Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھرے بازار میں

حیات اللہ انصاری

بھرے بازار میں

حیات اللہ انصاری

MORE BYحیات اللہ انصاری

    کوئی چیز رکھی کے پیٹ پر پھد سے گری۔ رکھی کنمنائی اور آنکھیں کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔ پھر ایک زیادہ وزنی چیز آکر چھاتی پر گری اور ساتھ ہی ایک قہقہہ سنائی دیا۔ اب رکھی کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے گلی کے نکڑ پر کلو کو دیکھا جس نے رکھی سے آنکھیں ملاتے ہی ایک فحش فقرہ چپکایا اور سڑک کی بھیڑمیں غائب ہو گیا۔

    رکھی نے اپنی چھاتی پر سے ’’چیز‘‘ اٹھائی۔ یہ چارکیلوں کا ایک گچھا تھا۔ اس پر نگاہ پڑتے ہی رکھی کھل گئی اور بیتابی سے ایک کیلا چھیل کرمنہ میں رکھ لیا اور دو تین بار ادھر ادھر منہ مار کر نکل گئی۔ پھر دوسرا کیلا چھیلا اور آدھا دانت سے کاٹ کر ذرا مزے لے کر کھانے لگی۔ اتنے میں کچھ خیال آیا۔ جلدی سے رکھی نے اسی طرح لیٹے لیٹے ادھر ادھر ٹٹولا تو ایک نارنگی ہاتھ لگی۔ نارنگی کو دیکھتے ہی اس کے دل کی کلی کھل گئی۔ دس بارہ روز بیمار رہنے کے بعد ایسا خراب منہ کا مزہ ہو جاتاہے! ایسے موقع پر نارنگی کا مل جانا! رکھی سوچنے لگی کہ یہ کھٹی کھٹی نارنگی نمک مرچ کے ساتھ کھائی جاتی تو؟ مگرنمک مرچ اس وقت کہاں؟ مجبوراً رکھی نمک مرچ کو یاد کرکے ایک پھانک منہ میں رکھنے لگی اور اس کو خوب چٹخارے لے کر کھانے لگی۔

    گھڑگھڑ کرتی سامنے سڑک پر ٹرام نکلی۔ اس میں ایک صاف ستھری لڑکی، سیاہ کنارے کی اجلی ساڑی باندھے بیٹھی تھی۔ اس کی نگاہ ادھر پڑ گئی تو اس نے دیکھا کہ بغل کی پتلی سی گلی میں کچھ دور ایک دوکان کے آگے ایک تختہ سا نکلا ہوا ہے، جوزمین سے بمشکل دو فٹ اونچا ہوگا۔ اس کے نیچے ایک میلی گندی، زرد عورت بڑے آرام سے لیٹی نارنگی کی پھانکیں کھا رہی ہے۔ چہرے پر ایسا اطمینان ہے گویا وہ آبادی کے کنارے کسی پرسکون مکان کے ڈرائنگ روم میں صوفہ پر اطمینان سے لیٹی ہو۔ لڑکی جب تک رکھی کو دیکھ سکی، دیکھتی رہی۔ رکھی نے بھی اس پر ایک سرسری نگاہ ڈالی۔ اس کی ساری اور صاف ستھری گردن کو ذرا غور سے دیکھا اورپھر بلاارادہ وہ اپنی گردن مل مل کر میل کی پتیاں چھڑانے لگی۔

    رکھی اٹھ کر بیٹھ گئی اور انگڑائی کے لیے دونوں ہاتھ اوپر اٹھانا چاہے مگر اوپر اتنی جگہ ہی نہ تھی۔ رکھی نے ذرا بےچین ہوکر بدن کوایک بل دیا اور جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ داہنی طرف پھینک دیے۔ پھر پیٹھ میں ایک بل دے کر انگڑائی لی مگر فوراً ہی ایک سسکی بھرکر سیدھی ہو گئی اور گھبراکر پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔ دیکھتی کیا ہے کہ اس کے سرکے کچھ بال چیچک کے سوکھے دانوں میں چپک گئے ہیں۔ پھر اس نے سرپر ہاتھ پھیرا تو سر کو چکٹا پایا۔

    میل تھا کہ بدن کو کھائے جا رہا تھا۔ رکھی کچھ ایسی گھبرائی کہ بلبلاکر اپنے بل سے باہر نکل آئی، کھڑی ہوئی تھی کہ چکر آ گیا۔ اس نے جلدی سے دکان کے پٹرے پکڑ لیے، پھر ذراسنبھل کر پاس والے نل سے پانی پیا اور سوچنے لگی کہ کہاں چل کر نہانا چاہئے۔

    جب تندرست تھی تو صاف ساری لے کر دریاپرجاتی، وہاں میلی ساری دھوتی تھی، پھر جی بھرکر نہاتی تھی۔ ادھر بارہ روزتک بیمار رہی۔ اتنے دنوں تک میلی گندی پڑی رہی۔ پہلے بچہ ہوا، اس کا بندوبست کیا ہی تھا کہ چیچک نکلی۔ اس میں آٹھ روز تک پڑی رہی۔ بیماری ایسی تھی کہ کسی کو بتا نہیں سکتی تھی۔ جو کوئی پوچھتا اس سے کہہ دیتی کہ بخار ہے، کونین کھارہی ہوں۔ غنیمت ہوا کہ چیچک نے چہرے اور ہاتھوں پرقبضہ نہیں جمایا، ورنہ جہاں پڑی تھی وہاں سے الگ نکالی جاتی اور جو یار آشنا تھے وہ الگ ساتھ چھوڑ دیتے۔

    بارہ روز بیمار رہی۔ اچھے لوگ ایسی بری عورت کے قریب کیا بھٹکتے، برے لوگوں نے اس کی خبر لی۔ پورن نے دوکان کے نیچے پڑے رہنے دیا۔ مہابیر، کلو نے دودھ لاکر کھانے پینے کی خبر لی۔ خیربرے دن کٹ گئے۔ دو چار روز میں پھر گالوں پر رونق آ جائےگی اور پھر وہی پارک کی تفریحیں ہوں گی اور نگاہوں کو رجھانا۔

    کہاں چل کر نہانا چاہئے؟ دریا اتنی دورہے کہ اس کا خیال ہی فضول ہے۔ مہابیر اور کلو مزدوری پر گیے ہوں گے اور ان کے گھروں میں تالے پڑے ہوں گے۔ وہ لوگ ہوتے بھی تو ان کے یہاں نہانے کی جگہ کہاں؟ وہ آپ نل پرنہاتے ہیں۔ چلونل گھٹ چلیں۔

    کارپوریشن کی طرف سے ایک بڑا ساغسل خانہ بنا تھا۔ رکھی اس کونل گھٹ کہا کرتی تھی اورکبھی کبھی جب دیر ہو جاتی تو دریا کے بجائے نہانے دھونے وہیں چلی جاتی تھی۔ اس وقت اسی طرف چلی۔ راستہ میں یہ سوچتی جاتی تھی کہ نہاکر پہنوں کی کیا۔ ایک ساری پہنے ہوئے ہوں اور اس کے جوڑ کی جو ساری تھی وہ بچے کے ساتھ گئی۔

    رکھی ڈگمگا ڈگمگاکر چل رہی تھی۔ اگر نہانے کی تمنا اس کے سر پر ایسی مسلط نہ ہوتی تو شاید اس کو اٹھتے بھی برا لگتا۔ لیکن اس وقت تویہ خیال دل میں گھسا ہوا تھا کہ اگر میں نہا ڈالوں تو میل، بیماری، کمزوری اوربدن کی بےرونقی سب کچھ دور ہو جائے اور آج ہی پارک کے قابل ہو جاؤں۔ اس خیال نے اس کو ایسی ہمت دی کہ پاؤ ں کانپ رہے تھے مگر وہ آگے بڑھی چلی جاتی تھی۔ تھوڑی دور چلی تھی کہ بدن پر ایک دم سے چیونٹیاں سی رینگتی معلوم ہوئیں۔ یہ کھجلی۔۔۔ وہ کھجلی، سارے بدن میں کھجلی ہی کھجلی۔ توبہ، یہ سب میل ہے اور کچھ بھی نہیں۔ اگرجلدی میل دور نہ ہوا تو مورچے کی طرح میرے بدن کی رنگت وروہت کھا جائےگا۔

    رکھی کا ’نل گھٹ‘ سامنے آیا۔ کچھ لوگ کپڑے دھو رہے تھے۔ پانی کی بوندیں، دیوار کے اوپر اڑ اڑ کر دھوپ میں چمک رہی تھیں، موتی کی ایسی بوندیں! یہ سب میل صاف کر دیں گی۔ کہیں صابن بھی مل جاتا!

    رکھی اندر گھسی۔ ایک موٹی سی عورت اوکڑوں بیٹھی آگے کی طرف جھکی کپڑے زمین پر پٹک رہی تھی۔ ایک چھوٹی سی لڑکی پاس بیٹھی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے صابن کا پھین اکٹھا کرکے ٹیلا بنارہی تھی۔ مگر ادھر یہ ٹیلا بناکر اونچا کرتی۔۔۔ اور ادھرپانی کی دوایک بوندیں گر کر اس کی ساری محنت اکارت کر دیتیں۔ یہ پھر اپنے کام میں مشغول ہو جاتی۔ دوسرے کونے میں دو عورتیں بدن مل رہی تھیں۔ ایک طرف ایک لڑکی نہاکر صاف کپڑے پہن رہی تھی۔ رکھی نے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ سب نے فوراً اس کی طرف دیکھا اور سب نے بہت برا منہ بنایا۔ رکھی کی ہمت ان کی نگاہوں کو دیکھ کر کمزور پڑ گئی۔ یہ نفرت کیوں؟ کیا یہ جانتی ہیں کہ میں کون ہوں؟ کیسے جاننے لگیں؟ کوئی میرے ماتھے پر میرا پیشہ لکھا ہوا ہے؟

    رکھی (موٹی عورت سے)، ’’بہن ذرامیں نہا لوں۔‘‘

    موٹی عورت نے پلٹ کر اس کی طرف بڑی تیز نظروں سے دیکھا اور پھر ہاتھ جھٹک کر بولی، ’’بھاگ بھاگ ملچھ، اس کے پاس سے بوکیسی آ رہی ہے؟‘‘

    سب عورتیں ادھرہی دیکھ رہی تھیں۔ ایک دم سے بول اٹھیں، ’’رے تیرے پاس کیسی بو آ رہی ہے۔ الگ الگ۔‘‘

    ’’ادھر سے جا۔‘‘

    ’’دریا پر جا۔ وہاں جاکر نہا۔‘‘

    ’’جاتی ہے کہ نکالوں۔‘‘

    ’’ہٹ یہاں سے ہٹ۔ اس کو دق ہے۔ اس کی صورت تو دیکھو۔‘‘

    موٹی عورت، ’’بنا پولس کے نہیں جائےگی۔‘‘

    رکھی ان کی چاؤں چاؤں سے گھبرا گئی۔ ایک کو جواب دینے لگتی کہ دوسری بھڑ جاتی۔ آخررکھی کو غصہ آ گیا۔ اس کے جی میں آ رہا تھا کہ ان سب کا منہ نوچ لوں۔ بال خوب نوچ لوں اوربن پڑے تو کاٹ کھاؤں۔ اتنے میں موٹی عورت اٹھی اور اس نے اپنی بچی کا بنایا ہوا صابن کے پھین کا ٹیلا ہاتھ میں لے کر رکھی کے منہ پر کھینچ مارا۔ رکھی کی آنکھوں میں مرچیں سی لگنے لگیں۔ اس نے گھبراکر ساری کا پلو آنکھوں میں بھر لیا اور بڑی بےبسی سے چلانے لگی۔ دونوں عورتیں اور لڑکی قہقہہ مارکر ہنسیں۔

    رکھی اچھی ہوتی تو ایسی آسانی سے تونہ بھاگتی بلکہ موٹی عورت کو تو اس کے کیے کی سزا دے ہی دیتی مگراب اسے بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ گھبرائی ہوئی باہر نکل آئی۔ آنکھوں میں ایسی تکلیف تھی کہ میل کچیل، بنانا دھوناسب بھول باہر بھاگ آئی۔ نل ول کوبڑی مشکلوں سے ایک آنکھ کھول کر ادھرادھر دیکھا تو دو سوگز کے فاصلہ پر ایک نل تھا۔ رکھی دوڑ کر ادھر گئی۔ پانی سے آنکھوں کوخوب دھویا۔ جب ذرا آرام ملا تو کچھ سوچ کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

    ایک دوکان پرایک آدمی پنکھا منہ پر رکھے سو رہا تھا۔ اس کے پاس ایک نوجوان سفید کرتا پہنے ہوئے بیٹھا نیند بھری آنکھوں سے رکھی کو تک رہا تھا۔ کچھ دور ایک کپڑے والے کی دوکان پر ایک میاں صاحب دھوپ سے بچنے کو رومال منہ پر ڈالے کھڑے بھاؤ تاؤ کر رہے تھے۔ ان کے قریب رکشا والے پسینے اور میل میں سَنے کھڑے تھے۔ رکھی نے دوکان والے نوجوان کو ایک بار دیکھا اور کچھ ارادہ کرکے اپنی ساری سمیٹی مگر پھر جھجکی۔ آخر جی کڑا کرکے ایک بار نل کے نیچے بیٹھ گئی اور ایک ہاتھ سے کھٹکا دبا دیا۔ کمزوری کی وجہ سے کھٹکا اچھی طرح نہیں دبایا مگر پھر بھی تھوڑا تھوڑا پانی اس کے سر اور پیٹھ پر گرنے لگا۔

    نوجوان چلایا، ’’ہائیں ہائیں۔۔۔ ہائیں ہائیں۔‘‘

    نوجوان کا باپ (چونک کر چلایا)، ’’بازارمیں نہائےگی۔ اری او بےحیا کیا کرتی ہے؟‘‘

    اس سڑک پر شریف دوکان دارتھے۔ سب بےتحاشا چلانے لگے، ’’مستانی ہے۔‘‘ کپڑے کی دوکان کے میاں صاحب بھاؤ تاؤ چھوڑ چھاڑ ادھر دوڑ پڑے۔ پاس آکر انہوں نے رکھی کی انگلیوں پر چھڑی ماری۔ رکھی کے ہاتھ سے نل کا کھٹکا چھوٹ گیا۔ نل بند ہو گیا۔ اب انہوں نے رکھی کی پیٹھ میں چھڑی چبھوئی اور چلائے، ’’چل ہٹ سڑک پر سے۔ بڑی آئی ہے نہانے۔‘‘

    نل کے گرد میلہ لگ گیا۔

    چھڑی کی نوک جیسے گڑی، رکھی نے تکلیف سے منہ کھول دیا۔ آنکھیں سکوڑ لیں اورمنہ سے ایک چھوٹی سی چیخ نکل گئی مگر پھر فوراً ہی دانت بھینچ کر دونوں ہاتھوں سے نل پکڑ لیا اور جم کر وہیں بیٹھ گئی۔

    بڑے میاں، ’’ارے ہٹ ہٹ، ارے ہٹتی نہیں۔ ’‘

    ’’کیا کرنا چاہتی ہے؟‘‘

    ’’کیا یہاں نہائےگی؟‘‘

    ’’کلکتہ میں کتنی بےحیائی ہے۔ رام رام۔‘‘

    ’’اور ساری تو دیکھو کیسی مہین ہے۔‘‘

    ’’شکل چڑیلوں کی مزاج پر یوں کا۔ آتی ہیں نہانے۔‘‘

    بڑے میاں نے ہمت کرکے ایک بارزور سے چھڑی گڑائی اور پھر ہار کو ہاتھ ڈھیلا کر لیا۔ رکھی نے پھر نل کا کھٹکا دبایا۔ یہ دیکھ کر رکشا والے جو مجمع کو چیر کر اندر آ گئے تھے، بولے، ’’کیا ہے کیا۔۔۔ نہا بھی لینے دیجئے۔‘‘

    ’’نہا لینے دیجئے بیچاری کو۔‘‘

    ’’گرمی سخت ہے۔‘‘ مجمع سے ایک نے آوازہ کسا۔

    ’’چلو میرے گھر میں نہاؤ۔ ایسا غوطہ دوں۔۔۔!‘‘

    ایک صاحب تہمد باندھے کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ایک بار جوش میں آگے بڑھے۔ دیکھنے والے سمجھے کہ دو چار ہاتھ تو اس بےحیا عورت پر جھاڑ ہی دیں گے کہ اتنے میں پولیس والا نہ معلوم کدھر سے اندر گھس آیا اور اس نے رکھی کا ہاتھ پکڑکر ایک جھٹکے میں اس کو اپنی جگہ سے اٹھا، مجمع سے باہر کر دیا اور پھر فاتحانہ اندازمیں بولا، ’’نہیں ہٹتی تھی۔۔۔ ایک عورت کو نہیں بھگا سکتے۔‘‘

    مجمع میں تالیاں سیٹیاں بجنے لگیں۔ قہقہے اڑے اور آوازے کسے گئے۔ رکھی ہارے جنرل کی طرح سر جھکائے پیٹھ سہلاتی آگے بڑھی۔ اس نے پلٹ کر سپاہی کو دیکھا اور پھر تہمد والے شخص کو دیکھا۔ ان حضت کو تو اس نے پہچان لیا۔ ایک دن ان سے بھی دوستی رہ چکی تھی۔ مگر رکھی کوان کا نام یاد نہیں تھا۔ ورنہ اس وقت پکار کر ذلیل کر دیتی۔

    رکھی کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ لوگ کیسے ظالم ہوتے ہیں۔ ایسی ہی غیرت آتی تھی تو آنکھیں بند کر لیتے۔ مجھے تو نہا لینے دیتے اور غیرت کیسی؟ میں ساری تو باندھے ہوئے تھی۔ یہی غیرت مند لوگ جب زنانے گھاٹ پر عورتیں نہاتی ہوں، آکر پرا باندھ کر بیٹھتے ہیں اور خوب گھورتے ہیں۔ اس وقت غیرت نہیں آتی۔

    رکھی کو اپنا بچپن یاد آنے لگا۔ اس کی ماں دوپہر کو اس کے لیے گڑیاں بناتی تھی اور شام کو پابندی سے نہلا دھلاکر صاف کپڑے پہناتی تھی۔ اگر کپڑے کھیل کود میں میلے ہو جاتے تو بہت بگڑتی تھی۔ پھر رکھی کو اپنا بچہ یاد آیا جو بارہ دن ہوئے دوبجے رات کو پیدا ہوا تھا۔ لڑکا تھا۔ بچارے نے ایک ہی بار’کہاؤں‘ کیا تھا کہ رکھی نے اس کا منہ، اس کی ننھی گردن اور اس کا سارا بدن اپنی ساری سے لپیٹ دیا اور پھر وہ پوٹلی ایک گلی میں لے جاکر نالے کا منہ کھول کر اندر ڈال دی۔ اس کام میں سوہنی نے بھی ہاتھ بٹایا اور کیوں نہ بٹاتی؟ اس کو بھی کسی نہ کسی دن رکھی کی مدد کی ضرورت ہوگی۔ یوں ہی لوگ ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔۔۔ ہا۔۔۔ بچہ کا بچہ گیا اور ساری کی ساری۔ اس وقت تو نہاکر پہننے کے کام آتی۔

    سر اور پیٹھ کے بھیگ جانے سے نہانے کا شوق اور تیز ہو گیا بلکہ اب تو رکھی کوایک طرح کی ضد آ گئی کہ کچھ ہو، نہاکررہیں گے۔ چلو دریا چلو۔ لیکن وہ دور ہے۔ دور ہی سہی، کیا ہوگا کیا؟ راستہ میں تھک کر گرپڑیں گے؟ مر جائیں گے اور اچھا ہے، ایسی زندگی سے نجات ملےگی۔

    ایک چائے کی دوکان پر کچھ بے فکرے بیٹھے قہقہے اڑا رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر رکھی سوچنے لگی کہ کاش ایسا ہوتا کہ یہ لوگ پکارتے۔

    ’’آہاہا۔ کون جا رہا ہے؟‘‘

    ’’ایک نظر ادھر بھی۔‘‘

    میں جواب تونہ دیتی مگر اپنی لگاوٹ والی نگاہ مار دیتی اور پھر اٹھلاتی، قدم پھینکی آگے بڑھتی۔ پھر کوئی کہتا، ’’ارے ذرا ادھر تو آجا۔ ارے بات تو سن۔‘‘

    ’’سن تو سہی، کوئی تجھے کھا جائےگا کیا؟‘‘

    میں پلٹ پڑتی اور کہتی، ’’کیا غل مچا رکھا ہے۔ میں جا رہی ہوں دریا۔ نہانے۔ کیسی گرمی ہے۔ میل ہے کہ بدن کو کھائے جا رہا ہے۔‘‘

    چائے والا کہتا، ’’آؤ یہاں۔ یہاں نہالو۔‘‘

    میں کہتی، ’’باتیں نہ بناؤ۔‘‘

    پھر خود ہی گنگنانے لگتی۔

    ’’ہٹو جاؤ۔ باتیں نہ بناؤ۔‘‘

    چائے والا، ’’تمہاری جان کی قسم۔ ادھر دیکھو مکان کے اندر حوض بنا ہے۔‘‘

    چائے والا مجھ کو خوشامد درآمد کرکے اندر لے جاتا تو وہاں سچ مچ ایک حوض ہوتا، پھر چائے والا مجھ کو ایک ساری لاکر دیتا۔ اب میں چائے والے سے باہر جانے کو کہتی مگر وہ نہ مانتا اور ضد کرتا کہ میں تو اندر ہی ٹھہروں گا۔ آخر بڑی خوشامد کے بعد باہر جاتا اور میں خوب نہاتی۔ پھر بالوں میں کنگھی کرتی اور ساری پہنتی۔

    رکھی سوچنے لگی کہ اگر یہ خواب پورا ہو جائے تو کیا کہنا۔ بدن کیسا ہلکا ہلکا ہو جائے۔ گویا دوبارہ زندگی مل جائے۔

    (۲)

    سورج ڈوبنے پر تھا اور پارک کی چہل پہل شباب پر تھی۔ تال کے اس پار چھوٹے چھوٹے بچے تیتریو ں کی طرح ادھر ادھر اڑے اڑے پھر رہے تھے اور غل مچا رہے تھے۔ ایک بچہ ایک کتے کی رسی پکڑے ٹہلا رہا تھا اور دوسرا کتے کی پیٹھ پر ببوے کو سوار کر رہا تھا۔ ان کی آیائیں گھاس پر ٹانگیں پھیلائے آدھی لیٹی اور آدھی بیٹھی اپنی اپنی بک بک میں کھوئی ہوئی تھیں۔ وہاں سے دور پر دو تین نوجوان مرد اور عورتیں نمائشی کپڑوں میں لپٹے ایک دوسرے کو اپنے فقرے اور قہقہے سنارہے تھے۔ دوسری طرف دس پندرہ سفید پوشوں کا مجمع تھا، جس میں سے چار پانچ تال میں وضو کر رہے تھے۔ ایک مولوی صاحب تال میں پاس اپنے بارہ برس کے لڑکے کو لیے دو زانو بیٹھے نماز کے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک طرف ایک کانسٹبل اکیلا وقت گزاری کے لیے ٹہل رہا تھا۔ اس مجمع میں رکھی آ نکلی۔ اس نے اپنی منزل طے کر لی تھی۔ دریا قریب تھا۔ بندرگاہ پر کھڑے جہاز دکھائی دے رہے تھے۔ جہاز پر کام کرنے والی مشینوں کی چھپ چھپ اور قلیوں کی چیخ وپکار صاف سنائی دے رہی تھی۔

    دریا قریب تھا لیکن پارک کی اس چہل پہل اور اس فراغت سے بھرپور سماں نے رکھی کو ایسا پکڑا کہ یہ تھکی ہاری تال کے کنارے بیٹھ گئی اور اپنے دونوں پاؤں گھٹنوں گھٹنوں پانی میں پھیلا دیے۔ نیلے تال کے اندر پھیلی ہوئی سبزبیل کے بیچ بیچ شام کے سرخ بادلوں کا عکس تھا۔ تال ایساد لکش تھا کہ بس جی چاہتا تھا کہ دیکھے ہی جاؤ، رکھی ذرادیر تو کھوئی سی بیٹھی رہی، پھر کچھ سوچ کر اس نے جلدی جلدی ادھر ادھر دیکھا اور چھم سے پانی میں اتر گئی۔

    کانسٹبل یہ دیکھ کر چلاتا ہوا دوڑا۔ نمازیوں نے غل مچایا۔ مولوی صاحب نے لاحول پڑھی اور آیائیں چونک کر کھڑی ہو گئیں۔ سپاہی گھبرایا ہوا تال کے کنارے دوڑ رہا تھا اور چلا رہا تھا، ’’اری چالان ہو جائےگا، جیل میں ڈال کر سڑا ڈالی جائےگی۔‘‘

    وضو کرنے والوں کو بھی غصہ آ گیا۔ وہ کانسٹبل کو ڈانٹنے لگے کہ ’’اسے نکال، اے نکال۔‘‘ کانسٹبل دیر سے یہی ارادہ کر رہا تھا مگر اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ نکالوں تو کیسے نکالوں۔

    رکھی اپنے اوپر یہ نرغہ دیکھ کر گھٹنوں گھٹنوں پانی میں سینہ تان کر کھڑی ہو گئی۔ جسم کے سارے اتار چڑھاؤ ساری پر اتر آئے۔ بیماری نے چہرہ ضرور چوس لیا تھا مگربدن کا کس بل بہت کچھ باقی تھا۔ خوش پوش نوجوانوں کویہ دیکھ کر ساتھ کی لیڈیوں کے سامنے شرم آنے لگی۔ وہ لوگ ادھر پیٹھ پھیر کر کھڑے ہو گئے۔

    رکھی کے اس ناگہانی حملے سے حملہ آور ٹھٹک گئے۔ رکھی کے ہونٹوں پردن میں پہلی بار کامیابی ناچنے لگی۔ اب اس نے دوسرا حملہ کیا۔ وہ بھیڑ کو بھول کر اطمینان سے ساری ہٹاکر بدن ملنے لگی۔ آیاؤں نے بچوں کو کھینچا۔ مولوی صاحب نے اپنے لڑکے کو جو ٹکٹکی باندھے ادھرتک رہا تھا، چٹاخ سے ایک تھپڑ رسید کیا۔ وہ بھوں بھوں رونے لگا۔ وضو کرنے والوں نے گردنیں جھکا لیں اور وضو پھر سے شروع کیا۔ پولس والا اس عورت کو پاگل سمجھ کر خاموشی سے اس کی حرکتیں دیکھنے لگا۔

    رکھی حملہ آوروں کی پٹائی دیکھ کر بہت خوش ہو گئی مگر اس کو دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کہیں یہ کانسٹبل اپنے اور ساتھیوں کو بلاکر مجھے پکڑوا نہ دے۔ اس لیے وہ جلدی جلدی نہائی اور فتح یاب ہوکر نکل آئی۔ بدن پر ساری چپکی ہوئی تھی اور رکھی اٹھلاتی اپنا پسندیدہ گیت ’’راجہ جانی رے‘‘ گاتی ایک طرف کو چل کھڑی ہوئی۔ پولیس والا سوچتا رہی رہا کہ اس پاگل کو پکڑوں یانہ پکڑوں۔ مرد گھوم گھوم کر دیکھ رہے تھے کہ کہیں یہ پگلی ایسا تو نہیں کرتی کہ اپنی ساری نچوڑ کر سوکھنے کو پھیلا دے۔

    مأخذ:

    حیات اللہ انصاری کی کہانی کائنات (Pg. 108)

    • مصنف: حیات اللہ انصاری
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2017

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے