Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھولی بسری عورت

مبین مرزا

بھولی بسری عورت

مبین مرزا

MORE BYمبین مرزا

    پل بھر کی مخصوص موسیقی کے بعد سکتہ سا آیا پھر ایک شائستہ آواز ابھری جس نے چند منٹ بعد جہاز کے اترنے کا اعلان کیا۔ طارق آنکھیں موندے نشست سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اس کے ذہن کی اسکرین پر کئی چہرے، کئی آوازیں اور کئی مناظر بہ یک وقت ڈوبتے ابھرتے تیر رہے تھے۔ کئی باتیں وہ ایک ہی وقت میں سوچ رہا تھا۔ یہ سب چہرے، مناظر اور آوازیں تو جیسے گئے زمانوں کی گونج تھے، وہ زمانے جو دور بہت دور کہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ جہاز لینڈنگ سے پہلے کی ناہمواری میں تھا اور اسی طرح اس کا ذہن بھی ہچکولے کھا رہا تھا۔ ذہن کی اسی ناہمواری میں لالی کی تصویر ابھری۔ وہی لالی جس کا اسے کتنے برسوں سے دھیان تک نہیں آیا تھا۔ آتا بھی کیسے کہ وہ تو اس کے گم شدہ ماضی کا بہت معمولی سا واقعہ تھی جب پورا ایک زمانہ مسترد ہو جائے تو اس کی ایک ساعت، کوئی ایک آن بھلا کس گنتی میں ہوگی۔ ہاں تو اور کیا، لالی کی حیثیت اس کی زندگی میں ایک آن سے زیادہ تھی ہی کب لیکن کبھی کبھی عجب معاملہ ہوتا ہے، ٹھہری ہوئی کوئی ایک ساعت پوری زندگی کا حساب لے بیٹھتی ہے۔ خاندانی زمینوں اور جائیداد کا معاملہ اسے برسوں بعد پھر اس شہر میں لے آیا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولیں، کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اسے جہاز کی نیچی اڑان کا اندازہ ہوا۔ عسکری جھیل، فوجی بیرکیں، سڑکیں اور عمارتیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ جہاز ایک دائرے کا سا چکر کھاکر اور نیچے آ گیا تھا۔ سامنے طویل اور سپاٹ رن وے چوڑے حاشیے کی طرح کھنچا ہوا تھا۔ستمبر کی ملگجی شام جہاز سے پہلے رن وے پر اتری ہوئی نظر آرہی تھی۔

    ایگزٹ لاؤنج میں منصور اس کا منتظر تھا۔ منصور اس کا چچیرا بھائی تھا لیکن تایا، چچا اور پھوپھی زاد بھائی تو اور بھی تھے۔ منصور اس کا لنگوٹیا یار تھا۔ اسکول کی ابتدائی جماعتوں سے کالج تک دونوں ساتھ پڑھے اور ساتھ کھیلے کودے تھے۔ اس کے بعد طارق انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلا گیا۔ تعلیم کے مکمل ہوتے ہی اسے وہیں ملازمت مل گئی۔ طارق کے والد سرکاری ملازم تھے، اس عرصے میں ان کا تبادلہ ملتان سے راولپنڈی ہو گیا اور ان کا کنبہ وہیں منتقل ہو گیا۔ امریکا میں ملازمت کے بعد طارق چار پانچ سال کے وقفے سے پاکستان کا چکر لگاتا رہا تھا لیکن بس ملتان آنا ہی نہیں ہوا۔ تیئس چوبیس سال کے وقفے میں وہ ملتان اب دوسری بار آیا تھا۔ گاڑی میں سامان رکھواتے ہوئے اس نے ایک نظر ایئر پورٹ پر ڈالی۔ وہی پرانی اور چھوٹی سی عمارت سامنے تھی، ایگزٹ کا وہی اکہرا راستہ پھر چھوٹی راہداری کے بعد وہی اینٹوں کا پُرانا فرش جو اب خاصا ناہموار ہو چکا تھا۔ گیٹ کے ساتھ اب بھی وہی درخت ایستادہ تھے۔ وہی مانوس پرانا پن۔ لیکن یہ احساس بہت دیر تک برقرار نہیں رہا۔ جلد ہی تبدیلی اور نئے پن کے نقوش واضح ہوتے چلے گئے۔

    اب وہ ایک ملے جلے احساس سے دوچار تھا۔ کچھ حیرت تھی اور کچھ اجنبیت۔ ایک خوش گوارسا احساس تھا تبدیلی کا اور ساتھ ہی کچھ ناگواری سی بھی تھی جیسے کچھ کھو گیا، گم ہو گیا ہو۔ لیکن یہ سب کچھ ایک دم تھوڑے ہی ہوا تھا، دھیرے دھیرے پیدا ہوئی تھی یہ کیفیت۔

    ’’بڑے سالوں بعد چکر لگا ہے تیرا؟‘‘ منصور نے سامان گاڑی میں رکھتے ہوئے کہا۔

    ’’ہاں یار باہر کا لائف اسٹائل ہی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی پھنسا رہتا ہے۔‘‘ طارق نے جواب دیا۔

    ’’بال تو بڑے چٹے کر لیے ہیں ۔ بڈھا ہونا شروع کر دیا ہےتو نے تو۔‘‘ منصور نے اس کے کاندھے پر دھپ لگاتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ ’’کلر کیوں نہیں لگاتا؟‘‘

    ’’یار پہلے ہی اتنے مسائل ہوتے ہیں صبح سے شام تک، ان میں ایک اور بڑھا لوں۔‘‘

    ’’پر بندے کو رہنا تو فٹ چاہیے۔ وہاں کیا تیری لڑکیوں سے دوستیاں نہیں ہیں؟‘‘

    ’’دوستی تو ہے لڑکیوں سے مگر وہاں بالوں کا رنگ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ طارق نے شانے اچکائے۔

    گاڑی ایئر پورٹ سے نکل کر امپیریل سینما کے سامنے سے ٹھنڈی سڑک کی طرف ہولی۔ ہاں اس کے حافظے میں تو اس کا نام ٹھنڈی سڑک ہی تھا اور اس وقت وہ تھی بھی ٹھنڈی سڑک۔ یہ جو پلازا اور کئی کئی منزلہ عمارتیں اب اس سڑک پر نظر آ رہی تھیں، یہ سب تو پچھلی دو دہائیوں کی ترقی ہے ورنہ اس سے پہلے تو یہاں دو رویہ درختوں کی قطاریں تھیں اور ان کے پیچھے فوجی بیرکیں، کھلے میدان اور مختصر آبادی کے چھوٹے چھوٹے نشان تھے۔ لیکن اب تو اس علاقے کی صورت ہی بدل گئی تھی۔ وہ پرانا نقشہ تو شاید اب اس کی طرح صرف انھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ رہ گیا ہوگا جو ان ساری تبدیلیوں سے پہلے شہر ملتان کو چھوڑ کر کہیں اور جا بسے ہوں گے۔

    چھوڑی گئی زمینیں اور بھلائی گئی عورتیں ہمیشہ کے لیے مرد کے حافظے میں اپنی جگہ بنا لیتی ہیں۔ یہ راز اس پر کھلا تھا، لیکن ذرا بعد میں۔ اس وقت تو صرف یہ بدلا ہوا شہر اپنی وسعتوں اور دلکشیوں کے ساتھ اس پر منکشف ہو رہا تھا اور مزید ہونا چاہتا تھا، ایک نازنین کی طرح جو اپنے محبوب کے روبہ رو ہو۔

    ’’نو گیارہ کے بعد وہاں مسلمانوں کے ساتھ کیا صورت حال رہی؟‘‘ منصور نے پوچھا۔

    ’’جہاں میں رہتا ہوں یعنی کینیڈا میں، وہاں تو ایسا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوا لیکن امریکا میں ٹف ٹائم تھا مسلمانوں کے لیے، لیکن اب ایسی بات نہیں ہے۔ اب ٹھیک ہے۔ میں اکثر جاتا رہتا ہوں۔‘‘

    ’’ویزے میں تو اب بڑی مشکل ہو گئی ہے یہاں۔‘‘ شمی خالہ کے بیٹے عدنان نے چار پانچ مہینے پہلے ویزے کے لیے اپلائی کیا تھا، اسلام آباد میں اس کا انٹرویو بھی ہوا تھا ایک ڈیڑھ مہینے پہلے لیکن ویزا اب تک نہیں ملا۔ بڑی ٹینشن دیتے ہیں اب وہ ہمارے بندوں کو۔ منصور نے شکایت کی۔

    ’’نہیں۔ نائن الیون کے بعد سے ویسے ہی ان کی ویزا پالیسی سخت ہوئی ہے۔ اب زیادہ اسکریننگ ہوتی ہے اس لیے اور پھر پاکستان میں القاعدہ کی روٹس کی وجہ سے بھی کچھ زیادہ سختی ہو سکتی ہے۔‘‘ طارق نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

    ’’حالاں کہ عدنان کی دو بہنیں ہیں امریکا میں مگر پھر بھی۔‘‘ منصور نے کہا۔

    ’’تو پھر مل ہی جائے گا اسے ویزا اگر اس کے کیس میں کوئی پرابلم نہیں ہے تو۔‘‘

    وہ چھاؤنی کے علاقے سے نکل رہے تھے۔ طارق نے محسوس کیا اس علاقے کی ساری سڑکیں زیادہ کشادہ ہو گئی تھیں۔ چھاؤنی کے علاقے میں تبدیلی اور ترقی کے زیادہ اثرات جنرل ضیاء الحق کے دور میں نظر آنا شروع ہوئے تھے لیکن اب تو اس علاقے کی چھب ہی کچھ اور تھی۔ پہلے یہاں کے راستے، عمارتیں، سڑک کے دو رویہ لگے لیمپ پوسٹ اور راستوں پر آتے جاتے فوجی کٹ کسرتی بدن سائیکل سوار اور پیادہ پا سفر کرتے لوگ غرض پورا منظر نامہ جفاکش، سادہ اور سخت کوش زندگی کا تأثر دیتا تھا، لیکن اب یہ علاقہ اشرافیہ کی پرآسائش طرز رہائش کا نمونہ تھا۔ ان کی گاڑی اس وقت ایس پی چوک پر تھی جب اطراف کی متمول آبادی اور نئی عمارتوں کو دیکھتے ہوئے طارق نے سوچا، آسائشیں آدمی ہی کا نہیں علاقوں کا بھی حلیہ بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ گاڑی ایس پی چوک سے ریڈیو پاکستان والی سڑک پر مڑی۔ رنگوں اور روشنیوں کا ایک ٹکڑا سامنے تھا۔ یہ سڑک تو بالکل ہی بدل گئی تھی۔ بس ایک ریڈیو اسٹیشن اور مشن اسپتال کی پرانی عمارتیں اگلے وقتوں کی نشانی کے طور پر اپنی جگہ تھیں، ان سے پہلے اور بعد کا سارا نقشہ ہی نیا تھا۔ پہلے ادھر گراس منڈی کی طرف صرف چوک کے پاس کچھ دکانیں ہوا کرتی تھیں باقی ایس پی چوک تک یہ سارا رہائشی علاقہ تھا لیکن اب تو اس پوری سڑک پر دکانیں، شاپنگ سینٹر اور پلازا نظر آ رہے تھے۔ ایئر پورٹ سے یہاں تک آتے آتے وہ سوچنے لگا، اس عرصے میں ملتان شہر کی آبادی زیادہ بڑھی ہے یا پھر یہاں کے کاروباری مراکز میں زیادہ اضافہ ہوا ہے؟ اسے باہر کی دنیا میں کھویا ہوا دیکھ کر منصور نے پوچھا ’’تو ویسے آیا کتنے سال کے بعد ہے طارق؟‘‘

    ’’میرا خیال ہے، پندرہ سولہ سال بعد آیا ہوں لیکن پندرہ سولہ سال پہلے بھی بس دو ڈھائی دن کے لیے آیا تھا، فوقیہ آپا کی بیٹی کی شادی میں۔ وہ وقت تو سارا شادی کے ہنگاموں میں گزرا تھا۔ شہر میں نکلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ سمجھ لے اب دیکھ رہا ہوں کوئی تیئس چوبیس سال بعد شہر کو۔‘‘

    ’’پھر تو بہت بدلا ہوا لگ رہا ہوگا تجھے۔‘‘ منصور نے کہا۔

    ’’ظاہر ہے وقت کے ساتھ تبدیلی تو آتی ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا، ’’اور ملتان ہی نہیں میں تو اس بار جہاں بھی گیا ہوں، بڑی تبدیلی محسوس ہوئی مجھے۔ اسلام آباد اور کراچی جیسے میرے ذہن میں تھے، ویسے نہیں لگے، بگ چینج ہے ہر جگہ۔‘‘

    ’’یار طارق! تیرے امریکا، کینیڈا کا تو پتا نہیں مجھے، میں تو وہاں کبھی گیا نہیں لیکن ہمارے ہاں پچھلے پندرہ سترہ برسوں میں بہت کچھ بدلا ہے۔ بڑی تیز رفتار تبدیلی آئی ہے، جیسے طوفان آتا ہے، درختوں کی جڑیں اکھاڑنے اور مکانوں کی چھتیں اڑانے والا طوفان جس کے بعد سارا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔‘‘ پیچھے آتی گاڑی کا مسلسل ہارن سن کر منصور نے بولتے ہوئے گھڑی بھر کو عقبی آئینے میں نگاہ ڈالی اور گاڑی کو جگہ دی۔

    برابر سے ایک کار زن سے گزری جس میں سے موسیقی کے تیز اور دھمکتے سروں کا ایک ریلا ان کی طرف بڑھا۔ ’’دیکھ یہ ہے تبدیلی۔ کیا پندرہ بیس سال پہلے اس شہر کی سڑکوں پر ایسے چھچھورے لڑکوں کا تصور کیا جا سکتا تھا؟‘‘ منصور نے خود ہی نفی میں سر ہلایا پھر بولا، ’’اب یہ بازاروں میں، سڑکوں پر، پارکوں میں ہر جگہ نظر آتے ہیں اور کوئی روکنے، پوچھنے والا نہیں ہے انھیں۔ اور میں تجھے بتاؤں، اچھے خاندانوں کے ہوں گے یہ لڑکے، ایسے گئے گزرے نہیں ہوں گے۔‘‘

    طارق نے کچھ کہے بنا منصور کی طرف دیکھا جیسے آنک رہا ہو کہ وہ کس رو میں بول رہا ہے۔ دو موٹر سائیکل سوار نوجوان ریس لگاتے زگ زیگ انداز میں گاڑی کے پاس سے نکلے۔ منصور نے اچانک بریک لگائی، ان میں سے ایک اس کی گاڑی سے ٹکرانے سے بال بال بچا۔ منصور نے گیئر بدلتے ہوئے پل بھر کے لیے موٹر سائیکل سوار کو دیکھا۔ وہ مسکرایا اور اسپیڈ بڑھاکر آگے نکل گیا۔ منصور بڑبڑایا، ’’تویہ ہو رہا ہے بس اب یہاں۔‘‘

    منصور روزانہ شام کو جلدی گھر آ جاتا اور پھر طارق کو شہر گھمانے نکلتا۔ اس دن وہ منصور کے ساتھ قلعے کی سیر پر گیا تھا۔ لوہاری گیٹ کی طرف سے جاتے ہوئے قلعے کے دروازے پر اسے کبوتروں کی ٹکڑیاں باجرہ چگتی نظر آئیں۔ دھیمی لے میں غٹرغوں غٹرغوں کی آوازیں نکالتے اور رسان سے اپنا پیٹ بھرتے یہ کبوتر اس کے دیرینہ ماضی کی یادوں کا انمٹ حصہ تھے۔ جب وہ چھوٹا تھا توابا کے ساتھ اکثر قلعے پر آیا کرتا تھا۔ ہفتے دو ہفتے بعد جمعے کے دن ابا پھوپھی سے ملنے کے لیے لوہاری گیٹ النگ پر آتے تھے۔ وہاں سے واپسی پر وہ اسے قلعے پر لے آتے۔ جب بھی آتے قلعے کے دروازے پر بنے چبوتروں پر اترتے کبوتروں کو باجرہ ضرور ڈالتے۔ پھر اسے دمدمے کی سیر کراتے۔ حضرت بہاء الدین زکریاؒ کے مزار کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے گھر واپس ہوتے۔ ابا اب اس دنیا میں نہیں تھے، لیکن قلعے کے دروازے کے چبوتروں پر اب بھی اسی طرح کبوتر اترتے اور باجرہ چگتے تھے۔ چڑھائی چڑھتے ہوئے طارق نے منصور کو روکا، گاڑی سے اتر کر چبوترے کے پاس بیٹھے ہوئے شخص سے باجرہ خرید کر کبوتروں کو ڈالا اور لوٹ آیا۔

    جب وہ دمدمے پر پہنچے تو شام ڈھل چکی تھی۔ جھٹپٹے کے سمے میں اس نے دور دور تک پھیلے شہر پر نظر ڈالی۔ ایک دن اس نے اسی دمدمے پر کھڑے ہوئے ابا سے پوچھا تھا، ’’ابا! اس جگہ کو دمدمہ کیوں کہتے ہیں؟‘‘

    بیٹے! دمدمہ قلعے پر بنی ہوئی اس اونچی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے سارے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ قلعے کی بہت اہم جگہ ہوتی ہے۔ جب قلعے بنائے جاتے تھے تو ان میں دمدمے بھی ہوتے تھے۔ یہاں سے بادشاہ اور اس کے سپاہی شہر کا اور شہر سے باہر کا علاقہ دیکھتے تھے۔‘‘

    ’’ابا! یہ قلعے کیوں بنائے جاتے تھے۔‘‘

    بیٹے! پہلے جب بادشاہ ملکوں پر حکومت کرتے تھے تو ایک علاقے کا بادشاہ کبھی کبھی دوسرے علاقے پر اپنی فوج لے کر چڑھائی کر دیتا تھا تاکہ وہ علاقہ اور اس کا مال و دولت اور زمین سب چیزیں اس کے قبضے میں آ جائیں۔ قلعے اس لیے بنوائے جاتے تھے تاکہ بادشاہ ضرورت کے وقت اپنی رعایا اور سپاہیوں کے ساتھ قلعہ بند ہوکر حملہ آور بادشاہ کا مقابلہ کر سکے۔ قلعہ چوں کہ بلندی پر بنایا جاتا تھا اور اس کی اونچی اونچی فصیلیں ہوتی تھیں اس لیے حملہ آور آسانی سے اس میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔‘‘

    طارق کو ایک لمحے کے لیے لگا کہ وہ آج بھیابا کے ساتھ قلعے پر ہے۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا۔ ابا نہیں تھے، کہیں نہیں تھے۔ اب دمدمہ بھی ویسا نہیں رہا تھا۔ دیواروں کی رنگت بدل چکی تھی اور وہ خستگی کا شکار تھیں۔ پہلے دمدمہ کتنا بڑا اور کھلا لگتا تھا لیکن اب چھوٹا لگ رہا تھا۔ اس نے مشرق، مغرب، شمال، جنوب باری باری سب طرف نگاہ دوڑائی۔ شہر بہت پھیل گیا تھا۔ کیا اب دمدمے سے پورے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے؟ اس نے خود سے پوچھا۔ نہیں اب ایسا ممکن نہیں۔ علاقوں کے بادشاہ بھی بدل گئے اور ان کی لڑائیوں کے انداز بھی، اس لیے قلعے اور دمدمے سب بیکار ہو گئے، اس نے سوچا۔

    دمدمے پر ٹہلتے ہوئے ماضی کی وہ فراموش شدہ ساعت جس کا نام لالی تھا، اسے پھر یاد آ گئی۔ اور اب جو یاد آئی تو یہ ایک ساعت منظر در منظر پھیلتی چلی گئی۔ پورا ایک جیتا جاگتا زمانہ اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ اس نے سوچا، کیا لالی واقعی اس کی زندگی کی محض ایک ساعت تھی؟ ہاں اس سے زیادہ اس کی اوقات ہو بھی کیا سکتی تھی؟ وہ لڑکی جس کا باپ اس کے بچپن میں ہی مر گیا ہو اور جس کی ماں کو سسرال والوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہو، وہ اپنے کسی عم زاد کے جیون میں ایک آن سے زیادہ کیا جگہ پا سکتی ہے؟ شرفا کے خاندانوں میں حسب نسب ہی کو سب سے بڑی چیز سمجھا جاتا ہے اور کیوں نہ سمجھا جائے، اسی سے تو ان کی نجابت کا طرہ قائم ہوتا ہے۔ اب طارق کو گزرے زمانے یاد آرہے تھے۔ مجو چاچا خاندان میں سب سے چھوٹے تھے۔ ماں باپ، بہن بھائیوں ہی کے نہیں ان کی اولادوں کے بھی سب سے لاڈلے چچا۔ برطانیہ جاکر بیرسٹری پڑھ کر آئے اور انقلابی بن گئے۔ انھیں رشتوں کی کیا کمی تھی؟ جس طرف اشارہ کرتے، ہاں ہو جاتی۔ لیکن ان کی انقلابی انسان دوستی انھیں خاندان سے باہر لے گئی۔ اپنے دفتر کے قریب پرائمری اسکول میں پڑھانے والی لڑکی کو پسند کر لیا۔ خاندان بھر نے مخالفت کی مگر وہ اپنی بات پر اڑے رہے۔ دادا جان نے عاق کرنے کی دھمکی دی، انھوں نے اس کی پروا نہیں کی اور شادی رچالی اور سارے کنبے کے لیے اچھوت ہو گئے۔ وہ بھی کب کسی کو خاطر میں لاتے تھے۔ سب سے الگ تھلگ اپنے کام میں مگن ہو گئے، وکالت چل نکلی تھی، چار سال میں مجو چاچا کے ہاں دو بیٹیاں ہوئیں۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا، جو کچھ ہوا ان کی اپنی مرضی سے ہوا لیکن اس سے آگے وقت کے گھوڑے کی باگیں تقدیر کے نادیدہ ہاتھ نے تھام لیں۔ چھوٹی بیٹی ابھی سال بھر کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ مجو چاچا کا اپنے دفتر کے عین سامنے ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ اسپتال پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں دم توڑ گئے۔ مجوّ چاچا کی ناگہانی موت بھی ان کی بیوی اور بیٹی کو خاندان میں جگہ نہ دلوا سکی۔ وہ اچھوت تھیں اور اچھوت ہی رہیں۔ چھوٹی چچی نے مجو چاچا کی غیرت کو نبھایا اور خاندان سے کبھی اپنا حق نہیں مانگا۔ جیسے بھی بن پڑا گزر بسر کرتی رہیں لیکن برسوں بعد ایک دن وہ دونوں بیٹیوں کو لے کر دادا جان کے پاس چلی آئیں۔

    ’’دونوں بچیاں سیانی ہو گئی ہیں۔ یہ آپ کے بیٹے کی اولاد ہیں، آپ کے خاندان کی عزت ہیں۔ آپ ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر ان کے ہاتھ پیلے کر دیں۔‘‘ انھوں نے دادا جان سے کہا۔

    دادا جان خاموش رہے۔

    ’’میں آپ کے حکم کی منتظر ہوں۔‘‘ چھوٹی چچی نے تھوڑی دیر بعد کہا۔

    اب کی بار دادا جان بولے لیکن بہ راہ راست چھوٹی چچی سے نہیں بلکہ طارق کی والدہ سے جو دادا جان کے پاس انھیں لے کر گئی تھیں، ’’ہم سوچ کر بتائیں گے۔‘‘

    اس کے دو دن بعد انھوں نے طارق کے والد کہ وہ ان کے سب سے بڑے بیٹے تھے، کے ہاتھ دو لاکھ روپے چھوٹی چچی کو بھجوائے کہ بچیوں کی شادی کے لیے رکھ لیں اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی کہ وہ خاندانی شرافت میں پیوند لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

    چھوٹی چچی نے صبر وسکون سے ان کا پیغام سنا اور روپے یہ کہہ کر لوٹا دیے کہ وہ بچیوں کو ان کے پاس سایۂ شفقت کے لیے لائی تھیں، روپوں کے لیے نہیں۔

    یہ سب طارق کے شعور کے زمانے میں ہوا تھا۔ انھی دنوں وہ اور منصور چھپ کر چھوٹی چچی کے گھر جانے لگے تھے۔ چھوٹی چچی نے کبھی خود انھیں آنے کے لیے نہیں کہا لیکن اگر وہ ملنے پہنچ گئے تو انھوں نے کبھی دروازے سے واپس لوٹایا بھی نہیں۔ یوں آنا جانا ان کا معمول بن گیا اور پھر جب اسے انجینئرنگ کالج میں داخلہ مل گیا تو ایک دن اس نے اماں سے کہا، ’’اماں میری شادی لالی سے کر دیں۔‘‘

    ’’یہ لالی کون ہے؟‘‘ اماں نے مسکراکر پوچھا۔

    ’’مجو چچا کی بڑی بیٹی فرخندہ، چھوٹی چچی اسے پیار سے لالی کہتی ہیں۔‘‘

    اماں کے سویٹر بنتے ہاتھ یک لخت رک گئے۔ ان کی آنکھوں میں حیرانی تھی اور چہرے پر پریشانی۔ وہ کچھ دیر گومگو کی کیفیت میں رہیں پھر نرمی سے بولیں، ’’اچھا، میں تمھارےابا سے بات کروں گی لیکن پہلے تم تعلیم پوری کرکے اپنے پاؤں پر تو کھڑے ہو جاؤ۔‘‘

    ’’میں فوراً شادی کا تھوڑی کہہ رہا ہوں، آپ ابھی سگائی کر دیں، شادی بعد میں ہو جائےگی۔‘‘

    پھر ایک دن اماں نے بتایا، ’’تمھارے ابا اس شادی پر راضی نہیں ہیں۔‘‘

    ’’کیوں نہیں ہیں؟ خیر، شادی تو میں لالی سے ہی کروں گا چاہے۔۔۔‘‘

    ’’اے بیٹے! منہ سے الٹی سیدھی نہیں نکالا کرتے۔‘‘ اماں نے اس کی بات پوری سنے بنا ٹوکا پھر بولیں، ’’تم ابھی ان بکھیڑوں میں مت پڑو، آرام سے اپنی تعلیم مکمل کرو، اﷲ چاہےگا تو اپنے وقت پر سارے کام ہو جائیں گے۔‘‘

    اس کے بعد اسے پتا بھی نہیں چلا کب اور کس طرح دو مہینے کے اندر کیلی فورنیا کے ایک کالج میں اس کا داخلہ ہو گیا۔ اس نے جانے سے انکار کیا تو سارا خاندان سمجھانے بیٹھ گیا۔ امریکا میں اسے اکیلا تھوڑے رہنا تھا۔ وہاں اس کی دو پھوپھیاں اور ایک چچا پہلے سے آباد تھے۔ آخر اسے امریکا جانے پر تیار کر ہی لیا گیا۔ ان دنوں میں وہ روزانہ چھوٹی چچی کے گھر جاتا تھا۔ چچی اور لالی کو اس نے سب کچھ خود بتا دیا تھا۔ جس شام اسے جانا تھا وہ صبح ناشتے کے بعد چھوٹی چچی کے گھر گیا۔ سب جانتے تھے، وہ شام کو امریکا جا رہا ہے۔ اس نے بازو تھام کر لالی سے کہا، ’’میں جیسے جا رہا ہوں ایسے ہی واپس آؤں گا۔ بس یہ چند سال ہیں درمیان میں، تم میرا انتظار کرنا۔‘‘

    لالی نے سر اٹھاکر اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، صاف پتا چل رہا تھا، وہ دیر تک روتی رہی تھی۔ اس نے بالوں میں تیل چپڑ کر کس کر چوٹی باندھی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کا چہرہ بھی بالکل ستا لگ رہا تھا۔ وہ دھیرے سے مسکرائی اور بولی، ’’جب کی تب دیکھیں گے، پر ابھی مجھے تم سے ایک ضروری بات کہنی ہے اور تمھیں قسم ہے، تم مانو گے ضرور، اسے ٹالوگے نہیں۔‘‘ دھیرے سے بازو چھڑایا اور بولی، ’’بیٹھو، بتاتی ہوں۔‘‘

    ’’ہاں بتاؤ۔‘‘ وہ اس کے پاس ہی چار پائی پر بیٹھ گیا۔

    ’’تم امریکا جاکر صرف۔۔۔‘‘ وہ رکی پھر گلا صاف کرتے ہوئے بولی، ’’ صرف اور صرف پڑھائی میں دھیان لگاؤگے، باقی کچھ نہیں سوچو گے۔ کسی الجھن کو دماغ میں نہیں لاؤگے، کسی کو مس نہیں کروگے، مجھے بھی نہیں۔ جو بھی قسمت میں ہے وہ ہو جائےگا۔ تم اتنی دور جا رہے ہو ماں باپ سے، سب لوگوں سے تو پھر اب کامیاب آدمی بن کر لوٹنا۔ ٹھیک ہے، تم نے پکا وعدہ کیا ہے نا ماننے کا۔‘‘ نہ اس کی آواز بھرائی نہ آنکھوں میں آنسو آئے اور نہ یہ سب کچھ کہتے ہوئے اسے کوئی دقّت ہوئی۔ سب کچھ اس نے بہت آرام سے کہا جیسے کہنے سے پہلے اس نے اچھی طرح ریہرسل کر لی ہو۔ چلتے ہوئے، چھوٹی چچی نے بھی آرام سے سر پہ ہاتھ پھیرا اور کامیابی کی دعائیں دیں۔ وہ گیا اور پھر کبھی لوٹ کر نہیں آسکا۔ بہت ساری وجوہات پیدا ہوتی رہیں۔ وہیں امریکا میں پھوپھی زاد سے شادی بھی ہو گئی۔ برسوں بعد پھر فوقیہ آپا کی بیٹی کی شادی میں وہ دو ڈھائی دن کے لیے آیا تھا۔ اماں، ابا سب لوگ ساتھ ہی تھے۔ دو ڈھائی دن گزرے پتا بھی نہیں چلا۔ اسے ایک آدھ بار خیال بھی آیا کہ چھوٹی چچی کے گھر جائے، لیکن موقع ہی نہیں ملا۔ اور اب تیئس چوبیس سال گزر چکے تھے۔ اس کی نظریں خلاؤں میں کہیں جمی ہوئی تھیں۔ اندھیرا پھیلتا چلا گیا تھا۔

    منصور نے آکر اس کا کاندھا تھپتھپایا، ’’کیا چلنا نہیں ہے واپس؟‘‘

    ’’ہاں چلو میں بھی یہی کہہ رہا تھا۔‘‘ اس نے قدرے چونکتے ہوئے جواب دیا۔

    واپسی پر اس کا جی چاہا کہ وہ منصور سے چھوٹی چچی اور لالی کے بارے میں پوچھے لیکن پھر خیال آیا، اب وہ اس سے کیا پوچھے اور کیسے پوچھے۔

    ’’اب کہاں چلنا ہے؟‘‘ قلعے کی ڈھلان سے اترتے ہوئے منصور نے پوچھا۔

    ’’اب۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رکا، ذرا سوچ کر بولا، ’’تو بتا اب اور کیا کیا رہ گیا ہے شہر میں دیکھنے کو؟‘‘

    ’’بھئی جتنے دوست اس شہر میں رہ گئے ہیں ان سب سے میں تجھے ملا چکا ہوں۔ عزیز رشتے داروں سے توابا کے ساتھ جا جاکر مل چکا ہے۔ اچھا چل اب تجھے کمپنی باغ لے چلتا ہوں، وہ رہ گیا ہے بس۔‘‘

    ’’ہاں چلو۔‘‘ طارق نے اثبات میں سر ہلایا، پھر ذرا ٹھہر کر بولا، ’’یار منصور! وہ چھوٹی چچی کہاں رہتی ہیں؟، ان لوگوں کا کچھ اتا پتا ہے؟‘‘

    ’’اچھا، بڑی جلدی خیال آ گیا تجھے۔‘‘ منصور نے ذرا شوخی سے کہا، ’’میں تو سمجھ رہا تھا کہتو بالکل بھول چکا ہے ان لوگوں کو۔‘‘

    ’’نہیں بالکل تو نہیں بھولا۔۔۔ مگر اتنے پرانے قصے۔۔۔‘‘ طارق نے سنجیدہ رہنے کی کوشش کی، ’’کیسے ہیں وہ سب لوگ؟‘‘

    ’’ٹھیک ہیں، بس ایسے ہی ہیں۔‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘

    ’’مطلب یہ کہ بس۔۔۔ خیر اب تو نے پوچھ ہی لیا تو چل اب وہیں لے چلتا ہوں تجھے۔‘‘ منصور نے جیسے اس کے دل کی بات جان لی۔

    دو کمروں کے اس مکان میں وہ برسوں بعد آیا تھا یا شاید صدیوں بعد۔ صحن میں سو واٹ کا بلب روشن تھا جس کی روشنی ناکافی تھی۔ نیم تاریک برآمدے میں پہلے کمرے کی دیوار کے ساتھ ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی۔ چارپائی کی طرف بڑھتے ہوئے منصور نے بلند آواز میں سلام کیا اور بولا ’’چھوٹی چچی کیسی ہیں آپ؟ دیکھیے تو آج کون ملنے آیا ہے آپ سے؟‘‘

    چارپائی پر پڑے ہیولے کو جنبش ہوئی۔ منصور نے آگے بڑھ کر سہارا دیا۔ چھوٹی چچی اٹھ بیٹھیں۔ طارق نے بھی سلام کیا۔ انھوں نے جواب دیتے ہوئے داہنا ہاتھ اس کے سر کی طرف بڑھایا۔ طارق نے سر آگے کیا۔ انھوں نے ہاتھ پھیرا اور دعائیں دیں۔ پھر سرھانے کے نیچے سے عینک ٹٹول کر نکالی اور بولیں، ’’لو اب دیکھوں کون آیا ہے؟‘‘ پھر جیسے ان کے چہرے پر رونق سی آ گئی۔ ’’اے بیٹا طارق! تم کب آئے؟‘‘

    ’’چند دن پہلے آیا ہوں چھوٹی چچی۔‘‘ طارق نے جواب دیا۔

    ’’اچھا اچھا، ماشاء اﷲ، ابھی تو رکوگے۔‘‘

    ’’جی چھوٹی چچی، ابھی چند دن ہوں یہاں پھر واپس اسلام آباد جاؤں گا اماں کے پاس۔‘‘

    ’’اچھا، اچھا۔ اماں کیسی ہیں تمھاری؟ بیٹا تمھارے ابا کی وفات کی خبر ملی تھی، بہت افسوس ہوا۔ بہت اچانک چلے گئے بڑے بھائی۔ پاک پروردگار انھیں جنت نصیب کرے، بہت اچھے آدمی تھے۔ بیٹے! اب اماں کا بہت خیال رکھنا۔ تمھاری محبتوں پر ہی جییں گی اب وہ۔‘‘ چھوٹی چچی کا وہی مانوس لہجہ تھا۔

    ’’جی چھوٹی چچی! آپ دعا کیا کریں ان کے لیے۔ ابا کے بعد سے وہ سنبھلی نہیں ہیں۔‘‘

    ’’ہاں بیٹے یہ صدمہ ہی ایسا ہوتا ہے، اﷲ پاک انھیں صبر دے اور اولاد کے سر پر سلامت رکھے۔‘‘

    ’’جی چھوٹی چچی! آمین۔‘‘ طارق کے جی میں آئی کہ ان سے لالی کے بارے میں پوچھے لیکن اس سے پہلے کہ بات اس کی زبان پر آتی، چھوٹی چچی نے خود ہی پکارا۔ ’’لالی! او لالی! بیٹی مہمان آئے ہیں گھر میں۔‘‘ طارق کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں دبا لیا۔

    چھوٹی چچی کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ایک پرچھائیں کمرے کے دروازے پر نمودار ہوئی، گھڑی بھر کو رکی پھر سر پر ڈوپٹہ درست کرتے ہوئے سامنے آ گئی۔ ’’ارے طارق تم! کب آئے بھئی؟ اطلاع ہی نہیں دی آنے کی۔‘‘

    طارق کے وجود پر جیسے کوئی طوفانی تھپیڑا آکر پڑا۔ یہ کون تھا اس کے روبہ رو؟ چھوٹی چچی نے تو لالی کو آواز دی تھی، لیکن چھوٹی چچی کی پائنتی کی طرف کوئی اور آکر بیٹھ گیا تھا۔ آنے والی کی آواز تو بےشک لالی جیسی تھی، لیکن چہرہ بشرہ، رنگ روپ، جسامت قامت اور تو کچھ بھی ویسا نہ تھا۔ لالی تو سرخ و سفید رنگت اور نکلتے قد کی لڑکی تھی۔ اس کے سرخ و سفید رنگ کی وجہ سے ہی تو چھوٹی چچی اسے لالی کہنے لگی تھیں، لیکن اس وقت جو عورت اس کے سامنے آئی وہ تو سیاہی مائل زرد رو، سوکھی چمرخ اور آگے کو جھکے شانوں والی خاصی ادھیڑ عمر نظر آ رہی تھی۔ نہیں، یہ لالی کیسے ہو سکتی ہے؟ طارق نے الجھتے ہوئے سوچا، یہ تو چھوٹی چچی کی کوئی ہم عمر بہن لگ رہی تھی۔

    ’’ارے ایسے کیا چپ چاپ بیٹھے ہو اجنبیوں کی طرح۔ کچھ بولو، بات کرو، حال بتاؤ۔‘‘ لالی اس سے مخاطب تھی۔

    ’’ہاں ہاں۔۔۔ ہوں، سب ٹھیک ہیں۔‘‘ طارق کی کچھ سمجھ ہی میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس اجنبی عورت سے کیا بات کرے۔

    ’’بیٹی! پہلے کچھ چائے پانی کا تو پوچھ لو۔‘‘ چھوٹی چچی بیچ میں بولیں۔

    ’’امی ٹھیک کہہ رہی ہیں، باتیں تو ہوتی رہیں گی، پہلے یہ بتاؤ چائے بناؤں یا ٹھنڈا پیوگے۔‘‘ لالی نے پوچھا۔

    طارق کو اچانک شدید اجنبیت کا احساس ہوا۔ وہ آس پاس لوگوں سے، ماحول سے اور باتوں سے خود کو ہم آہنگ نہیں کر پا رہا تھا۔

    ’’ہیں بیٹا ٹھنڈا منگا لو۔‘‘ چھوٹی چچی بولیں۔ ’’پھر چائے پینی ہوگی تو بعد میں بنا لینا۔‘‘

    ’’نہیں چھوٹی چچی! ابھی کچھ نہیں۔ ابھی تو منصور مجھے ایک اور جگہ لے جا رہا تھا۔ میں پھر آؤں گا، چائے بھی پیوں گا۔ کوئی تکلف نہیں، گھر والی بات ہے۔‘‘ طارق اٹھ کھڑا ہوا۔

    ’’ارے یہ کیا، اتنے دن بعد آئے ہو اور چائے کی پیالی تک نہیں پی رہے۔‘‘ لالی اٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’نہیں، میں پھر آؤں گا پھر پلانا۔‘‘ وہ چھوٹی چچی کی طرف مڑا، ’’اچھا چچی! چلتا ہوں۔‘‘

    ’’اچھا بیٹے جیسے تمھاری مرضی، پر ایک آدھ بار آنا کچھ وقت نکال کے، جانے سے پہلے۔‘‘

    ’’جی چھوٹی چچی ضرور آؤں گا۔‘‘

    باہر نکلتے ہی منصور بڑبڑایا، ’’کیا وحشت سوار ہو گئی تھی تجھ پر، یہ کیا طریقہ ہے، ایسے جاتے ہیں کہیں ملنے کے لیے؟‘‘

    طارق چپ رہا۔

    ’’ہیں، بولتا نہیں، کیا وحشت تھی؟‘‘ منصور گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولا۔

    ’’ہاں وحشت ہی ہونے لگی تھی ایک دم مجھے، سخت وحشت۔‘‘ طارق لمحے بھر کو چپ ہوا پھر بولا، ’’تو مجھے یہاں نہ ہی لاتا تو اچھا ہوتا۔‘‘

    ’’تیرے کہنے پر لایا ہوں یہاں، خود سے نہیں لایا۔‘‘ منصور نے تنک کر کہا۔

    تھوڑی دیر خاموشی رہی، پھر منصور بولا، ’’ویسے ہو کیا گیا تھا تجھے؟‘‘

    ’’پتا نہیں، مجھے خود سمجھ نہیں آیا۔ لگا suffocation ہو رہی ہے، سر چکرانے لگا، اس لیے اٹھ گیا۔‘‘

    منصور نے اس پر نگاہ ڈالی لیکن کچھ بولا نہیں۔

    جائیداد کے کام نمٹ گئے تھے۔ پٹواری اور رجسٹرار کے دفتروں میں اور کورٹ میں اسے جو کاغذات جمع کرانے اور وہاں سے جو کاغذات حاصل کرنے تھے، وہ کرچکا تھا۔ اس کے ملتان آنے کا مقصد پورا ہو گیا، اب واپس چلنا چاہیے، اس نے سوچا۔ حالاں کہ چچا اور منصور اسے روک رہے تھے کہ جانے پھر کب آنا ہوگا، اب آئے ہو تو چند دن اور رک جاؤ، لیکن اس کا جی اچانک اچاٹ ہو گیا تھا۔ سب کام نمٹ گئے، سب لوگوں سے ملاقات ہو گئی، اب اسے یہاں رک کر اور کیا کرنا ہے؟ آج شام اس نے منصور کے آنے کا بھی انتظار نہیں کیا، چچا سے کہہ کر وہ اکیلا ہی گھر سے نکل گیا۔ پہلے بہاولپور روڈ پر پی آئی اے کے ہیڈ آفس سے واپسی کی سیٹ کنفرم کرائی اور باہر آکر سڑک کے ساتھ لگے رکشوں کی قطار کی طرف بڑھا۔

    ’’بھئی دیکھو جانا تو گجر کھڈا ہے، ٹینوں والی مسجد کے پاس لیکن چھاؤنی بازار کی طرف سے ہوتے ہوئے جانا ہے۔‘‘ اس نے ایک رکشا والے سے کہا۔

    ’’ٹھیک ہے صاب بیٹھیے۔‘‘

    رکشا امپیریل سینما کے سامنے سے گزر رہا تھا جب اس نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ چھاؤنی بازار کے اندر سے گزرنا چاہتا ہے۔ ڈرائیور نے آئینے میں اسے دیکھا اور بولا، ’’صاب اندر کے رستے پر رش ہوےگا۔۔۔ کھام کھا ٹیم برباد ہوےگا۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں، ہم تمھیں زیادہ پیسے دے دیں گے، دیکھو، ہم بہت برسوں بعد یہاں آئے ہیں، اس لیے شہر کو دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

    ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلایا اور بولا، ’’ٹھیک ہے صاب! میں آپ کو پورا شہر گھمائے دوں گا۔ آپ ارمان سے بیٹھیں۔‘‘

    طارق مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ لب و لہجہ اسے برسوں بعد سننے کو ملا تھا۔

    رکشا چوک سے گھوم کر چھاؤنی بازار میں داخل ہوا تو طارق نے دیکھا کہ بازار پھیل کر کمپنی باغ کو جانے والی سڑک تک آ گیا تھا۔ جہاں پہلے انگریزوں کے زمانے کی پرانی طرز کی کوٹھیاں تھیں، وہاں اب شاپنگ سینٹرز دکھائی دے رہے تھے۔ ایک تبدیلی اور محسوس ہو رہی تھی، پہلے بازار میں چھوٹی دکانیں اور کھوکھے بھی تھے لیکن اب وہ سب غائب تھے اور چھوٹی دکانوں کو شاید ملاکر بڑا بنا لیا گیا تھا۔ طارق کو تو پورا بازار ہی نیا محسوس ہو رہا تھا۔ بازار سے نکل کر ڈرائیور نے پوچھا، ’’صاب! اب کدھر سے نکالوں؟‘‘

    ’’بھئی شیر شاہ روڈ سے ڈیرہ اڈے کی طرف لے چلو۔‘‘

    اب رکشا جلیل آباد کالونی کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اس نے غور کیا، جہاں پہلے نانا ابا کا گھر تھا، اس کے برابر میں جو لکڑیوں کی ٹال تھی اور سامنے کی سڑک کو کاٹتا ہوا جو نالہ گزرتا تھا وہ سب ختم ہو چکا تھا۔ اس کی جگہ ایک کئی منزلہ عمارت کھڑی تھی۔ اس عمارت کے گراؤنڈ فلور پر بڑا سا کاروں کا شو روم تھا جس کے سامنے کی دیواریں شفاف شیشے کی تھیں۔ طارق کو یاد آیا کہ اس کے بچپن کے دنوں میں وہ گلی جس کے نکڑ پر یہ عمارت تھی، چڑیلوں کی گلی کہلاتی تھی۔ شام ڈھلے لوگ یہاں سے گزرتے ہوئے گھبراتے تھے۔ کئی عورتوں نے اس گلی میں پچھل پیریوں کو دیکھا تھا۔ اس سے ذرا سا آگے بڑی سی کوٹھی تھی جو چیل والی کوٹھی کہلاتی تھی۔ اس کوٹھی کی چھت کے بائیں رخ پر ایک مینار تھا جس پر ایک چیل اس طرح بنی ہوئی تھی جیسے بس اڑنے کو پر تول رہی ہے۔ اسی چیل کی وجہ سے اس کا نام چیل کوٹھی پڑ گیا تھا۔ وہ جب بھی نانا کے گھر آتا تو اس کوٹھی کا پھیرا ضرور لگاتا تھا۔ اسے یہ چیل دیکھ کر ایک عجیب نامعلوم سی خوشی کا احساس ہوتا تھا۔ اب اس کوٹھی میں بینک کا دفتر قائم تھا۔ طارق کی یادوں میں اب بھی وہ واقعہ محفوظ تھا جس کے بعد اس نے اس کوٹھی کو کبھی آباد نہیں دیکھا تھا۔ یہ ملک اﷲ نواز صاحب کی کوٹھی تھی۔ ملک صاحب سفید بالوں والے نرم مزاج آدمی تھے۔ شام کو جب ان کی کوٹھی کے صدر دروازے کے سامنے دالان میں نوکر چھڑکاؤ کرکے کرسیاں اور مونڈھے لگاتے اور حقہ لاکر رکھتے تو ملک صاحب وہاں آ بیٹھتے۔ ان کے کئی دوست احباب بھی آ جاتے اور رات گئے تک یہ بیٹھک چلتی۔ ملک صاحب کا ایک ہی بیٹا تھا شوکت۔ یہ تگڑا، جوان اور خوب صورت آدمی تھا۔ ایک دن اچانک محلّے میں یہ خبر پھیلی کہ شوکت کسی بڑے سرکاری افسر کی لڑکی کو لے کر فرار ہو گیا ہے۔ اس خبر کا بہت چرچا رہا۔ شوکت کو بہت تلاش کیا گیا لیکن اس کی کہیں کوئی خبر نہ ملی۔ بہت دن بعد پتا چلا کہ پولیس نے شوکت کو ڈھونڈ لیا ہے اور وہ چوکی چہلیک میں بند ہے۔ اس پر مقدمہ چلا اور سزا ہو گئی۔ ملک اﷲ نواز صاحب نے بیٹے کو بری کرانے کے لیے پیسا پانی کی طرح بہایا، لیکن جس بڑے افسر کی بیٹی کو وہ بھگا کر لے گیا تھا وہ شاید زیادہ طاقت ور تھا۔ ملک اﷲ نواز صاحب اپنے بیٹے کو سزا سے نہ بچاسکے۔ شوکت کو پہلے قلعے کے گراؤنڈ میں کوڑے مارے گئے اور پھر کئی سال کی قید ہو گئی۔ اس واقعے کے بعد چیل والی کوٹھی میں شام کی بیٹھک ختم ہو گئی اور اس کا صدر دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ لوگوں نے اس دروازے کو کئی برس بعد اس وقت کھلا ہوا دیکھا تھا جب کوٹھی سے ملک اﷲ نواز صاحب کا جنازہ اٹھا۔ ویسے تو اس کوٹھی کی سالانہ مرمت اور صفائی ستھرائی کا سلسلہ ملک صاحب کی زندگی میں ہی ختم ہو گیا تھا، لیکن ان کے بعد تویہ جیسے بھوت بنگلہ بن گئی۔ اس کے مکین کہاں گئے، کسی کو کچھ پتا نہ تھا۔ برسوں بعد ایک بار یہ خبر بھی پھیلی کہ شوکت رہا ہو گیا ہے، لیکن وہ اس کوٹھی میں واپس نہیں آیا۔

    ڈیرہ اڈے کے علاقے کو دیکھ کر بھی طارق کو حیرت ہوئی۔ نقشہ بہت بدل گیا تھا۔ جی ٹی ایس کا اڈا اجاڑ نظر آ رہا تھا۔ اس سے آگے چوک پر پرائیویٹ ویگنوں اور کوچوں کے بہت سے نئے اڈے بن چکے تھے۔

    ’’اب یہاں سے الٹے ہاتھ گجر کھڈا کی طرف موڑ لو۔‘‘ اس نے چوک کے پاس پہنچ کر رکشا والے سے کہا۔ چند ہی منٹ بعد وہ چھوٹی چچی کے دروازے پر تھا۔ دستک دی تو آٹھ نو سال کی بچی نے دروازہ کھول کر سلام کیا اور بولی، ’’آپ کو کس سے ملنا ہے؟‘‘

    ’’بیٹی! ہمیں چھوٹی چچی سے ملنا ہے۔‘‘ طارق نے کہا۔

    بچی دروازے پر ایک طرف سمٹ کر بولی، ’’آیئے، اندر آ جایئے۔‘‘

    برآمدے میں اسی جگہ کمرے کی دیوار کے ساتھ لگی چارپائی پر چھوٹی چچی آلتی پالتی مارے بیٹھی تھیں، ان کی گود میں ایک سینی دھری تھی جس میں رلی ملی دالیں تھیں جنھیں وہ صاف کر رہی تھی۔ وہ خندہ پیشانی سے پیش آئیں۔ چند لمحوں میں لالی بھی وہیں آ گئی۔

    آتے ہی بولی، ’’تم اچانک ہی جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہو، اس لیے پہلے ہی بتا دو ٹھنڈا پیوگے یا چائے۔‘‘ پھر خود ہی بولی، ’’اس دن امی کہہ رہی تھیں کہ پہلے ٹھنڈا منگالو، چائے بعد میں۔ ٹھنڈا ہی منگالیتی ہوں۔‘‘ خود ہی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آواز لگائی، ’’نزّو! بیٹا یہاں آؤ۔‘‘

    وہی بچی جس نے دروازہ کھولا تھا، اس کے پاس آ کھڑی ہوئی، ’’جی امی!‘‘

    ’’جاؤ ذرا بوتل تو لادو۔‘‘

    ’’جی اچھا!‘‘ بچی جانے لگی۔

    ’’ارے نہیں بھئی، یہ بوتل ووتل کا تکلف نہیں، میں صرف چائے پیوں گا۔‘‘ طارق نے بڑھ کر بچی کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    ’’بیٹا! تم نے سلام نہیں کیا، یہ انکل ہیں تمھارے۔‘‘ لالی نے بچی سے کہا۔

    ’’میں انکل سے مل چکی ہوں۔ دروازہ میں نے ہی کھولا تھا۔‘‘ بچی نے جواب دیا۔

    ’’ہاں ہاں بھئی یہ سلام کر چکی ہے، بہت اچھی بیٹی ہے۔‘‘ طارق نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔

    ’’اس کا نام نزہت ہے، منجھلی ہے یہ، تین بیٹیاں ہیں میری۔ بیٹا! بہنوں کو بلاؤ۔‘‘

    دو اور بچیوں نے آکر طارق کو سلام کیا۔ لالی نے بڑی بچی سے چائے بنانے کے لیے کہا۔ تھوڑی دیر میں مختلف عمروں کے چھہ سات بچے سپارے اور نورانی قاعدے اٹھائے ہوئے آ گئے۔ ’’لو امی کا مدرسہ کھلنے کا ٹائم ہوگیا۔ طارق تم اندر آ جاؤ کمرے میں۔‘‘ لالی نے ہنستے ہوئے کہا۔

    ’’اے بیٹا! گھر میں تو کوئی کام کاج کرنے نہیں دیتی یہ مجھے۔ میں نے سوچا فارغ پڑے رہنے سے تو بہتر ہے کہ محلے پڑوس کے بچوں کو کلامِ پاک ہی پڑھا دیا کروں۔‘‘ چھوٹی چچی بولیں۔

    ’’ہاں ہاں چھوٹی چچی بہت اچھی بات ہے۔ نیکی کا کام ہے اور پھر مصروفیت بھی رہتی ہے۔‘‘ وہ لالی کے ساتھ اندر کمرے میں آ بیٹھا۔

    ’’دونوں بیٹے کیسے ہیں تمھارے؟ بڑا والا تو اب ساتویں جماعت میں ہے نا اور چھوٹا چوتھی میں۔‘‘ لالی نے پوچھا۔

    طارق ایک لمحے کو چونکا، پھر بولا ’’ہاں۔ ٹھیک ہیں دونوں۔‘‘

    ’’دونوں ذہین ہوں گے۔ پڑھائی میں اچھے ہوں گے تمھاری طرح اور تمھاری بیوی بھی ٹھیک ہیں، ساتھ کیوں نہیں لائے بیوی بچوں کو۔ اچھا تھا اپنے کنبے سے مل لیتے۔‘‘

    طارق مسکرایا اور بولا، ’’میں کہاں اچھا تھا پڑھائی میں اور تم تو بدھو کہا کرتی تھیں مجھے۔‘‘

    ’’ایسے ہی چھیڑتی تھی ورنہ ہم سب کزنوں میں تم سب سے اچھے تھے۔‘‘

    ’’تمھارے شوہر کہاں ہیں؟ ان سے اس دن بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔‘‘

    ’’تین سال پہلے فوت ہوگئے۔‘‘

    ’’اوہ۔۔۔ آئی ایم سوری۔‘‘

    ’’جگر کا کینسر ہو گیا تھا۔‘‘

    ’’بہت افسوس ہوا۔ آئی ایم سوری، مجھے معلوم نہیں تھا۔‘‘ تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ طارق کی نگاہیں کمرے کا جائزہ لینے لگیں۔ یہ وہی کمرہ تھا جہاں اس نے بچپن میں اور نوجوانی میں لالی کے ساتھ بیٹھ کر پڑھا تھا، لڈو کھیلی تھی اور باتیں کی تھیں۔ اس کمرے میں اب بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح ایک کونے میں اوپر تلے ٹرنک رکھے تھے۔ الماری میں سب سے اوپر کے حصّے میں قرآن مجید اور کچھ کتابیں تھیں۔ دوسرے حصّے میں کانچ کے برتن اور گلدان تھے اور سب سے نچلے حصے میں سرمہ دانی، کنگھا اور بچیوں کے اسکول کے بستے رکھے تھے۔ طارق نے سوچا بس اتنی تبدیلی ہوئی ہے کہ پہلے یہاں لالی اور اس کی بہن بستہ رکھتی تھیں اور اب لالی کی بیٹیاں رکھ رہی تھیں۔ اس نے قدرے اچھنبے کے ساتھ سوچا، وہ اس شہر میں جہاں بھی گیا اسے واضح تبدیلی کا احساس ہوا لیکن اس گھر میں جیسے وقت، حالات، زندگی اس کے مسائل سب کچھ ویسے کا ویسا تھا، کچھ نہیں بدلا تھا، جیسے وقت ایک جگہ تھم گیا ہو۔ بس چہرے بدلے تھے لیکن ان کی تقدیر تک ایک جیسی تھی۔ پہلے چھوٹی چچی بیوہ ہوکر بچیاں پالنے اور جیون جھوجھنے میں لگی ہوئی تھی، اب یہی کچھ لالی کر رہی تھی۔ یاخدا یہ۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟ کچھ لوگوں کے ساتھ زندگی نسل در نسل اتنا بھیانک مذاق کیوں کرتی ہے؟ اس کا دل یک لخت بہت بوجھل ہو گیا۔

    ’’لالی! تابندہ کہاں ہے، کیسی ہے وہ؟‘‘

    ’’ماشاء اﷲ اپنے گھر میں ہے۔ بہاولپور میں رہتی ہے۔ دو بچے ہیں اس کے، ایک بیٹا ایک بیٹی۔‘‘

    ’’ماشاء اﷲ، ماشاء اﷲ۔ چلو بہت اچھا ہے۔ آتی رہتی ہے ملنے کے لیے۔‘‘

    ’’ہاں، مہینے دو مہینے میں چکر لگا لیتی ہے۔‘‘

    ’’اب آئے تو اسے میری دعائیں کہنا۔‘‘

    ’’اچھا اور اب اگلی بار آؤ تو تم بھی بیوی بچوں کو ساتھ ضرور لانا۔‘‘

    ’’دیکھو کب آنا ہوگا؟‘‘

    ’’کب آنا ہوگا کیا مطلب؟، جلدی آنا اور لاکر بچوں کو ملانا۔‘‘

    طارق کا جی چاہا وہ لالی سے پوچھے اسے ماضی کی کیا کیا باتیں یاد ہیں؟ وہ باتیں جن میں ان کے درمیان۔۔۔ وہ سب باتیں کیا اسے یاد ہیں یا۔۔۔ پھر اس نے خود ہی سوچا، کاش اسے ان میں سے کوئی بات، کوئی لفظ، کچھ بھی یاد نہ ہو۔ کیا مجھے لالی سے پوچھنا چاہیے کہ اسے مجھ سے کوئی شکوہ، کوئی غصہ، کوئی افسوس ہے؟، لیکن کیسے اور کن لفظوں میں پوچھوں، کس منہ سے پوچھوں؟ ایک عجیب سا اضمحلال اس کے پورے وجود پر طاری ہو رہا تھا۔

    ’’تم سنجیدہ اور چپ چپ کیوں رہنے لگے ہو، پہلے تو ایسے نہیں تھے۔‘‘

    ’’نہیں، بس ایسے ہی تمھیں لگ رہا ہوگا۔‘‘

    ’’لگ رہے ہو تو کہہ رہی ہوں نا۔ اچھا یہ بتاؤ، وہ جو تمھیں پچھلے سال گردے کی تکلیف ہوئی تھی وہ تو دوبارہ نہیں ہوئی نا اور تم بلڈ پریشر کی دوا تو باقاعدگی سے لیتے ہو، اس میں غفلت تو نہیں کرتے نا؟‘‘

    طارق لمحے بھر کو ہل گیا۔ لالی کو کیا کیا کچھ پتا تھا اس کے بارے میں، اس کے بیوی بچوں کے بارے میں۔ کیا عورت ہے یہ، طارق نے خود سے کہا، جسے میں نے بالکل فراموش کر دیا تھا وہ میرے بارے میں کتنی باخبر ہے۔ افسوس اور رنج کی تیزوتند لہریں اس کے دل میں دوڑتی چلی گئیں۔ اس نے لالی کی طرف دیکھا، اسے لگا نظریں دُھندلا گئی ہیں۔ اس نے سر جھکا لیا۔

    ’’منصور بھائی آ جاتے ہیں کبھی کبھار، ان سے تمھاری خیریت پوچھ لیتی ہوں۔‘‘ لالی نے اٹھتے ہوئے کہا، ’’اچھا اب تم رات کا کھانا کھا کر جانا، میں جلدی سے کچھ بنا لیتی ہوں۔‘‘

    ’’اوں ہوں۔ نہیں، نہیں کھانا نہیں۔ کھانا تو میں چچا کے ساتھ ہی کھاؤں گا۔ کل صبح جا رہا ہوں واپس اسلام آباد، سوچا آج تم سے مل لوں۔‘‘

    ’’اچھا کیا، بہت اچھا کیا آ گئے۔ ویسے میں تو کہہ رہی تھی کھانا کھالیتے۔ لیکن۔۔۔ اچھا چلو جیسے تمھاری مرضی، چائے اور بنواؤں۔‘‘

    طارق نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’چھوٹی چچی سے مل لیا، بچیوں کو دیکھ لیا، تم سے باتیں ہو گئیں، وقت بھی خاصا گزر گیا۔ چچا میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ بس اب چلتا ہوں۔‘‘

    ’’لو یہ کیا بات ہوئی، تم ایک دم سے ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔‘‘

    ’’ایک دم کہاں، اتنی دیر سے تو بیٹھا ہوں۔ زندگی رہی تو پھر آؤں گا، پھر ملیں گے۔‘‘

    ’’ہاں ہاں، کیوں نہیں۔‘‘ لالی نے شگفتگی سے کہا، ’’خدا تمھیں اپنے بچوں کے سر پہ سلامت رکھے، ان کی خوشیاں دکھائے۔ اچھا کیا تم ملنے آ گئے۔ اب اتنے دن میں مت آنا، جلدی آنا اور بچوں کو بھی ساتھ لانا۔‘‘

    طارق کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتا رہا، پھر باہر آکر چھوٹی چچی سے ملا، لالی کی بیٹیوں کو پیار کیا، جیب سے کچھ روپے نکال کر دیے اور خدا حافظ کہہ کر نکل آیا۔ باہر آکر اسے لگا اس کی دونوں ٹانگوں میں جیسے جان ہی نہیں ہے اور جسم بری طرح نڈھال تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا گلی سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔ فوراً ہی خالی رکشا مل گیا۔ وہ اس میں سوار ہوکر چل دیا۔ یک بہ یک اسے لگا جیسے وہ لالی سے مخاطب ہے، لالی! تمھارے ساتھ، چھوٹی چچی کے ساتھ یہ سارے ظلم کیوں ہوئے؟ کس نے ڈھائے اتنے ستم، چھوٹے چچا نے۔۔۔ دادا جان نے۔۔۔ ابا نے۔۔۔ میں نے یا تقدیر نے۔۔۔ یا پھر سب نے مل کر؟ اور تم لوگ ہو کہ تمھیں کسی سے کوئی شکوہ، کوئی گلہ، کوئی شکایت کچھ بھی نہیں؟ کیسے لوگ ہو تم۔۔۔ کس دنیا کی مخلوق ہو؟ اس کی بات کا جواب دینے کے لیے لالی اس کے پاس نہیں تھی اور رکشا اسے لالی سے دور مخالفت سمت میں لیے جا رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے