Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھول بھلیاں

معین الدین جینابڑے

بھول بھلیاں

معین الدین جینابڑے

MORE BYمعین الدین جینابڑے

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہے۔ یہ بیماری اسے بچپن سے ہی ہے جب وہ گلی میں دوستوں کے ساتھ کھیلتے وقت کسی انجان شخص کو اپنا ماما سمجھ کر اس کے پیچھے چل پڑا تھا اور پھر ممبئی کی بھیڑ میں گم ہو گیا تھا۔ حالانکہ بعد میں وہ مل گیا تھا۔ اس کے بعد وہ کئی بار کھویا اور پھر یہ اس کی عادت بن گئی، جو آج تک اس کے ساتھ ہے۔

    گلی میں کھیل رہے بچوں کے شور اور از خود ورق الٹنے والے البم کی موسیقی نے آپس میں مل کر بابو کھوجی رام پر ایک عجیب کیفیت طاری کر دی تھی۔ ان کی بوڑھی آنکھوں میں یادوں کے جگنو چمک رہے تھے۔ ان جگنوؤں کی جلتی بجھتی روشنی میں وہ ٹھہر ٹھہر کر، ماضی کے اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے کافی دور تک نکل آئے تھے اور اب ان کی عمر اپنے اس پوتے جتنی ہو گئی تھی جو باہر گلی میں اپنے ہم سِنوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔

    ساٹھ باسٹھ برس کا فاصلہ جب مٹ گیا تو انہوں نے اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی کھول کر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ گلی کی چہل پہل بدستور قائم تھی۔ آنے جانے والوں کاسلسلہ جاری تھا۔ پھیری والے اور خوانچہ فروش آوازیں لگاتے ہوئے گذر رہے تھے۔ دو ایک کو گلی کی عورتوں نے روک لیا تھا اور ان سے مول تول کر رہی تھیں۔ ایک بغیر گھنٹی کا سائیکل سوار چلا چلاکر راہ گیروں کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ادھر سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی تو دوسروں کے ساتھ سائیکل سوار بھی ایک طرف کو ہو گیا۔ سب کچھ پہلے جیسا تھا۔ بس اتنا فرق ہوا تھا کہ دور دور تک ان کا کوئی ساتھی، کوئی ہمجولی نظر نہیں آ رہا تھا۔ سب چھپ گئے تھے اور انہیں ان چھپے ہوؤں میں سے کسی ایک کو ڈھونڈ کر چھونا تھا۔

    اپنے چھپے ہوئے ساتھیوں کو ڈھونڈ نکالنا کھوجی رام کے لیے کوئی بات نہیں تھی۔ جب کبھی اس پر داؤ چڑھتا وہ یوں چٹکیوں میں اسے اتار دیتا۔ بھگوان جانے یہ اس کے نام کی برکت کی وجہ سے تھا یا کھیل کے قاعدوں کی وجہ سے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کھوجی رام پر داؤ چڑھا ہو اور اس نے سو کی گنتی کے اندر اسے اتارا نہ ہو۔ اسی داؤ کو اتارنے میں اس کے ساتھی پسینے پسینے ہو جاتے تھے۔

    جب کبھی کھوجی رام کی باری آتی تو لڑکوں کا جی چاہتا کہ کھیل کے قاعدوں میں کچھ ترمیم کی جائے اور اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو یوں ہو جائے کہ ان کی گلی کچھ پھیل جائے۔۔۔ اتنی پھیل جائے کہ سارا شہر اس کے اندر سماجائے۔۔۔کھوجی جیسا ڈھونڈنے والا ہو تو اتنی سی گلی میں چھپنا بھی کوئی چھپنا ہوا۔ کھیل کا مزہ تو اسی وقت ہے کہ داؤ اتارنے والے کو نانی یاد آ جائے!

    داؤ اتارنے کے لیے کھوجی چاروں طرف گھوم کر گلی کا جائزہ لے رہا تھا اور اس کے دوست جہاں کہیں بھی چھپے تھے، دم سادھے دل ہی دل میں گنتی گن رہے تھے۔ یہ طے تھا کہ سو کی گنتی تک پہنچتے پہنچتے ان میں سے کسی ایک پر داؤ چڑھ چکا ہوگا۔ ہر لڑکا اپنی خیر منا رہا تھا۔ جھٹپٹے کا وقت تھا۔ اب پکڑے جانے کا مطلب تھا رات کے اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے پھرا کریں اور دیر سے گھر جانے کی سزا میں پٹائی ہوگی سو وہ الگ!

    اکثر یہ ہوتا کہ نوے پچانوے کے اندر ہی کھوجی پکار کر کسی کے پکڑے جانے کا اعلان کرتا اور باقی لڑکے اپنی اپنی جگہ سے نکل کر باہر آ جاتے۔ آج یہ ہوا کہ ان میں سے ہر ایک کی گنتی سو تک پہنچ گئی اور وہ باہر نہیں نکل سکے۔ کھوجی نے کسی کے پکڑے جانے کا اعلان ہی نہیں کیا تھا۔

    اتنی دیر میں کھوجی داؤ نہ اتار سکے یہ ناممکن ہے۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ اس نے انہیں بےوقوف بنایا ہو۔ یہ حرکت تو کچے کھلاڑیوں کی ہے کہ جب ان پر داؤ چڑھے تو سب کے چھپ جانے کا انتظار کریں اور پھر چپ چاپ آنکھوں پر بندھی پٹی کھول کر گھر کی راہ لیں۔ چھپنے والے، چھپے بیٹھے یہ سوچ کر خوش ہوتے رہیں کہ کوئی انہیں ڈھونڈ رہا ہے اور وہ کسی کو پدا رہے ہیں۔ یہ تو انہیں بعد میں معلوم ہو گا کہ وہ خود پد گئے۔

    کھوجی ایسا نہیں کر سکتا۔ وہ ایک پکا کھلاڑی ہے اور اس کھیل کے تعلق سے کچھ ایسی ازلی مناسبت ساتھ لے کر آیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے، کھیل کے اسرارو رموز از خود اس پر آشکار ہونے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ وہ واحد کھلاڑی تھا جسے صرف چھپنے میں نہیں بلکہ ڈھونڈنے میں بھی لطف آتا تھا۔ اس کھیل میں وہ دونوں رول یکساں دلچسپی اور انہماک سے ادا کرتا تھا۔ اس کے لیے آنکھ مچولی کے کھیل میں پدنا اور پدانا بےمعنی لفظ تھے۔ ایساکبھی نہیں ہوا کہ اس نے ڈھونڈنے کی باری سے جی چرایا ہو یا یہ کہ چھپنے کی باری کی طرف اس کی رغبت ظاہر ہوئی ہو۔ سب دیکھتے تھے کہ اسے ڈھونڈنے میں بھی وہی مزہ آتا ہے جو دوسروں کو چھپنے میں آتا ہے۔ چھپنے میں اوروں کے ساتھ اسے مزہ آتا تھا تو کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔

    یہی وجہ ہے کہ ہر لڑکے کو یہ یقین تھا کہ سب کے چھپ جانے کے بعد چپ چاپ گھر چلے جانے کی حرکت اس سے سرزد نہیں ہو سکتی۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اسے شرارت سوجھی ہو اور اپنی شرارت میں اس نے پکڑے جانے والے لڑکے کو ساجھی بنا لیا ہو۔ کھوجی نے اسے اس بات پر آمادہ کر لیا ہو کہ دونوں خاموش بیٹھے رہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ڈھونڈے جانے کے شوق میں سب لڑکے کب تک چھپے رہ سکتے ہیں۔ یہ حرکت کھوجی پہلے بھی دو ایک مرتبہ کر چکا تھا۔

    آج ایک مرتبہ پھر ان لڑکوں کو معلوم ہوا کہ جس چھپنے کی باری کی خاطر وہ مرے جاتے ہیں وہ چھپنا کتنا اذیت ناک ہو سکتا ہے۔ وہ جو کچھ دیر پہلے اس خیال سے مسرور تھے کہ کوئی انہیں ڈھونڈ رہا ہے، اب پریشان ہو گئے تھے کہ کوئی انہیں ڈھونڈ کیوں نہیں لیتا؟ ڈھونڈے جانے کا نشہ اتر چکا تھا۔ اتنی دیر تک چھپے رہنے سے ان کی طبیعتیں منغض ہونے لگیں تو انہوں نے اپنی اپنی جگہ سے کسی آڑ، کسی اوٹ سے جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی اور جب یہ کوشش سود مند ثابت نہیں ہوئی تو سب کے سب اوٹ سے نکل کر باہر گلی میں آ گئے۔

    باہر گلی میں شام کے دھندلکے کی جگہ رات کی سیاہی اتر آئی تھی۔ میونسپلٹی کا بلب ٹمٹما رہا تھا۔ ساری چہل پہل ماند پڑچکی تھی۔ فضا بوجھل ہو گئی تھی اور راستے پر اداسی بچھی ہوئی تھی۔۔۔ رہا کھوجی تو اس کا دور دور تک پتا نہیں تھا!

    کھوجی نے نہ تو اپنے دوستوں کو بےوقوف بنایا تھا اور نہ اس شام اسے شرارت سوجھی تھی۔ داؤ اتارنے کے لیے چاروں طرف گھوم کر جب اس نے گلی کا جائزہ لیا اور ایک اچٹتی ہوئی نظر بڑی سڑک پر ڈالی تو وہاں سے گذرتے ایک آدمی پر اسے اپنے ماما کا گمان ہوا۔ اس کے وہ ماما جو کبھی بمبئی نہیں آئے تھے۔ کھوجی نے دیکھا کہ وہ گلی میں نہیں مڑے بلکہ سیدھا آگے بڑھ گئے۔ لپک کر انہیں روکنے کے خیال سے کھوجی گلی سے نکل کر بڑی سڑک پر آ گیا۔۔۔ وہ اماں کی اس تاکید کو بھولا نہیں تھا کہ کھیل کود کے دوران کبھی گلی سے باہر قدم نہ نکالے۔۔۔ لیکن اسے اماں کی یہ بات بھی یاد تھی کہ اس بمبئی کی بھیڑ میں بچے تو بچے بڑے بھی کھو جاتے ہیں۔ پردیس میں ماما کے کھو جانے کا اندیشہ اس کے ذہن پر کچھ ایسا حاوی ہوا کہ اس نے سوچا بھگوان نہ کرے اگر اس بھیڑ میں ماما کھو گئے تو اس کی ذمہ داری اس کے سر ہوگی۔

    بڑی سڑک پر آکر اس نے ماما کو آواز دی لیکن سڑک کے شور میں شائد اس کی آواز ان تک نہیں پہنچی۔ وہ برابر آگے بڑھتے رہے۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا تک نہیں۔ کھوجی نے سوچا ذرا سا تو فاصلہ ہے ابھی دوڑ کر انہیں روک لیتا ہوں۔ وہ بھیڑ کو چیرتے ہوئے ان کی طرف بڑھنے لگا۔ لوگوں کو ہٹاتے اور موٹروں سے بچتے بچاتے انہیں جا لینے کی کھوجی کی تمام تر کوشش کے باوجود اس کے اور ماما کے بیچ کا فاصلہ مستقل بڑھتا رہا۔ اس کوشش میں وہ اپنے گھر اور گلی سے بہت دور نکل آیا اور اسے اس بات کا بھی دھیان نہیں رہا کہ وہ بڑی سڑک کو کب کا چھوڑ چکا ہے۔

    انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں اس کے ماما کی حیثیت ایک تنکے کی سی تھی۔ وہ تنکا اس سمندر کی پر شور موجوں پر ہچکولے کھا رہا تھا اور کھوجی اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ اس ڈوبتے ابھرتے تنکے کو دیکھتے دیکھتے ایک پل کے لیے کھوجی کو ایسا لگا کہ وہ خود اس سمندر میں ڈوبا جا رہا ہے۔ دوسرے ہی پل اس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی موج آئی اور اس میں وہ تنکا ایسا ڈوبا کہ پھر ابھر نہ سکا!

    تنکے کے ڈوبنے نے کھوجی کو اپنے ڈوبنے کے احساس سے نجات دلائی۔ اس نے ٹھہر کر سانس درست کیا۔ خود اپنا جائزہ لیا تو دیکھا کہ وہ پسینہ پسینہ ہو رہا ہے۔ اپنے اطراف نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ وہ شہر کے کسی انجانے چوراہے کے بالکل بیچ میں کھڑا ہے۔۔۔ چشم زدن میں اس پر روشن ہوا کہ وہ کھو گیا ہے!۔۔۔ تو آخر وہ ڈوب ہی گیا!

    ان دنوں بمبئی میں ٹرا میں چلا کرتی تھیں۔ سڑک پر ان کے لیے لوہے کی پٹریاں ڈال دی گئی تھیں۔ اوپر برقی تار جھول رہے تھے جن سے ٹرام جڑی رہتی تھی۔ وہ شائد ٹرام کے وہاں سے گزرنے کاوقت نہیں تھا۔ بسوں، موٹروں اور سائیکلوں سے البتہ چاروں راستے پٹے پڑے تھے۔ تمام سواریوں کی رفتار میں ایک تال میل تھا۔ پیدل چلنے والوں کی بھیڑ الگ تھی۔ مختلف عمروں کے مردوں اور عورتوں پر مشتمل تھی وہ بھیڑ۔ اس میں بعضوں کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے۔ وہ سب ان سواریوں سے بےنیاز اپنے اپنے راستے، چلے جا رہے تھے۔ ویسے ہی جیسے وہ سواریاں، ٹرام کی لوہے کی پٹڑیوں سے بےنیاز فراٹے بھر رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ان سبھوں کو بڑے سلیقے کے ساتھ سدھایا گیا ہے۔ کسی کی کسی سے ٹکر نہیں ہو رہی تھی۔ جبکہ ٹکرا جانے کے امکانات قوی تھے۔ سب سہج سبھاؤ سے چلے جا رہے تھے۔ گویا ہر چیز اپنے معمول پر تھی، سوائے اس کے۔۔۔ ہر چیز اپنے محور سے بندھی ہوئی تھی اور اس کی گردش کا راستہ طے تھا۔ سوائے اس کے کہ وہ کھو گیا تھا!

    لوگوں کا وہ ہجوم دیکھتے دیکھتے کئی ریلوں میں بٹ جاتا اور کچھ دیر میں الگ الگ سمتوں سے کئی ریلے آکر پھر سے ہجوم بناتے۔ کبھی کبھی دو ریلے آمنے سامنے ہو جاتے تو وہ آپس میں بڑے عجیب ڈھنگ سے گتھ جاتے۔ ذرا سی دیر میں معلوم ہوتا کہ دونوں نے ایک دوسرے کو پار کر لیا ہے۔ لیکن وہ تو اپنے محور ہی سے دور جا پڑا ہے وہ بھلا کس کے مقابل ہو سکتا ہے؟

    تا دیر مستقل طور پر ڈوبتے ابھرتے تنکے کے تعاقب کی وجہ سے اس کی نظر دھندلا گئی تھی اور یہ منظر اس کے لیے ایک پراسرار کیفیت کا حامل ہو گیا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ایک مہین چادر اس پورے منظر پر تان دی گئی ہے اور اس چادر سے منظر کے اسرار ایک ایک کر کے چھن رہے ہیں۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی دنیا ہی بدل گئی تھی۔۔۔ اور یہ اسی پل بدل گئی تھی جس پل اس پر یہ بات کھلی تھی کہ وہ کھو گیا ہے!

    اس ننھی سی عمر میں شعوری طور پر وہ ان باتوں کو کیا سمجھتا لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس نے خود کو کھو کر جسے پایا تھا اس ایک پل کے لیے اس نے اپنے اندر ایک عجیب اپناپن محسوس کیا تھا۔ وقت گذرتا رہا لیکن وہ ایک پل کہیں اس کے اندر ٹھہر سا گیا!

    کھو جانے کے باوجود وہ طمانیت کے احساس سے بھرا ہوا تھا۔ اسے کھونے کا مطلق غم نہیں تھا لیکن جب اسے اماں کی یاد آئی اور خیال آیا کہ اب وہ انہیں مل نہیں پائے گا تو بےاختیار اس کے آنسو نکل پڑے۔ آنسو پوچھنے کے لیے اس نے ابھی ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ۔۔۔ گلی سے آ رہی رونے کی آواز اور دادا کی پکار نے ان ہاتھوں کو روک لیا!

    بابو کھوجی رام ایک زقند بھر کے دوبارہ وقت کے دھارے سے آ ملے۔ البم کی چابی آخری ورق پر آ کر ختم ہو گئی تھی۔ اس آخری ورق پر ان کی اپنی تصویر لگی ہوئی تھی۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد الوداعی تقریب کی تصویر تھی وہ۔ اس کے ساتھ ہی صبح کا دیکھا ہوا اخبار رکھا تھا اور سامنے سے ان کا پوتا روتا ہوا آ رہا تھا۔

    آج صبح اخبار میں اپنے پوتے کی عمر کے ایک گم شدہ بچے کی تصویر دیکھ کرانہیں یاد آیا تھا کہ ساٹھ برس قبل جب پہلی مرتبہ ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا اس دن آج ہی کی تاریخ تھی۔ اپنے حافظے کو جانچنے کے خیال سے وہ بچپن کی اس تصویر کو ڈھونڈ رہے تھے جس کی پشت پر بابوجی نے اس کے نام اور پتے کے ساتھ کھو جانے کی تاریخ لکھ رکھی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ بابوجی اس تصویر کو لیے پولس اسٹیشن کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں وہ انہیں روتا ہوا مل گیا تھا۔۔۔ جیسے اچانک غیرمتوقع طور پر وہ کھو گیا تھا ویسے ہی اچانک غیرمتوقع طور پر وہ مل بھی گیا تھا!

    اس اتفاق پر سبھی حیران تھے اور اماں تھیں کہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھیں۔ انہوں نے اسے سینے سے لگا کر چمکارتے ہوئے جب پوچھا کہ بیٹا تو کھو کیسے گیا تھا؟ تو اس نے انہیں بڑی سڑک پر ماما کو دیکھنے اور ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہنے کی تفصیل بتائی تھی۔ اس پر اماں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’بیٹا! میری دادی کہا کرتی تھی کہ دنیا میں ایک صورت کے تین آدمی ہوتے ہیں۔ یہ دھرتی اتنی وشال ہے کہ ایک صورت کے دو آدمی آپس میں مل نہیں پاتے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ایک صورت کا ایک ہی آدمی ہوتا ہے۔۔۔ بیٹا! وہ تیرے ماما نہیں تھے۔ ان کی شکل تیرے ماما سے ملتی ہوگی۔ آئندہ یاد رکھنا کبھی کسی کی صورت دیکھ کر دھوکے میں مت آنا‘‘

    اس نے اماں کی بات گرہ میں باندھ لی تھی لیکن وہ ایک پل جو اس کے اندر کہیں ٹھہر گیا تھا، ہر پل خود کو دہرانے کی فکر میں لگا رہتا تھا۔ جس کی وجہ سے گھر والے تو گھر والے، گلی محلے والے بھی اس کے تعلق سے پریشان اور فکر مند رہنے لگے تھے۔ سال میں دو ایک مرتبہ یوں ہی اتفاقیہ طور پر کھو جانا، کھوجی کی زندگی کا معمول بنتا جا رہا تھا۔ وہ تو خیر تھی کہ وہ اتفاقیہ طور پر مل بھی جاتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گذرنے لگا اور کھوجی کی عمر بڑھنے لگی ماں باپ کے اندیشوں کی نوعیتیں بھی بدلنے لگیں۔ اب بابو جی بات بے بات اس پر بگڑنے لگے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے جھلا کر، اسے ڈپٹ کر پوچھا تھا،

    ’’تو بار بار کھو کیوں جاتا ہے!‘‘

    اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کی خاموشی پر وہ اور بگڑے تھے۔ بگڑ کر انہوں نے دوسرا سوال داغا تھا۔

    ’’تجھے کیا مل جاتا ہے اس بار بار کے کھو نے میں ؟‘‘

    اس کے پاس اس کا بھی جواب نہیں تھا۔۔۔ وہ بابوجی کو کیسے سمجھاتا کہ کھونا اپنے آپ میں ایک پانا ہے!

    اب اس کے چھوٹے بھائی بہن اتنے بڑے ہو گئے تھے کہ اس کی زندگی کے اس معمول سے وہ بھی اپنی بساط بھر واقف ہونے لگے تھے۔ ان کی آپس کی بات چیت اور ہنسی مذاق میں حوالے کے طور پر کبھی کبھار اس کا ذکر بھی آنے لگا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے چھوٹے بھائی نے اپنی دیدی سے پوچھا،

    ’’دیدی! بمبئی میں اتنی بھیڑ کیوں ہے!‘‘

    تو اسے دیدی نے جواب دیا تھا،

    ’’یہ ساری بھیڑ ہمارے بھیا کے کھونے کے واسطے جٹائی گئی ہے۔‘‘

    گھر والوں کی ہر ممکن کوشش کے باوجود بمبئی کی یہ بھیڑ بار بار بھیا کے کام آنے سے باز نہ آئی تو انہوں نے بھیا کے پیروں ہی میں بیڑی ڈال دی۔۔۔ بڑی دھوم دھام سے اس کا بیاہ کر کے بہو گھر لے آئے کہ اب یہ کھونٹی سے بندھا رہےگا! کم از کم اماں تو یہی سمجھتی تھیں لیکن بابو جی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں تھے۔ ان کی سوچ ذرا الگ تھی۔ وہ سوچتے تھے کہ آج جب یہ کھو جاتا ہے تو گھوم پھر کر ہمیں مل جاتا ہے۔ کل کو اگر ہم نہ ہوے تو کھونے کے بعد یہ کسے ملےگا؟ کھونے کے بعد دوبارہ ملنے کے لیے کسی کا ہونا ضروری ہے۔ کافی غوروفکر کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس ضرورت کو صرف بہو ہی پورا کر سکتی ہے!

    کچھ دنوں کے بعد باتوں باتوں میں امّاں نے بہو کے سامنے اس کے کھونے کے معمول کا ذکر کر دیا۔ ابھی اس غریب کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں چھٹی تھی کہ اس کی راتوں کی نیند اڑ گئی۔ ڈاکٹر نے خواب آور گولیاں تجویز کی۔ اب یہ ہونے لگا کہ رات میں وقت بے وقت وہ ہڑ بڑا کر نیند سے جاگ اٹھتی اور اندھیرے ہی میں ساتھ والے بسترکو ٹٹول کر دیکھ لیتی کہ وہ کھو تو نہیں گیا۔

    اس کی بیوی نہیں جانتی تھی کہ وہ یوں راتوں کو پراسرار طور پر غائب نہیں ہوتا۔ وہ تو بڑے ہی فطری انداز میں سہج سبھاو سے کھوتا آیا ہے۔۔۔ لیکن وہ یہ بات اپنی بیوی کو کیسے سمجھاتا!

    کچھ دنوں میں اس کی بیوی اس بات کو خود ہی سمجھ گئی۔ ویسے بھی وہ بڑی سمجھدار عورت تھی اپنی گرہستی جمانے میں اس نے جس سلیقے اور اسے چلانے میں جس سگھڑاپے کا مظاہرہ کیا تھا وہ اسی کا حصہ تھا۔ اس کے اس سلیقے کو دیکھ کر کھوجی کے ماں باپ نہال ہو گئے تھے۔ اس نے آ کر گھر کی کایا ہی پلٹ دی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پانچ برسوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ کھوجی کا معمول پرانی بات ہو کر رہ گیا ہے۔۔۔ لیکن ایک دن بہو اپنی ساس سے کہہ رہی تھی ’’ماں جی! جیسا آپ بتاتی ہیں وہ کھونا تو پھر بھی ٹھیک تھا۔ کھو گئے۔۔۔ پھر مل گئے۔ لیکن اب تو انہوں نے کھونے کا ڈھنگ ہی بدل دیا ہے۔‘‘

    بوڑھی ماں لرز کر رہ گئی تھی۔

    ’’وہ کیسے بیٹی؟‘‘

    ’’کیا بتاؤں ماں جی! اب تو یہ آٹھوں پہر کھوئے کھوئے رہتے ہیں۔‘‘

    اماں نے اپنا ماتھا پیٹ لیا تھا اور بہو کی طرف ترحم آمیز نظروں سے دیکھ کر، مجرم کی طرح پلکیں جھکالی تھیں!

    اماں کے خیال نے بابو کھوجی رام کو بچپن کی وہ بات یاد دلا دی جسے انہوں نے کبھی گرہ میں باندھ لیا تھا۔ ان کی نظریں سامنے پڑے البم کے آخری ورق پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ سوچنے لگے اگر دنیا میں ایک شکل کے تین آدمی ہوتے ہیں تو اس صورت کے بھی ہوں گے۔ یہ کیوں کر ہوا کہ انہوں نے اماں کی بات کو گرہ میں باندھ کر بھلا دیا۔ کبھی اس پر غور نہیں کیا۔ جبکہ زندگی میں چار چھ مرتبہ خود ان کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ کسی اجنبی سے ان کا تعارف ہوا اور اس نے چھوٹتے ہی یہ بتایا کہ ان کی صورت اجنبی کے کسی دوست یا عزیز سے ہو بہو ملتی ہے۔

    وہ حیران تھے کہ جدید ایجادات کی وجہ سے یہ دنیا سمٹ سمٹا کر بہت چھوٹی ہو گئی ہے لیکن پھر بھی یہ ا تنی بڑی ہے کہ ایک شکل کے دو آدمی آپس میں مل نہیں پاتے۔ ایسا آدمی مل جاتا ہے جو الگ الگ جگہوں پر، الگ الگ وقتوں میں دونوں سے مل چکاہو لیکن ایک وقت ایک جگہ، دو ایک جیسے آدمی نہیں مل پاتے، کیا وجہ ہے کہ اتفاقیہ طور پر ہی سہی وہ کبھی آمنے سامنے نہیں ہوتے۔ اس اتفاق کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے قدرت نے نہ جانے کیا اہتمام کیا ہے اور پتا نہیں ایسا کرنے میں اس کا کون سا راز پوشیدہ ہے۔۔۔ ورنہ یہ کیوں کر ہوا کہ وہ زندگی بھر کھوتے آئے ہیں لیکن یہ نہ ہوا کہ کسی بار اتفاق ہی سے اپنے کسی ہم شکل سے ٹکرا جاتے!

    باہر گلی میں بچے اب بھی آنکھ مچولی کا کھیل کھیل رہے تھے۔ کھیل میں ان کا پوتا بھی شریک تھا۔ بچے اس سے بے نیاز تھے کہ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ بابو کھوجی رام کو البتہ یہ احساس ضرور ہوا کہ وہ کھوئے بیٹھے رہے اور ان کے معمول میں فرق آ گیا۔ یہ وقت تو شام کی سیر کا ہے۔ اس وقت انہیں کارپوریشن کے گارڈن کی بینچ پر ہونا چاہیے تھا۔ ان کے بچپن میں یہ گارڈن نہیں تھا۔ اس جگہ کھلی زمین پڑی تھی۔ جس پرسنتے تھے کہ مداری اپنا بندر نچاتا ہے۔ جگہ ویسے دور نہیں تھی۔ گلی سے نکل کر بایاں موڑ مڑ کر بڑی سڑک پر بیس بائیس قدم چلنے جتنا فاصلہ تھا۔ اس وقت تو عمر وہ تھی کہ اس فاصلے کو تین چا ر چھلانگوں میں طے کر لیتے لیکن اماں نے تاکید جو کر رکھی تھی کہ کبھی گلی سے باہر قدم نہ رکھنا، آج اس فاصلے کو طے کرنے میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ دس پندرہ منٹ بینچ پر سستانے کے بعد جب وہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو ان کی ہڈیاں کڑ کڑا کر رہ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ اس عمر میں جسم کے لیے اتنی ورزش ضروری ہے ورنہ تو وہ دہلیز سے باہر قدم نہ نکالتے۔ دیر ہی سے سہی معمول کو پورا کرنے کی خاطر بابو کھوجی رام نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں میں چھڑی سنبھالی، ناک پر عینک کو جمایا اور باہر گلی میں نکل آئے، وہ بڑی سڑک کی طرف بڑھ رہے تھے کہ پیچھے سے ان کے پوتے نہ آواز دی،

    ’’دادا جی آج آپ دوسری بار سیر پر جار ہے ہیں۔‘‘

    ’’دوسری بار کیا مطلب؟‘‘

    کچھ دیر پہلے تو آپ گئے تھے۔‘‘

    ’’کب؟‘‘

    ’’جب میں داؤ اتا رہا تھا۔‘‘

    ’’کہاں گیا تھا میں؟‘‘

    ’’آپ گلی سے نکل کر بڑی سڑک پر ادھر مڑ گئے تھے۔‘‘

    پوتے نے دائیں موڑ کی طرف ہاتھ دکھا کر کہا۔

    ’’لیکن میں تو روز بائیں طرف مڑتا ہوں۔ گارڈن کی طرف!‘‘

    ’’میں نے دیکھا آج آپ اس طرف مڑ رہے تھے۔‘‘

    اس نے پھر دائیں جانب اشارہ کیا۔

    ’’کیا اب بھی تم پر داؤ چڑھا ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔ اب میرے چھپنے کی باری ہے۔‘‘

    چھپنے کی خوشی میں لڑکے نے مسکرا کر پلکیں جھپکائیں، بابو کھوجی رام نے پوتے کو سمجھاتے ہوئے کہا،

    ’’دیکھو! باری چاہے چھپنے کی ہوا یا داؤ اتارنے کی، سب کچھ بھول کر اسے اتارنے میں من لگانا چاہیے۔‘‘

    ’’داؤ چڑھ جائے تو سبھی اتارتے ہیں لیکن چھپنے کی باری کیسے اتاری جاتی ہے۔‘‘

    ’’ڈھونڈکر‘‘

    ’’اور ڈھونڈنے کی باری۔۔۔!‘‘

    ’’چھپ کر۔۔۔‘‘

    ’’پتا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘

    ’’سوچو مت، جاؤ چھپ جاؤ تمہارے سب دوست چھپ چکے ہیں۔‘‘

    گلی اب بھی وہی تھی جو ساٹھ، باسٹھ برس پہلے ہوا کرتی تھی۔ آنے جانے والوں کا سلسلہ جاری تھا۔ پھیر ی والے اور خوانچہ فروش آوازیں لگاتے ہوئے گذر رہے تھے۔ راہ گیروں اور سائیکلوں کی آر جار میں اسکوٹریں اور موٹریں بھی شامل ہو گئیں تھیں۔ آنکھ مچولی کا کھیل اب بھی کھیلا جا رہا تھا۔ سب لڑکے چھپ چکے تھے اور ڈھونڈنے والے کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کسے ڈھونڈ نکالےگا۔

    بابو کھوجی رام آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے وہاں تک آ گئے جہاں گلی دائیں بائیں مڑکر بڑی سٹرک سے مل جاتی ہے۔ پیچھے مڑ کر انہوں نے ایک بھر پور نظر ڈالی، پھر پلٹ کر پہلے دائیں اور پھر بائیں جانب دیکھا۔ بڑی سڑک اب نام ہی کی بڑی رہ گئی تھی۔ باوجود اس کے کہ ان برسوں میں کارپوریشن نے دو ایک مرتبہ سٹرک کے کنارے بنی غیرقانونی تعمیرات کو توڑ کر اسے چوڑا بھی کیا تھا، وہ کچھ سمٹی سکڑی سی معلوم ہو رہی تھی۔ اس کے سرے البتہ اب بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ جہاں تک نظر نے ساتھ دیا پہلے کی طرح اب بھی یہی نظر آیا کہ بس سٹرک چلی جا رہی ہے۔ دائیں طرف بھی سٹرک ہی سڑک تھی اور بائیں طرف بھی سڑک ہی سڑک۔۔۔!

    بابوجی کھوجی رام نے جب چھڑی پر اپنی گرفت مضبوط کی اور دایاں موڑ مڑ گئے تو پیچھے گلی میں شام کے دھندلکے کی جگہ رات کی سیاہی اتر آئی اور کارپوریشن کے کھمبے سے ٹنگا ٹیوب ٹمٹمانے لگا!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے