Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

درد لادوا

الطاف فاطمہ

درد لادوا

الطاف فاطمہ

MORE BYالطاف فاطمہ

    کہانی کی کہانی

    یہ کہانی ہاتھ سے قالین بننے والے دستکاروں کے ہنر اور ان کے معاشی اور جسمانی استحصال کو بیان کرتی ہے۔ قالین بننے والے لوگ کرگھے میں کتنے رنگوں اور کس صفائی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ان کے اس کام میں ان کی انگلیاں سب سے زیادہ معاون ہوتی ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہ انگلیاں خراب بھی ہو جاتی ہے۔ اس کرگھے میں کام کرنے والی سب سے ہنرمند لڑکی کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ پھر رہی سہی کسر کرگھوں کی جگہ نئی مشینوں نے پوری کر دی۔

    ایک اینٹ کی دیواروں والے دالان نما کمرے کی طوالت کے مقابل یہاں فراخی معدوم ہے۔ یہاں سے وہاں تک گئی ہوئی چوبی ’’تور‘‘ پر گول کرکے لپیٹے ہوئے ادھورے قالین کے آگے تختہ ہے اور تختے پر آسن جمائے چھوٹے چھوٹے اجسام کی رنگتوں میں تدریجی فرق اور اختلاف ہے اور کہتے ہیں کہ بنیادی رنگ فقط دو ہیں، ’’سیاہ‘‘ اور ’’سفید‘‘ لیکن رنگوں کی کثرت اور ان کا اختلاف ہی اس طویل دالان نما کمرے کا نمایاں وصف ہے۔

    ستار کے تاروں کی طرح تنے ہوتے ’’تانی‘‘ کے سفید دھاگوں کی دیوار کے چھدرے پن پر بے شمار رنگوں کی پیچکیں لرز رہی ہیں اور ستار کے تاروں جیسے کسے ہوئے اڈے یعنی تانی کے سفید دھاگوں کی دیوار کے اُس طرف ایک بھید ہے اور آگے ایک طلسمات کا عالم۔

    یہ دنیا طلسمات کی دنیا ہے۔ یہ دالان نما کمرا مصری اہراموں کی سی سیلن اورتعفن میں ملفوف ہے۔ یہ دیواریں، یہ تور، یہ اڈا اور کونپل سے نیم برہنہ جسم، اس طلسمات میں گم ہو چکے ہیں اور اپنے معنی کھو چکے ہیں اور اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ حرکت کس چیز کو ہے اور جمود کس پر طاری ہے اور حرکت فقط ایک چیز سے عبارت ہے، وہ ہے رنگوں پر شٹل کی تیزی سے لپکتی ہوئی انگلیاں اور انگلیوں کی تاریخ قدیم اور دلچسپ ہے۔ انگلیاں بہت سی قسم کی ہوئی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ یعنی وہ انگلیاں جو مصر کے بازار میں کٹ گئیں۔ وہ انگلیاں جنہوں نے چاند کو دو نیم کیا۔ وہ انگلیاں جنہوں نے خشک چوب اور خشک پوست کے ساتھ مسیحائی کی اور آواز دوست کو پا لیا۔

    اور پھر وہ انگلیاں جو ان سب پر اٹھیں اور ہمیشہ اٹھیں گی۔

    اور اب یہ انگلیاں ہیں جو بہتے اور پگھلتے ہوئے رنگوں پر شٹل کی سی تیزی سے لپکیں اور ان کے خفیف سے خفیف فرق کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس طلسمات کے عالم میں بڑی اور زندہ قوت یہ انگلیاں ہیں جو اپنی ذات سے آنکھ بھی ہیں اور ذہن بھی۔

    اور اس سے بڑی طلسمات اور کیا ہوگی کہ اجسام گونگے اور بہرے ہو چکے۔ ان چھپی عقلوں پر پردے پڑ گئے تو انگلیاں بروئےکار آئیں۔ انہوں نے دیکھا، سنا اور عجوبوں کو جنم دیا۔ اس طلسمات کو فقط ایک آواز برقرار اور بروئےکار رکھتی ہے، تنے ہوئے سفید دھاگوں کی چھدری دیوار کے عقب سے آتی ہوئی آواز، ’’اک فیروزی۔ دو مشکی۔ چار خالی۔ اگلا سفید ہے۔ پھر اک مشکی اے، ست خالی، اک پنج خالی ایکے اے۔ دو خالی ایکے چار خالی، ایک چٹا فیر دو خالی مشکی۔ دانوا کم۔۔۔‘‘

    آواز کھنچی اور پھر اس نے توقف کیا ہے۔

    ’’آہو جی!‘‘ انگلیاں پکاری ہیں۔

    ہاں یہ آواز انگلیوں کی آواز ہے۔

    مگر وہ پردے کے پیچھے والی آواز جس کی سنگیت پر انگلیاں ناچتی اور عجوبے جنم لیتے ہیں، ایک بھید ہے۔ یہ آواز نہ معلوم کب سے جاری ہے اور کب تک انگلیوں پر حکمرانی کرےگی۔ یہاں سے وہاں تک گئی ہوئی تور پر قالین کا مکمل کیا ہوا حصہ لپٹتا رہےگا اور سفید تانی پر لرزتے بےشمار رنگوں پر چلتی ہوئی انگلیاں شکار گاہ کا نقشہ مکمل کرتی رہیں گی۔ نہیں معلوم پس پردہ ابھرنے والی یہ آواز کب سے قالینوں پر شکار گاہیں تیار کروا رہی ہے اور کب تک۔

    یہ ’’کب سے‘‘ اور ’’کب تک‘‘ ہی تو تحقیق، تلاش اور مقالوں کو جنم دیتی ہے اور مقالے اندازوں، قیاسوں اور بیانات کا کتنا پھس پھسا مجموعہ ہوتے ہیں، کون کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے کتنے اندازے، کتنے قیاس اور کتنے بیانات حق، خلوص اور صحت پر مبنی ہوتے ہیں۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ قالین اور ان پر تیار کی ہوئی شکار گاہیں زندہ اور ٹھوس حقیقتیں ہوئیں اور ان پر لکھے گئے مقالے، بیانوں، اندازوں اور قیاسوں کے مجموعے۔

    پھر بھی میں شکاگو سے چل کر یہاں اس لیے آیا ہوں کہ ایشیا کی قالین بافی پر تحقیقی مقالہ لکھوں اور مجھے اپنے مقالے کے عنوان پر اعتراض ہے،

    ’’ایشیا کی قالین بافی‘‘

    مگر قالین تو ایشیا ہی میں تیار ہوتے ہیں اور ایشیا کے قالینوں میں شکار گاہیں شروع سے بنتی چلی آئی ہیں۔ سفید دھاگوں کی تنی ہوئی چھدری تانی اور اس تانی کی دیوار پر لرزتے ہوئے یہ تمام رنگ، بنوں کے آزاد شیروں، چیتوں، مشکی گھوڑوں، ہرنوں اور چتیلوں کی ڈاروں کو قالینوں میں مقید کر لیتے ہیں۔

    اور تم نے قالینوں کے شیر دیکھے ہیں؟

    حلیم، بےبس و بےحرکت اور بےحس اور اسی کا نام تو طلسمات ہے۔ اس ساری طلسمات کی کنجی موٹے قد آور یک چشم استاد کے ہاتھ میں ہے۔

    اور اب ستار کے تاروں کی طرح کسی ہوتی تانی کی سفید دھاگوں والی چھدری دیواروں کے اس طرف کا راز فاش ہوا چاہتا ہے۔

    استاد کے ہاتھوں میں گزوں لمبا پیلا کاغذ ہے اور کاغذ پر بنے ہوئے گول بیضوی نشانات خالی بھی ہیں اور اس کے بطن میں نقطے بھی موجود ہیں۔ کبھی ایک اور کبھی ایک سے زیادہ گول اور بیضوی نشانات کے بین بین، متوازی اور غیرمتوازی خطوط اور کبھی فقط اوپر تلے دیئے ہوئے نقطے، پیلے، کھردرے اور غیر جاذب کاغذ پر سیاہ روشنائی سے بنائے نقش جادو کے منتر یا سفلی علوم کے نقش معلوم پڑتے ہیں۔ ایشیا کی بعض قوموں کے نزدیک سفلی عمل کرنے والا کافر اور زندیق ہے۔

    اور بعض قوموں نے ’’سفلی عمل‘‘ کو فروغ دیا ہے۔

    اب میں سوچ رہا ہوں کہ میری فکر، سوچ اور تحقیق کا یہی انداز رہا تو ایشیا کی’’قالین بافی‘‘ پر میراتھیسس کبھی مکمل نہیں ہوگا۔

    مصری اہراموں کی طرح سیلی ہوئی عجیب سی بو میں بسا ہوا دالان نما کمرا۔ نیم تاریکی کے عالم میں سفید دھاگوں کی دیوار کے پیچھے استاد ہے اور استاد کے پیچھے دو لوہے کی سلاخوں والی چھوٹی سی تنگ کھڑکیاں اور اِن کے دروازوں کے بھدے اور ناتراشیدہ پٹ کھلے ہیں۔

    ایک، دو، تین، چار، پانچ۔۔۔ یہ گنتی دس پر جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ تور کے آگے نکلے ہوئے مضبوط تختے پر سجے ایک ہی انداز اور نشست پر جمے ہوئے یہ دس مجسمے دیوتاؤں کی طرح کائنات اور اس کے متعلقات سے بےنیاز اور لاتعلق اور یہ تمہارا آذر کدہ!

    نہیں معلوم کہ اب میں کس سے مخاطب ہوں، مگر خیر آذرکدے کے بت قطعی جامد اور سنگین تھے اور ان اجسام کے فقط ایک حصے میں حرکت باقی ہے۔ یہ انگلیاں تخلیق کے عمل میں مصروف ہیں لیکن اس تخلیق کا ان اجسام اور ان کے آپ سے کیا تعلق ہے۔۔۔ اور یہ انگلیاں روز حساب کس کے خلاف گواہی دیں گی، اس لیے کہ ان کا آپ ان کے فعل و عمل پر قادر نہیں۔

    شکاگو سے آنے والے تحقیق کے طالب علم کا ذہن منتشر اور سرگرداں ہے۔ اس کا ذہن اور قدم جکڑے سے جا رہے ہیں۔

    اف شکار گاہوں کی یہ طلسمات!

    پانچ اِس طرف اور چار اس طرف اور ان پانچ اور چار کے درمیان کالی آنکھوں اور سنہرا پن لیے ہوئے بالوں والا لڑکا، شہیدوں اور گیانیوں کے سے انہماک سے براجمان ہے۔ ہر رنگ اور ہر صدا مکمل طور پر اس کی گرفت میں ہے۔ اس کی انگلیاں ہنر ور ہیں اور آنکھیں مسکین۔

    اَن دیکھی آواز گونجی ہے۔

    ’’فیرست خالی، دو اریب نال، اک طوطی رنگے۔‘‘

    ’’آہو جی۔‘‘

    تھرکتی انگلیاں، ان دیکھی آواز اور ’’آہوجی‘‘ کی یہ صدا، اسی سب کا نام سنگیت ہے۔

    سنگیت جس میں طبلے والا طنبورے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سر ہلاتا ہے اور گائیک اپنے اشارے اور گلے سے سنگت کرتا ہے۔

    اس تمام عمل کا نام سنگیت ہے۔ ایک جشن موسیقی میں اس کے دوست نے سرگوشیوں میں کہا تھا،

    ’’سنگیت کے بنا راگ جنم نہیں لیتے۔‘‘

    اور سنگیت کے بغیر شکار گاہیں بھی جنم نہیں لیتیں۔ کوئی ایک بار ان ساری سنگتوں کو توڑپھوڑ کر دیکھے تو سہی۔ ایک نامعلوم سی آہ اس کے وجود میں تلملانے لگی تھی۔

    ارے! یہ لڑکا اور اس کے تو باپ دادوں سے ہنر مندی چلی آئی ہے۔ انہوں نے چنار کے تنوں سے ٹیک لگا کر الوان تیار کیے اور ایک ایک الوان کئی کئی پشتوں نے مکمل کی ہے۔ ان کی آنکھیں بہ گئیں۔ اس گھرانے کی انگلیوں میں تو جادو ہے، جادو۔

    موٹا استاد دھاگوں کی چھدری دیوار کے اس طرف بھدے سے سٹول پر بادشاہوں کی سی اکڑ اور کلہ اور جبڑا لیے بڑے فخر سے بول رہا ہے۔

    استاد، اس کے ہاتھوں میں سیاہ بھدے نقوش والا پیلا پیلا بدنما کاغذ ہے۔ اس نے کاغذ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    ’’یہ جی شکار گاہ کا نقشہ ہے۔‘‘ استاد قالین بافی کے محقق کی پیشوائی کے لیے کھڑا تک نہ ہوا۔

    ’’یہ تم نے بنایا ہے؟‘‘ اس نے الٹ پلٹ کر کاغذ کو دیکھا، جس پر کسی جانور کا کان تک نظر نہیں آ رہا۔

    ’’یہ جی، میرے منشی نے بنایا ہے۔ اس کے گھرانے میں باپ دادوں سے نقشے بنائے جاتے ہیں۔ بہت استاد لوگ ہوئے ہیں ان کے ہاں۔‘‘

    ’’اور تمہاری ہر چیز باپ دادوں سے چل رہی ہے۔ نسلوں اور پشتوں کا یہ چکر ہی تو محقق کو دیوانہ کر دیتا ہے، مگر لوگ کہتے ہیں نسلوں اور پشتوں کے وسیلے سے تحقیق کا کام آسان ہو جاتا ہے۔‘‘

    لیکن یہ دبلا پتلا مسکین لڑکا! پشتوں سے اس کے باپ دادوں نے الوانیں تیار کی ہیں اور شاید ماں کے گھرانے نے اخروٹ کی لکڑی پر نقش و نگار بنائے تھے۔

    خدا کی مار! ان باریک اور پیچیدہ کام کرنے والوں پر اور ایشیا کے قالین بافو، تمہارے ہاتھ کیوں نہ قلم ہوئے!

    اس کا دل چاہا تھا کہ ایشیا کے ان تمام قالینوں کے درمیان اپنے تھیسس کو رکھ کر آگ لگا دے اور پھر وہ سب کے سب اندلس کے ذخیرۂ علوم کی طرح ہفتوں اور مہینوں جلتے رہیں!

    اور یہ ہنرور لڑکا! شاید پشتوں ہی سے اس کے گھرانے میں چہرے مسکین، آنکھیں مظلوم اور انگلیاں ہنرور چلی آ رہی ہیں۔ اس نے عداوت سے لڑکے کی طرف دیکھا ہے اور اپنی ڈائری میں کچھ نوٹ کرنے لگا ہے۔

    بس۔ اس کی انگلیاں ہی تو کام کی ہیں۔ باقی تو یہ کچھ۔۔۔ اس نے اپنے دماغ کو انگلی سے ٹھونکا ہے۔ ’’جی کچھ اس کا مائنڈ کریک ہے۔ بس جی اس کی انگلیاں رکیں اور دماغ چلا!‘‘

    استاد بلا وجہ ہی ہنس پڑا ہے۔

    اور اس لڑکے کا مائنڈ واقعی کریک ہے۔ اس کے ہاتھ رکے اور دماغ چلا۔ یہ خالی بیٹھتا ہے تو اسے ہر طرف مکڑیاں نظر آتی ہیں۔ مکڑی تو اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔

    اور یہ باتیں قالین بافی کی تحقیق سے قطعی تعلق نہیں رکھتیں، اس لیے ان کا ذکر بھی فضول ہے۔

    استاد باتوں میں لگ گیا ہے اور لڑکے کی نظریں دالان نما طویل کمرے کے کونے سے جالگی ہیں جہاں ایک بڑی مکڑی جالا تن رہی ہے۔ یہ مکڑی اس کے ہوش و حواس پر مسلط ہوتی جا رہی ہے۔ وہ مکڑی سے ڈرتا ہے۔ کئی مرتبہ تو بےہوش ہو چکا ہے۔ پاخانے کے کونے کی تنہائی میں جالاتنتی مکڑی کو گھورے جاؤ تو وہ آپ سے آپ آدمی سے مشابہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گول گول آنکھوں اور پلپلے سے ٹھگنے جسم والا ننھا سا انسان آس پاس کی ہر چیز کو مستقل اپنے جالے کی لپیٹ میں لیے چلا جا رہا ہے۔

    لیکن شکاگو سے آنے والی محقق کے پاخانوں کے کونوں میں مکڑیاں جالے نہیں تنا کرتیں۔

    مگر یہ لڑکا کئی مرتبہ مکڑی کے ڈر سے بے ہوش ہو چکا ہے۔

    اور اب وہ لگاتار مکڑی کو گھورے چلا جا رہا ہے۔ اس کے تن بدن پر جالے سے رینگ رہے ہیں۔ اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا ہے۔ وہ بہت خوف زدہ ہے۔ اتنا کہ اس کا خوف ختم ہو گیا اور اس نے رنگین تاگوں کو برابر کرنے والی لوہے کی قینچی اٹھا کر مکڑی کی طرف پھینکی ہے جواچٹ کر پردیسی کے کندھے پر جا لگی ہے۔ کانا استاد اچانک ہی کھڑا ہو گیا ہے۔ اس نے لڑکے کو بہت سے طمانچے لگائے ہیں۔

    اور اب لڑکے کی آنکھوں میں خون اتر آیا ہے۔ شاید جالا تنتی ہوئی مکڑی کی خوف کی انتہا نے اس کو بےجگر کر دیا ہے۔

    اور یہ محقق کا ایک اور قیاس ہے۔

    ’’کانا، سالاعیبی!‘‘ وہ بڑبڑاتا ہوا دالان نما کمرے کی چوکھٹ پر جا بیٹھا ہے۔

    کانا، یک چشم، ایشیائی لوگوں کے نزدیک منحوس اور عیبی ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ چیزوں اور زندگی کے فقط ایک رخ پر نظر رکھتا ہے۔

    مگر کچھ لوگ تو دو آنکھیں رکھ کر بھی ایک ہی رخ کو دیکھتے ہیں اور یہی ان کی پالیسی قرار پاتی ہے۔

    مگر ان باتوں کا تو میری تحقیق سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

    پردیسی محقق نے اپنے آپ کو بری طرح سرزنش کی ہے اور دالان نما کمرے سے نکل گیا ہے۔

    ’’اک فیروزی، دو مشکی، چار خالی، اگلا سفید ہے فیر، دو۔‘‘

    اس نے اپنی ایک آنکھ سے نقشے کو گھورا ہے۔ دو ترچھے متوازی خطوط کے پہلو میں پانچ کا ہندسہ اور اس کے پہلو میں دو اوپر تلے نقطے اور یہ علامت ہے خالی کی۔

    اس نے پھر سے آواز لگائی۔ ’’چار خالی۔ اگلا سفید ہے فیر، دو خالی۔‘‘

    آج وہ بار بار رکا ہے اوراس نے نقشے کو غور سے دیکھا ہے، یوں جیسے اس کی سنگیت ٹوٹ رہی ہو اور یہ اس کی قالین بافی کی تاریخ میں پہلا اتفاق ہے۔ اس کا ذہن بار بار بھٹکا ہے۔

    ’’یا داتا گنج بخش! یہ میری شکارگاہ پوری کروائیو، تو ایسا کروں۔ ایسا کروں کہ سب دیکھیں!‘‘

    اس نے دھاگوں کی چھدری دیوار کے ساتھ بیٹھے بیٹھے ایک عجیب اور مبہم مَنت مانی اور جانے پہچانے چہرے کو دیکھ کر مسکرایا ہے اور پھر وہ ٹوٹی پھوٹی زبان میں استاد سے مخاطب ہو گیا ہے۔ استاد کو مطلق پروا نہیں کہ ایشیا کی قالین بافی پر سیر حاصل مقالہ لکھا جائے، وہ تو فقط اپنے آپ کو اور نامکمل شکارگاہ کو، جو ایران توران سے آنے والے اس کے باپ دادا بناتے چلے آئے تھے، نمایاں کرنے کا خواہش مند ہے۔

    وہ تور کے آگے آسن جمائے ان لڑکوں کو بھی سامنے لانے کا قائل نہیں جن کی انگلیوں نے اس شکارگاہ میں بےشمار شیر، چیتے، مور، چیتل مقید کر دیئے۔

    ’’ایک، دو، تین، چار۔۔۔ نو۔‘‘

    پردیسی نے چپکے چپکے لڑکوں کی تعداد کو گنا ہے۔ چار اور پانچ کے درمیان آسن جمائے وہ لڑکا موجود نہیں اور کونے میں مکڑی بدستور جالا تن رہی ہے۔

    ’’اور وہ کہاں ہے، تمہارا وہ پشتینی ہنر مند۔‘‘ اس نے سوچا اور پھر ٹوٹی پھوٹی زبان میں اس کی عدم موجودگی کا سبب دریافت کیا ہے۔

    ’’جی وہ گیا۔ بےکار ہو گیا۔‘‘ اس نے تاسف سے ہاتھ ہلانے کے باوجود ظاہر کیا ہے کہ اس کو اس کی پرواہ نہیں۔

    ’’یہ قالین بک گیا جی۔‘‘ اس نے بات کاٹی۔

    ’’کس نے خریدا؟‘‘

    ’’ایک انگریج نے۔‘‘ اس نے بڑی تمکنت سے اپنا شیر کا سا جبڑا پھیلایا ہے۔‘‘ بڑی بڑی مشیناں لاچھڈیاں، پر ایس ورگا قالین کدھی وی اتار ہی نہ سکے۔ مشین تو پھر مشین ہوئی جی۔‘‘

    اب وہ بےنیازی سے نقشہ پھیلانے لگا ہے۔

    ’’وہ تمہاری مشین کدھر گئی؟‘‘

    ’’کون جی؟‘‘ وہ تجاہل عارفانہ کے طور پر چونکا ہے۔

    ’’وہی لڑکا!‘‘

    ’’وہ تو جی بےکار ہو گیا۔ اس کی انگلیاں ہی ختم ہو گئیں۔‘‘

    ’’ارے کیسے؟‘‘

    ’’اجی کوئی بات نہیں ہوئی، غریب مسکین بچہ تھا۔ ماں بیوہ ہے، دق کی ماری۔ سارے ہی اس کو دباتے تھے۔ وہ سب کی ہی تابعدار تھی۔ پر اب دن رات کے روگوں نے اسے جھلی کر دیا ہے۔ کسی نہ کسی سے جھگڑتی رہتی ہے۔ کئی دن کی بات ہے، جھگڑا بہت بڑھ گیا تو یہ بھی پہنچ لیا۔ میں نے بولا تھا ناکہ اس کا مائنڈ کریک ہے، بس لپٹ گیا، بہت گستاخی کی۔ اوہناں نے بھی کہیں نہیں مارا، بس انگلیاں ہی کچل کر رکھ دیں اس کی۔ ذرا سا تو ہے ہی، پھر کوئی حمایتی بھی نہ اٹھا جی۔ بے کس کو تو حمایتی کا ہی آسرا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’بڑا افسوس ہوا۔ لڑکے کو خاموش ہو جانا چاہیے تھا۔‘‘

    یہ کیسی بات ہوئی، کانا استاد بہت حیران ہے۔ ’’وہ ماں کا والی وارث جو ہوا۔ ماں کی حمایت تو کرنا ہی ہوئی اور بات یہ بھی ہے، لوگ اس سے حسد بھی کرتے تھے۔ بڑا سڑتے تھے جی۔‘‘

    اچانک ہی اس کی آواز موٹی ہو گئی۔

    ’’بڑا ہنر سیکھ رہا تھا وہ جی اور اس کی انگلیوں میں تو جادو بھرا تھا۔ انگلیاں تھیں کہ مشین۔‘‘

    اور اس دن تو تم نے کہا تھا کہ مشین تو بس مشین ہی ہوئی۔ پردیسی نے سوچا، مگر چپ رہا ہے۔

    استاد نے اپنی اکلوتی آنکھ ادھر ادھر چلائی اور پھر کہنا شروع کیا ہے۔

    ’’اور جی میں نے بڑی مدد کیتی اس کی۔‘‘

    یہاں پر کانے استاد کی آواز پھر بھاری ہو گئی ہے۔ ’’دس روپیہ ہفتہ، ایک گلاس دودھ روز۔‘‘

    ’’اچھا تم دودھ بھی دیتے ہو ان لڑکوں کو؟‘‘

    پردیسی محقق نے اپنی ڈائری میں نوٹ کیا۔

    ’’تو اور کیا جی۔ دودھ تو بڑی نعمت ہے۔ جس کو دودھ دوگے، وہی تمہاری گودی میں آ گرےگا اور کس واسطے ماں کے گوڈوں جنت آ گئی ہے۔ اسی دودھ کی خاطر۔‘‘ اپنی دھن میں اس نے نقشہ ایک بار پھر اٹھا لیا ہے اور شاید پردیسی نے اس مخصوص قسم کے قالین پر جو شکار گاہ کے نقشے پر تیار کیا جا رہا ہے، اپنی تحقیق مکمل کر لی ہے۔

    میں نے اپنی اس تحقیق کے سلسلے میں فارسی پڑھی، تاجیک اور اردو سیکھی، سمر قند و بخارا گیا۔ اصفہان، کوئٹہ اور قصہ خوانی کے بازار میں قالینوں کی منڈیاں دیکھیں۔ روئیں گھسنے کی خاطر بازاروں میں پھیلائے ہوئے قالین اور ان پر سے گزرتے ہوئے قالین بافوں اورقالین خریدنے اور فروخت کرنے والوں کے قافلے، قالینوں کے انباروں سے اٹاٹٹ خیموں میں بڑی تمکنت سے دوزانو بیٹھے، الف لیلوی ڈاڑھیوں اور پگڑیوں والے تاجر، سچی چینی کے پھولدار سرخ اور نیلے روسی چائے دانوں اور تانبے کے نقشین سماواروں میں بھبکتی چائے اور کھنکتے فنجانوں کے تمام پس منظر کو اپنے ذہن میں سمیٹا اور یہاں پر آکر شاید میری تحقیق مکمل ہوئی۔ جبکہ میں خود اس تانی پر لرزتے رنگوں میں سے ایک تار کو بھی ادھر سے ادھر نہیں گزار سکتا۔

    اور میری یہ انگلیاں کتنی بے ہنر ہیں۔ اس نے بغور اپنی مخروطی اور صحت مند انگلیوں کو دیکھا ہے اور ان انگلیوں کو یاد کیا ہے جن میں پشتوں کا جادو بھرا تھا، جن کی پشت پر خوب صورت اور محیرالعقول الوانیں، شالیں اور اخروٹ کی لکڑی پر ابھرتے نفیس و نازک نقش تھے۔ وہ انگلیاں، جن کے گم ہو جانے پر استاد کو نقشہ بولتے وقت روانی کی کمی بار بار محسوس ہو رہی ہے اور میں خوش ہوں قالین بننے والو کہ تمہاری سنگیت میں سے ایک سنگت اور بچھڑی۔

    پہلے تم نے ان چناروں کو گم کیا، جن کے تنوں سے ٹیک لگا کر تمہارے آباو اجداد نے الوانیں اور شالیں تیار کیں۔ تم اپنے پیلے، بدوضع اور طلسماتی نقشے ہاتھوں میں اٹھائے ادھر سے ادھر بھٹکتے پھرے۔۔۔ اور اب خیر میں خوش ہوں کہ میراتھیسس مکمل ہے اور اب تم اپنی نامکمل شکار گاہ کو بہرحال پورا کر ہی لوگے۔

    پردیسی دالان نما کمرے سے باہر نکل آیا ہے اور نیلی مرسیڈیز میں بیٹھ رہا ہے اور اس نے دیکھا ہے کہ وہ نیم برہنہ چھوٹا سا جسم آپ اپنے طور پر مکمل ہے۔ اس کا سیدھا ہاتھ جو پلاسٹر میں ہے، گلے کے ساتھ لٹکے رومال میں جھول رہا ہے۔ دوسرے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لکڑی سے وہ لوہے کے ایک بڑے پہیے کو گردش دے رہا ہے۔ کھڑکی کی سلاخوں سے کود کر باہر آتی ہوئی منجھی ہوئی گونجیلی آواز یہاں سے وہاں تک آ رہی ہے۔

    ’’فیر سات خالی، دو اریب نال، اک طوطی رنگے۔ فیر اک اریب، اک مشکی نال گلابی، فیر گیارہ خالی اک رنگے۔‘‘

    ’’آہو جی۔‘‘

    چھوٹی چھوٹی سی بےحقیقت آوازوں کا کورس باہر آیا اور لوہے کا یہ پہیہ لڑکے سمیت گلی کے نکڑ سے غائب ہو گیا۔

    ننگی مرغیاں

    ’’انہیں کپڑے پہنا دو۔‘‘

    میرا دل بار بار صدا دیتا ہے لیکن میری کوئی نہیں سنتا۔ لوگ میری بات اس لیے نہیں سن سکتے کہ انہیں باتیں کرنے کا بہت شوق ہے۔ کچ، کچ، کچ، وہ باتیں کیے جا رہے ہیں۔ ملی جلی آوازوں میں دنیا زمانے کی باتیں کیے چلے جا رہے ہیں۔ مثلاً ایک زلف بریدہ انٹلکچوئل خاتون تقریری مقابلے کے انداز میں دھواں دھار فرما رہی ہے کہ’’آج پاکستانی عورت گھر کی چاردیواری سے اس لیے نکل آئی ہے کہ اسے معیارِ زندگی برقرار رکھنا ہے۔ گھر کی آمدن اور خرچ میں توازن قائم رکھنا ہے۔ آج کی پاکستانی خاتون کے کاندھے پر دہری صلیب دھری ہے۔ وہ کما بھی رہی ہے اور خاتون خانہ کے فرائض بھی انجام دے رہی ہے۔‘‘

    ایک دوسری آواز اس تقریر کرنے والی کو مخاطب کر رہی ہے جس کی کلائی میں آدھ سیر وزن کے سونے کی چوڑیاں دمک رہی ہیں۔ ’’تو نے آج پھر چوڑیوں کا سیٹ بدل لیا ہے اور یہ چوڑیاں تو پچھلے سیٹوں کی چوڑیوں سے کہیں زیادہ چوڑی اور موٹی ہیں۔‘‘ وہ شرما گئی ہے۔

    ’’تجھے کیا دکھ ہے، میرا میاں لا کر دیتا ہے۔‘‘

    مگر چوڑیوں کا یہ چوتھا نیا سیٹ ہے۔ آواز میں رشک کا جھلساؤ ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تیرا میاں۔۔۔

    مگر ان کو کپڑے، کپڑے کون پہنائےگا۔

    میری آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن گئی ہے۔ زبان سے نکلتے ہوئے سارے الفاظ کٹ کٹ کر بکھر گئے ہیں۔ جملے کا تار و پود بکھر چکا اور اب بولنے سے زیادہ لباسوں کے کپڑوں کی قیمتیں سننا زیادہ مناسب ہے۔ سرسبزلان پر گل انار کی کھلتی ہوئی کلیوں سے لدے انار کے درخت سے ذرا پرے، پیلی پیلی قندیلوں جیسے گچھوں سے سجے املتاس کے سائے میں ہم ایزی چیئرز پر بیٹھے ہیں۔ ہمارے آگے شامی کبابوں، سموسموں اور چپس سے لدی پھندی ٹرے میں چائے کی پیالیاں دھری ہیں۔ یہ چیزیں ہم برس ہا برس سے بلاناغہ کھاتے کھاتے اکتا کیوں نہیں گئے، میں حیران ہوں۔

    بادلوں سے کجلائے آسمان تلے چائے کی پیالیوں سے اٹھتی اٹھتی گرم گرم بھاپ ایک خوشنما اور خوش رنگ منظر کی تکمیل کر رہی ہے۔

    مگر وہ، وہ جو ننگی۔۔۔

    ایک آواز اپنے لباس کی قیمت ایک سو بیس روپیہ فی گز کے حساب سے بتانے لگی ہے اور یہ اس کا روزمرہ کا لباس ہے۔ کئی آوازیں کمال ہے، حد ہے، کی صدا کے ساتھ کپڑے کی اعلیٰ کوالٹی، نفیس پرنٹ وغیرہ کی تعریف میں رطب اللسان ہو رہی ہیں۔ اس لیے ادھورے فقرے کا تاروپود پھر بکھر گیا ہے اور الفاظ شاٹ بریک کے والوں کی طرح رشتے سے نکل نکل کر پاتال میں گر رہے ہیں۔

    اور ان کو Resuming کے ساتھ یوں نہیں جوڑا جا سکتا کہ ایک صدا اب اس دکان کا پتہ دریافت کر رہی ہے جہاں ایک سو بیس روپے اور ایک سو پچاس روپے فی گز ہی کے حساب سے کپڑا ملتا ہے اور کئی آوازیں بیک وقت اور بیک زبان اس دکان بلکہ ان تمام دکانوں کا پتہ نوٹ کروا رہی ہیں۔ یعنی کہ اس کارخیر میں کئی درد مشترک ہیں کہ پاکستان کی عورت ہر صبح گھر کو اللہ کی راہ پر چھوڑ کر بسوں، رکشوں، گاڑیوں میں بیٹھ کر آمدن اور خرچ میں توازن قائم رکھنے کی خاطر منہ اندھیرے نکل پڑتی ہے اور اب یہ اس کا مقدر ہے اور یہ بھی کہ وہ باوقار پیرہن میں ملبوس رہے اور ہم نے کئی ایسی بستیوں کو۔۔۔ وغیرہ وغیرہ، تاکہ تم دیکھو اور عبرت پکڑو۔ اے آنکھوں والو! اور میں کتنی دیر سے یہ سوچ رہی ہوں کہ کیا مجھ سے بہتر۔۔۔ ہاں مجھ سے کہ میں اتنی دیر سے کچھ کہنا چاہ رہی ہوں اور میرے منہ سے نکلنے والے ہر فقرے کا تاروپود بکھرتا ہے۔ ہر شارٹ بریک کے ساتھ موتی کی لڑی ٹوٹتی ہے اور موتی سرک سرک کر پاتال کو جاتے ہیں۔

    تو گویا مجھ سے بہتر وہ نہیں جو چپ چاپ اپنے ویران کمرے کی دہلیز پر کھڑی ہم سب کو خالی خالی نظروں سے دیکھتی اور کبھی نہیں بولتی ہے اور جس کے بارے میں ہم اندازے لگاتے ہیں کہ وہ ہر جگہ پر سے سرک رہی ہے، کھسک رہی ہے وہ آف سائڈ آف دی سٹیمپ ہو چکی ہے۔

    اور ہم سب اپنے اپنے دل میں خوش، مطمئن اور مغرور ہیں کہ ہم اپنی جگہ پر قائم ہیں جبکہ وہ پھسل رہی ہے، پھسلی جائےگی اور بالکل پھسل جائےگی۔ ہم سب اسی طرح مطمئن اور مغرور ہیں جیسے ہم کسی گزر جانے والے کے قل پڑھتے وقت ہوتے ہیں کہ ہم موجود ہیں اور ہمارے ہاتھ دانوں اور گٹھلیوں پر مضبوط ہیں اور ہمارے جسم فی الحال لٹھے کے سفید کفن میں ملفوف ہونے کی بجائے ایک سو بیس سے ایک سو پچاس اور ایک سو اسی روپیہ گز کے کپڑوں میں ملبوس ہیں اور ابھی لوبان اور اگر بتیوں کی ان خوشبودار دھوؤں کے مرغولوں کے محیط سے نکل کر ہم اپنی گاڑیوں کا رخ اس بازار کی طرف پھیر دیں گے جہاں خوبرو، تنومند جوان اور ادھیڑ عمر بزاز کہ دور قدیم میں اس انداز کے پارچہ فروشوں کو بزازہی کا نام دیا جاتا تھا اور وہ علاقہ جہاں صرف پارچہ جات ہی فروخت کیے جاتے تھے، بزازے کے نام سے کیا جاتا تھا۔ مگر صدمہ تو یہی ہے کہ اس مارکیٹ کی نوعیت وہ نہ تھی کہ اس کو بزازا کہا جائے۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ بزاز، خوش رنگ، ترچھی پگڑیاں سروں پر سجائے اور ان کے شملے کندھوں پر ڈالے کپڑے کے نرم نرم ریشمیں سلسلاتے تھان ہمارے قدموں میں بچھا بچھا دیں گے۔

    ایک بار دیکھا ہے دو بارہ دیکھنے کی ہوس ہے۔

    ہلالی وضع کے طرز پر بنی مارکیٹ کی دکانیں دیکھتے چلے جانے کے بعد سوچ میں پڑ جاتی ہوں۔ کیا بات ہے؟ کیا اسرار ہے؟ پر بھید بھید ہی ہوتا ہے، اسے کھول ہی کون سکتا ہے۔ میرے ذہن میں گئے دنوں کی بازگشت ہے۔ مسلسل برستی پھوار تلے بھیگی بھیگی کیچڑ سے آلودہ سڑک پر چلتی ہوئی اس شام کے اندھیارے میں ہلالی وضع کی مارکیٹ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چکر لگا رہی ہوں۔ میرے ساتھ چھوٹو بھی بھیگ رہا ہے۔ اس کی مٹھی میں مضبوطی سے پکڑے ہوئے تین قلم ہیں جن کی نبیں وہ بدلوانا چاہ رہا ہے۔ اس کا منہ فق ہو رہا ہے، چہرے پر ہوائیاں سی اڑ رہی ہیں۔ صبح میرا امتحان ہے اور مجھے ایک امتحانی گتہ بھی چاہیے۔ ’’عجیب ہی لوگ رہتے ہوں گے یہاں۔‘‘ کیوں؟

    اس لیے کہ بازار میں صرف جوتے اور کپڑے اور عورتوں کے میک اپ کا سامان ہے۔ پھر بندہ قلم کی نب کہاں سے بدلوائے اور امتحانی گتہ کہاں سے خرید ے۔ یہاں کے لوگوں کو اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی؟ صرف۔۔۔ وہ اپنے قلموں کو تاسف سے دیکھ رہا ہے۔ اب تو اتنی رات آ گئی ہے۔

    میں اس وقت کے گزر جانے پر تاسف کر رہی ہوں جب نرسل اور کلک کے قلم چلتے تھے اور نب بدلوانے کی خاطر بازاروں میں مارے پھرنے کے بجائے چپ چاپ قلمدان سے قلم تراش نکال کر زبان خامہ تراش لی جاتی تھی۔ بندہ اطمینان سے لکھتا اور صریر خامہ سے لطف اندوز ہوتا تھا اور ہماری عمر تو نبیں بدلواتے اور نبوں والے قلم کھوتے ہی گزری۔ وہ پھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھ رہا ہے اور کسی سٹیشنری کی دکان کو تلاش کر رہا ہے۔

    اور میں، میں چاہتی ہوں کہ ا س کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دوں تاکہ وہ اور اس کی معصوم نظر عریانی کے اس بے حجاب منظر کو نہ دیکھ سکے۔

    کیوں؟

    اس لیے کہ آپ خود ہی سوچیں۔ اس سرے سے اس سرے تک پوری مارکیٹ کے تمام دروں میں برہنہ لاشیں اپنی لمبی کی ہوئی گردنوں سے ٹنگی ہوں اور نیچے آگ کے الاؤ روشن ہوں اور ننگی لاشوں کی چربی آگ کی حد ت و تمازت سے پگھل پگھل کر ساری فضا کو چراہندہ کر رہی ہے۔

    اے ستارالعیوب! اس کی ستر پوشی کون کرےگا جبکہ ہر درمیں ٹنگی ہوئی برہنہ لاشوں کے عین مقابل دکانوں میں قیمتی دکانوں میں قیمتی ریشمی نرم اور سلسلاتے تھانوں کے تھان پٹے پڑے ہیں۔ یہاں کیا، کیا یہاں کے رہنے والے صرف کپڑا پہنتے ہیں اور کچھ نہیں خریدنا چاہتے۔ یہاں اور چیزیں کیوں نہیں بکتیں؟ وہ اعتراض کر رہا ہے۔ کیوں تم کیا چاہتے ہو؟ یہاں پر کیا بکے، کیا تمہارا خیال ہے کہ یہاں مگر فورٹین اور ایف سکسٹین کی دکانیں ہوتیں۔ میں زچ ہو کر بول رہی ہوں، اس لیے کہ پھوار میں تیزی اور کٹیلا پن بڑھ گیا ہے اور سٹینڈ پر کوئی رکشہ نہیں نظر آ رہا ہے۔ ہوں بھی تو کیا حرج ہے۔ وہ میرے زچ ہونے کا نوٹس لیے بغیر کہہ رہا ہے اور حسرت سے ان قلموں کو بھینچ رہا ہے جن کی نبیں لکھ ہی نہیں سکتیں۔

    برستی پھوار کا ترشح اور کٹیلا پن بڑھ گیا ہے۔ میں اندر برآمدے میں داخل ہونا نہیں چاہتی کہ مجھ سے برہنہ عورتوں! توبہ مرغیوں کا ننگ برداشت نہیں ہوتا۔

    مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے یہ ننگی عورتیں، توبہ! ننگی مرغیاں قیمتی پارچہ جات کے مقابل میں اس لیے ٹانگی گئی ہیں کہ ان کو چڑایا جائے اور کہا جائے کہ اگر تم اپنی اور اپنے خصموں کی گاڑھی اور رشوت کی پتلی کمائیاں خرچ کرکے یہ ریشمیں سلسلاتے نرم کپڑے نہیں خریدو گی تو تمہاری زندہ لاشوں کو اس طرح برہنہ، صلیب پر ٹنگنا پڑےگا اور نیچے نار جہنم کی دہکتے انگارے جن کی حدت سے تمہاری چربیاں پگھل پگھل کر فضا کو چراہندہ کرتی جائیں گی، کرتی جائیں گی۔

    میں اس وقت یہ سب بڑی شدت سے سوچ رہی تھی۔

    لیکن یہاں ہری بھری لان پر انارکلیوں سے لدے انار کے درخت ذرا پرے ہٹ کر بچھی ہوئی ایزی چیئرز کے حلقے میں بیٹھ کر اس کے متعلق ایک حرف بھی سوچنا اور یاد کرنا نہیں چاہتی، مبادا سوچ حرف اور پھر لفظ بن جائے اور لفظوں کی قلموں کی تراوش شروع ہو جائے۔

    میں اب صرف اپنے سر پر سایہ فگن اونچے اور ہرے بھرے املتاس کو تک رہی ہوں جس میں نازک پتیوں سے بنی پیلی قندیلیں ہمارے سروں تک جھک آئی ہیں، سب بول رہے ہیں اور میں خاموش خاموش ہوں۔ اس لیے کہ وہ سب بولنے والی باتیں بول رہے ہیں۔

    اور میں، میں صرف اس کو تک رہی ہوں جو اپنے کمرے کے دروازے کے فریم میں تصویر کی طرح جڑی کھڑی ہے اور ہماری طرف حیرت سے تک رہی ہے۔ اس کی آنکھوں میں اتھاہ تنہائی اور اجنبیت ہے۔ یہ اب ہم سے نہیں ہے، اس کا Domicile بدل چکا ہے۔ اس نے اور ہی بستی بسائی ہے۔ کوئی اس کے لیے خبط کی بات سنا رہا ہے۔

    یہ اب ہاتھوں سے پرس لے لیتی ہے اور کھول کر نوٹ گننا شروع کر دیتی ہے، پھر چینج مانگنا شروع کر دیتی ہے۔ جلدی جلدی پوچھتی ہے، change ہے؟ تمہارے پاس چینج ہے، چینج ہے؟

    ’’کہیں ایسا تو نہیں یہ Change یعنی تبدیلی چاہتی ہو۔‘‘

    مگر میں یہ بات منہ سے نکالنے سے پہلے ہی اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیتی ہوں۔ مبادا لوگ یہ خیال نہ کریں کہ میں بھی۔۔۔ میں بھی۔۔۔

    میں ایسی باتیں کبھی نہیں کروں گی۔ البتہ میں اس وقت بھی اور اس وقت بھی اس آواز کو یاد کر رہی تھی جو اکثر رات کو پچھلے پہر سنائی دیتی ہے۔ سچ کتنی بھیانک اور کرب میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے، وہ آواز، وہ پکار پکار کر جیسے بستی کو خبردار کرتی ہو۔ اف خدایا، رات کے پچھلے پہر کٹیلی اور برفانی سردی میں، برستی بارش میں جب وہ آواز سنتی ہوں تو اپنے لحاف میں دبکی دبکی کانپنے لگتی ہوں۔ میرا کلیجہ کانپ جاتا ہے۔

    اس دن ننگی مرغیوں کے وجود سے پگھلتی چربی کی چراہند اور ان کے مقابل سجی ہوئی پارچہ جات کی دکانوں اور چلتے کیسٹوں کی کان پھوڑ آوازوں کے درمیان کھڑے ہو کر میں نے اس آواز کا انتظار کیا تھا کہ وہ اگر یہاں سنائی دے جائے تو میں اس سے درخواست کروں کہ یہاں پر کھڑے ہو کر اپنی اسی مہیب اور کرب آلود آواز میں ننگی مرغیوں سے خطاب کرے۔ مگر وہ آواز تو پچھلے پہر آتی ہے جب سارا عالم سوتا ہے۔ اس کے ٹرانے سے میری آنکھ کھل جاتی ہے اور میں لحاف تلے لرزنے لگتی ہوں۔

    میں نے اس کو دیکھا بھی نہیں تو پاؤں گی کہاں؟

    ارادہ کرتی ہوں کہ اسی سے کہوں کہ چلو تم ایک لیکچر دے ڈالو، مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ بولے گی ہی نہیں۔ میں نے اس وقت وہاں کھڑے ہو کر اس کو بھی یاد کیا تھا۔ اس وقت جب کہ ایک نوجوان لڑکی اپنی ماں کی بانہہ کھینچ کھینچ کر بڑی التجا سے سامنے پھیلے ہوئے رنگوں کی قوس قزح کی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ اس کے بال کٹے ہوئے تھے۔ چہرے پر ایک قسم کی جھینپ تھی جس میں کرب کی آمیزش نے اس کے بھولے بھولے چہرے کو دھواں دھواں کیا ہوا تھا۔ میں نے پہلی بار اس پر نظر ڈالی تو مجھے شک ہوا، شاید یہ تاثر۔۔۔ ننگے بدن ٹنگی ہوئی ان لاشوں نے قائم کیا ہے جو دروں میں سجے ہوئے آتش کدوں کے ساتھ ساتھ قطار در قطار ٹنگی ہوئی تھیں اور ان میں سے کچھ سیخ پر چڑھی ہوئی تھی اور ان کی چربی شعلوں کی حدت و تمازت سے پگھل پگھل کر فضا میں چراہند پھیلا رہی تھی۔

    پیراہن پوش موٹی موٹی مرغیاں قوں، قوں، کرتی دکانوں میں آ رہی تھیں، جا رہی تھیں، قوں، قوں۔۔۔ جو ٹیلرز کی دکان میں انگوٹھیوں کو انگلیوں میں پھنساتی اور پھر اتارتی ہوئی۔ میں نے دوبارہ لڑکی کے چہرے پر نظر ڈالی اس مرتبہ تاثر واضح تھا۔ یہ وہ تاثر نہ تھا جو زمانے کی برہنگی پر نظر پڑنے سے پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ وہ جھینپ تھی جس کو نفسیات والوں نے احساس کمتری کا نام دیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ زمانے کی برہنگی کو دیکھ کر شرمانا لاحصل ہے۔ اصل بات تو ذات کی برہنگی پر جھینپنا ہے اور وہ خود اپنی ذات پر جھینپ رہی تھی کہ انسان کی برہنگی اس پیراہن سے بہتر ہے جو گھٹیا سودیشی کپڑوں سے تیار کیا گیا ہو۔ آج کا تو درزی بھی ایسے پارچے کو ہاتھ لگاتا ہے تو سو بار دھونے کے بعد بھی اپنے ہاتھ کو ناپاک ہی تصور کرتا ہے جیسے وہ غلاظت اس کی انگلیوں سے لپٹ کر رہ گئی ہو۔

    اے دل نادان۔۔۔ بے وجہ اس فقرے کی بازگشت تکرار اور اعادہ میرے اندر وجود میں آیا ہے اور اب میں حیران ہوں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ ابھی تو مجھے ماں کے چہرے کے تاثرات سے دوچار ہونا ہے۔

    اور ماں خجل ہے، پریشان ہے، شرمندہ ہے۔ دراصل اس کی حیثیت ایسی نہیں کہ اس کو اس بازار میں آنے کا اذن دیا جائے۔ کیا تم بھی میری طرح لاحاصل کی تلاش میں ہو، سٹیشنری اور بک سٹال کی تلاش۔ کیا تم کو تو خبر نہیں لوگ اب بک سٹال رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے کہ کتاب مہنگی ہے اور پیراہن پوش مرغی کتاب کی دکان میں داخل ہونا حماقت سمجھتی ہے۔ حماقت ہی تو ہوئی نا۔ پیسے اور وقت دونوں ہی کا زیاں کرنا حماقت ہی تو ہے۔ گھاٹے کا سودا۔

    لیکن میں اس سے یہ سوال نہیں کر سکتی جب کہ میں اس کو جانتے ہوئے بھی اس سے یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کر سکی کہ تم لوگوں کے پرس لے کر اس میں کیا تلاش کرتی ہو، چینج کیوں مانگتی ہو؟ چینج سے تمہاری کیا مراد ہے، تبدیلی یا پیسہ؟

    دیکھو لوگو! ہم کتنے بزدل ہوتے ہیں۔ ہم ایک سوال بھی نہیں کر سکتے۔ اندھیری سرد رات کے سناٹے میں ننگی اور ویران سڑکوں پر اس کی آواز گونج رہی ہے اور میں اپنے نرم گرم لحاف کے اندر دبکی ہوئی لرز رہی ہوں۔ بعض باتوں، بعض آوازوں اور بعض خاموشیوں میں کتنی ہیبت ہوتی ہے۔

    مگر نہیں، میں تو اس ہلالی وضع کی مارکیٹ میں کھڑی ہوں جس کے ایک در کے ستون کی آڑ میں کھڑی وہ لڑکی ملتجی نگاہوں سے اپنی ماں کو خوبصورت اور قیمتی تھانوں سے معمور دکانوں کے اندر جانے کی ترغیب دے رہی ہے۔ اس کی ماں کی آنکھیں خالی ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں اب کچھ نہیں نظر آ رہا ہے۔ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ وہ بھی اپنا Domicile بدل لے گی اور میں اس مارکیٹ کے در کی بجائے پیلی پیلی قندیلوں والے املتاس کی گہری سبز اور گھنیری چھاؤں کے ایزی چیئر پر بےفکری سے بیٹھی ہوں۔ ہمارے سامنے موسموں اور کریم رولز سے لدی ہوئی ٹرے سجی ہے اور پیالیوں سے چائے کی گرم گرم بھاپیں اٹھ اٹھ کر فضا میں تحلیل ہو رہی ہیں۔ کمزور جذبوں اور بودی تمناؤں کی طرح اور اب مجھے خوف ہے کہ ماں لپکتی ہوئی آکر میرے ہاتھ سے پرس چھین لےگی، اسے کھولےگی، بند کرےگی۔

    چینج ہے؟ چینج ہے؟

    میں چپکے چپکے دل میں دعا کر رہی ہوں کہ یہ ایسا نہ کرے آج ہی تو وہ پھسلتی پھسلتی ہمارے درمیان سے نکل کر وقت کے پانیوں کے گہرے بھنور میں جاگری ہے۔ تین نوجوان لڑکے شاید یونہی مٹر گشتی کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک حیرت سے چاروں طرف دیکھتا ہے۔

    تعجب ہے، یہاں اور کچھ نہیں بکتا۔ وہ شاید خودکلامی کرتا ہے۔ یہ لڑکا بہت توانا اور بھولی بھالی شکل والا ہے۔

    مگر دوسرا جو بےحد قیمتی لبا س میں ملبوس اور طرح دار ہے، اپنے گلے میں پھنسی ہوئی ٹائی کو ڈھیلا کرتے ہوئے ایک واضح جواب دیتا ہے۔

    نہیں یار، یہاں کیا نہیں ملتا، سب کچھ مل جاتا ہے۔ وہ حیرت سے کبھی ٹیلرز کی دکانوں اور کبھی پارچہ فروشوں کی دکانوں کی طرف دیکھتی ہوئی لڑکی کی جانب دیکھ کر آنکھ مارتا ہے، لڑکی مسکرا دیتی ہے۔ جواباً سیدھی آنکھ کے گوشے کو دبا کر گھوم جاتی ہے۔

    ماں اور بھی زیادہ نروس ہونے لگی ہے اور وہ اپنا بٹوہ تیزی سے کھول رہی ہے اور بند کر رہی ہے۔

    دیکھو! تم اپنا بٹوہ بند کر لو اور کسی سے نہ پوچھنا کہ چینج ہے؟ میرا جی چاہ رہا ہے کہ آگے بڑھ کر اس سے کہوں۔ مگر میں جانتی ہوں کہ میں کچھ نہ کہہ سکوں گی۔ میں تو اس سے بھی کچھ نہ کہہ سکی تھی۔ جب وہ آخری مرتبہ چارج دینے لائی گئی تھی۔ ہم سب اسی طرح املتاس کے پیلی قندیلوں سے مزین گھنے پیڑ کے سائے میں اپنی ایزی چیئرز پر اس طرح جکڑے بیٹھے تھے جیسے کسی نے ہمیں میخوں سے گاڑ دیا ہو۔ ہم سب اس کے چہرے کے اس کرب کو اس طرح دیکھتے رہے جیسے ٹیلیویژن کی سکرین پر کوئی المیہ ڈرامہ ہو رہا ہو اور ہم اس کو محویت سے انجوائے کر رہے ہوں۔ وہ لمحہ جو چارج دینے سے متعلق تھا، اس پر کیسا گزرا، اس کا ابلاغ کیسے ہوتا، جبکہ مکالمہ ساقط تھا اور ہم ابھی ایکشن کی تفہیم کا حوصلہ اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتے، اس لیے کہ ہم مصروف ہیں۔ جدید عہد کی جدید مصروف خواتین۔ تاہم اس کے بعد ہم نے اس کی پوری قوت سے گیٹ کی طرف یوں دوڑتے دیکھا جیسے بندوق سے گولی نکل کر اپنے ہدف کی طرف لپکتی ہے۔ گیٹ کا چھوٹا دروازہ اگرچہ کھلا تھا لیکن اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چیر کو بڑے در کو وا کیا اور صحرا کی بادسموم کی طرح نکل گئی تھی۔

    اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں ایسے صحرا میں کھڑی ہوں، جہاں سناٹا ہے، تھور کے درخت ہیں، ننگی مرغیاں ہیں اور ان کے اندر سے پگھلتی ہوئی چربی کی چراہند ہے جو اپنے ہی محور پر یوں رک گئی ہے کہ یہاں اب ہواؤں کے قدم تھم چکے ہیں۔

    بارش کی چھما چھما چھم کی آواز میں تیزی آ گئی ہے۔

    اے لوگو! سنو، جب تم بے لباسوں کو لبادے اوڑھنے پر آمادہ نہ کر سکو تو اپنی نگاہیں نیچی کر لو۔ لحاف کی نرمی اور گرمی تلے لرزتے ہوئے سنی ہوئی یہ صدا اس وقت یہاں صاف سنائی دے رہی ہے۔ سامنے والی کھڑکی کے تن سے دھیرے دھیرے وہ لباس سرک رہا ہے جس پر وہ شرمسار تھی۔ ننگی اور لمبی گردنوں والی برہنہ لاشیں ہی لاشیں، میں نے گھبراکر نظر نیچی کر لی اور سڑک کی طرف دیکھا۔ ایک رکشہ دھڑ دھڑ کرتے، دھیما ہوتے ہوئے مجھے مخاطب کر رہا تھا۔ میں ایک ہی جست میں رکشہ کے اندر تھی۔ دوسرے لمحے میں نے محسوس کیا، چھوٹو کے چہرے کے ملال میں اضافہ ہو گیا اور وہ بغیر نبوں والے قلموں کو بڑے تعلق سے اپنی مٹھی میں بھینچ رہا تھا۔ فکر نہ کرو بیٹا۔ میں تم کو اپنا قلم دے دوں گی۔

    رکشہ کے گھپ اندھیرے میں میں صاف طور پر دیکھ سکتی تھی کہ یہ سنتے ہی اس کی لمبی لمبی خوبصورت آنکھوں میں جگنو سے جھمک اٹھے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے