Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بے حد معمولی

حیات اللہ انصاری

بے حد معمولی

حیات اللہ انصاری

MORE BYحیات اللہ انصاری

    کہانی کی کہانی

    ’’نسلی برتری پر یقین کرنے والے ایک ایسے شخص کی کہانی، جس کی بیوی ایک بھکارن کے بچوں کو پالنے کے لیے گھر لے آتی ہے۔ پروفیسر دارا مرزا کا یقین ہے کہ عظیم شخصیتیں صرف برتر نسلوں میں ہی پیدا ہوتی ہیں۔ وہیں ان کی بیوی کا ماننا ہے کہ کسی کی عظمت یا کامیابی کی سرا اس کی نسل میں نہیں، پرورش میں ہوتی ہے۔‘‘

    پروفیسر دارا مرزا نے پوری طاقت سے برک دبایا اور چلا کر کہا۔

    ’’پگلی کہیں کی۔‘‘

    برک لگنے سے پروفیسر منظور کو جو دارا کے پاس بیٹھے ہوئے تھے سخت دھکا لگا اور ان کا سراسکرین سے ٹکرا گیا۔ ساتھ ساتھ ان کے منہ سے نکلا۔

    ’’کیا مر گئی کم بخت؟‘‘

    ایک طرف سے دارا اور دوسری طرف سے پروفیسر منظور موٹر سے کود کر نکلے اور بھاگ کر سڑک پر پڑی ہوئی فقیرن کو دیکھنے لگے، اسی وقت ادھر ادھر کے دو موٹروں کے لوگ بھی آ گئے۔ راہ گیروں کی بھیڑ اکٹھی ہو گئی۔ فقیرنی کے سر، ہونٹوں اور انگلیوں سے خون بہہ رہا تھا اور بہہ کر ایک پوٹلی کو جو اس کی بغل میں تھی بھگو رہا تھا۔

    ایک موٹر والے صاحب نے پروفیسر دارا کو پہچان کر کہا۔

    ’’جو ہوا اس کا مجھے بہت افسوس ہے، لیکن غلطی آپ کی نہیں تھی پروفیسر صاحب‘‘ دوسرا موٹر والا بولا۔ ’’میں دیکھ رہا تھا کہ آپ نے اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن دیکھئے، کیا وہ مر گئی؟‘‘

    پروفیسر دارا نے فقیرنی کے نبض پر انگلی رکھ کر کہا۔

    ’’ابھی تو جان ہے، اس کو ہسپتال لے چلنا ہوگا۔‘‘ پروفیسر دار ا نے فقیرنی کو اس کے زخموں کا خیال کرکے سنبھالا۔

    منظور نے دارا کو فقیرنی کے اٹھانے میں مدد دی لیکن جیسے ہی اس کو اٹھایا، اس کی پوٹلی ایک طرف کو لڑھک گئی اور اس کے اندر کا آخور نکل پڑا۔

    جو زور زور سے رونے لگا۔

    فقیرنی کو موٹر میں ڈالنے کے بعد دارا اور منظور دونوں نے اس روتی ہوئی چیز کو دیکھا۔ وہ ایک بے حد گندہ بچہ تھا جو صرف ہڈی اور چمڑے سے بنا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ پسلیاں اس طرح اس کی ادھر ادھر نکل رہی تھیں جیسے کپڑے کے تھیلے میں لکڑیاں ٹھونس دی گئی ہوں۔ سر پر میل اور گنج کی پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ ناک، آنکھ اور منہ سے گندگی بہہ رہی تھی اور پیشاب اور پاخانہ میں وہ لتھڑا ہوا تھا۔ دارا کو زخمی عورت کو دیکھ کر زرا سی گھن آئی تھی لیکن اس آخور کو دیکھ کر اس کا جی متلانے لگا۔

    منظور۔ ’’یہ ابھی ابھی رویا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چوٹ سے بےہوش ہو گیا تھا۔‘‘

    دارا، ’’یہ ایک نئی ذمہ داری آن پڑی۔‘‘

    منظور، ’’بچے کو بھی لے چلنا ہو گا۔‘‘

    دارا، ’’ہاں، ہاں۔ میں اٹھاتا ہوں اس کو بھی۔‘‘

    دارا کا جی چاہا کہ کہدوں کہ اسپتال سے بھنگی بھیج کر منگوالوں گا لیکن اپنی حماقت کا احساس کر کے اس نے اپنی زبان روک لی۔

    پروفیسر دار امرزا نے نسلی خصوصیات کی تحقیقات پر کافی زندگی صرف کی تھی، آج کل وہ اس فن کے ماہروں میں گنے جاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ معمولی گھرانے صرف معمولی ہی بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ جب وہ دیہات سے گزرتے اور وہاں کے ننگے میلے بچوں کی فوج کو دیکھتے تو کہتے کہ ان لوگوں کے پاس صرف ہاتھ پاؤں ہیں، دماغ نہیں ہے۔ پھر افسوس کے ساتھ کہتے کہ جمہوریہ ہندوستان کو دماغوں کی ضرورت ہے اور وہی بہت کم ہیں۔ اسوقت ایک بےحد معمولی بچے کو دیکھ کر اور وہ بھی ایسی گندی حالت میں دارا کے دماغ میں ناپسندیدگی کا جذبہ ایسی زور سے ابھر آیا کہ محقق ہونے کے باوجود اس گندے اور روتے بچے کو ہاتھ لگاتے اسے کراہیت محسوس ہونے لگی۔ لیکن اپنی ذمہ داری کا خیال کرکے انھوں نے اس بچے کو اٹھا لیا اور موٹر میں رکھ کر اسپتال کی طرف چل پڑے۔

    دارا جیسے ہی اسپتال پہنچے ان کی نظر سب سے پہلے اپنی بیوی نشاط پر پڑی جو ایک نرس کے ساتھ کھڑی تھیں۔ ان کو دیکھ کر دارا نے کہا۔

    ’’نشی تم خوب آ گئیں۔‘‘

    ’’مجھے انسپکٹر نورانی نے ٹیلی فون پر اس حادثے کی خبر دے کر یہ بھی بتلایا کہ فقیرنی ایک دم سے خود ہی بیچ میں آ گئی تھی اور ٹکرا گئی۔ میں کلاس چھوڑ کر بھاگی بھاگی آ رہی ہوں۔‘‘

    نشی اور نرس نے فقیرنی کو اتارا اور پھر نرس اسے آپریشن تھیٹر میں لے گئی۔ جہاں ڈاکٹر کو نشی نے پہلے بلا لیا تھا۔

    نشی تو آناً فاناً ایسا انتظام کر ہی دیا کرتی تھی۔ اس لیے اس وقت دارا کو کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ وہ کہنے لگے۔

    ’’تھینک یو ڈارلنگ۔ خدا کرے یہ فقیرنی بچ جائے۔‘‘

    پھر کہنے لگے۔

    ’’میرے خیال میں گردن میں سخت چوٹ ہے۔ شاید ہی بچے۔‘‘

    پھر کہنے لگے۔

    ’’یہ بچہ کون ہے؟ کیا اسی کا ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔ اس کو اٹھانے کے لیے بھنگی کو بلا لو۔ بچہ بہت گندہ ہے۔‘‘

    ’’اوفوہ۔ کتنا گندہ ہے۔ کیا اسے بھی چوٹ آئی ہے۔‘‘

    ’’معلوم نہیں۔ گندگی کی وجہ سے اس کو ٹٹولنے کی ہمت نہیں پڑی۔‘‘

    نشی کا بھی اسے دیکھ کر جی متلانے لگا۔ اس نے وارڈ بوائے کو بلوا کر اسے اٹھوایا اور ساتھ لے کر معائنے کے ہال میں چلی گئی۔ دو گھنٹے کے بعد جب وہ بچے کو جس کے پیٹ اور سینے پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور چیخ چیخ کر رو رہا تھا، صاف کپڑوں میں لیے ہوئے نکلی تو دیکھا کہ دارا بہت مغموم اور نڈھال ٹہل رہا ہے۔ نشی نے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

    ’’کیا فقیرنی؟‘‘

    ’’ہاں چل بسی۔ ایک پسلی ٹوٹ کر اس کے پھیپھڑے میں گھس گئی تھی۔‘‘

    ’’فکر نہ کرو۔ تم پر کوئی الزام نہیں آ سکتا۔‘‘

    ’’یہ تو میں بھی جانتا ہوں۔ لیکن دل پر ایک طرح کا بوجھ تو ہے ہی۔‘‘

    ’’ڈارلنگ جو ہوگا دیکھا جائےگا۔ فکر نہ کرو۔‘‘

    دارا کے سامنے ایک کشتی میں کچھ سامان پڑا ہوا تھا۔ نشی اس کی طرف اشارہ کر کے پوچھنے لگی۔

    ’’یہ الم غلم کیا ہے؟‘‘

    ’’یہ وہ چیزیں ہیں جو فقیرنی اپنے گلے میں پہنے ہوئے تھی۔ یہ تانبے کے چھلے ہیں۔ یہ شیر کے ناخون ہیں۔ اسپتال والوں نے بتایا کہ یہ دونوں چیزیں کسی ٹوٹکے میں کام آتی ہیں۔ یہ وہ تعویذ ہیں جن کی بنا پر ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ فقیرنی مسلمان تھی۔ ان ہی تعویذوں سے اسی روپیہ کے نوٹ نکلے۔ اسی سے اس کے کفن دفن کا بندوبست ہوا۔

    ’’بچے کا کیا حال ہے؟‘‘

    ’’ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر اس کی پوری دیکھ بھال نہ کی گئی تو دوچار روز میں ختم ہو جائےگا۔‘‘

    ’’پھر کیا کیا جائے؟ چلو اسے مشن کو دے دیں۔ وہ لوگ دیکھ بھال کر لیں گے۔‘‘

    ’’نہیں۔ بچے کے معاملے میں کوئی خطر مول نہ لینا چاہیے۔ فقیرنی کے معاملے میں تو لوگ تم کو بےقصور سمجھتے ہیں لیکن اس کے معاملے میں کوئی نہیں سمجھےگا۔ اخبار والے تمہارے تناسل کے نظریے کی باتیں کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ کہیں اسی کی وجہ سے تم نے فقیرنی کے بچانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔‘‘

    ’’سب بکواس ہے۔ اس حادثے کو ان لوگوں نے دیکھا ہے جن کا میرے نظریے سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ مجھے یقین دلا رہے ہیں کہ ضرورت ہوئی تو وہ گواہی دیں گے۔ اب بچے کے لیے کیا کیا جائے؟‘‘

    ’’یا تو اسے اسپتال میں ایک وارڈ لے کر رکھا جائے یا پھر اسے گھر لے چلو، وہاں ڈاکٹروں اور نرسوں سے اس کا علاج کر وایا جائے۔‘‘

    دارا، ’’نشی دونوں نسخے مہنگے پڑیں گے۔‘‘

    ’’ہاں۔ لیکن اگر یہ مر گیا تو لوگ اس معاملے کو دوسری نظر سے دیکھیں گے۔‘‘

    ’’پھر بہتر کیا ہے؟ اسپتال یا گھر؟‘‘

    ’’جیسا تم کہو۔ لیکن بچے کے ساتھ اسپتال میں میں رہی تو تم کو گھر میں اکیلا رہنا پڑےگا۔‘‘

    (۲)

    گھر کی زندگی کچھ عجیب سی ہو گئی۔ ڈاکٹروں کا آنا جانا، نشی اور نوکروں کا رات کو باری باری جاگنا۔ بچے کا مسلسل رونا، دواؤں کی بو اور دوستوں کا دارا پر اس کی انوکھی مصیبت کے لیے ترس کھانا، نشی کا سنجیدہ منہ بنائے ہوئے دارا سے دو چار باتیں کر لینا اور پھر بچے کے پاس بھاگ جانا، یہ تھی دارا کی دس دن کی زندگی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ نشی کو اس گندے بچے کی اتنی فکر کیوں ہے۔ رات کو بھی وہ اٹھ اٹھ کر بچے کے پاس ایک دو مرتبہ چلی جاتی ہے اور صبح ناشتے پر کھوئی کھوئی سی نظر آتی ہے۔

    دارا نے پوچھا۔

    ’’آخر بچہ کب تک اس قابل ہو جائےگا۔ کہ مشن کو دے دیا جائے؟‘‘

    ’’ڈاکٹر سکھی رام جو یہاں کے انچارج ہیں کہتے ہیں کہ کم سے کم دو ہفتے لگیں گے۔‘‘

    دارا ایک بار بھی بچے کے پاس نہیں گیا۔ اس کے ذہن میں بچے کے سر کا گنج، بہتی ناک، بہتامنہ اور بہتا پیشاب اور پاخانہ یہ سب بڑھ کر اتنے پھسل گئے تھے کہ بچہ اس میں غائب ہو گیا تھا۔

    پروفیسر دارا کو ایک سیمینار میں شرکت کے لیے کلکتہ جانا پڑا۔ وہاں سے پندرہ دن کے بعد واپس آکر خبر ملی کہ اس درمیان بچے کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی۔ نشی اس کو اسپتال لے گئی۔ وہاں کوئی بڑا نازک آپریشن ہوا، اس کو بچہ جھیل لے گیا۔ اب اچھا ہے اور دو ایک روز مین گھر آ جائےگا۔ بچہ کے تندرست ہو جانے کی خبر نشی نے بہت خوش ہوکر سنائی اور کہا کہ ڈاکٹر رام نے تمہارا خیال کر کے بچے کا بہت لگن سے علاج کیا ہے۔

    دارا نے اسی وقت ڈاکٹر رام کو ٹیلی فون کر کے ان کا شکریہ ادا کیا اور اس سلسلے میں پوچھا۔

    ’’ڈاکٹر صاحب کیا آپریشن خطرناک تھا؟‘‘

    رام، ’’کافی خطرناک۔ مگر بچہ قسمت والا ہے بچ گیا اور دن بدن سنبھلتا جا رہا ہے۔

    دارا کے لبوں پر آیا کہ بچہ قسمت والا ہے یا میں جو بدنامی سے بچ گیا۔ لیکن اس نے یہ فقرہ پی لیا۔

    ’’بہت بہت شکریہ ڈاکٹر رام۔ نشی نے یہ سارا بوجھ اکیلے سر اٹھا لیا تھا اور وہ آپ کو مسلسل زحمت دے رہی ہے۔‘‘

    ’’زحمت کی بات نہ کیجیے۔ ہم سب کو فکر تھی کہ آپ کی اس معاملے میں گلو خلاصی ہو جائے۔‘‘

    آپ کے سفر پر جانے کے دو دن بعد ہی بچے کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی آخر ہم لوگوں نے طے کیا کہ آپریشن کیا جائے اگرچہ وہ خطرناک ہے لیکن بچے کی جان اگر بچ سکتی ہے تو اسی طرح۔ لیکن جب مریض کو آپریشن ٹیبل پر لٹایا گیا تو اس وقت بیہوش کرنے والے ڈاکٹر نے کہا کہ ضروری نہیں ہے کہ مریض کو بیہوشی کے بعد ہوش آ جائے۔ مجبوراً میں نے آپریشن ملتوی کر دیا اور سلفاڈرگ سے علاج کرنے لگا۔ مگر ڈر رہا تھا کہ جانے اس کا رد عمل بچہ برداشت کر سکےگا یا نہیں۔ تین دن اس کی بڑی دیکھ بھال کی گئی۔ مگر بھگوان کی مہربانی سے بچہ نہ صرف سلفاڈرگ برداشت کر لے گیا بلکہ اس کی تندرستی توقع سے زائد بہتر ہو گئی۔ اب آپریشن کی ضرورت تو نہیں، لیکن دیکھ بھال کی بڑی ضرورت ہے اور پیشاب کی جانچ روزانہ ہونا چاہیے۔

    اس زمانے میں مسز مرزا جس لگن سے بچہ کی دیکھ بھال کرتی رہیں، وہ سگی ماں کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا ہے۔ آپ دونوں نے ایک فقیرنی کے بچہ کے لیے جو کچھ کیا ہے اس پر ہم سب کو فخر ہے۔

    ’’آج کل کچھ لوگ اخباروں میں آپ کے خلاف یہ کہہ کر شور مچا رہے ہیں کہ آپ نے ہٹلر کے دور میں جرمنی میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس وجہ سے آپ نسلی برتری کے قائل ہیں اور ذات پات کی اونچ نیچ کو صحیح سمجھتے ہیں۔ فقیرنی کا حادثہ اسی نقطہ نظر کی وجہ سے پیش آیا۔ کاش وہ لوگ دیکھتے کہ آپ اور آپ کی مسز کس طرح فقیرنی کے بچے کی پرورش کر رہے ہیں۔‘‘

    (۳)

    ایک دن دارا مرزا یونی ورسٹی سے جو آئے تو دیکھا کہ ڈرائینگ روم میں ایک صاف ستھرا بچہ لیٹا ہوا میں مکے مار رہا ہے۔

    دارا نے سمجھاکہ کوئی مہمان آیا ہے۔ اس نے نشی سے پوچھا کہ یہ بچہ کس کا ہے؟

    نشی ہنسنے لگی۔ ’’ارے آپ پہچانتے بھی نہیں۔ یہ وہی ہے جسے آپ نے موت کے منہ سے نکالا ہے۔‘‘

    ’’یہ فقیرنی کا بچہ ہے کیا؟‘‘

    ’’جی ہاں اور کون ہے۔‘‘

    نشی نے بچے کی طرف دیکھ کر چمکارا تو اس کے لب کھل گئے اور دودانت نظر آئے۔

    دارا، ’’یہ وہ بچہ تو ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ اس کے منہ میں دانت کہاں تھے۔‘‘

    نشی، ’’واہ۔ واہ۔ آپ نے تو صرف برائیاں ہی برائیاں دیکھیں تھیں۔‘‘

    دارا قریب جاکر بچے کو دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ اس وقت دانت تھے یا نہیں۔ اس نے چمکارا تو بچہ قلقاریاں مارنے لگا۔ دارا نے اور چمکارا تو بچے نے ٹھٹھا مار دیا۔

    دارا، ’’(خوش ہوکر) ارے یہ تو خوب ہنستا ہے۔‘‘

    نشی، ’’ہے آدمی ہی کا بچہ نا۔ اس نے تم کو بہت کم دیکھا ہے۔ پھر بھی اس وقت تمہاری طرف دیکھ کر کس طرح ہنس رہا ہے۔‘‘

    نشی پھر بولی۔

    ’’ایک بات اور دیکھو۔‘‘

    یہ کہہ کر نشی نے بچہ کو گود میں لینے کو ہاتھ بڑھایا تو وہ بہت ہمک کر آ گیا اور پھر نشی کی چھاتیوں کی طرف منہ بڑھانے لگا۔

    ’’نشی ہنس کر بولی۔ دیکھتے ہو کہ یہ مجھے اپنی ماں سمجھ رہا ہے اور دودھ پینا چاہتا ہے۔‘‘

    پھر بچے کو چمٹا کر کہنے لگی۔

    ’’اگر میں زرا دیر کے لیے بھی پاس سے ہٹوں تو چلانے لگتا ہے۔ اسپتال میں دس دن یہ رہا تو نرس کے پاس۔ لیکن اس سے اتنا نہیں ہلا جتنا مجھ سے۔ اسپتال والے اس پر حیرت کرتے تھے۔ ‘‘

    یہ تو ٹھیک کہتی ہو کہ فقیرنی اور اس قسم کی نسل کے لوگ بھی انسان ہی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ ان کے بچے بھی ویسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ یاد درکھنا ضروری ہے۔ یہ دیکھو کہ کتے اور بھیڑیے کی شکلیں کتنی ملتی جلتی ہیں۔ لیکن دونوں کے مزاج میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ بھیڑیا اپنے پالنے والے کے لیے بھی دغاباز ہوتا ہے۔ لیکن کتا بےحد وفادار۔ بھیڑیے کو طرح طرح سے پال کر دیکھا گیا لیکن اس کی دغابازی نہیں گئی۔ گھوڑا اور گدھا بھی لگ بھگ ایک سی نسل کے ہیں، لیکن گدھا بےحد بیوقوف ہوتا ہے۔ بعض قومیں پانچ سو سال سے اس نسل کو بہتر بنانے کی کوشش کر ہی ہیں، لیکن وہ ویسی کی ویسی ہی رہی۔ انسانوں کی جنگلی قوموں کی بھی یہی حالت ہے۔ ان کو طرح طرح کے موقع ملے ترقی کے لیکن ہزاروں سال سے وہ ویسی ہی ہیں۔ یہ باتیں سائنس کی تسلیم شدہ ہیں، تمہیں ان کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے۔

    ’’تم دیکھ لینا کہ ہم اسکول والے اسے اچھا شہری بنا دیں گے۔ عمدہ تعلیم دیں گے اور ڈھنگ سے رہنا اور کام کرنا سکھائیں گے۔‘‘

    ’’لیکن بڑا ہوکر یہ امتحانوں میں سیکنڈ بھی آنے سے رہا۔‘‘

    ’’تم اپنے بچوں سے اس کا مقابلہ کیوں کرتے ہو۔ اگر وہ فرسٹ آتے ہیں تو یہ تھرڈ تو آہی جائےگا۔‘‘

    نشی اور دارا کے تین بچے تھے، جن میں سے دو لڑکے مسعود اور محمود جو بڑے تھے، مسوری کے اسکول میں پڑھتے تھے اور وہیں ہوسٹل میں رہتے تھے۔ تیسری ایک لڑکی نجمہ، جو سات سال کی تھی، بمبئی میں اپنی خالا مودودہ کے پاس جو وہاں ایک کانونٹ اسکول میں ٹیچر تھیں، رہتی تھی۔

    نشی نے اپنی بات پوری کرتے ہوئے کہا۔

    ’’کیا ہندوستان کو صرف گاندھی اور جواہر لال کی ضرورت ہے۔ اسے کیا اچھے کلرکوں اور فوجیوں اور اچھے شہریوں کی ضرورت نہیں ہے؟۔‘‘

    ’’ہاں۔ اس بچے کو اگر اچھی تربیت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ مامتا بھی ملی تو یہ تھرڈ کلاس کا کلرک شاید بن جائے۔‘‘

    ’’یہ بتاؤ کہ آدمی کیسا بنےگا؟ اچھا آدمی کہ برا آدمی؟‘‘

    ’’اچھے آدمی جن کو تم لوگ کہتے ہو، وہ تو بائی پراڈکٹ ہوتے ہیں۔ یعنی افسر اور پروفیسر بنانے میں جو بچے غلط سانچے میں پڑ جاتے ہیں وہ ویسے بن جاتے ہیں۔ مگر اس قسم کے اچھے آدمیوں میں برائی کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہوتی ہے۔ خیر ہٹاؤ ان باتوں کو۔ یہ بتاؤ کہ اسے تم مشن کو کب دے رہی ہو؟‘‘

    ’’ابھی ڈاکٹر سکھی رام کی رائے نہیں ہے کہ یہ جس حالت میں ہے اس کو بدلا جائے۔ اب تو میں ایک تحقیقات بھی کرنا چاہتی ہوں۔ میرے اسکول میں ہر سال دو ایک بچے ایسے بھی آ جاتے ہیں جیسا یہ ہے۔ ہم لوگ ان کو اچھا شہری بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ میری بیس سال کی سروس میں ایسے بچوں سے دو چار اچھے افسر بھی بن گئے اور دو ایک سیاست اور سماج سیوا میں خاصے آگے آ گئے۔ پھر میں اس بچارے سے کیوں مایوس ہوں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مشن والے میرے اس مشن میں میرا ساتھ دیں گے۔؟‘‘

    دارا دیکھتا رہا تھا کہ جس لڑکے یا لڑکی میں نشی کو دلچسپی ہو جاتی ہے اس کو گھر بلابلا کر پڑھاتی ہے۔ وہ نشی کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔

    نشی بولی۔ ’’سچ بات تو یہ ہے میں خود نہیں جانتی کہ کیا چاہتی ہوں۔ بچہ پچیس دن جو میرے پاس رہا تو دل میں ایسا گھر کر گیا جب ڈاکٹر اس کو آپریشن کے لیے یہ کہہ کر لیجانے لگا کہ ایسے آپریشن کم ہی کامیاب ہوتے ہیں تو مین بے اختیار رونے لگی۔ جب تک وہ آپریشن تھیٹر میں رہا۔ میں سوچتی رہی کہ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ میں اس بچے کو اسی طرح مشن کو دے ڈالوں جیسے پرانے دھرانے کپڑے غریبوں کو دے دیے جاتے ہیں۔

    ’’مشن کو نہ دوگی تو پھر کیا کروگی؟‘‘

    ’’ہاں، دینا تو ہوگا مشن کو۔‘‘

    ’’مشن کے لوگ بچوں کو بہت پیار سے پالتے ہیں۔‘‘

    ’’پیار سے نہ کہو۔ یہ کہو کہ دیکھ ریکھ کر لیتے ہیں جو کہ مکینکل ہوتی ہے۔‘‘

    ’’لیکن اور کیا بھی کیا جاسکتا ہے۔ آخر تم سوچ کیا رہی ہو؟‘‘

    ’’کل بچے کے کچھ ٹسٹ ہوئے ہیں۔ ان کے نتیجوں کا بھی انتظار ہے۔ پھر طے کروں گی کہ کیا کرنا ہے۔‘‘

    اس واقعہ کے دو دن کے بعد دارا یونیورسٹی سے جو آیا تو نشی پریشان پریشان سی نظر آئی۔ کہنے لگی۔

    مشن والوں کا خط آیا تھا وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو یہ معاہدہ لکھ کر دینا ہوگا کہ کبھی بچے کو واپس نہیں لیں گے اور اس سے جب ملنے جائیں گے تو جس طرح وہ کہیں گے اسی طرح غیر بن کر ملیں گے۔ اس کا قاصد جواب چاہتا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دوں۔ آخر میں نے لکھ دیا کہ ہم دونوں سوچ کر جواب دیں گے۔

    ’’اگر ان کی شرط نہ مانوگی تو کروگی کیا؟‘‘

    ’’یہی سوچ رہی ہوں۔ اب ایک بات اور سنو ڈاکٹر نے بچے کے ٹسٹوں کی رپورٹ بھیجی ہے کہتے ہیں کہ دو سال تک بچے کی دیکھ بھال کی سخت ضرورت ہے۔ کیوں کہ اس کے گردے بہت کمزور ہیں۔‘‘

    ’’یہ بات مشن والوں کو بتا دی جائےگی۔ وہ دیکھ بھال کر لیں گے۔‘‘

    ’’مجھے یقین نہیں کہ جیسی دیکھ بھال چاہیے ویسی وہ کر لیں گے۔ وہ بس مکینکل کام کر سکتے ہیں۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کروں۔‘‘

    (۴)

    پروفیسر دارا مرزا یونیورسٹی میں کلاس لے رہے تھے کہ ان کو چپراسی نے ایک پرچہ لا کر دیا کہ نشی نے فون کر کے دارا کو فوراً اسپتال بلایا ہے۔

    جب دارا اسپتال پہنچا تو نشی نے آنسو بھری آواز مین بتلایا کہ ملازمہ کی لاپروائی سے بچہ پلنگ سے نیچے گر پڑ ا اور ایسی چوٹ آئی کہ چیخ مار کر اسی وقت بیہوش ہو گیا۔ ڈاکٹر رام کو فون کیا تو انھوں نے ایمبولنس بھیج کر بچے کو اور مجھے فوراً اسپتال بلا لیا۔ اب کئی ڈاکٹر معائنہ کر رہے ہیں۔

    تھوڑی دیر میں ڈاکٹر رام معائنہ کے کمرے سے باہر آئے اور کہنے لگے۔

    ’’بچے کے گردوں میں جو پہلے سے چوٹ کھائے ہوئے تھے، مگر دواؤں سے ذرا سنبھل گئے تھے، وہ پھر چوٹ کھا گئے ہیں۔ اکسرے سے ایک تو بہت چوٹیلا معلوم ہوتا ہے اور دوسرا کم۔ اب علاج آپریشن کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مگر افسوس ہما رے پاس وہی آلات اور مشینیں ہیں جو عالمی جنگ سے پہلے آئے تھے، وہ ایسے نہیں ہیں جن پر زیادہ بھروسا کیا جائے۔ صرف ڈاکٹر ارشد کے پرائیویٹ اسپتال میں کچھ بہتر انتظام ہو سکتا ہے۔ ان سے میں نے فون پر بات کی وہ ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ مسز مرزا بچے سے متعلق کاغذات لکر فوراً آ جائیں۔ میں نے بچے کو سونے کی دوا دے دی ہے۔ آپ اسی حالت میں اس کو لے کر چلے جائیں۔‘‘

    ڈاکٹر ارشد نے بچے کو دیکھا پھر کہنے لگے۔

    ’’ڈاکٹر رام کی تشخیص مجھے صحیح معلوم ہوتی ہے۔ بچے کے گردے جو پہلے سے چوٹ کھائے ہوئے تھے، دوسری چوٹ سے ان میں سے ایک بیکار ہو گیا اور دوسرا کافی زخمی ہو گیا۔ علاج صرف یہ ہے کہ خراب گردہ نکال دیا جائے اور دوسرے کو ایسا کر دیا جائے کہ وہ دونوں گردوں کا کام دینے لگے۔ ایسے آپریشن ہو چکے ہیں اور کامیاب رہے ہیں۔ لیکن اس بچے کے ایسے آپریشن میں کئی دشواریاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ تین دن سے زیادہ انتظار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ خون سے یورک ایسڈ نکالنے والی مشین جو میرے پاس ہے وہ اس شہر کی سب مشینوں سے اچھی ہے۔ لیکن ہے وہ بھی سات آٹھ سال پرانی جو دوسری عالمی جنگ سے پہلے آئی تھی۔ اس کے بھروسے پر بچے کا آپریشن کرنا مناسب نہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اکسرے کا جو فوٹو آیا ہے وہ بھی پرانے قسم کی مشین کا ہے۔ اس لیے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ دوسرا گردہ کس حد تک درست ہے۔ اگر وہ تین چوتھائی بھی درست ہے۔ تو کام چل جائےگا۔ لیکن اگر خرابی زیادہ ہے تو اس کو، جب پہلے گردہ کو نکالا جائے، اسی وقت بدل دینا چاہیے۔ لیکن ایک چھوٹے گردے کا فوراً مل جانا ممکن نہیں۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میرے ایک دوست ڈاکٹر ریڈی کا بنگلور میں پرائیویٹ کلینک ہے اور وہ گردے بدلنے کے ماہر بھی ہیں اور انھوں نے گردوں کی فراہمی کا بھی کچھ انتظام کر رکھا ہے۔ میں ان سے فون پر بات چیت کر کے دیکھوں گا کہ ان سے کتنی مدد مل سکتی ہے۔

    ’’اس وقت تو آپ بچے کو یہیں چھوڑ دیجیے۔ تاکہ مشین سے اس کا خون صاف کر دیا جائے اور میں بنگلور سے فون ملاتا ہوں۔ جو معلوم ہوگا اس کی خبر آپ کو فون پر دیدوں گا۔‘‘

    ’’دارا۔ ’’بنگلور کے اخراجات کیا ہوںْ؟ اس کا کچھ اندازہ آپ بتا سکتے ہیں؟‘‘

    ’’یہ بھی فون کے بعد بتا سکوں گا۔ مگر یہ سمجھ لیجیے کہ وہ اسپتال پیسہ والوں کے لیے ہے۔ دوسری عالمی جنگ کو ختم ہوئے دو سال ہو چکے ہیں۔ لیکن فوجیوں اور جنگی سامان کی واپسی ابھی تک جاری ہے اس وجہ سے جہازوں میں سامان لانے کی جگہ مشکل سے ملتی ہے۔ ہماری میڈیکل مشینیں اور آلات پرانے ہو گئے ہیں۔ لیکن ان کی جگہ نئے نہیں منگوائے جا سکے ہیں۔ ڈاکٹر ریڈی نے نہ جانے کیوں کر یہ انتظام کر لیا کہ جو جہاز حیدرآباد کی رضا کارپارٹی کے لیے خلاف قانون جنگی سامان لاتے تھے، وہ ریڈی کے لیے میڈیکل سامان بھی لاکر حیدرآباد میں اتار دیتے تھے، وہاں سے وہ بنگلور منگوا لیتا تھا۔ اس طرح اس نے جانے کتنا سامان منگوا لیا ہے۔ اس بات کی شہر ت جو ہو گئی تو پیسے والے مریضوں کا تانتا بندھ گیا۔ اب وہ بھاری بھاری فیسیں چارج کرتا ہے اور اس کا اسپتال لکھ پیتوں کا اسپتال ہو گیا ہے۔ لیکن وہ مجھے پچاس فی صد کنسیشن دیدیتا ہے۔ آپ سے ویسا ہی چارج کرےگا۔

    پھر ڈاکٹر ارشد کہنے لگے۔

    ’’میں ایک بات اور بھی سوچ رہا ہوں۔ وہ یہ کہ آج کل جو نئی دوا نکلی ہے پنسلین، جس کو جادوئی ڈرگ کہا جاتا ہے۔ دیکھو گا کہ اس دوا سے اس بچے کا علاج کس حد تک کیا جا سکتا ہے؟‘‘

    گھر آکر دارا اور نشی دونوں سوچنے لگے کہ وہ فوری طور پر کتنا روپیہ فراہم کر سکتے ہیں۔ بینک میں ان لوگوں کا سات ہزار کے لگ بھگ تھا۔ مکان میں چچازاد بھائیوں کا بھی حصہ تھا۔ اس لیے فوری طور پر نہ تو اسے بیچا جاسکتا تھا اور نہ رہن رکھا جاسکتا تھا۔ ان لوگوں کی کار ایک پرانا ماڈل تھی اور اتنی پرانی کہ برابر مرمت کی محتاج رہتی تھی۔ اگر بیچی جائے تو جلدی میں بہت کم داموں پر بکےگی اور اس کے بک جانے سے دونوں کو اپنی ڈیوٹیوں پر وقت پر پہنچنا ممکن نہ ہوگا۔ اب لے دے کر رہ جاتا تھا نشی کازیور، جو ہوگا چالیس پچاس ہزار کا۔ لیکن اس کے بیچنے میں دونوں ہچکچا رہے تھے۔ کیوں کہ ان کے سامنے اپنی بیٹی نجمہ بھی تھی۔ کیا اس کو محروم کر دیا جائے اس بچے کے لیے؟

    ذرا دیر میں فون پر ڈاکٹر ارشد نے بتایا کہ ڈاکٹر ریڈی نے یہ سن کر کہ آپ ایک فقیرنی کے بچے کا اس طرح علاج کرا رہے ہیں، ہر ممکن کنسیشن دینے کے لیے تیار ہو گئے۔ لیکن کہتے ہیں کہ بچے کا گردہ حاصل کرنا اور وہ بھی اتنی جلد، یہ بہت مشکل ہے اگر پندرہ بیس ہزار کا انتظام ہو جائے تو کوشش تو کی ہی جا سکتی ہے۔

    نشی نے جواب میں کہا کہ ہم لوگ سوچ کر بتائیں گے۔ دارا کہنے لگا۔

    ’’صرف گردہ ہی تو فراہم کرنا نہیں ہے اور بھی تو بہت سے اخراجات ہوں گے۔ اس لیے تیس ہزار کا بندو بست ہونا چاہیے۔‘‘

    زرا دیر میں ڈاکٹر رام کا فون آیا۔ وہ کہنے لگے۔

    ’’مریض جب تندرست ہو کر اسپتال سے جانے لگتے ہیں تو ان میں سے دو چار ہمارے خیراتی بکس میں کچھ رقم ڈال دیتے ہیں۔ وہ رقم خاص خاص مریضوں پر جیسے کہ غریب شاعر یا غریب مصنف یا اوسط طبقے کی بیوائیں ہیں، ان پر خرچ کی جاتی ہے۔ آج ہماری ایسوسی ایشن نے فیصلہ کیا ہے کہ اس فنڈ سے اس بچے کے علاج کے لیے وہ پانچ ہزار کی رقم دے سکتی ہے۔‘‘

    یہ سن کر دارا تو خوش ہوا۔ لیکن نشی مرجھا کر کہنے لگی۔

    ’’فقیرنی کا بچہ ہماری پناہ میں آکر بھی خیرات پر پلے، یہ مجھے گوارا نہیں۔ میں ایسی رقم جب اپنے بچوں کے لیے نہیں قبول کر سکتی ہوں تو اس کے لیے بھی قبول نہیں کروں گی۔

    نشی نے ڈاکٹر رام کے رقم لینے سے انکار تو کر دیا، لیکن ایسا کر کے وہ بہت متفکر ہو گئی اور کچھ سوچ کر بولی۔

    ’’کیوں دارا، اگر میں اپنا آدھا زیور بیچ ڈالوں تو اس سے فوری کام تو چل ہی جائےگا۔ پھر میں آپا مودودہ سے قرض لے لوں گی۔ وہ ضرور دیدیں گی۔‘‘

    ’’قرض۔ ارے اس چیز پر تو میں نے ابھی تک غور نہیں کیا تھا۔ میرا ایک عزیز شاگرد ہے ہری رام، اس کا ایک گہرا دوست قرض کا کاروبار کرتا ہے۔ میں ابھی ہری رام کو فون کرتا ہوں کہ مجھے تم اپنی ضمانت پر تیس ہزار قرض دلادو۔‘‘

    دارا نے ہری کو فون کیا تو اس نے کہا میں آدھے گھنٹے میں بتاؤں گا کہ رقم مل سکتی ہے یا نہیں۔ پھر آدھے گھنٹے کے بعد ہری رام نے کہا کہ اس کا دوست تیس ہزار قرض دیدےگا۔ سود صرف دو فی صد ہوگا۔ جو سال بسال اس وقت تک پابندی سے ادا ہوتا رہے گا جب تک کل رقم نہ ادا کر دی جائے۔

    یہ سن کر نشی بہت خوش ہو گئی اور کہنے لگی۔

    ’’منظور کر لو۔ دارا منظور کر لو۔ سود کی ادائی کا انتظام میں کر لوں گی۔ سیٹھ جی کی لڑکیوں کا ٹیوشن میں نے چھوڑ دیا تھا۔ مگر وہ برابر اصرار کر رہے ہیں کہ اس کو جاری کر دیجیے اور فیس بھی بڑھا رہے ہیں۔ اس کو قبول کر لوں گی۔ اس طرح سود تو ادا ہوتا ہی رہےگا۔ لیکن ضرورت پڑی تو اس رقم سے ایک اچھی آیا بھی رکھی جا سکےگی۔‘‘

    پھر وہ بولی۔ ’’ہاں یہ بھی تو کہو ہری سے کہ روپیہ فوراً چاہیے اور ہاں ڈاکٹر ارشد سے کہو کہ وہ ریڈی سے کہیں کہ وہ گردے کا بندوبست کر لیں۔ رقم تیار رہے۔‘‘

    دارا نے ہری سے بات کی تو اس نے کہا کہ روپیہ کل بینک کھلتے ہی مل جائےگا۔

    یہ سن کر نشی کے چہرے پر خوشی ناچنے لگی۔ وہ بولی اب راہ میں ایک کانٹا رہ گیا ہے۔ وہ ہے ہوائی جہاز میں نشست کا ملنا۔ اس کے لیے فون کرو۔

    دارا کو بڑی دیر میں نمبر ملا تو وہاں سے جواب آیا کہ چار دن تک کوئی نشست خالی نہیں ہے۔ اب تو نشی کی خوشی اڑ گئی اور اس کے لبوں سے ایک درد ناک ہائے نکلی۔ دارا نے یہ کہہ کر ڈھارس دی کہ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ تین دن تک خطرہ نہیں ہے۔ اگر چار دن ہو گئے تو ذرا دیر تو ضرور ہو جائےگی۔ لیکن شاید اتنی دیر خطرناک نہ ہو۔ گھبراؤ نہیں۔

    اس کے ایک گھنٹے کے بعد ڈاکٹر ارشد کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے بہت افسوس کے ساتھ خبردی کہ ڈاکٹر ریڈی جو گردہ خرید رہے تھے وہ ایک مرحوم شیرخوار بیٹے کا تھا، جس کو اس کے چچا بیچ رہے تھے۔ ریڈی کے وکیل کی رائے ہوئی اگر یہ خریداری کر لی گئی تو زبردست مقدمہ بازی کا شکار ہونا پڑےگا۔ اس لیے ڈاکٹر ریڈی نے خریداری سے انکار کر دیا۔ اب وہ کسی اور گردے کی تلاش میں ہیں۔ مگر ان کو شک ہے کہ مل سکےگا۔‘‘

    نشی آنکھوں میں آنسو بھر کر دارا سے کہنے لگی۔

    ’’ہائے بچہ جا رہا ہے اور میں کچھ نہیں کر سکتی۔‘‘

    ’’خدا سے دعا تو کر ہی سکتی ہو۔ یہ کیوں نہیں کرتی ہو۔‘‘

    ’’کروں گی دعا۔ ضرور کر وں گی۔ لیکن اب میں جا کر بیٹھوں گی اپنے بچے کے پاس اور وہیں رہوں گی جب تک کہ۔۔۔‘‘

    نشی کی آواز رک گئی۔ اس نے خاموشی سے اپنے آنسو پوچھے۔

    اسی وقت ڈاکٹر رام کا ٹیلی فون آیا۔

    ایک خوش خبری سن لیجیے۔ یہاں جری کے آلات کا ایک تاجر ہے جو برما ہندستان کی سرحد پر جاکر، جہاں انگریزی فوجوں نے برما سے فرار کے وقت اپنا بہت سا فوجی سامان ڈھیر کر دیا تھا، کیوں کہ اس کے پاس بار برداری کے ذرائع نہیں تھے۔ نہ مال گاڑیوں میں جگہ تھی اور نہ ٹرکوں کے لیے پٹرول تھا۔ یہ سامان بہت سستے داموں میں فروخت ہو رہا تھا۔ اس تاجر نے کچھ سامان خرید لیا اور اسے ہاتھیوں اور کشتیوں پر، اور نہ جانے کس کس طرح لاد کر تین چار مہینے میں یہاں لے آیا۔ اب وہ اسے دس گنے داموں پر فروخت کرنا چاہتا ہے۔

    ڈاکٹر رام نے اس سے کہا کہ جب تک اسپتال کے ذمہ دار لوگ ان آلات اور مشینوں کو آزما کر نہ دیکھ لیں گے، وہ خرید نہیں سکتے ہیں۔ تاجر تیار ہو گیا ہے آزمائش کرانے کے لیے۔ یہ آزمائش اسپتال میں نہیں کی جا سکتی ہے، کیوں کہ وہاں اگر کسی مشین کو لگا دیا گیا تو مریضوں کی لائن لگ جائےگی اور پھر مشین استعمال ہوتی چلی جائےگی۔ اگر اسے ہٹا لیا گیا تو لوگ ہنگامہ کر دیں گے۔ اس لیے ہم لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ کے ڈرائنگ روم کو جو کہ کافی کھلا ہوا اور ساف ستھرا ہے، آپریشن تھیٹر بنا لیا جائے۔ وہاں جو سامان ہے اس کو ہٹا کر مشین لگا دی جائیں۔ یہ کام ڈاکٹر ارشد کے آدمی جو ایسے کاموں کے ماہر ہیں، رات بھر میں کر کے اسے آپریشن تھیٹر بنا دیں گے۔

    ’’خون صاف کرنے کی مشین جو مل رہی ہے وہ جدید ترین ہے۔ باقی آلات بھی بہت عمدہ ہیں۔ ان باتوں سے ہم کو بہت امید ہے کہ بچہ بچ جائےگا۔ اگر دوسرا گردہ زیادہ خراب نکلا تو پھر اس کا بھی آپریشن کر دیا جائےگا، اور پنسلین کے بارہ انجکشن تین دنوں میں دے کر زخم کو بگڑنے سے روک دیا جائےگا۔ ہاں یہ بات بھی کہہ دینا اچھا ہے کہ پنسلین کے انجکشن جو چھ مہینے ادھر بارہ ہزار میں ملتے تھے۔ اب صرف چھ ہزار میں آ جائیں گے۔ آپ کا سب کا م دس ہزار میں ہو جائےگا۔ بھگوان ہم گوگوں پر بڑا مہربان ہے، جو ایسے اچھے اسباب پیدا کر دیئے۔ لیکن پھر بھی آپریشن خطرے سے خالی نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر دوسرا گردہ بھی بیکار نکلا تو اس کی جگہ لگانے کے لیے ہمارے پاس نیا گردہ نہیں ہے۔ اب آپ لوگ سوچ کر فیصلہ کیجیے کہ کیا کرنا ہے۔ لیکن جلد فیصلہ کیجیے ورنہ تاجر کا گودام بند ہو جائےگا اور پھر ایک دن نکل جائےگا۔

    ڈاکٹر رام کی بات سن کر نشی خوشی سے اچھل پڑی اور ہنسنے لگی۔ پھر بولی خدا نے میری سن لی۔ اور آپریشن کا انتظام کر دیا۔ یا اللہ اب تو دوسرا گردہ صحت مند نکلے۔‘‘

    پھر نشی نے ٹیلی فون لے کر ڈاکٹر ارشد اور ڈاکٹر رام سے الگ الگ کہا۔

    ’’ڈاکٹر صاحب۔ آپ دونوں جو کچھ کر رہے ہیں وہ ہم لوگوں پر بڑا احسان ہے۔ مجھے منظور ہے آپ لوگوں کی تجویز۔ انتظام شروع کر دیجئے۔‘‘

    دوسرے دن دو بجے دونوں ڈاکٹر اپنے اسٹاف کو لے کر نئے بنے ہوئے آپریشن تھیٹر کے اندر بچے کو لے کر چلے گئے اور یہ حکم دے دیا کہ وہاں کوئی نہیں آ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ دارا بھی نہیں۔

    نشی اتنی پریشان تھی کہ منٹ گن گن کر وقت گزار رہی تھی۔ لیکن آدھے گھنٹے بعد ایک جونیئر ڈاکٹر باہر آیا، نشی نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’کیا آپریشن ختم ہو گیا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

    ’’ابھی تو شروع بھی نہیں ہوا ہے۔ کمرے کا ٹمپریچر درست کیا جا رہا ہے۔‘‘

    اس کے بعد آدھے گھنٹے تک کوئی خبر نہیں ملی۔ پھر ایک نرس کسی کام سے باہر آئی تو اس نے بتایا کہ آپریشن کے لیے بچے کے بدن کو صاف کیا جا رہا ہے۔ اس کے پون گھنٹے کے بعد ڈاکٹر ارشد باہر آئے اور مسکرا کر کہنے لگے۔

    ’’مبارک ہو پروفیسر صاحب اور بیگم صاحبہ آپریشن کامیاب رہا۔ بچہ خطرے سے بالکل باہر ہے۔‘‘

    پھر انھوں نے بتایا کہ ڈیڑھ گھنٹہ آپریشن رہا۔ دوسرا گردہ زخمی تو ہے، لیکن خطرے سے باہر۔ مریض کو پنسلین کا انجکشن بھی دے دیا گیا ہے۔

    نشی سمجھ گئی کہ جب ڈاکٹر نے کہا کہ کمرے کا ٹمپریچر درست کیا جا رہا ہے۔ اس وقت آپریشن شروع ہو چکا تھا۔ لیکن مجھے پریشانی سے بچانے کے لیے بتایا نہیں گیا۔ نشی خوشی سے چلا کر بولی۔

    ’’یا اللہ تیرا شکر۔ یااللہ تیرا شکر۔ ہزار ہزار شکر۔‘‘

    پھر نشی نے پوچھا،

    ’’پنسلین کے دام۔۔۔؟‘‘

    ’’دے دیے گئے۔‘‘

    ’’کتنے دیے گئے اور کہاں سے دیے گئے؟ مجھے اس کے بارے میں کیوں نہیں بتایا گیا؟ کہیں خیراتی رقم سے تو۔۔۔‘‘

    ’’بیگم صاحبہ اسپتال والوں کو حق ہے کہ جو دوا چاہیں استعمال کریں جہاں سے چاہیں فراہم کریں اور جو دام چاہیں دیں۔ آپ سے دام لینا ہوتے تو ضرور آپ کی اجازت لے لی جاتی۔‘‘

    آپریشن کا میاب رہا۔ اور بچہ چند ہی دنوں کے بعد بیٹھنے لگا۔ نشی نے دیکھ بھال کے لیے ایک ٹرینڈ نرس رکھ لی، جس کے اخراجات وہ اس ٹیوشن کی رقم سے پورے کرتی تھی جو اس نے سیٹھ جی کے یہاں اسی وقت کر لیا تھا جب آپریشن کا فیصلہ کیا تھا۔ نرس بچے کو نہلاتی دھلاتی، اس کی صفائی کرتی اور اس کا دودھ تیار کر کے پلاتی اور وقت پر دوا دیتی۔ مگر بچہ گود میں نہیں دیا جاتا تھا۔ وہ ایک کٹہرے میں جس کو ڈاکٹر نے منگوا دیا تھا، رہتا تھا۔ کٹہرا بچے کی پلنگڑی پر جڑا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کا حکم تھا کہ صفائی اور نہلاے دھلانے کے سوا اور کسی کام کے لیے بچے کو کٹہرے سے نہ نکالا جائے اور نرس اور نشی کے سوا اور کوئی نہ نکالے۔ کٹہرے کے گرد کرسیاں پڑی رہتی تھیں۔ لوگ اس پر بیٹھ کر بچے کو کھلاتے تھے۔ سب سے زائد اس کو کھلاتی تھی نجمہ، جو اپنی خالا کے ساتھ بمبئی سے آگئی تھی۔ ان لوگوں کو دارا نے اس وقت تار دے کر بلا لیا تھا کیوں کہ جب آپریشن کا فیصلہ ہو گیا تو دارا کو فکر ہوئی کہ نتیجہ توقع کے خلاف بھی تو ہو سکتا ہے۔ ایسی صور ت میں خود اس کے سواکوئی اور بھی ہونا چاہیے نشی کو سنبھالنے کے لیے۔

    مودودہ تار پاتے ہی نجمہ کو لے کر فوراً آ گئی۔ گرمیوں کی چھٹیاں بھی ہو گئیں تھیں، اس لیے یہ دونوں ایک مہینے ٹھہریں۔ نجمہ سے بچہ بہت ہل گیا تھا اور نجمہ بھی اس کو بہت چاہنے لگی تھی۔

    بچے کا نام نشی نے خدا داد رکھ دیا تھا۔ اب وہ نا(نشی) اور با (نجمہ) اور بی ( بسکٹ) کہنے لگا تھا۔ نا(شی) سے بہت ہلا ہوا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ ہر وقت پاس رہے۔ جہاں وہ جانے لگتی۔ خدا داد نانا کہہ کر چلاتا اور کٹہرے پر زور زور سے ہاتھ مار مار کر روتا۔

    ایک مہینے کے بعد خدا داد کے سب ٹسٹ پھر ہوئے۔ ان کے نتیجوں کے لے کر ڈاکٹر رام خود آ گئے اور کہنے لگے۔

    ’’بیگم مرزا۔ خدا داد ماشاء اللہ سے اب نارمل ہے۔ لیکن دو سال تک کڑی دیکھ بھال ضروری ہے۔‘‘

    پھر بولے،

    ’’میرا تجربہ ہے کہ سڑک کے بچوں میں قوت برداشت اور بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت بلا کی ہوتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو ان بچاروں کا کھانا پینا، رہن سہن جیسا کچھ ہے اس میں سو بچوں میں سے مشکل سے دو زندہ رہتے۔‘‘

    نشی خدا داد کی تندرستی کی بات سن کر بہت خوش ہوئی۔ کہنے لگی۔

    ’’ڈاکٹر سکھی رام جی۔ آپ نے اور ڈاکٹر ارشد نے جس طرح خدا داد کا علاج کیا اور محبت کا جو برتاؤ کیا ہے اس کو ہم لوگ کبھی بھول نہیں سکتے۔ لیکن ایک مہربانی آپ لوگ او رکیجئے، یہ بھول جائیے کہ خدا داد سڑک کا بچہ ہے۔‘‘

    ’’وہ تو میں کب کا بھول چکا ہوں۔ لیکن اس موقع پر اس کا حوالہ دیئے بغیر بات نہیں پوری ہوتی تھی۔ اسے معاف کر دیجئے۔‘‘

    ایک دن مشن کے فادر آ گئے اور دارا سے کہنے لگے۔

    ’’آپ لوگ خدا داد کو اس شرط پر مشن کو دینا چاہتے ہیں کہ آپ اس کو گھر بلا کر تعلیم دیتے رہیں، یہ بہت نیک ارادہ ہے۔ اس لئے ہم لوگ اپنے طور طریقوں سے ہٹ کر آپ کو ایک کنسیشن دے سکتے ہیں وہ یہ کہ اگر آپ خدا داد کے ساتھ دس اور بچوں کو بھی اسی طرح تعلیم دیں جس طرح خدادا کو، تو ہم کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ بات یہ ہے کہ ہم کسی ایک بچے کے ساتھ خاص برتاؤ مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔‘‘

    دارا جو پہچان گیا تھا کہ خداداد کے لئے نشی کے جذبات کیا ہیں، کہنے لگا۔

    ’’میں اور نشی دو ایک دن میں اس بات کا آپ کو جواب دیں گے۔ پھر نشی نے کہا ’’فادر نے جو تجویز پیش کی ہے وہ میرے مطلب کی نہیں، کیوں کہ میں خدا داد کے لئے صرف ایک گھنٹہ نکال سکوں گی۔ اس میں دس بچے اور شریک ہو گئے تو پھر خدا داد کو اتنا وقت نہیں ملےگا کہ میں اس کو جو بنانا چاہتی ہوں وہ بن سکے۔

    جب مودودہ نجمہ کو لے کر بمبئی جانے لگی تو نجمہ بچے کو لپٹا کر خوب روئی، اسٹیشن جاتے میں مودودہ دارا سے کہنے لگی۔

    ’’نشی پر فقیرنی کے چھوکرے نے جانے کیسا جادو کر دیا ہے کہ اس نے اپنا اور اپنے بچوں کا اچھا برا سوچنا چھوڑ دیا۔ وہ یہ نہیں دیکھتی ہے کہ اگر وہ چھوکرا گھر میں رہ کر پلا اور بڑھا تو لوگ نجمہ، مسعود اور محمود کو بھی اسی طرح کے بچے سمجھنے لگیں گے۔ دیکھو نا کہ نجمہ جب اس کو کھلاتی ہے تو دونوں ایک درجے کے معلوم ہوتے ہیں یا نہیں؟ میں یہ مانتی ہوں کہ بچہ لاوارث ہے۔ اس لئے جو مدد بھی ممکن ہو، کرنا چاہیئے۔ تم اس پر ایک مناسب رقم خرچ کرو، اس میں کوئی ہرج نہیں، اس کو کسی اچھے یتیم خانے یا مشن میں داخل کر دو۔

    دارا، تم جو نسلی اثرات کی باتیں کرتے ہو وہ صحیح ہیں۔ میرا روز کا تجربہ ہے کہ کمینے لوگوں کی اولاد کی جتنی بھی چاہے دیکھ بھال کرو اور جیسی بھی ان کو تعلیم دو، وہ ویسی ہی کی ویسی رہتی ہے۔‘‘

    دارا نے جب یہ بات نشی کو بتائی تو وہ کہنے لگی۔

    ’’باجی یہ باتیں مجھ سے کر چکی ہیں۔ لیکن ان کا تجربہ ہے بمبئی کے غنڈوں کے بچوں کا، جوا سکول میں پڑھتے ہیں چار گھنٹے اور باقی بیس گھنٹے گزارتے ہیں اپنے لوگوں میں، اس وجہ سے وہ ان ہی کی باتیں سیکھتے ہیں۔ ہمارے خدا داد کی بات دوسری ہوگی۔ اس کے لئے جو کچھ بھی ہوں گے، ہم ہی لوگ ہوں گے۔ دو دن کے بعد جب دارا یونیورسٹی سے واپس آئے تو نشی سے کہنے لگے۔

    ’’آج ایک عجیب بات ہوئی۔ ڈاکٹر رام میرے پاس یونیورسٹی میں آئے اور تنہائی میں کہنے لگے۔‘‘

    میں آپ کو راز کی ایک بات بتانے آیا ہوں جو خداداد کے مسئلے کے حل کرنے میں معاون ہو گی۔ میں جانتا ہوں کہ آج کل آپ اور مسز دارا میں کیا بحث چھڑی ہوئی ہے۔ آپ نسلی خصوصیات کو مستقل چیز سمجھتے ہیں اور بیگم مرزا ایسا نہیں سمجھتی ہیں۔

    میرا دادا جو کہ ذات کا بھنگی تھا وہ چوری اور قتل کے اقدام میں گرفتار ہوا اور اسے سات سال کی سزا ہو گئی، کسی نے ہمارے دیہات کے زمیندار کو اس کی طرف توجہ دلائی، تو انہوں نے اس کے چال چلن کی ضمانت لے لی، اس طرح وہ چار سال کی قید کاٹ کر ان کے گھر آ گیا۔ اس کو کھیت اور مکان کے لئے زمین اور لکڑی مل گئی۔ پھر وہ زمیندار کی نگرانی میں ان کا اسامی بن کر رہنے لگا۔ زمیندار نے اپنے اسامیوں میں سے کسی کی لڑکی سے شادی کر دی۔ پھر یہ خاندان پھیلنے لگا۔

    اس خاندان کے افراد کی شادی بیاہ زمیندار ادھر ادھر کراتے رہے، ہمارا شمار اچھی ذات والوں میں تو نہیں ہوا، لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ہم ذات کے بھنگی ہیں۔ میں اکلوتا بچہ تھا اپنے ماں باپ کا۔ میری ماں نے بڑے ارمانوں سے مجھے دیہاتی اسکول میں داخل کرا دیا۔ میں نے چار سال میں چہارم پاس کر لیا اور اس زمانے میں چہارم پاس کو پٹواری کے قسم کی سرکاری ملازمتیں مل جاتی تھیں۔ میرا شوق دیکھ کر اس وقت کے زمیندار نے جن کا خاندان ہم لوگوں کا پشتینی سر پرست تھا ایسے مہربان ہو گئے کہ انھوں نے مجھے اپنے بیٹے کے پاس بھیج دیا جو شہر کے ایک اسکول کے ہڈماسٹر تھے۔ وہاں جاکر مجھے ہڈماسٹر کے عزیزوں کے بچوں کی صحبت ملی، جن میں سے ہر ایک کے سامنے کوئی نہ کوئی مستقبل تھا۔ دوسری طرف مجھے استادوں کی توجہ بھی ملی۔ پھر تو میں ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھنے لگا اور اس کے لیے محنت سے پڑھنے لگا۔ ڈاکٹری تعلیم کے داخلے کے امتحان میں جو بیٹھا تو پاس ہو گیا پھر پانچ سال میں ڈاکٹر ہو گیا اور پریکٹس بھی چل نکلی۔ اب میرے خاندان کی اور شاخوں میں بھی میری مثال دیکھ کر تعلیم پھیل رہی ہے۔ اور دھیرے دھیرے وہ سب پستی سے اٹھتے چلے جا رہے ہیں۔

    اس کے بعد ڈاکٹر رام نے آٹھ نام ایسے لوگوں کے لیے جن کو آج اچھی سماجی اہمیت حاصل ہے۔ ان میں سے چند ایسے ہیں جن کو میں بھی جانتا ہوں۔ ڈاکٹر رام کا کہنا ہے کہ لوگوں کے بھی دادا، پردادا، و یسے ہی تھے جیسے خود ڈاکٹر رام کے تھے۔ یہ مثالیں پیش کر کے ڈاکٹر رام کہنے لگے کہ وہ آئے تھے یہ بتانے کہ مجھے خداداد کے مستقبل کی طرف سے مایوس نہ ہونا چاہیے۔ پھر کہنے لگے کہ خدا داد کی تعلیم و تربیت میں اگر ان کی خدمات کی ضرورت ہو تو وہ حاضر ہیں۔

    ڈاکٹر رام کی بات سنا کر دارا کہنے لگا۔

    ’’نسلی مسئلے کو اب میں ذرا دوسری طرح سے دیکھنے لگا ہوں۔ اور اس کا مطالعہ نئے رخ سے کرنا چاہتا ہوں۔ اب میں یہ دیکھوں گا کہ تعلیم و تربیت کس حد تک انسانی بھیڑیے کو وفادار اور انسانی گدھے کو سمجھدار بنا سکتی ہے۔ اس غرض سے میں خدا داد کی تعلیم و تربیت میں دل سے تمہارا شریک رہوں گا۔ اب بتاؤ کہ تم کیا چاہتی ہو خدا داد کے لیے؟‘‘‘

    ’’کیا چاہتی ہوں؟ یہی تو مجھے نہیں معلوم۔ دو مہینے سے سوچ رہی ہوں لیکن کچھ طے نہیں کر پا رہی ہوں۔ میں حیرت زدہ ہوں کہ مجھے خداداد سے اتنی محبت کیوں ہو گئی۔ میرے اپنے تین بچے ماشاء اللہ سے موجود ہیں اور مین ان کو بہت چاہتی ہوں۔ پھر میری مامتا میں ایسا خلا کہاں سے آ گیا ہے جس میں یہ نیا بچہ آ کر بیٹھ گیا۔ جب سوچتی ہوں کہ دنیا میں میرے سوا اس کا کوئی نہیں ہے تو میری مامتا تڑپ اٹھتی ہے۔‘‘

    نشی زرا دیر سوچ کر کہنے لگی۔

    ’’حال یہ ہے کہ جب سوچتی ہوں کہ خدا داد کو مشن کو دیدوں تو خیال آتا ہے کہ اس کی صحت کا کچھ بھروسا نہیں۔ اگر خدا نخواستہ کچھ ایسا ویسا ہو گیا تو مرتے دم تک مجھے کوفت رہےگی کہ ہائے میں نے خدا داد کو خود کیوں نہیں پالا۔ اسی طرح یہ بھی سوچتی ہوں کہ اگر مشن کی تعلیم و تربیت میرے معیار کی ہوتی نظر نہ آئی تو بھی میں مسلسل کوفت میں مبتلا رہوں گی کہ ہائے میں نے اسے مشن کو کیوں دے دیا۔ مگر جب سوچتی ہوں کہ خدا داد کو خود پالوں تو اس کی ذمہ داریاں سوچ سوچ کر گھبرا جاتی ہوں۔ بچے کی ضدوں اور بیماریوں کا جھیل لے جانا سگی ماں کے سوا اور کسی کے بس کی بات نہیں۔ کیا میں جھیل سکوں گی سب کچھ؟‘‘

    ’’ٹھیک سوچ رہی ہو نشی تم۔ اخراجات کا معاملہ بھی تو ایسا ہی پیچیدہ ہے۔ ابھی تین چار سال تک تو کام تمہارے ٹیوشن سے چل جائےگا۔ مگر آگے چل کر ایک طرف خداداد کے اخراجات بڑھیں گے اور دوسری طرف اپنے تینوں بچوں کے۔ میں تو یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ اپنے بچوں میں سے کسی کو اعلا تعلیم کے لیے کسی بیرونی ملک کو بھیج دوں۔ اس کے لیے بھی کچھ بچانا ہوگا۔‘‘

    ’’لوگ اپنے بھتیجوں اور بھانجوں کو اپنے ساتھ رکھ کر پڑھاتے ہیں۔ مگر ان کی ایک جگہ ہوتی ہے اور اپنے بچوں کی اور جگہ۔‘‘

    ’’ہاں میں دیکھ رہا ہوں کہ تم کس طرح خدا داد کو پال رہی ہو۔ اس کے اخراجات پورا کرنے کے لیے تم نے وہ ٹیوشن کر لیا جو تم کو پسند نہیں تھا۔ تم یہ بھی تو کر سکتی تھیں کہ اپنے دونوں بیٹوں کو مسوری سے بلا کر یہاں کے اسکولوں میں پڑھاتیں اور اس طرح جو بچت ہوتی اس سے خداداد کے اخراجات پورے کرتیں۔‘‘

    ’’میرا دھیان گیا ہی نہیں اس طرف کہ خرچ یوں بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’دھیان کا اسطرف نہ جانا قدرتی بات ہے۔ اولاد اولاد ہوتی ہے۔ اب طے کر لو کہ ہم خدا داد کے لیے کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ بھی سوچ لو کہ آگے چل کر اچھا برا جو بھی سامنے آئے اپنے فیصلے کو نباہنا پڑےگا۔‘‘

    ’’سوچ تو رہی ہوں۔ لیکن فیصلہ کہاں کر پا رہی ہوں۔‘‘

    ’’تم خدا داد کو اتنا چاہنے لگی ہو، اتنا چاہنے لگی ہو کہ اب اس کے بغیر نہیں رہ سکتی ہو۔ اس لیے یہ تو طے سمجھو کہ اس کو اپنے پاس ہی رکھو گی۔ مجھے یقین ہے کہ تم اس کی پرورش کی سب ذمہ داریاں خوشی خوشی سنبھال لوگی۔

    ہمارے گھر میں اس کی حیثیت کیا ہوگی، یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ تمہاری خاص الجھن یہ ہے کہ تم چاہتی ہو خدا داد کو بیٹا بنانا۔ مگر راہ میں بہت سی جذباتی اور عملی رکاوٹیں محسوس کرتی ہو، دیکھو ہم میں سے کچھ لوگ اپنے مرحوم بھائی یا مرحوم بہن کے بچوں کو اپنے ساتھ رکھ کر پالتے اور تعلیم دیتے ہیں۔ ہم یہ کیوں نہ سمجھیں کہ خداداد ہمارا ویسا ہی بھتیجا یا بھانجہ ہے۔ اس طرح اس کی ایک اپنی جگہ ہوگی اور ہمارے بچوں کی اپنی جگہ۔ پھر وہ کچھ سوچ کر بولا کہ جانے کیا ہوا کہ میں بھی اب خدا داد سے کچھ لگاؤ محسوس کرنے لگا ہوں۔ اگر تم یہ راستہ اختیار کر لوگی تو اس کام میں میں بھی تمہارا شریک رہوں گا۔

    نشی نے تھوڑی دیر اس تجویز پر غور کیا۔ پھر خوش ہو کر بولی۔

    ’’منظور۔ آج ہی سے، اسی وقت سے اس پر عمل شروع۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے