Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سمینٹ میں دفن آدمی

ایم مبین

سمینٹ میں دفن آدمی

ایم مبین

MORE BYایم مبین

    اس کے سامنے سمینٹ کا ایک بڑا سا ٹکڑا رکھا ہوا تھا اور اس کےہاتھ میں سمینٹ توڑنے کی مشین۔

    اس سمینٹ کے ٹکڑے میں اس کا دوست، محسن، کرم فرما دفن تھا اور اسے اس سمینٹ کے ٹکڑے کو توڑ کر اپنے اس دوست کی لاش نکالنی تھی۔

    سمینٹ کو ڈرل کرکے توڑنے والی مشین اس کے ہاتھوں میں کانپ رہی تھی۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ مشین کے زوردار جھٹکوں سے بھی اس کے ہاتھ کانپے ہوں۔

    جب وہ اپنے دونوں ہاتھوں میں ڈرل کرنےکی مشین پکڑ لیتا تھا اور اسےمضبوط سےمضبوط سمینٹ یا پتھر کے ٹکڑےپر بھی رکھ دیتا تھا تو اس کی نوک اس سخت پتھر یا سمینٹ میں سوراخ کرتی جاتی تھی۔ مشین کے جھٹکوں سےاس کےہاتھ نہیں کانپتےتھے۔ ہاں اس کےمضبوط بازووں کی مچھلیاں ضرور پھڑپھڑاتی تھیں۔

    جن کو اس کام کی سختی کا اندازہ تھا، اسےکام کرتے دیکھ کر اس سے رشک کرتے تھے۔

    ‘’ماشاءاللہ خدا نے کیسی طاقت سے نوازہ ہے، ہاتھوں میں رعشہ پڑنے کے بجائے پتھر اور سمینٹ میں رعشہ پڑ جاتا ہے۔’‘

    لیکن آج اس کے ہاتھوں میں رعشہ پڑا ہوا تھا۔

    آنکھوں سےزار و قطار آنسو بہہ رہےتھے، قدرت نےاسےکتنی بڑی آزمائش میں ڈالا تھا۔ اسےاس سمینٹ کے تودے سے اسلم کی لاش نکالنی تھی۔

    اسلم کی موت کی خبر سن کر وہ پاگلوں کی طرح رونے لگا تھا۔ اسے سمجھانے اور چپ کرانے میں اس کنویں پر کام کرنے والے اس کے ساتھی اور دوستوں کو گھنٹوں لگ گئے تھے۔

    ‘’نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، اسلم بھائی نہیں مر سکتے، یہ جھوٹ ہے۔“

    وہ بار بار یہ کہتے دہاڑیں مار مار کر رونے لگتا تھا۔

    اور ہر بار اس کے ساتھیوں کو اسلم کی موت کا سین دہرانا پڑتا تھا۔

    ‘’آخر تم یقین کیوں نہیں کرتے ہو کہ اسلم اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ اسےایسی موت نصیب ہوئی ہےجس کے بارےمیں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ تیل کے کنویں کے لئے ستون کا کام شروع ہوا تھا، اس کی نگرانی اسلم ہی کر رہا تھا۔ ہوا لگتے ہی پتھر کی طرح سخت ہو جانے والا سمینٹ سمندر کی تہہ میں ڈال کر اس تیل کے کنویں کا ستون بنایا جا رہا تھا۔ مشین کے ذریعہ سمینٹ نئی تعمیر ہونے والےستون پر گر رہا تھا، مشینیں اسے مطلوبہ شکل دے رہی تھیں۔ اسلم سمینٹ کے ڈھیر میں سمینٹ کی مقدار کی جانچ کر رہا تھا۔ اس کے لئے وہ جھکا ہوا تھا۔ اچانک اس کا توازن بگڑ گیا اور وہ نیچے اس تعمیر ہونے والے ستون پر جاگرا اور اسی وقت اس پر کئی ٹن سمینٹ آکر گرا جو آن کی آن میں پتھر کی طرح سخت ہو گیا اور اسلم اس سمینٹ میں دفن ہو گیا۔ بڑی مشکل سے اندازہ لگاکر سمینٹ کو اس ممکنہ حصے سے کاٹنے کا کام شروع کیا گیا ہےجہاں اسلم دفن ہے، اسلم کی موت میں کوئی دو رائے نہیں تھی۔

    اس کے گرنے کے بعد دوسرے لمحےہی جس کسی نے اسلم کو سمینٹ میں دفن ہوتے دیکھا اس کی موت کا اعلان کر دیا تھا۔ کسی کو بھی اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ بھلا کچھ لمحوں میں ہی پتھر کی طرح سخت ہو جانے والے سمینٹ کی قبر میں بھی کوئی زندہ رہ سکتا ہے؟

    لیکن وہ تھا کہ مانتا ہی نہیں تھا کہ اسلم اب اس دنیا میں نہیں ہے۔

    بڑی مشکل سے بڑی بڑی مشینوں سے اس حصےکو کاٹ کر نکالا گیا جس میں اسلم دفن تھا۔

    اور اس سمینٹ کے تودے کو توڑ کر اسلم کی لاش نکالنے کا حکم بھی وہ کام کرنے والوں کو دے دیا۔

    اس وقت وہ اس سمینٹ کے ٹکڑے کے سامنے کھڑا اسے گھور رہا تھا اور اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس سمینٹ کے تودے میں اسلم کہاں دفن ہوگا۔

    چار پانچ مزدور ہاتھوں میں سمینٹ میں ڈرل کرنے والی مشینیں لےکر آگے بڑھے تاکہ اس سمینٹ کو توڑ کر اندر سےاسلم کی لاش نکالی جائے۔

    اس منظر کو دیکھ کر وہ کانپ اٹھا۔

    اسے ایسا محسوس ہوا جیسے ڈرل مشینیں اسلم کو سمینٹ کی قبر سے باہر نکالنے کی کوشش میں اس کے جسم کے آرپار گذر کر اسے چھلنی کر رہی ہے۔

    ‘’نہیں‘‘ نہیں! رک جاو۔ اپنے دوست کو میں اس سمینٹ کی قبر کے باہر نکالوں گا۔ ‘’وہ چیخا۔

    سپروائزر نے اس کی بات سن کر آنکھوں ہی آنکھوں میں ان مزدوروں کو اشارہ کیا۔ وہ سب اس اشارے کو سمجھ کر اپنی اپنی مشینیں لےکر پیچھے ہٹ گئے۔

    ‘’جاوید! مجھے تم سے ہمدردی ہے۔‘’ سپروائزر کا شفیق ہاتھ اسے اپنے کاندھے پر محسوس ہوا۔ ”مجھے پتا ہے اسلم تمہیں کتنا چاہتا تھا اور تم اسے کتنا چاہتے تھے، ٹھیک ہے! تم اکیلےہی اپنے طور پر اپنےدوست کی لاش اس سمینٹ کی قبر سے کھود کر باہر نکالو۔’‘

    اور اب اسے اپنے دوست کی لاش اس سمینٹ کی قبر سے کھود کر نکالنی تھی۔

    اس کے ہاتھ میں ڈرل کرکے سمینٹ کو توڑنے والی مشین بھی تھی۔

    لیکن اب تک اپنا کام شروع بھی نہیں کر پایا تھا۔

    وہ اس سمینٹ کے ٹکڑے کے جس حصے پر اپنی مشین رکھتا, اسےمحسوس ہوتا جیسےاس حصے میں اس جگہ اسلم کےجسم کا کوئی حصہ دبا ہے۔ اگر اس جگہ کو اس نےڈرل مشین کے ذریعہ توڑنےکی کوشش کی تو ممکن ہے اسلم کے جسم کے اس حصےکو بھی نقصان پہونچے جو اس جگہ دفن ہے۔

    اور وہ ڈر کر اس جگہ سے اپنی مشین ہٹا لیتا تھا اور ابھی تک اپنا کام بھی شروع نہیں کر پایا تھا۔

    جب بھی وہ مشین سمینٹ کے تودے پر رکھتا اس کے ہاتھ اور ہاتھوں کی مشین کانپنے لگتی، ایسا محسوس ہوتا جیسے سمینٹ کے نیچے دبا اسلم اسے مسکراکر دیکھ رہا ہے۔

    ‘’شروع کرو، جاوید! جیتےجی تو میرے جسم پر ہلکی سی خراش بھی آ جاتی تھی تو تم تڑپ اٹھتےتھے۔ اب شاید میرےمقدر میں میرے جسم کو تمہارے ہاتھوں ہی چھلنی ہونا ہے۔’‘

    وہ گھبرا کر مشین پھینک دیتا اور اپنےدونوں ہاتھوں سےاپنا منہ چھپا کر زار و قطار رونے لگتا۔

    اسلم کے گھر اس کی موت کی خبر دی جا چکی تھی۔ ان سے کہا گیا تھا کہ اسلم کی لاش ایک دو دِن میں روانہ کر دی جائےگی۔

    اور وہ اسلم کےگھر کے ماحول کا تصور کرکے کانپ اٹھ رہا تھا۔

    دو مہینے بعد اسلم واپس اپنےوطن، اپنے گھر جانے والا تھا۔

    اس کے گھر والے اس کے آنے کی امید لگائے ہوئے ہوں گے۔ انھوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس بار اُن کے پاس اسلم نہیں اسلم کی لاش آئےگی۔

    کیا بیتےگی ان کے دل پر اسلم کی لاش دیکھ کر؟

    انھیں ایسا محسوس ہوگا جیسے وہ اسلم کو قبر میں دفن نہیں کریں گے، اپنی ساری خواہشیں، ارمانوں کو قبر میں دفن کریں گے۔

    اس سال اسلم کو کتنے کام کرنےتھے۔

    اپنا گھر بنانا تھا، بڑی بیٹی کی شادی کرنی تھی، چھوٹی بیٹی کےلئےکوئی اچھا سا لڑکا ڈھونڈنا تھا، لڑکے کو کسی اچھےتعلیمی ادارےمیں اعلیٰ تعلیم کے لئےداخل کرنا تھا۔

    بیمار ماں کا علاج کرنا تھا، اپاہج بھائی کےبچوں کو روزی، روٹی کےلئےایک دوکان ڈال کر دینی تھی۔

    ہر بار جاوید دو سال تک اس سمندر کے درمیان رہ کر، سمندر کی مرطوب ہوا میں اپنے خون کا پسینہ بناکر، بہا کر جو پیسے جمع کرتا اور ان جمع پیسوں کے سہارے جو خواب سجاتا ہے، ان پیسوں اور خوابوں کو لےکر جب وطن جاتا ہے تو سارے خواب ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں اور سارے پیسےختم ہو جاتےہیں، کسی بھی خواب کی تعبیر حاصل نہیں کر پاتا ہے۔

    کیونکہ گھر جانے کے بعد وہاں پر دوسرے ہی کئی انجانے مسائل اژدھےکی طرح منہ پھاڑے کھڑے ہوتےہیں، وہ جیسےہی وہاں پہونچتا، وہ اس کی طرف لپکتے ہیں اور سارا پیسہ نگل جاتے ہیں، خواب حسرت سے انھیں دیکھتےرہ جاتے ہیں، اپنےخوابوں کو تسلی دیتا کہ انشاءاللہ آئندہ سال ان کی تعبیر ضرور کرےگا۔ گذشتہ دس سالوں سے یہی ہو رہا تھا۔

    وہ دس سال قبل وہاں آیا تھا۔ بلڈنگوں کو تعمیر کرکے ان پر پلاسٹر لگانے کا کام کرتا تھا۔

    ایک دن کمپنی نے اسےکچھ دنوں کے لئے سمندرمیں تعمیر ہونے والے تیل کے کنووں کی تعمیر کےکام کے لئے بھیج دیا۔

    یہ کام بلڈنگوں کی تعمیر سے زیادہ خطرناک تھا۔

    لوگ اس کام میں ہاتھ ڈالنے سے ہی گھبراتے تھے۔

    لیکن تین چار دِن وہاں کام کرنے کے بعد اسلم کو محسوس ہوا، وہاں کام کرنےمیں خطرہ ضرور ہے لیکن آدمی چوکنا رہے تو یہ خطروں بھرا کام بھی آسان ہو سکتا ہے۔

    وہاں جس سپروائزر کے ماتحت وہ کام کر رہا تھا وہ بھی اس کےکام سے متاثر ہوا اور اس نےخود پیش کش کی۔

    ‘’اسلم اگر تم چاہو تو میں تمہارے لئے کام کی سفارش کر سکتا ہوں۔ ان دو تین دنوں میں تم اچھی طرح سمجھ چکے ہوگے، یہاں کیا کام ہوتا ہےاور وہ تم کر سکتے ہو یا نہیں، اگر تم چاہو تو یہاں کام کرکے تم دوگنا پیسہ کما سکتے ہو اور یہاں پر تمہیں سہولیات بھی بہت سی ملیں گی۔’‘

    وہ وہاں کام کرنے کے لئے راضی ہو گیا۔

    اسے تیل کے کنووں میں کام کرنے پر معمور کر دیا گیا۔

    سمندر کی گہرائی سےبڑے بڑے ستون باندھ کر سطح سمندر کے اوپر تک لائے جاتے تھے، اس پر ایک بڑا سا پلیٹ فارم تیار کیا جاتا تھا اور اسی پلیٹ فارم پر ساری دنیا ہوتی تھی۔

    سمندر سے تیل نکالنے کی بڑی بڑی مشینیں، تیل صاف کرنے کی مشینیں اور اس کے لئے وہاں کام کرنے والے سیکڑوں، ہزاروں افرادوں کے کوارٹرس کام دن رات چلتا رہتا تھا۔

    کام کرنے والے دو شفٹوں میں کام کرتے تھے، کبھی دِن کی شفٹ میں تو کبھی رات کی شفٹ میں۔ کام ختم ہونےکےبعد ان کے پاس اپنےکوارٹروں میں جاکر سونے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ وہ دِل بہلانے کے لئے کہیں جا نہیں سکتے تھے، چاروں طرف سمندر تھا، زیادہ سےزیادہ وہ آپس میں انڈور گیم کھیل کر، پسندیدہ موسیقی سن کر یا ٹی وی پروگرام دیکھ کر دل بہلا سکتے تھے۔

    ہفتے میں ایک دن انھیں اس تیل کے کنویں سے دُور زمین پر لے جایا جاتا تھا۔ اس طرح وہ ایک دن اس سمندر سے دور گذارتے تھے۔

    اپنے پسند اور ضروریات کی چیزیں خریدتے، اپنےرشتےداروں کو فون کرتے یا خطوط پوسٹ کرتےتھے۔

    اور شام کو واپس تیل کےکنویں پر آ جاتے تھے۔

    جب تیل کا کنواں پوری طرح تعمیر ہو جاتا تھا تو پھر نئے کنویں کی تعمیر کے لئے اُنھیں نئی جگہ جانا پڑتا تھا۔

    تعمیر کا کام برسوں چلتا تھا، کبھی کبھی دو تین سالوں میں بھی اس کی تعمیر کا کام مکمل نہیں ہو پاتا تھا۔

    نئی جگہ جانے کے بعد بھی انھیں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ کیونکہ ان کے لئے تو ماحول ایک جیسا ہی رہتا تھا۔

    چاروں طرف سمندر اور اس کےدرمیان ایک پلیٹ فارم پر کسی چھوٹے سے جزیرے پر آباد وہ اسے وہاں آئے صرف دو سال ہوئے تھے۔ اسے آتے ہی اسلم کی ماتحتی میں کام کرنا پڑا تھا۔

    دو تین دنوں میں ہی وہ ایک دوسرے سے کافی گھل مل گئے تھے۔ کیونکہ دونوں کا تعلق ایک ہی ریاست اور ایک ہی ضلع سے تھا۔

    ایک ہی مقام کے ہونے کی وجہ سے دلوں میں فطری طور پر انسیت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔ ان دو سالوں میں اسلم نے اپنےگذشتہ دس سالوں کی زندگی کا ایک ایک پل کھول کر رکھ دیا تھا۔

    وہ وہاں غریب الوطنی کی اسلم کی دس سالہ زندگی سے اچھی طرح واقف ہو گیا تھا، وہ اسلم کے گھر، اس کے افراد، کے خاندان والوں سے بھی بالکل اسی طرح واقف ہو گیا تھا جیسے وہ ان کا کبھی ایک جزو رہا ہو۔

    ان دس سالوں میں اسلم ایک معمولی میسن سے ترقی کرکے سپروائزر بن گیا تھا۔

    اب تیل کےکنووں کی تعمیر میں اس کے تجربات کے نیک مشورے بھی شامل ہوتے تھے۔ کمپنی کے اعلیٰ افسران اپنے انجنیئروں کو اسلم کے مشورو ں پر غور کرنےکی ہدایت دیتے تھے۔

    وہ ان پڑھ اور جاہل آدمی تھا۔ لیکن گذشتہ دس سالوں میں سمندر میں تیل کے کنووں کی تعمیر کے سلسلے میں اتنا تجربہ حاصل ہو گیا تھا کہ وہ خود کسی بڑے سے بڑے انجنیئر سے بڑھ کر پلان بنا سکتا تھا۔

    وہ وہاں پر ایک معمولی ویلڈر کے طور پر آیا تھا۔ تیل کے تعمیر ہونے والے کنووں پر لوہے کو کاٹنے اور جوڑنے کا ہی زیادہ کام ہوتا تھا لیکن اسلم نے اسے مشورہ دیا تھا۔

    ‘’تم صرف اس کام میں مت لگے رہو، اور بھی دوسرےکام سیکھ لو، یہ تمہارےکام آئیں گے۔’‘

    اور وہ تقریباً سارےکام سیکھ گیا تھا، سچ مچ وہ کام اس کے لئے بڑے مفید ثابت ہوئے تھے۔

    اسے ہر کام آتا ہے، آفیسروں کو جو اس کا پتہ چلا تھا تو اس کے لئے ان کے دل میں اس کی عزت بھی بڑھ گئی تھی۔

    اسلم ہر دو سال میں ایک بار دو مہینے کے لئے اپنے گھر جاتا تھا۔

    اور ہر سال وہ کوئی نہ کوئی بڑا کام کرکے آتا تھا، بڑا کام اور کیا ہو سکتا تھا، گھر کی تعمیر، کسی کھیت کا سودا یا پھر شادی بیاہ۔ پہلےدو سال میں اس نے اپنے بہن بھائیوں کی شادیاں کیں، اس کے بعد رشتہ داروں کی اور اس بار اسے اپنی بیٹی کی شادی کرنی تھی۔

    اسلم گھر جانے کی تیاریاں کررہا تھا۔

    ‘’جاوید مجھےبہت دکھ ہوتا ہے کہ اس بار جب میں وطن جاکر واپس آجاوں گا تب تم وطن جاوگے، میری دِلی تمنا تھی کہ اس بار ہم ساتھ وطن جاتےتو تمہیں آٹھ دس دِن اپنےگھر میں رکھتا۔’‘

    ‘’اسلم بھائی! آپ اپنا دِل چھوٹا کیوں کر رہےہیں؟ اطمینان رکھئے۔ وطن واپس جانے کے بعد میں آپ کےگھر ضرور جاوں گا۔ ‘’لیکن پھر بھی اسلم کو اطمینان نہیں ہو پاتا تھا۔

    اس کا ارمان تھا کہ وہ اس کی بیٹی کی شادی میں شریک ہو۔ اس کے گھر میں اس کی بیٹی کی شادی کی تیاریاں چل رہی ہوگی۔ اس کے استقبال کی تیاریاں ہو رہی ہوں گی۔

    اور وہ ایک خواب کی طرح بکھر کر سمینٹ کے نیچےدفن ہو گیا تھا۔ اسے اسلم کو سمینٹ کے نیچے سے نکالنا تھا۔

    تاکہ اس کی لاش اس کے لواحقین کو وطن روانہ کی جا سکے اور وہ اس کی تدفین کر سکے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے