Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چھوٹا

MORE BYالطاف فاطمہ

    کہانی کی کہانی

    یہ کہانی بچہ مزدور کی شکل میں ہوٹلوں اور ڈھابوں میں کام کرنے والے بچوں کے استحصال کی روداد بیان کرتی ہے۔ کبھی بازار سے ملحق وہ علاقہ ایک دم سنسان تھا۔ پھر وہاں آکر کچھ لوگ رہنے لگے، جن میں کئی چھوٹے بچے بھی تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ علاقہ کافی پھل پھول گیا اور وہاں بستی کے ساتھ کئی طرح کے ہوٹل بھی ابھر آئے۔ انہیں ہوٹلوں میں سے ایک میں 'چھوٹا' بھی کام کرتا تھا۔ جو کام کے ساتھ ساتھ مالک کی گالیاں، جھڑکیاں اور مار بھی برداشت کرتا تھا۔

    پرانے مصروف اور پرہجوم بازار کے اس جانب طویل و عریض قطعۂ زمین، بازار کے رواں دواں پرشور، قدیم اورجدید ٹریفک کی ہاؤہو کے باوجود ویران اور بےآباد پڑا دشت تنہائی کا تاثر دیتا تھا کہ اس کا کبھی کا کملاتا سبزہ برسوں سے خشک بلکہ گیاہ خشک تر کا تاثر دینے لگا تھا اور کسی زمانے میں خودرو پودے درختوں کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ ان کے وہ نرم گرم سائے بھی پانی کی کمیابی اور سیرابی سے محرومی کے سبب معدوم تھے۔

    پھریوں ہوا کہ ویرانی اور افسردگی کی طویل مدت نے جیسے انگڑائی سی لی ہو۔ گویا ایک بار پھر قطعۂ زمین کو اپنا آپ ہونے کا احساس ہوا ہو اور اپنے موجود ہونے پر اصرار کر رہا ہو۔ البتہ اپنے ارادے اور احساس کے اثبات کے لیے اسے افرادی قوت درکار تھی۔ سووہ ایک مضبوط قد کاٹھ والے درشت اور تندخو شکل والے آدمی اور اس کے ہم راہ کچھ نوعمر لڑکوں کی شکل میں مل گئی۔

    اور پھر یوں ہواکہ سخت چہرے اور کڑے تیوروں والے نگران کے اردگرد چند نوخیز و نوعمر پھول سے کھلتے ہوئے مسکراتے چہروں والے اپنے کچھ بھی کرڈالنے والے حوصلوں پر بےخبری میں نازاں وہ لڑکے، اس کی ہر آواز پر لبیک کہتے ہوئے، اس کے درشت آوازوں میں دئیے ہوئے احکامات کی تعمیل میں دوڑتے بھاگتے ایسے پھر رہے تھے، جیسے اس میدان کی صفائی کا یہ کام مشقت نہیں، بلکہ کھیل کا میدان ہو اور وہ شخص تھا ہر گھڑی دوگھڑی کے بعد کرخت آواز میں کسی ٹارگٹ کی طرف اشارہ کرکے آواز لگاتا، ’’اوئے چھوٹے۔ یہ اِس پاسے (اس طرف) ویکھ۔‘‘ اور وہ سارے کے سارے چھوٹے، پھولوں کا رس پی کر شہد بنانے والی مکھیوں کی طرح اِس پاسے (سمت) ٹوٹ پڑے کہ وہ ان سب کو اجتماعی طور پر ایک ہی نام سے پکارتا، ’’چھوٹے اوئے چھوٹے۔‘‘ کہ وہ مرد نادان نہیں جانتا تھا کہ ’’چھوٹا‘‘ کیا چیز ہے اور کس قوت کا نام ہے کہ چھوٹا اپنے آپ سے بےنیاز ہے۔ وہ اردگرد سے باخبر ہوکر بھی بیگانہ سا رہتا اور کچھ کرتے رہنا چاہتا ہے، جیسے کوئی ان کے کانوں میں سرگوشیاں کرتا رہتا ہے، کن کن اور پھر فیکون تو خودبخود ہی ہو جاتا ہے۔

    کومل سے نرم نرم، سیاہ سانولے صاف رنگتوں کے گندے، میلے چہروں، شب چراغوں کی سی دمکتی آنکھوں والے چھوٹے، اس پورے قطعہ زمین پر نادیدہ قوتوں کی طرف چھائے اور ایسی ناقابل یقین مستعدی اورسلیقے سے دوڑے بھاگے پھرے، جیسے بہت بڑے ہوں، بہت اونچے ہوں۔ کوہ گراں، پہاڑوں کی چوٹیوں سے بھی اوپر اوپر کو جانے والے۔

    میدان سے ویرانی اور اداسی رخصت ہونے لگی، چار سو اڑتے ہوئے غولِ بیابانی جیسے شاخ پر گم ہوئے خشک پتوں نے پہلے خود آگ کھائی اور پھر خود آگ اورآگ سے راکھ بنے۔ وہ خس و خاشاک جو کبھی سبزۂ نورستہ سے گندم گوں سنہرے سے پیلے خس و خاشاک کی صورت نہ جانے کب سے سویا پڑا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے جاگنے لگا بلکہ خواب گراں سے بیداری کے مرحلے میں داخل ہوا۔

    علاقے کی ہاؤہو، ٹریفک کے پرشور اور گاہے گاہے جام ہوجانے والے ہجوم میں کسی کوخبر ہی نہ ہوئی کہ کب اس میدان میں آبادی اور گہماگہمی کا ڈول پڑنے لگا ہے۔ میدان کے عین وسط میں بانسوں اور پھونس سے بنا ہوا ایک چھپر جو طول میں زیادہ اورعرض میں قدرے کم تھا، نمودار ہو گیا ہے اور اس کے تلے کسی عام پھیری والے ترکھان کے ہاتھوں بنی بھدے اور سستے کاٹھ کی کرسیوں کے ساتھ ساتھ تین ٹانگوں پرٹکی ہوئی میزیں لگائی جارہی ہیں، جن کے پٹڑے ذراسی ٹھیس لگنے پر پھیل پڑتے ہیں۔ کیوں؟ کس واسطے؟ کس نے؟ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ سوال کرنے اور جواب لینے کی فرصت کسے ہوتی ہے۔ البتہ جب چھپر کے اس جانب سے بریانی، سیخ کباب اور دہکتے ہوئے انگاروں والی لمبی لمبی دیسی انگیٹھیوں پرنیم برشت کم سوختہ چرغوں، تندورسے نکلتی گرم گرم خمیری روٹیوں کی مہک چارسوپھیلی تو چشم فلک توکب سے دیکھتی رہی، پر آدمی کی نظر نے دیکھا! تو اچھا بھئی یہ تو بھرپور ہوٹل کا ڈول پڑ چکا ہے جس کے ایک سرے پر کاؤنٹر سے مشابہ تھڑے پر گدی جمائے رقم کی صندوقچی سامنے دھرے وہی کرخت چہرے کڑے تیوروں والا شخص بیٹھا پہلے سے بھی زیادہ سخت آواز میں مسلسل احکامات جاری کر رہا ہے اور مجرور وہی ’’چھوٹا۔‘‘ کون سا چھوٹا؟ کتنے چھوٹے یافقط ایک چھوٹا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے کہ چھوٹا۔۔۔ ایک چھوٹا یا کئی چھوٹے، اس کے احکامات کی تعمیل اتنی لپک جھپک اور تیزی سے کر رہے ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کتنے چھوٹے یا فقط ایک سنگل واحد چھوٹا یہ خدمات انجام دے رہا ہے اور مطالبہ کرنے والی آوازوں کی ہمراہی میں مالک کی آوازیں بہت۔ ’’اوئے چھوٹے ہاف سیٹ دودھ پتی، آگے والی نمبر چار ٹیبل۔ چھوٹے! اوئے! ایک پیالہ پائے، دونان، بیچ والی دس نمبر ٹیبل۔ چھوٹے، ٹھنڈا پانی تین گلاس تیجی نمبر ٹیبل پچھلے پاسے۔ بِل پھڑ (بل پکڑ)۔‘‘ چھوٹا لپک جھپک آنکھیں مچ مچ کرتی، ناک سڑپتا، میلی بدرنگ جینز، کف کھلی آستینوں والی قمیص میں ادھر سے ادھر جیسے بجلی کا کوندا ہو کہ لپکتا پھرتا۔ ایک ہاتھ میں سلور کا پانی بھراجگ اور سلور کے لمبے لمبے گلاس، دوسرے میں کچھ اور ایک اور آواز، چھوٹے ایک ڈبی 555۔ روٹی 4 سیخ کباب۔ مالک کی گرجتی آواز، چھوٹے چل سٹوڈنٹوں کی ٹیبل جوڑ، چار سٹوڈنٹ آڈر پھڑ۔ باورچیوں کی جانب سے آوازیں، اوئے چھوٹے، چائے کے سیٹ دھو! چھوٹے، پیالے رکابیاں صاف کر۔ چھوٹا، ہر آرڈرکی تعمیل کے ساتھ رقم لالاکر مالک کو پکڑاتا جا رہا ہے۔ رقم، صندوقچی کے سوراخ سے گزرکر اندرپہنچتی جا رہی ہے۔ صندوقچی کا بھار بڑھتا جا رہا ہے اور جیسے جیسے صندوقچی کا بھار بڑھتا جا رہا ہے، ویسے ویسے مالک کے احکامات اور ہدایتوں کی گھن گرج اور عجلت کا تقاضا بھی بڑھ رہا ہے۔ ’’چھوٹے، اوئے چھوٹے چل چھیتی کر۔ ٹیبل نمبر سولہ دہی۔ ٹیبل نمبر تیس ہاف سیٹ۔ لیڈی سٹوڈنٹوں کی ٹیبل دس، کباب سیخ پانچ۔ چل بھئی شاوا، جلدی فٹافٹ۔‘‘ بدحواسی میں بوکھلائے ہوئے چھوٹے کے ہاتھ سے پائے کے شوربے سے بھرا چینی کا پیالہ پھسلا اور چھن سے ٹوٹ گیاہے۔ شوربہ فرش پر بکھر گیا ہے۔

    چھوٹا پیالے کا ٹوٹا ٹکڑا ہاتھ میں پکڑے کھڑا ہنس رہا ہے۔ جی! جی ہاں، رو نہیں ہنس رہا ہے۔ ہنسے جا رہا ہے کہ جانتا ہے اب نہ چینی کا پیالہ جوڑا جا سکتا ہے نہ بکھرا شوربہ سمیٹا جا سکتا ہے۔ اس کو پتہ ہے کہ مالک گرج دار آواز میں فضیحتہ بھی کرےگا، گوشمالی بھی ہوگی، ساتھ اُجرت میں سے ٹوٹے پیالے کی قیمت بھی منہا کر لی جائےگی، پر برخاستگی نہیں ہوگی۔ ہو بھی نہیں سکتی کہ ہوٹل کا کاروبار تو چھوٹے کے دم خم پر چلتا ہے۔ سو چھوٹا ہنس رہا ہے۔

    چھوٹے کی ہنسی پر خیال آتا ہے۔ ایک چھوٹا تو ہمارے پاس بھی سدا مستعد رہتا ہے کہ اس کو تو دم مارنے کی مہلت بھی نہیں دیتے۔ طلوع آفتاب اورصبح کاذب وصادق سے لے کر غروب آفتاب۔ مرور ایام اور سال ہاسال سے مصروف اور عوام کالانعام کی خواہشات اور متضاد تمناؤں اور آرزوؤں کی تکمیل کے احکامات جاری رہتے ہیں۔ ’’ہماری جنگ میں فتح دو!‘‘ ’’ہمارا ویزا لگواؤ جلدی۔‘‘ ’’چھوٹے میرا گرین کارڈ بنواؤ فوری۔‘‘ ’’چھوٹے میراایمی گریشن۔۔۔‘‘ چھوٹا سن رہا ہے، کر رہا ہے۔ ’’اور یہ میچ ہر حال میں جتوانا ہے۔‘‘ ’’دیکھو چھوٹے ہم تو ڈیم بننے نہیں دیں گے، کوئی Consensus نہیں ہوگی۔ مگر یہ تمہارا کام ہے کہ ہماری کھیتیاں لہلہاتی رہیں۔ جنگل ہرے بھرے رہیں۔ ہمیں پتہ نہیں کیسے مگر پانی کی بہم رسانی جاری رہنا ضرور ہے۔‘‘ اورجب متضاد احکامات جاری ہونے لگیں۔ ’’چھوٹے الیکشن فوری ہونا ہیں۔‘‘ ایک حکم، اس کے ساتھ ہی دوسرا حکم نامہ جاری ہوتا ہے۔ ’’الیکشن روک دو۔‘‘ اتنی گراں بار، اتنی کنفیوزنگ ہدایات۔ اب چھوٹانہ ہوا، لاچابیگ ہوا (ایک بالشت بھرقامت وجسامت والا کردار جو بہ یک وقت سارے کام انجام دینے کا اہل بیان کیا جاتا ہے)۔ پر لاچابیگ تو اپنی خدمات کاصلہ بھی بھنے ہوئے منوں گوشت کی دیگوں اور اسی حساب سے روٹیوں کی شکل میں کھاکر وصول کر لیا کرتا تھا اور ایک یہ ہمارا چھوٹا ہے، ہم سے کچھ بھی تو نہیں مانگتا۔ کہے جاتا اور دئیے جاتا ہے اور ہم ہیں کہ اتنا کچھ لے کر، چاہے صندوقچی کا بھار کتنا ہی کیوں نہ بھرجائے، جی نہیں بھرتا۔ ذرا بات بگڑی اور ہمارامزاج برہم ہو جاتا ہے۔

    ارے ہاں ایک بات اوریاد آئی۔ ہمارے بچپن کے زمانے میں کبھی کبھی ایک خاتون آیا کرتی تھیں، بادی النظر میں تو اس کو فاترالعقل ہی کہا جا سکتا ہے۔ باقی اندرخانے وہ کیا تھی؟ اور کیسی تھی، یہ تووہی جانے یا پھر وہی چھوٹا جانے۔ دیکھنے میں تو ویسی ہی نظر آتی تھی جیسے بھیک مانگنے والیاں ہوتی ہیں کہ اس خاتون نے ایک سلور کا پیالہ بھی پکڑا ہوتا تھا جو دب دباکر کشکول کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ پرحلیہ اس کا عجب تھا کہ پنڈلیوں سے کافی اونچا تنگ پاجامہ، بالکل اسی انداز کا جیسا آج کل فیشن ایبل یونیورسٹی کی دانش گاہوں میں لڑکیاں زیب تن کیے گھومتی پھرتیں، اپنے کندھے کے ساتھ ایک جھولا لٹکائے نظر آتی ہیں۔ گلے میں ایک مردانی طرز کی قمیص کہ کف اس کے کھلے رہتے۔ دوپٹے سے البتہ بےنیاز اور بال ان کے بوائے کٹ سے بھی کچھ اوپر ہی اوپر ہوا کرتے تھے۔ آنکھیں ان کی اچھی بھلی تھیں، پرمچ مچ کرتی رہتی تھیں۔ لبوں پر ان کے ایک سدا بہار تبسم رہتا تھا، جیسے کسی پر طنزیہ مسکراتی ہوں۔

    رہا ان کا کشکول تو اس میں کبھی پیسے تو نظر آئے۔ وہ مانگتی ہی نہ تھیں تو پیسے کہاں نظر آتے۔ البتہ وہ ان کے کھانے پینے کے استعمال میں رہتا تھا۔ پیسے اگر کوئی اس کے کشکول میں ڈال دیتا تو باہر نکلتے ہی وہ گلی میں کھیلتے بچوں کو تقسیم کر دیتیں۔ ان کے تعارف کے بعد یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ سبب اس مذکور کو کیا تھا۔ وہ یہ کہ موصوفہ کا کہنا تھا کہ وہ چھوٹے سے روبرو ملاقات کر چکی ہیں اور یہ کہ ان کا نام پگل (پگلی) ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ ایک بار ایسا ہوا کہ ایک عرصے تک غائب رہنے کے بعد جب وہ نمودار ہوئیں تو گھر کے بڑوں نے استفسار کیا، ’’ارے بھئی پگل، تم کہاں غائب تھیں؟‘‘ انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا، ’’میں اللہ کے پاس چلی گئی تھی۔‘‘

    ’’ارے وہ کیسے، کیاکہہ رہی ہو؟‘‘ ان کی بات پر حیران تو ہونا ہی تھا۔

    ’’ہاں نا، تومیں جھوٹ تو نہیں کہہ رہی ہوں۔‘‘

    ’’لو بھلا کوئی اللہ کے پاس جاکر واپس آیا ہے۔‘‘

    ’’ہاں تو میں جو آئی ہوں۔‘‘ وہ پھر بڑے وثوق سے بولیں اور پھر بتانے لگیں۔ ’’ایسا ہوا کہ میں مر گئی تھی اور فرشتے مجھے اوپر لے گئے اوراللہ نے جو مجھے دیکھا تو بڑا ناراض ہوا کہ ارے یہ تم کس کو اٹھا لائے ہو، یہ تو پگل ہے۔ کیوں لے آئے اسے۔ لانا کسے تھا اور لے کس کو آئے۔ تمہاری مت ماری گئی ہے۔ اب فرشتے ڈرکے مارے بولے، اچھا تو ہم اس کو واپس چھوڑ آتے ہیں۔ مگر اس نے حکم دیا، ٹھہرو اس کا حال تو دیکھو۔ کیسی گندی میلی ہو رہی ہے۔ جاؤ اس کو نہلاؤ۔ صاف کپڑے پہناؤ اور جب میں نہاکر سامنے گئی تو کہا اس کے بالوں کو تیل لگاؤ۔‘‘ اتنا کہہ کر ان خاتون نے اپنا پورا ہاتھ لمبا کرکے سامنے کیا۔ ’’اب تم یہ دیکھو، اتنی لمبی لمبی بوتلوں میں تیل لایا گیا اور میرے سر میں چسا گیا۔ پھر میرے بال بنائے گئے۔ سچ جانو ٹھنڈ پڑ گئی۔‘‘

    جس وقت وہ یہ کہہ رہی تھیں ان کی آنکھوں میں ایک عجب طرح کا سرور تھا، جیسے واقعی ٹھنڈ پڑ گئی ہو۔

    ’’اچھا تو پھر تم واپس آ گئیں؟‘‘ سوال کیا گیا۔

    چہک کر بولیں، ’’لو بھلا ایسے کیسے آ جاتی۔ پھر اس نے فرشتوں سے کہا کہ اب پگل کو کھانا کھلاؤ، پلاؤ! لوبھئی اتنے بڑے بڑے تھالوں میں پلاؤ آیا۔ کیسا مزے دار کہ میں کیا بتاؤں۔‘‘ اپنی کہنی تک ہاتھ لمبا گیا۔ ’’اتنا اتنا لمبا چاول۔ یہ بڑی بڑی بوٹیاں۔‘‘ بتاتے ہوئے ان کے منہ میں پانی بھر آتا تھا۔ ’’بس وہ میں نے کھاکرختم کیا۔ پھر مجھے واپس بھیج دیا۔ کہتے ہیں، میں تین دن تک مری پڑی رہی تھی۔ تیسرے دن زندہ ہو گئی تھی۔‘‘

    پھر کوئی سوال کر دیتا۔ ’’اچھا پھر تم اللہ سے ملنے گئی تھیں تو ان کی شکل تو دیکھی ہوگی۔‘‘

    ’’لوکیوں نہیں دیکھی۔ خوب دیکھی۔‘‘

    ’’اچھا تو پھر کیسی شکل تھی؟‘‘

    ’’ماشااللہ سے گورے چٹے، یہ بڑا گول گول طباق سامنہ، موٹی موٹی آنکھیں۔‘‘ وہ طباق سے منہ کی گولائی ہاتھ کے اشارے سے بتاتی تھیں۔ پھر مزید بتاتی تھیں، ’’بس وہ تو اپنے تخت پر بیٹھے، ہنستے ہی رہتے تھے۔ ہاہا، ٹھن، ٹھن اور بھئی آپ دیکھیں کہ ہماری آپ کی ہنسی تو ہوتی ہے ایک گھنٹے، حد دو گھنٹے کی۔ بس وہ تو ہنسے ہی جاتے ہیں۔ ہا، ہا، ٹھن، ٹھن۔ ہا، ہا، ٹھن، ٹھن۔ رکتی ہی نہیں ہنسی۔‘‘

    ہاں تو اب کہنا یہ ہے کہ یہ چھوٹا تو ہاتھ میں ٹوٹا پیالہ پکڑے ہنسے جا رہا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکیاں تو پڑنا ہی پڑنا ہے اور ٹوٹے پیالے کی قیمت بھی اجرت میں سے منہا کر لی جائےگی۔ پر ملازمت سے برخاست تو نہیں کیا جائےگا کہ ہوٹل کا کاروبار تو اسی کے دم سے چلتا ہے۔ تویہی بات تو چھوٹے کو بھی معلوم ہے۔ زلزلے آئیں، طوفان، طوفان کیا سونامی آئیں، جنگیں ہوں، قحط پڑیں اور یہ دنیاکے رہنے والے ایک دوسرے پر درندوں اور گدھوں اور تمام گوشت خور پرندوں کی طرح قہربن کرٹوٹ پڑیں۔ ان کی غلطیوں یانادانیوں سے الزام تو میرے ہی سر پر آناہے۔ مجھے برا بھلا کہیں گے۔ اعلان کر دیں گے، ہم مانتے ہی نہیں تجھے کہ ہے بھی یاہے ہی نہیں۔ پر جائیں گے کہاں۔ ان کے گلشن کے کاروبار تو میرے ہی دم سے چلنا ہے اور میرا بھی کیا جاتا ہے۔ مجھے تو ان خواہشوں، امنگوں اور ہدایتوں پر چل کر صندوقچی کو بھرنا اور اس کا بھار بڑھانا ہے۔ پریہ تواب مجھے کنفیوز ہی کرنے لگے ہیں۔ ٹھیک ہے کنفیوز کریں گے تو پیالے بھی ٹوٹیں گے، خود بھی اتنے ہی کنفیوز ہوں گے کہ بوکھلا بوکھلا کر طرح طرح کی ہدایات اور احکام جاری کریں گے اور پھر فوراً ہی اپنی ہی ہدایتوں اور حکموں کے بالکل اُلٹ احکامات جاری کرنا شروع کر دیں گے۔ پھر مجھے تو کنفیوز ہونا ہی ہے اور پیالوں کو تو ٹوٹنا ہی ہے۔ سو اب ایک ڈھیر ہے میرے قدموں میں، ٹوٹے ہوئے پیالوں کا اور یوں ہے کہ ایک ٹوٹا پیالہ ہاتھ میں لیے، ٹوٹے پیالوں کے ڈھیر پر کھڑا چھوٹا ہنس رہا ہے، ہنسے جا رہا ہے۔

    ہا ہا، ٹھن ٹھن۔۔۔ ہا ہا، ٹھن ٹھن۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے