Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دم

MORE BYعبدالصمد

    کہانی کی کہانی

    فسادات میں گھرے ایک خاندان کی کہانی۔ وہ تین بھائی تھے۔ تینوں میں سے دو گھر پر تھے اور ایک کہیں باہر گیا ہواتھا۔ جب وہ لوٹ کر آیا تو اس نے روتی ہوئی اپنی ماں کو بتایا کہ وہ تین کو ٹھکانے لگاکر آیا ہے۔ ماں اس سے ہر بات کو تفصیل سے پوچھتی ہے۔ باہر گلیوں میں پولس گشت کر رہی ہے اور دونوں گروہ نعرہ لگا رہے ہوتے ہیں۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ نعرے تو محلے کا پاگل آدمی لگا رہا ہے۔ نعرے سن کر پولس بھی اس گھر میں گھس آتی ہے۔ لیکن پولس پاگل کو پکڑنے کے بجائے گھر والوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔

    رات کی تاریکی ماحول کی سنگینی میں گھل مل گئی۔

    تاریکی، سناٹا اور چاروں کھونٹ گونجتی ہوئی خاموشی کی چیخ جو بند کمرے میں بھی یوں گھسی آ رہی تھی جیسے اسے روک ٹوک کی پروا نہ ہو۔ خاموشی کی موجودگی میں کمرے میں پھر اور کس چیز کا گزر ہو سکتا تھا۔ ابھی ابھی وہاں شطرنج کی بساط بچھی تھی۔ بچھی تو اب بھی تھی لیکن خاموشی نے سارے نظام کو یوں درہم برہم کر دیا تھا کہ بساط الٹی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔

    خاموشی کی موجودگی میں بھی وہ سانسیں تھیں، جن کی رفتار گم تھی، وہ آنکھیں تھیں جن کی سمت لاپتہ تھی۔ وہ موجود تھے جن کی انفرادیت کھو چکی تھی۔

    اچانک ایک دھماکے کے ساتھ آواز آئی، نکڑ کے پیپل کے درخت پر سے ایک پرندہ چیخا۔ کہیں قریب ہی سے ایک جانا بوجھا نعرہ بلند ہوا۔ جواب میں ادھر سے بھی ایک نعرہ لگا جس سے کمرے کے اندر کی خاموشی لرز گئی۔

    ’’یہ کس کی حرکت ہے؟‘‘ بظاہر الٹی ہوئی بساط کے قریب بیٹھے ہوئے فرد کے منھ سے نکلا۔ ویسے شاید وہ واقف تھا کہ۔

    ’’اور کون ہو سکتا ہے۔‘‘

    ’’خیر اس بےچارے کے بارے میں کیا کہنا۔ وہ بے چارہ تو۔۔۔‘‘

    ’’وہ خواب، بےچارہ وہ گھر والوں کے لئے ہوگا۔ باہر والے اسے کیوں پاگل ماننے لگے۔‘‘

    ’’دیکھو کہیں وہ پھر نعرہ بازی نہ کرنے لگے۔‘‘

    ’’بھلا اسے کون روک سکتا ہے۔ جب بھی نعرے لگیں گے وہ جواب دےگا ہی۔‘‘

    ’’اسے کمرے میں بند کیوں نہ کر دیں؟‘‘

    ’’سبھی روشن دان تو ٹوٹے پڑے ہیں۔ کھڑکیاں تک اپنے حواس میں نہیں۔ صرف کواڑ بند کر دینے سے فائدہ؟‘‘

    ’’دیواریں تو ہیں۔‘‘

    بےسمت آنکھوں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ اگرچہ کمزور اور خستہ حال، لیکن اس کا دروازہ بند تھا۔ ٹوٹے ہوئے روشن دان اور کھڑکیاں بند تھیں۔ اس میں بند ہوکر لوگ اپنے آپ کو محفوظ سمجھے پر مجبور ہی نہیں، مصر تھے۔

    ’’لیکن اس میں تو۔۔۔ آخر ہم لوگ کہاں جائیں۔‘‘

    ’’کہیں بھی۔۔۔ جب بند ہی رہنا ہے ہمیں۔‘‘

    ’’یہ کمرہ بھی کیا۔۔۔ بس یہ ہے کہ یہاں سے آواز باہر نہیں جاتی۔‘‘

    ’’یا یوں کہو کہ ہم نے اپنی آوازوں کو اپنے اندر قید کر لیا ہے۔‘‘

    باہر پھر کچھ شور سا ہوا۔ کچھ پھڑپھڑاہٹ۔۔۔ کچھ چیخیں، نعرے۔۔۔

    ادھر سے پھر جوابی نعرہ بلند ہوا۔ بند کمرے کی کمزور دیواریں ہل سی گئیں۔ اپنے آپ کو بند کیے ہوئے لوگ لرز سے گئے۔ خاموشی کا زور ہوا تو ان میں سے ایک بولا۔

    ’’یوں بند ہونے سے کام نہیں چلےگا۔ وہ جوابی نعرے بلند کرتا رہےگا اور ہم کتے کی موت مارے جائیں گے۔‘‘

    سب خاموش رہے تو حوصلہ پاکر وہ شخص آگے بڑھا اور بند دروازہ آہستہ سے کھول دیا۔ دروازہ ایک کمزور سی کراہ کے ساتھ کھلا اور باہر کی ہواؤں میں تیرتی ہوئی طرح طرح کی آوازیں اندر آ گئیں۔

    باہر دالان میں وہ بیٹھا تھا۔ بے ترتیب لباس، ابتر جسم، الجھے ہوئے گندے بال، سرخ آنکھیں اور ہاتھوں میں ایک زنگ آلود چھری، جسے وہ بار بار فضا میں بلند کرتا جس کے ساتھ ہی اس کے چہرے پر کامیابی کے رنگ آ جاتے۔ پاس کی پلنگڑی پر بیٹھی ہوئی بوڑھی عورت منھ پر پلو رکھے رو رہی تھی۔

    ’’اب کیا جائے؟‘‘

    چاروں باہر آکر ایک ساتھ سوچنے لگے۔ ان میں دو پاگل کے سگے بھائی تھے اور دو ان کے دوست پڑوسی جو وقت اور موقع دیکھ کر آ گئے تھے اور اب ماحول کی سنگینی نے جن کے پیر پکڑ لئے تھے۔

    ’’کیا کیا جائے؟‘‘

    سوچ تو رہے تھے چاروں۔ لیکن دراصل اگر کچھ کرنا تھا تو صرف ان دو ہی کو، جو اپنے گھر کے تھے۔ ابھی وہ کسی نتیجے پر پہنچے بھی نہیں تھے کہ ایک چیخ نے باہر کی خاموشی کو ایک بار پھر چاک کر دیا۔

    دوڑنے کی آوازیں، بوٹوں کی سنگین چاپ اور وہی مانوس نعرہ۔

    پاگل اپنی جگہ سے اٹھا اور چھری والا ہاتھ فضا میں لہرا کے اس نے بڑے جوش و خروش ک ے ساتھ نعرے کا جواب دیا۔ ایسا لگا جیسے اس بوسیدہ مکان کے اندر ہی اندر ایک میدانِ جنگ کھل گیا ہو۔

    ’’اماں، اس پاگل کو رو لیے۔ یہ ہم سب کو مروا دےگا۔‘‘

    اماں کی ہچکیاں اور تیز ہو گئیں۔ پاگل نے سرخ آنکھوں سے ان کی طرف دیکھا۔

    ’’میں رک گیا تو پھر تم بچ نہیں سکوگے۔‘‘ انہوں نے اس کی بات جیسے سنی ہی نہیں۔

    ’’وہ اگر نعرے لگاتے ہیں تو لگائیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے، لیکن جوابی نعرہ تو کھلم کھلا اشتعال انگیزی ہے۔‘‘

    اماں بس روئے جا رہی تھی۔ وہ جیسے کسی کی بات سن ہی نہیں رہی تھی۔

    ’’اماں کچھ بولوگی بھی یا بس روتی ہی رہوگی؟‘‘

    ’’تم لوگ بڑے خود غرض ہو۔ اپنے کو بند کیے پڑے ہو۔ راجہ کی تمہیں کوئی فکر نہیں، آخر وہ تمہارا سگا بھائی ہے۔ چوبیس گھنٹے ہو گئے اسے گئے ہوئے۔ پتہ نہیں وہ۔۔۔‘‘ وہ اور زور سے رونے لگی۔

    ’’راجہ۔۔۔‘‘ ایک زیر لب بڑبڑایا۔

    ’’آخر راجہ غائب کہاں ہے؟‘‘ یہ سوال پڑوسی دوست نے پوچھا۔

    ’’غائب کہاں۔ اس کی تو عادت ہی یہی ہے۔ ہاں کہو کہ آج فضا خراب ہے۔ اس لئے اماں کو زیادہ فکر ہے۔ ورنہ اس کا تو کام ہی یہ ہے۔‘‘

    ’’تشویش کی بات تو ہے۔ شہر میں چھرے بازی ہو رہی ہے۔ اب تو لاشیں بھی نہیں ملتیں۔‘‘

    ’’اسے چھرے بازی کی کیا پروا۔ وہ تو خود۔ ہاں یہ کہو کہ پولیس۔۔۔‘‘

    اماں جو ان کی باتیں سننے کے لئے سسکیاں لینے لگی تھیں۔ پولیس کا نام سن کر پھر زور زور سے رونے لگیں۔

    ’’افوہ، رونا بند تو کرو اماں۔ کچھ سوچنے تو دو ہمیں۔‘‘

    ’’لو اماں میں آ گیا اور تین کو ٹھکانے لگا آیا ہوں۔‘‘

    دروازے سے راجہ کی آواز آئی اور وہ وحشی سا ان لوگوں کے سامنے آ گیا۔ اماں نے اسے صحیح سلامت دیکھا تو دوڑ کر اس سے لپٹ گئی اور چٹ چٹ بلائیں لینے لگی۔ اس کے پیچھے پتہ نہیں کون سی ان دیکھی طاقت تھی جو سب کو نظر آ رہی تھی۔

    دونوں بھائی اسے گھور رہے تھے۔ پاگل اپنے آپ میں مست بار بار چھری کو فضا میں بلند کرتا اور جوش کے ساتھ ہواؤں پر وار کر کے سست پڑ جاتا۔

    راجہ سب کی نظروں سے بےپروا پانی کی بھری بالٹی سے منھ ہاتھ دھونے لگا۔

    ’’اماں ہمیں گاجر مولی سمجھ رکھا ہے۔ ایسا سبق دےکر آیا ہوں کہ بس یاد ہی کرتے ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ یہ لوگ۔۔۔بھلا ہم کیا جانیں یہ سب۔ ہم تو کسی کی ٹیڑھی آنکھیں تک برداشت نہیں کریں۔

    بھلا بتائیے۔ میں تو ماسٹر کے یہاں سے چپ چاپ چلا آ رہا تھا۔ حالانکہ دیکھو اماں، میری تو شکل بھی ایسی ویسی ہے۔ لباس بھی کچھ ایسا ویسا ہے۔ پھر بھی سالوں نے میری چال سے مجھے پہچان لیا اور لگے دوڑانے۔ میں نے بھی انہیں وہ چھکائیاں دیں۔ انہیں ایسی ایسی گلیوں کی سیر کرا لایا کہ بیٹا یاد رکھیں گے۔۔۔‘‘

    ’’پھر تونے تین کیسے مارے؟‘‘

    امّاں نے بہت ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ انہوں نے اپنا رونا دھونا کب کا بند کر دیا تھا۔

    راجہ بہت زور سے ہنسا۔

    ’’ارے وہ۔۔۔ اماں، وہ تو مجھے سنسان گلی میں مل گئے تھے۔ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی کی طرح۔ سالے دواؤں کی شیشیاں لے کر بھاگے جا رہے تھے۔ میں نے بھی انہیں ان کی چالوں سے پہچان لیا۔۔۔ اور پھر۔۔۔‘‘

    وہ پھر ہنسا اور ہنستے ہنستے اس نے منھ بنا کے آواز بدل کے مرنے کی نقل سی کی۔ اماں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے اور پاگل نے ایک بار پھر نعرہ بلند کیا۔

    فضا تھرا اٹھی۔ باہر سے دوڑنے بھاگنے کی آواز آئی۔ اس وقت دالان پر کھڑے ہوئے چاروں افراد نے محسوس کیا کہ وہاں پر دراصل صرف تین ہی فرد ہیں۔ اماں، پاگل اور راجہ۔

    وہ وہاں سے چل کر پھر کمرے میں آ گئے۔

    باہر کے جو دو فرد تھے وہ بڑے سست سے تھے۔ ان کے راستے مخدوش ہو گئے تھے۔ یوںوہ جہاں تھے وہ جگہ بھی اب محفوظ نہیں تھی۔ پھر بھی خاموشی سے سنگینی اور بڑھتی تھی۔

    ’’مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ بات اب ختم نہیں ہوگی۔۔۔ کوئی چاہتا ہی نہیں ہے نا۔‘‘

    ’’سارا فساد نعرے بازی کا ہے۔ نعرہ لگا کے یا سن کے انسان اپنے آپ میں نہیں رہتا۔‘‘

    ’’اگر نعرے کا جواب نہیں دیا جائے تب۔۔۔؟‘‘

    ’’تب پھر نعرہ جنم لینے سے پہلے ہی دَم توڑ دے۔ یہ کوئی معمولی بات تو نہیں۔‘‘

    ’’نعرے کا جواب نہیں دینا تو نعرہ لگانے سے زیادہ ہمت کی بات ہے۔‘‘

    ’’پتہ نہیں نعرہ بازی میں وہ کون سی قوت ہے جو انسان کو جواب دینے پر مجبور کر ہی دیتی ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ہر انسان کے جسم میں کوئی آٹومیٹک مشین فٹ ہے۔ جو اگر خراب کر دی جائے تو پھر بات بن سکتی ہے۔‘‘

    ’’میرا خیال ہے کہ ایسی بہت سی مشینیں اگر خراب کر دی جائیں تو بہت سی باتیں بن سکتی ہیں۔‘‘

    اتنے میں باہر پھر کچھ شور و غوغا بلند ہوا۔ کسی کے چیخنے کی آواز آئی۔ بہت سے کتے ایک ساتھ بھونکنے لگے۔ کمرے میں ایک دَم خاموشی چھا گئی۔ باہر کے دونوں افراد کے چہروں پر صاف پریشانی کے آثار تھے۔

    ’’بہت دیر ہو گئی۔ گھر کے لوگ بہت پریشان ہوں گے۔‘‘

    ’’انہیں پتہ تو ہے نا کہ تم یہاں ہو۔ پھر پریشانی کی کیا بات ہے۔‘‘

    ’’پتہ تو ہے، لیکن اتنی دیر۔۔۔ پتہ نہیں وہ لوگ بھی کس حال میں ہیں۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ کب، کس وقت، کہاں، کیا ہو جائے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔‘‘

    باہر شور و غل سے بے پروا راجہ، اما کو اپنی فتوحات کی داستانیں سنا رہا تھا۔

    ’’اور جانتی ہو اماں، یہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ راجہ کو بھی گاجر مولی کی طرح کاٹ دیں گے۔ یہی تو بھول ہے ان کی۔ ہاں وہ بڑے بھیا کے بارے میں سمجھیں۔ منجھلے بھیا کے بارے میں کہیں تو بات ٹھیک بیٹھے گی۔ وہ بےچارے تو گاجر مولی ہیں ہی۔ اب دیکھو نا اس وقت بھی کمرے میں بیٹھ کر سبزیوں کے باؤ پر بھاتیں کر رہے ہیں۔‘‘

    کمرے میں صاف اس کی آواز آ رہی تھی۔ بے تحاشہ غصہ آنے اور خون کھولنے کے باوجود ان میں سے کوئی باہر نہیں نکلا۔ شاید انہوں نے اپنی مشین کے کسی پرزے کو خراب کر ڈالا۔۔۔

    ’’ اور سنوگی اماں۔ ہم چھ سات دوست ایسے ہیں جو پورے محلے پر نہیں، پورے شہر پر بھاری پڑیں گے۔ ابھی کسی نے پہچانا نہیں ہے ہمیں۔۔۔‘‘

    ’’ارے ڈر آدمی سے نہیں، پولیس سے لگتا ہے رے۔ تو تو۔۔۔‘‘

    اماں بولتے بولتے چپ ہو گئیں۔۔۔ راجہ ایک بار ڈکیتی کے الزام میں دھر لیا گیا تھا تو پولیس نے اس کی زبردست پٹائی کی تھی۔ بعد میں الزام ثابت نہیں ہونے پر وہ چھوٹ گیا تھا اور محلے کی حلوائی کی دکان سے مفت دودھ پی پی کے اس نے ساری کسر پوری کر لی تھی۔ کوئی اس کے سامنے اس واقعے کو زبان پر بھی نہ لاتا تھا۔ بس ایک اماں تھیں جو اس کو من و عن یاد رکھے ہوئے تھیں اور راجہ کو اس سے ڈرانے کی کوشش بھی کرتی تھیں۔ راجہ جھنجھلا گیا۔

    ’’اماں تم تو پولیس ہی کو سب کچھ سمجھتی ہو۔ ایک بار پکڑ لی اور دو چار تھپڑ لگا دیے تو کون سی ایسی بات ہو گئی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اس سے میرا ڈر ختم ہو گیا۔ ورنہ میں بھی پولیس سے ہمیشہ ڈرتا رہتا۔۔۔ ان پولیس والوں میں کچھ دم نہیں اماں۔ لوگ تو ان کی بندوق سے ڈرتے ہیں اور بس۔‘‘

    ’’تو میں بھی بندوق ہی سے ڈرتی ہوں۔ کیا تیری یہ چھری ان کی بندوق کا منھ بند کر دےگی؟‘‘

    ’’اماں بندوق اگر ان کے پاس ہے تو ہمارے پاس نہیں ہے کیا۔۔۔ ارے اپنے پاس تو ایسی بندوقیں ہیں کہ ان پولیس والوں نے کیا ان کے باپ نے بھی نہیں دیکھی ہوں گی۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ پولیس کی بندوق سے کوئی ڈر جائے۔ اب تو۔۔۔‘‘

    ’’جانتے ہو۔ یہ ان بندوقوں کی باتیں کر رہا ہے جو غیر ملکی ایجنسیاں بانٹتی ہیں تاکہ ہمارے ملک میں انتشار قائم رہے،‘‘ بڑے بھیا نے سرگوشی کی۔

    ’’یہ اس بے وقوف کو کیا معلوم کہ جن لوگوں نے اسے بندوق دی ہے، انہو ں نے اس کے دشمن کو بھی بندوق دے رکھی ہے۔ اب دونوں آپس میں سر پھوڑو۔‘‘

    منجھلے بھیا کی جانکاری بھی بہت دور کی تھی۔

    ’’تیرے پاس اتنی بندوقیں کہاں سے آئیں کہ تو پولیس سے مقابلہ کرنے چلا ہے۔‘‘ امّاں بہت ہی بےاعتباری سے راجہ سے پوچھ رہی تھی۔

    راجہ اپنی مخصوص ہنسی میں کھلا۔

    ’’بہت بھولی ہو اماں تم۔ اب بندوق گنڈاسہ، چھرے کے لئے ہم دوسروں کا منھ دیکھیں گے۔ یہ چیزیں ہم لوگ خود بنا لیتے ہیں اماں اور صرف اپنے لیے نہیں بناتے۔ دوسروں کو بھی دیتے ہیں۔‘‘

    ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔‘‘

    ’’پھر بھی بھلا پولیس سے تمہارا کیا مقابلہ؟‘‘ امّاں بھی اس سے بحث کرنے کے موڈ میں تھی۔

    ’’پولیس سے اچھے ہتھیار ہیں ہمارے پاس۔ یوں بھی ہم لوگ بس اپنی حفاظت کا سامان کرتے ہیں، اب کوئی پتھر سے ہمیں مارے تو ہم اینٹ سے بھی نہ ماریں۔‘‘

    ’’جانتے ہو یہ جن ہتھیاروں کی بات کر رہا ہے، وہی ہتھیار چوری، ڈکیتی، روڈ ہولڈ اپ وغیرہ میں کام آتے ہیں۔‘‘ اندر کی سرگوشی اندر ہی محدود تھی۔

    ’’یہ لوگ ہتھیار خود بھی استعمال کرتے ہیں اور دوسرے کے ہاتھ بیچتے بھی ہیں۔‘‘

    ’’یہ مسئلہ قومی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ پیسے اور ہتھیار کے افراط ہی نے تو سارے مسئلوں کو جنم دیا ہے۔ سارا کھیل بس انہی کا ہے۔ جب یہ نہیں تو کھیل نہیں۔ اس لیے سرکار بھی ان پر کنٹرول نہیں کر سکتی۔‘‘

    باہر لاؤڈاسپیکر پر کچھ اعلان ہو رہا تھا۔

    ’’افواہ پھیلانے اور دنگا کرنے والوں کو فوراً پولیس کے حوالے کیجئے۔ ان کے ٹھکانوں کا پتہ۔۔۔‘‘

    ’’کیا راجہ کو۔۔۔‘‘

    بڑے بھیا کی ناک راجہ کے سبب کئی بار کٹ چکی تھی۔ اب تو محلے سے باہر سے بھی اس کی شکایتیں آنے لگی تھیں۔ سب لوگ بڑے بھیا ہی کو گھر کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ انہیں کیا پتہ کہ بڑے بھیا کے سامنے تو راجہ اور شیر بن جاتا ہے۔ انہیں چڑھانے میں اسے بہت مزہ آتا ہے۔ وہ تو اس سے بولتے بھی نہیں تھے۔ نہ اپنے بچوں کو اس کے پاس پھٹکنے دیتے۔ ویسے بھی بڑے اور منجھلے بھائیوں کے بیوی بچے ان کی سسرال میں رہتے تھے۔ اس گھر میں اتنی جگہ کہاں تھی۔ ایک پاگل اور ایک بدمعاش نے کسی کے رہنے کے قابل ہی کہاں چھوڑا تھا۔ اگر دونوں بھائیوں کی نوکری کا حیلہ نہ ہوتا تو ان کے لئے بھی یہاں جگہ نہیں تھی۔

    ’’بات تو ٹھیک ہے۔ جیل میں رہےگا اور چار چوٹ کی مار پڑےگی تو خود بھی سدھرےگا اور دوسروں کو بھی چین سے رہنے دےگا۔‘‘

    ’’لیکن اماں۔۔۔ اماں تو اسے بہت چاہتی ہیں، وہ تو مر ہی جائیں گی۔‘‘

    ’’اماں کو پتہ کیسے چلےگا اور پھر راجہ نے اپنی نیک نامی میں کسر ہی کون سی چھوڑی ہے۔ یوں بھی وہ بلیک لسٹ میں ہے۔ پولیس کو تو بس اس کے بارے میں خبر مل جائے۔‘‘

    ’’ایسی غلطی بھی نہ کیجئےگا بھائی صاحب۔ وہ مجھے تو کیا پکڑیں گے۔ ہاں آپ لوگ پھر نہیں بچیں گے،‘‘ راجہ کمرے کے دروازے پر کھڑا تھا۔ اس نے ان کی سرگوشیاں سن لی تھیں۔ شاید دیواروں کے بھی کان ہو گئے تھے۔

    ’’نہیں تو کیا کر لےگا تو۔ ہمیں قتل کر دےگا؟‘‘

    یہ منجھلے بھیا تھے۔ بڑے بھیا تو غصہ اور ایمرجنسی میں بھی اس سے مخاطب ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔

    ’’میں تو کچھ نہیں کروں گا۔۔۔ لیکن آپ ان سے بچ کے رہیے جن کے حوالے آپ مجھے کرنے جا رہے ہیں۔‘‘

    ’’کوئی کسی کو حوالے کرنے نہیں جا رہا ہے۔ تو جا اماں کے پاس۔ ہم لوگ تو باتیں کر کے یوں ہی اپنے وقت کو ٹال رہے ہیں۔‘‘

    باہر کے آدمیوں میں سے ایک نے بہت سمجھاتے بچھاتے ہوئے کہا۔

    ’’اوہ تو یہ وقت آپ پر اتنا بوجھ ہے کہ آپ اسے ٹال رہے ہیں۔‘‘

    راجہ عجیب لہجے میں بولا۔ حالات نے شاید اس پر اپنا کافی اثر ڈال رکھا تھا۔

    ’’تم ہماری فکر نہ کرو۔ رہے اور سب مسائل تو اس کے لئے سرکار ہے، پولیس ہے۔ ہم کیوں ان کے کام میں دخل دیں۔‘‘

    ’’پولیس کا کام آپ کی حفاظت کرنا نہیں، یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں اور آپ بھی اچھی طرح جان لیجئے۔‘‘

    ’’ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ پولیس کا کام تم جیسے لوگوں کی خبر لینا ہے۔‘‘

    منجھلے بھیا اس سے کسی طرح قائل ہونے والے نہیں تھے۔

    امّاں دودھ جلیبی کا پیالہ لیے گئیں۔

    ’’لے راجہ کھالے۔ جانے کب سے بھوکا ہے۔‘‘

    راجہ پیالہ لے کر باہر چلا گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے اماں بھی۔

    ’’آیا ہے ہم لوگوں کو سبق سکھانے۔‘‘

    بڑے بھیا پھٹ پڑے۔ اتنی دیر سے وہ اپنے آپ کو دبائے بیٹھے تھے۔

    ’’کوئی شریف اور سمجھدار آدمی ہنگامہ پسند نہیں کرتا۔ یہ تو چند غنڈے ہوتے ہیں جن کے وجود اور روٹی روزی کا اسی پر دارو مدار ہے۔‘‘

    ’’آخر اماں کیوں نہیں روکتیں راجہ کو۔‘‘

    باہر کے لوگ ان کے گھریلو ماحول کو دیکھ کر بڑے حیران تھے۔

    ’’اماں کی وہ سنتا کب ہے۔ جب تک ابا زندہ تھے، ان کا کچھ رعب اس پر تھا۔ ان کے مرنے کے بعد تو وہ شیر ہو گیا اور اب دن بہ دن۔۔۔‘‘

    ’’آپ بڑے بھائی تھے۔ آپ کو تو شروع سے ہی اس پر قابو رکھنا چاہئے تھا۔‘‘

    ’’بھئی میں کیا کرتا۔۔۔ میں خود ہی بال بچوں والا آدمی ہوں۔ مجھے تو کبھی فرصت ہی نہیں ملی۔ پھر راجہ اماں کی لاڈ پیار میں پہلے ہی سے برباد تھا۔‘‘

    ’’اور وہ جو ایک ہے اس کو پاگل کرنے میں بھی اماں ہی کا ہاتھ ہے۔ میں نے کتنا چاہا کہ اسے پاگل خانے میں داخل کرادوں لیکن وہ تیار نہیں ہوئیں۔ پتہ نہیں کس نے ان سے کہہ دیا کہ وہاں بہت خراب کھانا ملتا ہے اور بہت مار پڑتی ہے۔ اب بھئی وہ تو دماغی اسپتال ہے، وہاں تو اس کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو سب پاگلوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘

    یکایک دالان سے پھر ایک نعرہ بلند ہوا۔ سبھی گم صم سے ہو گئے۔ باہر دوڑتے ہوئے بوٹوں کی آوازیں آئیں۔ ایک بھاری ٹرک شور مچاتا ہوا گزر گیا۔

    ’’بھلا بتائیے۔ خواہ مخواہ اس طرف سارے لوگوں کی توجہ مبذول کرا رہا ہے کم بخت۔‘‘

    ’’اماں اسے روکتی کیوں نہیں۔‘‘

    ’’اماں کے بس کی چیز نہیں ہے وہ۔‘‘

    ’’اماں کے بس کی چیز تو ہم لوگ ہیں۔‘‘

    دالان سے عجیب عجیب آوازیں آنے لگیں وہ گھبرا گئے۔

    ’’لگتا ہے وہ آ گئے۔‘‘

    ’’کون؟‘‘

    ’’ جن کے انتظار میں ہم بیٹھے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن ہم تو یہاں اس لیے بیٹھے ہیں کہ۔۔۔‘‘

    ’’اگر وہ واقعی آ گئے ہیں تو پھر یہاں اس کمرے تک آنے میں اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے۔ وہ جو بھی ہوں آتو جائیں جلدی سے۔‘‘

    جب واقعی دیر ہو گئی اور کوئی نہیں آیا اور آوازوں کا سلسلہ بھی جاری رہا تو ان میں سے ایک نے کھڑکی سے جھانکا۔۔۔ جھانکتا رہا۔ اس نے دوسروں کو بھی جھانکنے کی دعوت دی۔

    دالان کا منظر عجیب تھا کہ ابھی ابھی پاگل نے جو نعرہ لگایا تھا اس سے خوش ہوکر راجہ بری طرح ہنس رہا تھا۔ راجہ کی دیکھا دیکھی اماں بھی ہنس رہی تھی۔ پاگل نے جو سب کو یوں ہنستے دیکھا تو وہ بھی اس کار خیر میں شریک ہو گیا

    ان تینوں کے قہقہوں نے مل کر ایک عجیب آواز کو جنم دیا تھا۔۔۔ ایک بالکل نئی آواز۔

    باہر کے دونوں فرد بھی اس منظر کو دیکھ کر مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔۔ البتہ دونوں بھائیوں کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا۔ بڑے بھیا سے تو برداشت ہی نہیں ہو سکا۔ وہ دوڑ کر باہر چلے گئے۔

    ’’چپ رہو تم سب۔‘‘ وہ بہت زور سے دہاڑے۔

    اماں اور راجہ تو چپ ہو گئے، لیکن پاگل پر ا س کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ بدستور ہنستا رہا۔ اگرچہ اس ایک کے قہقہے میں نہ اب کوئی دم تھا نہ نیاپن۔

    ’’اماں یہ کیا پاگل پن ہے۔۔۔ یہ بےچارا تو خیر۔۔۔ لیکن آپ۔۔۔ یہ بار بار گلا پھاڑ کے نعرے لگاتا ہے۔ باہر پولیس اور ملٹری بھری پڑی ہے۔ شک ہو گیا تو وہ ہم سب کو بھون ڈالیں گے۔‘‘

    ’’میں تو اس لئے اپنا گلا پھاڑ رہا ہوں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہاں بھی کوئی رہتا ہے۔ آپ کو اچھا نہیں لگتا تو چوڑیاں پہن کے کمرے میں بند رہئے۔ مَردوں کے درمیان نہ آئیے۔‘‘ پاگل نے بہت سنجیدگی سے کہا اور باہر کا ایک فرد سوچنے لگا۔

    ’’یہ تو کسی لحاظ سے پاگل نہیں لگتا۔‘‘

    ’’تم چپ رہو پاگل کہیں کے۔۔۔ میں تم سے بات نہیں کر رہا۔ اماں یہ ہم سب کو کٹوادے گا۔ پتہ نہیں اس کی نعرہ بازی سے باہر کن کہانیوں نے جنم لیا ہوگا اور پتہ نہیں اب کیا ہوگا۔‘‘

    ’’جائیے جائیے کچھ نہیں ہوگا۔ کہانیاں گھڑنے والوں کو شوق ہوگا تو وہ خود ہی آکر دیکھ جائیں گے،‘‘ راجہ بے حیا بن کر موقع بہ موقع بڑے بھیا سے مخاطب ہو ہی جاتا۔

    بڑے بھیا پیر پٹختے ہوئے کمرے میں چلے گئے۔

    ’’اماں، بچےگا تو اب کوئی نہیں۔ ہاں یہ بزدل کی موت مریں گے اور ہم بہادر کی۔ دیکھ لینا،‘‘ باہر سے راجہ کی آواز آئی۔

    باہر کے دونوں فرد بس ایک ہی بات سوچ رہے تھے۔

    ’’کسی طرح گھر چلے جائیں۔‘‘

    لیکن کس طرح۔ باہر کی خبر کسی کو نہیں تھی۔ وہ تو اب تک باہر سے چھپے ہوئے تھے۔ یوں سناٹے کی خبر تو تھی۔ لیکن رہ رہ کر چیخ، نعرے بازی، بوٹ، گاڑی اور دوڑ بھاگ کی جو آوازیں تھیں وہ لمحہ لمحہ طرح کی طرح کی کہانیاں سنا رہی تھیں۔

    اچانک باہر کا دروازہ زور زور سے پیٹا جانے لگا۔ شاید کسی نے چیخ کر دروازہ کھولنے کو بھی کہا۔ درو دیوار کو جیسے سانپ سنگھ گیا۔ راجہ دیکھتے ہی دیکھتے دیوار کے سہارے چھت پر چڑھا اور پتہ نہیں تاریکی میں کہاں گم ہو گیا۔ پاگل بار بار دروازہ کھولنے کے لئے اٹھتا، لیکن اماں اسے پکڑ لیتی۔ پتہ نہیں بوڑھی اماں کی پکڑ میں وہ کون سی قوت تھی کہ پاگل کسی طرح دروازے تک نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ باہر سے بار بار دروازہ کھولنے کو کہا جا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد دروازہ توڑنے کی آواز آئی۔ ویسے بھی اس میں دَم ہی کتنا تھا۔ بس یہ کہ وہ بند تھا اور بند کیا جا سکتا تھا۔

    دیکھتے ہی دیکھتے آنگن میں بہت سے باوردی لوگ آ گئے۔ دالان پر امّاں پاگل کو پکڑے بیٹھی تھی، ’’کہاں ہیں وہ لوگ؟‘‘ ایک گرج دار آواز نے پوچھا۔

    ’’کون لوگ؟ یہاں تو کوئی بھی نہیں۔‘‘

    ’’وہی جو یہاں سے نعرہ بازی کر رہے تھے اور فساد کی تیار کر رہے تھے۔ جلدی بتاؤ ورنہ تم دونوں کو ایک ساتھ بھون دوں گا۔‘‘

    ’’میں نعرہ لگا رہا تھا۔ میں اکیلا ہی سب لوگ ہوں،‘‘ پاگل نے بہت خوش ہوکر کہا۔

    ان کے لیڈر نے اسےبہت غور سے دیکھا۔ پھر جیسے سب کچھ سمجھتے ہوئے بولا۔

    ’’تو چپ رہ پاگل۔۔۔ سبھی جوان گھر بھر کی تلاشی لو۔ گھر کی اینٹ سے اینٹ بجادو۔ پاتال میں بھی اگر کوئی چھپا ہے تو اسے ڈھونڈ نکالنا ہے۔‘‘

    سبھی جوان تیل کی طرح اندر پھیل گئے۔ ان کا لیڈر آنگن میں بہت ہی چوکنا کھڑا بہتی ہوئی ہوا کے ذرے ذرے کو سونگھ رہا تھا۔

    چند ہی لمحوں میں اس کے جوان کونے کونے کو کھود کے آ گئے۔

    ’’کہیں پر کوئی نہیں۔ سامنے والے کمرے میں چار خوف زدہ بیٹھے ہیں۔ شطرنج کھیل رہے تھے۔ لیکن اب بساط الٹی ہے۔‘‘

    ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ باہر شور کہاں سے آ رہا تھا؟‘‘

    ’’دروغہ جی۔۔۔ آپ جسے تلاش کر رہے ہیں وہ میں ہوں۔۔۔ صرف میں۔۔۔ میں نعرہ لگا کے دکھادوں؟‘‘

    پاگل نے بہت ہی چہک کے کہا اور جواب کا انتظار کیے بغیر دیوانہ وار نعرے لگانے لگا۔ واقعی اس کی اکیلی آواز میں اتنا دَم تھا کہ جیسے بہت سے لوگ ایک ساتھ نعرے لگا رہے ہوں۔

    ’’چپ رہو۔ چپ رہو۔‘‘

    ایک دھاڑ کے ساتھ ا س نے بندوق کا کندا پاگل کے سر پر دے مارا۔ خون کا جیسے فوارہ پھوٹ پڑا اور وہ بے ہوش ہوکر گرپڑا۔ اماں اس سے لپٹ کر رونے اور بین کرنے لگی۔

    ’’اب کیا کیا جائے؟‘‘ ایک نے دریافت کیا۔

    ’’ان چاروں کو پکڑ کے لے چلو۔‘‘

    ’’مگر۔‘‘

    ’’مگر اگر کیا۔۔۔ آخر ہم یہاں کیا کرنے آئے تھے اور یہ سالے کمرے میں جمع ہوکر اس وقت کیا کر رہے تھے۔‘‘

    ’’ضرور کوئی سازش کر رہے ہوں گے اور ہمیں دکھانے کے لئے شطرنج کی الٹی بساط بچھائی ہو گی۔‘‘

    چاروں کو گرفتار کر کے جب وہ لوگ جانے لگے تو اماں بہت زور زور سے رونے لگی۔ پاگل بےہوش پڑا تھا اور راجہ چھت پر چڑھ کے جو غائب ہوا تھا تو اب تک اس کا پتہ نہیں تھا۔

    مأخذ:

    سیاہ کاغذ کی دھجّیاں (Pg. 48)

    • مصنف: عبدالصمد
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1996

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے