aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دس سروں والا بجوکا

پرویز شہریار

دس سروں والا بجوکا

پرویز شہریار

MORE BYپرویز شہریار

    یہ اُس وقت کی بات ہے کہ جب پریم چند کی کہانی کا ’ہوری‘ پچہترسال کا ہو چکا تھا۔ سارے بال سفید ہو چکے تھے۔ چونکہ وہ ایک کسان کا بیٹا تھا، اس لیے ہاتھ پاؤں کے پٹھے اور عضلات اب بھی صحیح سلامت تھے۔البتہ اب وہ اونچا سننے لگا تھا۔افرادِ خانہ کا خیال تھا کہ باپو اپنے مطلب کی بات بہت جلدی سن لیتے ہیں لیکن جس میں ان کا کوئی فائدہ نہ ہو وہ بات انھیں سنائی نہیں پڑتی، چاہے ان کے آگے ہم اپناکتنا بھی گلا پھاڑ لیں۔

    دریں اثنا،ہوری کا بیٹا گوبردھن پڑھ لکھ کر دہلی آئی آئی ٹی میں پروفیسر ہو گیا تھا۔ سونا اور روپا بھی اپنی اپنی سسرال سدھار چکی تھیں۔اس کے بیٹے نے ہوری کو بہت سمجھایا تھا کہ زمانہ بدل چکا ہے اب کھیتی باڑی چھوڑ کے وہ بھی شہر میں آکر آرام سے رہے اور زندگی کے بقیہ دنوں کا لطف اُٹھائے۔گوبردھن ہوری کو اپنے ساتھ رکھنے کو تیار تھا، لیکن ہوری نے اس کی ایک نہ سُنی۔

    ”ماٹی ہمارا جیون ہے۔“ہوری نے کہا تھا۔”اس سے جنموں کا ناطہ ہے۔ اسے ایک دم سے ہم کیسے چھوڑ دیں۔“

    بچے بے بس تھے۔ انھوں نے ہوری اور دھنیا کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ وہ اپنے اپنے بچوں کے کیر ئر کو لے کر فکر مند تھے۔ ان کے اپنے مسائل تھے۔انھیں اپنے بچوں کی خوشیاں بھی عزیز تھیں۔

    دراصل، گاؤں اور شہر کے معیارِ زندگی میں بڑا فرق آچکا تھا۔نشست و برخاست کے آداب میں بڑا بدلاؤ آگیا تھا۔شہر میں گوبر کا اپنا ایک رُتبہ تھا، ایک حیثیت تھی۔ اُس کے احباب کا ایک اچھا خاصا حلقہ تھا۔

    کہتے ہیں کہ بیٹا اگر اپنے دوستوں سے اپنے باپ کا تعارف کراتے ہوئے شرمائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ خاندان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ہوری اور دھنیا جب کبھی اپنے بیٹے کے یہاں جاتے تو ان کے دوستوں کی آمد پر انھیں گھر کے اندرونی کمروں میں منتقل کر دیا جاتا تھا، مبادا مہمان ان دیہاتوں کودیکھ کر ان کا تمسخر نہ اُڑائیں۔

    یہ بات ہوری کو اندر سے کھائے جاتی تھی اور اسے ایک ہتک سی محسوس ہوتی تھی۔ اس بار ہوری اور دھنیا شہر گئے تو جلدی ہی گاؤں واپس لوٹ آئے۔اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ فصل کی کٹائی کا وقت نزدیک آگیا تھا۔گاؤں آتے ہی انھیں بڑی راحت محسوس ہوئی تھی۔ گاؤں میں انھیں ہر طرف شناسا چہرے نظر آتے۔لوگ باگ آکر ہوری کاکا سے ان کا حال چال پوچھتے۔ یہ سب ہوری کو اچھا لگتا تھا۔”یہاں کتنی اپنائیت ہے، لوگوں میں۔ گاؤں کی مٹی تک سے پاؤں مانوس ہیں۔“ہوری نے سوچا۔”اجنبی دھرتی پر قدم لڑکھڑانے سے لگتے تھے۔“

    گاؤں میں رہ کر وہ خود کو بہت سکھی محسوس کرتے تھے۔

    وہ دونوں بیٹا کے پاس ہوتے تو انھیں گاؤں کی یاد ستاتی اور جب گاؤں واپس جاتے تو انھیں اپنے پوتے، پوتیوں کی یادیں فکر میں مبتلا کر دیتی تھیں۔دھنیا اکثر بیمار رہنے لگی تھی۔ اسے زیادہ سوچ فکر کرنے کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر کا مرض لاحق ہوگیا تھا۔ڈاکٹروں نے اسے زیادہ چنتا نہ کرنے کی صلاح دی ہوئی تھی۔دھنیا کا بس ایک ہی ارمان رہ گیا تھا۔وہ اپنی پوتی کی گود ہری دیکھنا چاہتی تھی۔

    وہ اپنے تین تین بچوں کی شادیوں میں ہاتھ تنگ ہونے کی وجہ سے کچھ بھی نہ کرپائے تھے۔لیکن اب وہ کافی فارغ البال ہوچکے تھے۔اب ان کی خواہش تھی کہ بڑی پوتی نین تارا کی شادی وہ بہت دھوم دھام سے کریں گے۔بڑھاپے میں دونوں ایک دوسرے کی سوچ سے اس قدر مانوس ہوچکے تھے کہ ایک کے ذہن میں کیا چل رہا ہے دوسرے کو خود بخود پتا چل جاتا تھا۔دونوں میں، اب بھی وہی پرانی ہم آہنگی برقرار تھی بلکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید پختگی آگئی تھی۔

    جب دھنیا نین تارا کی دھو م دھام سے شادی کرنے کی بات سوچ رہی تھی تبھی ہوری بول اٹھا ”گیہوں ں کی پکی ہوئی بالیاں کٹائی کے لیے تیار کھڑی ہیں۔“گیہوں کی لہلہاتی ہوئی سنہری بالیوں کی طرف ہاتھ سے دکھاتے ہوئے ہوری نے اپنی بات جاری رکھی۔”لکشمی دیوی کی کرپا سے اب کی فصل اچھی آئی ہے۔سوچتا ہوں۔نین تارا کا منگیتر آئی اے ایس آفیسر ہے اس کی شادی بھی اسی شان سے ہونی چاہیے۔امسال مزدوروں کی پائی پائی مزدوری چکادی ہے۔اس لیے نسچنت ہوں کہ پورے کا پورا گیہوں سیدگے سرکاری گودام میں پہنچا کر اچھی رقم کھڑی کرلوں گا۔

    دھنیا چین کی لمبی سانس لی۔”شکر ہے تمہیں میری ترکیب سمجھ میں آگئی ورنہ ہر سال کی طرح اس سال بھی وہی رونا روتے کہ ادھیہ بٹائی کے دینے پڑیں گے۔

    .....ابھی دھنیا نے اپنا آخری جملہ زبان سے ادا کیا ہی تھا کہ وہ کھیت کے آخری سرے پر جہاں زمین اور آسمان مل رہے تھے،کچھ دیکھ کر ٹھٹک سے گئے ہھیاروں سے لیس نکسلیوں کا پورا قافلہ نہر کے کنارے سے گزر رہا تھا۔دور سے دیکھنے پر ایسا محسوس ہوتا تھا گویا چیوٹیوں کی لمبی سی لکیر اپنے صراط مستقیم پر رینگ رہی ہے۔لیکن اصل میں،اس لرزہ بر اندام کر دینے والے منظر نے کچھ دیر کے لیے ان کے اوسان خطا کر دیے تھے۔آئے دن نکسلیوں ہلا بول سے زمین زمین داروں کی نیند یں حرام ہورہی تھیں۔

    اس نے سوچا۔”یہ معمولی سی چیونٹیاں بھی اگر اکھٹی ہو جائیں تو کتنی شکتی شالی ہوجاتی ہیں۔“ اچانک اسے محسوس ہواجیسے بے شمار چیونٹیاں اس کے اعصاب پر،اس کے دل و دماغ پر رینگتی چلی آرہی ہیں۔اس خیال سے لمحہ بھر اس کا سارا بدن سہر اٹھا اور اس کی زبان گنگ ہوگئی۔

    لیکن مستقبل کا خواب اتنا زبردست تھا کہ اس کے میٹھے میٹھے رس سے وہ دونوں ایک بار پھر مسرور ہو اٹھے۔پکی ہوئی فصل دو تین روز میں کٹنے والی تھی۔کھیت کے بیچو بیچ بجوکا کھڑا آج کچھ عجیب انداز سے مسکرا رہا تھا۔ہوری نے محسوس کیا،اس کی معنیٰ خیز مسکراہٹ کے پیچھے کوئی راز چھپا ہوا ہے جس سے وہ محظوظ ہورہا ہے۔لیکن دوسرے ہی لمحہ اس نے ایسے لایعنی خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔بجوکا بھی بھلا مسکرا سکتا ہے؟ اس نے اسے گھر کے پھٹے پرانے کپڑوں سے بنا کر خود اپنے ہاتھوں سے اس کھیت میں کھڑا کیا ہے۔اس میں اتنا سعور کہاں کہ وہ مسکرا بھی سکے۔ضرور یہ اس کا وہم ہوگا۔معااس کے دماغ میں بیتے دنوں کی یاد تازہ ہوگئی۔

    دور غلامی میں جب انگریزوں کا راج پاٹ تھا۔لال پگڑی اور خاکی وردی والا ایک سپاہی بھی گاؤں سے گزرجاتا تو اسے دیکھ کر لوگ باگ خوف سے کانپ اٹھتے تھے۔اس قدر رعب تھا کبھی ان کا ہم ہندوستانیوں پر۔

    لیکن اب ہم آزاد ہیں۔ہماری اپنی حکومت ہے۔پرشاسن بھی اپنا ہے۔اپنی عدالت ہے اور پولیس بھی ہماری اپنی ہے۔نہ مہاجن گلا دباتا ہے نہ لگان کی وصولی کا خوف ہے اور نہ ہی زبردستی۔کیسے اچھے دن آگئے ہیں۔جیسے دن چاہے جیؤ۔جیسے جی چاہے کھاؤ۔جیسے جی چاہے پیؤ!

    ”سنا ہے نکسلیوں نے بڑے ٹھا کر کے بیٹے کو اگوا(اغوا) کرلیا ہے؟“

    دھنیا نے جب اپنی مری سی آواز میں ہوری سے دریافت کیاتو اس کے چہرے سے گہری تشویش ظاہر ہورہی تھی۔

    ”ہاں!پر اس سے ہمارے باپ کا کیا جاتا ہے۔“ہوری نے قدرے لا پروائی سے جواب دیا۔”پھروتی کی رقم نہ ملنے پر انھوں نے اسے جان سے مار دینے کی دھمکی بھی دی ہوئی ہے۔“ ہوری نے یہ بار کچھ اس انداز سے کہی گویا دھنیا کو فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ لیکن .... دھنیا اس جواب سے با لکل بھی مطمئن نہ تھی۔ اس کے باوجود ہوری سے مزید سوال پوچھ کر اسے پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی۔وہ چپ چاپ ہوری کے پیچھے پیچھے پگڈنڈی پر قدم جما کر برابر چلتی رہی۔شہر سے آکر سب سے پہلے وہ اپنے کھیت پر گئے تھے۔وہاں سے جب سب کچھ ٹھیک ٹھیک پایا تو گھر آکر دونوں نے اطمینان کی سانس لی تھی۔

    ہوری لمبی مسافت سے تھک چکا تھا۔اپنے ہاتھ منھ پونچھنے کے بعد انگو چھا کندھے پر پھینکتے ہوئے اس نے کہا۔

    ”میں ثابت کردوں گا کہ گوبر دھن کا خیال غلط ہے۔

    میرا بڑے شہر کو ہجرت نہ کرکے گاؤں میں رہنے اور اپنے پرکھوں کی زمین پر کاشت کرنے کا فیصلہ کتنا صحیح ہے۔“

    دھنیا گڑ کی کچھ بھیلیاں اور ایک لوٹا کنوے کا تازہ کھینچا ہوا ٹھنڈا پانی رکھ کر ایک طرف بیٹھ گئی اور حقہ کے لیے چلم تیار کرنے لگی۔

    ”ایشور کی دیا سے آج ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں۔“ دھنیا نے کہا ”ہم پوتی کی شادی میں دل کھول کر خرچ کرنے کی چھمتا رکھتے ہیں۔“

    دھنیا!تم بس دیکھتی جانا،ہم اپنی پوتی کا بیاہ کس دھوم سے دھام سے کریں گے۔“

    ہوری نے یہ بات چیلم کا کش لگاتے ہوئے کہی۔”دنیا،سماج سب عش عش کرتے رہ گائیں گے۔“

    ان کے یہ جذبے اور یہ سوچ ہوری ہوری اور دھنیا کو ایسے بڑھاپے میں بھی اندر سے توانائی اور سر خوشی بخش رہے تھے۔اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔دھنیا نے جا کے باہر کا دروازہ کھولا ڈاکیہ کھڑا تھا۔اس نے دھنیا کے ہاتھوں میں ایک خط تھما دیا۔وہ دونوں خط پا کر اچانک حیران رہ گئے۔

    دھنیا نے ہوری کے ہاتھ میں خط دیتے ہوئے پوچھا۔’]سب ٹھیک ہے نا؟ خط میں بیجھنے والے کا نام پتا نداردتھا۔

    ہاتھ میں خط لیے وہ دونوں حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔تھوڑے پس و پیش کے بعد لفافہ چاک کیا تو خط کے مضمون نے انھیں ایک دم ہلا کر رکھ دیا۔

    ہوری کاکا لال سلام!

    ہماری عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ گیہوں کی فصل میں سے ایک چوتھائی کے حصے دار تم بھی ہو۔ہم تمہاری پوری فصل نہیں اٹھائیں گے۔پورنیماشی کی را ت تمہارے گیہوں کی کٹائی ہوجائے گی۔تم اپنے حصے کا گیہوں دالان میں رکھواؤ گے یا منڈی بجھواؤ گے اس تمہیں پورا پورا ادھیکار ہے۔

    جلد بازی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اسی رات بتا دینا کہ کیا کرنا ہے؟

    اور ہاں! خبردار جو کسی بھی طرح کی ہوشیاری دکھائی یا پولیس میں خبر کی، تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔

    پرندوں سے حفاظت کرنے والا

    تمہارااپنابجوکا

    ہوری نے خط کا آخری فقرہ پڑھا تو بجوکا کا زہر خندمسکراہٹ میں لپٹا ہوا چہراہ ایک دم سے اس کے تصور میں گھوم گیا۔بجوکا کے راون کی طرح دس سر نکل آئے تھے اور وہ اس کی بے بسی پر زور زور سے قہقہے لگا رہا تھا۔

    ہوری نے انگوچھے سے اپنے ماتھے کے پسینے پونچھے اور زیرلب بڑ بڑا یا۔

    ”اب پتا چلا۔کولین اس وقت کھیت میں کھڑا کیوں مسکرا رہا تھا۔“

    دھنیا کچھ نہ سمجھ سکی اور وہ خالی خالی سی ہو ری کا منہ تکتی رہ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے