

    ’’میں رام دین ہوں صاحب۔‘‘

    ’’تم آگئے؟ آؤ میں تمہارا ہی انتظار کر رہاتھا۔‘‘

    ’’اگر آپ تیار ہیں تو چلیے۔‘‘

    ’’ہاں چلو، کیا پورے پچاس کا انتظام ہوگیا؟‘‘

    ’’ہاں، صاحب۔ سویاہزار بھی ہوتے تویہاں کیا کمی ہے؟‘‘

    ’’تو چلو۔‘‘

    وہ دونوں کمرے سے نکل کر باہر ہوٹل کے پورچ میں پہنچے تو امریکی ڈاکٹر کاڈرائیور اسے دیکھ کر کار وہیں لےآیا۔ امریکی ڈاکٹر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور رام دین آگے ڈرائیور کےساتھ۔

    ’’کہاں چلنا ہے؟‘‘

    ’’چاؤرنگی۔‘‘

    ’’کیا یہ نام کسی بہت بڑے مردہ خانے کا ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ ہاں، یہی سمجھ لیجیے صاحب۔‘‘

    ’’چلو، ڈرائیور۔‘‘

    ڈرائیور نے گاڑی کو اسٹارٹ کیا تو وہ پہلے تو کسی ذی روح کے مانند کھی کھی ہنس پڑی اور پھر گویا کھڑے کھڑے ہوٹل کے باہر آگے سڑک پر اڑنےلگی۔

    ’’تم نے واقعی کمال کردیا رام دین۔ ایک دم پورے پچاس کا انتظام کردیا۔‘‘

    ’’ہمارے دیس میں بڑے سے بڑی ضرورت کا بھی ایک دم انتظام ہوجاتا ہے۔ بس آپ کی جیب میں پیسے ہوں۔‘‘

    ’’فکر مت کرو،مال ملتے ہی دام چکادیے جائیں گے۔‘‘

    نہیں صاحب، پیسوں کی مجھے فکر نہیں۔ آپ کے ملک سے میرا پرانا لین دین ہے۔ مجھے معلوم ہے امریکی بڑے کھرے اور زندہ لوگ ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’یہی تو ہم ڈاکٹروں کی مصیبت ہے ہمارے دیس میں کسی کے مرنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔‘‘

    ’’لیکن مرنے والے تو مرتے ہی ہوں گے؟‘‘

    ’’نہیں مرنے کا ارادہ کرکے بھول جاتے ہیں۔‘‘

    ’’ہہ۔ ہہ ہا۔۔۔ ہہ۔۔۔ ہمارے ڈاکٹر تو ہر وزٹ کی فیس ساتھ ساتھ چارج کرلیتے ہیں کہ اگلے وزٹ سے پہلی ہی مریض چلتا نہ بنے۔‘‘

    ’’ہاں، جہاں موتیں اتنی عام ہوں وہاں ڈاکٹر کیا کریں؟ چھوٹے چھوٹے بل وصول کرنے کے لیے کیا وہ مردوں کے پیچھے ہو لیا کریں؟‘‘

    امریکی ڈاکٹر کی نگاہ اچانک باہر کے لوگوں کے سیلاب پر اٹھ گھی اور وہ جھرجھری سی لے کررہ گیا۔ کسی کے چہرے پر شخصی زندگی کے آثار نہ تھے۔ سب ہی اپنے آپ ادھر ادھر آجارہے تھے۔ ایک دوسرے سے بےخبر۔ یہیں، لیکن نہ جانے کہاں۔ ان کی آنکھیں انھیں کچھ بتائے بغیر دیکھ رہی تھیں۔ پاؤں از خود اٹھ رہے تھے۔ اتنا شور و شغب تھا مگر انہیں کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔

    ڈاکٹر نوٹ بک اور قلم نکال کر لکھنے لگا۔

    ۱۵جون، ۱۹۵۷ء۔ کلکتہ کی ایک سڑک۔ سڑک پر لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ ہیں، مگر تعجب ہے کہ کسی میں بھی زندگی کے کوئی آثارنہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ قبروں میں ان کا دم گھٹنے لگا اور سب کے سب باہر نکل آئے۔ یا باہر آکے تھک ہار گئے اور اب قبروں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔۔۔ وہ لکھتے ہوئے رک گیا اور کار کے باہر گھورنے لگا۔۔۔ کیا یہ لوگ واقعی زندہ ہیں۔۔۔؟اس سانحہ کی طبی نوعیت تک پہنچنےکے لیے وہ بڑی جوش آفریں متانت سے سوچ رہا تھا۔۔۔ ہاں، کیوں نہیں؟ اگلے مہینے میں اپنے یہاں ڈاکٹروں کی کانفرنس میں بڑی سنجیدگی سے یہ سوال اٹھاؤں گا۔۔۔ عین ممکن ہے کہ ۔۔۔ نہیں، نہیں کیوں؟ ہوسکتا ہے کہ انسانی مشین بدستور چلتی رہے مگر انسان مرچکا ہو۔ ہاں۔۔۔ اسے ثابت کیا جاسکے تو۔۔۔ نہیں، ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔؟ وہ پھر باہر دیکھنے لگا۔۔۔ نہیں، جب ہو ہی گیا ہے تو کیسے نہیں ہوسکتا۔۔۔؟ وہ مسکرانےلگا۔

    سامنے چوک پر میکانیکی سرخ بتی آجانے پر ڈرائیور کی جانب اپنی قطار میں گاڑی روک لی اور ڈاکٹر چہروں کی بھیڑ میں کسی ایک پر نظر جمانےکی کوشش کرنےلگا۔ مگر طغیانی میں آنکھیں کہاں ٹک پاتی ہیں؟ اسی اثناء میں اس کی گاڑی کےقریب سے چند لوگ گزرنےلگے اس نے اپنا سر کھڑکی کی طرف بڑھاکر ان کی طرف مسکراکر دیکھا مگر وہ اس سے، ایک دوسرے سے، اپنےآپ سے بھی قطعی بے خبر چلتے گئے۔۔۔ گرین لائٹ آتے ہی کارحرکت میں آگئی۔۔۔ ان لوگوں میں سے کوئی شخص مجھ سے اپنی موت کاسرٹیفکیٹ طلب کرے تو؟ ہاں، کیوں نہیں اگر وہ زندہ نہیں تو اسے اپنی موت کا سرٹیفکیٹ طلب کرنے کا حق حاصل ہے یا پھر کسی موت کاقانونی سرٹیفیکٹ دینے سے پہلے کسی طرح کا طبی معائنہ صحیح ہوگا؟

    ڈاکٹر نےاپنےخطیبانہ سوال سے بے چین ہوکر سگریٹ سلگالیا، لیکن شاید سگریٹ نوشی کے خطرناک نتائج پر کسی مقالے کا اچانک خیال آجانے پر اسے فوراً بجھا دیا اور سیٹ پر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔

    ’’صاحب۔۔۔۔ب!‘‘

    ’’ہاں۔ں!‘‘ ڈاکٹر نے اپنے خیالات سے چونک کر جواب دیا۔

    ’’وہ۔۔۔ ادھر۔۔۔ وہ پٹری ہے نا۔ کوئی پون گھنٹہ پہلے کی بات ہے کہ میں یہاں سے گزر رہا تھا ۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہاں اس ستون کے پاس پڑی ہوئی ایک لاش یک بارگی اٹھ کھڑی ہوئی اور چلانے لگی، ’’سنو! ارے بھئی! مگر کسی نے اس کی طرف دھیان نہ دیا۔ وہ اور زور سے چلانے لگی، ایک لاش تم سے مخاطب ہے لوگو! سنو۔۔۔ لوگ اس کی طرف دیکھے بغیر اپنی اپنی راہ چلتےرہے۔‘‘

    ’’کیا یہ نہیں ہوسکتا رام دین، جسے تم لاش کہہ رہے ہو ساری بھیڑ بھاڑ میں صرف وہی زندہ ہو اور باقی سارے کے سارےمردہ؟‘‘

    ’’مگر صاحب، ان باقی سب میں تو میں بھی تھا۔ اگر آپ میرا فری میڈیکل ٹیسٹ کرنے پر رضامند ہیں تو بے شک اطمینان کرلیجیے۔ میں تو زندہ ہوں۔‘‘

    ’’تو پھر تم ہی اس لاش کی مدد کرنےکے لیے رک گئے ہوتے۔‘‘

    ’’کیسے رک جاتا؟ مجھے عین وقت پر آپ سے ہوٹل میں ملنا جو تھا۔‘‘

    ’’پورے پچاس کاانتظام کرکے آئے ہو نا؟‘‘

    ’’ہاں صاحب، کہہ دیا نا پورے پچاس کا۔ آپ چاہیں تو پورے سو بھی خرید سکتے ہیں۔‘‘

    ’’ویری گڈ۔۔۔ اچھا بتاؤ، بھلا وہ لاش کہنا کیا چاہ رہی تھی؟‘‘

    ’’صرف یہ کہ مجھے دم توڑے چھ گھنٹے سے بھی اوپر ہولیے ہیں، کوئی خدا کا بندہ مجھ پر رحم کھائے اور کسی قبرستان کی راہ پر ڈال آئے۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’پھر کیا؟ کسی نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ بے چاری مایوس ہوکر آپ ہی اپنے لیے کوئی قبرستان ڈھونڈنے کہیں نکل گئی ہوگی۔‘‘

    ’’مگر کیا وہ لاش سچ مچ کی لاش تھی؟‘‘

    رام دین ہنسنے لگا، ’’آپ اتنے پہنچے ہوئے ڈاکٹر ہیں صاحب۔ آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ لاش ہوگی تو سچ مچ کی ہوگی۔‘‘

    ’’ہاں، ہاں، اس میں کیا شک ہے؟‘‘

    امریکی ڈاکٹر کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ کیا سوچے اس لیے سوچے بغیر وہ رام دین سے پوچھنےلگا، ’’کیا تمہارے یہاں موت کاسرٹیفیکٹ لینا ضروری نہیں؟‘‘

    رام دین پھر ہنس پڑا، ’’آپ امریکی لوگ اتنے سمجھ دار ہوتے ہیں صاحب پھر بھی بھولے کے بھولے۔ اس لاش کو کوئی قبرستان کے راستے پر بھی نہیں ڈال رہا تھا۔ غریب موت کے سرٹیفکیٹ کے لیے دفتروں کے چکر کہاں کاٹتی پھرتی۔۔۔ یا پھر رشوت دے کر زندگی میں ہی سرٹیفکیٹ حاصل کرلیتی۔ مگر رشوت کے پیسے ہوتے ان سے دوا دارو کرلیتی۔ اس کا مرنا ہی کیوں ہوتا؟‘‘

    رام دین کے مذاق کا لہجہ ڈاکٹر کو بھونڈا بھی لگ رہا تھا اور دلچسپ بھی۔

    ’’آپ شاید یہ سوچ رہے ہیں صاحب، کہ سرٹیفکیٹ کے بغیر اس بھلے آدمی کو پتہ کیسے چل گیا کہ اس کی موت واقع ہوچکی ہے۔‘‘

    ’’ہاں، ہمیں تو کسی کے مرنے کا یقین اسی وقت آتا ہے جب اس کی موت کی ڈاکٹری تصدیق ہوجائے۔‘‘

    ’’آپ کی بات اور ہے صاحب۔ ہمارے سارے سرٹیفکیٹ جعلی ہوتے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی موت پر اسی وقت یقین آتا ہے جب ہم آپ ہی محسوس کرنے لگیں کہ ہم مرچکے ہیں۔۔۔ ڈرائیور، اب یہاں سے بائیں طرف مڑجاؤ۔ ہمیں اسی گلی میں آناتھا۔‘‘

    ’’تم لوگ اپنے ہسپتال اتنی تنگ اور گندی گلیوں میں کیوں بنواتے ہو؟‘‘

    ’’یہاں ہسپتال نہیں ہے۔‘‘

    ’’مگر مردہ خانہ تو اسپتال کے ساتھ ہی ہوتاہے۔‘‘

    ’’آپ آئیے تو صاحب، ہمارے غریبوں کو دواخانے اور مردہ خانے کہاں نصیب ہوتےہیں۔۔۔؟ ٹھیر جاؤ، ڈرائیور! بس یہیں!‘‘ گاڑی رک گئی۔

    امریکی ڈاکٹر نے دیکھا کہ کئی پھٹے حال بوڑھے، جوان اور بچے گلی میں ایک طرف قطار باندھے کھڑے ہیں۔

    ’’یہاں کہاں لے آئے ہو؟‘‘

    ’’جہاں ہمیں آنا تھا،‘‘ رام دین گاڑی سے نکلتے نکلتے بات پوری کرنےکے لیے رک گیا۔

    ’’آپ کے پاس آنے سے پہلے میں ہی انہیں یہاں کھڑا کرگیا تھا۔‘‘

    ’’مگر میں نے تو مردوں کا آرڈر دیا تھا۔‘‘

    ’’غور سےدیکھیے صاحب، کیا یہ لوگ آپ کوزندہ معلوم ہوتے ہیں؟‘‘

    ’’مجھے یہ مذاق پسند نہیں، رام دین۔‘‘

    ’’میں مذاق نہیں کر رہاہوں، صاحب، مردوں کو تو اپنے مرچکنےکااحساس بھی نہیں ہوتا،مگر انہیں غور سے دیکھیے، ہرایک کو پورا احساس ہے کہ وہ مرچکا ہے۔‘‘

    امریکی ڈاکٹر گھبراکر ان مفلوک الحال لوگوں کی طرف دیکھنےلگا۔

    ’’عجیب آدمی ہو! میں نے تو کہا تھا ہمیں اپنے ملک میں طبی تجربوں کے لیے پچاس مردوں کی ضرورت ہے۔‘‘

    رام دین ہنسنےلگا، ’’نہیں صاحب، مجھے معلوم نہ تھاکہ آپ اتنی دور سے قبریں کھدوانے کے لیے آئے ہیں۔ میں نے تو سوچا تھا ساری دنیا کے ملک ہمارے دیس سےآدمی لے جاتے ہیں، آپ کو بھی ان سے کوئی ایسا کام لینا ہوگا جو صرف مرے کھپے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔‘‘ رام دین اپنی ململ کی ٹوپی اتار کر سرکھجانےلگا۔ ’’ایک بات کہوں صاحب۔۔۔؟ ان سب کو آج کل میں مرہی جانا ہے۔ بہت سےتو راستے میں جہاز پر ہی دم توڑ دیں گے۔۔۔ ان کی شکلیں دیکھیے اور بتائیے، کیا میں غلط کہہ رہاہوں۔‘‘

    ’’تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟‘‘

    ’’میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ چپکے سے ان ہی کو لے جائیے۔‘‘

    ’’بکواس بند کرو اور صاف صاف بتاؤ کیا تم پچاس مردے۔۔۔ سچ مچ کے مردےمہیا کرسکتے ہو؟‘‘

    رام دین نےسرکھجاکر اپنی ٹوپی پھر اسی جگہ پر سجالی۔

    ’’آپ کی میڈیکل سائنس تو ہماری سائنس سے بہت آگے نکل چکی ہے صاحب، آپ خود ہی ان سب کا ٹھونک بجاکر معائنہ کرلیجیے آپ کو یقین آجائے گاکہ یہی سچ مچ کے مردے ہیں۔ ٹھیریے میں آپ کوموٹے طریقے سے سمجھاتا ہوں۔‘‘

    رام دین گاڑی سے نکل کر اس قطار کی طرف آگی اور کچھ بولے بغیر اس نے ایک آدمی کے منہ پر زور سے تھپڑ دے مارا۔ اس آدمی نے مدافعت کی نہ گالی بکی، بس چپ چاپ جوں کا توں کھڑا رہا گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ رام دین فاتحانہ چال سے واپس امریکی ڈاکٹر کے پاس آکھڑا ہوا۔

    ’’کیا اب بھی آپ کو یقین نہیں آیا کہ یہ سب کے سب سوفیصد مردے ہیں؟‘‘

    امریکی ڈاکٹر نےسراسیمہ خفگی کے ساتھ اپنے ڈرائیور کو مخاطب کیا، ’’واپس چلو، ڈرائیور!‘‘

    ’’ٹھیریے صاحب، میری مانیے اور انہیں لے جائیے۔ آپ جیسا تجربہ کرناچاہتے ہیں اطمینان سے ان ہی پر کرلیجیے۔ ٹھہرو ڈرائیور! پیسے چاہیں تو اپنی تسلی کے بعد اداکیجیے صاحب۔‘‘

    ’’چلو، ڈرائیور!‘‘

    ’’اس میں آپ ہی کافائدہ ہے صاحب، ویسے مردے ہوتے تو آپ کاکارٹیج کا خرچ الگ ہوتا۔ یہ بے چارے تو آپ ہی اپناسارابوجھ اٹھاکر جہاز پر سوار ہوجائیں گے۔‘‘

    ’’چلو، ڈرائیور!‘‘

    امریکی ڈاکٹر کی گاڑی آگے بڑھ گئی تو رام دین ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوا۔

    ’’بڑے بدقسمت ہو۔ اگر تم واقعی مرچکے ہوتے تو ٹھاٹ سے امریکہ جاپہنچتے۔‘‘

    مأخذ:

    جوگندر پال کے افسانوں کا انتخاب (Pg. 50)

      • ناشر: تخلیق کار پبلیشرز، دہلی
      • سن اشاعت: 1999

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے