Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بجلی کا کھمبا

دیوندر اسر

بجلی کا کھمبا

دیوندر اسر

MORE BYدیوندر اسر

    چند روز ہوئے، ہوٹل کے مالک نے ایک شام مجھ سے کہا، ’’ہمیں جینیس نہیں چاہئے مسٹر اور تم تو سوپرجینیس ٹھہرے۔ شاعر اور کہانی کار۔ ہمیں تو وہ آدمی چاہئے جو مشین کی طرح تیز رفتاری سے کیلکولیٹر پر روپے پیسے کے بل بناسکے۔‘‘ پھر وہ مسکرایا، ’’اور تم ہینڈل پر ہاتھ رکھے سوچتے رہتے ہو کہ آدمی اور مشین میں کیا رشتہ ہے۔‘‘ پھر وہ زور سے ہنسا، ’’سنا ہے امریکہ میں اب مشینیں بھی شعر کہنے لگی ہیں۔‘‘

    ’’آدمی اور مشین میں کیا رشتہ ہے؟ یہ سوچنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ میں آدمی ہوں اور مشین پر کام کرتاہوں لیکن میری جگہ یہ کم دام پر مشین کی طرح چست اور تیز رفتاری سے کام کرنے والے آدمی نے لے لی۔‘‘

    اس آدمی نے میری طرف ایک بار دیکھا اور پھر کھٹ کھٹ کیلکولیٹر پر بل بنانے لگا۔

    اب میں کئی دنوں سے سڑکوں کی خاک چھان رہا ہوں۔ نوکری نہیں ملی اور نہ شعر ہی کہہ سکااور نہ کوئی کہانی لکھ سکا۔ واقعی یہ پہلا دور پہیے کی گڑگڑاہٹ کا ہے دل کی دھڑکن کا نہیں۔ آدمی یا تو مشین بن جائے ورنہ۔۔۔ اب تو کوئی استعارہ بھی نہیں سوجھتا۔ میرا جسم شل ہوگیا ہے۔ دماغ سوچ نہیں سکتا اور دل بھر گیا ہے۔ بس ایک روشنی ہے جو میرے سر پر ہے۔ ایک سلسلہ ہے روشنی کا جو سڑک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پھیلتا چلا گیا ہے۔

    بات بہت معمولی تھی اور اس قسم کی باتیں کاروباری زندگی میں روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں لیکن نامعلوم کیوں میرا دل بھر گیا اور میں کتنی دیر سے بجلی کے کھمبے کے ساتھ کھڑا ہوں۔ جب میں زندگی میں کبھی مایوس ہوتا ہوں تو کسی درخت کی جھاڑی میں یادیوار کے سایے میں کھڑا ہوجاتا ہوں۔ خاموش، بے حس، بے حرکت اور اس وقت تک کھڑا رہتا ہوں جب تک دل کا درد اور سایے کی سیاہی ایک دوسرے میں خلط ملط ہوکر میرے احساس کو سن نہیں کر دیتے لیکن اس بار مایوس ہونے کے بعد میں درخت کی چھاؤں یادیوار کے سایے کے بجائے بجلی کے کھمبے کے ساتھ اس کی روشنی تلے کھڑا ہوگیا۔ اس روشنی میں، میں نے اپنے آپ کو اندھیرے کی لاوارث لاش کی طرح محسوس کیا کہ یہ میری آخری شکست ہے۔ اس لیے نہیں کہ اس کے بعد میں کامیاب ہوجاؤں گا بلکہ اس لیے کہ اس کے بعد کسی قسم کی جدوجہد میں بیکار سمجھتا ہوں۔ اگر بجلی کا بلب بولنے نہ لگتا تو میرا یہ احساس تیز ہوجاتا کہ میں اندھیرے کی لاوارث لاش ہوں جسے روشنی کی بھٹکی ہوئی لہروں پر بہا دیا گیا ہے۔

    ’’مجھے معلوم تھا کہ ایک دن تم ضرور آؤگے۔‘‘ بجلی کے بلب نے کہا، ’’میں نے تمہیں کئی بار ان سڑکوں پر رات گئے تک گھومتے ہوئے دیکھا ہے۔ تم نے کبھی میری طرف نظر اٹھاکر نہیں دیکھا، شاید تمہیں میری مصنوعی اور بیمار روشنی سے نفرت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میری طرف دیکھ کر تم نے کہا تھا قمقموں کی زہر اگلتی روشنی۔ میں نے برا نہیں مانا۔ اس لیے کہ میں نے اسی سڑک کے کنارے رات رات بھر جاگ کر زہر پیا ہے، اُگلا نہیں۔

    تم ہمیشہ چاند ستاروں کی طرف دیکھتے رہتے تھے اور دھیرے دھیرے کچھ گنگناتے رہتے تھے۔ تمہاری قمیص کے بٹن کھلے ہوتے تھے۔ تم اس وقت چونکتے، جب کسی برق رفتار کار کی تیز روشنی تمہاری نظر چاند ستاروں سے ہٹاکر میرے قریب لے آتی تھی۔۔۔ میں نے تمہیں دن میں کبھی نہیں دیکھا۔ تم کیا کرتے ہو۔ کیسے گھومتے ہو۔ کیونکہ میں دن میں بجھ جاتا ہوں۔ لیکن تم کچھ نہ کچھ ضرور کرتے ہی ہوگے زندہ رہنے کے لیے۔ ہر آدمی کو زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔

    پھر میں نے دیکھا، تم نے گنگنانا بند کردیا ہے۔ بس صرف چاند ستاروں کی طرف اداس نظروں سے دیکھتے رہتے ہو۔ پھر تم نے چاند ستاروں کی طرف دیکھنا بند کردیا۔ تمہاری گردن جھک گئی اور تم اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے ایک چھوٹے سے پتھر کو لڑھکاتے لیے جارہے تھے۔ اور جب تم واپس آئے تو وہی پتھر تمہارے پاؤں کی زد میں تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ تم کسی غم میں مبتلا ہو۔ اگر دن کو تم ایسا کرتے تو مجھے کچھ محسوس نہ ہوتا۔ دن کو میں اندھا ہو جاتا ہوں لیکن رات کو میری تیسری آنکھ کھل جاتی ہے، پھر تمہیں یاد ہوگا ایک دن تم آئے، تمہارے قدم ڈگمگا رہے تھے۔

    تم کوئی غزل اونچے سروں میں گا رہے تھے۔ لیکن کبھی سڑک کے اس کنارے اور کبھی اس کنارے۔ تمہارے بال الجھے ہوئے تھے۔ چہرے پر فکر کے آثار تھے۔ تمہارے ہاتھوں میں کاغذوں کا پلندہ تھا، جسے تم نے حقارت سے ڈسٹ بن میں پھینک دیا اور پھر خوب ہنسے۔ تم نے شراب پی رکھی تھی۔ میں اس غم سے بجھ گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ تم اب ہمیشہ اس طرح آؤگے اور اگر تمہیں شراب میسر نہ ہوئی تو تم بجھ جاؤگے۔

    تم نے شراب اس لیے پی کہ اپنے غم کو بھول جاؤ اور تمہیں شراب اس کے بعد میسر نہ ہوئی۔ اس لیے نہیں کہ تم لال پری کو شیشے میں نہیں اتار سکے بلکہ اس لیے کہ تم خون بن کر شیشے میں اتارنے کے قائل تھے۔ کیونکہ میں نے تمہیں ڈسٹ بن میں اپنی کہانیوں اور نظموں کے مسودے ڈھونڈتے دیکھا اور جب تمہیں مایوسی ہوئی تو تم میرے قریب آکھڑے ہوئے۔۔۔‘‘

    بجلی کا بلب یہ کہہ کر کچھ لمحے کے لیے خاموش ہوگیا۔ سڑک پر تیزی سے کوئی کار نکل گئی۔

    ’’تم سوچتے ہوگے، میں لوہے اور شیشے کا مرکب یہ سب باتیں کیسے محسوس کرلیتاہوں۔‘‘ بجلی کے بلب نے کہنا شروع کیا، ’’یہ صحیح ہے کہ لوہے کے کھمبے سے لگ کر روشنی دیتا ہوں، جسے تم مصنوعی اور بیمار سمجھتے ہو۔ لیکن اس کھمبے کے ساتھ لوگ آکر کھڑے ہوتے ہیں۔ ڈھلتے ہوئے جسم اور ڈوبے ہوئے دل لیے میں نے ہر رات غم زدہ لوگوں کے دل کی دھڑکن سنی ہے۔ مجھ میں بھی انسانی احساسات کو محسوس کرنے کی کچھ قوت پیدا ہوگئی ہے۔ یہی باعث ہے کہ میں سمجھ گیا کہ تمہارے جیسا آدمی رو نہیں سکتا۔ یہی تمہاری ٹریجڈی ہے کہ تم رو نہیں سکتے۔

    آدمی کتنا بھی غمزدہ کیوں نہ ہو، اگر وہ تنہا ہے تو وہ اپنے درد کے احساس سے مرجائے گالیکن روئے گا نہیں۔ رونے کے لیے بھی کسی غم خوار کی ضرورت ہوتی ہے۔

    آدمی کسی پیار بھرے ہاتھ کالمس پاکر ایک دم پھوٹ پڑتا ہے۔ رونا بہت ضروری ہے ورنہ دل پھٹ جاتا ہے۔ اور پھر کوئی آنسو ستارہ بن کر چمک نہیں سکتا، کوئی درد گیت میں نہیں ڈھل سکتا، کوئی زخمی انگلی ستار پر نہیں تھرک سکتی۔ میں شاعر نہیں بجلی کا بلب ہوں۔ اور تمہیں کسی پیار بھرے ہاتھ کا لمس چاہئے کہ میرے ہاتھ نہیں، دور دور تک پھیلی ہوئی یہ تاریں ہیں، جن کا لمس زندگی نہیں موت دیتا ہے۔ میرے دوست میں سرد لوہے کے کھمبے سے کسی پیار بھرے ہاتھ کا نعم البدل نہیں بن سکتا۔ لیکن اپنی اس جلتی بجھتی روشنی سے تمہاری باتیں سمجھ سکتا ہوں۔ میرے اور قریب ہوجاؤ، تمہیں شاید کوئی خوشی نصیب نہ ہوگی لیکن مجھے انسان کی قربت حاصل ہوجائے گی۔‘‘

    بجلی کا بلب پھر ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگیا۔ میں اس کے قریب ہوگیا۔ لوہے کے کھمبے سے لپٹ کر مجھے عجیب زندگی کا احساس ہوا۔

    ’’جب میرے ساتھ لگ کر کوئی کھڑا ہوتا تو مجھے عجیب زندگی کا احساس ہوتا ہے۔‘‘ بجلی کے بلب نے کہنا شروع کیا، ’’کچھ دن ہوئے تمہاری طرح ہی ایک بجھے ہوئے دل والی ایک لڑکی میرے قریب کھڑی ہوگئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ بھی روسکتی تھی۔ اس سڑک پر شام کے جھٹپٹے میں اس کو چہل قدمی کرتے ہوئے میں نے کئی بار دیکھا ہے۔ اس کے ننھے ننھے سفید ہاتھوں میں سلایوں کو ناچتے دیکھ کر عجیب خوشی کا احساس ہوتا تھا۔ کتنی تیزی اور صفائی سے اس کے ہاتھ سوئٹر بن رہے تھے۔ کبھی کبھی سرد راتوں میں تنہا کھڑے کھڑے میری خواہش ہوتی کہ وہ لڑکی مجھے سوئٹر پہنادے اور میں اسے ہمیشہ روشنی دیتا رہوں گا۔

    پھر ایک روز اسے بھی کسی نے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے گھر جاتے دیکھا۔ کئی راتیں وہ اس سڑک سے کبھی ٹیکسی موٹر رکشا پر گزرنے لگی اور بہت دور کہیں تیز روشنی میں اندھیرے کی طرح گم ہوجاتی۔ شاید جب وہ منہ بند کلی سی چٹکنے لگی تو کسی نے توڑ دیا، یا مسل دیا، یا اس کو اپنے دل میں چھپانے والے اور اس کے درمیان کوئی دیوار حائل ہوگئی، میں نہیں جانتا اس پر کیا بیتی۔ اسے چھوئی موئی سمجھ کر حفاظت سے رکھا گیا تھا کہ وہ چھونے سے ہی مرجھا گئی، یا اسے کاغذ کے پھول کی طرح ہر ہاتھ میں لٹنے دیا تھا، یا اس نے خودسپردگی کی اور اسے فریب ملا، یا اس نے پیار کیا اور اس کی سزا ملی لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اس کے ماں باپ بوڑھے ہیں، جب وہ جوان تھے، بیٹی کی پرورش کرتے تھے۔ اور جب بیٹی جوان ہوئی تو ماں باپ کی پرورش کرنے لگی۔

    میں نے اس سڑک پر اس کے گرد بیمار جسم والے بے رحم ہاتھ لپٹتے دیکھے۔ اب اس کا جسم بھی بیمار ہے، روح اپاہج ہے، دل زخم خوردہ ہے۔ وہ بھی تمہاری طرح قبل از وقت بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی دستک دے رہی ہے۔ ایک بار وہ بہت دکھی تھی۔ میرے قریب کھڑی ہوگئی۔ میں نے اس سے کہا، ہاتھ ہاتھ ہی ہوتے ہیں۔ بیمار کاہو یا کسی تنومند کا۔ تمہیں ان ہاتھوں کے لمس سے روپیہ ملتا ہے اور روپیہ زندگی کے لیے ضروری ہے۔ پیار اور حسن، روپے کے بغیر فریب محض ہے۔ اس نے میری طرف انتہائی دکھ سے دیکھا۔ ہاں ہاتھ، ہاتھ ہی ہوتے ہیں۔ میں ان کے ہاتھ کا لمس چاہتی ہوں جن میں روح پھسل کے آجاتی ہے۔ دل تحفے کے روپ میں آتا ہے اور۔۔۔ اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔‘‘

    بجلی کا بلب بجھ گیا۔ سب بلب بجھ گئے۔ چاروں طرف اندھیرا چھا چکا تھا۔ اس اندھیرے میں بھی وہ کہہ رہا تھا، تمہارے پاس وہ ہاتھ ہیں۔ اب یہی ہیں میرے دوست۔ وہ لڑکی رات میں ہاتھوں کی تلاش میں یہاں آئی تھی اور مجھ سے لپٹ گئی تھی۔ وہ تمہارے ہاتھوں کی تلاش میں ہے۔ اور تمہارے ہاتھ۔۔۔ کیا نام لیا تھا اس لڑکی کا۔ ہاں نشا کی تلاش میں ہیں اور نشا ماں باپ کی تجوری میں بند ہے۔ اور یہ لڑکی ماں باپ کی تجوری ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ تم انسان ہو، اس دنیا کے باسی ہو، یہ کیا ہو رہا ہے۔

    میں جانتا ہوں تمہیں تجوری سے نفرت ہے لیکن زندگی تجوری کے بغیر جرم ہے یا موت۔ ابھی کل ہی کا ذکر ہے، ایک چودہ سالہ بچے کی خودکشی کا۔ وہ بچہ ہر رات میری روشنی میں تواریخ، جغرافیہ، اکنامکس اور شاعری کی کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ رات گئے تک وہ یہاں پڑھتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا بیٹے تم اپنے گھر کیوں نہیں پڑھتے۔ اس نے میری طرف حسرت بھری نظر سے دیکھا۔ گھر میں اندھیرا ہے۔ دیا جلا لو۔ پیسے نہیں۔ میں خاموش ہوگیا۔ جس کی اپنی رگوں میں خون جل جل کے خشک ہو رہا، وہ تیل جلانے کے لیے پیسے کہاں سے لائے۔

    سامنے والے مکان کی کھڑکی میں دیکھو کتنی کم روشنی ہے۔ اور آرام کرسی پر بیٹھی لمبے بالوں والی لڑکی ہنگری ہل پڑھ رہی ہے۔ اس نے ایم۔ اے کرلیا ہے۔ یونیورسٹی کی بس میں جاتی تھی۔ اب سوشل آرگنائزر ٹریننگ کے لیے امریکہ جارہی ہے۔ اور اس آفیسر کے ساتھ کلبوں میں گھومتی ہے جس نے اسے امریکہ جانے کے لیے پاس کیا ہے۔ اور وہ بچہ میری روشنی میں پڑھ کر اپنی آنکھ کی روشنی بھی کھو رہا ہے۔ جب اسے دن کے اجالے میں بھی کچھ دکھائی نہیں دے گا، تو اسے کام نہیں ملے گا۔ جب اسے کام نہیں ملے گا تو وہ مرجائے گا۔۔۔ لیکن وہ سمجھدار بچہ تھا۔ پیشتر کہ اسے موت آئے، وہ خود ہی مرگیا۔

    جب اس کا امتحان شروع ہوا تو اس کا باپ دمے سے مرگیا اور وہ ناکام ہوگیا۔ اب وہ کبھی نہیں پڑھ سکے گا۔ پڑھے بغیر اسے کام نہیں ملے گا۔ اور گھر میں ایک بوڑھی ماں اور جوان بیٹی ہے۔ وہ ہار گیا اور اس نے کچھ کھا لیا۔ اس کی ماں نے برتن صاف کرنے کا کام شروع کردیا۔ لیکن وہ پاگلوں کی طرح حرکت کرنے لگی اور کام نہ کرسکی۔ اگر وہ پاگل نہ بنتی تو عورت نہ ہوتی۔

    اس کی بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ گئی۔ جس کے ساتھ وہ بھاگ گئی تھی، قانون نے اسے اغوا کے جرم میں جیل میں بند کردیا۔ جب وہ جیل سے رہا ہوا تو وہ رات کے اندھیرے میں تجوری توڑنے لگا۔ اور اب سایہ دیوار میں رقم گنتا ہے۔ میں نے اس سے ایک بار پوچھا تھا تم نقب زنی کیوں کرتے ہو۔۔۔ جانتے ہو اس نے کیا جواب دیا تھا۔ ہر آدمی نقب زنی کرتا ہے۔ کوئی رات کے اندھیرے میں اور کوئی دن کے کالے بازار میں۔ پھر وہ میرے قریب آگیا۔ تم لوہے کے کھمبے ہو، اس نے کہا، تم انسان کے دل کی بات نہیں سمجھ سکتے۔ میں نے بھی پیار کیا تھا۔ محنت مشقت کی تھی۔ لیکن قانون نے مجھے اغوا کے جرم میں بند کردیا۔ اب میں صرف روپے سے پیار کرتا ہوں، جہاں بھی بس چلے اغوا کر لیتا ہوں۔ وہ میرے ساتھ لگ کر کئی گھنٹے کھڑا رہااورمیں اس کے دل کی آواز سنتا رہا۔

    بجلی کابلب ایک دم روشن ہوگیا۔

    تم سوچتے ہوگے میں بجھ کیوں گیا تھا۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ انسانوں کے دکھ درد کی بات روشنی میں کہہ سکوں، لیکن میری بات کچھ الجھ گئی ہے۔ بات یہ تھی کہ وہ بچہ اس لڑکی کابھائی ہے جو یہاں آکر روئی تھی۔ وہ نقب زن اس کا محبوب تھا جس نے اس کھمبے کے ساتھ کھڑے ہوکر سامنے والے مکان میں چوری کا ارادہ کیا تھا۔ اور سامنے والا مکان اس لڑکی کا ہے جو امریکہ جارہی ہے۔ اس لڑکی کا بھائی ہی تھا جس نے پہلی بار اس لڑکی کو پیسے دے کر جسم کا سودا کیا اور اس کی روح تک زخمی کردی۔

    بجلی کے بلب کی روشنی اور زیادہ تیز ہوگئی۔ سنا ہے تم کہانی کار ہو۔ تمہارے چہرے پر غم کی پرچھائیاں ان سب لوگوں کے دکھ کے باعث ہیں۔ خوشی کے لیے روپیہ، شہرت اور عورت کا پیار چاہئے، جس سے تم محروم ہوگئے ہو۔ روپیہ، شہرت اور عورت کا پیار سرکار کے دربار سے، کسی سیاسی پارٹی کے تاریک ذہن سے، کالے بازار کے اندھے کنوئیں سے ملتا ہے۔ لیکن جب تک تم کہانی کار ہو، تمہیں کچھ نہیں مل سکتا۔ کچھ بھی نہیں۔ دل کا چین اور روح کی شانتی بھی نہیں۔ خوشی کے لیے ضمیر کی آواز کو دبادینا پڑتا ہے۔ اور کہانی تو ضمیر کی آواز ہوتی ہے۔

    میں نے بجلی کے بلب کی طرف پہلی بار نظر اٹھاکر دیکھا۔ وہ مسکرایا۔ یہ کہانی دن کی نہیں، رات کی ہے۔ میں رات بھر جاگتا رہتا ہوں۔ شاید تم بھی رات بھر جاگتے رہتے ہو۔ ان ہی سڑکوں پر میں روشنی دیتا ہوں اور رات میں سڑکوں پر تیز روشنی کی تلاش کرتے ہو۔ میں سیاہ اور سخت کوئلے کے سینہ سے گرمی اور روشنی کی چنگاری بن کر پھوٹتا ہوں اور تم انسانی دنیا کی سیاہی سے گھبراکر بجھ رہے ہو۔

    بجلی کا بلب خاموش ہوگیا اور میں نے محسوس کیا کہ میرا ایک ہاتھ نقب زن کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا اس لڑکی کے ہاتھ میں، اور میں ان دونوں کے ساتھ بجلی کے ایک بلب سے دوسرے بلب پر اچھلتا کودتا ستاروں کی محفل میں پہنچ گیا ہوں، جہاں وہ بچہ ہمارا انتظار کر رہاہے اور جہاں ہر ٹوٹتے ہوئے ستارے سے ایک کہانی جنم لیتی ہے۔

    مأخذ:

    کینوس کا صحرا (Pg. 70)

    • مصنف: دیوندر اسر
      • ناشر: پبلشرز اینڈ ایڈورٹائزرز کرشن نگر، دہلی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے