Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چوراہا

انور سجاد

چوراہا

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    یہ دو سڑکیں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی آگے بڑھ گئی ہیں اور میں۔

    اس نے بس سٹینڈ کے جنگلے سے اپنی کہنیاں ہٹائیں اور فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور میں، اچھا تو جس جگہ پر یہ سڑکیں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی آگے بڑھ گئی ہیں ان سڑکوں کی دونوں طرف گڑھے ہیں اور یہ بیچارے فٹ پاتھ زمین کے چہرے پر اداس لکیریں سی۔ یہ بس کب آئےگی۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔ میں سنیما سے تانگہ پکڑ لیتا تو اچھا تھا۔ بس سٹینڈ تو ویران پڑا ہے۔

    اس نے سرگھماکر دیکھا۔

    یہ ابھی کون گزرا تھا؟

    اس کی آنکھوں میں روشن سایہ لپکا،

    لاحول ولاقوۃ۔ یہ تو میری سیاہ پلکوں پر کرن لرزی تھی۔ نہیں۔ یہاں کوئی نہیں اور بس نہیں آئےگی۔ لیکن سنیما کا آخری شو دیکھنے والوں کی سہولت کے لیے رات کے وقت سپیشل بسیں بھی تو چلتی ہیں۔ پر جانے اس روٹ پر سپیشل بس چلتی بھی ہے یا نہیں۔

    اس کی نظریں دونوں سڑکوں پر چلتی ہوئی عین درمیان میں آکے رک گئیں۔ وہاں ٹریفک کے سپاہی کا چبوترہ تھا اور اس کے بالکل اوپر روشنی کا ہالہ،

    یہ ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی چلی گئی ہیں۔ صلیب! یہ صلیب کا وہ حصہ ہے جہاں،

    نہیں نہیں۔

    اس نے فوراً اپنی آنکھیں وہاں سے ہٹالیں۔ اس کی نظریں چھپکلیوں کی طرح آہستہ آہستہ کھمبوں کی روشنی میں رینگنے لگیں،

    کوئی نہیں، کچھ نہیں، مجھے بھوک لگ رہی ہے،

    اور تاریکی میں ابھرتی اونچائیوں پر چڑھنے لگیں، کھڑکیوں میں اٹک اٹک کر روشن ہوتی نظریں،

    اندر کیا ہو رہا ہے۔ مجھے بھوک لگ رہی۔ لیکن میں تو ابھی ابھی سینما سے اپنا پیٹ بھر کر آیا ہوں۔ ہم کتنے ندیدے ہو جاتے جاتے ہیں بعض وقت۔

    عمارتوں کی چھتوں سے پرے اس نے دیکھا، آسمان بالکل صاف تھا۔ تارے چمک رہے تھے، اتنے چپ، اتنے برہنہ کہ اس کی نگاہیں جھک گئیں،

    آخر میں یہاں کیوں بیٹھا ہوں۔ بھئی مجھے جانا جو ہے۔ کہاں۔ گھر اور کہاں اور ہاں گھر، لیکن میرا گھر ہے کہاں۔

    وہ اپنے سوال سے خود ہی پریشان ہو گیا۔ اس نے چاروں طرف سے جواب ڈھونڈا۔ اس کی نگاہیں فٹ پاتھ سے ذرا ہٹ کر پڑی کنکریوں کی ڈھیروں میں پھنس گئیں۔ کنکریاں برہنہ ستاروں کا عکس تھیں،

    یہ ہر شے مجھے ننگی کیوں نظر آ رہی ہے۔ کیوں نہ آئے، میں لفظ کا صحیح استعمال جو کر رہا ہوں۔ اپنی اصل میں ہر شے ننگی ہوتی ہے اور یہ لفظ ننگا بھی کتنا ننگا ہے۔ اسے ہنسی آ گئی۔۔۔ میں نے لفظ کا کتنا خوبصورت جال بنا ہے۔۔۔ اور پھر فوراً ہی اس کے حلق میں دفن ہو گئی ہنسی، فراٹے بھرتی کاروں سے اسے اندھا کرتی ہوئی نکل گئی تھی۔ بالکل اس جگہ پر، جہاں سپاہی کا چبوترہ تھا۔ کار میں سے کسی نے جلتا ہوا پورا سگریٹ ہی پھینک دیا تھا، دیکھو سگریٹ بھی کیسا عین چبوترے کے اوپر آکے جما ہے جہاں سڑکیں ایک دوسرے کو کاٹتی آگے کو بڑھ گئی ہیں اور یہ صلیب کا وہ حصہ ہے جہاں کہ گردن کندھوں کے درمیان۔ وہ مسکراتا رہ گیا۔

    کہیں گھڑیال نے ایک بجایا۔ ساڑھے بارہ ہوں گے۔ نہیں۔ ایک نہیں۔ ڈیڑھ بجا ہے میری بلا سے۔ میں نے تو وقت کی سرگوشی ہی سنی ہے، جو ماضی کی ہوتی ہے نہ مستقبل کی بس ایک ساکت لمحہ ہوتا ہے جو تنتاتا ہی چلا جاتا ہے۔ حیرت ہے، جو کچھ بھی بجا ہے گھڑیال کم بخت بجاتے ہی چلا جا رہا ہے۔ لمحہ کھنچتا ہی چلاجارہا ہے یا یہ بازگشت ہے کہ جس کا دائرہ کھنچ رہا ہے اور میں اس میں محصور ہو رہا ہوں۔ گرفتار۔ میں اٹھ کر چلا کیوں نہیں جاتا۔ یہ لفظوں اور آوازوں کی سازش ہے۔

    گھرر گھرر گھررررررررر

    بھئی مجھے معلوم ہے کہ ابھی بس نہیں آئےگی۔ شاید یہ اس کا روٹ بھی نہ ہو۔ رررررررر

    یا میں، میرا گھر ہے بھی یا نہیں۔

    پاں، پاں، پانپ۔ اس نے چونک کر دیکھا، پیلی چھت والی سیاہ کار جانے کب سے وہاں کھڑی تھی اور ڈرائیور شاید بے صبر ہو رہا تھا۔

    کبھی تو یہ ٹیکسی والے حرامی باپ کی نہیں سنتے۔

    ’’صاحب ہم کیا کریں۔ مالک کہتا ہے اگر شام تک پچاس روپے نہ دیے تو۔ صاب ایمپٹی پڑجاتی ہے۔۔۔ صاحب ہم مجبور ہیں۔‘‘

    کون مجبور نہیں ہے۔ زمین کے ذرے ذرے سے لے کر آسمان۔۔۔ میں پھر بہکنے لگا ہوں۔ میں اس وقت بالکل مجبور نہیں ہوں۔ میں اس وقت بالکل مجبور نہیں ہوں۔ اگر چاہوں تو یہاں سے جا سکتا ہوں۔ پھر میں اٹھتا کیوں نہیں۔

    ’’صاحب چلےگا؟‘‘

    اور کبھی یہ ٹیکسی والے آپ کو کہیں نہ کہیں چھوڑنے پر بضد ہو جاتے ہیں۔

    ’’صاحب۔‘‘ ٹیکسی والے نے ٹیکسی کی کھڑکی سے پھر کہا۔

    رات بالکل چپ تھی۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ ایک طرف کو ہٹ کر وہاں سے پانچویں کھمبے کے اندھیرے میں دو سائے آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔ اس نے جانے کس خوف سے کانپ کر اپنے گردوپیش کا جائزہ لیا۔ آس پاس آدم نہ آدم زاد۔ اس ٹیکسی ڈرائیور کی نیت تو ٹھیک ہے۔ اس کی شکل تو دیکھو نیچے کو لٹکی ہوئی خوفناک مونچھیں اور آنکھوں میں سرخی۔ قاتلوں کی آنکھوں والی۔ ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے، یہ قاتل ہو اور میں اکیلا ہوں۔ کہیں یہ، کہیں یہ مجھے۔۔۔

    ’’کیوں صاحب؟‘‘

    اس نے فوراً ڈرائیور کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں اور حلق میں زور زور سے دھڑکتے دل کو نگل کر پرے دیکھنے لگا۔

    ’’تووڑو۔‘‘

    ٹیکسی ڈرائیور نے غصے سے گیر لگایا اور ہوا ہو گیا۔ اس نے دور تاریکی میں ڈوبتی کار کی سرخ بتیاں دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا۔

    بھلا اس میں ڈرنے کی کیا بات تھی۔ وہ مجھے قتل کیوں کرتا۔ میری جیب میں اس وقت فقط دو روپے ہیں اگر وہ مجھ سے مانگتا تو میں یہ دو روپے دے دیتا۔ اسے چھیننے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دوروپے دیکھ کر غصے میں آ جاتا اور اسی غصے میں مجھے مار دیتا۔ انسان کا کیا پتا۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میری جیب میں صرف دو روپے دیکھ کر وہ مجھ سے پوچھتا مجھے پیسوں کی ضرورت تو نہیں اور مجھے فی سبیل اللہ کچھ رقم تھمانے کی کوشش کرتا۔ وہ اپنی اس معصوم خیالی پر خود ہی مسکرا دیا، ناممکن۔ انسان اتنا فی سبیل اللہ نہیں ہو سکتا کہ صدیاں کے ارتقا، تہذیب، تمدن، فلسفے، مذہب، سائنس اور ٹیکنالوجی کے باوجود اس کی بنیادیات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، خود غرض، کمینہ اسی طرح ہے۔

    صرف عمل ردعمل کے درمیان کے وقفے یعنی لے ٹینٹ پریڈ میں فرق ضرور پڑا ہے کہ طویل ہو گیا ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ انسانی عقل مصلحت پسندی کو۔۔۔ لعنت بھیجو، میں کس بکھیڑے میں پڑ گیا ہوں۔ ہوگا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم بعض اوقات ایک دوسرے سے یونہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں ٹیکسی ڈرائیور نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ تووڑو۔ لیکن میں خوفزدہ نہیں ہوں۔ اگر ہوتا تو اس وقت یوں ساری دنیا میں تنہا یہاں نہ بیٹھا ہوتا۔

    سڑک کے کنارے ایک کتا کسی گہری سوچ میں ڈوبا خراماں خراماں اس کی طرف چلا آ رہا تھا۔ اس نے فٹ پاتھ کے کنارے سے ایک پتھر چن کر اٹھایا اور پوری قوت سے کتے کی طرف پھینکا۔ پتھر، سڑک کے کنارے سے ٹکراکر دوسری سمت کواڑ گیا اور ساتھ ہی اس کی نظریں بھی، اچھا تو یہاں یہ کنکریاں پتھر اس لیے پڑے ہیں کہ ایک نئی۔۔۔ نہیں، یہ ضروری تو نہیں کہ نئی سڑک بن رہی ہو اور پھر یہاں جگہ کہاں ہے۔ سڑک کی تاریکی میں اور کوئی راستہ نظر تو آتا نہیں۔ شاید یہ سامنے عمارتوں کے درمیان خلا ہے شاید، نہیں۔ کچھ نظر نہیں آتا۔

    اگرچہ کتے کو پتھر نہیں لگاپھر بھی وہ دم دباکر چیختا چلاتا ہوا بھاگ گیا تھا۔ وہ مسکرایا، ہنہ سالا، یونہی چیخ رہا ہے۔ یہ بھی مدافعت کا طریقہ ہے۔ اس نے اپنی جیب سے سگریٹ کی ڈبیا نکال لی۔۔۔ یا اپنے ساتھیوں کو پکار رہا ہے۔ ہی ہی ہی، یہ میری اپنی جیب سے سگریٹ کی ڈبیا نکال لی۔۔۔ یا اپنے ساتھیوں کو پکار رہا ہے۔ ہی ہی ہی، یہ میری اپنی ہنسی کی آواز ہے جو کتے کی چیخوں سے ابھری ہے۔ آواز سے آواز نکلی ہے۔ اگر ٹیکسی والے کے جانے کے بعد یہ آواز نہ نکلتی تو گھڑیال کی بازگشت کبھی مجھے اپنے دائرے سے، حلقے سے، لیکن، لیکن بازگشت کا حلقہ تو میرے گرد اور بھی تنگ ہو گیا ہے۔

    حلقے کی سامنے کی دیوار ساکت ہے اور پچھلی دیوار میری پشت کے ساتھ لگ کر اس جگہ کی طرف دھکیل رہی ہے۔ جہاں، جہاں۔۔۔ اس نے اپنی جیبوں میں ماچس ڈھونڈی اور پھر مایوسی میں سگریٹ کی ڈبیا جیب میں ڈالتے ہوئے سپاہی کے چبوترے کی طرف دیکھا، سگریٹ ابھی سلگ رہا ہے۔ نہیں نہیں۔ میں اس سگریٹ سے اپنا سگریٹ کبھی نہیں سلگاؤں گا۔ اوخدایا، میں اب اس طرح نہیں دیکھوں گا۔ میں اس جگہ کے کس قدر قریب آ گیا ہوں جہاں سر ایک طرف کو یوں لٹک جاتا ہے جیسے۔۔۔ افوہ میں یہاں سے اٹھ کیوں نہیں جاتا۔ لیکن یہاں سے کیوں جاؤں میں۔ یہ میرا شہر ہے، یہ میرا گھر ہے، نہیں۔ گھر نہیں رہائش گاہ،

    ’’گھر‘‘

    یہ لفظ میں نے بلند آواز میں کہا ہے۔ یونہی۔ اچھا لگتا ہے مجھے یہ لفظ اپنی زبان سے ادا کرتے ہوئے۔ یہ میرے غم کی آواز ہے، یہ لفظ۔ اس لفظ کی ادائیگی میرا دکھ ہے۔ میں احمق بچہ ہوں۔ میں نے اپنے ٹوٹے ہوئے کھلونے سے اپنا دکھ وابستہ کیا ہے اور اب یہ گھر، ثقیل لفظوں میں کتنی آسانی سے انتقال کر گیا ہے۔۔۔ رہائش گاہ،

    میرا شہر

    نہیں میں اس طرح نہیں دیکھوں گا۔

    میرا شہر میں ہوں اور میرے پیچھے سادہ کپڑوں میں خفیہ پولیس ہے جو انچ انچ پر میری بولے رہی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں میں رو بھی نہیں سکتا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہیں وہ میرے ماتھے پر لیبل چسپاں نہ کریں۔ شین۔ ہ اور رے، ان تین کانٹوں کا تاج میں نے سر پر رکھنے کے بجائے اپنی بغل میں چھپا رکھا ہے جسے برآمد کرنے کے لیے وہ شلواروں میں چوہے چھوڑ کر پائینچے باندھ دیتے ہیں اور پلاس سے ناخن کھینچتے ہیں اور سینے پر برف کی سل رکھ کر اوپر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اوہ، افوہ، مجھے سانس، کیوں نہیں آ رہا۔ نیون روشنیاں جگمگاتی ہیں۔ تاریک چوکھٹوں میں فریم شدہ رانوں کے درمیان دم توڑدیتی ہیں۔ شام آئی، رات آئی رات آئی اور بھنگی چرسی افیمی شرابی کاکروچوں کی طرح اندھیروں میں نکلتے ہیں اور روشنی میں آتے ہی گم ہو جاتے ہیں۔ لوگ، اتنے سارے لوگ، سب کے سب اپنے اپنے ہونٹ چوستے ہوئے رونے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام ہوکر تنہا سرد بستروں میں جاکر اپنی دل پسند ایکٹریسوں کے ہیولوں سے اپنے جسم گرم کرتے ہیں۔

    او خدایا، میرے خدا، یہ تین کانٹوں کا تاج، میرا شہر، شین۔ ہ۔ رے اور میرا دم گھٹ رہا ہے۔

    میری آنکھوں کے سامنے یہ تاج نوجوان چہرے کی ہڈیوں میں پگھل گیا ہے۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے، گالوں پر فٹ پاتھ، لکیریں اور منہ میں بھوکی چپ کا پتھر، اگر میں نے منہ سے کوئی لفظ نکالا تو یہ پتھر ہر سر کو پھوڑ دےگا۔ لیکن میں سقراط نہیں ہوں اور میرا دل اس وقت تک صاف خون پمپ نہیں کرےگا، جب تک میرے سیلز مین مجھے سڑکوں پر، چوراہوں میں نیلام کرنا نہیں چھوڑتے۔ حرامیوں نے مجھے بواسیر کر دی ہے۔

    لاحول ولا، اتنی لمبی سوچ۔ یوں اپنے آپ سے باتیں کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ اگر سوچ کے لفظ آواز میں ڈھل جائیں تو انسان اپنے آپ کوپاگل پاگل سمجھنے لگتا ہے۔ اب میں کچھ نہیں سوچوں گا۔ ہوں، تو وہاں۔۔۔ اونہوں، جب بھی میری آنکھیں سپاہی کے چبوترے پر پہنچتی ہیں تو میرے ذہن کوکون سی نظریں دے دیتی ہیں اور یہ کان میرے خیالوں کی آواز کو گھڑیال کی بازگشت کے دانتوں میں کیوں دے دیتے ہیں۔

    اس نے فٹ پاتھ پر بیٹھے بیٹھے سر کے جھٹکے سے اپنے ہر خیال کو ساتھ والے مین ہول کی طرف پھینک دیا، جاؤ سالو، گٹر میں اور مجھے خوش رہنے دو۔

    اس کا ہاتھ غیرارادی طور پرسگریٹ نکالنے کے لیے پھر جیب میں چلا گیا۔ اس کی آنکھیں پھر اس جگہ کی طرف اٹھ گئیں جہاں۔

    یہ، یہ کک، یہ کیا؟ چبوترے پر سگریٹ ابھی تک سلگ رہا ہے؟ اور، اور یہ سگریٹ کے گرد چہرے کاخاکہ کس نے بنایا ہے۔ ایک طرف کو جھکا ہوا سر، جیسے۔۔۔ یہ خاکہ کیا میری نظریں وہاں بنا رہی ہیں یا پہلے ہی سے۔۔۔ آں ہاں، کسی شرارتی بچے نے سکول سے واپس آتے ہوئے، کلاس روم سے چرائے ہوئے چاک سے دیوار پر گالی نہ لکھی تو ٹریفک کے سپاہی کے چبوترے پر چہرہ بنایا۔ اس کے ہونٹ مسکراہٹ میں پھیل گئے، ہاں۔ تو میں پھر کچھ سوچنا چاہتا ہوں۔ نہیں۔ میں کچھ نہیں سوچوں گا۔ میں نے ابھی تو اپنے آپ کے ساتھ وعدہ کیا ہے۔

    دور وہی دو سائے بجلی کے کھمبے کی تاریک سے نکل کر اب آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ دو ایک بار پہلے بھی اس کی حد نگاہ میں آئے تھے۔ لیکن خدا معلوم اس نے ان پر غور نہیں کیا تھا، بالکل ایسے ہی جیسے آج کی فلم میں ہیروئن نے کپڑے اتارے تھے تو اسے انگیا میں پھنسی چھاتیوں کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آیا تھا۔ اسے ان سایوں کے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی؟ لیکن اس کی تو اس منظر کی بیک گراؤنڈ موسیقی پر بھی توجہ نہیں گئی تھی،

    نہیں، میں کچھ نہیں سوچوں گا، اس نے سوچا، میں سخت بور ہوگیا ہوں۔ یہاں بیٹھے بیٹھے بیزار ہو گیا ہوں۔ میں چاہتا تو نہیں لیکن مجھے ہر رات کی طرح ان ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی سڑکوں ہی میں سے کسی ایک پر چل کر گھر کو تلاش کرنا ہوگا۔ مجھے اب اٹھنا چاہیے۔ لیکن، لیکن یہ وقت کا حلقہ مجھے نکلنے بھی دے۔ مجھے سگریٹ کی سخت طلب ہے۔ میری جیب میں ماچس نہیں۔ اب مجھے چبوترے پر پڑے سگریٹ سے اپنا سگریٹ سلگا لینا چاہیے، ہو سکتا ہے وہ سگریٹ۔۔۔ ابھی تک اس میں چنگاری ہو۔ اوہ، نہیں، یہ یہ یہ چاک سے بنے چہرے کاخاکہ وہاں کیوں روشن ہو گیا۔

    اس نے وہاں سے اپنی نظریں ہٹانا چاہیں پر جیسے وہ روشن خاکے کی روشنی کا حصہ بن چکی تھیں۔ گھڑیال کی بازگشت کے حلقے کی آواز اسے پچھلی دیوار سے اور بھی تیزی سے دھکیلنے لگی۔ اس نے فٹ پاتھ پر پڑا ایک برا سا پتھر اٹھایا، میں اسے کچل دوں گا اس چہرے، اس خاکے کی روشن لکیروں کو ریزہ ریزہ کر دوں گا۔۔۔ اور فٹ پاتھ سے اٹھ کر بڑی تیزی کے ساتھ ٹریفک کے سپاہی کے چبوترے کی طرف بڑھا۔

    چبوترے پر چڑھتے ہی اس کے ہاتھ سے پتھر چھوٹ کے کر چبوترے پر جا پڑا۔ وہ چیخا۔

    ’’روشنی۔‘‘

    روشنی، اتنی روشنی میں اندھا کیوں ہو گیا ہوں۔

    ’’روشنی۔‘‘ اس نے پھر چیخ کر کہا اور اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر دیکھا۔

    ’’روشنی۔‘‘ اس نے اپنے جڑے ہاتھوں کے کشکول کو آسمان کے رخ بلند کر دیا۔

    تم نے مجھے سے سب کچھ چھین لیا۔ کیوں؟ کیوں چھین لیا؟ کہ میں بستر میں سکون کا ایک سانس بھی نہیں لے سکتا۔ اب میں بینائی کو کھوکر کھردری سڑکوں کی اس صلیب پر۔۔۔ ایک طرف کو جھکے سر کو ٹٹول رہا ہوں۔ میرے دماغ، میرے دل، میرے ہاتھوں کو دیکھو۔ مجھے اپنا ہاتھ دے دو اور مجھے میرے گھر لے جاؤ۔ محفوظ جگہ لے جاؤ۔ میرے سر پر تین کانٹوں کا تاج ہے۔ میرا شہر۔ میں بہت تھک گیاہوں۔ تنگ آ گیا ہوں۔

    اس کی نظریں آسمان میں گڑی تھیں۔ اس کے چہرے پر کرب تھا،

    مجھے اپنا ہاتھ پکڑاؤ۔ میرا ہاتھ تھام لو۔۔۔ نہیں؟ اچھا!

    اس کا چہرہ یک لخت درشت ہو گیا اور اس نے اپنے ہاتھ گرا دیے،

    نہیں، تو نہ سہی۔

    اس نے بڑے غصے میں اپنے ہاتھوں کو دیکھا،

    تم اوپر کیوں اٹھتے تھے۔ کیوں؟ کیوں؟ تمہیں یوں خالی واپس آنے کا کوئی حق نہیں۔

    اس نے چبوترے پر پڑا پتھر اٹھایا اور دوسرے ہاتھ کو چبوترے پر رکھ کر زور زور سے پتھر مارنے لگا۔

    میں اب کیل ٹھوک کر تمہیں یہاں لٹکا دوں گا، غدار۔۔۔

    اس کے کندھے پرکسی نے ہاتھ رکھا۔

    ’’اوئے باؤ۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘

    اس نے سر اٹھاکر خالی آنکھوں سے دیکھا، وہی دو آدمی کھڑے تھے جو کچھ دیر پہلے کھمبے کے اندھیرے میں سائے تھے۔

    ’’سن مسٹر۔ یہ چوک ہے چوک۔‘‘

    یہ چوراہا ہے۔ صلیب نہیں؟

    ’’اور پہلے تو تم نے اس چبوترے پر چڑھ کر دونوں ہاتھ اٹھاکر یہ بتی اتارنے کی کوشش کی۔۔۔‘‘

    ’’جی۔۔۔ یہ، اوپر والی بتی؟ سیڑھی کے بغیر تو وہاں ہاتھ نہیں پہنچ سکتا اور پھر میں نے کرنٹ کھانا تھا۔‘‘ اس نے حیرانی سے کہا۔

    ’’پھر تم یہ چبوترہ توڑنے لگے۔‘‘

    ’’چبوترہ؟‘‘

    تو یہ وہ جگہ نہیں جہاں لکڑی کا ایک تختہ دوسرے کو افقی انداز میں نوے درجے کے زاویے پر کاٹتا ہوا صلیب، نہیں، چوراہا بناتا ہے؟

    ’’کون ہو، باؤ؟‘‘

    ’’میں۔۔۔‘‘ اس کی سمجھ میں نہ آیا، وہ دونوں کیا کہہ رہے ہیں۔

    ’’شرابی معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    ’’بوتو نہیں آرہی۔‘‘ دوسرے نے اس کا منہ سونگھا۔

    ’’بوکا آنا ضروری نہیں ہوتا۔‘‘ پہلے نے اس کے ساتھی کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے ٹہوکا دیا اور وہ فوراً سمجھ گیا۔

    ’’ہاں ہاں۔ بالکل۔ ایک دم شرابی۔ چلو باؤ ذرا ہمارے ساتھ تھانے تک۔‘‘

    اب اسے ان دونوں کی وردی نظر آئی۔

    ’’سنتری جی میں۔۔۔ میں شریف شہری ہوں۔ میں۔‘‘

    ’’شریف شہری رات کے پونے دو بجے شراب پی کر سڑک پر ٹکریں نہیں مارتے غل غپاڑہ نہیں کرتے۔‘‘

    ’’چلتے ہو تھانے یا۔۔۔‘‘

    ’’مگر جناب۔۔۔ سر۔۔۔ حضور والا۔‘‘

    ’’اوئے ہم نے ابھی ابھی خود تمہیں دیکھا ہے۔ پہلے تم فٹ پاتھ پر بیٹھے تھے پھر ڈولتے ہوئے اٹھے اور اس چبوترے۔۔۔‘‘

    ’’خدا رسول کی قسم میں پئے ہوئے نہیں۔‘‘

    ’’اوئے شرابی زبان سے خدا رسول کا نام نہ لے۔‘‘

    ’’یہ یہ دیکھو۔ میں تو سینما دیکھ کر آ رہا ہوں۔ یہ۔ یہ رہا ٹکٹ۔‘‘

    اس نے جیبوں میں ٹکٹ تلاش کرنا چاہا۔ وہ دونوں ہنسے۔

    ’’ٹکٹ ہو تو نکلے باؤ۔‘‘

    ’’میں، میں سینما۔ وہ انگریزی فلم۔۔۔ وہ جس میں ہیروئن کپڑے اتارتی ہے۔‘‘

    دیکھا! مجھے یقین ہے اس نے چڑھا رکھی ہے۔‘‘

    ’’قسم۔۔۔ سچ سنتری جی میں۔‘‘

    ’’کہاں رہتے ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’سوچنے کیا لگ گئے ہو۔۔۔ تمہارے گھر کا پوچھ رہے ہیں۔‘‘

    ’’گھر؟ گھر! میرا گھر یہیں ہے۔ یہیں کہیں۔‘‘

    وہ دونوں بےطرح ہنسے۔ بہت ہی۔ پولیسیانہ ہنسی۔

    ’’تو تم اس وقت اپنے گھر میں کیوں نہیں۔‘‘

    ’’میری مرضی۔ نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ گھر میں۔۔۔ گھر میں سب کی آپس میں لڑائی ہے۔ میرا وہاں دم گھٹتا ہے۔ وہ مجھے پاگل سمجھتے ہیں اور جب وہ لڑ جھگڑ کر تھک کے سو جاتے ہیں تو میں۔۔۔‘‘

    ’’چلو جی۔ بکتا ہے ماں کا یار۔‘‘ ایک نے اسے بازو سے پکڑ لیا۔

    غصہ اس کے کانوں میں سنسنا گیا،

    اسے، انہیں گالی دینے کا کوئی حق نہیں۔ میں، میں انہیں۔

    لیکن وہ غصے میں اپنا بازو ایک جھٹکے سے اس کی گرفت سے چھڑانے کے علاوہ اور کچھ نہ کرسکا۔ مبادا بات کہیں بڑھ جائے۔

    ’’باؤ کام کیا کرتے ہو؟‘‘ دوسرا ذرا نرم ہو گیا۔

    ’’کام کی تلاش۔ تم سمجھوگے نہیں۔‘‘

    ’’ہم سب سمجھتے ہیں۔‘‘

    ’’بالکل بالکل۔ آپ لوگ تو سب سمجھتے ہیں۔ لیکن اس وقت میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں اپنے گھر کیسے پہنچوں۔ جب میں کسی بھی راستے سے گھر جانے کی کوشش کرتا ہوں تو ہر پھر کے اس رہائش گاہ میں پہنچ جاتا ہوں جہاں۔۔۔‘‘

    ’’اچھا چلو۔‘‘ ایک سپاہی نے دورے کو انگلی گھماکر اشارہ کیا کہ اس کے سر میں پیچ ہے۔ ’’چھوڑ اس بک بک کو۔ بتاؤ تمہاری جیب میں کیا ہے۔‘‘

    دونوں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ اس نے چپ چاپ آہستہ آہستہ تمام جیبیں الٹادیں۔ جیسے انہیں رضاکارانہ طور پر تلاشی دے رہا ہے۔ آخری جیب سے سگریٹ کا نصف پیکٹ نکال کر دوسرے ہاتھ میں تھام لیا پھر جیب الٹاتے ہوئے دو روپے نکال کر ان کے حوالے کر دیے۔ ان میں سے ایک نے پیروں کو دیکھا کہ بوٹ جرابیں پہنی ہوں تو ان کی بھی تلاشی ہو جائے لیکن اس کے پیر قینچی چپلوں میں ننگے تھے۔ دوسرے نے اس کے ہاتھ سے سگریٹ کا پیکٹ بھی لے لیا۔ تب وہ دونوں مطمئن مسکراتے ہوئے مزید کچھ کہے بغیر چلے گئے۔

    اس نے انہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا، ان میں سے ایک کے ہاتھ میں اس کے آخری دو روپے تھے اور دوسرے کے ہاتھ میں اس کے آخری سگریٹ۔ اب وہ بالکل خالی جیب خالی ہاتھ رہ گیا ہے۔

    خالی ہاتھوں کا خیال آتے ہی اسے اپنا ایک ہاتھ گیلا سا محسوس ہوا۔ اس نے اپنا ہاتھ دیکھا، خون رس رہا تھا۔ جانے کیوں اس نے خون کو سونگھا پھر چکھا،

    خون میں بو تو ہوتی نہیں البتہ ذائقہ برا نہیں۔ اس نے اپنے سر کو جھٹکایا، مجھے کیا ہو گیا تھا؟ کیا ہو جاتا ہے؟ ہوں؟ وہ، وہ گھڑیال، گھڑیال کی بازگشت کہاں گئی؟ دورہ تھا؟ ہذیان تھا؟ گھر والے شاید ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ میں کچھ کچھ پاگل ہوتا جا رہا ہوں۔ خواہ مخواہ ڈر کے پیسے اور سگریٹ ان کے حوالے کر دیے۔

    وہ یک دم تھک ٹوٹ کر اتنا نڈھال ہو گیا تھا کہ اسے فوراً سگریٹ کی طلب ہوئی۔ اس کی نگاہیں غیرارادی طور سے اس کی ٹانگ کے ساتھ لگے چبوترے پر آ گئیں۔

    چوراہے کے عین وسط میں جلتی پیلی ٹریفک لائٹ کے نیچے چبوترے پر وہ ادھ جلاسگریٹ اب بجھ گیا تھا جسے کسی نے جاتی کار سے پھینکا تھا۔ وہ تھکاوٹ میں نڈھال اس سگریٹ کو اٹھانے کے لیے اتنا جھک گیا کہ جھکتا ہی چلا گیا۔

    ’’اب سجدہ کر رہے ہو بادشاہو۔‘‘

    دور سے ان دونوں میں سے ایک نے آواز کسا۔

    وہ سگریٹ اٹھاکے مسکرا دیا۔

    اس نے ادھ جلے سگریٹ کو کان پر ٹکا کے زخمی ہاتھ کو میلے کچیلے رومال میں لپیٹا اور اس طرف دیکھا جہاں ملگجا سا اندھیرا تھا۔ جہاں ابھی چند لمحے پہلے اس کا خیال تھا کہ یہ کنکریاں، روڑی اس لیے پڑی ہے کہ نئی سڑک تعمیر ہوگی،

    رات تو اپنی ہے ہی، چلو، یہ راستہ دریافت کریں، شاید گھر تک۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے