Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیوار اور دروازہ

انور سجاد

دیوار اور دروازہ

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    رات،

    دس بجنے میں پانچ منٹ۔

    اس نے دروازے کی اوٹ میں ہوکر سوچا، ایک دفعہ اس دروازے سے باہر قدم رکھ لوں پھر میں آزاد ہی آزاد ہوں۔

    لیکن ہسپتال کے پورچ میں بڑی تیز روشنی تھی اور چوکیدار ہاتھ میں ڈانگ لیے ٹہل رہا تھا۔ پورچ سے ذرا آگے سرمئی سے اندھیرے میں دھندلی سی دیوار تھی۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہاں سے وہ نکل تو جائےگا مگر سامنے کی دیوار کو کیسے پھلانگےگا کہ اس نے دروازے کی اوٹ سے ذرا جھانک کر دیکھا تھا اور اسے اس دیوار میں دور تک کوئی دروازہ نظر نہیں آیا تھا۔

    اس وارڈ کے بیرے کم بخت نے مجھ سے پانچ روپے رشوت بھی لی اور یہ بتایا ہی نہیں کہ پورچ کے سامنے دیوار ہے جس میں دروازہ کوئی نہیں۔ اگر دیوار نہ ہوتی تو بھی میں اس روشنی کے جال سے بچ کر کیسے نکلوں گا۔ اس کی نگاہیں پھر دیوار کو ٹٹولنے لگیں، یہ تو وہی دیوار ہے اور وہی سایہ ہے میرا۔ پورچ میں گرڑ گرڑ کی آواز دو روشن آنکھوں میں بجھی۔ چوکیدار ڈانگ سڑک پر کھڑکا تا ایمبولینس کے ڈرائیور کی طرف بڑھا۔

    دیوار کا بندوبست بعدمیں ہو جائےگا پہلے میں یہاں سے تو نکلوں۔ وہ مزید کچھ سوچے سمجھے بغیر وہاں سے دبے پاؤں نکل آیا اور ایمبولینس کی آڑ لے کر دبے پاؤں پورچ سے نکل گیا۔

    یہ دیوار کہاں گئی۔ اوہ وہ رہی سامنے اپنی جگہ سے کھسک گئی یا پہلے ہی وہیں تھی۔

    وہ اندھیرے اورروشنی کے گھلتے ہوئے سرمئی تالاب میں کھڑا تھا۔ اس نے گھوم کر دیکھا، کائیلٹی کے بیرے زخمی کو ایمبولینس سے نکال رہے تھے اور چوکیدار ایمبولینس کے ڈرائیور سے سگریٹ لے رہا تھا۔ بے حس و حرکت زخمی کو دیکھ کر اسے جھرجھری آ گئی۔ اس نے چہرہ پھر سامنے دیوار کی طرف کرلیا اور ایک بار پھر دروازہ۔

    نہیں دروازہ ہو تو نظر آئے اور یہ یہ دیوار اندھیرے میں گھل۔۔۔ اوہ نہیں میں نے وارڈ بیرے پر پانچ کانوٹ ضائع نہیں کیا یہ دیوار تو دیکھتے ہی دیکھتے میری آنکھوں میں گھل رہی ہے گھل گئی ہے اچھا اس نے مجھے بتایا تھا کہ اگر میں دائیں طرف گیا تو ممکن ہے پکڑا جاؤں اور اگر اس بغل والی عمارت کے ساتھ ساتھ چل کر بائیں جانب مڑا تو بڑے دروازے سے باہر نکل جاؤں گا۔

    رات اندھیری تھی۔ پورچ کی روشنی دالان میں پارکنگ کی جگہ کھڑی کاروں تک بھی نہیں پہنچ پا رہی تھی۔

    کوئی بھی تو نہیں دیکھ رہا!

    نہیں

    ڈیوٹی کے سپاہی بھی ہسپتال کی کینٹین سے چائے پی کر کائیلٹی میں زخمی کی رپٹ درج کرنے چلے گئے تھے۔ چوکیدار ایمبولینس ڈرائیور کے ساتھ گپ لگاتے ہوئے ایمبولینس وین کا ٹائر ڈانگ سے بجانے میں مصروف تھا۔ دور اکادکا آف ڈیوٹی نرسوں کے سائے اپنے دوستوں سے جداہوکر جلدی جلدی اپنے ہوسٹل کی جانب بڑھ رہے تھے۔ کافی دور مین گیٹ کا چوکیدار ایک کار روکے کھڑا تھا جو کہ باہر جانے کے راستے سے اندر آرہی تھی اسے دیکھ کر وہ مسکرایا۔

    بھلا یوں بھی کبھی ہوا ہے کہ باہر جانے کے راستے سے اندر۔۔۔ ہوں اور تو کوئی نہیں صرف کتوں کا راج ہے۔

    اے اے بھونکنا نہیں۔

    کتوں کو اس پر بھونکنے کی فرصت نہیں تھی، وہ آپس میں بہت مصروف تھے۔ کہیں وہ چوکیدار اس کار والے کو اس طرف سے اندر آنے کی اجازت نہ دے دے ورنہ میں کار کی روشنی میں۔۔۔

    اور کار آہستہ آہستہ گیٹ سے اندر بڑھنے لگی۔ سرمئی تالاب میں کھڑے کھڑے اس کا سانس پھول گیا۔

    نہ نہ نہ روشنی بند کر دو ورنہ وہ مجھے پکڑ کر لے جائیں گے وہ وہ دیوار کم بخت وہ سامنے کی عمارت ہاں وہ رہی لعنت ہے مجھے گھبرانا نہیں چاہیے۔

    وہ اندھیرے میں بے تحاشا بھاگنے لگا۔ سامنے عمارت تک پہنچتے اسے صدیاں بیت گئیں۔ اس نے ہانپتے ہوئے عمارت کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگالی۔ تو یہ وہ دیوار نہیں ہے یہ تو اینٹوں کی دیوار ہے۔ اس نے اپنے سانس پر قابو پاتے ہوئے دیوار کا جائزہ لیا۔ اس میں تو دروازے کھڑکیاں بھی ہیں تو وہ دیوار نہیں ہوگی شاید میری آنکھوں میں جھلی آ گئی ہو۔

    وہ دیوار سے پیٹھ لگائے اس کے ساتھ ساتھ کھسکنے لگا۔ عقب سے تو وہ بالکل محفوظ تھا کہ دیوار کے ساتھ چپکا ہوا کھسک رہا تھا۔ اگر کوئی پیچھا کرتا آئےگا تو اس کے سامنے ہوگا۔

    چرررررر

    اس کا ہاتھ فوراً ہینڈل پر جاپڑا اور پشت کے بل گرتے گرتے بچا،

    دروازہ۔

    اس نے غور سے دیکھنے کی کوشش کی۔ اس کی آنکھیں اندھیرے میں سیاہ ہو گئیں یا روشنی میں اندھی، اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اس کی آنکھوں کو کیا ہو گیا ہے۔ میں سرمئی تالاب کی تہہ میں پہنچ گیا ہوں یا۔۔۔ اس نے دروازے کے ہینڈل سے ہاتھ اٹھاکر اپنی آنکھیں ملیں، کئی روشن داغ مختلف سمتوں سے آکر ملے اور پگھلی کولتار کاداغ ہنستا ہنسا سیاہ قبا پر پھیل گیا۔

    کسی اختلاف پر کتے بھونکے۔ وہ دبک کر، اندھیرے کی اوٹ میں ہو گیا۔ دالان میں چند سائے حرکت کر رہے تھے، بھونکتے رہو کتے کے بچو، اس نے دروازہ بند کر دیا۔ کتوں کی آواز ڈوب گئی۔

    ’’کووو و ون؟‘‘

    اتنی گونج تو گویا میں کسی بہت بڑے ہال میں آ گیا ہوں۔

    کسی کے ہاتھ میں دائرہ ساروشن ہوکر اس کے چہرے پر مرکوز ہو گیا،

    ’’کون ہو تم؟ بولو وووو۔‘‘

    ’’میں؟‘‘ وہ آنکھیں جھپکتا روشنی کے دائرے کی طرف بڑھا۔

    میں؟ میں؟

    ٹارچ والے نے روشنی کا دائرہ اس کے چہرے پر رکھا اور قریب ہی دیوار کی طرف دوسرا ہاتھ بڑھایا۔ ہال روشن ہو گیا۔ ٹارچ بجھ گئی وہ اس سے پوچھنا چاہتا تھا یہ کون سی جگہ ہے لیکن اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ سب کچھ بھول گیا۔

    کتنا سیاہ رنگ ہے اس کا۔۔۔ تو اندھیرے میں نظر نہیں آیا ٹارچ کی روشنی میں بھی۔۔۔ اور اوراس کی آنکھ بھی تو ایک ہے سائیکلوپس۔

    پورے دس بجے ہیں۔

    اس کی نظریں سامنے دیوار پر لگے کلاک سے اتر کے ہال میں گھومنے لگیں۔ ہال کے اس شروع سے لے کر اس شروع تک لوگ پلاسٹک کی سفید چادریں تانے محو خواب تھے، یہ بھی ہسپتال۔ وہ گھبراہٹ میں مڑا، لیکن یہ مریض تو پلنگوں کے بجائے پتھر کی میزوں پر پڑے ہیں۔ پہلی مرتبہ، یہاں مدتوں سے بسنے والی بونے اس کی ناک کو چیرا۔ یہ یہ بو وارڈ کی بو سے بہت مختلف اور بہت تیز ہے، سو ں سوں

    پہلی یا آخری میز کے قریب کھڑے تنہا آنکھ والے نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا،

    ’’تو تم ہسپتال سے آئے ہو۔ ہوں؟ فرار ہوکر۔‘‘

    ہال کو اونچی چھت سے فرش کوملاتے ستون، محرابیں، غٹرغوں، غٹرغوں، روشن دانوں میں کبوتر پھڑپھڑائے۔ یہ بو کیسی ہے؟ وہ ابھی فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ یہ خوشبو ہے یا بدبو سوں سوس۔

    ایک آنکھ والے نے اپنے موٹے موٹے سیاہ ہونٹوں پر پھیلی طنزیہ مسکراہٹ کو برقرار رکھتے ہوئے کہا،

    ’’یہ فارملین کی خوشبو ہے۔۔۔ تم گونگے ہو؟‘‘

    اس نے ایک بار پھر اسے غور سے دیکھا۔ تنہا آنکھ والے کی واحد آنکھ ماتھے کے وسط میں نہیں تھی۔۔۔

    ’’نہیں سائیکلوپس۔‘‘

    ’’تو پھر تم بولتے کیوں نہیں؟‘‘

    بلکہ اس کی دوسری آنکھ کی جگہ بالکل سپاٹ تھی۔

    ’’میں، اس۔ اسٹول پر بیٹھ جاؤں؟‘‘اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ’’میں بہت تھک گیا ہوں۔‘‘

    ’’اگر تم ہسپتال سے پورا علاج کروا لیتے اور ڈاکٹر تمہیں خود ڈسچارج کرتے تو یہ نقاہت۔۔۔‘‘

    ’’میں بیٹھ جاؤں؟‘‘ اس نے بات پلٹنے کی کوشش کی۔

    ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ وہ مسلسل مسکرارہا تھا۔ ’’ہوں، اب بتاؤ تم وارڈ سے کیوں بھاگے؟‘‘

    ’’وارڈ؟‘‘ اس نے بڑی معصومیت سے کہا، ’’میں تو ہسپتال میں داخل ہی نہیں ہوا کبھی۔‘‘

    ’’جھوٹ۔ تم نے ہسپتال کی وردی پہنی ہوئی ہے۔‘‘

    اس نے اپنے لباس کو دیکھا۔ ’’نہیں تو۔‘‘

    ’’ہاہاہا۔‘‘

    وہ ہنستے ہنستے اس کے سامنے اسٹول پر بیٹھ گیا،

    ’’تم مجھے جھٹلا نہیں سکتے۔ لمبی دھاریوں والا کرتہ پاجامہ۔ ہسپتال میں داخل ہر مریض کو یہ کپڑے پہننے پڑتے ہیں۔‘‘

    دھاریوں والا کرتہ پاجامہ نہیں یہ دھاریاں کہاں ہیں یہ تو سلاخیں ہیں اور میں قید میں ہوں

    ’’یہ لباس تو میں شروع سے پہنے ہوئے ہوں۔‘‘

    ’’لباس تو یہی ہوتا ہے۔‘‘

    توسلاخیں یہاں آکر ظاہر ہوتی ہوں گی یہیں آکے میں آزاد ہوا تھا یا قید ہوا تھا؟ یہاں آنے سے پیشتر کوئی آزاد ہوتا ہے نہ قید اور یہ زنداں ہے؟

    ’’نہیں، میرا مطلب ہے ازل سے۔‘‘

    ’’پتا نہیں کیا کہہ رہے ہو۔ بہرحال تم یہ بتاؤ کہ تم وہاں سے بھاگے کیوں؟‘‘

    ’’کیوں بھاگا؟ کیوں بھاگا! ہوں۔ بڑی سیدھی سی بات ہے۔ میں وہاں رہنا نہیں چاہتا ہوں گا۔‘‘

    ’’تو پھر یہاں کیوں آئے؟‘‘

    ’’کیوں۔ ہاں۔ میں یہاں کیوں آیا؟ محض اتفاق سمجھ لو۔‘‘

    اس نے اپنے کندھے جھٹکائے۔ ایک آنکھ والا اسے بڑی دلچسپی سے دیکھتا مسکرا رہا تھا۔ اب اس کی آنکھ میں اتنی نرمی سی تھی کہ اسے پوچھنے کی جرأت ہو گئی،

    ’’تم کون ہو؟‘‘

    ’’میں کون ہوں؟‘‘

    ہال میں ہنسی کی بازگشت۔

    ’’مجھے کیا پتا؟‘‘

    پھڑپھڑ پھڑک، غٹروں غٹروں۔

    یہ یہ مجھے یہ مجھے جانتا ہے اس کی بول چال کے انداز سے تو یہی معلوم ہوتا ہے جیسے اسے سب پتا ہو یہ مجھے بھی بتا سکتا ہے کہ میں کون ہوں کاش میں بتا سکتا کہ میں کون ہوں میں بکھرے ہوئے لمحوں کو کیسے جمع کروں وہ تو راکھ ہو کر ہواؤں میں بکھر گئے یہ مجھ سے کہے جارہا ہے کہ میں ہسپتال سے آیا ہوں لیکن مجھے اچھی طرح پتا ہے کہ میں کہیں سے آیا ہوں نہ کہیں گیا ہوں میں تو یہیں تھا اور یہیں ہوں اگر میں کوئی تھا تو ہو سکتا ہے اسے علم ہو، ہوگا ہونا چاہیے اسے بعض ایسی باتوں کے بارے میں علم ہے جو

    اس نے اٹھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کو کندھوں سے تھام کر اپنی طرف متوجہ کرکے التجا کرنا چاہی لیکن جیسے اس کے کندھے تھے ہی نہیں۔ وہ اسٹول پر جیسے پھر بٹھا دیا گیا اور اس کے ہاتھ اس کی گود میں لوٹ آئے۔ تنہا آنکھ اس کی آنکھوں کو نگلنے لگی۔ اسے کپکپی آ گئی۔ اس نے اپنی نگاہیں ہٹاکر یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ وہ میز کے ساتھ لگ کر اپنے ہاتھ سے کیا کر رہا ہے لیکن اس کی آنکھ میں مقناطیس تھا۔ ایک آنکھ والے نے پلاسٹک کی چادر سے جھانکتا سوکھا ہوا ہاتھ ڈھانپا،

    ’’ہوں۔۔۔ تو؟‘‘

    ہوں تو کیا یہ مجھ ہی سے سوال کیے جا رہا ہے میں بھی تو اس سے پوچھوں یہ کون ہے یہ جگہ کون سی ہے اور پلاسٹک کے نیچے کون لوگ بیہوش پڑے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک نے بھی کروٹ تک نہیں بدلی میں اس سے پوچھوں؟ پوچھوں؟ میں نے اس سے ایک سوال پہلے بھی پوچھا تھا لیکن جواب؟ اور اب اگر اتنے ڈھیر سارے سوال نہیں پہلے یہ پوچھوں کہ یہ لوگ ارے کہیں یہ لوگ

    عجیب و غریب قسم کا خیال آتے ہی جانے اس کا دل اتنے زور سے کیوں دھڑکنے لگا کہ ہال میں گونج اٹھا۔ اس گونج کے لاتعداد آبشار اس کے دماغ میں گرنے لگے۔ اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے، یہ شور۔۔۔ یہ شور، یہاں تو اتنی خاموشی تھی! اس کی آنکھیں ابھرآئیں، پتلیاں پھیل گئیں۔ ساری روشنی پسینے میں ڈوبے شیشوں پر بکھر گئی، یہ شور۔۔۔ میں اندھا ہو گیا ہوں۔ وہ چیخا،

    ’’تم کہاں ہو؟‘‘

    ’’تمہارے پاس۔۔۔ کیوں؟ کیا ہوا؟‘‘

    ’’مجھے۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔ آیندہ کبھی ایسا خیال اپنے دماغ میں نہیں آنے دوں گا۔‘‘

    ’’کیسا خیال؟‘‘

    ایک آنکھ والے نے آنکھ جھکاکر ابھری ہوئی پلاسٹک کی چادر پر انگلیاں پھیریں۔

    ’’تمہیں نہیں پتا؟‘‘

    وہ حیران رہ گیا۔ آبشار کانوں میں خشک اور اس کی آنکھوں کے شیشے بالکل صاف ہو گئے۔

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’نہیں۔ تمہیں علم ہے۔ تم خواہ مخواہ بن رہے ہو۔ ابھی میرے ذہن میں ایک خیال آیا تھا۔‘‘

    ’’عجیب، پاگل آدمی ہو۔ میں تو الف بے نہیں پڑھا ہوا۔ خیال کیسے پڑھ سکتا ہوں۔‘‘

    میں یونہی ڈر گیا تھا، اس کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے، نہیں یہ جھوٹ بکتا ہے۔ یہ اگر واقعی لاعلم ہے تو اس کی گفتگو کے انداز میں تمسخر کیوں ہے شاید میرا وہم ہو

    ’’تم جاؤ مسٹر، جو کوئی بھی ہو، اپنی راہ لو۔ میرے کام میں حرج ہو رہا ہے۔‘‘ اس نے پلاسٹک کی چادر پر آنکھ گاڑتے ہوئے کہا۔

    ’’تم کون ہو؟‘‘

    بڑے آرام سے یہ سوال اس کی زبان سے پھسل گیا اور وہ اپنی جرأت پر حیران رہ گیا۔

    ’’میں؟‘‘

    اس کی آنکھ بڑی تیزی کے ساتھ پلاسٹک کی چادر سے نکل کر اس کی آنکھوں میں پیوست ہو گئی۔ اس کے پیٹ میں جیسے خلا پھیلنے لگا، میں نے یہ کیوں پوچھا۔ خلااس کے پیٹ سے رینگتا حلق میں آکے اٹک گیا، مجھے متلی کیوں ہونے لگی ہے یہ عجیب سایہ ہے کہ روشنی میں بھی سینے کو چاٹتا ہے اور اندھیرے میں بھی حلق کو ڈستا ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ کو گلے میں تھام کر خشکی کو نگلا، آنکھ اس کی آنکھوں میں پگھل گئی، مسکرا دی،

    ’’میں یہاں صفائی وغیرہ کرتا ہوں۔‘‘

    ’’صفائی وغیرہ؟‘‘

    ’’خاکروب، چوہڑا، بھنگی جو جی میں آئے کہہ لو، بعض لوگ مجھے سویپر کہتے ہیں۔‘‘

    تو یہ سویپر ہے یہاں کا۔ میں اس سے خواہ مخواہ خائف ہو رہا ہوں ہنہ

    اس نے بڑے اعتماد سے کہا،

    ’’میں تمہیں سائیکلوپس سمجھا تھا۔‘‘

    ’’وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’وہ ایک آدم خور، کافر قسم کاجن تھا جس کے ماتھے میں ایک آنکھ تھی اور۔۔۔‘‘

    ’’میں وہ نہیں ہوں۔‘‘

    اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ نہیں جاتی تھی۔

    ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    ’’جو نام مرضی آئے دے دو۔‘‘

    ’’ناموں سے مجھے بھی دلچسپی نہیں اس لیے مجھے خود بھی اپنے نام کا پتا نہیں۔ یہ جگہ کیا ہے؟‘‘

    ’’میڈیکل کالج کا اناٹومی ہال۔ یہاں مردوں کی چیرپھاڑ سے علم حاصل کیا جاتا ہے۔ اس سامنے والے دروازے کے ساتھ مردہ خانہ ہے۔ یہاں پر وہ لاشیں رکھی جاتی ہیں جن کا پوسٹ مارٹم ہوتا ہے۔ یہ مردے ڈائی سیکشن ہال میں نہیں آتے۔ لاوارث لاشوں کے لیے سردخانہ الگ ہے یہاں کی سپلائی وہیں سے ہوتی ہے۔ اب تم جاؤ مجھے بہت کام کرنا ہے۔‘‘

    ’’کیا کام کرنا ہے؟‘‘

    ’’صفائی۔‘‘

    ’’ہوں! یہ بڑی دلچسپ جگہ ہے۔‘‘

    ’’ہاں۔ مگر یہاں آنے سے لوگ ڈرتے ہیں۔‘‘

    ’’بے وقوف ہیں۔ تم ہر وقت مسکراتے رہتے ہو۔‘‘

    ’’سب کو مجھ سے یہی شکایت ہے۔‘‘

    ’’دس بجے ہیں، تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘

    اس کی واحد آنکھ میں ایک مرتبہ پھر بجلی کوندی اور اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس نے تھوک نگلا، نہیں نہیں میں اپنی بات واپس لیتا ہوں۔ خاکروب کاہاتھ بڑی تیزی میں میز سے اٹھا اور راستے میں پھر مٹھی بن کے میز پر جا پڑا، غائب مسکراہٹ پھر لوٹ آئی۔

    ’’معلوم ہوتا ہے تمہیں الٹی سیدھی باتیں کرنے کی عادت ہے۔ میں دن رات یہیں رہتا ہوں۔ جب اسٹوڈنٹ ڈائی سیکشن کرکے چلے جاتے ہیں تو میں چاکوں کو فارملین سے صاف کرتا ہوں تاکہ کیڑے نہ پڑ جائیں۔ پوسٹ مارٹم میں نکلے اعضاء کو فارملین کے مرتبانوں میں اور اس علاقے کو ہر قسم کی گندگی اور بدبو سے پاک رکھتا ہوں۔‘‘

    سوں سوں، اس نے اپنی انگلی سے ناک کو ملا۔

    ’’ہاں سنا ہے یہاں سے بو آتی ہے۔ بو کیا ہوتی ہے، مجھے تو نہیں آتی۔ اب تم جاؤ۔‘‘

    میرا یہاں سے جانے کو جی نہیں چاہتا۔

    اس نے ایک بار پھر ہال کا جائزہ لیا۔ ایک کونے میں سجی الماریوں میں بہت سے شیشے کے مرتبان پڑے تھے،

    ’’یہ کیا ہے؟‘‘

    وہ اس کا جواب سنے بغیر اٹھ کر ایک الماری کے سامنے جاپہنچا۔ دل، گردے، جگر، دماغ، پھیپھڑے، جسم کے کٹے ہوئے اعضاء اور بچے، اسقاط شدہ اور نوزائیدہ بھی مرتبان میں پڑی فارملین میں جیسے نہا رہے تھے، مکمل نامکمل ننھے منے، پیاری سی ادھ کھلی آنکھیں، بازو اور ٹانگیں پیٹ کے ساتھ جوڑے، ٹھوڑی کو سینے سے لگائے۔ حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔ اس نے دھیرے دھیرے اپنا ہاتھ بڑھایا اور شیلف پر رکھے مرتبانوں میں سے ایک کو اپنی طرف کھسکایا۔

    ’’اونہوں۔‘‘

    اس نے گھوم کر دیکھا، خاکروب اس کے بالکل قریب کھڑا تھا۔

    ’’نہیں۔ اسے مت چھیڑو۔ مرتبان گرکے ٹوٹ گیا تو یہ جگہ خالی ہو جائےگی۔‘‘ اس نے اپنی آنکھ کے مقناطیس کو اس کے اور قریب کرتے ہوئے اشارہ کیا۔ ’’آؤ، ادھر کو آجاؤ۔‘‘

    اس کا سارا خوشگوار سا ہیجان اس کی آنکھ میں کھو گیا اور وہ منہ لٹکائے اس کے پیچھے پیچھے اس میز کے پاس آ گیا جہاں وہ پہلے بیٹھے تھے۔

    ’’مجھے کودلچسپی نہیں کہ تم کون ہو، کیوں آئے ہو اور ایسی ہی بکواسیات۔ اب تم مہربانی کرو اور چلے جاؤ۔‘‘

    ’’کہاں جاؤں؟‘‘

    ’’جہنم میں جاؤ۔ جہاں مرضی ہے جاؤ لیکن یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘ اس نے بڑی بے صبری سے اس میز کو دیکھتے ہوئے کہا، جس کے ساتھ وہ بیٹھے تھے

    ’’میں نہیں جاؤں گا۔‘‘ اس نے بچوں کی طرح ضد کی۔ ’’مجھے یہاں بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘

    ’’اوہ ہ ہ۔ تم کیا شے ہو؟‘‘ وہ بالکل اکتا گیا تھا۔

    ’’میں؟‘‘

    میں؟ اس نے پتھریلی میزوں پر پلاسٹک کی چادروں کے نیچے محو خواب لوگوں کی طرف دیکھا۔ اس کا ہاتھ آہستہ آہستہ اٹھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا، یہ میرا ہاتھ ہے جسے میں دیکھ رہا ہوں۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو ٹٹولا، یہ میرا جسم ہے یہ میں ہوں اور سب کچھ دیکھ رہا ہوں اس لیے کہ میں ہوں کسی طرح میں بھی یہ ملائم چادر اوڑھ کر پتھر کی نرم نرم سطح پر نہیں ہوسکتا میں بہت تھک گیا ہوں

    ’’میں بھی یہاں سونا چاہتا ہوں۔‘‘

    پلاسٹک کی چادر ملائم؟ اور پتھر کی طرح نرم؟ وہ دل ہی میں مسکرایا۔

    ’’تمہیں یہاں ڈر نہیں لگتا؟‘‘

    ’’نہیں۔ جب میری یہاں آنکھ کھلی تھی تو لگا تھا ڈر، اب نہیں اور تمہیں؟ نہیں ڈر لگتا؟‘‘

    تب خاکروب نے پہلی مرتبہ اسے چھوا۔ جانے کیوں اس نے بڑی شفقت کے ساتھ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا،

    ’’تم نہیں جانا چاہتے تو نہ جاؤ۔ جلد ہی اکتا جاؤگے۔ جو چاہو کرو لیکن میرے کام میں دخل اندازی نہ کرنا۔‘‘

    اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ خاکروب کا شکریہ کیسے ادا کرے، چلو شکر ہے اتنا تو مانا اگر میں نے اور اصرار کیا تو یہ مجھے کسی میز پر سلا بھی دےگا۔

    ’’اچھا۔ میں تمہیں ڈسٹرب نہیں کروں گا۔‘‘

    وہ اس کے کندھے سے ہاتھ ہٹاکر آگے بڑھ گیا۔ خاکروب کا ہاتھ ہٹتے ہی اس کے جسم میں عجیب انجانی سی لہر دوڑ گئی، میرے لہو میں یہ کنکری سی کہاں سے آ گری کہ سر سے پیر تک لرز گیا ہوں۔ اس نے خاکروب کی طرف دیکھا، وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا تھا ہاتھ میں کٹا ہوا سوکھا سا بازو پکڑے اس پر سے جلد کھرچ رہا تھا۔ قریب ہی جسم کے دوسرے پرزے بھی پڑے تھے۔ اس نے اپنا کندھا سہلایا،

    یہ مجھے کیا کر گیا ہے اس نے اپنا کندھا سہلایا جس میں بہتے خون پر کنکریوں کی بارش پھر چھینٹے اڑے اور گرداب میں پھیل گئے اب یہ گرداب مجھے سمیٹ کر اس کی طرف کیوں لے جا رہے ہیں اب میں اس کے پاس کیوں بیٹھ گیا ہوں اور کیوں میرا خون جہاں کنکری گرتی ہے وہیں ایک خلا ابھرتا ہے اور اس کے گرد چھینٹے یہ میرے اندر کیا ہو رہا ہے اور یہ چھینٹے میرے ذہن کی دھندکو چاٹ کر گرداب کی نذر کر رہے ہیں تم نے میرے کندھے پر پہلے کیوں ہاتھ نہیں رکھا سنو سنو دیکھو سائیکلو پس میں کیا ہوں کون ہوں خاکروب اور یہاں کیوں آیا ہوں سب کچھ چھٹ گیا اور میری آنکھوں نے جب بھی دیکھا تھا اور جس طرف بھی دیکھا تھا دھندلے شیشے کی ایک بہت اونچی دیوار دور تک چلی گئی تھی اس کے پار کچھ نظر نہیں آتا تھا میں اپنے لاغر ہاتھوں سے دیوار میں اس دروازے کو ٹٹولتا رہا جو وہاں نہیں تھا میری آنکھیں دیوار میں عکس کی تلاش میں تھیں لیکن شیشہ اندھا تھا میں نے دیواروں کو اپنی آنکھوں کا نور پلایا اور دیواروں کی خشک کانٹے دار زبانیں میرے جسم پر رینگنے لگیں اور میں بھاگنے لگا ایک دیوار کا خاتمہ دوسری دیوار کا آغاز بھول بھلیاں سی زبانیں میرے چاروں جانب دروازہ کہاں ہے میں اس بھول بھلیاں سے نکلنا چاہتا ہوں سینٹور مجھے نوالہ بنالیں گے رسی کا دوسرا سرا کہاں رسی کہاں ہے یہ زبانیں یہ سینٹور بولتے کیوں نہیں آواز کہاں گئی اتنی چپ کہ خاموشی بھی گنگ، یہاں بھی چپ میں اپنا سر ہاتھوں میں جکڑ کے پوری قوت سے چیختا ہوں لیکن میری آواز؟

    میرے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا میرے پٹھے اکڑ گئے اور میرے پیٹ میں ازلی غار ازلی متلی مجھے قے کیوں نہیں ہوتی کہ اس کرب سے نجات ہو میں نے اپنے حلق میں انگلی ڈالنا چاہی لیکن انگلی میرے منہ ہی میں رک گئی میرے بند کانوں میں دور کہیں سے گھنٹی کا رس ٹپکا ٹن ٹن ٹن آواز آواز میں تنہا نہیں ہوں اور میں ہوں موجود میں نے آواز سنی ہے آواز قریب آتی گئی اور میں نے اپنی بے نور آنکھوں سے ایک مضبوط مردانہ ہاتھ کو اس چھوٹی سی گھنٹی کو ہلاتے دیکھا میں نے تعظیم میں گھٹنے اور ہاتھ ٹیک دیے اور اپنے محسن کے پیر چاٹنے لگا یہ میری رسی ہے یہ مجھے اس لیبر نتھ سے نکال لےگا پیر چاٹتے چاٹتے میری زبان اتنی لمبی ہو گئی کہ میری سمجھ میں نہ آیا کہ اپنی زبان کو منہ میں کیسے ڈالوں گا پیر میرے آگے آگے چلنے لگے اور میں جیسے رسی سے بندھا ان کے پیچھے دیواریں ختم ہونے میں نہیں آتی تھیں اور دروازہ تھا کہ نہیں تھا

    میرے محسن نے گھنٹی میز پر رکھ دی اور مجھے گود میں بٹھاکر پچکارتے ہوئے میرے دانتوں میں گوشت کا ٹکڑا پکڑا دیا۔ مجھے پتا چلا کہ اس کا نام پاولوف ہے اور میرا نام پاولوف کا کتا۔ وہ گھنٹی بجاتا تو میرے منہ سے رال ٹپکنے لگتی جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتا اور مجھے کھانے کو بہت کچھ دیتا جب بھی گھنٹی بجتی مجھے بھوک لگ جاتی اور وہ میرے منہ کے ذریعے سے ربڑ کی نالی ڈال کر میرے پیٹ سے کچھ نکالتا پھر میری بھوک مٹ جاتی میرے سامنے دھندلے شیشوں کی دیورایں ناچنے لگتیں متلی ہوتی اور میں پیٹ تھام کر ان دیواروں سے سر ٹکراتا گھنٹی کی آواز شیشے کی دیوار تھی پاولوف ہر وقت بیٹھا ایک موٹے سے رجسٹر پر تاش کے پتوں کے گھر بناتا رہتا جب وہ آخری پتہ رکھتا تو ساری عمارت گر جاتی اور وہ پھر گھر بنانے لگتا میں اسے اس مشغلے میں منہمک دیکھ کر شیشے کی بستی کی گلیوں میں گھومنے لگتا اور سوچتا کہ میں کتا نہیں ہوں کیونکہ میرے ماں باپ نے مجھے انسان جنا تھا پھر بھی مجھے کسی چیز سے دلچسپی نہیں تھی میرے والدین بڑے پریشان رہتے تھے کہ میں کتابیں چاٹتا چاٹتا فقرے کا اختتامیہ نقطہ بن جاؤں گا میں اپنے والدین کے اس خوف سے بڑا محظوظ ہوتا تھا اور ان کی عقل پر حیران بھی جو بالکل اوسط درجے کی تھی۔

    جملے کا اختتامیہ نقطہ کتنی زبردست بات انہوں نے کس سادگی سے کہہ دی تھی میں خوش تھا کہ میں عنقریب جملے کا اختتامیہ بننے والا ہوں ہاتھ میں پکڑا ہوا قلم کاغذ کی سطح پر دھیرے دھیرے سر کے گا۔ ٹک اور ختم قلم کی نوک کاغذ میں چبھنے ہی والی تھی کہ میرے والدین کو بڑی اچھی ترکیب سوجھی انہوں نے میری تمام کتابیں جلادیں اور مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے سب کی طرح زندہ رہنے کی کوشش نہ کی تو وہ مجھے گھر سے نکال دیں گے گھر سے نکل کر زندہ کیسے رہوں گا یہ کسی کا مسئلہ نہیں تھا مجھے صدمہ یہ تھا کہ میں اپنی کتابوں ہی کے ساتھ کیوں نہ جل مرا۔ نقطہ کیوں نہ بنا، میں ہر وقت کتابوں کی راکھ کے پاس بیٹھا چٹکی چٹکی راکھ اپنے سر میں ملتا رہا زخموں پر لگاتا رہا سب کے لیے مطعون کہ کچھ کرتا ہے نہ کراتا ہے چوبیس گھنٹے راکھ پھانکتا ہے میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس سے بہتر اور کام کیا ہو سکتا ہے پھر محلے کی عقل مند بوڑھیوں نے میری ماں کو مشورہ دیا کہ میرا بہترین علاج شادی ہے میری ماں کی سمجھ میں میری بیماری اور اس کا علاج آ گیا اگر یہ سب کچھ اسی کا قصور تھا تو پھر تو پھر

    فل اسٹاپ؟

    جملے کا آغاز ہی نہیں ہونا چاہیے تاکہ نقطہ بنانے بننے کی کشمکش ہی نہ کرنی پڑے لیکن اس جملے کا نقطہ کہاں ہے میں یہ فل ا سٹاپ ڈھونڈ لوں پھر تم جو جی میں آئے کر لینا میں اس نقطے کی تلاش میں گھر سے بھاگ کھڑا ہوا اور شیشے کی دیواروں سے بنی بھول بھلیاں میں گھر گیا لیبر نتھ پیاز تھا اور پیاز کے چھلکوں کے اندر اور چھلکے تھے جب میرے ہاتھوں میں پیاز چھوٹا ہوتا چلا گیا تو میں بہت گھبرایا پاولوف بھی مجھے نقطہ ڈھونڈ کے نہ دے سکا اگر میرے والدین کو پتا چلتا تو بہت خوش ہوتے کہ چلو بیٹا کھانا تو کھا رہا ہے بھوکا تو نہیں مر رہا ایک روز جب پیاز کے گرد چھلکوں کے اندر چند ایک دائرے ہی رہ گئے تو میں تذبذب میں پھنس گیا کہ آگے بڑھوں یا نہ بڑھوں اس کے ساتھ ہی مجھے متلی سی ہونے لگی پاولوف مجھ سے بہت خفا تھا کیونکہ وہ پتوں کے بنتے گرتے گھروں سے بہت اکتا گیا تھا میں نے اس سے کہا بھی کہ ڈاکٹر اس میں میرا کوئی قصور نہیں بلکہ مجھے ہر وقت متلی ہوتی رہتی ہے اس نے مسکراکے اپنی لمبی الجھی ہوئی داڑھی میں کھجلی کی مسکرایا اور مجھے بےہوش کر دیا جب میں ہوش میں آیا تو میرا پیٹ میرے سامنے پڑا تھا پروفیسر پاولوف گھنٹی بجا رہا تھا اور میری کھانے کی کٹی نالی سے سیال مادہ ٹپک رہا تھا رہ پھر رجسٹر پر تاش کی عمارت کھڑی کرنے لگا تو میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے پیاز کو دیکھا لیکن میرے ہاتھ میں کچھ تھا ہی نہیں نقطہ بھی نہیں فرش پر پیاز کے چھلکے گرے پڑے تھے اور میری آنکھوں میں آنسو میں اسی وقت پاولوف کے گھر سے بھاگ آیا نقطے کی تلاش میں بھاگنے لگا بھاگتا رہا اپنے پیٹ کے خلا کو تھامے پسینہ پسینہ آنکھوں میں پانی اور حیرت ہے جہاں جہاں یہ قطرے گرے وہیں وہیں دیواریں اگنے لگیں جہاں جہاں میرا قدم پڑا وہیں دیوار اگی رات رات تھی نہ دن دن روشنی اور تاریکی کا تضاد میرے پیٹ میں پاولوف کے گھر رہ گیا تھا اور میں ایک عجیب ملگجے رنگ میں گل رہا تھا دھندلے شیشوں کی اگتی دیواریں آسمان سے جاملی تھیں اور چپ تھیں چاروں اور پھر میں دروازے کی تلاش میں سر ٹکرانے لگا دروازہ کہ جو وہاں تھا اور نہیں تھا اور پھر جانے کیا ہوا میری آنکھیں رفتہ رفتہ بند ہونے لگیں میں نے مایوسی میں بے اختیار ہوکر اپنا سر کہیں ٹکرایا ہوگا مجھے اتنا یاد ہے کہ ایک نہیں بلکہ کئی ٹکڑے میری طرف بڑھ رہے تھے اور میں بہت خوش تھا بہت ہی خوش کہ پیاز کے مرکز میں مایوسی نہیں بلکہ نقطوں کی ماں ہے اس لیے کہ وہ نہیں ہے اور جو نہیں ہے وہ ہو سکتا ہے کہ ہو کہ اس کے نہ ہونے کا اعلان دراصل اس کے ہونے کا اثبات ہے رنگ محل جس کا کوئی رنگ نہیں گہرائی اتھاہ جس کی کوئی گہرائی نہیں کوکھ جس کی کوئی کوکھ نہیں میں جس کا کوئی میں نہیں میں نہیں کو پا رہا تھا نہیں کہ جو نقطہ تھا نہیں تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے نقطے میں یہ شوشا سا کیا نکل آیا تھا کو ماسا کو ماجو ہوش میں بے ہوشی کی اور بے ہوشی میں ہوش کی ایک کیفیت بھی ہوتی ہے اس کیفیت میں وہ ملگجا سا رنگ چھٹ گیا میں نے حیران ہوکر دیکھا نرسیں ڈاکٹر شیشے دیواریں روشنی تم نے مجھے روشنی کیوں دی تاریکی کیوں دی تھی۔

    دیوانہ

    میں بہت خوش تھا بہت خوش لیکن تم نے مجھے کوکھ سے چھین لیا پاولوف کے کتے ڈاکٹر

    پاگل

    میرے جسم پر سلاخیں تھیں مجھے زندگی میں پہلی بار اپنا لباس نظر آیا میں شروع ہی سے قید تھا یا ان کم بختوں نے مجھے اس میں ڈالا ہے؟ وقت جو کہ گزرا نہیں تھا گزرنے کا لمحہ جو کہ بے جان تھا میری گردن کو اپنے دانتوں میں چبانے لگا اور میں بہت ہی کرب

    امید ہے بچ جائےگا

    کیوں نہیں کیوں نہیں تم نے مجھ سے نقطہ چھین کر یہ لفظ مجھے دے دیا ہے اور اب میں پورے جملے ہی کی تلاش میں وہاں سے نکل آیا ہوں تم سچ کہتے ہو میں ہسپتال سے بھاگ آیا ہوں میں بہت اکتا گیا ہوں تم یوں کرو کہ مجھے اس پتھر کی سل والی میز پر ڈال کر پلاسٹک کی چادر اوڑھا دو تاکہ میرا عذاب تو ختم ہو دیکھو اس سل پر کوئی نہیں۔

    ہوں؟

    اس نے فرش پر پڑی ہڈیوں اور گوشت کے ریشوں سے اپنی نگاہیں چھڑا کر دیکھا، وہ وہاں نہیں تھا۔ اس نے سر گھماکر دیکھا، وہ اسی پہلی یا آخری میز کے کنارے کے پاس اسٹول پر بیٹھا پلاسٹک کی چادر سے نکلا ہاتھ پکڑے جانے کیا کر رہا تھا، یہ بار بار اس میز کے پاس کیوں چلا جاتا ہے، وہ اٹھ کر خاکروب کے پاس آیا۔ اس نے وہ سوکھا ہوا ہاتھ فوراً چادر تلے کر دیا اور اسٹول سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔

    ’’تم وہاں سے کیوں چلے آئے؟‘‘

    ’’مجھے تمہاری باتوں میں دلچسپی نہیں رہی تھی۔‘‘

    ’’ہر لمحہ کہ جو تھا نہیں رہتا تھا اس لیے مجھے خود پتا نہیں تھا کہ میں کون ہوں کیوں کیا ہوں۔ اب اتنی مشکل سے لمحے کے دانتوں میں جان پڑی ہے تو تم۔۔۔‘‘ اب خاکروب اسے الووں کی طرح دیکھ رہا تھا۔ ’’ہا ہا۔۔۔ تم نہیں سمجھوگے۔ آخر تم سو یپر ہو۔‘‘

    خاکروب کے ہونٹ پھر اسی مسکراہٹ میں پھیل گئے۔ اس نے میزوں کی طرف اشارہ کیا،

    ’’تو تم بھی ان کی طرح۔۔۔‘‘

    ’’ہاں ہاں۔‘‘اس نے بےصبری سے کہا۔

    ’’وقت تو آ لینے دو۔‘‘

    ’’وقت آ گیا ہے۔‘‘

    ’’اچھا ادھر آؤ تمہیں ایک چیز دکھاؤں۔ نہ۔۔۔ نہ۔۔۔ اسے مت چھوؤ۔‘‘

    اس نے بڑے تلخ لہجے میں کہا اور اس نے اپنا ہاتھ فوراً چادر سے ہٹا لیا، یہ مجھے اس میز سے دور ہی رکھنا چاہتا ہے۔

    ’’پہلے مجھے یہ دکھاؤ۔‘‘اس نے میز کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’نہیں۔‘‘

    پہلی مرتبہ اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ مکمل طور پر غائب ہوئی تھی، میرا جی چاہتا ہے تمہیں شراب پلاکر بے ہوش کردوں اور تمہاری آنکھ پھوڑدوں

    ’’ادھر آؤ۔‘‘ اس نے ڈیوڑھی میں کھڑے ہوکر کہا۔ یہ ڈیوڑھی مردہ خانے میں کھلتی تھی۔

    وہ چپ چاپ کچھ کہے بغیر اسے کن اکھیوں سے دیکھتا اس کے ساتھ مردہ خانے میں آ گیا۔ اس سے پیشتر کہ خاکروب اس سے اس جگہ کے بارے میں کچھ کہتا، باہر کھلتی کھڑکی میں سایہ سا لپکا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے خاکروب کو دیکھا،

    ’’چوکیدار ہے۔‘‘

    اس نے ایک جھٹکے میں چادر ہٹا دی۔

    ’’دیکھو، اس نے بھی تمہاری طرح یوں سو جانے کی۔۔۔‘‘

    اس نے پھر کھڑکی سے باہر دیکھا، لمحہ بھر سوچ کر کہا،

    ’’چوکیدار کہیں دیکھ نہ لے۔ یہاں اس وقت خاص طور پر اجنبیوں کا آنامنع ہے اگر چوکیدار نے دیکھ لیا تو میری رپورٹ کر دےگا۔ تم یہاں رکو میں اسے ذرا دیکھ کر آؤں۔‘‘ اس نے جاتے جاتے مڑکر خبردار کیا، ’’یہاں سے ہلنا نہیں ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔‘‘

    خاکروب کے جانے کے بعد وہ لرزتا ہوا تختے کے پاس گیا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے لاش کو چھوا۔ جسم برف تھا، اکڑا ہوا۔ اس کے دانت جیسے کھلکھلاہٹ میں ٹوتھ پیسٹ کے اشتہار کی طرح باہر نکلے ہوئے تھے اور آنکھیں چھت میں گڑی تھیں۔ اس نے وہ سرد ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سرگوشی کی۔۔۔ ہیلو۔ تم بھی میری طرح تھے؟ تمہارے جسم پر کوئی زخم تو نہیں ہے۔ تم نے، تم نے زہر پیا ہوگا اور اطمینان سے تہ میں تہ بن گئے ہوگے۔ بس ٹھیک ہے، خاکروب چادر جلدی لاؤ اور مجھے مر مر کی میز۔۔۔

    خاکروب ابھی تک واپس نہیں آیا؟

    تو بس میں اب اس میز سے چادر اٹھاکر دیکھ سکتا ہوں میں ہال میں جاکر چادر کے نیچے ڈھنپے راز کو دریافت کروں گا اور شیلف سے مرتبان اٹھاکر اس میں سے بچہ نکال کر اسے بھی پیار کروں گا نہیں مجھ پر ہیجانی کیفیت طاری نہیں ہونی چاہیے اطمینان تسلی دھیرج لیکن یہ یہ ہاتھ میرا ہاتھ چھوڑ تا کیوں نہیں چھوڑو میرا ہاتھ بھئی میں نے کہہ تو دیا ہیلو میرا سانس میری آنکھیں جامد خلا

    اس کا دل بہت تیزی سے پھڑک کر چلنے لگا اس کی کانپتی نظریں لاش پر آکر رینگنے لگیں۔ اس کے جسم میں یک دم گرم رو دوڑ کر سرد ہوگئی اور رفتہ رفتہ برف اس کی انگلیوں میں سرایت کرنے لگی۔ اس کے جسم میں نیل چمکنے لگا۔ پٹھے تن گئے، پھر ڈھیلے پھر تناؤ، تڑپ تڑپ منہ میں جھاگ۔ زندگی بےجان تھی۔ نقطہ زہریلا، پھانسی مسلسل پھانسی، مسلسل عذاب۔ ڈھیلے باہر کو نکل کر مٹکنے لگے تھے۔ تناؤ، جھاگ، اذیت، تڑپ، نہیں میرا عذاب تو سر میں تھا اور یہ سارے بدن میں میرا ہاتھ برف ہو گیا ہے۔ چھوڑدو، بجلی کا کرنٹ۔ کرب میں اس کا چہرہ مسخ ہو گیا۔

    قہقہوں کی بازگشت۔ اس نے بوکھلاکر نظریں اٹھائیں، لاتعداد سانپ جھوم رہے تھے۔

    یہ یہ بازو ہمارے سینے سے لگاؤ دیکھو کتنا گرم ہے میں سرد ہوں اور زمین کے مرکز میں ابلتا سونا نہیں ہوں زمین میرے سینگ پر گھومتی ہے میرا سینگ درد سے چور چور ہو رہا ہے دوسرا سینگ ہے نہیں ورنہ بدلتا زلزلہ آ جاتا اور پھر میں نے لوگوں سے یہ تو کبھی نہیں کہا تھا کہ یوں ہونا چاہیے اور یوں ہوگا اور جب یوں نہ ہوا تو میں نے اس کے نہ ہونے کی وجہ میں کوئی دلیل نہیں دی میرا کیا قصور پھر کسی سر پھرے نے چھرا مار دیا زخم سے بہتا ہوا خون سانپ چوستے رہے ان کی لمبی لمبی زبانیں ڈنک خونخوار اپنے اپنے کام میں مصروف خارش مجھے شدید خارش ہوتی ہے کبھی نہ ختم ہونے والی خارش مڑا تڑا بھیانک چہرہ اذیت قبر کا عذاب نہیں نہیں ہاہا کتے لاش کو لیے گھسیٹتے پھرتے ہیں ہمارے سینے سے لگو نہیں یہ سانپ تو نہیں آگ کی لپٹیں ہیں ان لپٹوں میں ایک رانی سنگھار کیے کسی کے سرہانے بیٹھی ہے بچاؤ، بچاؤ۔

    لیکن آواز نہیں آتی بدن پر آبلے ابھر رہے ہیں پانی پانی بلکہ بدن بھی پورا ایک آبلہ بن گیا ہے عذاب میرے چہرے کو کیا ہو رہا ہے اگر میرا جسم اس سے زیادہ تنا تو پھوٹ بہےگا اور پھوٹ بہا ہے گرداب لہریں چاند کو چاٹتی سمندر کی لہریں آؤ ہمارے سینے میں اترو میں ڈوبتا کیوں نہیں اُف میرا سانس میں نیچے ہی نیچے کھینچ رہا ہوں مچھلیاں گوشت نوچتی ہیں لیکن گوشت کو شارک کے دانت بھی نہیں کاٹ پاتے اذیت اذیت میں بہت کرب میں متلی میرے سانس کی نالی پر آکے جم گئی ہے میرا علاج کرو میں نہیں میرا ہاتھ چھوڑ دو میں لاوارث میں ہسپتال کے ماتھے پر لگے گھڑیال میں دس بجے ہیں اب بھی دس ہی بجے ہیں کیا گھڑی خراب تو نہیں یا وقت رک گیا ہے میرا ہاتھ چھوڑ دو میں اس نیلی برف کو آگے نہیں بڑھنے دوں گا۔

    اس نے پاس پڑے پوسٹ مارٹم کے اوزاروں سے آری اٹھائی اور پاگلوں کی طرح وہ خشک ہاتھ کلائی سے کاٹنے لگا۔ نیلی برف کی کرچیاں تیز رفتاری سے اس کے بازو میں کھبنے لگیں۔ ہاتھ کٹ گیا اس ہاتھ جھٹک کر دوسرے ہاتھ سے وہ استخوانی ہاتھ اپنے ہاتھ سے اتار پھینکا۔ وہ اپنے دوسرے ہاتھ سے اپنے بازو میں کرچیوں کی شدید چبھن کو سنبھا لتا ہوا پہلی یا آخری میز کے پاس لڑکھڑاتا پہنچ گیا، گرنے لگا۔ اس نے اپنا بازو چھوڑ کر اس میز کا کنارہ تھام لیا پھر اسے اچانک یہ خیال آیا کہ یہ تو وہی میز ہے۔ اس نے ساری اذیت بھول کر ایک ہی جھٹکے میں پلاسٹک کی چادر اٹھا پھینکی۔ خون کی چبھتی کرچیاں بازو میں یک دم ٹھہر گئیں۔ روشن دانوں میں کبوتر پھڑپھڑائے غٹرغوں غٹر غوں۔

    اس کے بالوں میں چاندنی تھی۔ راکھ تھی، ہونٹ سوکھے، نیلے، دانتوں کے بغیر پوپلے منہ میں لکڑی زبان اور آنکھیں، یہ تو مجھے دیکھ رہی ہیں میری آنکھوں کو چیر کے میری کھوپڑی کے پار دیکھ رہی ہیں۔۔۔ جھریوں سے اٹا چہرہ، اس کی گردن میں کانٹوں کا کنٹھا تھا اور سرخ قطروں کا ہار۔ سارے جسم پر سلوٹیں تھیں لیکن پستانوں پر نہیں۔ وہ حیران ہوا حالانکہ چربی اور بڑھاپے کے واسطے سے پستانوں پر زیادہ جھریاں ہونا چاہئیں تھیں، خاکروب اس کے پاس بیٹھا کیا کر رہا تھا؟ وہ بار بار اس کے ہاتھ کو چھپاتا تھا۔۔۔

    ہاتھ

    اس نے فوراً اس بڑھیا کے ہاتھ کو دیکھا، اس کی ایک انگلی سے کرنیں پھوٹ رہی تھیں،

    ہیرا،

    ہیرے کی انگوٹھی،

    اس کے گرد انگلی پر خشک زخموں کے نشان تھے۔۔۔ تو وہ یہ انگوٹھی اتارنے کے چکر میں تھا کمال ہے یہ انگوٹھی پہلے کسی کو نظر کیوں نہیں آئی۔ ہو سکتا ہے سب نے اسے پیتل میں جڑا کانچ کا ٹکڑا سمجھ کر نظرانداز کر دیا ہو یہ یہ خاکروب یقیناً جو ہر شناس ہوگا خاکروب؟ جوہری؟ کیا پتا کیا کیا بھیس بدل کر کیا کچھ کرتے ہیں لوگ! چور ہے خاکروب اسے اپنے آپ پر کتنا اعتماد تھا گھبرایا بالکل نہیں کہیں وہ آنہ جائے یہ انگوٹھی یقیناً ہیرے ہی کی ہے جبھی تو وہ یوں مجھ سے اس نے انگوٹھی کو اپنے ہاتھوں کی قوت سے اتارنا چاہا لیکن انگوٹھی کو اتارنا اتنا آسان ہوتا تو خاکروب اب تک اسے لے کر غائب ہو گیا ہوتا اور انگلی پر کاٹ پیٹ کے نشان نہ ہوتے۔ تو اس نے انگلی کو کاٹ کیوں نہ دیا؟ کیسے کاٹتا کل کو پروفیسر اسٹوڈنٹ کی شکایت پر اس سے پوچھ گچھ نہ کرتا؟ اس نے چھچھلتی نظروں سے انگلی کاٹنے کا کوئی اوزار ڈھونڈا پھر لپک کر پوسٹ مارٹم روم سے آری اٹھاکر لے آیا اور چشم زدن میں انگلی کاٹ کر انگوٹھی اتار لی اور اس میں روشن کرنوں کو جیب میں ڈال لیا۔ پھر اس نے بھاگ کر ادھ کھلے دروازے سے باہر دیکھا، خاکروب دور کھڑا چوکیدار کی کسی بات پر ہنسا۔ وہ تیزی کے ساتھ پلٹ کر مرتبانوں والی الماریوں کی طرف لپکا۔ مرتبان اٹھا لیا اور پوری قوت سے ڈھکنا کھول کر اس میں سے بچہ نکال لیا۔ بچے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی جو رفتہ رفتہ اس کے اپنے ہونٹوں پر پھیل کر قہقہوں میں پھٹ گئی اس نے ہال میں لگے دیواری کلاک کو دیکھا۔۔۔ دس بجے ہیں؟ اس میں بھی؟ یہ بھی خراب ہے لیکن ٹک ٹک کی آواز تو آ رہی ہے ڈاکٹر چلا نہ گیا ہو پاگلوں کی طرح ہنستے ہوئے اس نے جانے کیوں وہ مسکراتا ہوا نوزائیدہ بچہ بوڑھی جھریوں سے منڈھی سوکھی رانوں کے عین درمیان میں رکھ دیا، جیب سے ہیرے کی انگوٹھی نکال کر مٹھی میں مضبوطی کے ساتھ تھام لی اور ہنستا ہوا ہال سے باہر آ گیا۔

    خاکروب، چوکیدار کے ساتھ غالباً مذاکرات کرکے پلٹ رہا تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہی باہر دیوار سے چپک گیا پھر اور بھی تاریکی میں ہوکر جوتے اتار کے دیوانہ وار ہسپتال کی طرف بھاگنے لگا۔

    لیکن سامنے ہی دیوار تھی، دھندلی، شیشے کی۔۔۔

    ہسپتال کہاں ہے اوہ ہاں یہ رہیں سامنے ہسپتال کی سیڑھیاں لیکن یہ سیڑھیاں اس شیشے کی دیوار پر کیوں چڑھ رہی ہیں اور وہ دور آخری سیڑھی پر ڈاکٹر میں، میں سیڑھیاں چڑھ کر تمہارے پاس آ رہا ہوں ڈاکٹر تم دور اور دور کیوں ہوئے جا رہے ہو میرے قریب آؤ اور یہ یہ ہیرا میری انگلی میں فٹ کر دو کسی جراحی کے عمل ہی سے سہی تاکہ یہ ہیرا مجھ سے کوئی چھین نہ سکے اور پھر یہ انگوٹھی مجھے پوری بھی تو نہیں اور یہ سیڑھیاں اوہ ہ ہ یہ سیڑھیاں ختم ہونے میں کیوں نہیں آتیں۔۔۔ تھک گیا ہوں میں ہانپنے لگا ہوں میں میں میں اس سے زیادہ تیز سانس نہیں لے سکتا لیکن میں میں رکوں گا نہیں میں چکرا رہا ہوں اور پیٹ کا خلا متلی میں نے اپنا معدہ پروفیسر پاولوف کے پاس گروی اور تم تم اتنے دور کھڑے ہو ڈاکٹر اور نیچے نوکیلے دو دھاری پتھر گڑے ہیں اور میں سیڑھیوں کے وسط میں ہوں چکراکر میں گر گیا تو متلی چکر متلی چکر میرے قدم لڑکھڑا لڑکھڑا رہے ہیں اور میں نہیں یں یں یں یں۔

    پھسل میں پھسل گیا ہوں اور گر رہا ہوں گر رہا ہوں نوکیلے دو دھاری پتھروں کی طرف تیزی سے تیزی سے۔۔۔ اوہ اذیت۔۔۔ نوکیلے پتھر میرے جسم میں کھب گئے ہیں دو دھاری نوکیں مجھے کاٹ رہی ہیں میرے گرد خلا سمٹ کر نقطہ بن رہا ہے اور انگوٹھی ہیرے کی انگوٹھی میری مٹھی سے پھسل کر چلنے لگی ہے اور میں نوکیلے پتھروں کی سولی پر چڑھا شیشے کی دیوار کے ہیروں میں پڑا ہوں میرے جسم سے نچڑتا خون بہہ کر انگوٹھی کے پیچھے دوڑ رہا ہے اپنی سرخی کے تعاقب میں ہیرے میں جھلکتا اور میں اس کی کرنوں کی روشنی میں شیشے کی دیوار کے اندر دروازہ دیکھ رہا ہوں جو کہ نہیں تھا اور اب ہیرے سے ابھر کے واضح ہوا ہے اور دروازہ پیچھے ہٹا جا رہا ہے اور انگوٹھی کا رخ دروازے کی اور ہے اور دروازہ اور پیچھے اور ہیرے کے پیچھے پیچھے میرا خون اور اور یک دم دروازے کے فریم میں خاکروب سائیکلو پس کا ہنستا ہوا چہرہ دمک کر پھیل گیا ہے ہیرے کی انگوٹھی کارخ مسلسل دروازے کی طرف ہے اور میرا خون ہیرے میں جھلکتا اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔

    بھاگ رہا ہے

    بھاگ رہا

    ہے

    بھاگ

    رہا

    ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے